’’بندۂ عقیدت منسارام آصف جاہی ابن بھوانی داس غازی الدین خانی
نبیرۂ بال کش عابد خانی نے تخمیناً مدت 50 سال اس سرکاردولت مدار میں اپنی زندگی
بسر کردی۔ صدارت کل کی خدمات انجام دی اور مورد عاطفت وشفقت رہا ۔‘‘2
رائے
منسارام نے 1200ھ میں ایک کتاب ’مآثر نظامی‘ کے نام سے لکھی جو نواب آصف جاہی
عہد کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ایک اور اہم تصنیف ’قانون دربار آصفی‘کے نام سے قلمبند
کی جس میں حکومت حیدر آباد کی جہاں بانی کے اصول ہیں ۔ یہ کتا ب بقول مصنف دو سال
میںمکمل ہوئی۔
شفیق
انہی کے بیٹے تھے۔ شفیق کی ابتدائی تعلیم و تربیت میر عبدالقادر مہربان نے کی
اورجب سن شعور کی منزل میں قدم رکھا آزادبلگرامی جیسے استاد میسر آئے۔ آزاد نے
انھیںتراش کر کندن بنا دیا۔ وہ شفیق سے انتہائی
انس و محبت سے پیش آتے تھے۔
شفیق
بلا کے ذہین و فطین تھے۔محض 17 برس کی عمر
میں مختلف علوم وفنون میں مہارت تامہ حاصل کر لی۔ عربی، فارسی، صرف نحو اور انشا میںید
طولیٰ رکھتے تھے۔ کم عمری ہی میں کئی کتابیں
بھی تصنیف کیں۔ انھیں شعروسخن اور تاریخ
نگاری میں ملکہ حاصل تھا۔شاعری میں میر عبدلقادر مہربان کے مشورے پرصائب تخلص کیا۔ آزانے مشورہ دیاکہ فارسی میں شفیق اور اردو میں صائب تخلص اختیار کریں۔شفیق
آزادبلگرامی کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کی کتابوں میں جہاں کہیں آزاد کا ذکر
آتاہے وہ نہایت ادب سے ان کانام لیتے ہیں۔ شفیق ایک طومار نویس تھے۔انھوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں کتابیں لکھیں۔
شفیق
کی تاریخ نگاری :شفیق اپنے عہد کے اہم مورخ تھے۔تاریخ نگاری کا فن انھیں ورثہ میں
ملا تھا۔انھوں نے تاریخ پر مشتمل درج ذیل کتب یادگار چھوڑی ہیں۔
حقیقت
ھائے ہندوستان: یہ کتاب شفیق نے برٹش ریزیڈنٹ ولیم پیٹرک کی فرمائش پر 1204ھ میں
تحریر کی تھی۔ یہ کتاب چارمقالات پرمشتمل ہے۔پہلے مقالہ میں مالگذاری کے نقشہ جات
سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہے۔ دوسرے مقالے میں ہندوستان کے صوبوں کے مداخل سے
بحث کی گئی ہے جس میں الہ آباد، اودھ،
بہار، بنگال، اڑیسہ، مالوہ، گجرات، ملتان، لاہور اور کشمیر کے مفصل حالات درج کیے
گئے ہیں۔ تیسرا مقالہ دکن کے حالات سے متعلق علم میں اضافہ کرتا ہے۔ چوتھے مقالے میں
سلاطین ہند کی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ اس مایہ
ناز کتاب کا ایک نسخہ آصفیہ لائبریری، حیدرآباد میں موجود ہے۔
مآثر آصفی:’مآثر
آصفی‘ میں خاندان آصف جاہ نظام حیدرآباد
دکن کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس میں خواجہ آصف کے حالات سے لے کر آصف جاہ ثانی تک کے معاملات کو نہایت
حسن و خوبی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس میںمراٹھا کی بھی مختصر تاریخ بیان کی گئی
ہے۔ اس کے علاوہ امرا اور راجائوں کے حالات بھی درج ہیں۔یہ کتاب 1208ھ میں لکھی گئی
ہے۔
تمنیق
شنگرف:’تمنیق شنگرف ‘شفیق کی تاریخ نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔یہ کتاب 1200ھ میں لکھی
گئی۔اس میں ابتداً ہندوستان کے صوبوں کی تفصیلات اور اعداد وشمار بیان ہے بعدہ
ٗفتوحات دکن،سلطنت بہمنیہ، سلطنت عادل شاہی، نظام شاہی، عماد شاہی، قطب شاہی،
فاروقی اور برید شاہی کے حالات تحریر کیے گئے ہیں۔ اس میں
تیمور سلاطین کے حالات بھی درج کیے گئے ہیں۔ اسلوب تحریر عمدہ اور زبان نہایت
سادہ و سلیس ہے لیکن بعض مقامات پروہ حالات تحریر کرنے میں تاریخ فرشتہ سے خوشہ چینی
کرتے ہیں۔
بساط النعائم:بساط
النعائم میں مصنف نے مراٹھاکے عروج و زوال کی داستان تحریر کی ہے اوراس کا
اختتام پانی پت کی جنگ پرکیا ہے۔3
حالاتِ حیدرآباد:حالات
حیدر آباد 1214ھ میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔
تاریخ نگار نے اس کتاب میں حیدرآباد میں موجود مختلف مساجد ومکاتیب، باغات،
مکانات، اور دوسری سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کا مفصل حال بیان کیاہے۔
مذکورہ
با لا کتب کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہوتی
ہے کہ شفیق کی طبیعت تاریخ نویسی سے کس قدر مانوس تھی۔ وہ تاریخ نگاری کے لیے ضروری
اوصاف سے متصف تھے۔ان کے ذہن و دماغ پر غلام علی آزاد کے مادئہ تاریخ تحقیق وتنقید
کا گہرا اثر ہے۔ واضح رہے کہ آزاد مآثر الامراکی ترتیب میں صمصم الدولہ شاہ نوار
خان کا دست راست رہے ہیں۔ایسے جید استاد کی قابلیت اور مجتہدانہ اہلیت سے شفیق کی
طبیعت ضرور متاثر ہوئی ہوگی۔اپنے تذکرے میں صوفی عبدالجبار ملکا پوری نے یوں تحریر
کیا ہے:
’’وہ جو کچھ لکھتاہے نہایت تحقیق سے لکھتا ہے۔ جس شخص یا جس چیز
کی حالت لکھتا ہے اس کے مدعاعلیہ کو پورا پوراصاف کردیتاہے۔شفیق کو یہ لیاقت آزاد
کی توجہ اور عنایت کی بدولت حاصل ہوئی۔دکن میں اگر چہ آزاد کے تلامذہ صاحبِ تصنیف
ہوئے لیکن شفیق ان کے ارشد تلامذہ میں
تھے۔‘‘4
شفیق
کی تذکرہ نگاری
شفیق
نے تذکرہ نگاری میں بھی نام پیدا کیا اور اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے شعرا کے
تذکرے رقم کیے ہیں:
گل رعنا :شفیق نے یہ تذکرہ 1187ھ
میں مکمل کیا تھا جو ادب کی دنیا میںبے
حد مشہور ہے۔ تذکرہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میںمسلم شعرائے فارسی کا حال بیان کیا گیاہے جبکہ حصہ دوم میں
غیر مسلم شعرائے فارسی کا ذکر کیا گیاہے۔
دیباچے میں تذکرہ نگار نے تذکرے کی تشکیل میں معاون دس مآخذ کا ذکر کیا ہے
جن سے تذکر ہ نویسی میں استفادہ کیا گیا ہے۔تذکرہ ’گل رعنا‘ کا دوسرا حصہ بے حد
اہم ہے۔ کیونکہ اس حصے میں تذکرہ نگار نے فارسی کے غیر مسلم شعرا کا حال مفصل بیان
کیا ہے۔
شام
غریباں: لکشمی نارائن شفیق اورنگ آبادی کا دوسرا اہم تذکرہ ’شام غریباں‘ ہے۔ جس میں
ان شعرا حضرات کا ذکر کیا گیا ہے جو دیگر ممالک خصوصاً ایران سے ہجرت کرکے
ہندوستان آئے تھے۔ اس میں تراجم بے حد مختصر ہیں اور اس کی جگہ لطایف و ظرائف کچھ
زیادہ ہیں۔ شعرا کے حالات زندگی مفصل بیان کیے گئے ہیں۔ اشعار کا انتخاب بھی موزوں
اور عمدہ ہے۔بعض مقامات پر تذکرہ نگار نے مختلف شعرا کے مشکل اشعار کی تشریح بھی کی ہے جو بے حد مفید
ہے۔ ’شام غریباں‘ ان شعرا کے متعلق ہے جو
ایران سے مختلف سلاطین کے عہد میں ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے، اس
اعتبار سے یہ تذکرہ اہم ہے۔ کیونکہ بسا اوقات جب ان شعرا کی فہرست بنانے کی ضرورت
پڑے گی تو اس کام کے لیے شفیق کا تذکرہ بے کار اور بے سود نہیں بلکہ نایاب تصور کیا
جائے گا۔
ان
دونوں تذکروں میں ’گل رعنا‘ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ اس میں ہندوستانی اور ایرانی
شعرا سے متعلق بڑی جامع اور دلچسپ معلومات
فراہم کی گئی ہیں۔’ گل رعنا‘ میں تراجم بھی ہیںجن کی وجہ سے اس کی افادیت دوبالا
ہوجاتی ہے۔ شفیق نے اس تذکرے میں اپنے استاد میر غلام علی آزاد بلگرامی کا حال
مفصل تحریر کیا ہے جو کہیں اور اس تفصیل کے ساتھ دستیاب نہیں ہے۔ شفیق نے اپنے اس
تذکرے میں شہنشاہ اکبر کے ذ کر میں 46 صفحات صرف کئے ہیں۔ لیکن شفیق نے ان 46 صفحات میں اکبر کے متعلق کوئی نئی معلومات
فراہم نہیں کی ہے۔بلکہ اکبر سے متعلق زیادہ
تر حالات تاریخ بدایونی سے ماخوذ ہیں۔’گل رعنا‘ ایک اعتبار سے بندرا بن داس خوشگو
کے مشہور تذکرہ سفینہ سے اچھا ہے۔ اس لحاظ سے کہ شفیق نے شعرا کی ترتیب بلحاظ حروف
تہجی رکھی ہے جس سے شعرا کو ڈھونڈ نکالنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل
ذکر ہے کہ’گل رعنا‘ اور’سفینۂ خوشگو‘ دونوں میں تذکرہ نگاروں نے واقعات کی تاریخیں
درج کرنے میں بڑی کوتاہی سے کام لیا ہے۔ اگر واقعات کی تاریخ بھی دی گئی ہوتی تو یہ
دونوں تذکرے اور بھی زیادہ مفید ہوتے۔ مگر جہاں تک خوشگو کا سوال ہے وہ شفیق کے
مقابلے زیادہ محتاط معلوم ہوتا ہے اور جا بجا واقعات کی تاریخیں بھی درج کرتا ہے۔
چمنستان
شعرا: شفیق اورنگ آبادی کا تیسرا تذکرہ ’چمنستان شعرا‘ ہے۔ یہ تذکرہ شفیق نے محض
17 برس کی عمر میں 1175ھ میں لکھا تھا۔یہ تذکرہ اردو شاعروں کے احوال پر مبنی ہے لیکن
اسے فارسی زبان میںقلم بند کیاگیا ہے۔ انجمن ترقی اردو نے حال ہی میں شفیق کے اس
تذکرے کو شائع کیا ہے۔ مقدمہ مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے جس نے اس تذکرے کی
افادیت میں چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اس تذکرے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں
شعرا کی ترتیب ابجد کے لحاظ سے رکھی گئی
ہے۔اس میں تراجم مختصر ہیں۔ تذکرے کی زبان بھی صاف اور رواں نہیں بلکہ منشیانہ
ہے۔ اس تذکرے میں اشعار کا انتخاب اور
تحقیق و تنقیداس بات کا اظہار ہے کہ یہ کسی سن رسیدہ تذکرہ نگار کا لکھا ہوا ہے
حالانکہ اس وقت شفیق کی عمر 17 سال تھی۔اتنی کم عمر میں یہ تذکرہ تحریر کیا گیا جس
کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ شفیق نے اپنے اس تذکرے میں میر تقی میر کی مخالفت کی
ہے اور میر تقی میر کے’ نکات الشعرا‘ کے بعض بیانات کی تردید بھی کی ہے۔اس میں
شمال اور دکن کے تقریباً 213 شعرا کا ذکر ہے۔5
شاعری
شفیق
اورنگ آبادی نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں
شعر کہا کرتے تھے۔نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
’’ کم عمری سے شعر گوئی کا شوق تھا۔مولانا غلام علی آزاد بلگرامی
سے تلمذ کا شرف حاصل تھا۔پہلے صاحب تخلص تھا پھر شفیق اختیار کیا۔فارسی اور اردو
دونوں میں مشق سخن کی ہے۔‘‘6
مزید
تحریر فرماتے ہیں:
’’ شفیق نے مثنوی، قصیدہ، غزل، رباعی وغیرہ غرض تمام اصناف سخن میں
جولانی طبع دکھائی ہے۔ ’تصویر جاناں‘ ان کی مشہور مثنوی ہے۔ایک دوسری مثنوی ’معراج
نامہ‘ ہے۔‘‘7
انھوں
نے نعتیہ شاعری میں طبع آزمائی کی ہے، شفیق کا تحریر کردہ’ معراج نامہ‘ جو ایک سو
چھ ابیات پر مشتمل ہے کا فی مقبول ہے۔شفیق نے مثنوی نگاری میں بھی کمال فن کا
مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی تین مثنویوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو فارسی زبان میں ہے
جبکہ ایک مثنوی’تصویر جاناں‘ کے عنوان سے اردو میں ہے۔
شفیق
نے فارسی میں بھی عمدہ شاعری کی ہے۔ ان کی فارسی شاعری میں حسن و عشق اور معاملات
عشق کا اظہار دلچسپ انداز میں ہے۔شفیق نے دور نوجوانی کی داستان عشق کو یوں لفظوں
کا جامہ پہنایا ہے ؎
یاد
آیامی کہ عشقِ نوجوانی داشتم
بر
سرِ رسوائی و کافی داشتم8
وہ
عشق مجازی کے واسطے سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور محبوب کی زلف گرہ گیر
میں خدا کو تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں
؎
دلم
گم شد بزلف خوب روی
شفیق
اکنون خدارا جستجوی 9
اور
وہ اس جستجو میں کامیابی کا اظہار بھی کرتے ہیں ؎
می
رساند حسن مطلق رنگ ہا بے رنگ را
سیر
کن در پرتو خورشید تار عنکبوت 10
وہ
بارگاہ خداوندی میں معافی کے خواستگار بھی ہیں ؎
یارب
بدر تو عذر خواہ آمدہ ام
سر
تا بقدم غرق گناہ آمدہ ام
از
چشمہ عفو شست و شوی فرما
در
بارگہت نامہ سیاہ آمدہ ام 11
اس
کے علاوہ شفیق نے تاریخ گوئی میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔صوفی عبدالجبار ملکاپوری
محبوب الزمن ص 582 پر تحریر کرتے ہیں کہ ’’ شاعری و سخن سنجی و تاریخ نویسی و تالیف
میں فرد کامل تھا۔ اس کے نتائج طبع بہت صاف
شستہ و شفاف و برجستہ ہوتے ہیں۔‘‘12
شفیق
نے علم و فن کی دنیا میں نام پیدا کیا۔اپنی علمی و ادبی استعداد کے ذریعے اردو و
فارسی میں شعر و فن کے جوہر دکھائے۔شفیق کے علمی و ادبی کارناموں سے دنیائے علم و
ادب آج بھی فیضیاب ہورہی ہے۔
حواشی
.1 تذکرئہ شعرائے
دکن، عبدالجبار ملکا پوری، جلداول، ص149
.2 ہندوئوں میں
اردو،رفیق ماہر وی،ص173
.3 ذکرمرہٹہ کے نام
سے ملافیروز کے کتب خانہ (ممبئی) میں ایک نسخہ موجود ہے۔
.4 صوفی عبدالجبار
ملکاپوری
.5 دکن میں اردو،
چوتھا دور سلطنت آصفیہ، ص403
.6 ایضاً
.7 ایضاً
.8 سید محمد رضا
ساجد، شفیق اورنگ آبادی حیات اور کارنامے، ص110
.9 ایضاً، ص 110
.10 ایضاً، ص 113
.11 ایضاً، ص 133
.12 صوفی عبدالجبار
ملکاپوری، محبوب الزمن، ص 582
Dr. Mohammad Aasif
Assistant Professor Urdu
Government Vidarbha Institute of Science and
Humanities (Autonomous)
Amravati-444604
(Maharshtra )
Mob.: 9403282420
aasifmohammad8313@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں