26/12/25

قمر جہاں کے افسانوں میں عورت کے متنوع کردار،مضمون نگار: واثق الخیر

 اردو دنیا،جولائی 2025

بہار کے افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام قمر جہاں کا ہے جنھوں نے عورت کو موضوع بنا کر بہت ساری کہانیاں لکھی ہیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تنقید نگاری میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ قمر جہاں کے والد سید عطاء الحق تھے اور والدہ بی بی اختر جہاں تھیں۔ ان کی پیدائش 15مئی 1948 میںقصبہ بزرگ دوار سمستی پور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم باڑھ اسکول میں ہوئی، پھر پٹنہ کے بانکی پور گرلس ہائی اسکول سے انٹر کی تعلیم حاصل کی۔ پٹنہ یونیورسٹی کے مگدھ مہیلا کالج سے اردو میں ایم اے کی سند لی۔ پی ایچ ڈی رانچی یونیورسٹی سے پروفیسر وہاب اشرفی کی نگرانی میں ’اختر شیرانی کی رومانی اور جنسی شاعری‘ کے موضوع پر کی۔ سندروتی مہیلا کالج بھاگلپور سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور پھر تلکا مانجھی بھاگلپور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوکر صدر شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے عہدے تک پہنچی اور 2010 میں سبکدوش ہوئیں۔ انھوں نے لکھنے پڑھنے کا شوق کبھی نہیں چھوڑا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ساتویں دہائی کے بعد ہوا ہے۔ ان پانچ دہائیوں میں اردو ادب میںہو رہی تبدیلیوں اور تغیرات کو انھوں نے نزدیک سے دیکھا اور اپنی قابلیت اور ذہانت کے بل پر ان تمام بدلاؤسے اثر قبول کرتے ہوئے اپنے لیے ایک الگ راہ منتخب کی۔ قمر جہاں نے زندگی کے بے شمار چھوٹے بڑے لمحات و احساسات اور واقعات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ ان کے افسانوں میں عصری حسیت کے ساتھ عصری جبریت بھی موجود ہے۔

ان کا پہلا افسانہ ’جنون وفا‘ ماہنامہ ’صبح نو‘ 1964 میں پٹنہ سے شائع ہواجو انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں لکھا تھا۔ ان کی تقریباً 70سے زیادہ کہانیاں منظر عام پر آچکی ہیں، جس میں چار افسانوی مجموعے ’چارہ گر‘، ’اجنبی چہرے ‘، ’یاد نگر‘ اور ’پنجرے کا قیدی‘ شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ایک ناولٹ ’ٹھنڈی چھاؤں‘بھی ہے۔ ان کی کئی تنقیدی کتابیں بھی منظر عام آچکی ہیں۔ جن میں معیار (مجموعہ مقالات)، اختر شیرانی کی جنسی اور رومانی شاعری، کلام عبداللہ حافظ مشکی پوری، تانیثی تنقید: ممتاز شیریں سے عہد حاضر تک‘، ’حرف آگہی‘،’ منزل تکمیل‘ اور ’علیم اللہ حالی: نقوش و افکار‘وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ انھوں نے رپورتاژ اور ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ہندی میں بھی ان کی کہانیاں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان کے چند افسانوں کے ہندی تراجم بھی ہوئے ہیں۔ افسوس کہ اسی سال11؍ فروری 2025 کو ایک بج کر تیس منٹ پر حرکت قلب بندہو جانے کے سبب وہ خالق حقیقی سے جاملیں۔ اسی دن بعد نمازمغرب بھاگلپور میں بھیکن پور کے برہ پورہ قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔

قمر جہاں سماجی، معاشرتی اور گھریلو سطح کے افسانے خصوصی طور پر لکھتی رہی ہیں۔ ان کے فن میں جہاں فکری آگہی ہے، وہیںمعاشرے کا گہرا مشاہدہ نمایاں نظر آتاہے۔ فطری طور پر ان کی افسانہ نگاری کا ایک بڑا حصہ عورتوں کے مسائل سے متعلق ہے۔ یہ عورتیں روایتی نہیں ہیں بلکہ بدلتے ہوئے سماجی تناظر میں جدید تعلیم یافتہ، برسر روزگار ہیں جو گھر اور باہر کی الجھنوں، ذہنی انتشار اور جذباتی ناآسودگی کا شکار ہیں۔ آج کی عورت صرف ایک ماں، ایک بیوی اور بہن ہی نہیں ہے بلکہ اس کی اور بھی جہتیں ہیں۔ آج عورت کسی دفتر یا ادارے کی کامیاب ملازمہ ہے، بچوں کی استانی اور ان جیسے کتنے ہی عہدوں پر فائز ہوکر اپنی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ مگر ان سب کے باوجود عورت اپنے خاوند کی قابل رشک ہم سفربھی ہے اور اس سفر میں بسا اوقات اپنی شخصیت کو ریزہ ریزہ بھی کرتی ہے۔ ان تمام حالات اور اتار چڑھاؤ کے ساتھ قمر جہاں کے افسانوں میں عورتیں موجود ہیں۔ عورتوں کی یہ ساری کیفیت صرف ان کے مشاہدات کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ ان کی زندگی کا حصہ بھی رہی ہیں۔ قمر جہاں اس سلسلے میں ایک جگہ لکھتی ہیں:

’’۔۔۔۔۔۔ میں نے ان کا صرف مشاہدہ نہیں کیا ہے بلکہ انھیں بہت قریب سے دیکھا ہے، محسوس کیا ہے، تب جاکر لکھا ہے۔‘‘

قمر جہاں کے یہاں کردار نگاری کی جو دنیا عورتوں سے وابستہ ہے ان میں فنکاری اور حقیقت نگاری کے پہلو خاصے نمایاں ہیں۔ ان کے افسانوں میں عورتیں پڑھی لکھی، اعلی تعلیم یافتہ اور اکثر اوقات ملازمت یافتہ ہیں۔ گھریلو عورتیں بھی ان کی کہانیوں میں موجود ہیں۔ یہ عورتیں کہیں مشغولیت بھری زندگی سے پریشان ہیں تو کہیں اپنی ازدواجی اور ذاتی زندگی کی ناکامیوں اور محرومیوں سے دوچار۔ان کے افسانوں میں روایتی قسم کے عام نسوانی کردار بھی ملتے ہیں۔

 افسانہ ’اجنبی چہرے‘ میں نئی شادی شدہ لڑکی اپنے سسرال میں آکر اجنبیت کے احساس سے دوچار ہے، اسی طرح افسانہ ’خواب خواب زندگی‘ میں ایک لڑکی کا ایسا کردار پیش کیا گیا ہے جو اپنی شادی کی پہلی رات میں فطری طور پر شوہر کی دلجوئی کی منتظر ہے مگر اسی رات اس کا شوہر اس کے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور اسے طرح طرح کی ذمہ داریوں سے متعارف کراتا ہے۔ افسانہ ’ایک معمہ‘ میں مسز شرما کا کردار شوہر کی بے توجہی اور بے رخی کا شکار ہے۔

قمر جہاں نے اپنے زمانے کی تیز رفتار زندگی اور اس کے منفی و مثبت اثرات کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔ وہ سماج کو گہری نظر سے دیکھتی ہیں اس لیے ان کے افسانوں میں زندگی بالخصوص عورتوں کی زندگی کے مختلف جہات پر توجہ ملتی ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ ان کے افسانوں کا مرکز و محور عورت ہی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں عورتوں پر خصوصی توجہ صرف کی ہے اور طبقہ نسواں کی ذہنی کشمکش کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔ جس میں تعلیم یافتہ عورتوں کو اہمیت حاصل ہے کیوں کہ یہ گھر اور آفس کی ذمہ داریوں کو نبھانے کی وجہ سے ذہنی کشمکش کا شکار ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان عورتوں کی ذہنی کشمکش، تصادم اور حیات و کائنات کے کربناک ماحول کواپنی کہانیوں میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ حقیقت پسندی کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ جہاں زوال آمادہ تہذیب کی عکاسی کی ہے وہیں اسلوب بیان میں دلکشی بھی بخشی ہے۔ ان کے افسانوں میں عورت کی زندگی کی مختلف جہتیں پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ انھوں نے عورتوں کے دکھ سکھ، خوشیوں، محرومیوں، خواہشوں اور بنتے بگڑتے رشتوں کو اپنے مشاہدے و تخیل کے کینوس پر اس طرح پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کے افسانوں میں تہہ داری نہیں ہوتی بلکہ راست بیانیہ انداز میں بڑی معصومیت کے ساتھ وہ انسانی زندگی کے داخلی و خارجی مسائل کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں وہ عورتیں بھی ہیں جو مشرقی روایات کی پابندرہ کر گھر کی زینت ہیں اور وہ عورتیں بھی ہیں جو مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے والی ہیں، یعنی جو دنیا میں اپنی الگ شناخت بنانے کی جد و جہد میں لگی ہوئی ہیں۔ گھریلو زندگی کی وہ بڑی نقاش ہیں۔ انھوں نے شہروں، گاؤں اور ان کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے غریب متوسط اور پسماندہ لوگوں کی الجھنوں اور مسائل کو بھی اپنے افسانوں میں سمیٹا ہے۔ جن میں عورت کا استحصال، سماج میں جہیز کی بڑھتی مانگ، نوجوان طبقے کا ذہنی انتشار، جدید عورت کی پریشانیاں اور محرومیاں خاص کر تعلیم یافتہ اور نوکری پیشہ عورتوں کے مسائل، مرد کی جذباتی ناآسودگی، رشوت خوری، رشتوں کی پامالی جیسے بے شمار موضوعات و مسائل ان کی کہانیوں میں بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔ گویا ان کے بیشتر افسانے عورتوں کے مسائل پر ہی مرکوز ہیں مگر یہ وہ مسائل نہیں ہیں جو روایت کا حصہ ہیں بلکہ یہ گلوبلائزیشن کی دین ہیں جس نے عورتوں کی حالت کو تشویش ناک حد تک متأثر کیا ہے۔ ’انتظار‘، ’کٹی ہوئی شاخ‘، ’آندھی‘، ’سفر اور ہم سفر‘، ’محافظ‘، ’چارہ گر‘، ’بند کوٹھری‘، ’آج کی عورت‘، ’لمحوں کی صدا‘، ’فریج کی عورت‘، ’اجنبی چہرے‘ اور ’خواب خواب زندگی‘ ان کے بہترین افسانے ہیں۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی مسائل کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ فسادات، ہجرت اور عورتوں سے جڑے مختلف پہلوؤں کو افسانے میں مرکزیت عطا کی ہے۔ ان کی افسانہ نگاری کے سلسلے میں ڈاکٹر منظر حسین لکھتے ہیں:

’’یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ 1980 کے بعد بہار کی خواتین فنکاروں میں جن شخصیتوں نے اپنی تخلیقی اور تنقیدی توانائی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے اپنی شناخت بنائی ہے ان میں ڈاکٹر قمر جہاں کا نام نمایاں ہے۔‘‘

قمر جہاں نے آج کی زندگی اور موجودہ عہد میں جدید تعلیم کے میدان میں عورتوں کی شمولیت اور سماج کی ترقی میں حصہ دار ی کی وجہ سے وہ جس ذہنی کشمکش میں مبتلا رہتی ہیںاس کو اپنے افسانوں میں نمایاں طور پر دکھایا ہے۔ اس سلسلے میں وہ خود لکھتی ہیں:

’’۔۔۔۔۔۔میری ایسی کہانیاں جن میں آپ کو صرف گھر آنگن کی تصویریں نظر آتی ہیں وہاں بھی میرا مطمح نظر محض گھر آنگن کی تصویر کشی کبھی نہیں رہا ہے اور نہ میں نے عورتوں کے عام مسائل سے دلچسپی دکھائی ہے بلکہ بدلتے ہوئے سماجی تناظر میں جدید تعلیم یافتہ، برسر روزگار عورت بکھری ہوئی حالت، گھر اور باہر کی الجھنیں، ان کا ذہنی انتشار اور جذباتی ناآسودگی وغیرہ کو موضوع بنایا ہے۔‘‘

قمر جہاں کے افسانوں میں گھر کی تصویر کشی کے علاوہ آج کے سماج میں عورتوں کی بکھری ہوئی زندگی بالخصوص تعلیم یافتہ برسر روزگار عورتوں کے درمیان پائی جانے والی ذہنی کشمکش، الجھنوں، محرومیوں، نا امیدی اور جذباتی ناآسودگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں تک ان کی افسانہ نگاری میں تانیثی شعور کا تعلق ہے ان کے افسانے نہ صرف نسائی خیالات و جذبات پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ وہ سائنسی، صنعتی اور تکنیکی دور کی اس تیز رفتار زندگی میں عورت کے ٹوٹتے بکھرتے وجود کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ آج عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ذہانت اور لیاقت کے جوہر دکھا چکی ہے لیکن دوسری طرف سائنسی، صنعتی اور تکنیکی دور نے بہت حد تک اس کی خانگی زندگی کو درہم برہم بھی کردیا ہے۔

 قمر جہاں کا افسانہ ’آج کی عورت‘ ملازمت پیشہ عورت کی الجھنیں اور اس کی دوہری ذمے داری کی تصویر کشی کرتا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی خیال دور حاضر میں ملازمت پیشہ عورتوں کا گھریلو کاموں اور پھر دفتری کاموں میں الجھ کر ٹوٹنا بکھرنا اور ذہنی و جسمانی تھکان میں مبتلا ہونا ہے۔ افسانے کی پیش کش کے اعتبار سے وہ انتہائی مؤثرہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بذات خود ایک عورت ہونے کے ساتھ تعلیم یافتہ ملازمت کرنے والی ایک ذمہ دار پروفیسر بھی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ملازمت پیشہ عورتوں کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو بہت ہی مؤثر طریقے سے اٹھایا ہے۔ انھوں نے مرد سماج کی سرد مہری کی طرف بھی کچھ گہرے اشارے کیے ہیں۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ جن گھروں کی عورتیں ملازمت کرتی ہیں انھیں کئی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ جب گھر سے اپنی ڈیوٹی پر نکلتی ہیں تو ان کے بچے ان کا دامن پکڑ لیتے ہیں، راستہ روکنے لگتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں اور ماں کی ممتا ڈھونڈھتے ہیں، جو ان کا پیدائشی حق ہے مگر ان سب سے پرے عورت کو وقت پر ڈیوٹی پر جانے کی مجبوری بھی شامل ہے۔ اسی کشمکش میں بچوں کی صحیح پرورش اور نگہداشت نہیں ہوپاتی ہے، جس کی وجہ سے خاندانی نظام مفلوج ہو کر رہ جاتاہے۔ قمر جہاں نے اس افسانے میں عصر حاضر کی عورت کی جوجدوجہد دکھائی ہے وہ اس بات کی غماز ہے کہ مردانہ سماج کے وضع کردہ اصولوں اور روایات کے خلاف عورت نے بغاوت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس کے بد لے میں اسے بہت سی الجھنوں اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ آئے دن ذمے داریوں کے بوجھ تلے دبتی چلی جاتی ہیں۔ ملاحظہ کریں یہ اقتباس:

’’اس کا قلم بے اختیاری میں رجسٹر پر چل رہا تھا اور ذہن گھر کی طرف ۔۔۔۔۔۔اتنے میں باس آکر کھڑی ہوگئیں اور رجسٹر کی طرف دیکھتے ہوئے گرجیں۔ ’’میں محسوس کررہی ہوں کہ اب آپ کا دل کام کرنے میں بالکل نہیں لگتا ہے۔۔۔۔۔۔دیکھیے آپ نے کیا غلطی کی ہے۔‘‘ وہ سر جھکا کر کھڑی ہوگئی اور ہمت کرکے بولی۔

’’معاف کریں گی میڈم، آج میں بے حد پریشان ہوں۔ میرا بچہ بیمار ہے میں نے چاہا تھا کہ آج۔۔۔۔۔‘‘

 افسانہ ’یادوں کی پروائیاں‘ میں ایک ایسی عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے جو تعلیم یافتہ برسر روزگار اور بہترین مصور ہے۔ جس نے زندگی میں وہ سب کچھ کیا جو ایک کامیاب اور خوش آئند زندگی کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن کیا واقعی اس کی زندگی میں وہ خوشیاں ہیں جو برق رفتار دنیا کی ریس میں عورت خود کو دیکھنا پسند کرتی ہے اور بڑی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوئی ہے مگر دنیا سے کندھا ملانے کی اس ہوڑ میں اس کی نسوانیت کو کہیں نہ کہیں ٹھیس لگی ہے۔ اس لیے افسانے کے درج ذیل کردار میں عورت اپنی ماں کے ساتھ خودکی زندگی کا محاسبہ کرتی ہوئی سوچتی ہے:

’’اماں کس قدرخدمت گزار عورت ہیں، راتوں میں اٹھ کر ابا حضور کی خدمت کرتے ہوئے ان کی پیشانی پر کبھی شکن نہیں آتی۔ رمضان میں خود روزے سے ہوتیں مگر ابا حضور ذیابیطس کے سبب روزہ رکھنے سے معذور تھے۔ اماں دن کے کھانے بناتیں، ٹفن ساتھ دیتیں، حالانکہ وہ خود بیمار رہتیں مگر یہ کیسا رشتہ تھا جہاں اپنے سارے دکھ درد کو بھول کر کسی کی خاطر جینا ہی زندگی بن جاتی ہے۔ کبھی کبھی اسے اماں پر افسوس بھی ہوتا واقعی ان کا وجود اس گھر کے لیے مشین کا ایک ضروری پرزہ بن کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اگر یہ پرزہ دو دن کے لیے بھی کام کرنا چھوڑ دے تو سارا گھریلو نظام ہی درہم برہم ہونے لگتا تھا۔۔۔۔۔۔

اکیسویں صدی میں داخلے کے بعد وہ اپنی موجودہ صورت حال میں خوش ہونے کے باوجود بہت مطمئن نہیں تھیں۔ کیا آج بھی ہم عورتوں کا وجود اپنے گھر کے لیے ایک اہم پرزے کی حیثیت رکھتا ہے؟ ایک ناقابل حل سوال اس کے دماغ پر مسلسل ہتھوڑے برسا رہا تھا۔‘‘

قمر جہاں نے سماج کی جڑوں میں پوشیدہ مختلف النوع مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ لڑکیوں کی شادی اور اس سے متعلق مسائل بھی ان کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ افسانہ ’مہورت‘، ’وہ لڑکی‘ اور ’اپنے ہوئے پرائے‘ وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو موضوع اور مسائل کی نوعیت کے اعتبار سے کافی اہم ہیں۔ افسانہ ’مہورت‘ لڑکی کی شادی پر ایک اچھا افسانہ ہے۔ لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ تو صدیوں سے ہمارے سماج میں چلا آیا اور آج بھی جوں کا توں موجود ہے۔ افسانے میں ایک باپ اپنی بیٹی کی تصویر لیے کئی دروازوں پر رشتے کے لیے جاچکا ہے لیکن بات طے نہیں ہوپاتی ہے۔ ایک مجبور باپ کے لیے خود سے لڑکی کی تصویر لے کر دردر کی ٹھوکریں کھانا گویا کسی بے حیائی سے کم نہیں۔ لیکن ایک کے بعد ایک متواتر تین بیٹیوں کے بوڑھے باپ کے کاندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ ہے۔ خود سے لڑکی دکھائے جانے کے اس عمل سے وہ بے زار بھی ہوتا ہے، اس کا ضمیر اس کو کچوکے بھی لگاتا ہے:

’’اکثر جگہوں پر تو بے حیا بن کر خود لڑکی کو ساتھ لے کر بھی اسے جانا پڑا تھا اور ایسے موقعوں پر سوال و جواب کی بوچھار سے اس کی گردن ایسی جھک جاتی کہ معلوم ہوتا اب وہ سیتا کی طرح زمین کے چاک ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔’ زمین پھٹ کیوں نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔‘ ایک دن وہ آپ ہی آپ بڑبڑا رہا تھا۔‘‘

افسانہ نگار نے کم و بیش اسی طرح کے ایک اور معاشرتی مسئلہ کو اپنے افسانہ ’اپنے ہوئے پرائے‘ میں پیش کیا ہے۔ لڑکی کے جذبات و احساسات کے اظہار کو وسیلہ بناکر سماج کی کڑوی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک لڑکی جو عمر کے پینتس سال گزار چکی ہے اب تک جانے کتنی دفعہ وہ لوگوں کے سامنے سج دھج کر پیش کی جاچکی ہے، لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی نقص نکال دیا جاتا ہے۔ آخر میں وہ مزید تماشا بننے سے انکار کردیتی ہے اور اسے اپنے لوگ بھی پرائے معلوم ہونے لگتے ہیں جو اسے شادی کے لیے بنا سنوار کر لڑکے والوں کے سامنے حاضر ہونے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ ایک اقتباس دیکھیں کہ لڑکی لوگوں کے ردعمل کے باعث کس ذہنی کیفیت سے گزر رہی ہوگی:

’’سب کچھ تو ٹھیک ہے مگر لڑکی کا قد چھوٹا ہے۔‘‘

کوئی کہتا:

’’لڑکی کا نقشہ تو بہت اچھا ہے مگر چارم نہیں ہے، کہیں سے کوئی آواز ابھرتی‘‘

’’لڑکی دبلی بہت ہے۔‘‘

اور بعد میں تو لوگ یہ کہنے لگے:

’’لڑکی کی عمر بہت زیادہ ہے۔‘‘

لڑکیوں کی شادی سے متعلق کئی ایسے مسائل ہیں جس نے ہمارے سماج کو کھوکھلا بناکر رکھ دیا ہے۔ کبھی لڑکی کی صورت شکل آڑے آتی ہے تو کبھی جہیز کی بڑھتی مانگ جس نے نہ جانے کتنی معصوم لڑکیوں کو نذر آتش کردیا یا لڑکیاں اپنے باپ کے گھر میں ہی بوڑھی ہوگئیں۔ جہیز جیسے ناسور مسئلے کو ظاہر کرتا ان کا افسانہ ’’وہ لڑکی‘‘ قابل ذکر ہے۔ یہ ایک شادی شدہ نو عمر لڑکی کی کہانی ہے، جسے بیانیہ انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔ اس لڑکی کو گھر والے سسرال بھیجنے پر اصرار کرتے ہیں مگر یہ لڑکی جو اپنی شادی شدہ زندگی سے حد درجہ بیزاری کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ سسرال والوں کو وہ قطعی پسند نہیں ہوتی  اور ان کے رویے کی وجہ سے لڑکی کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے۔ اسی کیفیت کو افسانہ نگار نے بڑی چابک دستی سے اشارتاً اخبار کی ایک خبر کے ذریعہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس میں ایک جلی ہوئی لڑکی کی تصویر کے ساتھ خبرشائع ہوئی تھی کہ یہ لڑکی کی سسرال میں ذہنی اور جسمانی طور پر استحصال کا شکار ہوئی ہے اور موت اب اس کا مقدر بن چکی ہے۔

عہد حاضر میں رشتوں کو بنیاد بنا کر لکھے گئے افسانوں میں ان کا افسانہ ’رشتے کی پہچان‘ بھی قابل ذکر ہے۔ اس افسانے میں کئی مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ غریب، بیوگی کا مسئلہ، سرکاری دفتروں میں بڑھتی بدعنوانیاں، رشتوں میں عدم اعتماد جیسے کئی اہم مسئلوں کو افسانہ نگار نے اٹھایا ہے۔خاص طور سے بدلتے ہوئے سماجی تناظر میں تعلیم یافتہ عورتوں کے ذہنی انتشار اور جذباتی ناآسودگی کو بھی بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ نئی صدی میں عورت ایک طرف جہاں اپنے وجود کے استحکام کے لیے آواز اٹھا رہی ہے اور احتجاجی رویہ رکھتے ہوئے مرد سماج کے مدمقابل ہر شعبے میں اپنے حقوق کو منوانے پر مصر ہے تو وہیں ایسی تصویریں بھی دیکھی جارہی ہیں جہاں ایک عورت مرد کے ہوتے ہوئے بھی پریوار کی کفالت کی ذمہ داری کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔

افسانے کا مرکزی نسوانی کردار جس کا شوہر قتل کردیا جاتا ہے بیوہ ہونے کے بعد اپنے دو چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو لے کر میکے چلی جاتی ہے۔ جہاں اس کی بوڑھی ماں اور بھائی پہلے سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اب اپنے میکے کی کفالت کی ذمہ داری بھی اس پر آچکی تھی۔ روز وہ نوکری کی تلاش میں گھر سے نکلتی  اور ایک آفس سے دوسرے آفس کا چکر لگاتی، لیکن مایوسی کے ساتھ واپس لوٹ آتی۔ ماں، بچے، بھائی سب اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے ایسی صورت میں سماج تو دور خود اس کے میکے والے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ افسانے میں عورت کا بھائی جو خود بے راہ روی کی ڈگر پر چل رہا ہے اور حد درجہ غیر ذمہ دار بھی ہے۔ وہ نوکری کی تلاش میں بھٹکتی اپنی بہن کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بازارو عورت کہنے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے، وہ کہتا ہے:

’’سیر سپاٹے کا یہ اچھا بہانہ ہے آپی! گھومئے خوب گھومئے۔۔۔۔۔ آج بھی آپ کو نوکری نہیںملے گی۔۔۔۔۔۔کل پھر اسی طرح بن سنور کر۔۔۔۔۔۔‘‘

’’ارے یہ تو کیا بول رہا ہے! تجھے ذرا بھی شرم نہیں کہ تو اپنی بڑی بہن سے جو تیری ماں برابر ہے۔۔۔۔۔‘‘

’’۔۔۔۔۔۔ مگر ماں تو نہیں نا۔۔۔۔۔۔؟ اس نے برجستہ مسکراتے ہوئے جواب دیا اور وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی۔۔۔۔۔۔ دل چاہا کہ ایک زبردست طمانچہ اس کے منہ پر رسید کرے مگر وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کہ کہیں وہ گھر چھوڑ کر ہی بھاگ نہ جائے۔۔۔۔۔۔ وہ خاموش تلملاتی رہی۔۔۔۔۔۔‘‘

اس افسانے میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عہد حاضر میں رشتوں پر سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ یہ نئے عہد کی تصویر ہے جہاں بھائی، بیٹا، شوہر، باپ سب رشتے اپنی اہمیت کھوتے جارہے ہیں، خاص کر اس طبقے میں جہاں غربت اپنا منہ پھاڑے ان رشتوں کی گرماہٹ کو نگلنے پر آمادہ ہے۔

عورتوں کی محرومی کے سلسلے سے افسانہ ’ٹوٹتے رشتے‘ بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں قمر جہاں اس بات کو پیش کرتی ہیں کہ آج کی عورتیں اور لڑکیاں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی سسکیوں سے بھری زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ افسانے کاراوی جو اپنے والد کے کہنے کے مطابق زندگی کے ہر اس موڑ پر خود کو سچ ثابت کرنے میں کامیاب رہتا ہے، جہاں بیشتر افراد کو کامیابی نہیںملتی ہے لیکن جب وہ ازدواجی زندگی میں بندھتی ہے تو شوہر کے مطابق وہ پورے طور سے کھری نہیں اترتی ہے۔ بالآخر طلاق کی نوبت آجاتی ہے اور وہ دوبارہ اپنے والد کے گھر چلی آتی ہے۔ طلاق کے بعد کی زندگی کتنی کڑوی ہوتی ہے۔ اس افسانے کے حوالے سے قمر جہاں اس پہلو کو سامنے لاتی ہیں کہ اگر ایک لڑکی کی شادی کے بعد کی زندگی سلامتی بھری نہ ہو تو خواہ وہ کتنی ہی ہائی فائی ذہنیت کی مالک کیوں نہ ہو۔ بالآخر اسے خون کے آنسو رونے پڑتے ہیں۔ اس پہلو کو قمر جہاں نے اس طرح بیان کیا ہے:

’’انھیں یاد آیا کبھی ان کی بیٹی کتنی شاندار Debater تھی۔ کیسے کیسے International Seminars میں اول رہی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر آج۔۔۔۔۔۔ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ مختصر Debate میں وہ ہار گئی۔

آخر کیوں۔۔۔۔۔۔؟ آخر کیوں؟‘‘

افسانہ ’ممتا کی خوشبو‘ میں نوکری پیشہ عورتوں کے گھر اور بچوں کی بے سکونی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک بچہ اسکول سے آنے کے بعد اپنی ماں کو گھر میں نہیں پاتا ہے تو اس وقت بچے کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے اس کو اس افسانے میں دکھایا گیا ہے۔ اقتباس دیکھیں:

’’بے بی جو اسکول سے بے حد خوش گھر آئی تھی لیکن گھر میں ممی کو نہ پاکر اس کا منہ لٹک گیا۔ اس کی آئی ہوئی بھوک ختم ہوگئی اور سامنے کھانے کی پلیٹ دیکھ کر بھی اس کا دل کھانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ اس نے خموشی سے پلیٹ اٹھائی اور دوبارہ نعمت خانہ میں رکھ دیا۔‘‘

ایک جگہ اور افسانہ نگار لکھتی ہیں:

’’آج اسکول میں وہ بے حد خوش تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ جلدی سے چھٹی ہو اور گھر جاکر وہ ماں سے لپٹ جائے اور اسے خوشخبری سنائے کہ وہ اپنے کلاس میں فرسٹ آئی ہے لیکن گھر پہنچ کر اس کی ساری مسرت ہوا ہوگئی۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے دوڑتے دوڑتے کہیں ٹھیس لگی اور وہ اچانک زمین پر گر پڑی ہو۔‘‘

قمر جہاں نے ایک نوکری پیشہ عورت کی ذاتی الجھن اور اس کے گھر کے ماحول کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ آج گھر گھر کی کہانی ہوکر رہ گیا ہے۔ جس کا منفی اثر سب سے زیادہ گھر کے بچوں پر پڑ رہا ہے۔

افسانہ نگار کی سماج پر گہری نگاہ ہے۔ عورتوں کی گھریلو پریشانیوں اور ازدواجی زندگی کی محرومیوں کا بیان بھی ان کے افسانوں میں بڑے دل آویز طریقے سے کیا گیاہے۔ کہانی ’ایک معمہ‘ میں افسانہ نگار نے ایک عورت کی ازدواجی زندگی کی بیچارگی کو اپنا محور بنایا ہے۔ مسز شرما جو دیکھنے میں بے حد خوبصورت ہے، اپنے شوہر کی بے توجہی کا شکار ہوتی ہے۔ شوہر کے لیے سراپا انتظار رہتی ہے۔ اس کا شوہر برابر ہی دیر سے آتا اور اکثر تو آتا بھی نہیں ہے۔ افسانہ نگار نے ازدواجی زندگی کی دکھتی رگوں کو بڑے سیدھے سادے اور حقیقی رنگ میں پیش کیا ہے۔ ان کی کہانیوں میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں پائی جاتی ہے۔ وہ زندگی کی سچائی اور اس کے مسائل کوسیدھے سادے انداز میں بیان کر نے کا ہنر جانتی ہیں۔

مجموعی طور پریہ کہا جائے کہ قمر جہاں نے سماج میں پھیلے ہوئے ہر طرح کے مسائل کو اپنی کہانیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ انھوں نے عام طور پر گھروں میں پیدا ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنی تحریروں میں بیان کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بالخصوص سماج اور معاشرے پر گہری نگاہ و نظر ہونے کی وجہ سے ان کے افسانوں میں عورتوں کی گھریلو پریشانیوں اور ازدواجی زندگی کی محرومیوں کا بیان بڑے پراثر طریقے سے ملتا ہے۔مگر سچ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں کے کرداروں کو عورت و مرد کے نظریہ سے نہیں دیکھا ہے بلکہ ان کے مسائل کو ترجیح دی ہے، یہ خاصیت انھیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔

Dr. Wasiqul khair

Head of the Department

Department of Urdu

B N College, TMBU

Bhagalpur, Bihar, 812007

wasujnu@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...