26/12/25

اردو غزل میں بٹر فلائی افیکٹ،مضمون نگار: انجینئر محمد عادل

 اردو دنیا،جولائی 2025

بٹر فلائی افیکٹ (Butterfly Effect) ایک سائنسی نظریہ ہے جو کائوس تھیوری(Chaos Theory) سے تعلق رکھتا ہے۔ کائوس تھیوری ایک ریاضیاتی اور سائنسی نظریہ ہے جو پیچیدہ نظاموں (complex systems) کے طرز عمل کو سمجھنے سے متعلق ہے۔ اس نظریے کا بنیادی خیال یہ ہے کہ کچھ نظام انتہائی حساس حالات سے شروع ہوتے ہیں، جہاں ابتدائی حالات میں معمولی سی تبدیلی بھی طویل مدتی نتائج میں بڑی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔بٹر فلائی افیکٹ بھی اسی بنیادی خیال سے وابستہ جس میں ایک چھوٹی سی تبدیلی، جیسے کہ تتلی کے پر پھڑپھڑانے سے ہوا میں پیدا ہونے والی ہلکی سی لہر، وقت کے ساتھ بڑی اور غیر متوقع تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہے اور جس کے توسط سے کہیں دور طوفان کا جنم ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ تصور بنیادی طور پر طبیعیات اور ریاضی سے وابستہ ہے، لیکن اگر اس نظریے کے نقطۂ نظر سے ادب، فلسفہ اور انسانی زندگی کے دیگر شعبوں کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

اردو غزل جو اپنی گہرائی، جذباتی شدت اور استعاراتی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے، اس تصور کو اپنے اندر سمونے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ لہٰذا راقم الحروف نے اس مضمون میں یہ جائزہ لینے کی سعی کی ہے کہ کس طرح بٹر فلائی افیکٹ کو اردو غزل کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، اور اس کے عناصر غزل کی روایت کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

بٹر فلائی افیکٹ کی اصطلاح سب سے پہلے امریکی ماہر ریاضی و موسمیات ایڈورڈ لورینز (Edward Lorenz) نے 1960 کی دہائی میں متعارف کروائی۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر ایک تتلی برازیل میں، اپنے پنکھ پھڑپھڑائے تو اس سے ٹیکساس میں ایک بھیانک طوفان آ سکتا ہے۔ ایڈورڈ کا یہ بھی خیال تھا کہ ہر جاندار چیز سے کوئی بھی کام اتفاقاً نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ’بٹر فلائی افیکٹ‘ ہوتا ہے جس سے شروع ہونے والا عمل ایک کڑی سے جڑ کر، دوسری کڑی اور اسی طرح جڑتے جڑتے کہیں دور اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔

ایڈورڈنے دریافت کیا کہ موسمیاتی نظام میں چھوٹی سی تبدیلی، جو بظاہر نظر انداز کی جا سکتی ہو، مستقبل میں بڑے پیمانے پر نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ اس نظریے نے سائنس کے علاوہ ثقافتی اور ادبی دائروں میں بھی اپنی جگہ بنائی، کیونکہ یہ انسانی زندگی کے غیر متوقع پن اور باہمی تعلقات کی پیچیدگی کو اجاگر کرتا ہے۔

اردو غزل جو عمومی طور پر محبت، جدائی، درد اور عارضی زندگی کے موضوعات کو اپنا محور بناتی ہے، اس تصور کے لیے ایک زرخیز زمین فراہم کرتی ہے۔بٹر فلائی افیکٹ کے حوالے سے اردو غزل کا جائزہ شاعری کی کائنات کو ایک نئے مفہوم اور نقطہ ٔ نظر سے سمجھنے کے لیے نئی جہت کا دَر  وا کرتا ہے۔جہاں ایک لمحے کا عمل یا ایک چھوٹی سی بات پوری زندگی کو بدل دیتی ہے۔

اردو غزل کاجائزہ لینے کے بعد یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اشعار کے علامتی،استعاراتی اور فلسفیانہ پیرائے میں ہمارے شعرا نے ایسے ایسے خیالات قلم بند کر دیے ہیں جو بٹر فلائی افیکٹ سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یعنی اشعار میں آیا ایک چھوٹا سا عمل، جذبہ، یا واقعہ قاری اور معاشرے پر بڑے اثرات مرتب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، محبت کی ابتدا ایک نظر کے تبادلے سے ہوتی ہے، جو ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس کے اثرات عاشق کی پوری زندگی کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ غالب کا ایک شعر ملاحظہ کریں جو اس فکر کی منفرد عکاسی کرتا ہے         ؎

