اردو دنیا،جولائی 2025
رام
پور شہرکو اپنے ثقافتی ورثے، علمی اداروں
اور پرسکون طرزِ زندگی کے لیے جانا جاتا ہے لیکن اگر کوئی ایک چیز اس شہر کو عالمی
سطح پر پہچان دیتی ہے تو وہ ہے رام پور رضا لائبریری جو اپنے نادر و نایاب علمی ذخیرے
اور تاریخی اہمیت کی بنا پر ایشیا کی سب سے منفرد اور عظیم لائبریریوں میں شمار
ہوتی ہے۔ یہ علمی ادارہ نہ صرف ریاستِ رام پور کے نوابین کی علم دوستی، دانشورانہ
بصیرت اور علمی سرپرستی کی روشن مثال ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ وہ علم و
فن کے ذریعے اپنی ریاست کو ایک ثقافتی اور تعلیمی مرکز میں تبدیل کرنے کے خواہاں
تھے۔ ریاستِ رام پور نے اپنی دانشمندانہ حکمرانی، علمی ترقی کے عزم اور فنونِ لطیفہ
کے فروغ کی بدولت ایک ایسے علمی و ادبی ماحول کو پروان چڑھایا جس کی بازگشت آج بھی
سنائی دیتی ہے۔
رام
پور رضا لائبریری نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے اسکالرز کے لیے تحقیق اور
مطالعہ کا مرکز ہے۔ خاص طور پر یورپ، امریکہ، آسٹریلیا، اور عرب ممالک جیسے سعودی
عرب، ایران، عراق اور مصر سے اسکالرز یہاں آ کر تحقیق کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ،
انگلینڈ، جرمنی، چین اور جاپان کے محققین بھی یہاں کے نادر علمی ذخیرے سے استفادہ
حاصل کرتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ مختلف ممالک کے سفیر اور معزز مہمان بھی وقتاً فوقتاً
اس لائبریری کا دورہ کرتے ہیں اور اس کے قیمتی ذخیرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ لائبریری
ایک ایسا علمی مرکز ہے جو تحقیق و جستجو کے متوالوں کے لیے جنت کی حیثیت رکھتی ہے
جہاں ہر کتاب اور ہر مخطوطہ اپنے اندر علم و دانش کے بے شمار خزانے سموئے ہوئے ہے۔
رام
پور رضا لائبریری نہ صرف ایک وسیع کتابی ذخیرہ رکھتی ہے بلکہ اس عظیم الشان علمی
مرکز کی سب سے منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک نہایت خوب صورت اور تاریخی محل ’حامد
منزل‘ میں واقع ہے۔ ’حامد منزل‘ نہ صرف ایک علمی مرکز ہے بلکہ فنِ تعمیر کا ایک ایسا
نایاب شاہکار بھی ہے جو اپنی شاندار انڈویورپی طرزِ تعمیر کی وجہ سے ایک الگ ہی
کشش رکھتا ہے۔ اس کی دیواروں، چھتوں اور ستونوں پر انتہائی نفیس اور باریک بین کاری
گری کی گئی ہے جو دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ خاص طور پر اس کے بلند و
بالا گنبد اور شاندار ستون جن پر سونے کی ملمع کاری کی گئی ہے، ایک بے نظیر فن
پارہ معلوم ہوتے ہیں۔ یہ فن تعمیر کا ایسا عجوبہ ہے جو نہ صرف اپنی خوب صورتی کے
لحاظ سے بے مثال ہے بلکہ ایک تاریخی ورثے کے طور پر بھی انتہائی قیمتی سمجھا جاتا
ہے۔
لائبریری
میں تقریباً سترہ ہزار سے زائد نادر و نایاب مخطوطات موجود ہیں جو مختلف علوم و
فنون سے متعلق ہیں۔ یہ مخطوطات علم و تحقیق کے شائقین اور ماہرین کے لیے بے حد قیمتی
اثاثہ ہیںاس کے علاوہ لائبریری میں تقریباً ساٹھ ہزار نایاب اور نادر کتابیں بھی
موجود ہیں جو مختلف ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔ ان کتابوں میں قدیم
اور جدید دونوں ادوار کی علمی اور ادبی تخلیقات شامل ہیں جن کا مطالعہ تحقیق کے میدان
میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک لاکھ سے زیادہ مطبوعہ کتابیں موجود
ہیں جو مختلف زبانوں اور موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ علاوہ ازیںاس لائبریری میں
اردو، عربی، فارسی، ترکی، پشتو، سنسکرت اور ہندی زبانوں کے نایاب اور قیمتی
مخطوطات کی بڑی تعداد محفوظ ہے جن میں سے بیشتر وہ قلمی نسخے ہیں جو مختلف
دانشوروں، ادیبوں اور نامور مصنفین کے ہیں۔ ایسے نایاب ذخائر تحقیق کے میدان میں
کسی بھی محقق کے لیے بے حد قیمتی اور گراں قدر وسائل فراہم کرتے ہیں۔ان مخطوطات کے
علاوہ لائبریری میں مختلف زبانوں میں مطبوعہ کتابوں، قدیم اخبارات و رسائل، اور دیگر
علمی دستاویزات کا بھی ایک وسیع ذخیرہ محفوظ ہے جو تحقیق و جستجو کرنے والوں کے لیے
علم و دانش کے ایک وسیع سمندر کی مانند ہے۔یہاں سے غالبیات، اقبالیات اور تحریکِ
آزادی سے متعلق اہم اشاریے مرتب کیے گئے ہیں جو ان موضوعات پر تحقیق کرنے والے
اسکالرز کے لیے انتہائی کارآمد اور معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اس
لائبریری کی ایک دلچسپ اور منفرد خصوصیت ہندی زبان میں موجود وہ مخطوطات ہیں جو
فارسی رسم الخط میں تحریر کیے گئے ہیں۔ یہ نہ صرف اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ماضی
میں علمی و ادبی ترقی کے لیے زبانوں اور رسم الخط میں کسی قسم کی تفریق روا نہیں
رکھی جاتی تھی بلکہ یہ ہندوستان میں رائج مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے امتزاج کی
بھی ایک زندہ مثال ہیں۔
رام پور رضالائبریری
کا ایک اور منفرد پہلو اس میں موجود خطاطی کے نادر نمونے ہیں۔ یہاں ہزاروں کے
تعداد میں ایسے مخطوطات اور نسخے موجود ہیں جو خطاطی کی مختلف طرزوں اور اسالیب کو
نمایاں کرتے ہیں۔ ان میں اسلامی خطاطی کے کئی شاہکار اور قرآنِ مجید کے خوب صورت
قلمی نسخے بھی جو فنِ خطاطی کے دل دادہ افراد کے لیے بے حد دلکش اور نایاب اثاثہ ہیں۔
اس لائبریری میں سونے اور چاندی کی روشنائی سے تحریر کردہ قرآنی نسخہ اسلامی خطاطی
کے عروج کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہیں جس میں تمام آیات کو سونے اور چاندی کی
روشنائی سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس کا خط انتہائی نفیس ہے اور ہر صفحے پر بیل بوٹوں
اور اسلامی طرزِ تزئین کی نہایت خوبصورت آرائش کی گئی ہے۔یہ قرآنی نسخے ہمیں
اسلام کی ابتدائی صدیوں کے علمی و دینی ورثے، قرآنی تحریر کی ابتدائی شکلوں اور
اسلامی خطاطی کی خوبصورتی کا مشاہدہ کراتا ہے۔
اگر
رضا لائبریری کے سب سے قیمتی اثاثے کی بات کی جائے تو بلا شبہ یہاں محفوظ وہ مقدس
اور نادر ترین قرآنی نسخہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے جسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ
کے دستِ مبارک سے لکھا گیا تصور جاتا ہے۔یہی وہ پہلو ہے جو اس نسخے کو نہ صرف اہلِ
اسلام بلکہ پوری دنیا کے علمی و تاریخی حلقوں میں ایک بے مثل اور بے نظیر دستاویز
بناتا ہے۔ اس کے نایاب اور قدیم ہونے کی کئی اہم خصوصیات ہیں جو اسے قرآن مجید کے
دیگر قدیم نسخوں سے ممتاز کرتی ہیں۔یہ قرآنی نسخہ انتہائی نایاب اور تاریخی خطاطی
کا ایک عظیم شاہکار ہے جو آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ اس کی خطاطی، سائز
اور تحریری انداز کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک بے حد محنت اور مہارت
سے تحریر کردہ مخطوطہ ہے جو صدیوں سے علم و عرفان کا سرچشمہ بنا ہوا ہے۔یہ قرآنِ
مجید 343 اوراق پر مشتمل ہیں جو انتہائی عمدہ اور معیاری انداز میں تحریر کیے گئے
ہیں۔ ہر صفحے پر 15 یا کہیں 16 سطریں موجود ہیں جو اسے پڑھنے میں سہولت فراہم کرتی
ہیں اور قدیم عربی خطاطی کی ایک بہترین مثال پیش کرتی ہیں۔
یہ
مقدس قرآنی نسخہ کوفی رسم الخط میں لکھا گیا ہے جو اسلام کی ابتدائی صدیوں میں
رائج تھا اور قرآنِ مجید کی اولین تحریری شکلوں میں شمار ہوتا ہے۔ کوفی خط کو اس
کی سادگی، مضبوطی اور جاذبِ نظر اسٹائل کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور اس نسخے میں یہ
خوب صورتی اپنی انتہائی شاندار شکل میں موجود ہے۔یہ قرآنِ پاک اونٹ کی کھال پر
تحریر کیا گیا ہے جو کہ قدیم اسلامی دور میں تحریر کے لیے ایک نادر اور مضبوط ذریعہ
سمجھا جاتا تھا۔ قدیم زمانے میں جب کاغذ کی صنعت ابھی ترقی پذیر نہیں ہوئی تھی تو
مخطوطات عموماً چمڑے، یا ہڈیوں پر تحریر کیے جاتے تھے تاکہ وہ طویل عرصے تک محفوظ
رہ سکیں۔اس نایاب قرآنی نسخہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک انتہائی دلچسپ اور منفرد
تکنیک اپنائی گئی ہے۔اس نسخہ کی مزید حفاظت کے لیے ہر دو ورق کے درمیان ہرن کی
کھال کی جھلی لگائی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد روشنائی کو پھیلنے سے بچانا اور تحریر
کو دیرپا اور ناقابلِ تلف بنانا تھا۔ یہ طریقہ قدیم اسلامی کتب و دستاویزات کی
حفاظت کے لیے انتہائی نایاب اور منفرد تھا اور آج بھی اس نسخے کی بے مثال حالت اس
بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ انتہائی محنت اور مہارت سے تیار کیا گیا تھا۔یہ قرآنی
نسخہ نہ صرف تحقیقی، تاریخی اور خطاطی کے اعتبار سے انتہائی قیمتی ہے بلکہ روحانی
لحاظ سے بھی عظیم ترین اسلامی اثاثہ ہے۔ اگر واقعی یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے
دستِ مبارک سے تحریر کردہ ہے تو یہ اسلامی تاریخ کا ایک بے مثال اور غیر معمولی
نسخہ ہے جو آج بھی اپنے قدامت، اصل خطاطی اور منفرد حفاظتی تکنیکوں کی بدولت علمی
و دینی دنیا میں ایک عظیم اور ناقابلِ فراموش مقام رکھتا ہے۔یہ نسخہ صرف رام پور
رضا لائبریری کا ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کا ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے جس پر
دنیا بھر کے اسکالرز، مورخین اور قرآنِ کریم کے محققین تحقیق کر رہے ہیں۔
رام
پور رضا لائبریری کا قیام تقریباً ڈھائی سو سال قبل ریاست رام پور کے بانی روہیلہ
سردار نواب فیض اللہ خاں (1774 تا 1794)کے
دورِ حکومت میں عمل میں آیا۔
ابتدا
میں رام پور رضا لائبریری محض ایک ذاتی علمی ذخیرہ تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسے
وسعت دی گئی اور بعد میں یہ ایک سرکاری علمی ادارے کی شکل اختیار کر گئی۔ نواب فیض
اللہ خاں جو نہ صرف ایک زیرک حکمران تھے بلکہ علم و فن کے بے حد قدردان بھی تھے۔
ان کی شخصیت میں علم دوستی جو جذبہ تھا اسی نے اس کتب خانے کو جنم دیا۔ یہ صرف ایک
عام لائبریری نہیں تھی بلکہ ایک ایسا علمی مرکز تھا جہاں نایاب اور قیمتی کتابوں
کو جمع کرنے کا ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا گیا تھا۔تاہم رضا لائبریری کی اصل ترقی
اور وسعت کا دَور نواب محمد سعید خاںبہادر (1840
تا 1855) کی تخت نشینی کے بعد شروع ہوا۔نواب محمد سعید خاں نے جب ریاست کی
باگ ڈور سنبھالی تو دیگر شعبوں کی اصلاحات کے ساتھ ساتھ رضا لائبریری کو بھی اپنی
خصوصی توجہ کا مرکز بنایا۔ ان کے دَور میں نہ صرف قلمی نسخوں کے نایاب کلیکشن کو
مزید وسعت دی گئی بلکہ نادر و نایاب کتابوں کی نقول تیار کرانے کا بھی انتظام کیا
گیا تاکہ علمی سرمایہ محفوظ رہے اور آئندہ نسلیں بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ ان کی
سرپرستی میں لائبریری ایک جدید علمی مرکز میں تبدیل ہو رہی تھی جہاں مختلف علوم و
فنون پر مشتمل بیش قیمت ذخیرہ اکٹھا کیا جا رہا تھا۔
نواب محمد یوسف علی
خاں ناظم (1855 تا 1865) کا نام تاریخی اعتبار سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ وہ نہ
صرف ایک مدبر اور دانشور حکمران تھے بلکہ شاعری میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتے
تھے۔انھوں نے ابتدا میں ’یوسف‘تخلص اختیار کیا اور مشہور شاعر ’مومن خاں مومن‘کی
شاگردی میں رہ کر اپنے شعری ذوق کو نکھارا۔ بعد میں جب وہ مرزا غالب کی شاگردی میں
آئے تو غالب کی تجویز پر انھوں نے ’ناظم‘ تخلص اختیار کیا۔یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے
کہ نواب یوسف علی خاں ناظم ؔنے مومن کے اندازِ شاعری کو اپنانے کے ساتھ ساتھ غالب
کے سخن کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی جس کی وجہ سے ان کا کلام دو عظیم شعری
دبستانوں کی حسین آمیزش کا نتیجہ بن گیا۔نواب یوسف علی خاں نے رام پور میں طرحی
مشاعروں کی بنیاد رکھی جو اس وقت کے ادبی ماحول میں ایک بڑی تبدیلی تھی۔ ان
مشاعروں میں برصغیر کے نامور شعرا کو مدعو کیا جاتا اور یہاں شعری و ادبی ذوق کو
جلا بخشنے کے لیے علمی و فکری نشستوں کا بھی اہتمام کیا جاتا۔1857 کی جنگ آزادی
کے بعد جب دہلی اور لکھنؤ کے دربار ختم ہو گئے تو وہاں کے بڑے بڑے شعرا اور ادبا
سرپرستی سے محروم ہو گئے۔ ایسے میں رام پور ایک محفوظ اور خوشحال پناہ گاہ کے طور
پر ابھرا جہاں نواب محمد یوسف علی خاں بہادر نے ان علمی شخصیات کو مکمل سرپرستی
فراہم کی۔یہی وجہ تھی کہ دہلی اور لکھنؤ کے مشہور شعراء رام پور کی طرف ہجرت کر
گئے اور یہاں کی ادبی فضا کو مزید جِلا بخشی۔
نواب
محمد یوسف علی خاں بہادر کے بعد ان کے فرزند نواب کلب علی خاںبہادر(1865 تا 1887)
نے شعرا و ادبا کی جس طرح پذیرائی کی وہ تاریخ ادب میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی۔
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نواب کلب علی خاں کا دَور رام پور کی علمی و ادبی
تاریخ کا زریں دَور تھا۔یہ دَور اس لحاظ سے منفرد ہے کہ نواب کلب علی خاں خود بھی
ایک اچھے شاعر اور نثر نگار تھے۔ ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے رام پور کی ادبی
محفلیں مزید نکھر گئیں اور ہندوستان کے ہر گوشے سے علم و ادب سے جڑے افراد یہاں کا
رخ کرنے لگے۔
نواب
کلب علی خاں عالموں، شاعروں، موسیقی کے فنکاروں، ادیبوں، خطاطوں اور مختلف فنون کے
ماہرین کے زبردست قدردان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہر علاقے کے فنکار اور علمی شخصیات
رام پور آ کر بسنے لگیں اور یہاں کے علمی ذخیرے میں بے حد اضافہ ہوا۔رضا لائبریری
کی ترقی میں سب سے نمایاں کردار نواب کلب علی خاں کا رہا جنھوں نے نہ صرف اسے مزید
مستحکم کیا بلکہ اسے ایک بین الاقوامی علمی و تحقیقی مرکز کی حیثیت دینے میں اہم
کردار ادا کیا۔نواب کلب علی خاں خود بھی علم و ادب کے شوقین تھے اور علمی مجالس و
مکالموں کو فروغ دینے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کے دَور میں رضا لائبریری اور رام
پور کی علمی و ادبی فضا اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ ان کی سرپرستی میں رضا لائبریری
کا علمی وقار مزید بلند ہوا اور کئی قیمتی مخطوطات اور قدیم کتابوں کا اضافہ کیا گیا
جن کی بدولت یہ لائبریری ہندوستان کے علمی ورثے کا ایک ناقابلِ فراموش حصّہ بن گئی۔ رام پور کے دربار میں اس وقت کے ہر بڑے شاعر،
ادیب، تاریخ نویس، خطاط اور داستان گو نے اپنی جگہ بنا لی۔ اس دَور میں کئی عظیم
علما، شعرا، اور مصور رضا لائبریری کے علمی اثاثے میں بے پناہ اضافے کا باعث بنے۔
رضا
لائبریری کی تاریخ میں نواب سیّد حامد علی خاں بہادر(1889 تا 1930)کے َدور کو کسی
بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نواب سیّد حامد علی خاں جب تخت نشین
ہوئے توانھوں نے اپنے عہد میں لائبریری کی ترقی کو ایک نئی سمت دی۔ انھوں نے اس
علمی ورثے کو مزید مستحکم کرنے کے لیے مسیح الملک حکیم اجمل خاں کو لائبریری کا
افسرِ اعلیٰ مقرر کیا۔ حکیم اجمل خاں نے خاص طور پر عربی کتب کے ذخیرے کو وسعت دینے
پر توجہ دی جس کے نتیجے میں لائبریری میں کئی ایسی عربی کتابیں شامل ہوئیں جو آج
بھی تحقیق و جستجو کے متوالوں کے لیے نادر سرمایہ ہیں۔ ان کے اقدامات نے اس علمی
ادارے کو عربی و اسلامی علوم کا ایک خزانہ بنا دیا۔نواب حامد علی خاں خود بھی شعر
و ادب کے دلدادہ تھے۔ ان کے ذوقِ شاعری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
انھوں نے ’رشک‘ تخلص کیا اور برصغیر کے معروف شاعر امیر مینائی کے فرزند محمد احمد
صریر مینائی کی شاگردی اختیار کی۔یہ شاگردی اس بات کی عکاس ہے کہ نواب حامد علی
خاں صرف رسمی سرپرستی تک محدود نہیں رہے بلکہ انھوں نے ادب کو براہِ راست اپنا
اوڑھنا بچھونا بنایا۔ ان کی شاعری میں نہ صرف روایت کی جھلک تھی بلکہ ایک مخصوص
نفاست اور لطافت بھی موجود تھی جو انھیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھی۔ نواب
حامد علی خاں کی علمی و ادبی سرپرستی میں مصطفی علی خاں شرر کا بھی بڑا اہم کردار
تھا جو ان کے پرائیویٹ سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ مصطفی علی خاں
شرر ایک نہایت اعلیٰ ذوق رکھنے والے شخصیت تھے اور ان کے مشورے اور انتظامات نے
نواب حامد علی خاں کے دَور میں علمی و ادبی سرگرمیوں کو مزید تقویت دی۔
نواب
حامد علی خاں کا ذوقِ تعمیر بھی بے مثال تھا۔ ان کے عہد میں رام پور کی کئی عظیم
الشان عمارتوں کی تعمیر ہوئی جن میں رام پور قلعہ، خاص باغ پیلس، حامد منزل
(موجودہ رضا لائبریری)، صدر کچہری، شاہ آباد محل، کیسل (Castle)،
مچھلی بھون، جامع مسجد اہم ہیں جو آج بھی شہرِ رام پور کی پہچان ہیں۔یہ عمارتیں
نہ صرف معمارانہ حسن کا نمونہ ہیں بلکہ ان میں مغل اور نوابی طرزِ تعمیر کی جھلک
بھی نمایاں نظر آتی ہے۔یہ تمام تعمیرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ نواب حامد علی خاں
محض ایک نواب نہیں بلکہ ایک دور اندیش معمار بھی تھے جو اپنی ریاست کو ایک جدید
اور شاندار طرزِ تعمیر سے آراستہ کرنا چاہتے تھے۔ان کے شاندار ذوقِ تعمیر کو دیکھتے
ہوئے انھیں ’شاہجہاں ثانی‘کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح مغل بادشاہ شاہجہاں نے ہندوستان
میں تاج محل، لال قلعہ، جامع مسجد دہلی اور دیگر شاندار عمارتیں تعمیر کروائیں، اسی
طرح نواب حامد علی خاں نے رام پور میں ایسی یادگار عمارتوں کی تعمیر کروائی جو آج
بھی فنِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ سمجھی جاتی ہیں۔نواب حامد علی خاں نہ صرف ادب اور
تعمیرات کے سرپرست تھے بلکہ وہ فنِ موسیقی کے بھی بڑے قدردان تھے۔ان کے دربار میں
ہندوستان کے معروف موسیقار، گلوکار اور سازندے موجود تھے جن کی محافلِ موسیقی ریاست
رام پور کی ایک پہچان بن چکی تھیں۔
نواب حامد علی خاں کے
انتقال کے بعد نواب رضا علی خاں بہادر (1930
تا 1966)نے زمامِ اقتدار سنبھالی تو ان کے دَور میں بھی رضا لائبریری کی
ترقی کا سفر جاری رہا۔نواب رضا علی خاں کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ انھوں نے رضا
لائبریری کو عوام کے لیے کھول دیا۔یہ وہ تاریخی فیصلہ تھا جس نے اس نایاب علمی ذخیرے
کو عام لوگوں کے لیے قابلِ رسا بنا دیا۔ اس سے قبل رضا لائبریری صرف مخصوص طبقے کے
لیے مخصوص تھی لیکن نواب رضا علی خاں نے اسے ہر خاص و عام کے لیے کھول کر علم کے
فروغ میں ایک شاندار قدم اٹھایا۔نواب رضا علی خاں نے تعلیم کی اہمیت کو شدت سے
محسوس کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ رام پور میں تعلیمی ادارے نہ صرف قائم کیے
جائیں بلکہ ان میں جدید اور معیاری تعلیم کا اہتمام بھی کیا جائے۔انھوں نے طلبا
اور طالبات کے لیے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے تاکہ تعلیم کا
دائرہ وسیع ہو اور ہر طبقے کے لوگ تعلیمی روشنی سے مستفید ہو سکیں۔یہ اقدام نہ صرف
ریاست کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں مددگار ثابت ہوا بلکہ اس نے رام پور کو ایک
علمی و تعلیمی مرکز میں بھی تبدیل کر دیا۔ نواب حامد علی خاںکے عہد کو اگرچہ نوابین
رام پور کے شاندار ادوار کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کا ایک خاص
امتیاز یہ تھا کہ ان کا عہد جدید دنیا کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی تغیرات کے ساتھ
ہم آہنگ تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب پوری دنیا میں سیاسی اور اقتصادی حالات میں
زبردست تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ برصغیر میں بھی سماجی، تعلیمی، صنعتی اور
ثقافتی سطح پر ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا تھا۔ نواب رضا علی خاں نے نہ صرف ان تغیرات
کو محسوس کیا بلکہ اپنی ریاست کی ترقی و خوشحالی کے لیے ہر ممکن اقدام کیا تاکہ
رام پور ایک جدید، خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست کے طور پر ابھر سکے۔
1947 میں ہندوستان نے آزادی حاصل کی، اس کے بعد 1949میں
ریاست رام پور کو صوبہ اترپردیش میں ضم کر دیا گیا۔ نواب رضا علی خاں جو علم و ادب
کے سچے قدردان تھے انھوںنے اس نایاب کتب خانے کو قوم کے نام وقف کر دیا۔ اس وقت یہ
کتب خانہ ’’اسٹیٹ لائبریری‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن ریاستی انضمام کے بعد
اس کا نام بدل کر ’’رام پور رضا لائبریری‘‘رکھ دیا گیا تاکہ یہ صرف ایک مخصوص ریاستی
اثاثہ نہ رہے بلکہ پورے ملک کے علمی و تحقیقی میدان میں روشنی بکھیر سکے۔1951 میں
اس لائبریری کے مؤثر انتظام کے لیے ایک باقاعدہ ٹرسٹ قائم کیا گیا اور تمام مالی
اخراجات اترپردیش حکومت نے اپنے ذمے لے لیے۔ یہ اقدام رضا لائبریری کو مزید
استحکام اور ترقی دینے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ علمی سرمایہ کسی بھی معاشی رکاوٹ کی
وجہ سے متاثر نہ ہو۔1957 میں رضا لائبریری کو ایک نئی وسیع اور شاندار عمارت میں
منتقل کیا گیا جسے ’حامد منزل‘کے نام سے جاناگیا۔ یہ خوبصورت محل نما عمارت نواب
حامد علی خاں نے 1905 میں ایک شاندار رہائش گاہ کے طور پر تعمیر کرائی تھی۔
نواب رضا علی خاں
بہادر کی حکومت میں مولانا محمد نجم الغنی خاں (مصنف اخبار الصنادید) کو لائبریری
کا ناظم مقرر کیا گیا۔ نجم الغنی خاں کی انتظامی صلاحیتوں اور علمی دلچسپیوں کی
بدولت رضا لائبریری کا ذخیرہ مزید نایاب کتب و مخطوطات سے مالا مال ہوا۔
1932 میں مولوی نجم
الغنی خاں کے انتقال کے بعد مولانا امتیاز علی خاں عرشی کو لائبریری کا ناظم مقرر
کیا گیا جو رضا لائبریری کی تاریخ میں سب سے مشہور اور قابلِ ذکر ناظم کے طور پر
جانے جاتے ہیں۔ عرشی صاحب نہ صرف ایک عظیم محقق، ادیب اور عالم تھے بلکہ ان کی علمی
و ادبی خدمات نے رضا لائبریری کی عظمت میں بے پناہ اضافہ کیا۔مولانا امتیاز علی
خاں عرشی نے نادر مخطوطات کی ترتیب و تدوین، فہرست سازی، اور تحقیق کے اصولوں کو
جدید خطوط پر استوار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کے علمی کارنامے صرف رضا
لائبریری تک محدود نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ
سے دیکھے جاتے ہیں۔1975 میں سابق وزیر تعلیم پروفیسر نور الحسن کی کوششوں سے رضا
لائبریری کو ہندوستان کے قومی ادارے کی حیثیت دے دی گئی۔ اس مقصد کے لیے حکومتِ
ہند نے پارلیمنٹ میں ایک باقاعدہ قانون (ایکٹ) پاس کیا جس کے تحت یہ لائبریری مرکزی
حکومت کے زیر انتظام آگئی۔یہ ایک اہم تاریخی پیش رفت تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں
رضا لائبریری کو قومی سطح پر تسلیم شدہ علمی ادارے کا درجہ حاصل ہو گیا اور اس کے
انتظامات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے حکومت نے خصوصی اقدامات کیے۔
رضا
لائبریری میں ایسی کتابیں بھی موجود ہیں جو ہندوستان اور دیگر ممالک کے درمیان تاریخی
تعلقات کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ کتابیں عالمی تعلقات، سفارت کاری اور ثقافتی روابط
کو مزید مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان میں قدیم سفرنامے، تاریخی
معاہدے، خطوط اور دیگر ایسی دستاویزات شامل ہیں جو بین الاقوامی تعلقات کے مختلف
پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔آج کے جدید دور میں جہاں علم کی ترسیل تیزی سے ڈیجیٹل
دنیا میں منتقل ہو رہی ہے، رضا لائبریری کو بھی ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے مزید وسعت دی
جا رہی ہے تاکہ اس علمی ورثے کو زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچایا جا سکے۔ حکومت
اور دیگر علمی ادارے اس لائبریری کی ڈیجیٹل آرکائیو بنانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ
نادر کتابیں اور مخطوطات ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ سکیں۔
رضا
لائبریری کا اپنا ایک گیسٹ ہاؤس بھی ہے جہاں آنے والے محققین، اسکالرز اور دیگر
علمی و تحقیقی شخصیات کو قیام و طعام کی بہترین سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ
اقدام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ ادارہ محققین اور دانشوروں کے لیے ایک ایسا
مرکز بن چکا ہے جہاں وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے علمی و تحقیقی کام کو آگے بڑھا سکتے
ہیں۔ رضا لائبریری ایک ایسا علمی و ثقافتی
ادارہ ہے جو نہ صرف کتابوں اور مخطوطات کے تحفظ اور اشاعت میں سرگرم عمل ہے بلکہ
علم و تحقیق کے فروغ کے لیے قومی و بین الاقوامی سمینارز بھی منعقد کرتا ہے۔ یہ سمینار
دنیا بھر کے نامور محققین، ادیبوں، مؤرخین اور دانشوروں کو ایک پلیٹ فارم فراہم
کرتے ہیں جہاں وہ علمی مباحثے اور تحقیقی تبادلہ خیال کر سکیں۔
رضا
لائبریری جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کتب خانوں، تحقیق، لائبریری
سائنس اور آرکائیو مینجمنٹ کے حوالے سے وقتاً فوقتاً وَرکشاپس کا بھی انعقاد کرتی
ہے۔ ان ورکشاپس میں محققین، لائبریرینز، اساتذہ اور طلبا شرکت کرتے ہیں اور کتب
خانوں کے جدید نظام، ڈیجیٹائزیشن اور تحقیقی وسائل تک رسائی کے جدید طریقوں پر
تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔رضا لائبریری نہ صرف ایک علمی مرکز ہے بلکہ یہ ایک ثقافتی
و تاریخی ورثے کا بھی امین ہے۔ اسی لیے یہاں مختلف نوعیت کی نمائشوں کا انعقاد کیا
جاتا ہے تاکہ نایاب تاریخی اور ثقافتی اشیاء کو عوام کے سامنے پیش کیا جا سکے۔
مآخذو
مصادر
1 کتابوں کا تاج
محل رام پور رضا لائبریری: مولانا امتیاز علی عرشی،رضا لائبریری کی علمی وراثت،
1996،
2 رضا لائبریری کے
250 سال: معصوم مرادآبادی، قندیل، 9 ؍دسمبر2023۔
3 شبیر علی خاں شکیب،رام
پور کا دبستانِ شاعری، 1999
4 ’’کتابوں کا تاج
محل رام پور رضا لائبریری‘‘:مولانا امتیاز علی عرشی،رضا لائبریری کی علمی وراثت،
1996، 5 رضا لائبریری رام پور:عابد رضابیدار، انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیزرام
پور، 1996
Nishat Jameel
Research Scholar
Address: D/O Late Jameel Ahmad Moh. Bandukchiyan,
Ahmad Ali Road, Dhampur,
Bijnor - 246761
Mob. +91 9105986129
e-mail : nishatjameel3322@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں