اردو دنیا،جولائی 2025
پچھلے
ابواب میں یہ بات بہ صراحت واضح کی جاچکی ہے کہ تاریخ سے ہماری کیا مراد ہے، اس کے
مطالعہ و تدریس کے کیا حدود ہیں اور تشکیل تاریخ میں ماخذ کس طرح استعمال کیے جاتے
ہیں، ان ابواب کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہوگی کرتاریخ ایک لامحدودمضمون
ہے۔ اس کے مطالعہ کا دائرہ نہ توارتقائے انسانی کے مختلف مراحل یا قرون تک محدود
ہے اور نہ انسان کی اجتماعی زندگی کے کسی مخصوص گوشے تک۔ تاریخ ایک نامیاتی وحدت
رکھتی ہے جس کی تقسیم معنوی اعتبار سے نہیں کی جاسکتی چونکہ اس ہمہ گیر حیثیت سے
تاریخ کا مطالعہ اسکولی مدت کے دوران ممکن نہیں ہے اس لیے تدریس میں سہولت کی خاطر
اس کی نمایاں نوعیت اور خصوصیت کی بنا پر اصناف بندی کی جاسکتی ہے۔ موٹے طور پر یہ
اصناف بندی تین طریقے سے کی جا سکتی ہے۔:
(الف)
باعتبار نوعیت: اس کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ مقامی تاریخ ، صوبائی یا علاقائی
تاریخ، ملکی تاریخ، طبقاتی تاریخ اور عالمی تاریخ۔
(ب)
باعتبار موضوع: سیاسی تاریخ، تمدنی اور ثقافتی تاریخ، موضوعاتی تاریخ ، اقتصادی
تاریخ اور اجتماعی تاریخ۔
(ج) باعتبار ہیئت: مختصر تاریخ، جامع تاریخ، عمودی
تاریخ ، افقی تاریخ۔
اس
اصناف بندی پر اب ہم ذرا تفصیل سے نظر ڈالیں گے۔
(الف)
باعتبار نوعیت
مقامی
تاریخ: اگر ہم انسانی تاریخ کا تصور ایک عظیم پریمڈ کی شکل میں کریں اور اس میں سے
ایک حقیر ذرہ الگ کر لیں تو اسے مقامی تاریخ کہا جا سکتا ہے۔ مقامی تاریخ لازمی
طور پر صرف اس مقام تک محدود نہیں ہے جہاں بچہ کی پیدائش ہوتی ہے یا اس کی نشوونما
ہو رہی ہے۔ اس میں گرد و نواح کی تاریخ بھی شامل ہوتی ہے۔ وہ تمام چیزیں جن سے کچھ پرانی روایات یا قصے
کہانیاں منسوب ہیں مقامی تواریخ کا مواد فراہم کرتی ہیں۔ مثلاً مقامی تیوہار میلے
ٹھیلے، بازار، رسم و رواج ، تفریحی مشاغل وغیرہ۔ اس مواد میں دل کشی اور رنگارنگی
پائی جاتی ہے۔ قدیم نشانات اور آثار بھی جگہ بہ جگہ بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گاؤں یا قریہ کا پرانا
پوکھرا، پختہ تالاب، پختہ کنواں، پل، پڑاؤ، دھرم شالہ، کھنڈرات، عبادت گاہیں،
مقبرے، زیارت گاہیں، سرائیں یہ سب چیزیں اپنی تاریخ رکھتی ہیں کبھی بھی کوئی خاص
نام یا کہانی بھی ان سے منسوب ہو جاتی ہے۔ تاریخی اہمیت کی یہ سب چیزیں کہیں زیادہ
اور کہیں کم ملتی ہیں۔ جو گاؤں، قریہ یا قصبہ جتنا پرانا ہو گا اسی قدر وہاں تاریخی
آثار یا نشانات ملنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ کچھ چیزوں کی تاریخ مشہور ہوتی ہے۔
کچھ چیزوں کی تاریخ کے بارے میں معلم تاریخ بڑے بوڑھوں سے رابطہ قائم کر کے
معلومات فراہم کر سکتا ہے۔
ہر
چند کہ مقامی طور پر دست یاب سارے تاریخی مواد کی صراحت درسی کتب میں ممکن نہیں ہے
لیکن یہ مواد طلبہ کو تاریخ کے مضمون بالخصوص سماجی مطالعہ سے آشنا کرنے کے لیے
مفید اور کار آمد ہے۔ معلم تاریخ کو ان کا استعمال غیر رسمی طور پر کرنا چاہیے۔
چونکہ یہ ساری چیزیں طلبہ کے ذاتی مشاہدہ و تجربہ سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے سماجی
مطالعہ کا شوق پیدا کرنے اور باضابطہ تاریخی مطالعہ کے لیے یہ مضبوط بنیاد فراہم
کر سکتی ہیں۔ طلبہ کو یہ محسوس کرایا جا سکتا ہے کہ ان کے عقائد، رسوم رواج زبان ،
طرز معاشرت وغیرہ جوان کے اسلاف کی دین ہے کس طرح قدرتی حالات اور تاریخی عوامل سے
اثر انداز ہوتے ہیں۔ پرانا پوکھرا، تالاب ، کنواں، دھرم شالا عبادت گاہ، پرانا
مدرسہ، ان کا سماجی سرمایہ ہیں جو ان کے بزرگوں نے ان کے لیے چھوڑا ہے۔ اس سماجی
سرمایہ کی کچھ اہم چیزیں چنیں قومی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ان چیزوں کی کہانی
طلبہ کے لیے دل چسپ ہوسکتی ہے۔ یہ چیزیں کتنی پرانی ہیں خود ان کا گاؤں یا قصبہ
کتنا پرانا ہے کیا اس کے آباد ہونے کی کہانی انھیں معلوم ہے ؟ نئی آبادیاں کیسے
بستی ہیں ان کے سماجی سرمایہ کی جو چیزیں ہیں کیا ان کے بنانے والوں کے نام انھیں معلوم
ہیں، یہ کون لوگ تھے ، ان چیزوں کی تعمیر انھوں نے کس مقصد سے کی تھی؟ اس قسم کے
سوالات پر غور کرنے سے طلبہ میں تاریخی شعور پیدا ہوتا ہے۔ اس تسلسل میں طلبہ یہ
بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت ترقیاتی منصوبوں کے تحت سڑک، پل، باندھ، نہر، ٹیوب ویل،
فیکٹری ، اسکول، اسپتال ، پاور ہاؤس وغیرہ کی شکل میں جو چیزیں ان کے قصبہ یا ان
کے آس پاس بن رہی ہیں وہ کس طرح ان کی زندگی پر اثر ڈال رہی ہیں اور آئندہ نسلیں
کس طرح ان سے فیض یاب ہوں گی اور یہ تاریخی سرمایہ کا حصہ بن جائیں گی۔
مقامی
تاریخ کے مطالعہ میں ایسے سماجی مسائل اور حالات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے جو طلبہ
کے ذاتی مشاہدہ اور تجربے کے دائرے میں ہوں جیسے ذات پات اور چھوا چھوت کا مسئلہ،
توہم پرستی، مضرت رساں رسم و رواج کمزور طبقات میں نسبتاً زیادہ غریبی اور پچھڑا
پن وغیرہ۔ طلبہ ان مسائل کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ زیادہ ترقی یافتہ اور
کم ترقی یافتہ قصبات سے اپنے قصبہ کا مقابلہ وموازنہ کر کے چند مثبت نتائج اخذ کریں۔
مثلاً تعلیم و تجارت و روزگار کے بہتر مواقع ، نقل و حمل کے ذرائع اور سامان راحت
جیسے پینے کا پانی، روشنی، علاج وغیرہ کی فراہمی کس طرح سماجی زندگی کے معیار کو
بہتر بناتی ہے۔ اگر یہ مطالعہ تاریخی عوامل کی روشنی میں طلبہ کے ذہنی استعداد اور
درجہ کے عام معیار کو سامنے رکھ کر کرایا جائے تو مقامی تاریخ زیادہ بامقصد بن جاتی
ہے۔
مقامی تاریخ کا مطالعہ
مقصود بالذات نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ طلبہ میں تاریخ سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور ان
میں تاریخی تسلسل اور نشو و نما کا شعور پیدا ہوتا ہے جو تدریس تاریخ کا ایک اہم
مقصد ہے۔ طلبہ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کا چھوٹا سماج ایک بڑے سماج اور عالمی
برادری کا حصہ ہے ان کی حیثیت کل کے ایک جزو کی ہے۔
صوبائی
یا علاقائی تاریخ: علاقائی تاریخ ایک طریقہ سے مقامی تاریخ کی توسیع ہے۔ عمر کے
بڑھنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو دوسرے مقامات پر جانے اور وہاں کی قابل دید چیزوں کو دیکھنے
کے مواقع زیادہ ملنے لگتے ہیں۔ اس طرح ان کے مشاہدات اور تجربات میں زیادہ وسعت
اور گہرائی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ طلبہ سمجھنے لگتے ہیں کہ تحصیل، ضلع، اور صوبہ
انتظامیہ کی مختلف اکائیاں ہیں اگر ان میں لسانی وحدت اور بود وباش کے طریقوں اور
رسم و رواج میں یگانگت ملتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ اکائیاں علاقہ یا خطہ سے
مطابقت رکھتی ہوں، کیونکہ جغرافیائی علاقہ یا خطہ کی بنیاد زمین کی ساخت آب و ہوا
اور قدرتی وسائل پر ہوتی ہے۔ کبھی کبھی بعض خطے یا علاقے کسی دور میں خاص شہرت اور
تاریخی اہمیت حاصل کر لیتے ہیں۔ مثلاً قدیم زمانہ میں اجودھیا کا علاقہ کروکشیتر
کا علاقہ ، سلاطین شرقیہ کے زمانہ میں جونپور کا علاقہ، نوابین اودھ کے زمانے میں
بہ شمولیت فیض آباد اودھ کا علاقہ، روہیلہ سرداروں کے تعلق سے روہیل کھنڈ کا
علاقہ ، بندیل را جاؤں اور پھر مرہٹوں کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے بندھیل کھنڈ
کا علاقہ ، بعض خطوں اور علاقوں میں اہم تاریخی نشانات و آثار ملتے ہیں۔ مختلف
مقامات پر پائے جانے والے تاریخی آثار و باقیات کی کوئی حتمی اور مکمل فہرست مرتب
نہیں کی جا سکتی۔ ان میں جو بہت اہم ہیں اور تاریخ میں خاص مقام رکھتے ہیں ان کا
تذکرہ عام تاریخوں میں کہیں مجملًا اور کہیں مفصل مل جاتا ہے اس لیے ان کی صراحت کی
اس جگہ چنداں ضرورت نہیں ہے۔
تاریخی
نقطہ نظر سے جو خطے یا علاقے یا صوبے خاص اہمیت کے حامل رہے ہیں ان سے متعلق بہت سی
تاریخیں لکھی گئی ہیں۔ تاریخیں مواد کی نوعیت اور معیار کے لحاظ سے مختلف درجے کی ہیں۔ چونکہ علاقائی
تاریخ کا دائرہ زماں و مکاں دونوں اعتبار سے عام تاریخ کے مقابلے میں مختصر و
محدود ہوتا ہے اس لیے اس کے مطالعہ اور تدریس میں اس کے تذکرہ کا مقصد بھی محدود
ہے۔ ملکی تاریخ کے تناظر میں وہ جس مقام کی مستحق ہے اسی لحاظ سے اس پر توجہ دینی
چاہیے۔ طلبہ یہ محسوس کریں کہ مقامی تاریخ کی طرح علاقائی یا صوبائی تاریخ ملکی
اور قومی تاریخ سے علاحدہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ بھی تاریخی پریمڈ کا ایک جزو
ہے۔ اس طرح طلبہ میں وسیع النظری، باہمی اشتراک تعاون اور قومی یک جہتی کے جذبات
کو فروغ ملے گا۔
قومی
تاریخ: لفظ قوم کا استعمال سیاق وسباق کے
اعتبار سے مختلف معنی رکھتا ہے۔ ایک ملک کے باشندے رنگ، نسل، مذہب، زبان اور تہذیب
و تمدن کے امتیازات اور اختلاف کے باوجود اپنی قومیت اپنے وطن کی نسبت سے ظاہر
کرتے ہیں کبھی نسل، مذہب، زبان و ادب، عقائد و خیالات اور کلچر کی یکسانیت رکھنے
والے افراد کی جماعت بلا تخصیص ملک و وطن چند مقاصد کے لیے اپنے کو ایک علاحدہ قوم
تصور کرتی ہے اور اپنی انفرادیت قائم رکھنے اور اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر جدوجہد
کرتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر اپنے ملک کی اقلیتیں مسلمان، عیسائی، پارسی، سکھ اپنے
کو اکثر علاحدہ قوم بھی کہتی ہیں۔ نسل ، زبان اور کلچر کی یگانگت کی بنا پر قومیت
کی مثالیں ہیں، افغان قوم، مر ہٹہ قوم راجپوت وغیرہ وغیرہ۔
جب
ہم کوئی تاریخ کی بات کرتے ہیں تو لفظ قوم سے ہمارا مطلب موخر الذکر معنی میں ہوتا
ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب کسی قوم میں سیاسی بیداری پیدا ہو جاتی ہے یا
اسے سیاسی اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو اس قوم کے دانشور قومی تاریخ کی تشکیل کرکے
دنیا کی نظروں میں اپنی قوم کو سر بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس قوم کی تاریخوں
میں قومی مشاہیر کے کارنامے بالعموم بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں۔ اس قوم کی
کوشش کا ایک بڑا محرک یہ بھی ہے کہ آئندہ نسلوں کے استفادہ کے لیے قومی تاریخ
محفوظ کر دی جائے۔ جن اقوام نے عالمی سیاست اور تہذیب و تمدن کو متاثر کیا ہے ان کی
بہت سی تاریخیں لکھی گئی ہیں جن میں کچھ مستند اور اعلیٰ پائے کی ہیں۔ ان کے
مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تاریخی عوامل کس طرح انسان کی سماجی زندگی پر اثر
انداز ہوتے ہیں۔
کبھی
کبھی قوم کے ہم مسلک اور ہم خیال افراد پر مشتمل جماعت اپنے کو ایک ملت مت یا پنتھ
تصور کرتی ہے۔ جسے ملت اسلامیہ ، ملت بیضا ، ملت اثنا عشری، بودھ مت، جین مت، کبیر
پنتھی وغیرہ۔ ان کی بھی تاریخیں لکھی جاتی ہیں ایسی تاریخوں کو قومی تاریخ کا
مختصر نمونہ سمجھنا چاہیے۔ اسکولی سطح پر تاریخ کے نصاب میں کسی مخصوص قوم یا ملت
کی تاریخ کو علاحدہ سے جگہ نہیں دی جاسکتی۔ ویسے ایک لحاظ سے قومی تاریخ کو ملکی
تاریخ کا ہی ایک حصہ کہ سکتے ہیں۔ قومی تاریخ کے اہم نقوش ملکی تاریخ کے تناظر میں
پیش کیے جاتے ہیں۔
ملکی
تاریخ: ملک ایک سیاسی وحدت ہے اس کے باشندے ایک ہی نسل و قوم کے بھی ہو سکتے ہیں
اور مختلف نسل و قوم کے بھی۔ جس ملک میں مختلف نسل و قوم کے لوگ قابل لحاظ تعداد میں
آباد ہیں وہاں کی تاریخ کافی پیچیدہ ہوتی ہے۔ ملک کی قدامت اور وسعت بھی ملکی تاریخ
کی پیچیدگی میں اضافہ کرتی ہے۔ ملکی تاریخ مرتب کرنے میں قومی، معاشرتی اور علاقائی
عصبیت اور جانب داری کی جھلکیاں اکثر نظر آتی ہیں۔ ایسے سنجیدہ ثقہ اور صاف ذہن
رکھنے والے اہل قلم اور مورخ کم ہوتے ہیں، جو ذاتی تعصبات اور پسند یا نا پسند سے
بلند ہو کر تاریخی واقعات و حالات کو پیش کرنے میں دیانت دارانہ اور متوازن رویہ
اپنا کر حقیقت نگاری کا حق ادا کر سکیں۔
طبع
زاد تاریخ لکھنے کے مقابلہ میں تاریخ کی درسی کتب مرتب کرنا بہت مشکل کام ہے۔ درسی
کتب کی تیاری میں مجوزہ نصاب سے بڑی مدد ملتی ہے۔ نصاب جتنی توجہ، محنت قابلیت اور
دیانت داری سے مرتب کیا جائے گا۔ تاریخ اتنی ہی جامع اور متوازن ہوگی۔ اسکولی سطح
پر ملکی تاریخ ہی عام تاریخ یعنی جنرل ہسٹری کی شکل میں نصاب میں جگہ پاتی ہے۔
انگریزی دور حکومت میں برطانیہ کی سیاسی تاریخ بھی عرصہ تک داخل نصاب رہی۔
طبقاتی
تاریخ: طبقاتی تاریخ کو ایک طرح سے علاقائی تاریخ کی توسیع سمجھنا چاہیے۔ جب روئے
زمین کا کوئی بڑا جغرافیائی خطہ یا طبقہ کچھ خاص وجوہ سے عالمی توجہ کا مرکز بن
جاتا ہے تو مبصرین سیاست وہاں کے حالات کا تاریخی پس منظر میں مطالعہ کرتے ہیں۔ ایسے
مطالعہ کا غالب پہلو اقتصادی، سیاسی یا معاشرتی ہوتا ہے اسے طبقاتی تاریخ کا نام دیا
جاتا ہے۔ اس قسم کی تاریخ عصری مسائل کو
سمجھنے اور اس خطہ سے متعلق کسی موضوع پر تحقیق کرنے والے کے لیے کارآمد ہوتی ہے۔
عالمی
تاریخ: عالمی تاریخ صحیح معنوں میں اصل تاریخ ہے، اگر ہم اس کا تصور ایک عظیم
انسانی پریمڈ کی شکل میں کریں تو روئے زمین پر انسانی وجود اس کا نقطہ عروج قرار
پائے گا۔ یہ وجود کب اور کیسے رونما ہوا اس کے بارے میں مختلف نظریات اور قیاس
آرائیاں ہیں مگر یقین کے ساتھ کچھ کہنا محال ہے۔ ہاں یہ ضرور نظر آتا ہے کہ اس
وجود کے ارتقا اور نشوونما کا سلسلہ برابر جاری وساری ہے۔ معلوم نہیں کتنی صدیاں بیت
چکیں ، کتنے دن گزر چکے ، کتنا زمانہ ہو گیا جب انسان نشوونما کے مختلف مراحل و
منازل طے کرتا ہوا اس شکل میں اور اس مقام پر آج پہنچا ہے جس کے مختلف قسم کے
مظاہرے ہمارے سامنے ہیں۔ نشو و نما کے اس تسلسل میں قدرتی عوامل سے زیادہ انسان کی
مسلسل جدوجہد کو بڑا دخل ہے۔ وہ نامساعدقدرتی حالات سے ستیزہ کار رہا ہے۔ مخالف
قوتوں سے نبرد آزمائی کر کے ان کی تسخیر کی ہے اور انھیں اپنے مصرف میں لا رہا ہے
وہ سمندر کی پنہائیوں میں پہنچا ہے۔ پہاڑ کی سر بفلک چوٹیوں پر اس نے اپنی کامرانی
کا پرچم لہرایا ہے۔ وہ ثوابت اور سیاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ تسخیر کائنات کا
جذبہ اسے فطرت کے راز ہائے سربستہ کے انکشاف میں سرگرم عمل بنائے ہوئے ہے۔ اس ساری
جد وجہد کے پیچھے اقبال کے الفاظ میں خوب سے خوب تر کی تلاش کا جذبہ کار فرما ہے۔
عالمی
تاریخ دراصل سیل وقت کی تاریخ ہے جس کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ کوئی انتہا ، نہ سمت
ہے نہ منازل ہیں۔ اس سیل میں انسان کے ارادی افعال و اعمال کے تعامل سے واقعات و
حادثات کی شکل میں نقوش و آثار ابھرتے رہتے ہیں۔ ماضی میں ابھرے ہوئے انھیں نقوش
و آثار کا مطالعہ عالمی تاریخ کا موضوع ہے۔
عالمی
تاریخ کا کینوس اتنا بسیط و عریض ہے کہ اس کا مکمل احاطہ بڑے سے بڑے مورخ کے لیے
بھی دشوار ہے۔ اس کینوس پر موزیک Mosaac کے صرف انہی
رنگوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن میں امتیاز ممکن ہے، جیسے وسیع پیمانے پر قبائل
اور اقوام کا ایک خطہ ارض سے دوسرے خطہ ارض کی طرف نقل و حمل ، معاش کی خاطر قدرتی
وسائل اور ذخائر کی تلاش کی سرگرمیاں، ان پر قبضہ کرنے کی جد و جہد ، نئے بحری اور
بری راستوں کی تلاش دریافت، سیاسی اقتدار کے لیے باہمی جنگ و جدال، ملک گیری اور
نام آوری کی ہوس، اس کے ہلاکت آفریں نتائج ، طوائف الملوکی کے ادوار، بڑی بڑی
مملکتوں کی تشکیل و تخریب، اقوام عالم کا عروج و زوال شہنشاہیت اور ملوکیت کے پیدا
کردہ مسائل، قدیم تہذیبوں کا غیر فانی ورثہ ، مشاہیر کے کارنامے، سیاسی و اقتصادی
انقلابات سامان راحت فراہم کرنے اور اجتماعی زندگی کو بہتر بنانے کی تحریکات، اہم
اکتشافات اور ایجادات وغیرہ۔
عالمی
تاریخ کا یہ مواد ہمیشہ سے علمائے تاریخ، ماہرین تہذیب و تمدن اور محققین کی دل
چسپی اور توجہ کا مرکز رہا ہے اور اس لیے یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ تاریخ
کے تدریسی نصاب میں ابتدا ہی سے عالمی تاریخ کے اہم اجزا کو جگہ دی گئی ہے اور آج
بھی ہر ملک اور ہر سطح کے نصابات میں مختلف انداز سے عالمی تاریخ کے اہم اور عہد
ساز اجزا شامل ہیں۔ عالمی تاریخ کے نمایاں اور اہم خدو خال کو صحیح تناظر میں پیش
کرنے سے طلبہ میں وسیع النظری شائستگی اور انسان دوستی کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔
ماخذ:
تدریس تاریخ، مصنف: خلیل الرب، تیسری طباعت: 2016، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ
اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں