بنارس کی دھرتی کا شمار ہندوستان کے قدیم شہروں میں ہوتا
ہے۔ایسا کہا جاتا ہے کہ بھگوان شیو نے تقریباً پانچ ہزار سال قبل اس شہر کو آباد
کیا تھا۔سر زمین بنارس دریائے گنگا کے شمالی کنارے پر ہلال کی شکل میں آباد ہے او
ر دو دریاؤں ورنایا برنا اور اسی کا سنگم ہے۔
یہ صرف دو دریاؤں کا سنگم نہیں بلکہ دو دھاراؤں شیو ازم اور وشنوازم کا
حسین امتزاج بھی ہے۔ برنا ندی کے سنگم سے
اسی گھاٹ تک تقریباً چھ میل کی لمبائی میں بنارس شہر بسا ہوا ہے۔ برنا ندی اور اسی
گھاٹ کے درمیان ہونے کی وجہ سے بھی اس شہر کا نام بارانسی پڑا لیکن ہندی تلفظ میں
اس کا نام وارانسی ہے اور دھیرے دھیرے اس کا نام بگڑ کر بنارس ہو گیا۔ کاشی بنارس
کا بڑا قدیم اور متبرک نام ہے۔ جس کے لفظی
معنی درخشاں، روشن و منور کے ہیں۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ پرلیے (قیامت) میں اس
شہر کو بھگوان شنکر نے اپنے ترشول پر اٹھا لیا تھا اور جب بھی قیامت آئے گی تو یہ
شہر محفوظ رہے گا۔ کاشی حقیقی معرفت،عرفان و آگہی اور ریاضت حاصل کرنے کے لیے ایک
خاص جگہ ہے۔ان حقائق کی تصدیق ویدوں اوراپنشدوں سے بھی ہوتی ہے۔ کاشی شہر کا شمار
بارہ جیوتی لنگوں(کیدار ناتھ، سوم ناتھ،رامیشورم، ویدیاناتھ، کاشی وشوناتھ، مہاکالیشور،
ملکا ارجن، بھیماشنکر، ناگیشور، ٹریمباکیشور، گرشنیشور اور اماکیشور) میں ہوتا ہے۔
وید اور مہابھارت کے تخلیق کار وید ویاس نے کچھ دنوں تک رام نگر میں قیام کیا تھا۔
جہاں کاشی نریش مہاراجہ بلونت سنگھ نے ایک قلعہ اٹھارہویں صدی میں تعمیر کروایا
تھا۔ تلسی داس نے اسی پاک سر زمین بنارس میں بھی’ رام چرت مانس‘ کو تخلیق کیا تھا۔
جین اور بودھ مذاہب کے ماننے والوں کے لیے
بھی شہر بنارس مقدس ہے کیوں کہ بودھ دھرم کا نقطہ آغاز بھی یہی مقام ہے۔ سارناتھ
میں گوتم بدھ نے بودھ مذہب کے ماننے والوں کے لیے پہلا خطاب یہیں پر دیا تھا۔ یہ مقام بودھ مذہب کی چار زیارت گاہوں(کشی نگر،
بودھ گیا، لمبنی اور سارناتھ) میں شمار ہوتا ہے۔ پارشو ناتھ، شرینس ناتھ، چندر پربھا اور سپر شَوناتھ کی پیدائش گاہ ہونے
کی وجہ سے جین مذہب کے عقیدت مندوں کے لیے بھی بنارس ایک متبرک مقام ہے۔
اردو شعرا نے
ہندوستان کے قدیم شہر بنارس کی عظمت اور تقدس کوبڑے ہی والہانہ محبت و عقیدت کے
ساتھ اپنی غزلیہ،قصائد،مثنویات اور نظمیہ
شاعری میں بڑی خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان شعرا نے بنارس کے
تقدس اور خوبصورتی کو کہیں محبوب کے حسن سے تشبیہ دی ہے تو کہیں اس کے رخ تاباں سے
تشبیہ دی ہے۔مقدس شہر بنارس کی عظمت و تقدس، شان و شوکت، آب و ہوا اور رنگینیوں
کو اردو شعرا نے اپنی نظمیہ اور غزلیہ شاعری کا موضوع بنایاہے۔اردو شاعری میںبنارس
کی عظمت اور عقیدت کا اظہار کرنے والے شعرا میںولی دکنی،واجد علی شاہ،محسن کاکوروی،
صفی لکھنوی، عزیز لکھنوی، مرزا شوق لکھنوی، بے نظیر شاہ وارثی، سیماب اکبر آبادی،
جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری،جاں نثار اختر، مسعود اختر جمال، نذیر بنارسی،
پروفیسرحنیف نقوی،مسلم الحریری، ہندی گورکھپوری، حفیظ بنارسی، رئیس امروہوی، محثر
بدایونی، ظہیر کاشمیری، تمنا بجنوری، عثرت کیرتپوری، اختر شیرانی،عزیز وارثی، ناظم
سلطانپوری، و احد انصاری برہانپوری،پروفیسر انوپ وششٹھ،زاہد ابرول اور سشانت
چٹوپادھائے سفیر کا نام خصوصی طور پر لیا جا سکتا ہے۔
مرزا غالب نے 1825
میں اپنی خاندانی پنشن کی بازیافت کی کاوشوں کے تسلسل میں کلکتہ کا سفر کیا
تھا۔ 1826 کے آخر میں غالب نے الہ آباد سے بنارس تک کا سفر کشتی سے کیا۔ جب
کلکتہ جاتے ہوئے غالب بنارس پہنچے تو بنارس کی رنگینی،صبح بنارس کی لطافت اور
بنارس کے حسین حسن و جمال نے ان کے دل پر گہرے نقوش چھوڑے۔ بنارس نے غالب کو بہت
متاثر کیا۔ غالب نے بنارس اور ماں گنگا کی تعریف میں جو مثنوی لکھی ہے وہ بنارس
اور ماں گنگا کے ساتھ ان کی گہری عقیدت، سچی محبت اور حقیقی جذبات کو بھی ظاہر کرتی
ہے، جس کا اثر یہ ہوا کہ انھوں نے 1826 میں بنارس میں قیام کے دوران بنارس پرمثنوی’
چراغ دیر‘ فارسی زبان میں تخلیق کی۔ جب بنارس سے وہ واپس دھلی لوٹے تو انھوںنے
اپنے دلی جذبات،احساسات اور خیالات کا اظہار اپنے دوست میاں داد خاں سیاح کے نام ایک
خط میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بنارس
کا کیا کہنا۔ اب ایسا شہر کہاں پیدا ہوتا ہے۔ انتہائے جوانی میں میرا وہاں جانا
ہوا۔ اگر اس موسم میں جوان ہوتا تو وہیں رہ جاتا۔ ادھر کو نہ آتا۔‘‘
غالب کی مثنوی ’چراغ ِدیر‘ کا ترجمہ نظمیہ پیرائے میں بہت
سے ادبا و شعرا نے اردو میں کیا ہے۔ جن میں خصوصی طور پر حنیف نقوی اور مسلم الحریری
کا ترجمہ خصوصی طور پر معنویت اور اہمیت کا حامل ہے۔ غالب کی مثنوی ’چراغ دیر‘کاپروفیسرحنیف نقوی کا
منظوم ترجمہ عوام کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ جس میں غالب نے بنارس سے اپنی عقیدت
اور محبت کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسرحنیف نقوی نے اپنے دلی جذبات و احساسات اور
محسوسات و تصورات کا اظہار شعری پیکر میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔’ارمغانِ
علمی نذر حنیف نقوی‘ (مرتب پروفیسر حسن عباس) سے چند اشعارملاحظہ فرمائیں ؎
نظر میں آج اک ایسا چمن ہے
جو رنگ و نور و نکہت کا وطن ہے
وہاں تک جب سے پائی ہے رسائی
نگہ کو دعویٰ گلشن ادائی
بنارس نام اس کا چشم بددور
بہشتِ خرم و
فردوس معمور
مناظر اس کے ہیں اتنے دل افروز
سلام آتے ہیں دلی کے شب و روز
تناسخ پر ہے جن لوگوں کا ایماں
وہ ہیں یوں ارض ِ کاشی کے ثنا خواں
بنارس شاہدِ رنگیں قبا ہے
یہ گنگا اس کا گویا آئینہ ہے
یہ جلوہ گاہ حسنِ لا ابالی
جہاں میں بے مثال و بے مثالی
ڈاکٹر امرت لعل عشرت کی فرمائش پر استاد شاعر مسلم الحریری
نے غالب کی مثنوی ’چراغ دیر ‘ کا منظوم
ترجمہ بڑے ہی والہانہ عقیدت اور محبت کے ساتھ کیا ہے۔ اس ترجمہ کے چند اشعار خاطر نشیں ہوں ؎
تعلی اللہ بنارس چشمِ بددور
بہشت خرم و فردوس
معمور
تناسخ پر جو رکھتے ہیں عقیدہ
وہ یوں کاشی کا لکھتے ہیں قصیدہ
گلِ گلزار بن جاتا ہے غنچہ
ہے مر کر زندئہ جاوید ہوتا
تری کیا بات ہے اے راحتِ جاں
کہ دھو دیتا ہے تو ہر داغِ داماں
عجب کیا ہے جو اس آب و ہوا میں
بنے جاں پیکرِ خاکی فضا میں
بنارس ہے مگر محبوبِ خوش رنگ
ہے جس کے ہاتھ میں آئینئہ گنگ
تو کاشی کی طرف کرکے اشارہ
ہنسا اور یوں ہوا وہ مجھ سے گویا
محسن کاکوری نے اپنے نعتیہ قصیدہ ’مدیح خیر المرسلین‘میں
کاشی، متھرا، گوکل اور گنگا جل جیسے الفاظ کا استعمال بڑی خوبصورتی اور فن کاری کے
ساتھ کیا ہے۔ ان کا سب سے بڑاکارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اس دور کے
شمالی ہند کے ہندو تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کو منظر نامے کا حصہ بنا دیا۔ انھوں نے اپنے قصیدہ میں بنارس کی آب و ہوا
اور تہذیب و تمدن کا اظہار شعری پیکر میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
گھر میں اشنان کریں سرو قدانِ گوکل
جا کے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طولِ اَمل
خبر اڑتی ہوئی آئی ہے مہابن میں ابھی
کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل
تہ و بالا کیے دیتے ہیں ہوا کے جھونکے
بیڑے بھادو کے نکلتے ہیں بھرے گنگا جل
ڈوبتے جاتے ہیں گنگا میں بنارس والے
نوجوانوں کا سنیچر ہے یہ بروا منگل
قدر بلگرامی نے اپنے بہاریہ قصیدہ میں بنارس کی عظمت اور
پاکیزگی کا ذکر کیا ہے۔بنارس کے گنگا جل کی اہمیت اور پاکیزگی کا اندازہ اس بات سے
لگا سکتے ہیں کہ وہ صبا کو بنارس سے گنگاجل لانے کو کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا یہ
شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
اے صبا جا کے بنارس سے اڑا لا بادل
چاہیے ہندوی سوسن کے لیے گنگا جل
اودھ کے نواب واجد علی شاہ نے اپنی مثنوی ’حزن اختر‘ میں
بنارس کے ضمن میں اشعار قلم بند کیے ہیں۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
بنارس میں آ کر رہے چودہ روز
وہ راجہ کی کوٹھی میں ہم سینہ سوز
بہت پیش آیا اطاعت کے ساتھ
اتارا مجھے کوٹھی میں ہاتھوں ہاتھ
وہ مصروف خاطر ہوا اس قدر
فرشتہ بنا کہنے کو تھا بشر
مرزا شوق لکھنوی نے اپنی عشقیہ مثنوی ’زہرِ عشق‘ میں بنارس
کا ذکرخصوصی طور پر کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا یہ شعر خاطر نشیں ہو ؎
مشورے ہو رہے ہیں آپس میں
بھیجتے ہیں مجھے بنارس میں
نظمیہ شاعری میں نذیر بنارسی کو کمال حاصل ہے۔ ان کا تعلق
بنارس سے رہا ہے۔ نذیر بنارسی نے پوری
زندگی بنارس میں گزاری۔ اس شہر کی مشترکہ تہذیب اور روایتوں سے نذیر کوگہری دلچسپی
اور جذباتی لگاؤ تھا۔ بنارس کے سلسلے میں ان کی کامیاب ترین نظموں میں ’چاندنی
رات ہے گنگا کے کنارے چلیے‘، ’تین لوک سے نیاری کاشی‘ اور ’بنارس کی گلی‘ وغیرہ ہیں۔ انھوں نے اپنی
