26/12/25

جدید اردو غزل میں تنہائی کا کرب،مضمون نگار: محمد یونس ڈار

 اردو دنیا،جولائی 2025

1960 کے بعدجدیدیت کے رجحان کے تحت لکھی جانے والی  غزل ’جدید غزل‘کہلاتی ہے۔ ’یہ غزل جدید انسان اور جدید معاشرے کی حسیت اور اس کی ذہنی اور نفسیاتی پیچیدگیوں اور مسائل کی عکاس ہے۔‘ اس غزل کی تشکیل میں دوعالمی جنگوں اور تقسیم ہند کے المیے کا بڑا ہاتھ ہے۔ عالمی جنگوں سے جہاں انسان اپنے وجود کی ارزانی سے باخبرہوا وہیں تقسیم کے المیے سے ’’خاک و خون کے ہنگاموں نے ذہنوں کو زخموں کی کائنات سے آشنا کیا،دل شکن ماحول اور درد خیز فضا نے آزادی کے معنی بدل دیے۔‘‘1

کلاسیکی تنہائی کا تصور خدا کے تصورِ تنہائی سے الگ ہوتا تھا کہ خالقِ کائنات سب سے بڑا فن کار ہے لہٰذا وہ سب سے تنہا ہے۔ چنانچہ ہر بڑا فنکار اپنے عہد میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے یعنی زندگی میں نئی معنویت کی تلاش کے لیے تنہائی نے پیغمبروں، ولیوں، مفکروں، فلسفیوں،دانش وروں اور شاعروں کو اپنے مقصد،مشن اور وژن کی تکمیل کے لیے گوشہ نشینی اختیار کرنے پر آمادہ کیا۔ اس تنہائی کی مثالیں ہمیں کلاسیکی ادبیات میں بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ غرض تنہائی کا تصورروزِ اول سے ادب کے ساتھ جڑا ہواہے۔ لیکن آج کی تنہائی میکانکی اورصنعتی زندگی کے جبر کی ایجاد کردہ ہے جو مادیت پرستی، ہوس پرستی، لالچ اور خود غرضی کی بنیادوں پر استوار’انفرادیت سے عاری اور داخلیت سے خالی ہے، جس میں وجود کی بے چارگی کا احساس فن کار کو موت کی تمنا کا طالب بنادیتا ہے تاکہ اس کی ازلی تنہائی کا ازالہ ہوسکے۔

اگرچہ ہندوستان میں مغرب جیسی ترقی، دوڑ دھوپ، خوش حالی اور خودغرضی نہ تھی جو تنہائی اور اکیلے پن کو رزق فراہم کرتی لیکن اس خطے کی انسانیت کو کچھ ایسے سنگین حالات کا سامنا تھا جن سے یہاں کا فرد تنہائی کی گود میں اپنی عافیت محسوس کرتا تھا۔ ان حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لطف الرحمن لکھتے ہیں:

’’مغرب کی تہذیبی جارحیت، فوجی مادیت، اقتصادی آمریت، استحصالی صارفیت اور ہندوپاک میں تہذیبی و لسانی عصبیت، فرقہ وارانہ منافرت، قبیلہ جاتی عداوت، تقلیدی مذہبیت، ظلم و بربریت، افلاس وغربت، بیماری و جہالت،بنیاد پرستانہ سیاست،بوالہوسی و خودغرضی وغیرہ جیسے متعدد مہلک اور خطرناک مسائل نے اردو سائکی کو مزید بحران و انتشار میں مبتلا رکھا ہے۔جس کے نتیجہ میں تنہائی کا احساس شدید تر ہوگیا۔‘‘2

 جدید شاعری نے انسان کے جس بنیادی مسئلہ کی نشاندہی کی ہے وہ تنہائی ہے۔اردو کی دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ غزل کا عہد آفرینش سے تنہائی کے ساتھ رشتہ استوارہے بلکہ یہ تنہا ئی کی گود اور رزق سے پلی بڑھی ہے۔ اس نے وقتاً فوقتاًتنہائی کی عکاسی اور اس سے متعلق دیگر کیفیات کو بھی اپنے دامن میں سمو کر ان کی خوب سے خوب تر عکاسی کی ہے۔جدید دور میں جب میکانکی سماج اور مشینی تمدن سے سیاسی، سماجی اور تمدنی اقدار کی شکست و ریخت نے انسان سے اس کی انفرادیت اور داخلیت چھین لی تو اس کے اندر بے چینی اور اضمحلال پیدا ہوا۔ دل اور روح کی جگہ جسم اور مادیت کی ریل پیل نے اعلیٰ قدروں کی تلاش کو بے معنی بنادیا۔ جس سے ایک طرح کی تھکن نے جنم لیا کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی نت نئی مصنوعی ایجادات، معاشرے میں رشتوں کے تقدس کی پامالی اور اجنبیت نے وجود کی بے معنویت کو فروغ دے کر فرد کو بھیڑ میں بھی تنہا کردیا۔ بریں سبب اس کو اپنے ہر عمل کا فیصلہ خود کرنا پڑے گا اور اس عمل کے نتائج کا وہ تنہا ذمہ دار بھی ہوگا جو نفسیاتی سے زیادہ وجودی عمل معلوم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں          ؎

ہم بھرے شہروں میں بھی تنہا ہیں جانے کس طرح

لوگ ویرانوں میں کرلیتے ہیں پیدا آشنا

 (احمد فراز)

اس سفر میں بس مری تنہائی میرے ساتھ ہے

ہر قدم کیوں خوف مجھ کو بھیڑ میں کھونے کا تھا

 (شہریار)

لوگ ہی آن کے یکجا مجھے کرتے ہیں کہ میں

ریت کی طرح بکھر جاتا ہوں تنہائی میں

(ظفر اقبال)

عمر بھر کا نٹوں میں دامن کون الجھاتا پھرے

اپنے ویرانے میں آبیٹھا ہوں دنیا دیکھ کر

(ساقی فاروقی)

کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو

تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو

(عادل منصوری)

اس اکیلے پن کے ہاتھوں ہم تو فکری مرگئے

وہ صدا کو ڈھونڈتی تھی جنگلوں میں کھوگئی

(پرکاش فکری)

بھرے شہروں میں بھی تنہائی،بھیڑ میں بھی تنہائی کی ہم راہی، ریت کی طرح بکھر جانا، ویرانے میں بیٹھنا، تنہا ویران راستوں سے گھر تک کا ساتھ مانگنا، اکیلے پن کے ہاتھوں مرجانا، دفتر سے گھر تک تنہائی کا احساس وغیرہ ایسی بے شمار مثالیں جدید غزل میں موجود ہیں جن سے موجودہ عہد کے انسان کی میکانکی خصوصیات کا حامل ہونا آنکھوں کے سامنے آموجود ہوتا ہے۔

اگرچہ سائنس اور ٹکنالوجی نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کیا ہے اور انسانوں کے درمیان خارجی دوریوں کو پاٹ دیا ہے لیکن آج کے دور کا انسان اندر سے تنہا ہوگیا۔جس کی بنیادی وجہ اس کی تمام تر روحانی و اخلاقی اقدار، مقررہ نظریوں اور فارمولوں سے ناوابستگی کا اظہارہے’’چونکہ یہ عمل بہت کٹھن ہے اور اس کے سارے سہارے چھن چکے ہیں اس لیے زندگی کا کرب اسے اکیلے جھیلنا پڑتا ہے۔‘‘3

ان روایتی نفسیاتی سہاروں کے چھوٹ جانے سے نہ صرف تنہائی نے اس کا تعاقب کیا بلکہ تنہائی سے وابستہ دیگر رجحانات و میلانات جیسے اجنبیت و بیگانگی، اداسی، انتشار، اکیلاپن، بیزاری، بے چہرگی، بے قدری، بے معنویت، خوف و دہشت، نااُمیدی اور محرومی وغیرہ کا منبع بھی یہی احساسِ تنہائی قرار پایا۔ ان سے فرار کا بظاہر کوئی راستہ تو نہیں ملتا اور ایک طرح کی گھٹن محسوس ہوتی ہے تاہم اس گھٹن کا حصار توڑنے کے لیے وہ تشدد، خودکشی، جنس، موت، منشیات وغیرہ کا استعمال عمل میں لاتا ہے۔

میکانکی سماج اور مشینی معاشرے کی پیدا وارسے انسان کی زندگی جہاں آسائش اور سہولیت سے بسر ہونے لگی اور زندگی کے معیار، غور وفکر کے اسلوب اور تخیل کی وسعت میں تبدیلی واقع ہوئی، وہیں وہ تنہائی کے کرب میں مبتلا ہوکروجودی ہوگیا۔ وہ اپنی فکر کو افادی پہلو کے مدنظر رکھنے لگا جس سے اس کے اندر لالچ کا مادہ بڑھ گیا۔ چنانچہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی دوڑ میں مشین بن کر جذبات سے عاری ہوگیا۔ نتیجتاً وہ اپنے رشتوں کو وقت نہ دے سکا جس سے اگر ایک ہاتھ سے یہ رشتے چھوٹ گئے تو دوسرے ہاتھ سے ان رشتوں کے خلوص سے بھی محروم ہوگیا۔لطف الرحمن لکھتے ہیں:

’’فرد مشین بن چکا ہے یا ایک بڑی مشین کا ادنی ساپرزہ جو ایک محدود دائرے میں حرکت پر مجبور ہے۔ مشین کوئی زندہ دھڑکتا ہوا وجود نہیں رکھتی۔ نہ وہ خواب دیکھ سکتی ہے اور نہ اس میں جذبۂ محبت اور تخلیقی اپج کی صلاحیت ہے، اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر آزادانہ عمل و حرکت سے قاصر فرد کسی جماعت اور گروہ میں ضم ہونے پر مجبور ہے۔وہ داخلیت و انفرادیت سے محروم تقلید اور Conformity کی راہ  پرچل رہا ہے۔نتیجتاً ہر شے سے اس کا رشتہ منقطع ہوگیا ہے۔‘‘4

 اس اقتباس سے دراصل یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ فرد مشینی عہد میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے نتیجتاً خلوص اور محبت کے بجائے زندگی کی بے معنویت کا وہ تصور ابھر کر سامنے آتا ہے جہاں فرد زندگی سے بددل نظر آتا ہے۔’انسان اپنی بقا اور زندگی کے لیے ہاتھ پیر ماررہا ہے اور اسے اخلاق، معیار، شرافت، ممنوعات اور امربالمعروف نہی عن المنکر سب محض ڈھونگ دکھائی دے رہے ہیں۔وہ جھوٹی امیدوں پر زندہ رہنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ زندگی کی حقیقت نہیں۔‘‘5 چنانچہ جدید غزل اس صورت حال کو یوں پیش کرتی ہے        ؎

عجیب رونا سسکنا نواح جاں میں ہے

یہ اور کون میرے ساتھ امتحاں میں ہے

(بانی)

بہت دنوں سے گزر گاہ خواب سونی ہے

سرائے شام یہاں اور میں رکوں کب تک

(شہریار)

میں بھی صحرا ہوں مجھے سنگ سمجھنے والو

اپنی آواز سے کرتے چلو سیراب مجھے

(شہاب جعفری)

اس وجودی فکر سے گو کہ اس میں ذمہ داری کا احساس و احتساب بڑھتا ہوا نظر آتاہے۔ لیکن زندگی ایک بوجھ سے کم محسوس نہیں ہوتی جس سے وہ خوف و دہشت، کشمکش اور تشکیک کاشکارہو کر اپنی شخصیت سے بھی محروم نظر آتا ہے۔ فرد زندگی کی اس شکست وریخت سے تنگ آکر دنیا سے ہی بددل ہوجاتا ہے۔ اقدار کی شکست خوردگی، جنگ و جدل،تیز رفتار تبدیلیاں، بے حسی، ناکامی،سمجھوتہ بازی وغیرہ نے اس ذہنی انتشار اور خود اذیتی کو جنم دیا ہے جس کا براہِ راست تعلق جنگِ عظیم دوم کی ہولناکی سے ہے جس نے انسانی وجود میں لامتناہی خلا پیدا کیا۔اس سلسلے میں وحید اختر نے لکھا ہے کہ:

’’اس دور نے زخم خوردہ اقدار کے زیر سایہ زخم خوردہ شخصیتیں پیدا کیں جو شدید احساس تنہائی کا شکار ہیں۔ ہر روح کے ہاتھ میں اس کا اپنے زخموں کا اعمال نامہ ہے اور دارو گیر عرصئہ حشر میں نفسی نفسی کا وہ غل ہے کہ کوئی کسی کی جزا کو نہیں پہنچتا، سب ایک ہی غم کے اسیر ہیں سب کے درمیان درد کا ایک ہی رشتہ ہے، پھر بھی سب کس قدر تنہا ہیں! جدید ادب اسی انفرادی اور اجتماعی احساس تنہائی کی داستان ہے۔‘‘6

 بیسویں صدی میں برق رفتاری سے سائنسی اور عقلی تصورات کے پھیلاؤ نے تنہائی کے تصورات کی بڑی حد تک آبیاری کی۔نطشے،فرائڈ اور کارل مارکس کے نظریات نے جملہ ’احساسِ تنہائی ‘کو داخلی رجحان کا ایک اہم جز قراردیا۔اس پر مستزاد سائنس کی برکتوں کی بھر مار نے غیر محفوظیت کے رجحان کو فروغ دیا۔غیر محفوظیت کا یہی رجحان زندگی کی بے معنویت کو جنم دیتا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کیجیے        ؎

دیارِ دل نہ رہا بزم دوستاں نہ رہی

اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی

میں اکیلا ہی سہی مگر کیسے

ننگی پرچھائیوں کے بیچ رہوں

(شہریار)

عادت سی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی

جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

(منیر نیازی)

ڈرتا ہوں میرے سر پہ ستارے نہ آپڑیں

چلتا ہوں آسماں کی طرف دیکھتا ہوا

(شہزاد احمد)

آج خوف و دہشت کے ماحول میں انسان کی خود غرضی اور طاقت ور اقوام کا کمزوراقوام پر اپنا تسلط قائم کرنے کا دوردورہ بھی عروج پر ہے۔عالمی طاقتوں کی رسا کشی، غریب ملکوں کی مجبوریاں، فرقہ واریت،مصنوعی تہذیب وغیرہ نے انسان کے اندر بیزاری کی صورت حال پیدا کردی۔سیاسی مکروفریب کے ہتھکنڈوں سے عام آدمی کی تذلیل،مہنگائی،بے روزگاری،مفاد پرستی،کشت و خون نے ناامیدی اورمحرومی کو جنم دیا۔بڑے بڑے خاندانوں کا گھر کے ایک کمرے میں سمٹ جانا اور پھر ایک دوسرے سے حسد، بغض، کینہ،لالچ پر آمادہ رہنا بیگانگی کا موجب بنا۔شہری زندگی کا مصنوعی پن،کش مکش، ریاکاری، منافقت،بھیڑ میں تنہائی،ارتباط کا فقدان وغیرہ نے بے چہرگی کو فروغ دیا۔

بے وقار آزادی،ہم غریب ملکوں کی

تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں

(احمد ندیم قاسمی)

وہ شہر تو آباد تھا لوگوں سے ہمیشہ

یاں لوگ ہی ایسے تھے کہ آباد نہیں تھے

 (شجاع خاور)

اس شہر کی کل تک کوئی پہچان رہی ہے

بے چہرہ ہوئے کوچہ و بازار مگر اب

 (مخمور سعیدی)

روزگار کی تلاش میں دور دراز جگہوں کا سفر کرنا اور اپنے اہلِ خانہ بالخصوص اولاد سے دوری اور محبت کی کمی ان کی سائکی کو متاثر کرتی ہے۔اپنے  بچوں کی خاطر آسائشوں کے سلسلے میں ترقی کے باوجود بھی وہ مطمئن نہیں ہے بلکہ وہ کسی بھی حدتک جانے کو تیار ہے، غلط اور صحیح کی تمیز سے وہ ماورا ہوچکا ہے، اس تشنگی، اضطراب اور بے چینی کے کرب نے اداسی کو اس کا مقدر کردیا ہے۔علاوہ ازیں ایسی جگہ نوکری کرنا جہاں اسے اپنائیت کے بجائے جذباتیت کے برعکس ایسے لوگوں کا ہجوم مل جاتا ہے جو صرف اور صرف اس کے کام سے کام رکھتا ہے،جہاں صرف مصنوعی اور بناوٹی فسوں کاری کا سنگم ہے یعنی جہاں اسے بطورِ مشین کے جانا جاتا ہے،وہ مشین جو جذبات اور احساسات سے عاری ہے،وہ مشین جو خواب دیکھنے سے معذور ہے، جس میں زندگی کی کوئی رمق موجود نہیں۔،جس کے جسم کی قیمت روح کی قیمت سے زیادہ ہے یعنی جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔غرض ایسی صورت حال میں فرد کا اجنبیت اور علیحدگی پسندی کا شکار ہونا طے ہے۔

رشتوں کے نام وقت کے چہرے بدل گئے

اب کیا بتائیں کس کو کہاں چھوڑ آئے ہم

 (ندا فاضلی)

یہ اجنبی منزلیں اور رفتگاں کی یاد

تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

 (منیر نیازی)

اب تو اپنے آپ کو بھی اجنبی لگتا ہوں میں

کون مجھ سے چھین کر میری نشانی لے گیا

(سلطان اختر)

جدید دور کا انسان ہر سطح پر ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے کا جواز رکھتا ہے۔ اس کے پاس بقول فاروقی اپنی مجروح شخصیت کھونے کے علاوہ زندہ دلی کا احساس اور رائے زنی کے سوا کیا ہے جس کو وہ بروئے کار لاسکے۔چنانچہ جدید غزل اس قسم کی صورت حال کے خلاف مزاحمت کا نعرہ سبک،نرم اور لوچ دار آواز سے بلند کرتی ہے       ؎

گزرنے والے جہازوں کو کیا خبر ہے کہ ہم

اسی جزیرۂ بے آشنا میں زندہ ہیں

 (عرفان صدیقی)

آگ ہے اور سلگ رہی ہے حیات

راکھ ہوں اور بکھر رہا ہوں میں

 (انور شعور)

کس بے جہت سفر پہ رواں قافلہ ہوا

منزل نہیں مقام نہیں مرحلہ نہیں

 (سلیم احمد)

یہ نہ سمجھو کہ بے زبان ہے وہ

چپ اگر ہے کسی کے ڈر سے کوئی

(شہریار)

حاصل کلام، جدید غزل جدید دور کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں کی پروردہ ہے۔ میکانکی سماج اور مشینی معاشرے سے پیدا شدہ مسائل اس کے موضوعات ہیںنیز تقسیم کا المیہ، کشت و خون، ہجرت، فسادات، فرقہ واریت، خودغرضی، خودپسندی، انا پرستی،لالچ، مادیت پسندی،بربریت،استحصال اس کے محرکات ہیں۔ چنانچہ فرد کی تنہائی اور اس سے وابستہ رجحانات و میلانات جیسے اجنبیت و بیگانگی، اداسی، انتشار، اکیلاپن،بیزاری،بے چہرگی، بے قدری، بے معنویت، خوف و دہشت، نا اُمیدی، محرومی وغیرہ اس کی علامات ہیں۔ روحانی و اخلاقی اقدار،مقررہ نظریوں اور فارمولوں سے ناوابستگی کا اظہار، رشتوں کے تقدس کی پامالی،تشکیک پسندی، غیر محفوظیت وغیرہ اس کے نتائج ہیں۔ جدید غزل گو شاعر تنہائی اور اس سے وابستہ اس تمام تر صورت حال کو اشعار میں پرو کر اپنے فکر و فن کا دائرہ حتی الامکان وسیع کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ جدید فرد کے گمشدہ اقدار و اہداف اور وقار کی مکمل بازیافت ہوسکے۔

حوالہ جات

.1       تنویر احمد علوی، تنویر علوی کا جہانِ معانی (جلد دوم)‘ مرتب ) ثمر جہاں: ڈاکٹر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی2017،ص 373

.2       لطف الرحمن،’جدیدیت کی جمالیات‘،صائمہ پبلی کیشن،1993،ص175

.3       خلیل الرحمن اعظمی، جدید تر غزل،مشمولہ ’جدید غزل‘، مرتبہ نشاط شاہد ،معیار پبلی کیشنز، دہلی 1978 ،ص17

 .4      لطف الرحمن’جدیدیت کی جمالیات، 1993،ص169

.5       سید محمد عقیل، ڈاکٹر، ’نئی علامت نگاری‘، اسرار کریمی پریس، الہ آباد، دسمبر 1974 ، ص114

.6       وحید اختر،تعارف،اسم اعظم،حاصل سیر جہاں، ( کلیات شہریار)2001،ص2

Dr. Mohd Younis Dar

Deptt. of Urdu

University of Kashmir-190006 (J&K)

younisdar1990@gmail.com

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...