26/12/25

پریم چند کی افسانہ نگاری: فکر وفن کا تخلیقی آئینہ،مضمون نگار: ریاض توحیدی

اردو دنیا،جولائی 2025 

''ادب سماج کے اچھے اور برے اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔"

   نفسیاتی سطح پر دیکھیں تو انسان کی سوچ و فکر کا اثر اس کی تحریر و تقریر اور الفاظ واعمال سے بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور اگر وہ کوئی نظریہ رکھتا ہو تو پھر اس نظریے کی تشہیر اس کی فکری مجبوری بھی بن جاتی ہے۔ ادب میں بھی ‘ چاہے کوئی کتنا بھی انکار کرے‘ فکر و نظر کے اثرات اپنی جگہ بناہی لیتے ہیں اور یہ کوئی غیرادبی کام بھی نہیں ہے کیونکہ ایک ادیب بھی تو سماج کا ایک فرد ہے، اس کی سوچ و فکر پر بھی سماجی اثرات مرتسم ہوجاتے ہیں اور ادب تو ادیب کی سوچ و فکر کا ہی تحریری یا تخلیقی ثمر ہوتا ہے۔ادب کا کام صرف تخریب کو اجاگر کرنا نہیں ہے بلکہ تعمیر کی طرف بھی توجہ دینا ہے‘مگر یہ ادبی دائرے میں ہو نہ کہ واعظانہ یا ناصحانہ اسلوب کی بھینٹ چڑھے۔ اس کے باوجود ادب میں فن کاری سے متعلق یہ خیال بھی پیش نظر رہے کہ ہر تخلیق صرف اچھے برے کے پیغام کی حامل ہو ‘یہ بھی ضروری نہیں ہے کیونکہ فن میں کبھی کبھار فن کاری کے جوہر ہی نظر آتے ہیں جو انسان کو جمالیاتی سطح پر محظوظ کرتاے ہیں۔  اس لیے اس قسم کے ادب کی بھی اپنی فنی اہمیت ہوتی ہے۔اردو فکشن میں افادی یا مقصدی فکریا ادب برائے زندگی (Art for life's sake)کارجحان جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے اور۔۔۔ پریم چند کی فکشن نگاری کے بغائر مطالعہ سے مظہر ہے کہ مجموعی طورپر‘ پریم چند کا فکشن سماج کے اچھے اوربرے اقدار کی عمدہ عکاسی کرتا نظر آتا ہے جو کہ افادی یا مقصدی فکر اورادب برائے زندگی کی واضح مثال ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ پریم چند کا اصلاحی فکرکا حامل ہونا ہے۔

پریم چند کی فکشن نگاری خصوصاً افسانہ نگاری پر توجہ مرکوزرکھیں توپریم چند کا بیشتر فکشن افادی یامقصدی نوعیت کا ہے اور یہ مقصدآمیز اصلاحی فکر ان کے ناولوں اور افسانوں میں جگہ جگہ نظر آتی ہے جو کہ فن کی افادیت کی عکاسی کرتی ہے۔اس افادی یا اصلاحی فکر میں حب الوطنی‘ انقلابی سوچ‘ تعمیر کامقصد‘سماجی ہم آہنگی‘ استحصال اور سماج کی اچھائی اور برائی وغیرہ کو اجاگر کرنا شامل ہے۔ ادب کے تعلق سے ‘پریم چند کی اس قسم کی مقصدی فکر کا اندازہ ان کے اقوال سے بھی ظاہر ہوجاتا ہے۔جیسے  :

’’مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ میں اور چیزوں کی طرح فن کو بھی افادیت کی کسوٹی پر پرکھتا ہوں۔‘‘                                  

’’ادب کی بہترین تعریف تنقید حیات ہے۔ ادب کو ہماری زندگی پر تبصرہ کرنا چاہیے۔‘‘    

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو‘ آزادی کا جذبہ ہو‘حسن کا جوہر ہو‘ تعمیرکی   روح ہو‘زندگی کی روشنی ہو۔ جو ہم میں حرکت اور ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے‘ سلائے نہیں‘ کیونکہ    اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘                                         

ادب کے ضمن میں پریم چند کے خیالات کا اطلاق ان کی فکشن تخلیقات پر کریں تو ان میں واضح طور پر یہ سب باتیں کسی نہ کسی پہلوسے آشکار ہوجاتی ہیں۔ (ترقی پسند تحریک یا ان کی سیاسی وابستگی کی بحث اپنی جگہ پر۔) تاہم ان نظریاتی مباحثے کے باوجود پریم چند کی فکشن نگاری کا معیار ان کی فن کاری پر ہی ہے کیونکہ اگر فکشن میں فنی لوازامات نہ برتے جائیں پھر وہ کتنا ہی اصلاحی یا مقصدی نوعیت کا کیوں نہ ہو وہ اپنی ادبی شناخت قائم رکھنے میں ناکام ہی ہوگا۔کیونکہ فکشن کے اپنے فنی و تکنیکی تقاضے ہیں اور ان فنی و تکنیکی تقاضوں کا شعور ہونا لازمی ہے۔ ایک اور بات یہ کہ ادبی تخلیق‘ تخلیقی بصیرت مندی (Creative vision) کی حامل ہواور یہی تخلیقی وژن اس کو فن کے دائرے میں لاتا ہے‘ پریم چند کے فکشن کو یہی فنی و تکنیکی عوامل اور تخلیقی بصیرت مندی اعلی فکشن کے زمرے میں شامل کردیتی ہے اور انھیں اردو کا اولین معتبر افسانہ نگارکادرجہ عطا کرتی ہے۔ یہ سبھی فنی و تخلیقی اور افادی خصوصیات ان کے نالوں’ہم خرما و ہم ثواب‘(سماجی اصلاح)، ’’رملا‘(بے جوڑشادی اور اقتصادی مسائل) ’میدان عمل‘(انگریزی اقتدار سے نفرت )، ’چوگان ہستی ‘(صنعتی تہذیب) اور ’گئودان‘  (کسان کی معاشی و معاشرتی زندگی) وغیرہ اور افسانوی مجموعوں سوز وطن، پریم پچیسی: حصہ اول، پریم بتیسی : حصہ دوم، خاک پروانہ، خواب و خیال، فردوس خیال، پریم چالیسی، آخری تحفہ، زاد راہ، دودھ کی قیمت اور’واردات‘ وغیرہ کے بیشتر افسانوں میں نظرآتی ہیں۔

پریم چند کے فکشن خصوصاََ افسانہ لکھنے کے تخلیقی مراحل درجہ بہ درجہ ارتقاکی جانب بڑھتے رہے۔ابتدا میں جو موضوعات یا مسائل پیش ہوئے تھے‘ رفتہ رفتہ ان میں وسعت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ نکھار بھی آتا گیا۔پریم چند کے افسانوںکے فکری و فنی ارتقائی مراحل کااحاطہ کرتے ہوئے ڈاکٹر مسعود حسین خان لکھتے ہیں:

’’ ان کے افسانوں کے مختلف مجموعوں پر نظر ڈالنے سے ان کی افسانہ نگاری میں بتدریج ارتقانظرآتا ہے۔   

اگرایک طرف ’سوزوطن‘ کورکھا جائے اور دوسری طرف ان کے آخری دور کے مجموعہ ’واردات‘ اور ’زادراہ‘ کوتو ایک نمایاں فرق نظرآئے گا۔ان کے آخری دور کے افسانے ’قطرۂ شبنم‘ کی طرح اپنے اندر ایک مکمل دنیارکھتے ہیں۔ان میں گہرائی اور حسن دونوں زیادہ ہیں۔‘‘                  

(کتاب :پریم چند اور کارنامے، مرتب:پروفیسر قمررئیس، ص 421)

  پریم چند کی افسانہ نگاری فن ‘فکر اورافادیت کا مجموعہ ہے اوران افسانوں میں اصلاح پسندی بھی نظرآتی ہے اور انقلابی فکر بھی‘لیکن فنی تقاضوں کاخیال رکھتے ہوئے۔فنی تقاضوں کے پیش نظرجب ان کے افسانوں پر ارتکاز کریں تو ان میں پلاٹ سازی کا بھی ماہرانہ اہتمام نظرآتا ہے اور کردارنگاری‘موضوعاتی برتاؤکا تکنیکی وتخلیقی اظہار ‘ جزئیات نگاری‘ کردار سازی‘ وحدت تاثر اور مشاہدہ و واقعہ کو فکشن بنانے کی ہنرمندی کا شعور بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔فن اور فکر کی عمدہ خوبیاںپریم چند کے کئی افسانوں میں نظرآتی ہیں جن میںدنیا کے سب سے انمول رتن، کفن‘، پوس کی رات، عیدگاہ، حج اکبر، بڑے گھرکی بیٹی، راہ نجات، نمک کا داروغہ، شکوہ شکایت،زیور کا ڈبہ، شطرنج کے کھلاڑی اور ٹھاکر کا کنواں وغیرہ شامل ہیں۔

پریم چند کے افسانے متنوع موضوعات کی تخلیقی عکاسی کرتے ہیں۔تخلیق کار گردوپیش کے ماحول سے ضرور متاثر ہوجاتا ہے۔پریم چندکا افسانہ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘ بھی اس وقت کے سیاسی و سماجی ماحول کے زیر اثر تخلیق ہوا ہے۔اس وقت ہندوستان انگریزوں کا غلام تھا اور ہندوستانی اس غلامی سے آزاد ہونے کے لیے سردھڑ کی بازی لگارہے تھے۔چونکہ پریم چند بھی وطن کی آزادی کا جذبہ دل میں سموئے ہوئے تھے تو ایک تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے بھی اپنے افسانوں میں حب الوطنی کا اظہار کرتے ہوئے آزادی کے متوالوں کی قربانیوں کو موضوع بنایا‘جس کا نمونہ افسانہ ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘ہے (اشاعت 1907)۔ افسانہ داستانوی اسلوب کاحامل ہے اور تخیل کی بنیاد پر مرکزی کردارعاشق ’دلفگار‘ اور اس کی معشوقہ ’ملکہ دلفریب‘کی عشقیہ کہانی بیان ہوئی ہے۔دراصل اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ آزادی کے حق میں کوئی بھی کھلے طور پر نہیں لکھ سکتا تھا جس کا ثبوت پریم چند کے پہلے افسانوی مجموعہ’سوزوطن‘ کو انگریزی سرکار کی جانب سے جلانے کا واقعہ ہے اور جس میں یہ افسانہ بھی شامل تھا۔ اگر اس افسانے کی کہانی ‘کردار نگاری اور پیغام کو ردتشکیل تھیوری (Deconstruction theory) کے مطابق بین المتن(Inter text)معنی و مفہوم پر غور کریں اور افسانہ نگار کے نقطہ نظر(Point of view) کے پیش نظردیکھیںتوافسانہ نگارنے بظاہر اس افسانے میں ایک عشقیہ کہانی بیان کی ہے لیکن علامتی سطح پر یہ ایک محب وطن عاشق’ دلفگار‘وطن کی سرزمین

 معشوقہ’ملکہ دلفریب‘ اور وطن کی آزادی کے لیے دنیا کی پیش بہاشے’انسانی خون‘ کی قربانی کا سارا ماجرا علامتی نوعیت کا بن جاتا ہے اور افسانہ پڑھ کر یہ ساری حقیقت کھل کر ظاہر ہوجاتی ہے۔ ملکہ دلفریب جب اپنے عاشق دلفگار کے عشق کا امتحان لینے کے لیے اس کے سامنے یہ شرط رکھتی ہے کہ:

 ’’اگر تو میرا سچا عاشق ہے۔توجا اور دنیا کی سب سے بیش بہا شے لے کر میرے دربار میں آ‘تب میں تجھے اپنی غلامی میں قبول کروں گی۔‘‘                                          

  تو دلفگار اپنے عشق کی لاج رکھنے اور معشوقہ کو پانے کے لیے یہ شرط قبول کرتا ہے اور پھر پریشانی کے عالم میں جنگل جنگل‘بستی بستی اس بیش بہا شے کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دوران کہانی میں دلفگار کی طرف سے دو چیزیں لانے کا ذکر ہوا ہے۔ایک آنسو اور دوسرا ستی کی راکھ لیکن معشوقہ دونوں چیزوں کی قدر کرتی ہے تاہم پھر بھی اسے اصلی قیمتی شے لانے کو کہتی ہے۔ یہاں پر واضح ہوجاتا ہے کہ آزادی آنسو کے بہانے سے حاصل نہیں ہوتی ہے اور نہ غیر ضروری توہماتی قربانیاں دینے سے ہی بلکہ اس کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے وہ اس افسانے کا بنیادی مقصد اور افسانہ نگار کا نقطہ نظر ہے۔ جو افسانے کے انجام سے واضح ہوجاتا ہے اور یہی چیز افسانے کو معیار عطا کرتی ہے۔قیمتی شے کی تلاش میں دلفگار بھٹکتارہتا ہے اور ایک دفعہ وہ میدان کارزار میں ایک محب وطن زخمی بہادر کو دیکھتا ہے جس نے بہت سارے سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا اور خود بھی زخمی ہوا تھا۔دلفگار جب اسے پوچھتا ہے کہ ’اے جواں مردتوکون ہے؟‘تو وہ اپنی آنکھیں کھولتا ہے اور دلیرانہ لہجے میں کہتا ہے:

’’ کیا تو نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔کیا تونے آج اس تلوار کی کاٹ نہیں دیکھی؟ میں اپنی ماں کا بیٹا اور بھارت کا لخت جگر ہوں۔‘‘                                              

یہی سے افسانہ اپنے اصلی تھیم کی طرف مڑ جاتا ہے نہیں تو اس سے پہلے یہ ایک عشقیہ داستان کا تاثر چھوڑتا ہے۔ افسانہ نگار نے عمدہ تکنیکی وسیلے کا استعمال کرکے افسانے کو بنیادی موضوع کی طرف ٹرن کیا ہے اور دلفگار اس زخمی محب وطن کے خون کے قطرے کو یہ سوچتے ہوئے ہاتھ میں اٹھا لیتا ہے کہ ’’بے شک دنیا میں اس قطرہ خون سے بیش قیمت شے نہیں ہوسکتی۔‘‘

کلائمکس میں جب دلفگار اس خون کے قطرے کو لے کر ملکہ دلفریب کے دربار میں پہنچتا ہے اور اس کی خدمت میں حاضر کرتا ہے تووہ خوش ہوجاتی ہے اور کہتی ہے ـکہ ’’آج سے تو میرا آقا اور میں تیری کنیز ناچیز۔‘‘ اس کے بعد ملکہ صندوقچہ منگواتی ہے اور اس سے ایک تختی نکالتی ہے جس پر آب زر سے لکھا ہوتا ہے:

’’ وہ آخری قطرہ ٔ خون جو وطن کی حفاظت میں گرے ‘دنیا کی سب سے بیش قیمت شے ہے۔‘‘

   اس طرح افسانہ اپنے عنوان‘موضوع‘پیغام اور انجام میں عمدہ فنی ربط قائم کرنے میں کامیا ب رہاہے اور پریم چند کی حب الوطنی‘آزادی کی دھن اور انقلابی فکر کو بھی اجاگر کرتا ہے اور ساتھ ہی اس زمانے میں لوگوں کے اندرآزادی کاجو جذبہ ابھر رہا تھا وہ بھی دلفگار کی کردار نگاری سے سامنے آتا ہے۔

  پریم چندانگریزی ادب سے واقف تھے کیونکہ گریجوشن کرنے کے دوران تاریخ‘فارسی اور انگریزی بھی ان کے سبجیکٹ تھے اور ٹالسٹائی کے فکشن کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ ہوسکتا ہے انھوں نے انگریزی کے دوسرے افسانے بھی پڑھے ہوں جو ان کی فن افسانہ نگاری پر گرفت سے ظاہر ہے۔فلمی دنیا میںبھی چلے گئے اور ایک فلم’’مزدور‘‘ کی کہانی لکھی تھی اور اس میں ایک رول بھی ادا کیا تھا لیکن فلمی ماحول سے دلبرداشتہ ہوکر واپس آگئے۔

پریم چند خود دیہات کے رہنے والے تھے۔ اس لیے ان کے بیشتر افسانے دیہی زندگی‘رسم و رواج‘ غربت اور دیہاتی لوگوں کی فکروسوچ کی نفسیاتی و سماجی عکاسی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں سماجی ہم آہنگی ‘ پیار و محبت اور گھریلو مسائل و موضوعات کا افسانوی روپ بھی دکھائی دیتا ہے۔افسانہ ’’عید گاہ‘‘ میں اگرچہ ایک غریب مسلم گھرانے کی زندگی گزارنے کے طورطریقوں کو موضوع بنایا گیا ہے، لیکن اس کا ایک اہم اور قابل ستائش پہلو یہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ افسانے کا مرکزی کردار ’’حامد‘‘ جو کہ ابھی کم سن ہی  ہے اور والدین کے انتقال کے بعد اپنی غریب دادی کی پرورش میں ہے‘ غریب ہونے کے باوجود حساس ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک خوددار کردار کے روپ میں سامنے آتا ہے۔حامد جب عید گاہ جانے کے لیے اسرار کرتا ہے تو دادی مجبوراََ اسے تین پیسے دیتی ہے۔ لیکن عید گاہ میں پہنچ کر اسے پتہ چلتا ہے کہ دوسرے بچوں کے پاس بہت سارے پیسے ہیںاور اس کے پاس بہت کم تو کیا خرید ے کیا نہ خریدے۔وہ کھانے کی چیزوں کو دیکھ دیکھ کر خود کو تسلی دیتا ہے۔جب اسے وہاں کے جان پہچان والے لوگ مفت میں جھولے کی سواری کے لیے کہتے ہیں تو اس کی خودداری اسے مفت کی سواری کرنے سے روکتی ہے۔افسانے میں اس کی ذہانت کو اچھی فن کاری سے پیش کیا گیا ہے۔وہ جب کھلونے کے بجائے ایک سستا سا چمٹا خریدتا ہے تو دوسرے دوست اس پر ہنستے ہیں کہ چمٹے کا کیا کرے گا، لیکن وہ اپنی ذہانت سے چمٹے کی اتنی تعریف کرتاہے کہ بچوں کو اپنے قیمتی کھولنے بے رنگ لگتے ہیں،  لیکن مٹھائی کھانے یا کھلونے خریدنے کے بجائے دست پناہ(چمٹا) خریدنے کی حامد کو کیا ضرورت پڑی یا اس نے کس مقصد کے لیے اپنی خوشیوں کو قربان کیا تو اس کی طرف افسانہ فکرانگیز خیال سے اشارہ کرتاہیـ :

’’ حلوائیوں کی دکانوں کے آگے کچھ دکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں۔کچھ گلٹ اور ملمع کے زیورات کی۔

لڑکوں کے لیے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔ حامد لوہے کی دکان پرایک لمحہ کے لیے رک گیا۔دست پناہ رکھے ہوئے تھے۔ وہ دست پناہ خرید لے گا۔اماں کے پاس دست پناہ نہیں ہے۔توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتاہے۔اگر وہ دست پناہ لے جاکر اماںکو دے دے تو وہ کتنی خوش ہوں گی۔پھر

ان کی انگلیاں کبھی نہیں جلیں گی۔گھر میں ایک کام کی چیز ہوجائے گی۔کھلونوں سے کیا فائدہ۔۔۔‘‘   

  اس طرح افسانہ نگار نے ایک غریب بچے کی ابھرتی ڈوبتی خواہشات کو کھلونے خریدنے کے بجائے دادی اماں کے لیے چمٹا لے جانے کو بڑی ہنر مندی سے پیش کیا ہے۔ افسانے کی کہانی پڑھ کر نظیر اکبرآبادی کی نظم ’’مفلسی‘‘ کا پہلا شعر یاد آتا ہے        ؎

جب  آدمی  کے  حال  پہ  آتی  ہے مفلسی     

کس کس  طرح سے  اس کو  ستاتی ہے مفلسی      

افسانہ ’عید گاہ‘اتنا معیاری افسانہ ہے کہ اس کو ادب اطفال کے شاہکار افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس افسانے میں مرکزی کردار’حامد‘ کے علاوہ دوسرے کئی اور کردار بھی بچے ہیں، لیکن بنیادی موضوع غربت اور بچوں کی نفسیات ہے۔اس کے علاوہ اس میں عید گاہ کی منظرنگاری‘  روحانی ماحول اور نماز کے دوران اسلامی اخوت و بھائی چارے وغیرہ کو بھی پلاٹ کا حصہ بنایا گیا ہے‘جیسے عید گاہ میں نماز کے تعلق سے چند جملے دیکھیں:

’’ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہے۔‘‘               

’’دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہوگئے۔‘‘

’’ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کیے ہوئے ہے۔‘‘                     

پریم چند کی افسانہ نگاری میں جگہ جگہ مقصدیت کا عنصرغالب ہے اور اس مقصدیت میں سماجی اصلاح کے جذبے کا مخصوص تاثر موجودہے جیسے افسانہ ’بڑے گھر کی بیٹی‘ اور ’نمک کا داروغہ‘ دونوں افسانوں کا پیغام اخلاقی نوعیت کا ہے جو اخلاقی و سماجی اصلاح پسندی کی غمازی کرتا ہے۔ادبی طور پر اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کہ فکشن میں اصلاحی و مقصدی پہلو ابھر آئے کیونکہ فکشن کا مطالعہ ہر طرح کا ذہن رکھنے والے قارئین کرتے ہیں اور اس کو کسی مخصوص دائرے میں قید نہیں کیا جاسکتا ہے۔افسانہ ’بڑے گھر کی بیٹی‘ ایک ایسا سماجی و اصلاحی نوعیت کا افسانہ ہے جو خاتون اسے پڑھے گی تو اس کے اندر گھرگرہستی کو خوش گوار ماحول میں چلانے کا مثبت پیغام پیدا ہوگا۔ اسی طرح افسانہ ’نمک کا داروغہ‘ کسی بھی ذہین انسان کی دیانت داری کا سماجی اعتراف اور سماج میں رشوت خوری کی برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کا اخلاقی درس ہے۔ ’بڑے گھر کی بیٹی‘ کی کردار نگاری میں ’آنندی ‘ کا کردار گھر کا اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لیے اچھے ڈھنگ سے تراشا گیا ہے کیونکہ آنندی ہی گھر کے بٹوارے کو روکنے میں اہم رول نبھاتی ہے جو کہ اس افسانے کو ایک اہم سماجی افسانہ بناتا ہے۔اسی طرح’نمک کا داروغہ ‘ ایک ذمے دار شہری اور ایماندار سرکاری عہد ے دارکی فرض شناسی کا حامل بہترین افسانہ ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار منشی بنسی دھر ہے جس کی دلیری‘ خودداری‘ دیانت داری اور فرض شناسی کے اردگرد پورا افسانہ گھومتا ہے اور اس کی خوبیوں کی وجہ سے اسے بہت سی مشکلات بھی جھیلنی پڑتی ہیں لیکن بالآخر استحصالی نظام اور بے ایمان لوگو ں کی ہار ہوجاتی ہے اور ایمانداری اور فرض شناسی کی جیت بصورت منشی بنسی دھرہوجاتی ہے۔ اس قسم کے افسانے اپنی موضوعاتی اور اخلاقی اہمیت آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس کو ان افسانوں کی ایک اہم خوبی قراردی جاسکتی ہے۔

افسانہ نگار بنیادی طور پر ایک تخلیق کار ہوتا ہے اور اگر افسانے میں تخلیقی رنگ نہیں ہوگا تو وہ ایک اطلاعاتی متن (Informative text)کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا اور اس کی ادبی یا فنی حیثیت کچھ بھی نہیں باقی رہے گی۔ پریم چند کا افسانہ’کفن‘فکروفن اور تخلیقی رنگ سے مزین ایک شاہکار افسانہ ہے۔یعنی یہ اردو کے چند شاہکار افسانوں میں شامل ہے۔ اس افسانے میں پریم چند کی فنی ہنرمندی اپنے عروج پر ہے۔ افسانے کا عنوان ’کفن‘ ایک طرح سے پورے افسانے کا علامتی کفن معلوم ہوتا ہے جس کے اندر سماج کے بے بس اور نادار لوگ سسک سسک کر زندگی کی صرف سانسیں لینے تک خود کو محدود رکھتے ہیں‘نہ انسانیت کی پروا اور نہ ہی غم و خوشی کا احساس‘ بس روٹی کے دوٹکڑے دیکھ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔نہیں تو افسانے کے بنیادی کردار باپ بیٹے ’گھیسو اور مادھو ‘ گھر کی عزت مردہ بہو کے لیے جمع کردہ پیسوں سے کفن خریدنے کے بجائے دارو پینے کو ترجیح کیوںدیتے۔ وہ کہتے ہیں:

’’ کیسا بُرا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے اُسے مرنے پر نیا کپھن(کفن) چاہیے۔‘‘  

 یہ مکالمہ اگرچہ باپ بیٹے کے درمیان ہورہا ہے لیکن اسی سے افسانہ نگار کا بنیادی مقصد بھی سامنے آتا ہے کہ افسانہ ’ کفن‘ علامتی پیرایے میں سماجی ناانصافی (Social injustice) اور معاشی استحصال (Economic expolitaion) کے پردے چاک کررہا ہے۔اب اس قسم کی بحث ہم کس طرح افسانے میں چھیڑ سکتے ہیں کیونکہ ایک طرف افسانہ نگار گھیسو اور مادھو جیسے سماجی کرداروں کاتعارف ابتدا میں کاہل‘ کام چوروغیرہ جیسے منفی خصائل سے کرواتا ہے تو قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جب یہ لوگ خود کام دھندہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے تو ان پراستحصال کیسا اور افسانہ پھر کیسے سماجی استحصا ل کو موضوع بنا رہا ہے؟ تو اس کااشارہ خود افسانہ نگار افسانے میںاس طرح سے کرتا ہے:

’’جس سماج میں رات دن کام کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوںکے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے‘کہیں زیادہ فارغ البال تھے وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔‘‘                                   

  اس طرح افسانہ نگار نے بڑی ہوشیاری سے افسانے کے بنیادی مقصد کی حساسیت کو واضح کردیا ہے‘ اگر یہ وضاحت نہ ہوتی تو قاری گھیسو اور مادھو جیسے کاہل اور کام چور لوگوں پر اشرافیہ طبقے کے استحصال کو کیسے قبول کرتا کیونکہ یہ لوگ کام ہونے کے باوجود کام کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور افسانہ موضوعاتی ترسیل میں متنازع پیغام (Controversial message) کا حامل بن جاتا جو کہ اس کے تخلیقی استحکام پر سوال کھڑا کردیتا۔ کیونکہ افسانے میں جس موضوع کو پلاٹ کا حصہ بنایا جاتا ہے تو اس میں موضوعاتی نشیب وفراز کا منطقی ربط رکھنا پڑتا ہے۔ دراصل افسانہ نگارنے افسانے میں موضوع کے منطقی ربط کا خیال رکھتے ہوئے سماج کے اس ماحول کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام (Captalistic syestem) کی اجارہ داری ہو تواس نظام کے زیر اثر مجبور و محکوم لوگوں کی سوچ و فکر اور زندگی گزارنے کے طور طریقے کس قسم کے بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ معروف ماہر اقتصادیاتGalbraiti  John Kennethسرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی حربے سے متعلق کہتا ہے کہ ’’سرمایہ دارانہ نظام کے اندر انسان ‘انسان کا استحصال کرتا ہے۔‘‘

'' Under capitalism, man exploits man.'')Book: A life in our times: Memoirs(

یہاں پر افسانے کا مفصل جائزہ مقصود نہیں ہے بلکہ اس افسانے کے بنیادی قضیے اور فن کاری پر توجہ دینی ہے۔ افسانہ مشاہدہ ‘ٖتخیل‘فن کاری اور تخلیقی اسلوب کی عمدہ عکاسی کرتا ہے اورمشاہدے کی بنیادی طور پر ایک ایسے سماج کی زمینی صورت حال کو فن کے قالب میں ڈھالتا ہے جہاں سماجی سطح پر استحصال کادوردورہ اتنا ہے کہ اب اس استحصال کے زیر اثر دبے کچلے انسانوں کی انسانیت بھی مرچکی ہے اور ان کا ضمیر بھی مردہ ہوچکا ہے یہاں تک کہ گھر میں لاش پڑی ہے اور یہ لوگ مانگے ہوئے پیسوں سے کفن خریدنے کے بجائے شراب پینے میں مست ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو جھوٹی تسلی دیتے رہتے ہیں۔فن کاری میں مشاہدے کو تخیل کا حصہ اس انداز سے بنایا گیا ہے کہ پورے افسانے کا پلاٹ تخلیقی نوعیت کا بن گیا ہے۔راوی پورے افسانے میں کہانی کو گھماتا رہتا ہے اور حسب موقع کرداروں کے مکالمے پیش کرتا رہتا ہے۔کردارنگاری میں غضب کا مشاہدہ نظر آتا ہے کیونکہ ہر کردار کی نفسیات ‘سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور عملی پہلوؤںکو بڑی باریک بینی سے پلاٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ پیامی سطح پر کہیں کہیں طنزملیح بھی نظر آتا ہے اور تکنیکی سطح پر ڈرامائی موڈ بھی دکھائی دیتا ہے جو کہ کہانی میں نکھارلاتا ہے:

’’ سارا میخانہ محو تماشا تھا اور یہ دونوں میکش محویت کے عالم میں گائے جاتے تھے۔پھردونوں ناچنے لگے۔اچھلے بھی۔کودے بھی‘گرے بھی‘مٹکے بھی‘بھاؤ بھی بتائے اور آخر نشہ سے بدمست ہوکر گرپڑے۔‘‘                                                  

   پریم چند فن افسانہ کے تکنیکی و تجرباتی شعورکا ملکہ رکھتے تھے جس بنا پر وہ کسی بھی موضوع کو بڑی ہنرمندی سے فکشن بناتے تھے۔وہ کسی بھی سماجی موضوع کو تخلیقی اسلوب میں اس طرح بیانیہ میں ڈھالتے کہ افسانہ پلاٹ مکالمہ نگاری‘ کردارسازی اور کہانی پن کی دلکشی سے سنورجاتا تھا۔ان کے افسانوں کا اسلوب بھی سادہ تھا جو کہ قاری کے مطالعاتی دلچسپی کا باعث بنتاتھا اور وہ کسی بھی سماجی موضوع کو کہانی کے روپ میں اس طرح پیش کرتے تھے کہ اس میں قصہ پن بھی ہوتا ہے اور کہانی کا روایتی انداز بھی جو کہ قاری کی پسند کا موجب بنتا تھا۔ 

Reyaz Tauheedi Kashmiri

Wadipora Handwara

Kashmir - 193221.

Cell: 9906834877  Email:drreyaztawheedi777@yahoo.com        


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل پر تصوف کے اثرات،مضمون نگار: عبدالرحمن شافی

  اردو دنیا،جولائی 2025 تصوف کا باضابطہ آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، اپنی ابتدا کے ساتھ ہی یہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثرانداز ہونے لگاتھا۔ تصو...