اردو دنیا، فروری، 2025
جنوبی ہند خصوصا تامل ناڈو میں مرزااسداللہ خان غالب کے
فکر وفن کی آبیاری میں علامہ ابو صالح غضنفر حسین شاکر نائطی(1899-1967)کا اسم
گرامی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔علامہ کے علاوہ مولانا عبد الرحیم فاروقی اور مولانا
امانی پلگنڈوی بھی قابل ذکر ہیں۔
آپ کی پیدائش شہر مینمبور میں ہوئی،تعلیم مدرسہ لطیفیہ
ویلور میں حاصل کی جہاں سے آپ کی فراغت 1919 میں
ہوئی۔جامعہ دار السلام عمرآباد کا قیام 1924 کو ہوااور غالبا 1925 میں بحیثیت
شیخ الادب آپ کا تقرر عمل میں آیا۔جامعہ سے ایسا تعلق استوار کیا کہ اپنی آخری
سانس تک خدمت کرکے اسی زمین میں مدفون ہوئے۔
شاکر نائطی کو کئی علوم پر مہارت حاصل تھی،لیکن آپ کی
وجہ شہرت ادیب وشاعر اور استاد ادب کی تھی۔جامعہ دارالسلام عمرآبادکی ادبی آبیاری میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔
نظم ونثر دونوں میں آپ کو قدرت نے ید طولیٰ عطافرما یا
تھا۔ مشہور ماہنامہ ’مصحف عمرآباد‘ آپ کی ادارت میں 1935 تا 1940 شائع ہوتا رہا
جس میں برصغیر کے مایہ ناز قلم کار اور نامور شعرااپنی تخلیقات خصوصی طور پر ارسال
فرمایا کرتے تھے۔ طبیعت میں فطری طور شاعری کا ذوق پایا تھا۔باقاعدہ کسی سے تلمذ
حاصل نہیں کیا ،شاعری میں آپ نے پیرخم
خانہ سخن مولانا ناطق گلاؤٹھی سے استفادہ کیا ور انھیں اپنا استاد مانا لیکن
مولاناناطق گلاوٹھی جیسا استاد شاعر اور بقول جگر مرادآبادی ’بے رحم نقاد‘نے کبھی
بھی آپ کو اپنا شاگرد نہیں جانا بلکہ ہم پلہ سمجھا۔
مولانا محمد زکریا ادیب خاور عمری راوی ہیں فرماتے ہیں
کہ ’’مدراس کے ایک مشاعرے میں شاکر نائطی نے جب اپنے استاد کا تعارف مجھ سے کرایا
تو علامہ ناطق نے کہا: بھئی۔ بات دراصل یہ ہے کہ نہ میں استاد ہوں،نہ یہ شاگرد ہیں‘‘ اس پر علامہ ناطق کی دلیل یہ تھی کہ ’’ایک ایساشخص
جو عربی وفارسی ادب میں مجھ سے بڑھ کر ہے،کیسے شاگرد ہوسکتا ہے۔البتہ ہم دونوں ایک
دوسرے کے استاد ہیں،کبھی میں ان سے کسی معاملے میں مشورہ کرلیتا ہوں اوروہ کبھی‘‘ (پیکر علم وادب علامہ شاکر نائطی: مرتب، مولانا
محمد رفیع کلوری عمری، ص51 )
مولانا حبیب الرحمن زاہد اعظمی عمری فرماتے ہیں
کہ’’مولانا ناطق اردو کے کسی بڑے سے بڑے شاعر کو خاطر میں نہیں لایا کرتے تھے،مگر
ہمارے مولانا کی شاعری کے بڑے مداح تھے اور آپ کواردو زبان کا صف اول کا شاعر تسلیم
کرتے تھے۔‘‘(حوالہ سابق، ص 30)
مولانا ناطق نے حضرت مولانا نفیس بنگلوری جو کہ جلیل
مانک پوری کے شاگرد تھے کے نام
جوخطوط لکھے ہیں ان میں شاکرنائطی کا
تذکرہ بڑی اپنائیت اور بڑے احترام سے کیا
ہے۔متفرق خطوط کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
مورخہ 9جون 1946 کے ایک
خط میں تحریر کرتے ہیں۔ ’’بہر حال مجھے اس کا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ جب تک زندان ِحیات
میں مقید رہوں مولانا شاکرنائطی کو اورآپ کو میری کوتاہ قلمی مایوس نہ کرے مگر
خدا جانے کیا ہوجاتا ہے کہ ہوتا وہی ہے جو
میں نہیں چاہتا، تو آپ لوگوں سے یہی کہنا ہے کہ میری واگذاشتوں پر درگزر
سے کام لیا کیجیے اور دعا کیجیے کہ خدا جلد آپ لوگوں سے ملائے۔‘‘
ایک اور خط میں مولانا ناطق نے شاکر نائطی کا خیریت
نامہ موصول نہ ہونے پر افسوس اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے۔
مورخہ13جنوری1946 کے خط میں لکھتے ہیں ’’میں یہ بات
افسوس کے ساتھ لکھ رہاہوں کہ مولانا شاکر نائطی کا ہنوز خیریت نامہ نہیں آیا میں
نے خود ہوکر بھی انھیں ایک خط لکھا تھا اس کا جواب نہیں ملا... میرے یہاں ان کاشمار اب عام احباب میں نہیں وہ مجھے بہت
عزیز ہیں اور ان کی بے توجہی سے مجھے تکلیف ہوتی ہے، آپ کو ان کا کچھ حال معلوم
ہوتو ضرور لکھیے۔‘‘ (افادات نفیس، مرتب:سلیم مینائی عمری)
شعر گوئی کے حوالے سے ہر شاعر کا اپنانظریہ ہوتا ہے جس
کی بناپر اس کی شعری کائنات قائم ہوتی ہے، شاکر نائطی کی شاعری میں مقصدیت پائی
جاتی ہے، ان کا خیال ہے کہ اچھی اور معیاری شاعری کودوام حاصل ہوتا ہے اس کے
برخلاف سطحی اور غیرمعیاری کلام اپنے آپامرجاتی ہے۔ انھوں نے اپنے فنی وفکری سرمایے
کی منتقلی کے لیے صنف غزل کواپنا وسیلہ
بنایا ہے، علاوہ ازیں تاریخی قطعات،قطعات اور چند نظمیں بھی کہی ہیں جو کمیت میں
مختصر ہونے کے باوجودآپ کی استادانہ مہارت کی عکاس ہیں۔
جنوبی ہند خصوصا علاقہ مدراس میں جب آتش و ناسخ کی پیروی
کواصل شاعری سمجھا جارہا تھا وہاں پر انھوں نے اردو شاعری کو وہ موڑ دیا جو کہ
غالب کی فکر اور اس کے آہنگ سے قریب تھا۔شاکر نائطی غالب کو بڑا شاعر گردانتے
تھے،غالب کی فکر کو انھوں نے اس علاقے میں عام کیا اور اپنے شاگردوں کا ایک بڑا جال
بچھادیا۔ کاظم نائطی لکھتے ہیں:
’’آپ
نے تمل ناڈو کے شعروادب کو نئی فکری سمتوں سے آشنا کراتے ہوئے ایک ایسا موڑ دیا
کہ ’غالب اسکول‘ کے نام سے شروع ہوکر، اگر مبالغہ نہ ہو تو’شاکر اسکول‘ پر ختم
ہوتا ہے۔ مولانا شاکر نے سیکڑوں شاگردوں کو غالب کی فکری آفاقیت اور تخلیقی ہنر
مندیوں کے ڈھنگ اور آداب سیروشناس کیا۔‘‘
(پیکر
علم وادب علامہ شاکر نائطی۔مرتب،مولانا محمد رفیع کلوری عمری، ص60)
شاکرنائطی غالب کو شاعر اعظم سمجھتے تھے، دیگر شعرا کے
کلام سے کلام غالب کا موازنہ کرکے اس کی انفرادیت ثابت کرتے تھے۔آپ کے پاس غالب کی
شاعری پر کوئی بھی اعتراض نہ معقول تھا اور نہ مقبول، شاکرنائطی کے شاگرد مولانا
عبد الرشید عمری ادھونی فرماتے ہیں:
’’مرزا
غالب آپ کے پسندیدہ شاعر تھے، غالب کے نہ صرف مداح تھے بلکہ اردو زبان کا شاعر
اعظم سمجھتے تھے،شاعر ہی نہیں غالب کو مفکرومدبراور حکیم اور دانشور بھی مانتے
تھے۔ کلام غالب کی خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے تھکتے نہیں تھے اور مختلف شعراکے
کلام کا موازنہ کرتے ہوئے غالب کی انفرادیت کو ثابت کرتے تھے۔ غالب کی شاعری پر
کوئی اعتراض آپ کے یہاں معقول ومقبول نہیں ہوتا تھا۔ معترض چھوٹا ہوتا تو اسے
’بونا‘ تصور کرتے اور بڑا ہوتواس کے اعتراض کو ’غالب شکنی‘ پر محمول کرتے۔‘‘ (ایضاً،
ص 10-11)
شاکرنائطی شاعری میں غالب کا ہم پلہ کسی کو نہیں مانتے
تھے، یہاں تک کہ علامہ اقبال اور غالب کے درمیان یہ فرق روا رکھتے تھے۔بقول مولانا
ثناء اللہ عمری ایم اے عثمانیہ’’اقبال کو اصطلاحی معنوں میں شاعر نہیں گردانتے
تھے،جیسے غالب کو مانتے تھے،بلکہ پیامبر یقین کرتے تھے۔‘‘(ایضاً، ص 90)
وہ اپنے شاگردوں میں سے جن کے اندر شعر کہنے کی صلاحیت
دیکھتے تو خاص طور پر ان کی جانب توجہ مبذول فرماتے اور ان کی فکری وفنی آبیاری کی
پوری کوشش فرماتے۔مولانا ابوالبیان حماد عمری فرماتے ہیں:
’’طلبہ
میں شعر وادب سے دلچسپی پیدا کرنا،ان کی مناسب رہنمائی کرنا، انھیں اونچا اٹھانے کی
کوشش کرنا، ان کے کلام پر اصلاح دینا، اور ان کی فنی خوبیوں کو تلاش کرکے ایسی ہمت
افزائی کرناکہ طالب علم اپنے اندر ایک مضبوط خود اعتمادی محسوس کرے،یہ سارے کام اس
خوبی،خوشی اور خوش اسلوبی سے فرماتے کہ گویا یہ آپ کے فرض منصبی ہوں۔‘‘(ایضاً، ص
22)
شاکرنائطی کا ماننا تھا کہ راست طور پر شاعر کے کلام کے
مطالعے سے معانی وافکار کی جو گیرائی حاصل
ہوتی ہے وہ شروحات سے ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے مایہ ناز شاگردمولانا حبیب
الرحمن زاہد عمری اپنا واقعہ یوں بیان کر
تے ہیں ’’ایک مرتبہ آپ نے اردوزبان وادب میں ترقی کے تعلق سے ناچیز کو یہ قیمتی
مشورہ دیاکہ’دیوان غالب‘ کا گہرائی سے مطالعہ کیا کرو۔ پھر کچھ عرصہ بعدآپ نے اس
سلسلے میں دریافت فرمایا تو بندے نے پورے ادب و احترام کے ساتھ عرض کیاکہ آپ کی
ہدایت پر برابرعمل پیرا ہوں، مگر غالب کے بعض اشعار کے معنی ومفہوم سمجھ سے بالاتر
ہیں۔استاد محترم نے نہایت محبت کے ساتھ فرمایا کہ ’’اس میں قصور غالب کے اشعار کا
نہیں،بلکہ تمہارے نا پختہ ذہن کا ہے، پڑھو اور مسلسل پڑھتے رہو تو کچھ عرصے بعد ان
اشعار کا مطلب خود بخود سمجھ میں آنے لگے گا۔‘‘ (ایضاً، ص 35)
شاکر نائطی شاعری میں استادی کے مقام پر فائز تھے،
استادانہ مہارت کے باوجود ’صنف نعت‘ سے اپنے آپ کودور رکھا۔ آپ کے دیوان میں صرف
ایک نعت بطور تبرک شامل ہے۔ غالب جیسے عظیم المرتبت شاعر نے بھی صنف نعت سے دوری
رکھی ہے۔ بجز ایک فارسی نعت کے کوئی مکمل کلام دستیاب نہیں ہے۔ غرض غالب نے جن بھی
وجوہات کی بناپر اس صنف سے دوری اختیار کی
ہو، علامہ کے نزدیک یہ ایک مبارک صنف ہے جس میں حدرجہ احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ حبط
اعمال کا خوف لگا رہتا ہے۔
غالب کی ابتدائی
شاعری میں فارسی لفظیات کا استعمال خوب ملتا ہے اوروہ فارسی تراکیب کو برتنے میں
ذرا بھی تامل نہیں کرتے تھے۔ علامہ نے بھی اپنی شاعری میں فارسی لفظیات اور تراکیب
کوبڑے سلیقے اور قرینے سے استعمال کیا ہے۔ آپ نے فارسی کی آمیزش کو اتنا ہی
گوارا کیا جتنی کسی شے میں قند یعنی شکر کی ضرورت اور اہمیت ہوتی ہے۔اس حوالے سے
ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو ؎
شاکر پسند ہے جو تجھے لذت زباں
اردو نمک کے ساتھ ملا فارسی کی قند
چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں علامہ نے فارسی کی
لفظیات اور تراکیب کا استعمال عمدہ پیرایہ میں کیا ہے ؎
تقدیر ہی سب کچھ سہی،تدبیر بھی کچھ ہے
بے ربطیِ کردار پہ قسمت کا گلہ ہیچ
ہنوز شورِ فغاں شورشِ جہاں میں ہے گم
ہوا نہ رازِمحبت کچھ آشکار ہنوز
اک زحمتِ بے جا ہے یہاں فکرِمداوا
زائل نہیں ہوتا مرضِ عشق دوا سے
مولانا سید زکریا ادیب خاور عمری نے علامہ کی شاعرانہ عظمت کو ثابت کرتے ہوئے
آپ کو غالب سے یوں جوڑا ہے۔ رقم طراز ہیں ’’طرزِ ادا کی جو جدت غالب کے کلام میں
ہے، شاکر کے یہاں اس سے زیادہ ملتی ہے، شوخ نگاری،عشق ومحبت کاوالہانہ پن، زندگی
کا حکمت آمیزپہلو،شاکر کی شاعرانہ بصیرت پر دلالت کرتا ہے۔ کلام میں جو تازگی،
مضامین میں تنوع اور فسوں کاری ملتی ہے وہ شاکر کو غالب سے بہت قریب کردیتی ہے۔
شاکر نائطی اسلوبِ غالب کے بڑے مداح ’دیوانِ شاکر‘ میں
کئی ایک غزلیں غالب کی زمین میں ملتی ہیں، جن میں لفظیات اور فکر کی بھی کہیں یکسانیت
نظر آتی ہے۔ شاکرنائطی کی چند غزلوں کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔غالب کی غزل
کا حسنِ مطلع ملاحظہ ہو ؎
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
شاکر نائطی نے گیارہ اشعار پر مشتمل ایک طویل غزل اسی
زمین میں کہی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں
؎
کیسے کاٹیں گے شبِ غم کو سحر ہونے تک
ہم پہ کیا گزرے گی یہ معرکہ سر ہونے تک
ڈر کسی کا نہیں ساری شبِ غم اپنی ہے
خوب رولے دلِ ناکام سحر ہونے تک
(دیوانِ شاکر، ص
110)
غالب کی ایک
اورغزل کا مطلع ملاحظہ ہو ؎
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
اسی بحر میں ان کے یہاں بھی ایک لاجواب غزل ملتی ہے۔چند
اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
ہے کوئی چیز،حاصل دنیا کہیں جسے
اس کے سوا کہ بادہ و مینا کہیں جسے
ہوں سب میں اور سب سے جدا سب سے بے نیاز
میں ہوں بھرے جہان میں تنہا کہیں جسے
(دیوانِ شاکر، ص،
41)
غالب کا حسنِ مطلع ملاحظہ فرمائیں ؎
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
شاکر نے اس زمین پر ایسی غزل کہی ہے جوآپ کی استادانہ
عظمت کی دلیل ہے،غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
ہو ما نگنا تو مانگ،مگر ناروا نہ مانگ
بے شک خدا سے مانگ،مگر،ماسوا،نہ مانگ
جینے سے فائدہ نہیں مرنے کی فکر کر
تو زہر مانگ چارہ گروں سے دوا نہ مانگ
(دیوانِ شاکر، ص:86)
غالب کا حسنِ مطلع ملاحظہ فرمائیں ؎
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
غالب کی اس زمین پر شاکر نائطی نے اپنی فکری پرواز کی
اس طرح اڑان بھری ہے، ملاحظہ فرمائیں ؎
چارہ کار ہوا حد سے سوا ہوجانا
اب مرے درد کوآیا ہے دوا ہوجانا
یہ بتانے کی نہیں بات جتانے کی نہیں
خودبہ خود چاہیے اظہار وفا ہو جانا
(دیوانِ
شاکر، ص:32)
شاکرنائطی نے غالب کی زمین میں کئی غزلیں کہی ہیں اور
اپنی فنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے،اوراپنے تخیل کی کہکشاں کو روشن کیا ہے۔غرض
شاکر نے جنوب میں غالب کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے،اور اپنے شاگردوں کے وسیلے سے
ملک وبیرونِ ملک غالب کے فکر ی سرمایے کو منتقل کیا ہے۔
Dr. Abubakar Ibraheem Umri
Parnambat (Tamilnadu)
Mob.: 9791299088
ibraheemumari@gmail.com