نظم’بنارس کی گلی‘ میںبڑے ہی پر لطف اور
دلکش انداز میں بنارس کی گلیوں کی تصویر کشی اور بنارس کی عظمت کا بیان نظمیہ پیرائے
میں کیا ہے۔ وہ بنارس آنے والے لوگوں کو
اپنی اس نظم کے ذریعہ بیدار و آگاہ کرتے ہیں۔ ’بنارس کی گلی ‘ کے چند نظمیہ اشعار
خاطر نشان ہوں ؎
ہر سنت کے سادھو کے رشی اور منی کے
سپنے ہوئے ساکار بنارس کی گلی میں
شنکر کی جٹاؤں کی طرح سایہ فِگن ہے
ہر سایۂ دیوار بنارس کی گلی میں
گر سورگ میں جانا ہے تو جی کھول کے کھرچو
مکتی کا ہے ویاپار بنارس کی گلی میں
حفیظ بنارسی کا شمار اردو کے مشہور و معروف شعرامیں خصوصی
طور پر ہوتا ہے۔ بنارس کی تہذیب و ثقافت
اور روایت کے ضمن میں ان کی غیر معمولی نظمیہ شاعری قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی
ہے اور ان کو غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہے۔ ان کی تمام نظمیہ شاعری معنویت و اہمیت
کی حامل ہے۔بنارس کی صبح کا منظر، دوشیزہ کا گنگا میں نہانے کی دل نشیں تصویر،
ہاتھوں میں گنگا جل لینے کی دلکش تصویر اور سادھو سنتوں کی عبادت اور ریاضت کی تصویر
کو بڑی کامیابی اور چابکدستی کے ساتھ بیان کیا ہے۔اس سلسلے میں ان کی دلکش و ول نشیں
نظمیہ شاعری کے چند بند ملاحظہ فرمائیں
؎
ہے سورج کی جانب کوئی ہاتھ اٹھائے
ہے جوگی کہیں مرگ چھالا بچھائے
مگن ہیں یہ کب سے سمادھی لگائے
کوئی خواب تو میں نہیں دیکھتا ہوں
بنارس کی صبحِ
حسیں دیکھتا ہوں
صفی لکھنوی کا شمار دبستان لکھنؤ کے شعرا میں ہوتا ہے۔ صفی
لکھنوی نے 13 سال کی عمر سے شعر کہنا شروع
کر دیا تھا۔ ان کی شاعری میں شیرینی، تنوع، لطافت،شگفتگی اور سادگی پائی جاتی
ہے۔انھوں نے لکھنؤ کے عام شعری روش اور مزاج سے الگ ہٹ کر شاعری کی دنیا آباد کی
ہے۔صفی لکھنوی نے غزل کی عام روایت سے ہٹ
کر نظم کی دنیا میں خصوصی طور پر قدم رکھا اور اس صنف میں انھوں نے اپنے ہنرکا
جوہر بخوبی دکھایا ہے۔ انھوں نے غزل، نظم،
قصیدہ، مثنوی اوررباعی وغیرہ شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی شاعری
لکھنؤ کی ادبی فضا اور ماحول کی عکاسی ہے جو صفی لکھنوی کو اپنے ہم عصر شعرا میں
ممتاز بناتی ہے۔ بنارس کی عظمت اور عقیدت کا اعتراف صفی لکھنوی نے اپنی شاعری میں
کیا ہے۔ اس ضمن میں صفی لکھنوی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
اے بنارس ہمسواد سرمئہ چشم بتاں
دیکھ ترا بتکدہ ہے کعبئہ ہندوستاں
خانہ باغِ دارالایماں کا وہی سرو ِرواں
جا کے امر وہی نظر آیا تھا جو کچھ ناگہاں
آج تیری گود میں بیٹھا ہے لیکن مضمحل
پوچھ تو کیسا ہے اس معصوم
کا ننہا سا دل
ہے لبِ دریائے گنگ اب کی بہار آئی ہوئی
کوثر آشاموں کی ہر سو چھاؤنی چھائی ہوئی
ہر طبیعت حسن کے منظر پہ لہرائی ہوئی
لب پہ اک موجِ تبسم آنکھ شرمائی ہوئی
ڈوب کر کیوں کر نکلتے ہیں ستارے دیکھ لو
یہ تماشا آؤ گنگا کے کنارے دیکھ لو
علامہ سیماب اکبرآبادی کا شمار اردو کے مشہور و معروف شعرا
میں ہوتاہے۔ہندوستانی رسم و رواج اور روایت کو انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا
ہے۔مرگھٹ کی راکھ کو دریا میں ڈالنے کی روایت ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے۔
بنارس سے ان کی والہانہ عقیدت اورمحبت کا اظہاران اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ چند
اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
نظر سے دور مرگھٹ کیوں نہ ہو تعمیر صحرا میں
وہاں سے راکھ لاکر کیوں نہ ڈالی جائے دریا میں
اگر ممکن نہیں اس رسم سے پہلو تہی ہونا
تو ہے دو چار ساعت بہتر اس کا ملتوی ہونا
سحر جب سازِ رنگیں چھیڑ کر اپنا چلی جائے
تو پھر اس سوزِ غمِ امروز کو آواز دی جائے
ابھی اس کو مٹا دیتا اگر ہوتا مرے بس میں
یہ داغِ آتشیں ہے دامنِ صبح بنارس میں
نظمیہ شاعری میں اختر شیرانی نے اپنے جوہر دکھائے ہیں۔بنارس
کے حسن اورفضاؤں کی خوبصورتی نے اختر شیرانی کو بہت متاثر کیا ہے۔اس کا اندازہ ان
کی کامیاب ترین نظم ’بنارس ‘ سے لگایا جا سکتا ہے۔ا ختر شیرانی نے اپنی نظم
’بنارس‘ میں اپنے دلی جذبات و احساسات اور
خیالات و تصورات کا اظہار بڑی خوبصورتی اور ہنر مندی کے ساتھ کیا ہے۔ اس نظم میں انھوں نے بنارس کے گھاٹ کی پر لطف
فضا،مندروں میں پجاریوں کے ہجوم، مندروں میں گھنٹیوں کی صدا،کشتیوں سے گنگا کی سیر
اور بنارس کی پرکشش آب و ہواکو نظمیہ پیرائے میں بڑی کامیابی اور چابکدستی کے
ساتھ بیان کیا ہے۔ نظم ’بنارس‘ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
ہر اک کو بھاتی ہے دل سے فضا بنارس کی
وہ گھاٹ اور وہ ٹھنڈی ہوا بنارس کی
تمام ہند میں مشہور ہے یہاں کی سحر
کچھ اس قدر ہے سحر خوش نما بنارس کی
پجاریوں کا نہانا وہ گھاٹ پر آ کر
وہ صبحِ دم کی فضا دل کشا بنارس کی
وہ کشتیوں کا سماں اور سیر گنگا کی
وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا جاں فزا بنارس کی
اردو کے مشہور و معروف شاعر احسان دانش نے بنارس کے صبح کے
منظر کی تصویر کو بڑے ہی دلکش اور دلنشیں نظمیہ پیرائے میں اپنے خیالات و تصورات
کا اظہار کیا ہے۔ بنارس کے لا زوال حسن و جمال اور پر کشش فضاؤں کا بیان انھوں نے
بڑے ہی والہانہ عقیدت اور محبت کے ساتھ کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے ان نظمیہ
اشعار میں محبوب سے جدائی کا دردو کرب بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں ان کے چند
اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
دلہن پہ کہیں بیوہ کا گماں بیوہ میں عروسی شان کہیں
تعمیر کے کچھ آثار کہیں تخریب کے کچھ سامان کہیں
ایمان کہیں شرمائے سے گھبرائے سے اطمینان کہیں
یہ صبح بنارس کیا کہیے افسوس کہ تم سے دور ہوں میں
عشرت کرتپوری اپنے عہد کے مشہورو معروف شاعر تھے۔ ان کو بنارس شہر سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔
انھوں نے ایک کتاب ’صبحِ بنارس‘ کے نام 1963میں ترتیب کی تھی۔ اس کتاب میں موصوف
نے بنارس کے ضمن میں مشہور و معروف شعرا
کے کلام کا انتخاب شائع کیا ہے۔یہ کتاب جلال پرنٹنگ پریس دھلی سے شائع ہوئی
ہے۔ بنارس کے سلسلے میں ان کی ایک غیر مطبوعہ نظم اس کتاب میں شامل ہے۔صبحِ بنارس
کے حسن و جمال اور دلکش و دلنشیں مناظرِ قدرت کی تصویر کو انھوں نے اپنے خیالات و
تصورات کا اظہار نظمیہ پیرائے میں بڑی خوش اسلوبی اور چابکدستی کے ساتھ کیا ہے۔اس
ضمن میں عشرت کرتپوری کے چند نظمیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
کیا کہوں میں کس قدر صبحِ بنارس ہے حسیں
جس کا ہر نظارہ ہے صد رشک فردوسِ بریں
گھاٹ پر پڑتی ہوئی سورج کی وہ پہلی کرن
جس طرح شرما کے اٹھے کوئی نازک سی دلہن
یاتریوں کے وہ جمگھٹ نازنینوں کے پرے
اک ادائے خاص سے ہیں پھول تھالی میں دھرے
نازنینوں کا وہ گنگا میں نہانے کا سماں
جن میں حوروں کی شباہت جن پہ پریوں کا گماں
لب پہ ہر ہر کا ہے نعرہ اور دل میں رام رام
پی رہے ہیں پے بہ پے سب بادئہ عرفاں کے نام
مشہور و معروف شاعر علی سردار جعفری نے بھی بنارس کے حسن و
جمال اور اس کی عظمت کے گیت بڑے آن بان و شان کے ساتھ گائے ہیں۔ ان کے نظمیہ
اشعار سے بنارس سے ان کی سچی محبت و عقیدت صاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔جون1941 میں
بنارس سنٹرل جیل سے علی سردار جعفری رہا ہوئے تھے۔ اس کے چالیس سال بعد مارچ 1982میں
ایک مشاعرے کے لیے وہ بنارس گئے تھے۔ اس
وقت انھوں نے نظم’ کبیر داس اور بسم اللہ خاں کی نگری میں‘ لکھی تھی۔ اس کا موضوع امنِ عالم ہے۔جوپہلی بار
جنوری 1983 میںدہلی سے نکلنے والے رسالہ ’بیسویں صدی‘ میں
شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم ان کے کسی بھی شعری مجموعہ میں شامل نہیں ہے۔ ہندو عقیدے کے
مطابق ماںگنگا سب سے پہلے آسمان سے اتر کر شیو کی جٹاؤں میں ٹھہرتی ہیں، اس کے
بعد وہ زمین پر اترتی ہیں کیوں کہ ماںگنگا کا بہاؤ بہت زیادہ تھا اور ماں گنگا کے
بہاؤ کو بھگوان شنکر کے علاہ کوئی دوسرا نہیں سنبھال سکتا تھا۔ اس نظم کے ذریعہ
انھوں نے بنارس کی عظمت اور بنارس کے سنت کبیر داس اورشہنائی نواز بسم اللہ خاں
صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ کبیر داس اور بسم اللہ خاںدونوں عظیم شخصیات امن
و امان اور دوستی و رواداری کی علامت ہیں۔اس کے علاوہ علی سردار جعفری نے ماں گنگا
سے سوال بھی قائم کیا ہے۔جس سے اس نظم میںپاکیزگی، دلکشی و رعنائی بھی پیدا ہو گئی
ہے۔اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
؎
گنگا ترے ساحل پہ
نذرانئہ دل لے کر
منھ صبحِ بنارس کا
ہم چومنے آئے ہیں
کچھ بھولنے آئے ہیں
کچھ سوچنے آئے ہیں
گنگا یہ بتا مجھ کو
کیوں قید ترا طوفاں
ہے شیو کی جٹاؤں میں
یہ وقت نہیں جب ہم
بیٹھیں گے گفاؤں میں
پتھر سے ابلنا ہے
میداں میں نکلنا ہے
گرنا ہے سنبھلنا ہے
انگاروں پہ چلنا ہے
گنگا ترے ساحل پہ
سن کے تری پروائی
کوئل سے پپیہوں سے
چہکے تری امرائی
مہکے ترے پھولوں سے
ہر دیس کی انگنائی
گیتوں کی گھٹا چھائے
گونجے تری شہنائی
گونجے تری شہنائی
گونجے تری شہنائی
معاصر اردو شعرا میں زاہد ابرول کا نام خصوصی طور پر شمار
ہوتا ہے۔ان کا تعلق ہماچل پردیش سے ہے۔انھوں نے حمدیہ کلام در مدح شیو شنکر بھولے
ناتھ کا منظوم ترجمہ سنسکرت سے اردو میں بہ عنوان ’منبعِ فیض و کرم‘ 2022 میںشائع کیا ہے۔ ان کا سب سے بڑا وصف و
کمال یہ ہے کہ انھوںنے شاعر ی میں دیوؤں کے دیو مہادیو کے بارے میں تمام معلومات
اور ان کے 108 القاب پر 108 اشعار اپنی کتاب ’نورِ مجسم‘ میں تخلیق کیے ہیں۔ یہ کتاب 2022 میں منظرِ عام
پر آئی۔نظمیہ شاعری میں ان کو کمال حاصل ہے۔زاہد ابرو بنارس تشریف لائے تھے اور
وہ مقدس شہر بنارس کے لازوال حسن و جمال سے بیحد متاثر ہوئے۔ا نھوں نے اپنی کھلی
آنکھوں سے جودیکھا اور محسوس کیا ہے اس کو انھوں نے اپنی نظمیہ شاعری کا موضوع
بنایا ہے۔ بنارس کے سلسلے میں زاہد ابرول نے اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار نظمیہ
پیرائے میں بڑی خوبصورتی اور ہنرمندی کے ساتھ کیا ہے۔ ان کی نظم’ صبح بنارس کی‘ سے
چند اشعار خاطر نشیں ہوں ؎
صبح بنارس کی
جیسے کوئی کلی چٹخنے سے پہلے شرمائے
جیسے بے خواب کوئی دوشیزہ صبح دم انگڑائی لے کر اٹھے
اور آدھی ہی کھول کر آنکھیں مسکرائے
دلہن کوئی تازہ بیاہی جیسے بجا کے کنگن، کلیرے اپنے
سہاگ کے گیت گنگنائے
قلانچیں بھرتی ہوئی کوئی کشتی
پاک گنگا کے پانیوں میں جوں رقص فرمائیں
صبح بنارس کی
جیسے جوگی بجا کے اِک تارا
گھاٹ در گھاٹ الکھ جگائے
صبح بنارس کی
ذہن و دِل کے اِک اک کونے میں
خوشبو بن کر اترتی جائے
صبح بنارس کی
ایک اِک پل پہ جاودانی کا عطر چھڑکے
اور ان کو آبِ بقا پلائے
حسیں پرندوں کی چہچہاہٹ کے سر میں
اپنا بھی سر ملائے
غضب کے روحانی گیت گائے
صدائے انہد سنے، سنائے
صبحِ بنارس کی دِل پہ نقش اپنا چھوڑ جائے
اردو غزلیہ شاعری میں بنارس کے سلسلے میں شعرانے غزلیہ
اشعار علامت واستعارے کے طور پر پیش کیے ہیں۔ معاصر اردو غزل گوشعرا میں پرفیسر
انوپ وششٹھ کا نام خصوصی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔انھوں نے ہندی اور اردو دونوں
زبانوں میں بڑی عمدہ اور معیاری شاعری کی ہے۔
انھوں نے بنارس کے حوالے سے ایک مسلسل غزل تحریر کی ہے۔ اس مسلسل غزل میں
انھوں نے جو پیغام دیے ہیں وہ یقیناً معنویت و اہمیت کے حامل ہیں۔ اس مسلسل غزل کے
چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
بنارس میں مانا مسائل بہت ہیں
مگر لوگ سکھ دکھ میں شامل بہت ہیں
بھری بھیڑ سڑکیں ہیں گلیوں میں گلیاں
دھڑکتے مگر پیار سے دل بہت ہیں
بہت ہے یہاں ڈوب جانے کا خطرہ
مگر تھامنے والے ساحل بہت ہیں
اندھیرے کو دیتے رہیں گے چنوتی
دیئے آندھیوں کے مقابل بہت ہیں
یہاں مرتیو کو بھی سمجھتے ہیں منگل
یہاں درد و غم کی محافل بہت ہیں
اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں نئی نسل کے شعرا میں نوجوان شاعر سشانت چٹوپادھائے سفیر کا نام
اہم ہے۔ سفیر خصوصی طور پر نظم کے شاعر ہیں لیکن غزل میں بھی انھوں نے طبع آزمائی
کی ہے۔انھوں نے اپنی غزلیہ اور نظمیہ شاعری میں ہندوستان کی تہذیب و روایت اور
ثقافت کو بڑی عمدگی اور خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے۔ بنارس کی تہذیب و روایت کو
انھوں نے اپنے غزلیہ اشعار میں پیش کیا ہے۔ ان کا سب سے بڑا وصف و کمال یہ ہے کہ
ان کی شاعری میںسنجیدگی اور متانت پائی جاتی ہے اوروہ بڑی سے بڑی بات کو سادہ، سلیس
اور عام فہم زبان میں بیان کرتے ہیں۔جس سے ان کے فکر کی گہرائی اور گیرائی کا بخوبی
اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بنارس کے سلسلے میں ان کے چند متفرق اشعار خاطر نشیں
ہوں ؎
جہاں یہ گھاٹ ہے روشن وہیں آؤ ملیں گے ہم
بنارس کی فضا میں ہر کوئی اپنا نظر آیا
چراغِ دیر غالب کا یہیں کیدار کی دنیا
قلم گنگا کی لہروں سے دعائیں مانگ لیتے ہیں
ذرا لنکا کی رونق دیکھ لو کاشی کے باشندوں
یہاں انساں نے گلیوں میں نیا سورج اتارا ہے
یہاں جب بھی ٹھہرتا ہوں بڑا اپنا سا لگتا ہے
وہیں گنگا کے پہلو میں شِوا اپنا سا لگتا ہے
اردو غزل گو شعرا نے اپنی غزلیہ شاعری میں بنارس کے نغمے
گائے ہیں اور شہر بنارس سے اپنی والہانہ عقیدت و سچی محبت کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن
میں چند معروف شعرا کے کلام ملاحظہ فرمائیں ؎
کیا ہوئی صبح ِ بنارس کیا ہوئی شامِ اودھ
ہم فقط آنکھوں میں وہ منظر لیے پھرتے رہے
(ظہور بسوانی)
ہمیں سے صبح بنارس ہمیں سے شامِ اودھ
ہمیں سے دلی کی گلیاں حسیں تھیں تاج ورو
(ناظم سلطانپوری)
غموں کی راہ میں تسکین کا مقام تو ہے
نہیں ہے صبحِ بنارس اودھ کی شام تو ہے
(واحد انصاری برہانپوری)
ہے صبحِ بنارس روپ اس کا تو شام ِ اودھ گیسو اس کے
وہ میری غزل ہے میری غزل تم میری غزل کی بات کرو
(عزیز وارثی)
شامِ اودھ نے زلف میں گوندھے نہیں ہیں پھول
تیرے بغیر صبحِ بنارس اداس ہے
(رام اوتار گپتا مضطر)
یہ اودھ ہے کہ جہاں شام کبھی ختم نہیں
وہ بنارس ہے جہاں روز سحر ہوتی ہے
(انوارالحسن انور)
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اس
ما بعد جدید تناظر میںبنارس کے سلسلے میں یہ تمام شاعری معنویت، اہمیت و افادیت کی
حامل ہے۔ جس میں شعرا نے بنارس کی تہذیب و
ثقافت اور روایت کو بڑی خوش اسلوبی اور عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس طرح یہ کہا
جا سکتا ہے کہ بنارس کے ضمن میں شعرا کے یہ کلام اردو ادب میں ایک بے بہا اضافہ
ہے۔ جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ تمام شاعری زندہ شاعری کی
علامت ہے جو تاقیامت زندہ رہے گی۔آخر میں اپنی بات میں ولی دکنی کے اس شعر پر ختم
کرتا ہوں ؎
کوچئہ یار عین کاسی ہے
جوگئی دل وہاں
کا باسی ہے
Dr. Ajai Malviya
1278/1 Malviya Nagar
Allahabad-211003(U.P)
Mob.: 9451762890

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں