اردو دنیا،جولائی 2025
علاج
معالجہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ۔ اس فن کو عروج یونانیو ں
نے بخشا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طریقہ علاج آج تک رائج ہے اوراسی اصول پر قائم ہے جو
انھوں نے مرتب کیے۔ آج دنیا کے نقشہ پر یونان کی کوئی اہمیت نہیں ہے مگر کبھی یہاںعلم
و فضل کی برسات ہوتی تھی۔ یونان کا ہر شہر علم و فن کا گہوارہ تھا۔ اسی سر زمین سے
علم و ہنرکے وہ مایہ ناز سپوت اٹھے جن کی خدما ت کا زمانہ معترف ہے اور انہی کے
دکھائے ہوئے راستوںپر چل کرکامیابی کی بلندیوں پر پہنچے۔ سقراط، بقراط، افلاطون،
ارسطو،جالینوس، اسقلیبوس اور اسکراتیس اسی زمین سے اٹھے اور علم و فن کے آسمان پر
ستاروںکی مانند چمکے۔ بقراط، جالینوس اور اسقلیبوس وغیرہ فن طب میںمہارت رکھتے
تھے۔ افلاطون اور ارسطو فلسفہ کے ماہر تھے۔ بقراط نے تشریح الاعضا اور منافع
الاعضا کو ترتیب دے کر علم طب کو مستقل فن کا درجہ عطا کیا۔ اسی نے انسانی مزاج، اخلاط اورارکان اربعہ
پرمکمل بحث کی اور یہ ثابت کیاکہ یہی ارکان اربعہ ہیںجن سے اخلاط کاوجود ہے۔ اخلاط
میںبگاڑ مرض کا سبب بنتا ہے۔ جالینوس نے نسخہ نویسی کوبہتر طور پر مرتب کیا۔ اسی
نے دل پربھی محنت کر کے یہ کہا تھا کہ دل کے دائیں اور بائیںحصوںکے درمیان میں غیر
مرئی سوراخ ہوتے ہیں جن سے خون دائیں جانب سے بائیں جانب جاتا ہے۔
یونانیوںکے
زوال کے بعد ان کے جانشین رومی ہوئے۔ ا ن کے مطابق طاقت ہی تمام چیزو ں کے حصول
کاذریعہ ہے۔ مسلمانوں کا جب عروج ہوا (عربو ں کا)تو عباسی خلیفہ’ مامون الرشید‘ کی
سرپرستی میں عجمی زبانوں کے تراجم عربی زبان میں کیے گئے۔ مسلمان کے ہاتھو ں میںجب بقراط اور جالینوس کی میراث آئی تو وہ اس کے
پوری طرح سے امین بنے۔ انھوں نے نہ صرف ا
س کی حفاظت کی بلکہ ا سے پہلے سے زیادہ ترقی دی۔ اوراس میںمزید تحقیقات اور تجربات
سے نکھار پیدا کر کے مفروضات سے پاک کردیا۔
علم
طب کا احیائے ثانی’شیخ الرئیس ابن سینا‘سے ہوا۔ ابن سینا نے نئے نئے وسائل ایجاد کیے
اور جو نقائص نظر آئے انھیں دور کرکے اس فن کو نئی زندگی بخشی۔ گویا علم طب میںانھیںمجتہد
کادرجہ حاصل ہے۔ ابن سینا نے ہی قناطیر، علم بتر پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انھوں
نے ہی سب سے پہلے آنکھوں کے ناسور کا
آپریشن کیا، اندام نہانی میں ادو یا ت کی ترسیل کا طریقہ بتایا، دماغی رسولی
اورسرطان کا شافی علاج کیا۔ ان کی کتابیں کتاب الشفا،القانون فی الطب اور رسا لہ فی
الفصد آج بھی مفید ہیں۔ ابن سینا کی مثال نیر اعظم کی سی ہے۔ اس کی روشنی سے آج
تک دنیائے طب میںاجالا باقی ہے۔ اسی کی کرنوں سے ہزارہا لوگوںنے استفادہ کیا۔ زکریارازی
نے وبائی پر امراض تحقیق کر کے ’جدری والحصبہ‘ نامی کتاب لکھی جووبائی امرا ض پر
پہلی کتاب تھی۔ ابن نفیس نے جالینوس کے اس مفروضہ کوتوڑا کہ دل کے داہنے اور بائیں
حصوں کے درمیان غیر مرئی سوراخ ہوتا ہے جس سے خون دائیں حصے سے بائیں حصے میں جاتا
ہے۔ ابن نفیس نے بتایاکہ دونوں حصوں کے درمیان مرئی دیوار ہوتی ہے۔ اور خون دائیں
سے بائیں حصے میں کھلبندکے ذریعے داخل ہوتاہے۔ اس کے علاوہ ابن نفیس ہی نے ’ریوی
دور ان خون‘ پر جامع بحث کرکے اسے ثابت کیاتھا۔ ابن بیطار پہلا جانوروں کا
ڈاکٹرتھا۔اسی نے جڑی بوٹیو ں اور غذا کے
تعلق سے مکمل معلومات فراہم کی تھیں۔ غذا اوردوا پر اس کی کتا بیں بالترتیب ’الادویہ
المفردہ اور جامع الا دو یہ والاغذیہ‘ ہیں۔ ابوالقاسم زہراوی فن جراحت کا موجدہے۔
اسی نے سرجری کے آلات، سرجری کے نظریات،بے ہوشی بتر اورکھپچی( پلاسٹر) کے طریقے
پر مفصل روشنی ڈالی تھی۔ ابن زہر نے حلقوم اور حقنہ کے ذریعے غذا جسم میں پہنچانے
کا طریقہ ایجاد کیاتھاجبکہ غریب فن دایہ گری اور امراض نسواں میںمہارت رکھتاتھا۔ زین
الدین جر جانی ایک فارسی حکیم تھاجس نے پہلی باربتایا کہ گھینگا کا خفقان سے تعلق
ہے۔ امراض جلد میں سمر قندی اور علائوالدین قرشی جبکہ امراض چشم میںابن ہیثم، علی
بن عیسیٰ، عمار اورحنین اسحٰق ماہر تھے۔ ابن ہیثم نے بصری نظریات پیش کیے اور علی
بن عیسیٰ نے اس میںمزید پیش ر فت کی۔ اس زمانے
میں موتیا بین کے آپریشن کو’کوچ طریقہ‘ کا نام دیا گیا۔ ابوالقاسم زہراوی کی کتاب
التصر یف، ابن ہیثم کی کتاب المناظر اورعلی بن عیسیٰ کی تذکر ۃالکحلین امرا ض چشم
پر آج بھی مفید ہیں۔ صدیوںتک یونانی طریق علاج اس وقت کے سبھی معلوم ممالک میں
رائج تھا۔
ہندوستان
میں طب یونانی کے ساتھ آیورویدک طریق علاج رائج تھا۔ایشیا کے اکثر ممالک میںیہی
طریق علاج رائج تھا، خاص طور پر برصغیر میں۔ اس دور میںجب حکومت برطانیہ کے تسلط میں دنیا کے اکثر ممالک تھے اور اس کی
حکومت میںسورج غروب نہیںہوتا تھا۔انھوں نے ایلوپیتھی طریق علاج کو رواج دیا۔ہندوستان
میں طب یونانی کے فروغ میں خاندان شریفی نے اہم کردار رہا ہے۔یہ خاندان دلی کے
چاندنی چوک کی گلی قاسم جان میں رہاش پذیر تھی۔ چاندنی چوک کی گلی قا سم جان کی
تنگ گلیوں میںزندگی رواںدواںہے۔انسانوں کی بھیڑ یہاں سے گزرتے ہوئے ایک اچٹتی ہوئی
نظر شریف منزل پر ڈالتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔ عام آدمی کے لیے اس میںکوئی دلچسپی
نہیں مگر تاریخ کے طلبا اوراسکالر (محققین)کے لیے یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
حکیم
محمد شریف خان(1722-1807)،حکیم اجمل خان کے دادااور دبستان طب یونانی دلی کے اہم
رکن تھے۔ انھوں نے دلی کے مدرسہ سے تعلیم
حاصل کی تھی۔ ان کاتعلق نقشبند یہ سلسلہ سے تھا۔ ان کے خاندا ن میں سبھی حکیم تھے
مگر زیادہ شہرت انھیں کی حصہ میں آئی۔ انہی کی وجہ سے ان کاخاندان ’خاندان شریفی
کہلایا‘۔ انھوں نے میڈیسن پر 17کتابیں لکھی ہیں جس میں ’علاج الامراض‘ بہت
مشہورہے۔ انھوں نے ایلوپیتھی کی خوبیوں کویونانی میںاستعمال کر نے کیلئے زور دیا۔انھوں
نے دواؤں کی ڈکشنر ی عربی اورفارسی میں مرتب کی تھی۔ ا نھوں نے اردو زبان میںقرآن
کاترجمہ کیاتھا جواس زبان میں پہلا ترجمہ کہا جاتا ہے۔ خا ندان شریفی کے لوگ( حکیم) دہلی میں لوگو ںکی خدمت کرتے تھے اسی لیے
انھیں’دلی کے رئیس‘کہا جاتا تھا۔ ان کے آباو اجدا دمغلیہ سلطنت کے بانی شہنشاہ
بابر کے دور حکومت میں ازبکستا ن سے ہندوستان آئے اورآگرہ میں آباد ہوئے۔
شاہجہا ں آباد بننے کے بعد یہ خاندان اورنگ زیب کے زمانے میں دلی چلا آیا اوربلی
مارا ن میں آبادہوگیا۔حکیم اکمل خان شاہ عالم ثانی کے شاہی حکیم تھے جنھوں نے انھیں’اشراف
الحکما‘کا خطاب دیا تھا۔ ان کے بعدان کے بڑے بیٹے حکیم شریف خان نے یہ جگہ لے لی۔
وہ سیکولر نظریہ کے حامل اور ماہر حکیم تھے۔ یہ خا ندان اپنے وطن مالوف میںبھی
عوامی خدمت انجام دے رہا تھا مگرقدر ت ان سے اوربھی خدمات لینا چاہتی تھی۔اسی لیے
اس خاندا ن کو ہجرت کرا کے ہندوستان میں بھیجا۔ اس خاندان نے ہندوستان میں آکرنہ
صر ف عوام کی بے لوث خدمت کی بلکہ طب یونانی کے فرو غ میں بھی اہم کردا رادا کیا۔
حکیم
شریف خان نے1719 میں دلی کے چاندنی چوک کی
گلی قاسم جان میںشریف منزل تعمیرکرائی تھی۔ شر یف منزل ایشیائی اور لاطینی طرز تعمیر
کا نمونہ ہے۔ خستہ حالت کے باوجود آج بھی اس کا حسن قائم ہے۔گردش دوراں ان کی فنی
خدمات کومٹا نہ سکی۔ اس کی ایک ایک اینٹ خاندان شریفی کی عظمت رفتہ کی داستان
سنارہی ہے۔ یہ ایک تہذ یبی اور سیاسی آماجگا ہ تھی۔ پنڈت جواہرلعل نہرو،
مہاتماگاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، ولبھ بھائی پٹیل اور لارڈہاسٹنگ کے علاوہ
راجپوت اور امرا کا یہاں آناجانا تھا۔ شر یف منزل نے کئی رول اداکیے ہیں۔ آزادی کی
تحریک یہاں سے بھی شروع ہو ئی،یہیں ارباب علم و فن اور ارباب اقتدار کی محفلیںسجتی
تھیں۔ غدر کے وقت یہ رفیوجی پناہ گاہ بھی رہی تھی۔ شر یف منزل، اسپتال (ہندوستانی
دواخانہ) اور کالج کا درجہ رکھتی تھی جہاں مریضوں کے علاج کے علاوہ تشنگان علم طب
کو یہ فن سکھایا جاتا تھا۔ ملک اور بیرون ملک سے آنے وا لے روزانہ پانچ سو مر یضو
ں کا علاج کیا جاتا تھا۔ یہاں غریب مر یضو ںکاعلاج مفت کیا جاتا تھا اور تعلیمی
اخراجات بھی دیے جاتے تھے۔ یہیں84 نایاب فارمولے پیٹنٹ کیے گئے تھے جیسے مصفی خون،
شر بت صد ر،حب کبد اورا کسیر نساء وغیرہ۔
ملک کے اکثر شاہی حکیموں(پٹیالہ،
نابھا، گوالیار جند اوررامپور) کا تعلق بھی
شریف منز ل سے تھا۔
حکیم
شریف خان کے بیٹے حکیم صادق علی خان نے اس کے قریب ایک مسجد بنواکراپنے والدکے نام
سے موسو م کی تھی۔ یہ مسجد’مسجد شریف خانی‘ کے نام سے مشہورہے۔ ان کے بعد غلام
محمود حکیم خان اس کے انچارج ہوئے،ان کے بعدحکیم عبدالمجیدخان،حکیم واصل خان، حکیم
اجمل خان،حکیم محمداحمدخان، حکیم ظفر خان،جمیل خان،محمود احمد خان، مسرور احمد خان
باری باری اس کے انچارج مقرر ہوئے۔
اسی
خاندان میں حکیم شریف خان کے بیٹے حکیم محمودکے ہاں 11 فروری1864 کوایک چاندسا بیٹا
پیدا ہوا۔ چہرے پر نور اور پیشانی سے اقبال مندی کے آثار نمایاں تھے۔ اس کا
نام’اجمل‘ رکھا گیا جو اسم بامسمیٰ تھا۔ اس کی معصوم ادائیں اورسعادت مندی سے صاف
ظاہر ہورہا تھا کہ کچھ اہم مقصد اور خاص مشن کے لیے قدرت نے خاندان شریفی کی آغوش
میںپرورش پا نے کے لیے بھیجاہے جہاں پہلے ہی سے اس مشن کی تکمیل کے سارے اسباب
موجود ہیں۔ روا یتی تعلیم کے ساتھ (عربی، فارسی )
قرآن کریم حفظ کیا۔عربی اور فارسی کے علاوہ انھوں نے بیس سال کی عمر میں
فلسفہ، طبیعیات، حدیث، تفسیر قرآن مجید اور طب یونانی کا گہرامطالعہ کرکے ان میں
مہار ت حاصل کرلی۔طب یونانی اور حکمت حکیم عبدالجمیل (صدیقی دواخانہ، دلی) سے سیکھی۔
حکیم
اجمل خان نے تکمیل تعلیم کے بعد جب عملی زندگی میں قد م رکھا تو ابھی جوانی پرفصل
بہارکی آمدتھی۔ وطن کی محبت سے سرشا ر اور خد مت خلق کے جذبے سے لبریز سینے میں
گدازدل تھا اور وہ سچے محب تھے وطن، قومی یکجہتی اورہم آہنگی کے لیے مسلسل محنت کی۔ان
کاان پر میدان میں بہترین حصہ رہا مگرسب سے اہم کام طب یونانی کا فروغ تھا۔انھوں
نے طبا بت کے ذریعے عوام الناس کو فیض پہنچانا شروع کیا۔ اس میںمسلسل تجربا ت اورتحقیقات کوتوسیع دی۔ یہاں
تک کہ ان کی مہار ت کی شہرت کا ڈنکا ساری دنیا میں بجنے لگا اورلوگ ان کو حکیم
اجمل خان کے نام سے جاننے لگی۔ ان کی شہرت نہ صرف حکیم بلکہ طبی محقق،مجاہد آزادی،اور
شاعر سے ہونے لگی۔ نواب رامپور کے طبیب
خاص مقرر ہوئے جہاں انھیں’مسیح الہند‘ کاخطاب دیاگیا۔وہ طب یونانی کے بے تاج
بادشاہ تھے۔خدا نے ان کے ہاتھ میں شفا اور اس فن پر ایسی پکڑ دی تھی کہ بعض او قا
ت صرف مشاہدے اور نبض دیکھ کر ہی مرض کی تشخیص کرلیتے تھے۔
حکومت
برطانیہ اپنے ساتھ نیا طریق علاج ’ایلوپیتھی‘ ساتھ لائی تھی بلکہ جہاں جہاںان کی
حکومت تھی سبھی جگہ انھوں نے یہ طریق علاج رائج کیا۔حکومت برطانیہ اچھی طرح جانتی
تھی کہ حکیم ووید نہ تو کسی جامعہ سے فارغ ہیں اورنہ ہی ان کے پاس کوئی ڈگری ہے۔
اس نے ایک سرکولر جاری کیا کہ یونانی، آیورویدک اور ایلوپیتھی پریکٹس وہی کرسکتے
ہیںجن کے پاس ڈگری ہوگی۔ حکیم اوروید ڈگری
کہاں سے لاتے؟ کیونکہ اب تک باقاعدہ کالج کاقیام عمل میں نہیں آیا تھا۔حکیم اجمل
خان حکومت کی اس چال کواچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے لوگوں میں بیداری
پیدا کی اور سبھی پیتھی والوں کو ملا کر ملک گیر تحر یک چلائی اور حکومت کو گھٹنے
ٹیکنے پر پر مجبور کردیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ ابھی جو جیسے پریکٹس کرتے ہیں کرتے
رہیںمگرآئندہ کے لیے ڈگری ضروری ہے۔یونانی اور آیور و ید ک میں تحقیق کاذوق، اس
کی باقاعدہ اور باضابطہ تعلیم کا نہ ہونا بھی اس خدشے کی تقویت کا سبب بنا۔اس خلا
کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے دہلی میں ایک آیورو یدک اور یونانی کالج کی بنیاد
ڈالی۔ کیو نکہ اگر بقراط، ابن سینا اور جالینوس کا ذ کر خیرہوتا ہے توسشرت اور چرک
کی بھی جے جے کارہو۔ امداد کے لیے اپنا دواخا نہ جو ’ہندوستانی دواخانہ‘ کے نام سے مشہور تھا، غریبوں کے لیے وقف کردیا۔
ڈاکٹرسلیم
الزماں صدیقی نے یونانی ادویات پر ریسرچ کر کے اسے نئی جہت عطاکی۔آیورویدک اور یونانی
دوائوں پر تحقیقات کے لیے ایک ادارہ بنام ’مجلس تحقیقات علمی‘ کی داغ بیل ڈالی۔
اسرول سے کیمیائی اجزا تحقیق کر کے نکالے گئے جوانہی کے نام اجملین،اجملنین اوراجملنیسن سے موسوم کرد یے
گئے۔یہ دوا ئیں ہائی بلڈپریشرمیںاستعمال کی جاتی تھیں( ایلوپیتھی میںبھی اسی مرض کے لیے استعمال کی
جاتی تھیں)۔ ان کے تجربات کا مجموعہ مع طبی ادویات ’حاذق‘ کے نام سے کتابی شکل میںموجود
ہے۔
انیسویں
صدی کاآخری دورتھااس وقت امت مسلمہ کے ہی نہیں، ملک کے سیاسی حالات بھی دگرگوں
تھے۔ ہندو ستا نیوں پر انگریز ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔حکومت برطانیہ کے خلاف
آزادی کی تحریک شروع ہوچکی تھی۔انھوں نے طب کے ساتھ سماجی اور سیاسی خدمات کا بھی
بیڑہ اٹھایا اوراپنی صلاحیتوں اور وسائل کا بھرپور استعما ل کرکے قوم وملک کو مستفید
کیا۔ ملک میں راجہ رام موہن رائے، ساوتری بائی پھلے، فاطمہ شیخ، سرسیداحمد خا
ن،الطاف حسین حالی، حسرت موہانی، علامہ اقبال، گاندھی جی، پنڈت جواہر لعل
نہرو،ولبھ بھائی پٹیل،مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزادجیسی عبقری شخصیات ہندو ستا نیوں کی مختلف
طریقہ سے خدمات میں لگی ہو ئی تھیں۔راجہ رام موہن رائے، ساوتری بائی پھلے، فاطمہ شیخ
نے عور توں میں مساوات اوران کی تعلیم کے لیے کوشاں تھیں اور ستی کی رسم کوختم
کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا تھا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، مہاتما گاندھی
اور ابوالکلام آزاد ملک کے سیاسی حالات کوٹھیک کرنے اور انگریزوں کی غلامی کا چو
لہ اتارپھینکنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے تھے۔ سرسیداحمد خان، الطاف حسین حالی، حسرت
موہانی نے مسلمانوں کو تعلیم حاصل کر نے، اپنے حالات درست کرنے اور خا ص طو رپر
انگریزی تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا۔ علامہ اقبال نے آفاقی نظریہ پیش کیااور
نوجوانوںکو مخاطب کرکے انھیں ستارو ں پرکمندڈالنے کی ترغیب دی، سوئی ہوئی قوم کو
جھنجھوڑا اور تعلیم پرزو رملک کوآزادکرانے کی ترغیب اوراسی کے ساتھ مسلمانو ں کی زبوں
حالی کو درست کرنے کی بھی تحریک و ترغیب دی۔ حکیم اجمل خان سچے محب وطن تھے۔ حکومت
برطانیہ ہندوستانیوںکو حقیراور ذلیل سمجھ کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑرہی تھی۔ سارے
ہندوستانی ہندو،مسلم، سکھ،عیسائی ایک ہو کر ملک کوآزاد کرانے کی فکرمیںلگے ہوئے
تھے۔وہ اپنے ساتھ انگریزی تعلیم، سائنس او ر ٹیکنالوجی ضرور لا ئے تھے۔ نئی ایجادات
سے ملک کوترقی دے کر بین الاقوامی معیارپر ضرورلارہے تھے مگر آزادی بہرحال آزادی
تھی۔
حکیم
صاحب کی زندگی میں بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب انھوں نے سیاسی زندگی میں قدم
رکھااور اردوہفتہ واری ’اکمل الاخبار‘ کے لیے لکھنا شرو ع کیا جسے ان کے خاندان
والوں نے جاری کیا تھا۔وہ اس وفد کابھی حصہ تھے جس نے شملہ میںوائسرائے آ ف انڈیا
سے1906 ملاقات کر کے میمورنڈم پیش کیا
تھا۔ انھوں نے ڈھاکہ کے اس فنکشن میں بھی حصہ ْلیاتھا جہاں 30 دسمبر 1906 آل انڈیامسلم
لیگ کاقیام عمل میں آیاتھا۔ ایسے نازک وقت میں جب مسلم لیڈروں کی اکثریت قید میں
تھی حکیم صاحب نے مدد کے لیے گاندھی جی سے ملاقات کی۔اس کے بعد مولاناآزاد، محمدعلی
جوہرکے ساتھ مل کرمولاناشوکت علی کے ساتھ تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ وہ
Quit india تحریک
کا بھی حصہ تھے۔
وہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیان میں سے تھے۔ اس دوران یونیورسٹی علی گڑھ سے دہلی
منتقل کی گئی۔یونیورسٹی کے مختلف مسائل کو حل کیا (اپناپیسہ خود لگایا) انھوںنے سینٹرل
کالج(دہلی)، ہندوستانی دواخانہ، آیورویدک اور یونانی طبیہ کالج(دہلی) قائم کیا۔
حکیم
اجمل خان کواردو ادب سے بہت لگائو تھا۔وہ برسوں’ اکمل الاخبار‘سے وابستہ رہے۔
انھوں نے شاعری شروع کی اور ’شیدا ‘تخلص اختیا ر کیا۔ ادب کی مختلف اصناف (
غزل،نظم وغیرہ ) میںطبع آزمائی کی اورکامیاب رہے۔شاعری میںتغزل کا رنگ تھا۔ ان کی
شاعری میں گل و بلبل کی داستان،لب و رخسا ر کے فسانے کے علاوہ حقائق حیات اورفلسفہ
زندگی بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے اشعار میںرندو میکدہ، حسن و عشق کے ساتھ غم دوراں اور غم جاناں کا بھی ذکر کیا
ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں ؎
دردکورہنے دے دل میں
دواہوجائے گی
موت
آئے گی تواے ہمدم شفاہو
جائے گی
چرچہ
ہمارا عشق نے کیوں جابجا کیا
دل
اس کو دے دیا تو بھلا کیا برا کیا
رخسار
پر ہے رنگ حنا کا فروغ آج
بوسے
کا نام میں نے لیا وہ نکھر گئے
وہ
سر ہی کیا جس میں تمھارا نہ ہو خیال
وہ
دل ہی کیا کہ جس میں تمھارا نہ ہوگزر
ان
کاانتقال29 دسمبر1927 کوامراض قلب سے ہوا۔انھیں طبیہ کالج قرول باغ کے قریب دلی میںدفن
کردیاگیاجہاں ان کے خاندان کے دیگرافراد دفن تھے (موجودہ جگہNear
RK Ashram Metro Station ہے)۔
انعامات و اعزازات
- جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پہلے چانسلر منتخب ہوئے (1920) جس پروہ تاحیات برقراررہے۔
- انھیں مسیح الملک،حاذق الملک کا خطاب دیاگیا۔
- وہ واحد شخص تھے جنھیں انڈین نیشنل کانگریس، مسلم لیگ اور آل انڈیاخلافت کمیٹی کاصدر چناگیا تھا۔
- وہ پہلے اورواحد مسلم تھے جنھو ں نے ہندومہاسبھا کے سیشن کی صدارت کی تھی۔
- حکومت نے ان کے نام کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔
- طبیہ کالج (دلی) سے متصل اجمل خان پارک بنایا گیا ہے۔
Dr. Abu Talib Ansari
187, Ghori Para
Bhiwandi (Thana) -421308
drabutalibansari@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں