26/12/25

اڑیسہ (اڈیشا) میں اردو کا ماضی، حال اور مستقبل،مضمون نگار: شاداب عالم

 اردو دنیا،جولائی 2025

اڑیسہ(اب اڈیشا) ہندوستان کا ایک ایسا صوبہ ہے جو اپنے رقبے کے اعتبار سے آٹھویں اور آبادی کے لحاظ سے گیارہویں مقام پر ہے،یہ تنوع کے اس گلستان کی مانند ہے جس میں مختلف زبان و ثقافت کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں اڑیا کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن اس زرخیز زمین پر اڑیا کے علاوہ اردو، ہندی، تیلگو، بنگالی اور قبائلی زبانوں کے بولنے والوں کی بھی نمایاں تعداد موجود ہے جو اس کے تہذیبی کینوس کو اپنی لسانی رنگا رنگی سے مزیددلکش اور خو ش نما بناتے ہیں۔اگر تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو اڈیشا کی سرزمین کو مدتوں تک سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر پس ماندہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ البتہ یہاں مغلوں کے دور حکومت سے اردو کا وجود ہے۔جب مغلوں نے اڈیشا کو زیر نگیں کر لیا تو ہزاروں کی تعداد میں فوجی یہیں آباد ہو گئے جس میں اکثریت بہار اور بنگال کے مسلمانوں کی تھی جن کی مادری زبان اردو تھی اور یوں یہاں یہ زبان پروان چڑھنا شروع ہوئی۔ مقامی زبانوں اور تہذیبوں کے اختلاط کے نتیجے میں اڈیشا کی اردو نے ایک منفرد رنگ و آہنگ اختیار کیا، جو آج بھی اپنی جداگانہ دلکشی کے ساتھ قائم ہے۔

اڈیشا کی اردو میں اگرچہ دہلی اور لکھنؤ کی نفاست اور شائستگی تو نہیں پائی جاتی ہے لیکن اس میں مقامی تہذیب کی خوشبو اور روایات کا رنگ نمایاں ہے۔ یہ زبان یہاں کے مسلمانوں کے لیے نہ صرف اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ ان کی تہذیبی پہچان، روایتی اقدار اور ثقافتی ورثے کی امین بھی ہے۔ اردو، اڈیشا کی دھرتی پر ایک زندہ روایت کے طور پر صدیوں سے پنپ رہی ہے اور آج بھی یہاں کے باشندوں کی تہذیبی انفرادیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہاں اردو کی روایت مستحکم ہوئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اڈیشا میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو عربی، فارسی اور اردو کے بے شمار الفاظ تیزی کے ساتھ اڑیا زبان میں شامل ہونے لگے۔حفیظ اللہ نیولپوری لکھتے ہیں:

’’اردو اور فارسی کی اڑیسہ میں مقبولیت کی نشاندہی فقیر موہن سیناپتی اور رادھا ناتھ رائے کی اڑیا تخلیقات سے بھی ہوتی ہے۔ان کے علاوہ دوسرے ان کے ہمعصر شعرا و ادبا نے بھی اڑیا زبان میں بے تکلفی کے ساتھ بے شمار اردو، فارسی اور ترکی کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ بعد میں تو اردو فارسی الفاظ اڑیازبان کا حصہ بن گئے اور آج اڑیا لغات میں دو ہزار سے زیادہ اردو، فارسی اور عربی الفاظ ملتے ہیںجنھوں نے اڑیا زبان میں اپنا مستقل مقام بنا لیا ہے۔ اڑیسہ کی عدالتوں اور کچہریوں میںجو محرر،استغاثے اور قبالے وغیرہ اڑیا زبان میں لکھتے ہیں ان پر بھی اردو فارسی کے اثرات واضح ہیں۔‘‘ (اڑیسہ میں اردو، ص33)

2011 کی مردم شماری کے مطابق اڈیشا میں 2.17  فیصد باشندوں کی مادری زبان اردو ہے۔ 1902 سے اردو اور فارسی زبانیں یہاں کے تعلیمی نظام کا باقاعدہ حصہ ہیں جبکہ صوبہ اڈیشا 1936 میں اڑیا زبان کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ اگرچہ یہاں اردو بولنے والوں کی تعداد کم ہے، لیکن تعلیمی میدان میں ان کی کارکردگی قدرے تشفی بخش ہے۔ آبادی کے تناسب میں اردو پڑھنے والے طلبا کی تعداد آج بھی متوازن اور حوصلہ افزا ہے۔ حالانکہ ماضی میں تو اڈیشا کی ادبی فضا کبھی بہت شاندار نہیں رہی ہے لیکن کچھ عاشقانِ اردو نے ادب کی شمع ضرور جلائے رکھی۔ ہردے رام جودت کو اڈیشا کا اولین اردو شاعر سمجھا جاتا ہے۔ مولوی محمد سلطان راجی ایک صوفی بزرگ تھے۔ ان کی کاوشیں منثور اور منظوم دونوں اصناف میں پائی جاتی ہیں۔شیخ امین اللہ چرخی متوفی(1879) اڈیشا کے اوّلین صاحب دیوان شاعر گزرے ہیں جبکہ عبد المجید بھوئیاں حیا نے 1871 میں ’دیوان مجید‘ردیف وار مرتب کیا۔ اڈیشا کی پہلی شاعرہ فیض النسا تسخیر (ولادت1866) ہیں۔ ان کے علاوہ امجد نجمی بیسویں صدی کے بڑے شاعر گزرے ہیں۔ ان کا ضخیم کلیات’کلیات نجمی‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

 گزشتہ پانچ سالوںمیںیہاں کے دو بڑے ادیب محمود بالیسری(ف، 31اپریل 2020) اور پروفیسر کرامت علی کرامت (ف، 5 اگست 2023) اس دنیا سے رخصت ہو گئے جو کہ اڈیشا کا بہت بڑا خسارہ ہے۔ ان دونوں کی زندگیاں اڈیشا کی علمی و ادبی ضرورتوں کی ضامن تھیں۔ لیکن موت کے باد صرصر کا ہاتھ ان چراغوں کو گل کر چکا ہے تو اڈیشا کے مستقبل کا منظر کس قدر اندھیرا اور بھیانک نظر آتا ہے وہ ناقا بل بیان ہے۔ کرامت علی کرامت نے تو ادب کی مختلف جہتوں کو روشن کیا۔ شاعری، افسانے، تنقید، اضافی تنقید، مضامین، ترجمے، اداریے اور رسائل وغیرہ ان کے ادبی حوالے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے عہد کے معتبر ناقد شمس الرحمن فاروقی نے بھی کرامت علی کرامت کی کاوشوں کی بارہاپذیرائی کی ہے۔ فاروقی ایک خط میں لکھتے ہیں: 

’’جناب کرامت علی کرامت اپنی بلند پایہ تنقیدوں کی وجہ سے آسمان ادب پر ایک بادل بن کر چھا گئے ہیں۔ ان کے خیالات سے اختلاف ممکن ہے لیکن انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تنقید کی دنیا میں ان کی شہرت کے پیش نظر ان کے مجموعہ کلام ’شعاعوں کی صلیب ‘کا اہل ذوق کوانتظار تھا۔‘‘(شاخِ صنوبر،ص243)

کرامت علی کرامت فن کی تقدیس کے ساتھ علم و عمل کی سربلندی سے اردو، اردو کے رسالوں اور اداروں کو سرخرو کرتے رہے جبکہ وہ علم ریاضی(Mathematics) کے پروفیسر تھے۔ ان کی زیر نگرانی کئی اسکالروں کو اردو میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں بھی تفویض ہوئیں۔ اس اعتبار سے بھی وہ لائق احترام ہیں کہ اڈیشا جیسے غیر اردو علاقے میں اردو کی شمع جلائے رکھی۔ نہ تو پاؤں کولغزش ہوئی اور نہ احساس و خیال میں وسوسوں نے راہ پائی۔ فکر و فن کی قندیل کو تابہ مقدور سنبھال کے رکھا اور اردو کے مرکز سے دور افتادہ علاقے کو شاداب و آباد کرتے رہے۔

اردو اخبارات و رسائل:  اڈیشا میں اردو کی نشونما میں اردو اخبارات و رسائل کا اہم کردار رہا ہے۔ کٹک سے نکلنے والا ماہنامہ المنصور چند شماروں تک ہی جاری رہ سکا اور آج اس کی کاپیاں بھی ناپید ہو گئیں، 3جون 1937 کو ہفتہ وار گزٹ نکلنا شروع ہوا، یہ اڈیشا کے اردو داں طبقے میں خاصا مقبول بھی ہوا لیکن مالی تنگی کی وجہ سے زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا، اسی طرح ہفتہ وارـ’ جدید‘ اور ہفتہ وار ’بیداری‘ بھی اشاعت پذیر ہو کر دم توڑ چکے ہیں لیکن جب شاخسار جون، 1965 میں نکلنا شروع ہوا تو تمام نامساعد حالات کے باوجود یہ رسالہ ہند و پاک کے تمام بڑے ادیبوں کا مرکز ِتوجہ ثابت ہوا۔ آخر کار یہ بھی مئی 1973 میں مالی بحران کی وجہ سے شائع ہونا بند ہو گیا۔ فی الحال ماہنامہ ’صدائے اڑیسہ‘، سہ ماہی رسالہ ’ادبی محاذ‘،سہ ماہی رسالہ ’فروغ ادب ‘ اور یک روزہ اخبار’ اخبار نامہ‘ اشاعت کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

ادبی و ثقافتی تنظیمیں اور ادارے:   اڈیشا میں اردو کے ارتقا میں یہاں کے ادبی و ثقافتی اداروں نے بھی اہم کارنامے انجام دیے ہیں جن میں بزم ادب کٹک (1921)، بزم سخن اڈیشا،کٹک(1954)، بزم ظرافت کٹک، نجمی اکیڈمی کٹک، گلشن ادب سونگڑہ، سنگم لٹریری سوسائٹی بھدرک، بزم اخلاق بالیسری، بھدرک غالب اکیڈمی، بزم اردوراور کیلا وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں لیکن ان میں سے اکثر تنظیمیں اپنی خدمات انجام دے کر ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔ فی الحال فیضان ادب، پرواز سخن، بزم اردو راورکیلا،یہ تینوں تنظیمیں کافی فعال ہیں اس کے علاوہ اڈیشا اردو اکادمی بھی کافی متحرک ہے جو ادبی و تہذیبی مذاکرے اور مشاعرے گاہے گاہے منعقد کرتی رہتی ہے۔

اردو تعلیم و تدریس:   اردو زبان کے فروغ میں اڈیشا کے تعلیمی اداروں نے اہم خدمات انجام دی ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک اسکولوں میں اردو کی تدریس نہیں ہوگی تو اردو کا احیا ممکن نہیں ہے۔ اڈیشا میں پہلے کئی اسکولوں کا ذریعۂ تعلیم اردو ہوا کرتا تھا۔فی الحال صرف جھارکھنڈ سے متصل قصبہ راورکیلا، ضلع سندرگڑھ میں یہ سلسلہ باقی ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ یہاں پرائمری سے ہشتم تک کل آٹھ اردو میڈیم اسکول اور تین دسویں جماعت تک اردو میڈیم اسکول چلتے ہیں۔ ویسے تو پورے اڈیشا میں تقریباً 803 ایسے پرائمری اسکولوں میں اردو بحیثیت ایک مضمون پڑھائی جاتی ہے۔ تقریباً سولہ سو (1600) اردو اساتذہ ان اسکولوں سے وابستہ رہتے ہیں۔ اسی طرح (ME) Mass Educaton کے تحت 75 اسکولوں میں اردو کے اساتذہ مقرر ہیں۔ صوبہ اڈیشا کے کل تیس اضلاع میں سے گیارہ ضلعوں میں 180 ہائی اسکول میں196 اردو اور فارسی کے اساتذہ تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں فی الحال ہائی اسکول میں 25 سے زیادہ اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔

سرکاری مدارس:   آزادیٔ وطن سے قبل اڈیشا کا اردو تعلیمی نظام بہار کے مدرسہ شمس الھدیٰ بورڈ، پٹنہ سے ملحق تھا۔ یہاں تک کہ امتحانات کے سوالات بھی پٹنہ سے بن کر آیا کرتے تھے حالانکہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اسٹیٹ بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن، بھونیشور کے تحت کل 167 سرکاری مدارس وابستہ ہیں، جن میں دینی تعلیم کے ساتھ کچھ عصری مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ ان مدارس میں کل تقریباً 775اساتذہ تدریسی و تعلیمی فرائض انجام دیتے ہیں۔ فی الحال اڈیشا کے مختلف مدارس میں تقریباً سو سے زائد جگہیں خالی پڑی ہیں۔

کالج اور یونیورسٹی:   اڈیشا کے پانچ سرکاری اور سات نیم سرکاری Non-Government-Added)) ڈگری کالجوں اور دو یونیورسٹیوں میں کل پچیس اردو کی منظور شدہ پوسٹ ہیں، وہ کئی برسوں سے خالی پڑی ہیں۔

گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی تعلیم:    پورے اڈیشا میں صرف سات کالجوں میں بی۔اے آنرز کے کورسیز میں اردو پڑھانے کا بندوبست ہے بقیہ کالجوں میں لسانی فارمولے یعنی (MIL) Modern Indian Languages (جدیدہندوستانی زبانوں)کے تحت اردو ایک اختیاری یا لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے جبکہ صرف دو اداروں میں ایم۔اے اردو کی تعلیم و تدریس کا نظم ہے۔ ایک بھَدْرَکْ پی۔جی آٹونمس کالج جو کہ بھَدْرَکْ شہر میں واقع ہے۔ اڈیشا کے تیس اضلاع میں اردو تعلیم و تدریس کے لیے پہلے نمبر پر ضلع بھدرک کا شمار ہوتاہے۔ دوسرا شعبۂ زبان و ادب، فقیر موہن یونیورسٹی، بالاسور میںقائم ہے۔ یہاں ایم۔اے کے ساتھ ساتھ پی ایچ۔ڈی میں بھی داخلے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ایم۔اے کے درجات میں طالب علموں کی تعداد اطمینان بخش نہیں ہوتی ہے۔

لسانی سطح پر تقریباً پورے اڈیشا میں اردو کا معیار تشفی بخش نہیں ہے لب ولہجے کی بات تو دور رہی،تلفظ کا معاملہ بھی خاصا کمزور ہے۔ یہ حال صرف طلبہ کا نہیں ہے بلکہ بیشتر اساتذہ بھی اس سے مبرّا نہیں ہیں۔ ایم۔اے اور پی ایچ۔ڈی کی سطح پر طالب علموں کا تلفظ، املا، جملہ اور منجملہ سب درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ فقیر موہن یونیورسٹی کا شعبۂ زبان و ادب تین زبانوں - اڑیا، انگریزی اور اردو پر مشتمل ہے۔ سابق شیخ الجامعہ، پروفیسرسیبا پرساد ادھیکاری کے بصیرت افروز اقدامات کے نتیجے میں شعبے میں ایک جامع نصاب متعارف کیا گیا، جس میں ایک مشترکہ مضمون شامل ہے جو تینوں زبانوں کے طلبہ کو پہلے سمسٹر میں پڑھنا لازمی ہوتا ہے۔ یہ نصاب بلاشبہ بین المضامین مطالعے (Interdisciplinary Studies) کو فروغ دیتا ہے اور طلبہ کو تینوں زبانوں کی مبادیات سے روشناس ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کوجلا ملتی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف زبانوں کے فروغ میں معاون ہے بلکہ مختلف ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی اور روابط کو مضبوط کرنے میں بھی اہم ہے۔ یہ شعبہ غیر اردو علاقے میں قابل ستائش خدمات انجام دے رہا ہے۔اس طرح ہر سال تقریباً 40اڑیا اور 24انگریزی میں ایم۔ اے کرنے والے طلبہ و طالبات اردو زبان کی مبادیات یعنی حروف تہجی، اردو کی مختصر تاریخ، میر، غالب اور جوش کے چند کلام اور پریم چند کے چند افسانوں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح فقیر موہن یونیورسٹی کا شعبۂ زبان و ادب نہ صرف اڈیشا بلکہ ہندوستان کے پورے تعلیمی منظرنامے میں ایک مثالی مرکز کے طور پر اپنی منفرد شناخت قائم کر چکا ہے۔ اس کی واحد وجہ ہے کہ فقیر موہن یونیورسٹی کے انتظامیہ کا اردو کے تئیں دوستانہ رویہ ہے، جبکہ اس کے بر عکس راونشا یونیورسٹی، کٹک انتظامیہ کا رویہ غیرمناسب ہے، حالانکہ حکومت اڈیشاکی ایما پر نومبر2021 میں اردو کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر کا تقرر ہو چکا ہے۔ گریجویشن اور پی ایچ۔ ڈی کے نصابات بھی تقریبا ًڈھائی سال قبل تیار ہو چکے ہیں، مگر تاحال راونشا یونیورسٹی میں شعبۂ اردو فعال (Functional) نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چار سال کے عرصے میں ایک بار بھی گریجویشن میں داخلے کے لیے یونیورسٹی نے اشتہار شائع نہیں کیا ہے البتہ ایک سال قبل صرف پی ایچ۔ڈی میں داخلے کے لیے اشتہار شائع کیا گیا۔ تحریری امتحانات منعقد ہوئے اور دس طلبہ نے اس میں شرکت کی، لیکن اسکریننگ کے بعد زبانی امتحان ابھی تک زیرالتوا ہے۔

اڈیشا اردو اکادمی:   اڈیشا اردو اکادمی کا قیام 7؍فروری 1987 کو عمل میں آیا۔ اس کے حالیہ سابق سیکرٹری، ڈاکٹر سید مشیر عالم اپنی سربراہی میں محدود وسائل کے باوجود کچھ تعمیری اور قابل ستائش خدمات انجام د ے رہے ہیں،جو محبان اردو کے لیے باعث فخر اور لائق تحسین ہیں۔ ان کے دور میں اکادمی نے قدیم مخطوطات سمیت 23 کتابوں کو زیور طباعت سے آراستہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسکولوں اور مدارس میں تدریسی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے وقتاً فوقتاً اساتذہ کے لیے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا۔ طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے اکادمی ہر سال مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کرتی ہے جن میں اڈیشا کے مختلف کالجوں اور جامعات کے طلبہ و طالبات کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔مضمون نویسی کے مقابلے میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامی رقوم اور اسناد سے نوازا جاتا ہے، جبکہ انعام یافتگان کی مزید حوصلہ افزائی کے لیے اکادمی اپنا رسالہ ’فروغِ ادب‘ ایک سال کے لیے مفت جاری کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اکادمی بارہویں جماعت، گریجویشن اور ایم۔اے اردو کے طلبہ و طالبات کو تعلیمی وظائف بھی فراہم کرتی ہے تاکہ وہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں بہتر انداز میں جاری رکھ سکیں۔ اڈیشا اردو اکادمی غیر اردو علاقے میں وقتاً فوقتاً سمینار، ادبی اور ثقافتی پروگرام جیسے مشاعرے، شام ِغزل اور قوالی کے انعقاد کا اہتمام کرتی ہے جو اردو زبان و ادب کی ترویج کے لیے قابلِ تحسین اقدامات ہیں۔

جس طرح اردو زبان کو پورے ہندوستان میں مسائل کا سامنا ہے، اسی طرح اڈیشا میں بھی یہی مشکلات درپیش ہیں۔

سرکاری سطح پر عملی اقدامات کی ضرورت :

.1   بی۔ایڈ میں داخلے کے لیے غیر منصفانہ شرط کا خاتمہ: بی۔ایڈ کورس میں داخلے کے لیے میٹرک میں اڑیا پاس ہونے کی شرط اردو طلبہ  کے لیے غیر ضروری رکاوٹ ہے۔ حالانکہ وہ نان لینگویج سبجیکٹ کے طور پر اڑیا کا امتحان پاس کر چکے ہوتے ہیں۔ اس شرط کی تنسیخ کے لیے ضرور ی اقدامات کیے جائیں۔

.2       اردو اساتذہ کی تقرری میں ترمیم: محکمۂ تعلیم نے اسکول میں اساتذہ کی بحالی کا جو ضابطہ تیار کیا ہے اس میںترمیم کی اشد ضرورت ہے۔ OSSTET کے ضابطے کے مطابق کلاسیکل اردو ٹیچر کی تقرری کے لیے صرف عالم کے ساتھ بی۔ایڈ یابی۔اے فارسی کے ساتھ بی۔ایڈ کو اہل قرار دیا گیا ہے، جب کہ بی۔اے اردو کے ساتھ بی۔ایڈ کی شرائط کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس پالیسی میں فوری ترمیم کر کے بی اے اردو مع بی ایڈ کو بھی شامل کیا جائے تاکہ اہل امیدواروں کو مساوی مواقع مل سکیں۔

.3  اردو خواں اضلاع میں اردو افسران کا تقرر: جہاں اردو بولنے اور پڑھنے والوں کی تعداد قابلِ ذکر ہے وہاں اردو افسران کی تعیناتی ناگزیرہے تاکہ اردو کے فروغ اور انتظامی امور میں زبان کو اس کا جائز مقام دیا جا سکے۔

.4       سہ لسانی فارمولے کے تحت اردو اساتذہ کی تقرری: سہ لسانی پالیسی کے نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ مادری زبانوں کی تدریس کے لیے باقاعدہ اساتذہ کا تقرر کیا جائے تا کہ آئینی تقاضے پورے ہوں، لسانی و ثقافتی تنوع کو قومی سرمایے کا درجہ ملے،وفاقی یکجہتی کو تقویت حاصل ہو اور احساسِ محرومی کے تدارک کو یقینی بنایا جاسکے۔

.5       اردو نصابی کتابوں کی بروقت دستیابی:  ابتدائی درجات سے لے کر بارہویں جماعت تک اردو نصاب کی کتابیں بروقت فراہم کی جائیں تاکہ تعلیمی تسلسل برقرار رہے۔

.6       سبکدوش اساتذہ کی جگہ نئی تقرریاں:  جو اردو اساتذہ رسبکدوش ہو چکے ہیں ان کی جگہ فوری تقرریاں یقینی بنائی جائے تاکہ تدریسی خلا پیدا نہ ہو۔

.7       کئی اہم کالجوں میں طلبہ کی معقول تعداد کے باوجود اردو اساتذہ میسر نہیں جس کے نتیجے میں طلبہ بغیر استاد کے (MIL) Modern Indian Languages  (جدیدہندوستانی زبانوں)کے تحت ایک اختیاری یا لازمی مضمون کے طور پر اردو پڑھنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں تدریس کا معیار متاثر ہوتا ہے اور طلبہ کی تعلیمی ترقی بھی رک جاتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں میں اردو اساتذہ کی تقرری کویقینی بنایا جائے۔ خاص طور پر کے۔کے۔ایس کالج (بالاسور)،سورو کالج (بالاسور)، بلانگی کالج (بالاسور)، ریمونہ کالج (ریمونہ، بالاسور) اور سندرگڑھ کالج (سندرگڑھ) جیسے تعلیمی اداروںمیں فوری تقرریاں کی جائیں تاکہ اردو کے فروغ کی راہ ہموار ہو اور طلبہ ایک مستحکم تعلیمی ماحول میں اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔

.8         بھدرک آٹونمس کالج میں پی۔جی سطح پر اردو کی کوئی منظور شدہ اسامی موجود نہیں حالانکہ یو۔جی اور پی۔جی کے لیے مجموعی طورپر کم از کم سات اسامیوں پر تقرر ہونا چاہیے۔ فی الوقت یو۔جی سطح پر صرف تین اسامیاں منظور شدہ ہیں مگر افسوس کہ ان پربھی پچیس سالوں سے کوئی مستقل تقرر نہیں ہوا ہے۔ یہ صورت حال اردو تعلیم کے مستقبل کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے، جسے فوری پر کرنے کے لیے مثبت اقدام کیے جائیں۔

مقامی سطح پر اردو کے مسائل کا اجتماعی حل:

.1    تعلیمی اداروں میں تقریری، تحریری، غزل خوانی، خطاطی اور بیت بازی کے مقابلے منعقد کیے جائیں۔ ساتھ ہی میر، غالب، اقبال، فیض، فراق، پریم چند اور راجندر سنگھ بیدی جیسے نامور شعرا و ادبا کی یوم پیدائش پر خصوصی تقاریب ہوں، جن میں غیر اردو داں طلبہ کی شرکت کو بھی یقینی بنایا جائے۔

.2   اردو رضاکاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے شہروں اور علاقوں میں جہاں اردو پڑھنے والے طلبہ کی معقول تعداد  ہے وہاں اردو اساتذہ کی نئی اسامیاں منظور کرانے کے لیے سرگرم ہوں، اس مقصد کے لیے متعلقہ کالجوں کے پرنسپل صاحبان کے توسط سے متعلقہ حکومت اور افسران سے تحریری مطالبات کیے جائیں تاکہ اردو بطور اختیاری اور لازمی مضمون پڑھانے کے لیے اساتذہ کی تقرری ممکن ہو سکے۔ خاص طور پر سہ لسانی فارمولے کے تحت جہاں جہاں طلبہ خود سے اُردو پڑھنے پر مجبور ہیں ان کے لیے تعلیمی وتدریسی مواقع کو ہموار کیا جائے۔

.3       اردو مسائل کے حل کے لیے کمیٹی کی تشکیل:  اڈیشا اردو اکادمی کے ممبران اور دیگر محبانِ اردو پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جواردو تدریس کے مسائل، اساتذہ کی کمی اور طلبہ کی مشکلات کے حل کے لیے متعلقہ حکام سے مسلسل رابطہ قائم رکھے۔

.4       اڈیشا اردو اکادمی اوراردو رضاکاروں کو چاہیے کہ وہ ریاستی سطح پر اردو اساتذہ کی فہرست مرتب کریں تا کہ اعلیٰ تعلیمی درجات کے لیے رجسٹر تیار کیا جائے۔ اس اقدام سے نہ صرف اردو اساتذہ کی قلت یا عدم دستیابی کا صحیح اندازہ ہوگا بلکہ اردو تدریس کے فروغ کے لیے درست حکمتِ عملی طے کی جاسکے گی اور اس زبان کو موثر انداز میں فروغ دیا جا سکے گا۔

.5   حکومتی سطح پر کہا جاتا ہے کہ اڈیشا میں اردو پڑھنے والے طلبہ ہی نہیں ہیں حالانکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے لہٰذا انتظامیہ اور پالیسی سازوں کو اس پر توجہ دلانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اردو کی زبوں حالی کا ایک بڑا سبب خود اہلِ اردو ہیں۔ ان کی بے حسی، بے اعتنائی اور غفلت نے بھی اس زبان کی ترقی کی راہ میںسنگ گراں کا کام کیا ہے۔ ہم خود کو اردو کا وارث سمجھتے ہیں مگر اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دینے سے گریز کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اپنے مکانوں، دکانوں اور دفتروں پر بھی اردو تختیاں آویزاں کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری شادیوں اور دیگر تقریبات کے دعوت نامے بھی انگریزی، ہندی یا کسی علاقائی زبان میں چھپتے ہیں۔ دیگر زبانوں میں دعوت نامے چھپنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ہم ارد ورسم الخط کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جب کہ ہندوستان کے بیشتر صوبوں میں اُردو پہلے ہی ایک حریف زبان کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ کم از کم اہل اردو تو اسے حریف و بیگانہ نہ سمجھیں، ورنہ یہ زبان اپنے ہی وطن میں غریب الوطن اور مظلوم ہو کر رہ جائے گی۔ یہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ جو زبان زمانے کے چیلنجز کا سامنا نہیں کرتی وہ مردہ ہو جاتی ہے اور جو تہذیب اس زبان سے وابستہ ہوتی ہے وہ بھی زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اڈیشا ہی نہیں بلکہ پورے بر صغیر میں اُردو صرف ہمارے ماضی کی میراث نہیںبلکہ حال کی آئینہ دار اور مستقبل کی شناخت ہے۔ اس لیے ہر اہل اردو اور صاحب ذوق پر اس کی بقا اور حفاظت لازم ہے۔

مآخذ:

  1.        اڑیسہ میں اردو، حفیظ اللہ نیولپوری
  2.        فروغ ادب، بھوبنیشور،اڈیشا اردو اکادمی(اپریل تا جون،(2016
  3.    اڈیشا میں اردو شاعری(تذکرہ)،سعید رحمانی
  4. شاخ صنوبر۔کرامت علی کرامت

Dr. Shadab Alam

Asst. Professor  (Urdu)

P.G. Dept. of Language & Literature

Fakir Mohan University

Balasore -756089 (Odisha)

Mob: 9968340405

shadabalamjnu@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...