اردو دنیا،جولائی 2025
شمس
الحق عثمانی15فروری1948کو محلہ ابوالمعالی، دیوبند ضلع سہارن پور، اترپردیش کے ایک
علمی اور دیندار خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شمس الحق ہے اور’عثمانی‘ کی
وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اُن کی چھٹی کلاس میں شمس الحق نام کا ایک طالب علم تھا؛ چونکہ
حاضری کے وقت اساتذہ شمس الحق اوّل اور دوم پکارتے تھے، لیکن نویں جماعت میں فارسی
کے ایک استاد احمد جمیل فاروقی نے شمس الحق اول(شمس الحق عثمانی) سے دریافت کیا کہ
کس خاندان سے ہو؟شمس الحق نے جواباً ’’شیخ‘‘ کہا۔فاروقی صاحب نے پھر معلوم کیا کہ
کون سے شیخ؟واضح رہے کہ شمس الحق عثمانی کے ننھیال میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی
اور علامہ عامر عثمانی وغیرہ مشہور و معروف بزرگ گزرے ہیں۔ فاروقی صاحب کے دریافت
کرنے پر کہ کون سے شیخ ہو ؟شمس الحق کے منہ سے بے ساختہ ’’عثمانی‘‘نکلا۔ تب سے شمس
الحق کے ساتھ عثمانی کی نسبت وابستہ ہوگئی۔ددھیال کی طرف سے شمس الحق کو ایک گھر یلونام’’چھمن‘‘
ملا تھا۔ شمس الحق عثمانی اپنی پیدائش کے دو سال بعد یعنی 1950 میں اپنی والدہ کے ساتھ دہلی آئے۔ والد صاحب
پہلے سے ہی دہلی میںگھڑی سازی کاکام کرتے تھے اور کچھ کمائی کے بعد ایک مکان کرایہ
پر لے لیا تھا۔شمس الحق عثمانی کے والد کا نام حافظ امداد الحق تھا۔ وہ ایک ایسے
دور میں دہلی آئے جب بے شمار مکانات، حویلیاں اور محلے ویران ہوگئے تھے اور دہلی
سے بے شمار مسلمان پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ امداد الحق بھی دیوبند سے دہلی بہ
سلسلہ روزگا ر ہی آئے تھے اوریہاں آکر حاجی نجم الدین مرحوم سے فن ِگھڑی سازی سیکھنے
لگے۔ حالانکہ سکونت کا کوئی مستقل بندوبست نہیں تھا، اس لیے حاجی نجم الدین کے گھر
قیام کرتے تھے۔شمس الحق عثمانی کے والد حافظ قرآن تھے؛ نہایت دیانت دار، ہم درد
اور پرہیزگار آدمی تھے۔نماز کی پابندی، تلاوت قرآن اور احکام الٰہی وفرمان نبیؐ
کو اپنی زندگی کا معمول بنایا تھا۔شمس الحق عثمانی کی والدہ کانام حسنیٰ تھا جوصوفی
سعید حسن کی صاحبزادی تھیں۔ سعید حسن حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے
بھتیجے اور مولانا ذوالفقارعلی کے پوتے تھے، جو بانیان دارالعلوم دیوبند میں سے
تھے۔شمس الحق عثمانی کی والدہ ایک نیک سیرت اور صوم وصلوۃ کی پابند تھیں۔ شمس الحق
عثمانی کا بچپن دہلی اور دیو بند دونوں جگہوں میں گزرا۔ دراصل وہ ددھیال کے بہت
لاڈلے تھے اور وہاںجانا پسندکرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ کچھ عرصہ دیوبند میں رہتے
تھے اور کچھ وقت دہلی میں۔شمس الحق عثمانی بچپن سے ہی ذہین اور حسا س طبیعت کے
مالک تھے۔ شمس الحق عثمانی کی ابتدائی تعلیم گھر میںہوئی۔اس دوران اُنھوں نے اپنے
خالو انعام الحق، جو اپنے زمانے کے گریجویٹ تھے اور ہمدرد دواخانے میں ملازم تھے،
سے ابتدائی اردو اور انگریزی پڑھی۔اُس زمانے میںایک اردو اخبار’تیج‘ نکلتاتھا،جس
کے خریدار انعام الحق بھی تھے۔شمس الحق نے اسی اخبار سے اردو سیکھی۔ اس کے علاوہ
محلے میں ایک ٹیچر ماسٹر خلیل الرحمن تھے، جن سے انگریزی، حساب اور ہندی وغیرہ پڑھی۔
گزشتہ سطور میں اس بات کا ذکر ہو چکا ہے کہ شمس الحق کے والد امداد الحق حافظ
قرآن تھے۔اس مناسبت سے خاندانی روایت کے احترام میں شمس الحق کو بھی حفظ کرایا گیا،
لیکن بیٹے کا رجحان انگریزی زبان کی طرف دیکھتے ہوئے چھٹی جماعت میں’اینگلو عربک
اسکول‘ دہلی میں داخلہ کرایا گیا۔جہاں سے شمس الحق نے 1966 میں ہائر سکینڈری امتیاز
ی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ یہیں سے اُنھیں اردو سے غیر معمولی دلچسپی پیدا ہوئی۔
اس دوران اُنھیں قاسم صدیقی جو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ہائر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل اور جامعہ اردو کے سابق وائس
چانسلر سے شرف تلمذ رہا۔جن کی سرپرستی اور رہنمائی میں شمس الحق نے تحریر وتقریر میں
بڑا نام پیدا کیا اور کئی انعامات سے بھی نوازے گئے۔ ہائر سکینڈری کے بعد اُنھو ں نے دیال سنگھ کالج
میں بی کام میں داخلہ لیا،لیکن کامرس سے طبعی مناسبت نہ ہونے کے سبب اُن کا ایک سال ضائع ہوگیا۔ شمس الحق کی
شادی 11 اکتوبر1970 کو اُن کے خالو انعام الحق کی بیٹی روشن بیگم سے ہوئی۔ 1976 میں
بی اے آنرس اردوکے لیے ذاکر حسین کالج (شبینہ) دہلی یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔
چونکہ والدصاحب معاشی ناآسودگی کا شکار تھے؛ اس لیے اپنے والدکا ہاتھ بٹانا پڑا۔ یہی
وجہ ہے کہ سینئر ہائر سکینڈری سے بی اے آنرس تک اُنھیں دس سال کاعرصہ لگا۔ بی اے
آنرس کے بعد ہی1978 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے ایم۔اے فرسٹ ڈیویژن، اے
گریڈ کے ساتھ پاس کیااور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہی انھیں 1984 میں ’راجندر سنگھ بیدی:شخصیت
اورفن‘ پر ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری تفویض ہوئی۔یہ مقالہ اُنھوں نے گوپی چند نارنگ
کی نگرانی میں لکھا۔ قرۃ العین حیدر، مسعود حسین خان اور آل احمد سرور اُن کے
ممتحن تھے۔
شمس
الحق عثمانی کا پہلا افسانہ طالب علمی کے زمانے میں ہی بہ عنوان’دن کہیں رات کہیں‘ہفت
وار ’پیام مشرق‘، دہلی کے اکتوبر شمارے میں 1965 میں شائع ہوا۔ جب کہ اُن کا پہلا
ادبی مضمون بہ عنوان ’حسرت موہانی: رنگارنگ شخصیت‘ اینگلوعربک کے سالانہ میگزین
’اعتمادیہ‘میں1966 میں شائع ہوا۔بہ حیثیت نقادان کا پہلا مضمون بہ عنوان ’ساتویں
دہائی کا افسانہ‘ اکتوبر 1972 کے ’شب خون‘ الٰہ آباد میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ملک
اور بیرون ملک کے تقریباً تمام معیاری ادبی رسائل میںان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔
اُنھوں نے اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی دور میں تقریباً 40 افسانے لکھے، جو کہ
مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ لیکن تاحال کتابی صورت میں منظر عام پر نہیں
آئے ہیں۔ اُس کے بعد افسانہ نگاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے ادبی تنقید کی طرف
مائل ہوئے۔اس ضمن میں اُنھوں نے ایم۔اے کے فوراً بعد یعنی 1979 میں ’نظیر نامہ‘ کے
عنوان سے ایک ضخیم کتاب ترتیب دی،جو کہ نظیر اکبر آبادی کی شخصیت اور فن پر معروف
نقا دوں کے اٹھارہ منتخب مضامین اور ستائیس نمائندہ منظومات پر مشتمل ہے۔
پی ایچ۔ڈی مکمل کرنے
کے بعد شمس الحق دوسال تک ملازمت کے سلسلے میں کوشاں رہے اوربالآخر 8ستمبر1986 کو
ان کا تقرر بہ حیثیت پی جی ٹی اردو، جامعہ سینئر سکینڈری اسکول میں ہوا۔یہ ان کی
تدریسی زندگی کا پہلا پڑائوتھا۔یہاں وہ 20ستمبر 1988 تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اُس کے بعد یٰسین
مئوڈگری کالج،نوح،ہر یانہ میں 2 جنوری1989 کو ان کا تقرر بہ حیثیت اردو لیکچرر
ہوا۔ 22 اکتوبر 1989 کو مستقل لیکچرر شپ سے مستعفی ہوئے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں
23 اکتوبر1989 کو کنٹریکچول لیکچرر کی ملازمت اختیار کی۔بہ حیثیت سینئر لیکچرر اُن
کا تقرر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 2جنوری1994 کو ہوا۔ 2جنوری 1998 میں ریڈر ہوئے۔جب
کہ 25 جون 2004 سے 28فروری2013 تک بہ حیثیت پروفیسر اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔اس
دوران وہ 17مئی 2007 سے 16مئی 2010 تک صدر شعبہ اردو بھی رہے۔شمس الحق 28 فروری2013کو
اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ شمس الحق عثمانی کو اُن کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف
میں کئی اردو اکادمیوں نے انعامات واعزازات سے نوازاہے،جن کی فہرست حسب ذیل ہے:
.1 کتاب ’بیدی
نامہ‘(1986) پر اردو اکادمی،د ہلی کا انعام،زمرۂ اول،مبلغ تین ہزار روپے ۔
.2 کتاب ’بیدی
نامہ‘(1986) پر اُترپردیش اردو اکادمی،لکھنوکا انعام مبلغ ڈیڑھ ہزار روپے کا
انعام۔
.3 ’محب وطن‘پریم
چند اور دیگر مضامین(1989) پر اُترپر دیش اردو اکادمی،لکھنوکا مبلغ ایک ہزار روپے
۔
.4 ’دراصل‘(1999) پر
اُتر پردیش اردو اکادمی،لکھنو کا مبلغ ڈیڑھ ہزار روپے ۔
.5 ’دراصل‘(1999) پر اردو اکادمی،دہلی سے بھی زمرۂ اول،مبلغ
پانچ ہزار روپے کا انعام۔
.6 مجموعی تنقیدی
وتحقیقی خدمات کے اعتراف میں اردو اکادمی،دہلی کی جانب سے ’ایوارڈ برائے تحقیق
وتنقید‘ 2007 مبلغ پچیس ہزار روپے کا انعام۔
.7 غالب انسٹی ٹیوٹ
نئی دہلی کی جانب سے 2014 میں’غالب ایوارڈ‘ برائے مجموعی ادبی خدمات مبلغ پچہتر
ہزار روپے کا انعام۔
شمس
الحق عثمانی کسی مخصوص تنقیدی نظریے کے نقاد نہیں ہیں اور نہ ہی کسی تھیوری یا تحریک
سے واضح طور پر متاثر دکھائی دیتے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک نظریہ ساز
نقاد بننے سے زیادہ اُس قاری کے معاون ومددگار بننا ضروری سمجھتے ہیں جو ادب پڑھنا
جانتا ہو اور ادب فہمی کا جذبہ رکھتاہو۔وہ اپنی آنکھوں پر بغیر کسی مخصوص نظریے کی
عینک کے ادب پارے کو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ادب پارے کو ادیب کی اُفتاد طبع
کا زائیدہ تسلیم کرتے ہوئے اُسے ہر طرح کے نظریاتی جبر سے آزاد قرار دیتے ہیں۔راقم
کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران جب اس حوالے سے استفسار کیا گیا کہ کیا تخلیقی و تنقیدی
عمل کسی مخصوص نظریے کا محتاج ہوتا ہے؟ تو اُنھوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے
کہا:
’’ادب
بذات خود ایک وجود رکھتاہے ادب پارہ جب تخلیق ہورہا ہوتا ہے تو وہ کسی نظریہ کو
قبول نہیں کرتا ہے۔وہ ادیب کی اپنے اُفتاد طبع سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘
(شخصی انٹرویو،شمس الحق عثمانی،2جنوری 2015)
مذکورہ
بالا رائے سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمس الحق فن پارے کی
تخلیقیت یا معنی خیزی کے عمل میں کسی مخصوص نظریے کو فن پارے کی’محدودیت‘ سے تعبیر
کرتے ہیں۔اُنھوں نے اس ضمن میں مزید اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بعض تخلیق کاروں
کے یہاں اس طرح کے تخلیقی رویے پر گرفت کی۔ اُن کا ماننا ہے کہ بعض تخلیق کار ادب
کی تخلیقیت میں یک رخا رویہ اس لیے اختیار کرتے ہیں،کیوں کہ تخلیقی عمل کے دو ران
وہ اپنے پا نچوں حواس کو بروئے کار لانے سے قاصر ہوتے ہیں۔نتیجے کے طور ادب کو ایک
وحدت کے طور پر خلق کرنے کے بجائے کسی مخصوص نظریہ یا رجحان سے متاثر ہوکر ادب تخلیق
کرتے ہیں۔اس طرح وہ ادب کی لامحدودیت سے محدودیت کی سمت الٹا تخلیقی سفر کرتے ہیں۔شمس الحق کا
ماننا ہے کہ بعض تخلیق کار،جو اپنی آنکھوں پر مخصوص نظریات اور رجحانات کی عینک
چڑھا تے ہیں، تخلیقی عمل کی محدودیت کے ذمہ دار ہیں۔انھوں نے ادب کے اسی موقف کا
اطلاقی نمونہ پیش کرتے ہوئے ادب کو قدیم وجدید، اعلیٰ وادنیٰ جیسے خانوں میں بانٹے
بغیر ادب کی تفہیم و تعبیر کی۔چنانچہ ادب کے دو بنیادی نظریے ’ادب برائے ادب‘
اور’ادب برائے زندگی‘ کے حوالے سے راقم الحروف کے استفسار پر شمس الحق نے ان نظریات
کو ’گروہ بندی کرنے والوں‘کی کارستانی سے تعبیر کیا۔ کیوں کہ اُن کے نزدیک ادب
پارہ بالکل آزاد ہوتا ہے،جسے مخصوص خانوں میں نہیں بانٹا جاسکتا۔اس ضمن میں ان کا
نظریہ کچھ یوں ہے:
’’
ادب میں یہ تخصیص واضح نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف پیشہ ور
نقادوں کی کارفرمائی ہے...گروہ بندی کرنے والوں نے یہ تقسیم کی ہے ورنہ ادب پارے
اپنے طور پر آزاد ہیں۔‘‘
(شخصی انٹرویو،شمس الحق عثمانی،2جنوری 2015)
شمس
الحق بارہااس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’میں، ادب میں قدیم وجدید ادب کے فرق سے
معذور ہوں‘‘(مضمون؛منٹو :خلق اللہ کا فہیم)۔یعنی اُن کے یہاں ترقی پسندی، جدیدیت
اور مابعد جدیدادب کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے یہاں کسی خاص دور یا
مخصوص نظریے یا رجحان کے ادب کی تقسیم نہیں ملتی ہے۔اُنھوں نے کرشن چندر، بلونت
سنگھ اورراجندر سنگھ بیدی کے ساتھ ساتھ منٹو کا مطالعہ بھی کیا۔جدید ادیبوں میں
بلراج کومل، اخترالایمان،میرا جی،ن۔م۔راشد اورباقر مہدی کا مطالعہ کیا۔ جب کہ ترقی
پسندوںمیں احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس وغیرہ کا مطالعہ بھی کیا۔اُن کا ماننا ہے
کہ اردو ادب میں تخلیق کاروں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے،جنھوں نے زندگی اورمعاملات
زندگی کے تئیں یک رُخا رویہ اختیار کرکے ادب کے بعض پہلوئوں سے یکسر منہ موڑلیا
ہے۔ حالانکہ تخلیق کاروں کا ایسا گروہ بھی ہے جو ایک طرف ادب کو ’حصول مسرت‘ اور
’تطہیر نفس‘کا ذریعہ سمجھتا ہے، لیکن دوسری طرف زندگی اور معاشرتی مسائل کی طرف
انگشت نمائی بھی کرتا ہے۔مجموعی طور پر شمس الحق کے نزدیک اردو ادب پر بورژوائی
طبقے کی بالا دستی رہی ہے، جس نے اردو ادب کو معاشرتی مسائل سے چشم پوشی سکھائی۔یہی
وجہ ہے کہ شمس الحق تفہیم و تعبیر کے دوران فن پارے پر کسی مخصوص رجحان یا تحریک
کا لیبل نہیں لگاتے ہیں اور نہ ہی مروجہ تنقیدی نظریات کی روشنی میں فن پارے پر
احکامات صادر کرتے ہیں؛ بلکہ فن پارے کو بالکل ایک آزاد شئے تصّور کرکے باریک بینی
اور دیدہ ریزی سے فن پارے کی اتھاہ گہرائیوں میں پوشیدہ معنی کو کشید کرتے ہیں۔واضح
رہے کہ اس معنی خیزی کے عمل میں وہ ’سنجیدہ قاری کو شریک کرنا‘ اپنا تنقیدی فریضہ
سمجھتے ہیں:
’’...نقادکا منصب شاید یہ ہے کہ وہ فن پارے کی مخصوص بصیرت ومعنویت
تک رسائی پانے کی کوشش کرے_____ اور شاید تنقید کا اوّلین فریضہ یہ ہے کہ قاری کو
فن پارے کی مخفی بصیرت سے فیض یاب ہونے کی راہ دکھائے۔‘‘
( شمس الحق عثمانی،بیدی نامہ،بیدی کا فنی رویہ،1986،ص118)
یہاں
پر شمس الحق عثمانی کا تنقیدی نظریہ کسی حد تک واضح ہو جاتا ہے۔ اول تو یہ کہ وہ
کسی مخصوص تنقیدی نظریے کی تقلید کرتے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں۔ دوم یہ کہ اُنھوں نے اپنا تنقیدی نظریہ کئی
نقادوں، دانشوروں اور ادیبوں کے نظریات سے تشکیل دیا ہے، جن کی شناخت ادب میں
مختلف ادبی و تنقیدی رجحانات سے ہے۔شمس الحق تنقید کو تخلیق کا درجہ دیتے ہیں؛ کیونکہ
تنقید فن پارے کی بازیافت کرتی ہے۔تنقید فن پارے کو ایک خام مواد کے طور پر
استعمال کرکے تخلیقی درجے کو پہنچتی ہے۔اس تناظر سے شمس الحق کا یہ اقتباس دلچسپ
معلوم ہوتا ہے۔:
’’
میرا نظریہ تنقید—— جسے میں نے محمد حسن عسکری، پروفیسر
آل احمد سرور، پروفیسر گوپی چند نارنگ، محمود ہاشمی، ایلن ٹیٹ، کلینتھ بروکس اور
ایسے ہی دوسرے بزرگوں اور دانشوروں کے نظریات سے تشکیل دیا ہے—— مجھے یہ باور
کراتا ہے کہ ہر تنقید نگار کسی بھی ادب پارے کو خام مواد کے طور پر استعمال کرتا
ہے اور اس خام مواد کی بنیادپر نہ صرف اپنی تنقید کو تخلیق کا اعتبار اور
اعتمادبخشتا ہے بلکہ اس ادب پارے کی بازیافت اور اس کی تخلیقِ مکررکا اہم ادبی فریضہ
بھی ادا کرتا ہے۔‘‘
(شمس الحق عثمانی، نظیر نامہ، نظیر اور کلام نظیر کچھ اشارے،ص14)
’تنقید
کو تخلیق کا اعتبار اور اعتماد بخشنا‘ یاتنقید کو ’تخلیق مکرر‘ تسلیم کرنے سے شمس
الحق عثمانی کا تنقیدی نظریہ یہاں تک آتے آتے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ’تخلیقی
تنقید‘کے حامل نقاد ہیں۔ تخلیقی نظریہ نقد کے تناظر سے فن پارے کے تفہیمی اور تجزیاتی
عمل کے دوران کوئی مخصوص نظریہ قائم نہیں رکھا جا سکتا ہے؛ کیونکہ تخلیق کار جس
مرکزی خیال کو لے کر فن پارہ تخلیق کرتا ہے،کبھی لاشعوری اور جذباتی کیفیات
اُس مرکزی خیال پر حاوی ہوجاتے ہیںاور ایک
ایسا فن پارہ جنم لیتا ہے جس کا گمان تخلیق کار کو بھی نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا جب تخلیق
کار کے خیالات دوران تخلیق اپنی ماہیئت بدلتے رہتے ہیں؛تو تفہیم کے دوران کسی فن
پارے پر مخصوص نظریے کااطلاق کیسے ممکن ہے ؟اس طرح دیکھا جائے تو تخلیقی تنقید کسی
مخصوص نظریہ کے تناظر سے فن پارے کی تفہیم نہیں کرتی ہے۔تخلیقی تنقید کے اس نظریے
کو ذہن میں رکھیے اور شمس الحق کے مذکورہ بالا اقتباس کو پڑھیے، تو خوب اندازہ
ہوتا ہے کہ وہ فن پارے کی حدود میں تحلیل ہو کر اپنی تنقیدی حس کو بروئے کار لاکر
فن پارے کی بصیرتوں کو آشکار کرنے کو ہی اپنا تنقیدی فریضہ سمجھتے ہیں۔تفہیم کے
دوران وہ فن پارے کے مخصوص تخلیقی عناصر کے بجائے مجموعی تخلیقی پہلوئوں کو مدنظر
رکھتے ہیں۔اُن کے نزدیک یہی ایک طریق کار ہو سکتا ہے،جس سے فن پارے کی مکمل تفہیم
ممکن ہے۔ کیوں کہ فن پارہ مخصوص کیفیات کے
بجائے مختلف النوع کیفیات کا حامل ہوتا ہے۔ لہٰذا شمس الحق عثمانی کے نزدیک فن
پارے کی مکمل تفہیم تب ہی ممکن ہے جب نقاد فن پارے کی فضا وکیفیت میں رہ کراُسے
مجموعی طور پر سمجھنے کی کوشش کرے۔اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
’’
ادب فہمی کا ایک مشرب یہ ہے کہ فن کار کے مجموعی تخلیقی
ذہن اور فن پارے میں خلق شدہ فضا وکیفیت میں تادیر رہ کر بھی فن پارے کو سمجھنے کی
کوشش کی جائے۔‘‘
(آئینہ حیرت کے لشکارے مشمولہ دراصل،1999،ص42)
شمس
الحق عثمانی کے ادبی و تنقیدی نظریات کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ
ناقد ادب اور قاری کے درمیان رشتہ قائم کرنے والا
ہوتا ہے۔یعنی اُن کے نزدیک نقاد پہلے نقاد ہوتا ہے، بعد میں کسی مخصوص نظریے
کی توضیح کرنے والا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ادبی نقاد کو ادبیت کے ساتھ اپنا تنقیدی
فریضہ انجام دینا چاہیے، نہ کہ کسی مخصوص نظریے کا ڈھنڈورچی بنے۔ اسی لیے شمس الحق
کے نزدیک ایک نقاد کو چاہیے کہ وہ ادب اور ادیب کی اہمیت کو تسلیم کرے اور کھلے
ذہن سے فن پارے کا تجزیہ اس انہماک و لگن سے کرے کہ تخلیق کار کے ذہن تک اُس کی
رسائی ممکن ہو جائے اور وہ فن پارے سے پوشیدہ معنی و مفہوم کشید کر سکے۔ دوسری طرف
شمس الحق اس بات کے بھی قائل ہیں کہ فن پارے سے حاصل ہونے والی مسرت کا احساس قاری
کو بھی ہونا چاہیے؛ دیکھا جائے تو یہ تب ہی ممکن ہے جب نقاد جملہ معنیاتی اسرارو
رموز کی تلاش کے پیش نظرفن پارے کا مطالعہ کرے۔ اس طرح اُن کے تخلیقی نظریہ نقد میں
جمالیاتی عناصر کی تلاش کا بھی دخل ہے۔ بہر صورت شمس الحق عثمانی کے تنقیدی نظریے
سے ایسا تجزیاتی مطالعہ مقصود ہے جس میں ایک طرف فن پارے کی تمام اَن کہی باتیں
اوربصیرتیں آشکار ہوسکیں تو دوسری طرف ادب کی ادبیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قاری کو
جملہ ادبی محاسن سے واقف کرایا جاسکے۔
Dr. Owais Ahmad Bhat
Dept. of Urdu
Kashmir University
Kashmir-190006
Mob.: 9149958892
rafidowais@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں