اردو دنیا،اگست 2025
آزادی کے بعد اردو صحافت کا دبدبہ اور اثر پورے ملک کے
اعتبار سے دہلی کے علاوہ لکھنؤ، ممبئی، مدراس (موجودہ چنئی)، حیدرآباد، کلکتہ
اور پٹنہ خاص مراکز رہے۔ یہاں سے روزنامہ کے علاوہ ہفتہ وار، پندرہ روزہ، اخبارات
بڑے پیمانے پر جاری رہے۔ یہ اور بات ہے کہ بیسویں صدی کے اواخر میں ہفتہ وار اور
پندرہ روزہ اخبارات کے زوال کا وقت آگیا کیونکہ سرکاری اشتہارات پر پابندی کے
باعث بیشتر ہفتہ وار اور پندرہ روزہ اخبارات دم توڑ گئے، کیونکہ ان کی اشاعت
کادارومدار سرکاری اشتہار پر تھا۔ کچھ
ہفتہ وار اور پندرہ روزہ اخبارات جو اپنے دم خم پر چل رہے تھے۔
آزادی کے بعد پورے ملک کے حالات اور ماحول پرکسمپرسی کا
دور تھا۔ اس دور میں اردو صحافت کے سامنے بڑے چیلنج تھے۔ ایک طرف مسلمانوں کی ہجرت
کی روک تھام اور انھیں حوصلہ دینے کی کوشش۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے مشہور اردو صحافی
حلیم صابر لکھتے ہیں:
’’آزادی
کے بعد مسلمانوں پر ایسی گھڑی درپیش تھی جس سے ان کا حوصلہ پست ہو رہا تھا۔ کچھ
لوگ ہجرت پر کمربستہ تھے۔ جو لوگ اپنے وطن میں ہی عافیت ڈھونڈ رہے تھے، ایسے
کسمپرسی کے عالم میں مولانا آزاد، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی، ان کے ہمراہ
احمد سعید صاحب حالات کا جائزہ لے کر انھیں حوصلہ مندی کا درس دے رہے تھے۔ مولانا
عبدالرزاق ملیح آبادی کے بعد روزنامہ آزاد ہند کی ذمہ داری سعید صاحب کے دوش پر
آگئی۔ انھوں نے اپنے والدین کی نیابت کا فریضہ خوش اسلوبی سے ادا کیا۔‘‘
(بحوالہ:آبروئے صحافت، احمدسعید ملیح آبادی از حلیم
صابر، سہ ماہی جنگ نامہ، ہوڑہ، جنوری تا مارچ 2023)
صحافت بھی اردو زبان و ادب کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ ادب اور سیاست
کے درمیان پل کا کام کرتا ہے اور عوامی سطح پر باخبر کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔
اردو صحافت کی اہمیت اور ضرورت پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے مشہور ادیب و ناقد
ڈاکٹر الف انصاری رقمطرازہیں:
’’صحافت
ایک مقدس اور باوقار پیشہ ہے۔ سماج سے صحافت کا گہرا رشتہ ہے۔ کیونکہ یہ سماج کی
اصلاح اور قوم کی رہنمائی کرتی ہے۔ صحافت عوام و خواص میں سماجی، اخلاقی اور سیاسی
بیداری پیدا کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔ یہ دیانت اور حق گوئی کاحسین سنگم ہے۔‘‘
(بحوالہ:آسمان صحافت کا روشن ستارہ، احمدسعید ملیح
آبادی از ڈاکٹر الف انصاری، سہ ماہی جنگ نامہ، ہوڑہ، جنوری تا مارچ 2023)
احمد سعید ملیح آبادی کی پیدائش 1926 میں ملیح آباد کے ایک
پٹھان خاندانی عالم دین اور مشہور و معتبر صحافی مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کے
گھر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے بڑے چچا عبدالوحید خاں کی اہلیہ سے حاصل کی۔ جن سے
اردو، فارسی، عربی، ہندی اور انگریزی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مدرسہ اصلاح سرائے
سے حصول تعلیم کے بعد دارالمصنفین سے منسلک علماء سے کسب فیض کیا۔ پھر کلکتہ منتقل
ہو گئے جہاں ان کے والد بزرگوار مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کاقیام تھا۔ مولانا
عبدالرزاق ملیح آبادی بذات خود مشہور صحافی تھے۔
انھوںنے1929ء میں ہند اخبار جاری کیا تھا۔ اس کا نام بدلتا
رہا۔ الہند، ہند جدید، ہند روزنامہ وغیرہ۔ بالآخر 1947 میں آزاد ہند جاری کیا۔
اس وقت احمدسعید والد کی معاونت کرتے رہے۔ جب مولانا ابوالکلام آزاد، آزاد
ہندوستان کے مرکزی وزیر تعلیم ہوئے تو اپنے دیرینہ رفیق مولانا عبدالرزاق ملیح
آبادی کو ثقافت ہند کے ایڈیٹر کی حیثیت سے دہلی بلا لیا۔جس کے نتیجے میں آزاد
ہند کی پوری ذمہ داری احمد سعید ملیح آبادی پر آگئی۔ یہ سلسلہ 2010تک جاری رہا۔
کلکتہ میں ان کے ہمعصر صحافیوں میں سالک لکھنوی، رئیس الدین فریدی، سید منیر نیازی
اور محمد وسیم الحق وغیرہ قابل ذکر شخصیتیں موجود تھیں۔
اردو صحافی کو زبان و بیان پر قدرت و ندرت کے ساتھ اس کے
تمام رموز و نکات پر مہارت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصی طور پر دوسری زبان مثلاً
انگریزی زبان اور ترجمے پر دسترس اور صلاحیت وغیرہ۔ چنانچہ احمد سعید ملیح آبادی
کی ترجمہ نگاری کا ذکر کرتے ہوئے ظفر انورلکھتے ہیں:
’’نیوز
روم میں دیگر صحافیوں، سب ایڈیٹروں، مترجمین کے درمیان بیٹھنے اور اگر کام کا بوجھ
زیادہ ہو تو انتہائی بے تکلفی سے خبروں کے ترجمے بھی کرتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں
میں نفیس مضمون بیان کرنے کا ہنر کم لوگوں کو آتاہے جبکہ احمد سعید کے ترجمے یا
ان کی بنائی ہوئی خبریں بہت صاف ہوتی تھیں اور ایک نہج آسان اور سلیس زبان میں
خبر تیار ہوجاتی تھی۔‘‘
(بحوالہ: بہار و بنگال کے صحافی از ظفر
انور،مطبوعہ،2016،ص18)
احمد سعید ملیح آبادی میں یہ ساری خوبیاں موجود تھیں۔ یہی
وجہ ہے کہ ان کے اداریوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا۔ یہ ان کی اداریہ نویسی
کا فن تھا، جس کی وجہ سے اردو صحافت میں انھوں نے حددرجہ اعتبار اور احترام حاصل کیا۔
احمد سعید کی اداریہ نویسی کا ذکر کرتے ہوئے مشہور ادیب و صحافی معصوم مرادآبادی
رقم طراز ہیں:
’’احمدسعید
ملیح آبادی کو اپنے اداریوں کی ہی وجہ سے وہ مقام حاصل ہوا تھا جس کی بنا پر وہ
اپنے عہد کے سب سے قدآور صحافی کہلائے۔ اداریہ ہی دراصل اخبار کا ضمیر ہوتا ہے،
جو اشاعت کے بعد قوم کا ضمیر بن جاتا ہے۔سید صاحب کے اداریوں کی سب سے بڑی خوبی یہ
تھی کہ وہ کسی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیتے تھے۔ اپنی بات پورے اعتماد کے ساتھ تمام
خطرات کی پروا کیے بغیر لکھتے تھے اور اس پر آخر تک قائم بھی رہتے تھے۔‘‘
(بحوالہ:آہ، احمدسعید ملیح آبادی، اردو صحافت کے ایک
عہد کا خاتمہ، از معصوم مرادآبادی، سہ ماہی جنگ نامہ، ہوڑہ، جنوری تا مارچ 2013)
احمد سعید ملیح آبادی، ادیب و صحافی کے علاوہ ایک خوش فکر
مقرر بھی تھے۔ ادب، علم اور صحافت کے موضوعات پر روانی سے تقریر کیا کرتے۔ جسٹس
خواجہ محمد یوسف فرماتے ہیں:
’’میں
نے بڑے بڑے علمائے کرام اور دانشوروں کی تقریریں سنیں، مگر ایمان کی بات تو یہ ہے
کہ جو لطف و کشش احمد سعید کی زبان میں ہے۔ اس کا دوسروں کے یہاں فقدان ہے۔ان سے
اچھے بولنے والے ضرور موجود ہیں مگر جس شخص کے بول دل تک پہنچ جائیں، کامیابی اس کی
ہے۔‘‘
(بحوالہ: احمدسعید ملیح آبادی، صحافی کم وکیل زیادہ
تھے از جسٹس خواجہ محمد یوسف، سہ ماہی جنگ نامہ، ہوڑہ، جنوری تا مارچ 2023)
آزاد ہند کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہاں کے تربیت یافتہ
متعدد صحافی ہندوستان کی اردو صحافت میں اپنی روایتوں کے ساتھ ہر طرح سے سماج کی
خدمت کرتے رہے۔ ان لوگوں میں ایم۔اے عالمگیر، ریحانہ فریدی، سلطانہ شاہد، سجاد
نظر، منصور فریدی، جاوید نہال، اشہر ہاشمی، رضوان اللہ اور اقبال کرشن کے اسمائے
گرامی قابل ذکر ہیں۔
بلاشبہ احمد سعید ملیح آبادی ملک کے لیے ان معتبر اور
ممتاز و مشہور صحافیوں میں سے ایک تھے جنھیں اہل علم حضرات اور ہندوستانی سماج بڑی
عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور صحافتی برادری انھیں ایک مربی کی حیثیت
سے پہچانتی تھی۔ اردو صحافت کے علاوہ انگریزی اور دوسری زبانوں کے صحافی بھی ان کے
ساتھ بڑی عزت سے پیش آتے تھے۔ ان کی صلاحیتوں کے بارے میں مشہور انگریزی صحافی
خشونت سنگھ نے بھی ان کی صحافت کا لوہا مانا تھا۔ بقول ڈاکٹر محمد منصور عالم:
’’آزاد
ہند اخبار کو احمد سعید ملیح آبادی نے ترقی کے جس معراج پر پہنچا دیا تھا اس کا
جواب نہیں ملتا۔ ان کے لکھے ہوئے اداریوں نے ہندوستان کے تمام صحافیوں سے خراج تحسین
حاصل کیے۔ خشونت سنگھ نے تو ایک بار ان کے اداریوں کے حوالے سے یہاں تک کہہ دیا
تھا کہ سعید صاحب نے تمام صحافیوں کو اداریہ لکھنا سکھایا ہے۔‘‘
(بحوالہ:احمدسعید
ملیح آبادی کے ساتھ ایک دور، ایک روایت اور ایک تہذیب کا خاتمہ از ڈاکٹر محمد
منصور عالم، سہ ماہی جنگ نامہ، ہوڑہ، جنوری تا مارچ 2023)
احمد سعید ملیح آبادی کو اردو ادب سے بھی والہانہ لگائو
تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آزاد ہند کے اتوار ایڈیشن بنام ’اجالا‘ میں ادیبوں اور
شاعروں کی تخلیقات کو بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کرتے تھے۔ اس کا خصوصی ذکر مشہور
افسانہ نگار کمال احمد نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’’آزاد
ہند کے اداریوں اور اس کے اتوار ایڈیشن ’اجالا‘ کے ادبی صحافت کا خاص طور سے ادھر
کی چار دہائیوں کے بنگال کے اردو ادب کی پوری دستاویز آزاد ہند کے صفحات میں بند
ہے۔‘‘
(بحوالہ:بہار و بنگال کے صحافی از ظفرانور مطبوعہ
2016،ص7)
مختصر یہ کہ احمد سعید ملیح آبادی نے اپنی بے پناہ صلاحیت،
بے باکی اور صحافتی شعور و آگہی سے ملک کی سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور صحافتی معیار
اور وقار قائم کیا جو اردو صحافت کی تاریخ کا ایک سنہرا باب تھا۔ جس کا اختتام
2اکتوبر2022کو بعمر96سال گزار کر پورا ملیح آباد کے قبرستان میں والدہ کے بازو میں
ان کی تدفین عمل میںآئی ؎
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
حوالے اور ماخذ:
.1 کتاب: بہار و بنگال کے صحافی از ظفرانور
.2 مضمون: آبروئے
صحافت:احمد سعید ملیح آبادی از حلیم صابر
.3 مضمون:
آسمان صحافت کا روشن ستارہ سعید ملیح آبادی از ڈاکٹر الف انصاری
.4 مضمون: آہ! احمدسعید ملیح
آبادی: اردو صحافت کے ایک عہد کا خاتمہ از معصوم مراد آبادی
.5 مضمون: احمد سعید ملیح آبادی:صحافی کم وکیل زیادہ تھے
از جسٹس خواجہ محمد یوسف
.6 مضمون:
احمدسعید ملیح آبادی کے ساتھ ایک دور، ایک روایت، اور ایک تہذیب کا خاتمہ
Sultan Azad
Pannu Lane, Gulzar Bagh
Patna - 800007 (Bihar)
Mob.: 8789934730
maktabaeazadhind@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں