16/7/25

نواب محمد عبد الوحید غازی آف گیوردھا، مضمون نگار: محمد اسداللہ

 اردو دنیا، مارچ 2025


اردو زبان و ادب کی ترویج وبقا  یوں تو عوام الناس کی محبت و اپنائیت کا ثمرہ ہے،مگر حکومت ِ وقت کے سر براہوں کی دلچسپی اور اعانت نے بھی اس زبان کے فروغ میں اہم کر دار ادا کیا ہے۔ بعض حکمرانوں اور صاحب ِ اثر ہستیوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اس زبان کی آ بیاری کی ہے، ایسی مقتدر شخصیات میں مغل شہنشاہ بہادرشاہ ظفر اور دکن کے فر مانرواقلی قطب شاہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ مختلف ریاستوں میں ایسی ادب دوست شخصیات کے نام تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں ان میں ایک نام نواب غازی آ ف گیوردھا کا بھی ہے۔

بیسویں صدی کے ودربھ کے شعرا میںعکاسِ فطرت، نواب غازی آ ف گیوردھاکوایک نمایاں مقام حاصل ہے؛ وہ بنیادی طور پرشاعر تھے، اس سخنوری کا فیضان اردو زبان تک محدود نہ تھا۔ انھوں نے فارسی، ہندی اور انگریزی زبانوں کی مختلف اصنافِ سخن میں طبع آ زمائی کرکے شاعری کا بڑا ذخیرہ چھوڑا۔ نہ صرف ناگپور بلکہ ملک بھر کے مشاعروں میں انھیںشرکت کے لیے مدعو کیا جاتا تھا، جہاں وہ صدر مشاعرہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ نواب غازی  اپنی گو ناگوں صلاحیتوں اور خوبیوں کے سبب جانے جاتے ہیں۔  ان کی حمدیہ و مناجاتی شاعری ان کے کلام کاطرۂ امتیاز ہے۔ انھیں کئی زبانوں مثلاً عربی، فارسی، انگریزی، اردو، ہندی، گونڈی اور مراٹھی بولنے اور لکھنے پر پوری قدرت حاصل تھی۔انھوں نے عربی زبان میں روز نامچہ لکھااور علاقائی گونڈی زبان کی گرامر بھی مرتب کیاتھا۔

نواب محمد عبدالوحید غازی آ ف گیوردھا21 اکتوبر 1907 کو بڑ گائوں میں پید اہوئے۔ غازی ان کا تخلص تھا۔  اس کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے بڑے بھائی محمد عبد الحمید جو علی گڑھ میں زیرِ تعلیم تھے، انیس سال کی عمر میں انتقال فر ماگئے۔ان کی ایک ڈائری پر لفظ غازی لکھا ہوا دیکھ کر بھائی کی یاد میں نواب صاحب نے اسے بطور تخلص اختیار کیا۔  نواب محمد عبدالوحید غازی کے آ با و اجداد شاہ عالم کے عہد میں کشمیر سے وسطِ ہند منتقل ہوئے اور بھوسلہ راجہ کے ماتحت پرگنہ ویرا گڑھ کے دیوان مقرر ہوئے تھے حقِ خد مت کے صلے میں انھیں گیوردھا کی زمینداری ملی۔گیوردھا اس وقت گڑھ چرولی ضلع میں ایک چھوٹا سا دیہات ہے۔اسی دیہات کے نام سے گیوردھا اسٹیٹ کہلائی۔ ابتدا میں اس اسٹیٹ کا رقبہ 160 مربع میل تھا۔ جس میں ایکسٹھ گائوں تھے۔ 1854 کو بھوسلہ حکومت سلطنت بر طانیہ کی قلمرومیں شامل کر لی گئی۔لیکن برطانیہ حکومت نے  چند  چھوٹی ریاستوں کو بحال رکھا ان میں گیوردھا اسٹیٹ بھی تھی۔ آ پ کے جد امجد محمدبہاء الدین اور والد بزرگوار محمد زین الدین صاحب نے حسنِ انتظام کے ذریعے اس زمینداری کو بہت ترقی دی۔

(نواب محمد غازی حیات اور علمی خدمات: ڈاکٹر سید عبدالرحیم، کلمات 1995، ص 141)

نواب محمد عبدالوحید غازی کی ایک بہن بھی نو عمری میں انتقال کر گئی تھی۔ نواب غازی ابھی پانچ سال کی عمر ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا والدہ حفیظ بیگم نے بڑی شفقت سے آ پ کی پر ورش کی حکومت بر طانیہ آ پ کو لندن میں تعلیم دلوانا چاہتی تھی لیکن آ پ کی والدہ اس بات پر راضی نہ ہوئی۔ آ خر خان بہادر ایچ ایم ملک صاحب کی ایما پر انجمن ہائی اسکول میں داخلہ کروایا گیا۔ انجمن کے ہوسٹل میں گورنر کی خصوصی نگرانی میں آ پ کو رکھا گیا۔دورانِ تعلیم انھیں سپہ گری ؎ کی بھی مشق کروائی جاتی۔ گیوردھا اسٹیٹ کے نظم و نسق کے لیے اردو کے بلند پایہ صاحبِ دیوان شاعر حضرت زیبا کوٹی( بی اے علیگ) کو مینیجر مقرر کیا گیا۔

1927میں نواب صاحب کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا،البتّہ علمی و ادبی مشاغل جاری رہے۔ آپ نے اپنے استاد سے شاعری کے رموز و نکات  کے بارے میں تین برس تک استفادہ کیا۔ اسی طرح ایک راجستھانی عالم مولوی نور الحق سے فارسی میں مہارت حاصل کی اور ایک گرو جی سے ہندی بھی سیکھی اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سب حضرات نے غازی صاحب کو خاطرخواہ فیض پہنچایا۔

1939میں نواب غازی گیوردھا اسٹیٹ سے شہر ناگپور کے قریب واقع کامٹی میں منتقل ہوگئے۔ وہاں کنہان ندی کے کنارے ایک خوبصورت بنگلہ خریدا جس کا نام ’ کاشانہ‘ رکھا۔اس میں ان کا ایک ذاتی کتب خانہ بھی تھا جس میں موجود کتابوں کے وقیع ذخیرے سے نواب صاحب کے علمی وادبی ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ اس علاقے میں افسانہ نگاری کے پیش رو معروف ادیب عبد الستار فاروقی سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ نواب صاحب ان کے رسالے ہفتہ وار’ الفاروق‘ کی سر پرستی فر ماتے رہے۔ 1964 میں وہ کامٹی سے شہر ناگپور آ گئے اور علاقہ مانکا پور میں انھوں نے ایک وسیع و عریض بنگلہ خرید کر اس کا نام ’ باغ منزل ‘ رکھا۔ تادمِ آخر وہ وہیں قیام پذیر رہے۔ 6 فروری  1979کو نواب غازی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔

نواب غازی کے حالاتِ زندگی اور ان کے کلام کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ ایک خدا ترس انسان تھے۔اپنے علاقے کے نظم و نسق کو سنبھالنے والے اس شخص کے سینے میں ایک شاعر کا دل تھا۔وہ آ سودگی اور ہر طرح کے سامان ِ عیش مہیا ہونے کے باوجود شانِ بے نیازی کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ وہ مذہبی اور اخلاقی قدروں پر پختہ یقین رکھتے تھے ان کی شخصی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبد الرحیم لکھتے ہیں :

مبدائے فیاض سے نواب صاحب نے حافظہ بھی بلا کا پایا تھا۔ مولانا محمد خاں صاحب اور عبد اللہ عرب سے آ پ نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ عبد اللہ عرب عربی النسل تھے۔ ان سے عربی میں گفتگو کرتے، حضرت زیبا کوٹی کی تعلیم و تربیت نے ان میں شعری ذوق پیدا کر دیا تھا۔آ پ کے  تلامذہ میں شاطر حکیمی خورشید تابش نوید بلاس پوری اختر نظمی ڈاکٹر رندھیر اور جعفری صاحب قابلِ ذکر ہیں نواب صاحب صوفی منش انسان  تھے۔ تصوف سے آ پ کو گہرا لگائو تھا۔ گیوردھا اسٹیٹ میں آ پ نے ایک خانقاہ تعمیر کی تھی جہاں ذکر و فکر کا مشغلہ تھا۔ بزرگانِ دین سے گہری عقیدت مندی تھی خصوصاً بابا تاج الدین اولیا سے بہت گہرا تعلق تھا۔ معمولات کی بڑی پابندی تھی۔ جو ظاہر تھا وہی باطن۔مذاق میں بھی کبھی جھوٹ نہیں کہا۔ قران کریم سے بڑا تعلق تھا۔ نمازِ فجر کے بعد قران مجید کی تلاوت کا اہتمام کرتے اور سونے سے قبل کچھ آ یتیں ضرور پڑھتے۔عسکری صفات کے حامل اور داد و دہش کے پیکر تھے۔ علمی مجلس میں بلا سند نہ کوئی بات کہتے نہ کسی کی بات قبول کرتے۔ سند حاصل ہونے کے بعد فوراً اپنی بات سے رجوع کر لیتے چاہے وہ سند کسی شاگرد کی جانب سے ملی ہو۔(ایضاً، ص 142)

نواب غازی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اﷲتعالیٰ کی حمد و ثناکے علاوہ ایسے موضوعات پر مشتمل ہے جو تصوف  سے قریب تر ہیں۔ اس دور کے مسلمانوں کی زبوں حالی پر اپنے رنج و غم کا اظہا ر بھی انھوں نے بڑے فنکارانہ انداز میں کیا ہے۔ نواب غازی کے محدود صفحات پر مشتمل  چند شعری مجموعے شائع ہوئے جن کے نام حسب ذیل ہیں۔ نوائے نیم شب،ذکر و فکر۔مزد و خدمت اور ارتقا اورتلخیات۔ ان کے علاوہ نواب غازی کا مجموعۂ کلام‘ گلستان ِ معرفت ‘جو102 صفحات پر مشتمل ہے1932 میں منظرِ عام پرآ یا۔کتاب کے ابتدائی صفحے پر ’ تخیلات معجز نشاں‘  کے ذریعے اس کے سالِ اشاعت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ’نوائے نیم شب‘ ًآپ کی دعائیہ نظموں کا مجموعہ ہے۔ ’گلستانِ معرفت‘ میں1923 سے 1932 تک کلام موجود ہے۔

 نواب غازی  کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خواجہ میر درد اور علامہ اقبال  سے بہت متاثر تھے اسلامی تصوف کا گہرا اثر ان کے کلام پر نظر آتا ہے۔نواب غازی کی شاعری میں مذہبی اخلاقی موضوعات پر نظمیں کثیر تعداد میں موجودہیں۔’ گلستان ِ معرفت‘ میں غزلوں کے مقابلے میں منظومات کی تعداد زیادہ ہے۔ چند نظموں کے عنوانات ملاحظہ فر مائیں۔ مجاہدِ اسلام، بختِ نا رسا،رہنمایانِ گمراہ، درسِ روحانیت،دردِ دل، جبر و اختیار اور برسات کی شام وغیرہ

گلستان ِ معرفت کاآ غاز جس حمد سے ہوتا ہے اس کے تقریباً سبھی اشعا ر خوبصورت تلمیحات سے مزین ہیں     ؎

پژ مردہ دل ہزاروں تونے کھلادیے ہیں

 یعقوب جیسے لاکھوں روتے ہنسادیے ہیں

نارِ خلیل دم میں گلزار ہوگئی تھی

آ تش کدوں سے تونے گلشن بنادیے ہیں

دارِ مسیح کیا تھی اک زینۂ فلک تھا

سولی چڑھا کے لاکھوں زندہ بچا دیے ہیں

زراتِ رنگ ابھرے  قطراتِ موج بن کر

 زمزم سے لاکھ چشمے تونے بہا دیے ہیں

دریا  نے خشک ہوکر موسیٰ کو راہ دے دی

موجِ کرم نے تیرے قلزُم ہٹادیے ہیں

مچھلی بھی بن گئی تھی یونس کے حق میں کشتی

ساحل پہ تونے کتنے بیڑے لگا دیے ہیں

(مطبوعہ گلستانِ معرفت: نواب محمد غازی، 1923، ناگپور، ص 1)

نواب محمد غازی کی شاعری کے متعلق اظہارِخیال کرتے ہوئے حافظ محمد ولایت اللہ، گلستان ِ معرفت‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

 نواب محمد غازی اپنے صوبے کے ایک دقیقہ رس اور بلند پایہ شاعر ہیں۔ آ پ کا کلام بحیثیت مجموعی معارف و حقائق کا ایک گنجینہ ہے۔ جس میں حیاتِ انسانی کے مختلف نازک اور اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ موسیقیت ِشعری اور تمامِ  اصنافِ سخن کو نمایاں رکھتے ہوئے فلسفیانہ مضامین کو جس خوبی اور قادرالکلامی سے تمثیلی پیرائے میں واضح کیا ہے اسے وہی خوب سمجھ سکتا ہے جس کی نگاہ جناب غازی کی طرح غائراور نکتہ رس ہو۔(مقدمہ عالی جناب خان بہادر حافظ محمد ولایت اللہ صاحب، مطبوعہ گلستانِ معرفت: نواب محمد غازی، 1923  ناگپور  ص۔ب)

نواب غازی کی غزلوں میں جہاں نازک خیالی، حالات کی زبوں حالی کا تذکرہ اور عشق و محبوب کا بیا ن اس عہد کی شعری روایات کی پاسدار ی کر تا ہو ا نظر آ تا ہے،وہیں ان کی منظومات میں عشق حقیقی اور تصوف کی جھلک نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل نے ان کی شاعری میں پائے جانے والے مذہبی افکار کو حمد اور مناجات کے تناظر میں دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ :

’’ نواب غازی کی حمد و ثنا میں فکر و خیال کی گہرائی و گیرائی، تخیل کی بلند پر وازی اور علمیت پوری آ ن بان شان کے ساتھ نظر آ تی ہے۔انھوں نے بعض نئی لفظیات اورنئی تراکیب کا بھی استعمال کیاہے۔ اور خدا کی توحید اور اس کی ربوبیت کوظاہر کرنے کے لیے نئے نئے خیالات بھی پیش کیے ہیں۔‘‘

(ڈاکٹر شرف الدین ساحل: درمعانی، مطبوعہ، 2022، ناگپور، ص 24)

نواب غازی کی غزلوں میں روایتی مضامین او روارداتِ قلبی کا بیان پر اثر انداز میں ہوا ہے۔ ان میں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں تصوف کے زیر ِ اثر دنیا سے بے گانگی کا اظہار کیا گیا ہے اور ان میں محبوب کی بے اعتنائی کا شکوہ بھی ہے۔

سنبھل کر تیغ اے قاتل لگانا میری گر دن پر

کہیں اس خونِ ناحق کا لگے دھبہ نہ دامن پر     پیوندِ خاک ہونا انجامِ زندگی ہے

کیا دردناک  اللہ انجامِ زندگی ہے

بجلیاں ابر نے لا لا کے گرادیں لاکھوں

ہم نے چاہا جو کبھی گھر کا چراغاں ہونا

قصہ ٔ درد کے اظہار پہ ہنس کر بولے

بات کر نے کا سلیقہ کوئی تم سے سیکھے

بے وفائی کا نہ کر بلبلِ ناشاد گلہ

پھول کے چاک گریباں کو ذرا دیکھ تو لے

دیکھ مشاطگیِ زلف نہ کر بادِ صبا

اور الجھیں گے یہ گیسو تیرے سلجھانے سے

گلستانِ معرفت‘ میں اردو کے علاوہ فارسی کلام بھی موجود ہے۔ایک فارسی نظم، بہ عنوان،  ’ قصیدہ  بتقریب تہنیتِ شفا یابی مَلِک معظم حضور شہنشاہ جارج پنجم فر مانروائے انگلستان و ہند ‘  کے چند اشعار ملاحظہ فر مائیں        ؎

تا حشر زندہ باد شہنشاہ انگلستان

بر ما  نگاہ  او است  نگاہِ خد ا  براں

باشند شاد کام  محبانِ پادشاہ

پسپا شکست خوردہ  فنا با د  دشمناں

غازی بحیرتم چہ دعائے کند گدا

مستغنی از دعا ست  خدا دوست حکمراں

(مطبوعہ گلستانِ معرفت: نواب محمد غازی، 1923، ناگپور، ص 43)

نواب غازی نے رباعیات کا ایک قلمی نسخہ بھی چھوڑا ہے جس میں 749 رباعیات موجود ہیں۔ ان میں فارسی رباعیات بھی ہیں۔

اپنی موت سے قبل تحریر کی گئی ایک فارسی رباعی میں انھوں نے مرض الوفات کے حالات پر صبر و شکر کا اظہار کیاہے       ؎

شاکی نیم ارچہ درد مندم کردی

بہراف و آ ہ کار بندم  کر دی

چشمے ز تو شاہ التفاتے باشد

نادم بنواز شی کہ خرسندم کردی

نواب غازی نے ہندی شاعری میں بھی طبع آزمائی کی تھی۔ انھوں نے اس زبان کی ادبی روایات اور متعلقہ اصناف کی شعریات کو بخوبی سمجھتے ہوئے اپنے خیالات کو شعری پیکر عطا کیا تھا۔  چند نظموں کے اشعار ملاحظہ فر مائیں        ؎

لوبھ ترنگیں بھاری بھاری

پھنس گئے پاپ بھنور نر ناری

پربھو راکھیں لاج ہماری

ڈوب نہ جائیں پاپی سارے

 

گانٹھ میں جب تک دمڑی ہے

لوگ پکاریں بابوجی

دام درم جب جات رہیں

سدھ بدھ نہ بچارے کوئی

 

پیت کا گاوے گیت کوئی

کوئی کہے میں بلیہاری

اَوسر پاکر وار کرے

  دھر دے جھٹ کنٹھ کٹاری

 بس دیکھ چکے ہم بھائی

سب کھوٹی ہے یہ نگری

نواب غازی کی شاعری جہاں ان کے ذاتی جذبات و احساسات کی آ ئینہ دار ہے وہیں ان کے عقائد اور خدا کی ذات و صفات پر پختہ یقین کا شاعرانہ اظہار بھی ہے۔

 

Mohd Asadullah

30, Gulistan Colony

Near Amrai Lance

Nagpur- 440013 (MS)

Mob.: 9579591149

zarnigar2006@gmail.com

پروفیسر قیصر شمیم، مضمون نگار: علی شاہد دلکش

 اردو دنیا، مارچ 2025


وسیع کینوس میںمشرقی ہند کے ایک ایسے مقبول و معروف شاعر و ادیب، ممتاز معلم، مترجم، اسکالر اور صحافی کا نام پروفیسر قیصر  شمیم ہے، جن کا مذہب ہمہ تن عشق رہا۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے عشق میں تفریق نہیں کی۔ حالانکہ ان کا حلقۂ شاگرد و احباب انتہائی وسیع رہا۔ موصوف کی شخصیت ایک سراپا مخلص ہستی کی سی رہی جو تاعمر علم و ادب کی خوشبو، محبت و شفقت کی خوشبو، انسان دوستی کی خوشبو، اپنائیت و انسیت کی خوشبو، علم دوستی کی خوشبو، قومی یک جہتی کی خوشبو اور التفات و عنایت کی خوشبوؤں کو بانٹنے میں سر گرم عمل رہی۔ قیصر شمیم خود ہی مذہبی یک جہتی کے رنگ میں یوں کہتے نظر آتے ہیں         ؎

میرا مذہب عشق کا مذہب جس میں کوئی تفریق نہیں

میرے حلقے میں آتے ہیں تلسی بھی اور جامی بھی

مذکورہ شعر پر استاذ الشعرا قیصر شمیم صاحب کی شخصیت کھری اترتی ہوئی نظر آئی۔ محترم قیصر شمیم کا حلقۂ اکتسابان و شاگردان ان کے دل کی کشادگی کے مساوی ہے کہ اس میں جامی اور تلسی والے بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی استاذ شخصیت حقیقی معنوں میں استاذ الاساتذہ کے مصداق ہے، جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ 3؍ستمبر 2021 کو 86 سال کی عمر میں ان کی روح قفس ِ عنصری سے آزاد ہوئی تھی جبکہ وہ غلام ہندوستان کے صوبہ بنگال کی سر زمین پر 2؍اپریل 1936(اسکول سرٹیفکیٹ کے مطابق) کو انگس، ضلع ہگلی میں تولد ہوئے تھے۔ محترم قیصر شمیم اُس دِیے کی مانند تھے جس کی لَو تاحیات مدھم نہیں ہوئی۔ ایسی عبقری شخصیت خال خال ہی نظر آتی ہے۔ میرے عنوان سے چونکنے والوں کو اب تک واضح ہو ہی گیا ہوگا کہ خاکسار علی شاہد دلکش نے متذکرہ با وقار علمی و ادبی شخصیت کو خوشبو بانٹنے والا یوں ہی نہیں لکھا ہے۔ اپنی عملی و علمی زندگی میں قیصر شمیم (اصل نام عبدالقیوم خان) اردو ادب کے ایک تعطر آمیز سایہ دار شجر کی مانند تھے۔ اس علمی و ادبی شجر کے گل کی خوشبو، بشکل بوئے شمیم اپنے گرد و نواح کو محض معطر ہی نہیں کرتی رہی بلکہ شجر ِ شمیم اپنے مجسمہ اور متعلقہ افراد کو خوب خوب مستفید و مستفیض بھی کرتے رہے۔ بقول قیصر شمیم           ؎

ہم نے تو کیا ،  جو بھی کرنا تھا قیصر

معلوم ہے، کیا اس کا صلا دے گا زمانا

 مو صوف کے والد مرحوم جناب عبدالرحیم خاں ایک کارخانے میں ملازم تھے۔قلیل آمدنی کے سبب قیصر شمیم کو کم عمری سے ہی چھوٹی موٹی ملازمت سے جڑنا پڑا۔ انھوں نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز انگلش بوائز پرائمری اسکول سے کیا اوراپنی ابتدائی تعلیم چاپدانی میونسپل پرائمری اسکول سے مکمل کی۔ ملک کی آزادی سے قبل 1946 کے فرقہ وارانہ فسادات کے زمانے میں آپ پریسی ڈنسی مسلم ہائی اسکول میں درجہ ششم کے طالب علم تھے۔ناسا ز گار حالات کے سبب کچھ دنوں کے لیے انھیں تعلیم ترک کرنا پڑی پھر شیام نگر 24پرگنہ کے گرولیہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ ابھی درجہ نہم ہی میں تھے کہ گھر کی مالی مشکلات کے سبب اسکول چھوڑنا پڑااوربہ حالت مجبوری کلکتہ کے ایک چھوٹے سے مدرسے میں درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ البتہ ملازمت سے جڑنے کے باوجود تعلیم سے قلبی لگاو ٔ ہمیشہ رہا۔چنانچہ 1952 میں ہگلی ہائی مدرسہ میں داخلہ لیا اور یہیں سے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈیویژن سے1953 میں پاس ہی نہیں کیابلکہ مغربی بنگال ہائی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے ایک ریکارڈ بھی بنا ڈالا۔پھر مولانا آزاد کالج سے آئی۔ا ے فرسٹ ڈیویژن 1955 میں پاس کیا اور کلکتہ یونیورسٹی سے 1963 میں بی اے اور 1965 میں ایم۔اے (فرسٹ کلاس) کیا۔ 

قیصر  شمیم عوام و خواص کے چہیتے تھے۔ مزدور کے بیٹے تھے۔ مزدوروں کی بستی میں آنکھیں کھولیں، جہاں گندگی کے ملبے ارد گرد پڑے رہتے۔ مزدور فیملیز کے درمیاں پلے بڑھے۔ کیچڑ میں کنول کھلنے کے مترادف ان کی شخصیت پروان چڑھی۔بقول قیصر شمیم:

’’مجھے یاد ہے کہ جوٹ مل کے جس علاقے میں میں پیدا ہوا تھا وہاں جی ٹی روڈ کے ایک طرف مزدوروں کی بستی تھی جس میں مرغیوں کے ڈربوں جیسے چھوٹے چھوٹے گھر تھے۔ ان میں اکثریت بانس اور مٹی سے بنے ہوئے ایسے گھروں کی تھی جو بیشتر اوقات بوسیدہ رہا کرتے تھے۔میاں بیوی،بیٹے بیٹیاں، پورا خاندان ایک ہی گھر میں ٹھسا پڑا رہتا تھااورگھٹ گھٹ کر اسی طرح زندگی گزارتا تھا۔‘‘

( پہاڑ کاٹتے ہوئے،قیصر شمیم،ص14)

 کثیرالجہات علمی و ادبی شخصیت ہونے کے سبب ان کے شاگردوں کی تعداد بھی کثیر رہی ہے۔ نتیجتاً سرعام زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے کے علاوہ رازدارانہ طور پر اصلاح لینے والے ادبی و علمی اشخاص کا آنا جانا بھی ان کے یہاں خوب لگا رہتا۔ اس وجہ سے ان کے گھر کا ایک حصہ تو لوگوں کی آمدورفت سے روشن رہتا مگر اندرونِ خانہ کا معاملہ اس سے بالکل جدا ہوتا! دوسرے لفظوں میں آنے والوں کے ظاہری اخلاص سے ان کا چہرہ اور جبیں تو درخشاں رہتے لیکن چشم بینا ہونے کی وجہ سے اندرون جسد و قلب کا منظر کچھ اور ہوتا۔ تاہم ماتھے پہ کبھی کسی نے بھی شکن نہیں دیکھا۔ مزید برآں ممکن ہے دْنیا کی دْھوپ چھاؤں میں بہت سے رشتوں اور مراسمِ التفات کے مصلحت کا عقدہ بھی کھلا ہو۔ تب ہی تو اِن کیفیات کا اظہار موصوف نے اسی غزل کے دیگر زیر نظر اشعار میں احسن طریقے سے کیا ہے        ؎

اس کے آنگن میں روشنی تھی مگر

گھر کے اندر بڑا اندھیرا تھا

 دکھ میں آخر یہ کھل گیا قیصر

نام اِک مصلحت کا رشتہ تھا

 موسم تو بدلتے ہیں لیکن کیا گرم ہوا کیا سرد ہوا

 اے دوست ہمارے آنگن میں رہتی ہے ہمیشہ زرد ہوا

اس شجر ِ سایہ دار و ثمردار کی شخصیت (جس سے ان گنت لوگوں نے کسبِ فیض کیا) کے دفعتاً گرجانے سے نہ پرْ ہونے والا خلا پیدا ہوا ہے۔یہِ بنگال کی علمی و ادبی فضا کے لیے بڑا المیہ نیز اندوہ آمیز امر ہے۔ چونکہ قیصر شمیم صاحب نے چھیاسی سال کی عمر پائی ہے۔ لہذا ان کا علمی و ادبی سفر زائد از پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔ انھوں نے ہگلی ضلع کے چاپدانی/انگس میں اولین عصری علمی گہوارہ ’ادبی سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ علاوہ ازیں ادبی ادارہ ’ہوڑہ رائٹرز ایسوسی ایشن‘کی بنیاد 16؍ ستمبر1966 کو رکھی۔ تا حیات اس کے سرپرست رہے۔  حضرت نے ہوڑہ مسلم ہائی اسکول، کلکتہ کے سی ایم او ہائی اسکول، مولانا آزاد کالج، کلکتہ یونیورسٹی اور عالیہ یونیورسٹی میں اپنے علم سے متعدد ذہنوں کو منور کیا ہے۔

 قیصر شمیم لسانی ادب کے بھی اس روشن و تابندہ ستارے کی مانند ہیں جو آسمان ادب میں کسی تعارف کا محتا ج نہیں ہے۔ موصوف نے ادب کی کئی اصناف پر طبع آزمائی ہی نہیں کی بلکہ مہارت بھی رکھتے تھے۔ وہ اربابِ اردو کے ساتھ ہندی، بنگلہ اور انگریزی ادب کے اسیری کی معاونت و خدمات میں سرگرداں رہتے۔ آپ کی علمی و ادبی استعداد کا ہر کوئی لوہا بھی مانتا رہا اور ہنوز قائل بھی ہے۔ ان کی بے پناہ صلاحیتوں سے بشمول اہل اردو ادب، ہندی ادب کے ادیبوں اور شاعروں نے بھی محض اکتساب ِ فیض ہی نہیں کیا بلکہ بہتوں نے باقاعدہ مستقل شاگردی بھی اختیار کرلی۔ یہ امر اس بات کا غماز ہے کہ وہ بیک وقت اردو نیز ہندی حلقہ ٔ ادب میں یکساں مقبول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ (کتابی سلسلہ دستخط، بارکپور - ’قیصر شمیم نمبر‘ کے مطابق) بشمول ادبا، شعرا اور شاعرات ان کے تلامذہ کی تعداد بنگال و بیرونِ ریاست اندازۂ  سو (100) سے زائد ہے۔ان کا تعلق شاعری، ڈراما، افسانہ، ناول، انشائیہ، سیر و سیاحت، طنز و مزاح، تنقید و تحقیق اور ادب کی دیگر اصناف سے ہے۔ آپ نے متعدد نسلوں کی آبیاری کی۔ آپ دبستانی حیثیت کے حامل اردو زبان کے معروف استاذ، شاعر اور ادیب رہے۔ ان کی قابل ذکر ادبی خدمات طویل عرصے پر محیط ہے۔ ڈاکٹر خالدہ حسینی اپنے ایک مضمون’تو آں شا‘ میں یوں لکھتی ہیں:

’’آپ نے بیک وقت شاعر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے دنیائے ادب میں قدم رکھا۔ آپ کی پہلی نظم نما غزل بہ عنوان’حالات‘ 1951 میں کلکتہ کے ہفتہ وار’ساگر‘ میں شائع ہوئی اور آپ کی پہلی کہانی ’وہ لڑکی‘ بھی 1951 میں دہلی کے ویکلی’پارس‘ میں شائع کی گئی۔ (مشمولہ دستخط، ص 118)

واضح ہو کہ قیصر شمیم ابتدا میں ’عمید انگیسی‘ کے نام سے تخلیق، تصنیف اور تالیف کیا کرتے تھے تاہم اکثر ان کا نام’عمید‘کی جگہ ’حمید‘ شائع ہوجاتا تھا چنانچہ بقول ’’مجاہد ِ اردو‘‘( مرحوم ایم اے قاسم علیگ) انھوں (حضرت قیصر شمیم) نے اپنے ایک کولیگ colleague، جناب مظہر امام کی تجویز پر اپنا ادبی نام ’قیصر شمیم‘رکھا۔ اس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ادبی روبوٹ کی مانند انتھک محنت اور علمی و ادبی کاوشیں کرتے رہے لیکن کبھی بھی ان کے چہرے یا لہجے سے تھکاوٹ کا نام و نشان ظاہر نہ ہوتا۔اپنی ذاتی عملی فطرت کے پیرائے میں موصوف نے کیا خوب کہا ہے، جو دوسروں کے حوصلے کو بھی جلا بخشنے کا کام کرتی ہے۔ قیصر شمیم کہتے ہیں         ؎

  تھکن تو راہ کا ایک موڑ ہے ، ٹھہرنا کیا

  اسی خیال سے پھر اٹھ کے چل پڑا ہوں میں

 قیصر شمیم کی پوری عمر مغربی بنگال کی سرزمین پر اردو ادب بالخصوص شاعری کی ریاضت میں گزری ہے۔ ان کی شاعری نئی نسل کے لیے مشعل ِ راہ ہے جو گہرائی و گیرائی سے مزین ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں ذات کے علاوہ سماج و معاشرے اورکائنات کے اسرار و رموز سے بھی اپنا رشتہ استوار کیا ہے۔ موصوف اپنی شاعری کے متعلق کچھ اس طرح کا خیال رکھتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:

’’میری شاعری نہ آباواجد اد کا ورثہ ہے نہ استاد کا عطیہ، شاعری میراپیشہ بھی نہیں ہے اورسنڈے پینٹرزکی اتوار کا مشغلہ بھی نہیں میرے نزدیک شاعری’ساعتوں کے سمندر ‘میں ڈوبتے ابھرتے ہوئے ہاتھ پاؤں مارتے رہنے کے عمل سے ملتا جلتا ایک عمل ہے لیکن سخت تراور لطیف۔‘‘ (ساعتوں کا سمندر،قیصرشمیم،ص6)

  قیصر  شمیم نے کم و بیش تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی جن میں غزل، نظم، گیت، دوہا، رباعیات، قطعات، حمد، نعت،تضمین وغیرہ شامل ہیں وہیں دوسری طرف تنقیدی مضامین اور تراجم وغیرہ کو بھی انھوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا جو ان کی اردو کے ساتھ ہی ساتھ دوسری زبانوں مثلاًبنگلہ،ہندی اور انگریزی پر مکمل دسترس کا ثبوت ہے۔ محمد طیب نعمانی (کوآرڈینیٹر اینڈ انچارچ پوسٹ گریجویٹ شعبہ اردو، بھیرب گانگولی کالج، بیلگھریا، کولکاتہ) اپنے مضمون بہ عنوان ’قیصر شمیم : اردو ادب کا نابغہ روزگار‘میں رقم طراز ہیں:

’’اپنے نوجوانی کے دنوں میں آپ (قیصر شمیم) نے مشاعرے میں جب زیر نظر شعر پڑھا تو صدرِ مشاعرہ پرویز شاہدی نے اس شعر کو ان سے کئی بار پڑھوایا۔ ‘‘  (روزنامہ عوامی نیوز، کولکاتا، 21-5-23)

موت کا جس پہ اختیار نہیں

ہم نے وہ زندگی بھی دیکھی ہے

واضح ہو کہ قیصر  شمیم کی نصف درجن سے زائد تصانیف و تالیفات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ متفرق درسی کتابیں اور تراجم بھی ان کے حصے میں ہیں۔ ان چند قابل ذکر تخلیقات و ادبی خدمات پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو سال 1971 میں ’ساعتوں کا سمندر‘، 1989 میں ’اردو ادب پر ذرائع ترسیل عامہ کے اثرات‘، 1996 میں ’تری دھارا‘، 1997 میں ’سانس کی دھارا‘، 1998 میں ’پہاڑ کاٹتے ہوئے‘، اور 2020 میں ’زمین چیختی ہے‘،نایاب تحفہ ٔ ادب ہیں۔ یہ حلقہ ٔ ادب میں داد و تحسین وصول کرتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ سال 1974 میں حضرت والا کے نام’دھند اور کرن‘- (شمس صابری صاحب کے افسانوں کی تدوین و ترتیب) کی تالیف بھی ہے۔ ادبی تاریخ ہے کہ بارکپور سے مدیر محترم اختر بارکپوری کی ادارت اور مرتب فراغ روہوی (مرحوم) کی مشترکہ کاوشوں سے ’دھنک رنگ‘ جذبوں کا نمائندہ، کتابی سلسلہ ’دستخط ‘ بارکپور نے’قیصر شمیم نمبر‘ کی کامیاب اشاعت کی۔ واضح ہو کہ 1999 میں ہگلی گورنمنٹ ہائی مدرسہ(ہائر سکنڈری) کے ہیڈماسٹر محترم ناصر علی انصاری نے ’قیصر شمیم کا ادبی شعور‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر بابا بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، مظفر پور (بہار) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے ڈاکٹر ناصر علی بنے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر غلام جیلانی نے بھی قیصر شمیم کی حیات وخدمات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر جموں یونیورسٹی، جموں کشمیر کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کرنے کے لیے باور کیا۔ نتیجے میں 2020 میں ’قیصر قیصر ِ ادب‘ نامی کتاب بھی منظرعام پر آئی۔ متذکرہ تحقیقی مقالوں میں موصوف کی تخلیقی، نثری اور شعری ذخیرہ ٔ ادب پر سیر حاصل گفتگو موجود ہے۔ موصوف کے کئی اچیومنٹ میں ایک اہم یہ بھی ہے کہ قیصر شمیم صاحب مئی 2002 تا اگست 2005، مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے وائس چیئرمین بھی رہے۔ مگر رعب داری اور زعم برتری سے بعید سادگی پسنددیکھے گئے۔واقعی ایسے بڑے لوگ بڑے ہوتے ہیں۔ ان کی طرز رہائش، گزر بسر اور شعری خدمات سے جگ ظاہر ہوا کہ موصوف نے شاعری محض کیا ہی نہیں بلکہ جیا بھی ہے۔ لہٰذا انھوں نے اپنے ہی ایک شعر میں یوں کہا ہے        ؎

سبز موسم سے مجھے کیا لینا

شاخ سے اپنی جدا ہوں بابا

  وہی پیاس کا  منظر  وہی  لہو  قیصر

ہنوزپھرتی ہے کوفے کی نہر آنکھوں میں

قیصر شمیم صاحب خاندانی شریف النفس تھے۔ وضع داری اور خاندانی رکھ رکھاؤ آپ کی سرشت میں شامل تھی۔ آپ اپنوں کی سازشوں کے شکار بھی ہوئے اور کم علم و بد اخلاق لوگوں سے نبردآزما بھی رہے۔ بعض اوقات اقارب کے توتا چشم ہونے پر کبیدہ خاطر ہونا فطری عمل ہے مگر جب ان سخت گیر مراحل سے ان کا گزر ہوا تب بھی شرافت کا دامن تھامے نظر آئے۔ کیونکہ ان کی گھٹی / سرشت میں بوئے عشق و محبت تھی۔ یہی وجہ ہے تاعمرموصوف سراپا سیکولر محبت کی صورت مورت بنے رہے۔   ورنہ اب تو عشق و محبت نیز اخلاص ومحبت میں بھی تنگ ذہنی اور تعصب کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ متذکرہ بالا باتوں کے مدنظر قیصر شمیم صاحب کے متفرق اشعار سے محظوظ ہوں          ؎

ہوئے نہیں کبھی آمادہ  ترکِ  وفا  پر

قیصر یہی ایک چیز تو گھٹی میں پڑی ہے

خفا ہوئے بھی کسی سے تو کیا کیا ہم نے

بہت ہوا  تو  رہا  دل کا قہر آنکھوں میں

سازشیں اپنوں کی یاد آئیں گی

کیا کہوں کس کس کو پرایا دیکھا

کوئی گلہ تو نہیں پھر بھی گردش دوراں

 کسی کا آنکھ بدلنا ہمیں کو ہے معلوم

حضرت قیصر شمیم نے ویسے تو سماج و معاشرے کے تقریباً ہر مسئلے کو اپنے قلم اور اپنے کلام کے ذریعے اجاگر کیا۔ نسلی تفاوت، سماجی گھٹن، طبقاتی شعور، جذباتی ناآسودگی، معاشرتی درجہ بندی اور نفسیاتی عوامل کے پس منظر میں تحریر کردہ ان کی تخلیقات متوستط طبقے کی نمائندگی کرنے کے ساتھ اعلیٰ طبقے کی قلعی بھی یوں کھولتی ہیں         ؎

میرے عہد کے انسانوں کو پڑھ لینا کوئی کھیل نہیں

اوپر سے ہے میل محبت،اندر سے ہے کھینچاؤ بہت

لفظ کی سطح سے گہری ہیں بہت سی باتیں

ہم بھی کچھ عرض کریں کوئی سخن فہم تو ہو

ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ چاند میں کوئی داغ نہ ہو

جس میں ہوگی کچھ بھی خوبی، اس میں ہوگی خامی بھی

چلوں زمانے کے ہمراہ کس طرح قیصر

ہمیشہ رہتا ہے میرا ضمیر میرے ساتھ

توقعات کے مطابق قیصر شمیم متعدد اعزازات و انعامات سے بھی نوازے گئے، جن میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کا مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ایوارڈ (1996)، بنگلہ رسالہ’ابھینواگرنی،سنیہہ لتا چودھری میڈل(1997)، ’سانس کی دھار‘پر مغربی بنگال اردو اکیڈمی کا انعام (1997)، ’پہاڑ کاٹتے ہوئے‘پرمغربی بنگال اردو اکیڈمی کا انعام(1998)،بھارتیہ بھاشا پریشد کلکتہ کا سلور جبلی اعزاز(1999)وغیرہ اہم ہیں         ؎

 ہمارے جسم کو موجیں نگل گئیں قیصر

کہ ساعتوں کا سمندر بڑے جلال میں تھا

 

Ali Shahid Dilkash

Vill.: Harinchawra, P.O: Ghughumari

Cooch Behar- 736170 (West Bengal)

Mob.: 8820239345

alishahiddilkash@gmail.com

 

11/7/25

جدید ہندی شاعری پر اردو کا اثر، مصنف: نریش

 اردو دنیا، مارچ 2025

اردو کے چھندوں اور اردو کی لفظیات کے علاوہ جدید ہندی شاعری نے اردو کی علامتوں کو بھی اپنایا ہے۔ علامت کے لغوی معنی نشان ہیں۔ علامت لفظ کا استعمال کسی ایسی مرئی یا غیرمرئی چیز کے لیے کیا جاتا ہے، جو کسی مرئی یا غیرمرئی شے کو اپنی مشابہت کی بدولت قائم کرتی ہے۔ علامت کے متعدد معانی ہوسکتے ہیں۔ اس لفظ کے کثیر المعانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علامت لفظ ایک   نفوذ پذیر لفظ ہے۔ ہماری زندگی کے مختلف شعبوں میں لفظِ علامت کا استعمال مختلف انداز میں ہوتاہے۔ ہماری سماجی یا سیاسی زندگی میں کوئی رنگ، کوئی شکل یا کوئی نشان علامت کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی ادارے کا کوئی تجارتی نشان، کسی سماج کا کوئی سکّہ یا کسی ملک کا پرچم اس کی علامت بنتا ہے۔ مذہبی زندگی میں کوئی پتھّر یا کوئی بت خداوندِ اقدس کی علامت کے طور پر عبادت کے لائق بن جاتا ہے۔ ادب کے حلقے میں کسی جذبے یا کسی خیال کی نمائندگی کرنے والے الفاظ کو علامت کہتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی مردے کے بارے میں کہا جائے کہ ’’پنچھی اُڑ گیا اور پنجرا خالی ہے‘‘ تو یہاں پر پنچھی روح کی اور پنجرا جسم کی علامت کہلائے گا۔1

اردو کی علامتیں

اپنے جذبات و خیالات کو موثر طریقے سے بیان کرنے کے لیے شعرا علامتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ کسی غیرمرئی چیز سے قاری یا سامع کو متعارف کرانے کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ شاعر کسی مرئی چیز کو بطور علامت پیش کرے۔ شاعری میں علامتوں سے کام لینے کا سلسلہ ویدوں کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ جدید ہندی شاعری کو علامتوں کا راستہ عہدِ وسطیٰ کی شاعری نے دکھایا ہے۔ بھگتی ادب میں تو بے شمار علامتیں موجود ہیں بلکہ عالم یہ ہے کہ اگر بھگتی ادب میں سے علامتوں کو خارج کردیا جائے تو تمام ادب عامیانہ ہوکر رہ جائے گا۔ اس کے باوجود جدید ہندی شاعری میں بعض ایسی علامتیں شامل ہوگئی ہیں، جو پہلے سے ہندی ادب میں موجود نہیں تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ علامتیں ہندی نے اردو سے مستعار لی ہیں۔ اردو شاعری میں مستعمل تمام علامات کی فہرست تیار کرنا نہ تو یہاں مقصود ہے، نہ مناسب، تاہم ان علامات پر غور کرنے کی گنجائش ضرور ہے، جو جدید ہندی شاعری نے اردو سے حاصل کی ہیں۔ ان کو ہم تین حصّوں میں تقسیم کرکے دیکھ سکتے ہیں — تہذیبی علامتیں، سماجی علامتیں اور مذہبی علامتیں۔

تہذیبی علامتیں

تہذیب سے یہاں پر ہماری مراد اسلامی تہذیب ہے۔ اسلام کا نزول چونکہ عرب میں ہوا تھا، اس لیے وہاں کے تہذیب و تمدن کی جھلک اردو ادب میں دکھائی دیتی ہے۔ اونٹوں پر سامان لاد کر قافلوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنا عربی تہذیب کا جزولاینفک رہا ہے۔ عام طور پر عرب کی اسلامی تہذیب کی شناخت چار چیزوں سے کی جاتی ہے۔ یہ ہیں — چراغ و مسجدو مینار و منبر۔

ان کا ہندی میں استعمال

جدید ہندی شعرا نے عربوں کی خانہ بدوش زندگی سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اسے نقل مکانی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

یادوں کے اونٹوں پر بیٹھا وہ قافلہ لیے پھرتا ہے 2

***

گھنٹیاں قافلوں کی سننا چاہتا ہوں میں3

اسلامی تہذیب کی شناخت بنے نشانات کا ہندی شاعری میں استعمال ملاحظہ کیجیے:

یہ روضے مینار مقبرے راج بھون رتنوں سے منڈِت4

***

تن کا دِیا پرشن کررہا من کی بنی ایک درگاہ سے 5

***

میں کسی قبر کا جلتا اپورن سہاگ ہوں6

مندرجہ بالا مصرعوں میں روضے، مینار اور مقبرے اسلامی تہذیب کی علامتیں بن کر اپیندرناتھ اشک کو وہاں پر لے گئے ہیں جہاں پر مسلم آبادی اکثریت میں ہے تو ویریندر مشر نے دِیے کو تنفس کی اور درگاہ کو روح کی علامت بنایا ہے۔ نیرج نے بھی دِیئے کو بے قرار روح کی علامت بنایا ہے۔

مذہبی علامتیں

شیطان سے متعلق مفروضہ کے بارے میں ہم آگے چل کر تفصیل سے بات کریںگے۔ یہ لفظ بنی آدم کی دشمنی کی علامت ہے۔ ہم اس کو علامتی روایت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن چونکہ ہندی شاعری میں شیطان کو ہر جگہ پر علامت ہی بنایا گیا ہے، اس لیے ہم اس کو روایت کے زمرے میں نہیں رکھ رہے ہیں۔ اردو شاعری میں بھی شیطان کو گمراہ کن کی علامت کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔

اسی طرح سے قرآن میں ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک بار حضرت موسیٰ نے خدا کا دیدار کرنا چاہا اور اس کے لیے بار بار استدعا کی۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور نور کی شکل میں خدا طور نامی پہاڑ پر اتر آیا مگر خدا کی تجلّی کی تاب نہ موسیٰ لاسکے اور نہ کوہِ طور ۔ موسیٰ بے ہوش ہوکر گر پڑے اور طور جل کر سرمہ ہوگیا۔ اردو شاعری میں نور کو ربانی تجلّی کی علامت کے طور پر اور طور کو سعیِ ناکام کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

ان کا ہندی میں استعمال

یہ علامتیں بھی براہِ راست اردو ہندی کے ایوانِ شاعری تک پہنچی ہیں۔ جدید ہندی شاعری میں بطور علامت شیطان کا استعمال ملاحظہ کیجیے:

شیطان ابھی تک تیرے سر پر بیٹھا ہے7

***

ـوہ نہیں خدا کا وہ شیطاں کاکرتب8

***

ایک نے شیطان پوجا مل گیا بھگوان بھی

ایک نے انسان پوجا جل گیا ایمان بھی9

نور اور طور کی علامتیں ملاحظہ کیجیے:

نور ایک وہ رہے طور پر یا کاشی کے دوار میں10

***

پیغمبر امر محمد کے خاموش نور تم نسسمبھرم11 

ان دونوں مصرعوں میں نور کو فیضانِ الٰہی کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

سماجی روایتیں

تہذیبی اور مذہبی علامتوں کے علاوہ بعض ایسی چیزیں بھی بطور علامت جدید ہندی شاعری میں درآئی ہیں، جن کا تعلق مسلم معاشرے سے ہے۔ شراب ایک زمانے میں ایرانیوں کی مرغوب مشروب رہی ہے۔ اسلام نے اگرچہ شراب نوشی کو ممنوع قرار دے دیا لیکن ادب میں سے شراب کو بے دخل نہ کیا جاسکا۔ اردو شاعری میں شراب کبھی دنیاوی عیش و عشرت کی علامت بنی ہے تو کبھی نشۂ معرفت کی۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی میں کبھی شراب کو چھوکر بھی نہ دیکھنے والے امیرمینائی نے شراب پر دل میں اُتر جانے والے شعر کہے ہیں۔

اسلام کے ابتدائی دور میں غلاموں کی خرید و فروخت عام بات تھی۔ حضرتِ یوسف کو بھی غلاموں کی منڈی میں بیچا گیا تھا۔ انسانی زندگی کا اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ انسان ہی انسان کو خریدے اور اس کا مالک بن بیٹھے لیکن ملکیت تو فقط جسم پر ہوسکتی ہے، کسی کے دل پر تو پہرا نہیں بٹھایا جاسکتا۔ غلامی کی وجہ سے محرومی و ناکامی کے عذاب میں سے گذر رہے دلوں کے احساسات کو قفس، آشیانہ اور برق کی علامتوں کے ذریعے زبان دی گئی ہے۔ قفس، قید و بنداور انسان کی مجبوری کی علامت بنا تو آزادی اور سکون کی علامت آشیانہ کو بنایا گیا۔ اسی طرح برق کو غیظِ الٰہی کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

عشقیہ جذبات کے اظہار کے لیے شمع اور پروانہ کی علامتیں اردو شاعری میں بہت کامیاب رہی ہیں۔ شراب کی طرح شمع و پروانہ کو بھی مجازی اور حقیقی دونوں طرح کے عشق کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ جہاں ایک طرف شمع حسنِ معشوق کی آتشزنی اور اس کی بے نیازی کی علامت بنی، وہیں دوسری طرف پروانہ عاشق کے عشقِ صادق اور اس کی جاں نثاری کی علامت بنا۔

ان کا ہندی میں استعمال

مغربی تہذیب کے زیرِ اثر عیش پرستی کے متمنّی ہندوستانی نوجوان اپنی قدیم روایات اور سماجی اقدار سے کنارہ کشی کرنے لگے تھے۔ انگریزی تعلیم نے ان اعتقادات و اقدار کو کمزور بنادیا تھا۔ادھر اردو شاعری میں محفل جمی ہوئی تھی۔ ساقی کا جلوہ کارفرما تھا۔ جامِ مے گردش میں تھا۔ میکش مستی میں جھوم رہے تھے۔ پرہیزگاروں پر پھبتیاں کسی جارہی تھیں۔ ایسے میں شراب اور ساقی سے مفر کہاں ممکن تھا۔ لہٰذا چھایاواد کے نصف آخرمیں ہندی شعرا ہالا(شراب) اور مدھوبالا (ساقی) کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ اپنی شُدبُد ہی بھول گئے۔ اوصافِ کردار طاق پر رکھ دیے گئے۔ یہاں تک کہ خدا کی خدائی پر بھی سوالیہ نشان لگنے لگے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ مے و مینا کے ساتھ اردو شاعری کا تو چولی دامن کا ساتھ تھا ہی، ہندی شعرا بھی اس میدان میں ان سے پیچھے نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھایا وادی دور ہی میں مے سے بھری صراحیوں اور چھلکتے ہوئے جاموں کے ساتھ میکش بھی مے خانوں میں نظر آنے لگے۔12

یہاں پر ایک خام خیالی کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ہندی شاعری میں شراب کے تعلق سے جو علامتیں مروّج ہوئیں، اس کا سبب اردو کا اثر نہیں تھا بلکہ سنسکرت کے سوم رس کا اثر تھا۔ یہ حضرات شاید یہ بھول رہے ہیں کہ اردو میں بھی شراب کو وہی درجہ حاصل رہا ہے، جو سنسکرت میں سوم رس کو حاصل رہا ہے۔اردو میں سوم رس کو شرابِ طہور کہا گیا ہے۔ جیسا پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے، اردو شاعری میں شراب کو مجازی معنی میں بھی علامت بنایا گیا ہے اور حقیقی معنی میں بھی۔ یہ غلط فہمی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب شراب کے مجازی معانی ہی کو ملحوظِ نظر رکھا جاتا ہے اور اس کے عارفانہ معانی نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ جدید ہندی شاعری میں شراب کو بطور علامت جس طرح سے بھی استعمال کیا گیا ہے، وہ ہرگز سنسکرت شاعری کے اثر کا نتیجہ نہیں ہے، اردو کے اثر کا نتیجہ ہے۔ اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ سنسکرت میں سوم رس کے ذکر میں مے خانہ اور محفل سرے ہی سے خارج ہیں جبکہ اردو شاعری میں شراب کے ساتھ ساقی، پیرمغاں، جام و مینا اور محفل بہرصورت موجود ہیں۔ جدید ہندی شعرا نے اس پورے منظرنامے کو اپنی شاعری میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

میں نے کب دیکھی مدھوشالا

کب مانگا مرکت کا پیالہ

کب چھلکی وِدرُم سی ہالا

میں نے تو ان کی سَمِت میں

کیول آنکھیں دھو ڈالیں13

بعض دوسرے شعرا کے یہاں بھی شراب سے متعلق علامات ملاحظہ کیجیے:

مادکتا سے آئے تم سنگیا سے چلے گئے

ہم ویاکل پڑے بلکھتے تھے اترے ہوئے نشے سے14

***

پینے کا مزہ تو ہے تبھی اے ساقی

میخانہ سبھی جھومے مگر سوئے نہیں15

***

میں بنا ہوا تھا ساقی میں ہی تھا پینے والا16

***

نہیں چاہ  مدِرا کی ساقی کیا ہوں گے یہ پیالے17

***

زندگی صراحی ہے ساقی ہے

دور ابھی ایک اور باقی ہے18

***

اور پھر یہ آج کا گانا کہ محفل ہے جمی19

اسی طرح سے طائر، پنجرا، آشیانہ اور برق کی علامتوں کا استعمال ہندی شاعری میں ہواہے۔ ملاحظہ کیجیے:

کیا ہوائیں تھیں کہ اجڑا پریم کا وہ آشیانہ20

***

تھکی بیڑی قفس کی ہاتھ میں سو بار بولی21

***

گلچیں نِشٹھر پھینک رہا کلیوں کو توڑ انل میں22

***

زندگی کے پنجرے میں بند ہے مجبور پکشی23

***

بجلیاں دل پر گرا کر جھک گئے چنچل پلک دل24

***

نِیڑ ترِن جب جب بنا آندھی قفس بُنتی رہی25

***

جانتی ہیں بجلیاں گرانا مگر نِیڑ کس کا جلا وہ نہ یہ جانتیں26

عاشق و معشوق کے لیے شمع و پروانہ کی علامتوں کا استعمال ملاحظہ کیجیے           ؎

دیپ اور پتنگے میں فرق صرف اتنا ہے

ایک جل کے بجھتا ہے ایک بُجھ کے جلتا ہے27

***

یہ جلتی شماعیں یہ بکھری دعائیں

پتنگا بچارا جلا جا رہا ہے

کہ دیپک کا دامن چھلا جا رہا ہے28

***

اے پروانے دھیرے دھیرے

ہم بھی اب جلنا سیکھ گئے29

***

او  شوق کے  پروانو

ذرا  ٹھہرو

یہ  شمع نہیں ہے

وہ  داغ ہے صرف 30

اردو زبان ، اردو چھندوں اور علامتوں سے تو صرف ہندی شاعری کا جسم ہی متاثر ہوا تھا لیکن جب اردو کی شعری روایات ہندی شاعری میں ضم ہونے لگیں تو اردو شاعری ہندی کے وجود میں داخل ہوکر اس کی روح کو متاثر کرنے لگی۔اردو کی شعری روایات کو اپنا کر تو ہندی شعرا گویا اردو شاعری کی روح تک پہنچ گئے اور انھوں نے اس کو چھوکر دیکھ لیا۔ جیسا ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں، اردو شاعری پر فارسی شاعری کا بہت گہرا اثر پڑا ہے، اس لیے اس کی اکثر شعری روایات بھی فارسی ہی سے آئی ہیں۔ جدید ہندی شاعر ی میں بھی ہندی شعرا نے ایسی روایات کو اپنی شاعری میں جگہ دی تھی لیکن تب یہ روایات اردو سے نہیں بلکہ براہِ راست فارسی سے ہندی میں آئی تھیں۔ مثلاً رحیم کا ایک دوہا ہے       ؎

جکیہاری جوبن لیے ہاٹ پھرے رس دیت

اپنا مال￿ن چکھائی کے رکت آن کو لیت

رکت (خون)، مانس (گوشت) قتل وغیرہ ہندی یا سنسکرت کی روایات نہیں ہیں، یہ فارسی ہی سے ہندی میں آئی ہیں۔ جدید ہندی شعرا فارسی کے بجائے اردو کے زیادہ قریب رہے ہیں، اس لیے انھوں نے شعری روایات اردو ہی سے حاصل کی ہیں۔

 

 

حواشی

.1            گنپتی چندر گپت: ساہتک نبندھ، 1960 ، اشوک پرکاشن، دہلی، ص326

.2            ماکھن لال چترویدی: بیجوری کاجل آنج رہی، 1964 ، بھارتیہ گیان پیٹھ، کاشی، ص49

.3            سرویشور دیال: کاٹھ کی گھنٹیاں، 1959 ، بھارتیہ گیان پیٹھ، کاشی، ص 26

.4            اپیندر ناتھ اشک: چاندنی رات اور اجگر، 1952، نیلابھ پرکاشن، الہ آباد، ص44

.5            ویریندر مشر: لیکھنی ویلا، 1958، بھارتیہ گیان پیٹھ، کاشی، ص 85

.6            گوپال داس نیرج: لہر پکارے، 1959 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی، ص 61

.7            ہری ونش رائے بچّن: سوت کی مالا، 1948، سینٹرل بک ڈپو، الہ آباد، ص 40

.8            بھگوتی چرن ورما: رنگوں سے موہ، 2019 بکرمی، بھارتی بھنڈار، الہ آباد، ص82

.9            جیون پرکاش جوشی: آگ اور آکرشن، 1962 ، ہندی ساہتیہ سنسار، دہلی، ص 45

.10         رام دھاری سنگھ دنکر: دوَند گیت، شری اجنتا پریس، پٹنہ، ص 63

.11         تنمے بکھاریہ: میرے باپو، 1951، بھارتیہ گیان پیٹھ، کاشی، ص67

.12         ہرناراین سنگھ: چھایاواد کاویہ تتھا درشن، 1964 ، گرنتھم، کانپور، ص 425

.13         مہادیوی ورما: نیرجا، 2013 بکرمی، بھارتی بھنڈار، پریاگ، ص 53

.14         جے شنکر پرساد: آنسو، 2003 بکرمی، بھارتی بھنڈار، پریاگ، ص33

.15         گوپال داس نیرج: مکتکی ، 1960 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی، ص62

.16         بھگوتی چرن ورما: پریم سنگیت، 1949، وشال بھارت بک ڈپو، کلکتہ، ص 40

.17         شری من ناراین: رجنی میں پربھات کا انکُر، 1962 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی ،ص40

.18         موہن لال گپت: عربی نہ فارسی، 1958 ، مدھوپرکاشن، بنارس، ص27

.19         اجت کمار: اکیلے کنٹھ کی پکار، 1958 ، راج کمل پرکاشن، دہلی، ص11

.20         ہری ونش رائے بچّن: آدھونک کوی، 1983 ، ہندی ساہتیہ سمیلن، پریاگ، ص 70

.21         رام دھاری سنگھ دنکر: ہنکار، اُدیاچل، پٹنہ، اشاعتِ سوم، ص 32

.22         ایضاً: ص62

.23         ہری کرشن پریمی: روپ درشن، 1951 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی، ص83

.24         ایضاً: ص47

.25         گوپال داس نیرج: پران گیت، 1961 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی ص83

.26         روپ ناراین ترپاٹھی: ون پھول، 1962 ، گیتاین، پریاگ، ص66

.27         گوپال داس نیرج: مکتکی، 1960 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی، ص 52

.28         شِومنگل سنگھ سُمن: پر آنکھیں نہیں بھریں، راجکمل پرکاشن، دہلی، ص10

.29         للت گوسوامی: میرے گیت، 1958، آتمارام اینڈ سنز، دہلی ، ص8

.30         شمشیر بہادر سنگھ: کچھ اور کویتائیں، 1961 ، راجکمل پرکاشن، دہلی، ص62

 

ماخذ: جدید ہندی شاعری پر اردو کا اثر، مصنف: نریش، پہلی اشاعت: 2017، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

 

تازہ اشاعت

نواب محمد عبد الوحید غازی آف گیوردھا، مضمون نگار: محمد اسداللہ

  اردو دنیا، مارچ 2025 اردو زبان و ادب کی ترویج وبقا   یوں تو عوام الناس کی محبت و اپنائیت کا ثمرہ ہے،مگر حکومت ِ وقت کے سر براہوں کی دلچس...