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے

یہاں اس شعر میں غالب ایک خواہش کا ذکر کر رہے ہیں جو بظاہر ایک چھوٹے سے جذباتی لمحے کے سبب وجود میں آتی ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے اتنی شدت اختیار کر لیتی ہے کہ پوری زندگی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ بٹر فلائی افیکٹ کی ایک شاعرانہ تفسیر ہے، جہاں ایک چھوٹا سا جذبہ بڑے نتائج کا پیش خیمہ بنتا ہے۔اسی طرح غالب اپنے ایک اور شعر میں کہتے ہیں        ؎   

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

اس شعر میں غالب ایک چھوٹے سے لمحے کے لیے وصال نہ ہونے کو زندگی کے پورے سفر پر اثر انداز ہونے والے واقعے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اپنے محبوب سے عاشق کی ایک مختصر سی ملاقات یا وصال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی پوری زندگی انتظار اور بے چینی کی کیفیت میں گزر ی۔ شعرمیںیہ ایک چھوٹا سا واقعہ بڑے جذباتی اثرات کا باعث بنتا ہے۔

بٹر فلائی افیکٹ سے تعلق رکھنے والی تتلی اردو شاعری میں خود ایک خوبصورت علامت ہے ۔ تتلی کے رنگ برنگے پر،اس کے پھڑپھڑانے کی نزاکت ،اس کی چال ڈھال کو شعرا نے بڑے منفرد انداز میں پیش کیا ہے       ؎

اپنے پر کھولتی ہے اک تتلی

 کوئی طوفان آنے والا ہے     (عادل فراز)

یہاں اس شعر میں شاعر نے بٹر فلائی افیکٹ کی بڑی خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ بٹر فلائی افیکٹ جس کی ابتدا تتلی کے پر کھولنے کر پھڑ پھڑانے سے ہوتی ہے۔ لیکن اس کے پروں سے پیدا ہونے والے ارتعاش کی توانائی دھیرے دھیرے طوفان کی کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔ بظاہر وہ چھوٹا سا واقعہ ہے جو تتلی کے پر پھڑپھڑانے کی طرح معمولی لگتا ہے، لیکن اس کا اثربڑا بھیانک اور دیر پا ہو تاہے۔اسی طرح کیف بھوپالی بھی اپنے ایک شعر میںتتلی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں          ؎

گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو

 آندھیو تم نے درختوں کو گرایا ہوگا(کیف بھوپالی)

یہ شعر بٹر فلائی ا فیکٹ کا براہِ راست استعارہ ہے۔ تتلی، جو نازک اور معمولی سی مخلوق ہے،اس کو شاعر گل سے گرانے کی بات کر رہا ہے۔گویا کیف بھوپالی تتلی کو گرا کر بٹر فلائی افیکٹ کے عمل کو شروع کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ اس کی جنبش ایک بڑے طوفان یاآندھی کا پیش خیمہ بنے۔شعر کا دوسرا مصرع ’’آندھیو تم نے درختوں کو گرایا ہوگا‘‘ اسی بات کا عکاس ہے۔ شاعر اپنے اس شعر کے ذریعے یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایک چھوٹا سا عمل یعنی تتلی کے پھول سے گرنے پر بڑے پیمانے پر تباہی، آندھیوں کا چلنا اور درختوں کے گرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ بٹر فلائی افیکٹ کی بنیادی روح کی عکاسی کرتا ہے کہ معمولی واقعات غیر متوقع بڑے نتائج کو جنم دے سکتے ہیں۔

اردو غزل میں نہ صرف تتلی کی پروں سے پیدا ہونے والے اثرات کی ترجمانی ہے بلکہ پرندوں کے پرواز اور پر کھولنے کی منظر کشی بھی بڑے منفرد انداز میں دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ عمل بٹر فلائی افیکٹ کا بھی ترجمان ہوجاتا ہے         ؎

کوئی پرندہ سا پر کھولتا ہے اڑنے کو

پھر اک چھناکے سے یہ خاک دان ٹوٹتا ہے(حسن عباس رضا)

یہ شعر بٹر فلائی افیکٹ کا سب سے واضح استعارہ ہے۔ پرندے کا پر کھولنا ایک معمولی حرکت ہے، لیکن اس سے ’خاک دان‘ یعنی وجود یا کائنات کے ٹوٹنے جیسا بڑا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہاں چھناکا وہ لمحہ ہے جو ایک چھوٹے سے عمل کو بڑے اثرات سے جوڑتا ہے۔

اسی طرح غزل میں شمع، پروانہ، گلاب اور خار جیسے روایتی استعاروں کو بھی اس تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے پرایک حیرت انگریز منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ شمع سے متعلق ایک مثال دیکھیں جس میں شمع کی ایک چھوٹی سی لو پروانے کی زندگی کو ختم کر دیتی ہے        ؎

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

 کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا(نامعلوم)

شاعر اس شعر میں مگس کو باغ میں جانے سے روکنے کی بات کر رہا ہے۔کیوں کہ مگس (شہد کی مکھی) باغ میں جا کر پھولوں کا رس چوس کر شہد اور موم تیار کرتی ہے۔موم سے شمع بنائی جاتی ہے۔رات کو جب شمع روشن ہوتی ہے تو اس کے ارد گرد پروانے گردش کرتے ہیں،اور اس کی لو سے جل کر ناحق مارے جاتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سا عمل ہے جس کے ساتھ کئی دوسرے عمل منسلک ہوجاتے ہیں اور آخر میںیہ بڑے نتائج کا باعث بنتا ہے۔       اسی نہج کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں         ؎

اک صدا اٹھی تو اک عالم ہوا پیدا منیر

اک کلی مہکی تو پورا گلستاں ہوتی گئی

غور کریں تو منیر نیازی اپنے اس شعرمیں بٹر فلائی افیکٹ کی خوب صورت عکاسی کرتے ہوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔جب کہیں کوئی آواز بلند ہوتی ہے۔تو یہ ہوا میں پیدا ہونے والے ارتعاش کے سبب چاروں جانب پھیلنے لگتی ہے اوریہ دھیرے دھیرے وسیع دائرہ بنا لیتی ہے جو ایک عالم کو تخلیق کرتا ہے۔ یہ ہی سبب ہے کہ پہاڑی علاقوں اور خالی کمروںمیں ایک معمولی سی صدا زوردار اور گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ٹھیک آواز کی طرح پھول سے اٹھنے والی مہک بھی ہوا کے ساتھ ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے۔

غزل جس کا گہرا تعلق انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ ہمیشہ سے رہا ہے۔لیکن جب ان احساسات و جذبات کا مطالعہ بٹر فلائی افیکٹ کے تناظر میں کرتے ہیں تو اس کا حسن مزید ابھر کر سامنے آتا ہے۔فیض احمد فیض کا ایک شعر ملاحظہ کریں          ؎

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

(فیض احمد فیض)

فیض اپنے اس شعر میں ایک ایسی بات کا ذکر کر رہے ہیں جو بظاہر معمولی تھی، جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیںپڑنا چاہئے تھا لیکن اس بات نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ اس کے بڑے جذباتی اثرات مرتب ہوئے اور اس چھوٹی سی بات نے پوری کہانی کے معنی بدل کر رکھ دئے۔

اسی طرح عبد العزیز فطرت اپنے ایک شعر میں ’لمحہ‘ کے توسط سے بٹر فلائی افیکٹ کی منفرد ترجمانی کرتے ہیں         ؎

ہر ایک لمحہ سے پائے ہیں تازہ غم ہم نے

 ہر ایک لمحہ نئی عمر کا بہانہ ہوا(عبدالعزیز فطرت)

یہ شعر لمحات کی اہمیت اور ان کے دور رس اثرات کو اجاگر کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہر لمحہ ایک نیا غم یا تجربہ لاتا ہے، جو زندگی کی نئی جہتوں کو جنم دیتا ہے۔ بٹر فلائی افیکٹ کے تناظر میں، یہ لمحات چھوٹے واقعات کی مانند ہیں جو زندگی میںبڑے بدلائو یا جذباتی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں،اورایک لمحے کا فیصلہ یا تجربہ پوری زندگی کے دھارے کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔اس طرح لمحے کی اہمیت و افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔یہ ایک چھوٹا سا لمحہ ہی ہوتا ہے جب تتلی اپنے پر کھول کر پھڑ پھڑاتی ہے اور اس سے پیدا ہونے والا ارتعاش دھیرے دھیرے بڑھ کر ایک بڑے طوفان کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔انسان کی زندگی میں بھی ایک لمحے کی بڑی اہمیت ہے ۔کیوں کہ یہ اس کی پوری زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے       ؎

ضائع مت کیجو ایک لمحہ بھی

 ایک لمحے میں جانے کیا ہو جائے(احمد سوز)

یہ شعر براہِ راست لمحات کی اہمیت اور ان کے غیر متوقع نتائج کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس میں شاعر کہہ رہا ہے کہ ایک لمحے کو بھی زندگی میں فضول میں ضائع نہیں کرنا چاہیے،کیونکہ اس میں بڑی تبدیلی کا امکان پوشیدہ ہو تے ہیں۔ بٹر فلائی افیکٹ کے تناظر میں جائزہ لینے پر یہ شعر اس حقیقت کو پیش کرتاہے کہ ایک چھوٹا سا لمحہ، فیصلہ، یا عمل غیر متوقع اور بڑے پیمانے پر نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ عاصم واسطی لمحے کے حوالے سے کہتے ہیں          ؎

کوئی لمحہ مجھے تبدیل کئے جاتا ہے

  کیا تغیر مری تکمیل میں آیا ہوا ہے(عاصم واسطی)

اسی طرح امیر قزلباش بھی ایک شعر میں اپنے جنون کے نتیجے میں سیاہ سمندر سے نور نکالنے کی بات کر رہے ہیں       ؎

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا

 اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا(امیرقزلباش)

غور کریں تویہ شعر امید اور انسانی جذبے کے اثرات کا عکاس نظر آتاہے۔ شاعر کا جنون جوایک چھوٹا سے جذباتی یا ذاتی عمل کے سبب وجود میں آتا ہے لیکن ایک بڑے نتیجے یعنی سماج میں موجود برائیوں کے سیاہ سمندر سے نور نکالنے کا باعث بنتا ہے اور ایک نیا انقلاب پیدا کرتا ہے۔ بٹرفلائی افیکٹ کے تناظر میں بھی یہ شعر اس بات کا ترجمان ہوجاتا ہے کہ ایک فرد کا چھوٹا سا عزم یا جذبہ، جو بظاہر تاریک حالات میں معمولی لگتا ہے، مگربڑی تبدیلی یا روشنی کا پیش خیمہ بن سکتاہے۔

بٹر فلائی افیکٹ کے توسط سے پیدا ہونے والے ارتعاش سے ہوا کی رفتار بھی متاثر ہوتی ہے۔اوریہ ہوائیں صرف طوفان لانے کا سبب نہیںبنتی بلکہ اگر یہ جنگلات کی طرف رخ کر لیں تو اس کی وجہ سے سوکھے پتّوں میں پیدا ہونے والی رگڑ کے سبب جنگلات میں تیز آگ بھی لگ سکتی ہے۔عزیز حامد مدنی کا شعر دیکھیں       ؎

تیز ہوا کی چاپ سے تیرہ بنوں میں لو اٹھی

 روح تغیر جہاں آگ سے فال لے گئی(عزیز حامد مدنی)

یہاں اس شعر میںتیز ہوا کی چاپ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، لیکن اس سے جنگل میں آگ بھڑک اٹھتی ہے، جو بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ یہاں ’روح تغیر‘ کو بٹر فلائی افیکٹ کے استعارہ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جہاں ایک معمولی حرکت یعنی ہوا کی چاپ عالم گیر تبدیلی یا تخریب کا آغاز کرتی ہے۔ ’آگ سے فال لینا‘ اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ یہ تبدیلی غیر متوقع اور بے قابو ہو سکتی ہے۔

اسی طرح ہوا کے حوالے سے محسن نقوی کا ایک شعر ملاحظہ کریں جس میں وہ بٹرفلائی افیکٹ کی شاندار منظر کشی کر رہے ہیں        ؎

کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے

 خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر(محسن نقوی)

یہ شعر بٹر فلائی افیکٹ کے غیر متوقع اور پراسرار پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ تیز ہوا، جو ایک معمولی قدرتی عمل ہے جب چلتی ہے تو پرندوں کو اڑا دیتی ہے، یعنی سکون کو منتشر کر دیتی ہے۔ شعر میں ’ہوا کا سوچ میں گم ہونا‘ اس بات کی علامت ہے کہ چھوٹے واقعات کے پیچھے کہیں نہ کہیں کوئی گہری وجہ یا نتیجہ ہو سکتا ہے، جو بظاہر نظر نہیں آتا، لیکن اس کے اثرات گہرے ہوتے ہیں۔   ایک اور شعردیکھیں جس میںادا جعفری ’تیز ہوا کے جھونکے‘کا ذکر کر رہی ہیں        ؎

اس قدر تیز ہوا کے جھونکے

شاخ پر پھول کھلا تھا شاید(ادا جعفری)

یہاں اس شعر میں ہوا کا جھونکا ایک چھوٹا سا عمل ہے، جو نازک پھول کو متاثر کرتا ہے۔ پھول کا کھلنا یا مرجھانا ایک لطیف تبدیلی ہے، جو زندگی کے حسن کی علامت ہے۔ بٹر فلائی افیکٹ کے تناظر میں، یہ جھونکا ایک ایسی تبدیلی کا آغاز کر سکتا ہے جو بڑے پیمانے پر جذباتی یا وجودی اثرات مرتب کرے، جیسے امید کا خاتمہ یا نئی شروعات۔

منور رانا اپنے ایک شعر میںانسانی جذباتی کیفیت کی بڑی حسین منظر کشی کرتے ہیں ۔اس شعر کو بٹرفلائی افیکٹ کے تناظر میں دیکھنے سے اس کا حسن مزید دوبالا ہو جاتا ہے          ؎

ہزاروں بستیاں آ جائیں گی طوفان کی زد میں

 مری آنکھوں میں اب آنسو نہیں سیلاب رہتا ہے(منور رانا)

یہاں اس شعر میں آنسو سے سیلاب تک کا سفر بٹر فلائی افیکٹ کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک آنسو، جو ایک چھوٹے جذباتی عمل یا واقعہ کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے لیکن ایک سیلاب میں بدل جاتا ہے،اور اس کی شدت اتنی بڑھ سکتی ہے کہ یہ بستیوں کو تباہ کر سکتا ہے۔یعنی کسی جذباتی عمل کے بعد پیدا ہونے والے نامناسب حالات انسانی زندگیوں کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں۔در اصل یہ شعر اندرونی جذبات کے بڑے سماجی یا عالم گیر اثرات کو بیان کرتا ہے۔

اسی طرح افتخار عارف استفہامیہ انداز میں انسانی جذبات کے توسط سے بٹر فلائی افیکٹ کی ترجمانی بڑے دلکش انداز میں کر تے ہیں          ؎

چھوٹی موٹی ایک لہر ہی تھی میرے اندر

 ایک لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں(افتخار عارف)

ایک چھوٹی سی’لہر‘ اندرونی جذبہ یا حرکت میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔جوبظاہر معمولی ہے، لیکن یہ ایک جذباتی طور پروجود کے اندر ایک طوفان پیدا کر سکتی ہے۔ شاعر نے اس شعر میں استفہامیہ انداز کے ساتھ حیرت و تجسس کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس کے اندر کی ایک معمولی لہر نے کس طرح بڑی تبدیلی یا انقلاب برپا کر دیا۔گویا افتخار عارف اپنے اس شعر کے ذریعے بٹرفلائی افیکٹ کے عمل کو سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔

الغرض مذکورہ تمام اشعار بٹر فلائی افیکٹ کے تصور کو مختلف زاویوں سے بیان کرتے ہیں۔ چاہے وہ ایک لمحہ ہو، ہوا کا جھونکا، ایک آنسو، یا پرندے کاپر پھڑپھڑانا، ہر شعر میں ایک چھوٹا سا عمل بڑی تبدیلی، طوفان، یا انقلاب کا سبب بنتا ہے۔ یہ اشعار نہ صرف جذباتی اور وجودی سطح پر بلکہ سماجی اور کائناتی تناظر میں بھی اس نظریے کی گہرائی کو اجاگر کرتے ہیں۔اگر ہم اردو غزل کے علاوہ اردو شاعری کی دیگر اصناف مثلاً ’قصیدہ، مرثیہ،مثنوی،‘ میں بٹر فلائی افیکٹ کے عناصر کی تلاش کریں تو وہاں بھی ہمیں اس نظریے متعلق مختلف اشعار دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔اس طرح یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہماری اردو شاعری کے دامن میں اتنی وسعت ہے کہ اس میں کائنات کے ہر موضوع کو ڈھال کر پیش کیا جاسکتا ہے۔

ER. Mohd Adil

Hilal House, H No.: 4/114, Jagjeevan Colony

Naglah Mallah

Civil Line

Aligarh- 202001 (UP)

Mob.: 8273672110

mohdadil75@yahoo.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...