3/11/20

مشرقی پنجاب میں اردو صحافت امتیازات و خصوصیات : مضمون نگار: یوسف رامپوری



 مشرقی پنجاب‘ سرزمینِ ہند کا وہ خطہ ہے جس نے اردو کے ارتقاوفروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔اردو سے اس علاقے کا رشتہ شروع سے ہی رہا ہے ۔اسی لیے بعض ماہرین لسانیات کواردو کی جڑیں پنجاب کی مٹی میں نظرآئیں۔ اردو سے پنجاب کے دیرینہ تعلق ہی کی وجہ سے یہاں اردو کی مختلف اصناف کے ماہرین ومشاہیر نے جنم لیااوردنیا بھر میں اپنی انفرادیت و شناخت قائم کی۔ حالانکہ تقسیمِ ہند کے سانحہ اور امتدادِ زمانہ کے باعث پنجاب کی جغرافیائی حدود تبدیل ہوئیں ، مگر اردو مختلف قسم کے تغیرات کے بعدبھی پنجاب میں زندہ رہی۔جہاں تک اردو صحافت کی بات ہے تو پنجاب میں اردو صحافت کا ایک تابناک ماضی رہا ہے اور آج بھی اردو صحافت پنجاب میں زندہ ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ پنجاب میں اردو صحافت کو عہد بہ عہد مختلف النوع حالات سے گزرنا پڑا ۔

 پنجاب میں اردو صحافت کے آغاز کازمانہ وہی ہے جو اردو صحافت کے باضابطہ وجود میں آنے کا زمانہ ہے۔پنجاب میں اردو کا باضابطہ پہلا مطبوعہ اخبار ہفتہ وار ’کوہِ نور‘ کو قرار دیا جاتاہے جو14؍جنوری1850کو لاہور سے نکلنا شروع ہواتھا۔ انیسویں صدی کے وسط کا ہی زمانہ دراصل قومی سطح پر اردو صحافت کے وقوع پذیر ہونے کا زمانہ ہے ۔اگرچہ اس سے پہلے بھی چند اردو اخبارات ضرور منظرعام پر آئے تھے ، جیسے ’جام جہاں نما‘ (1822)، دہلی اردو اخبار(1836)۔ان کے بعد 1850تک اور بھی کئی اخبارات نکلنا شروع ہوئے مگر ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ ہاں 1850کے اردگرد ضرور خاصی تعداد میں ملک کے مختلف علاقوںوخطوں سے اردواخبارات تیزی کے ساتھ منظرعام پر آئے۔ اردو صحافت کے اس ابتدائی زمانے میں پنجاب پیش پیش رہا۔

 اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ 1850سے لے کر 1857تک صرف سات برسوںمیں تقریباً 16اخبارات پنجاب کے افق پر جلوہ گر ہوئے۔ پنجاب سے نکلنے والے اس عہد کے اخبارات نے 1857 کی تحریک میںاسی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیاجس طرح دوسرے صوبوں کے مختلف اخبارات نے لیا تھا ۔ جیسے جیسے1857کا زمانہ ماضی بعید کے دھندلکوںمیں روپوش ہوتا گیا ، پنجاب میں اردو اخبارات ورسائل کی تعداد بڑھنے لگی ۔بیسویں صدی کے اوائل اور وسط میں پنجاب اردو صحافت کے اہم مراکزمیں سے ایک تھا کیونکہ یہاں سے اس زمانے میں مجموعی طورپر سیکڑوں اخبارات ورسائل شائع ہوتے تھے، مگر تقسیم وطن کے سانحے کے ساتھ پنجاب بھی تقسیم ہوگیا ، اس لیے پنجاب سے نکلنے والے اخبارات بھی جغرافیائی حدود کی تقسیم کا شکار ہوکر منقسم ہوگئے۔ ہندوستان میں واقع پنجاب’ مشرقی پنجاب‘ کہلایا۔ گوکہ اس جغرافیائی تقسیم کے بعد اردو اخبارات و رسائل کی معتدبہ تعداد مغربی پنجاب کے ساتھ وابستہ ہوگئی ،تاہم دوسری جانب مشرقی پنجاب کی گود بھی اردو صحافت سے خالی نہ رہی ۔ تقسیمِ وطن کے بعد اردو صحافت پنجاب میں زندہ اور تابندہ رہی ، اور اس صوبے سے پرانے اخبارات کے ساتھ نئے روزنامے، ہفتہ وار، اورماہنامے شائع ہوتے رہے، لیکن بیسویں صدی کی نویں دہائی کا زمانہ مشرقی پنجاب میں اردو اخبارات کے لیے بڑا صبر آزما ثابت ہوا۔

1984کے واقعہ سے پورا مشرقی پنجاب متاثرہوا تو اردو اخبارات بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، اس دہائی میں کئی سارے رسائل وجرائد اور روزناموں کی اشاعت بند ہوگئی۔ 1947سے 1984تک کے دور کو مشرقی پنجاب میں اردوصحافت کا روشن دور کہا جاسکتاہے ۔اس لیے کہ اس زمانے میں یہاں اردو اخبارات ورسائل خوب نکلتے تھے۔اس کااندازہ ڈاکٹر محمد اسلم کے پیش کردہ اعداوشمار سے کیا جاسکتاہے کہ 1947سے 1984تک کے درمیانی عرصے میں اردو کے 20روزنامہ اخبارات،78 ہفتہ واراخبارات، 31پندرہ روزہ اخبارات، 48ماہانہ رسائل شائع ہوتے تھے ، لیکن 1984کے بعد یہ تعداد خاصی کم ہوگئی ، البتہ آج بھی اردو کے کئی اہم اخبارات ورسائل مشرقی پنجاب کے مختلف اضلاع سے شائع ہورہے ہیں۔ ان میں روزنامہ ’ہندسماچار‘کو اولیت حاصل ہے جو جالندھر اور چنڈی گڑھ سے پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے ۔یہ اخبار نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ۔

پنجاب کے جن اخبارات کو اپنے اپنے زمانے میں مقبولیت حاصل ہوئی ،ان میں روزنامہ ملاپ جالندھر، روزنا پرتاپ جالندھر، روزنامہ اجیت امرتسروجالندھر، ہندسماچار جالندھر،لدھیانہ ایکسپریس لدھیانہ، نوائے ملت لدھیانہ، تازہ اخبار لدھیانہ وغیرہ کے نام خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ان میں سے بیشتر اب بند ہوچکے ہیں ، لیکن جس زمانے میں وہ شائع ہوتے تھے ، انھیں خاصی مقبولیت حاصل تھی۔ان کے علاوہ اور بھی درجنوں اخبارات مشرقی پنجاب سے نکلے اور بند ہوئے۔اس طرح پنجاب کی سرزمین سے شائع ہونے والے کئی اخبارات نے اپنی شناخت بنائی اور خوب پذیرائی حاصل کی ۔

 اہم ہفتہ وار اخبارات کے طورپرہفتہ روزہ کوٹلہ ٹائمز،  ہفت روزہ صدائے اہل پنجاب،  ہفت روزہ جذبات،  ہفت روزہ چنگاری، پنجاب گزٹ،دوآبہ، طوفان، صدائے وقت ، عوامی تحریک،نذرانہ ،عوامی جمہوریت کا تذکرہ کرنا ناگزیر ہے۔مشرقی پنجاب سے نکلنے والے درجنوں  ہفت روزہ اخبارات میں اور بھی کئی اخبارات کو عوام وخواص کے درمیان پسند کیا گیا ۔اگرماہانہ رسائل کی بات کریں تو مشرقی پنجاب سے نکلنے والے ایسے ماہانہ رسائل کی بھی بڑی تعداد ہے جن کا حلقۂ قارئین وسیع تھا ۔مثلاً ماہانہ پاسبان، ماہانہ پکھراج، ماہانہ پرواز ِادب، ماہانہ دارالسلام ،جاں نثار، تعمیرسیرت، ساقی ،پروازوغیرہ۔مشرقی پنجاب میں ماہانہ، دوماہی اور سہ ماہی رسائل کی تعداد پچاس سے بھی زائد رہی ہے ، جن میں سے اکثر اب بند ہوچکے ہیں۔

مشرقی پنجاب کی سرزمین نے ایسے سیکڑں اردو صحافی پیدا کیے ہیں جنھوں نے اردو صحافت کو آگے بڑھایا۔ دوسرے صوبوں کے بھی بہت سے افراد کی صحافیانہ صلاحیتوں کو پنجاب سے نکلنے والے اخبارات ورسائل نے نکھارا ہے۔ اردو کے معروف ادیب وصحافی مولانا ابوالکلام آزاد نے ’وکیل‘ امرتسر سے وابستہ رہ کر اپنی صحافیانہ  صلاحیتوںکو نکھارا اور اس کے بعد ایک بہت ہی معیاری اور کامیاب ومقبول ہفتہ وار اخبار ’الہلال‘ جاری کیا ، جو اردو صحافت کے آسمان پر پوری تابانی کے ساتھ چمکا اور اردو صحافت کو ایک معیار ووقار عطا کرنے میں کامیاب ہوا۔ 

مشرقی پنجاب کی اردوصحافت ہندوستان کے مختلف صوبوں کی اردو صحافت سے کچھ مماثلت بھی رکھتی ہے اور کچھ تفاوت بھی۔اس کا اندازہ مختلف اخبارات ورسائل کے نئے اور پرانے شماروں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ مثال کے طورپر جس طرح مختلف صوبوں کی اردو صحافت نے 1857 میں اپنا کردار اداکیا ،اسی طرح مشرقی پنجاب کے اخبارات نے اپنا رول نبھایا۔ایسے ہی جس طرح ملک کے زیادہ تراردو اخبارات ورسائل ہندوستان کی آزادی کے خواہاں رہے ،اسی طرح پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل بھی آزادیٔ ہندکے علمبرداررہے ۔ مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل نے قومی ، عالمی ، علاقائی خبروں اور رپورٹوں کو جگہ دی ۔

اردو اخبارات وجرائدخواہ وہ کسی بھی جگہ سے نکلتے ہوں بالعموم سماجی، ادبی، تعلیمی ضمیمے نکلتے ہیں،مشرقی پنجاب کے اخبارات بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے ہیں۔ ان میں الگ الگ موضوعات پر گوشے اور ضمیمے شائع ہوتے رہے ہیں۔ مشرقی پنجاب کے بعض اخباروں کے ضمیمے گراں قدر اوربہت معیاری ہوتے ہیں ،بالخصوص ادب کے حوالے سے پنجاب کے زیادہ تر اخبارات میں ضمیمے اورنمبرات شائع ہوتے تھے۔ملاپ میں ادبی مضامین، شعروشاعری، افسانے اہمیت کے ساتھ شائع کیے جاتے تھے، ہندسماچار میں بھی شعروشاعری، افسانے، تنقیدی وادبی مضامین، طنزو مزاح، تبصرے اور جائزے شاملِ اشاعت کیے جاتے رہے ہیں۔لدھیانہ ایکسپریس  نے صفحہ نمبر 12 اور15 ادبی مواد کے لیے وقف کیاہوا تھا۔ ’ویکلی لیڈی راج،  ہفت روزہ جذبات،  ہفت روزہ صدائے اہل پنجاب( مالیرکوٹلہ)جیسے اخبارات ادبی مواد کی اشاعت پرخصوصی توجہ دیتے تھے۔مشرقی پنجاب کے اخبارات کتابت، طباعت اور تزئین کے لحاظ سے وقت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔

پنجاب کی اردو صحافت بعض اعتبارسے دوسرے مقامات کی اردو صحافت کے مقابلے میں کچھ ایسی خصوصیات کی حامل جنھیں جسے وہاں کی اردو صحافت کا امتیاز کہا جاسکتا ہے ۔ مثال کے طورپر پنجاب کے اردو اخبارات کی زبان ملک کی دوسری ریاستوں کے اردو اخبارات سے الگ نظر آتی ہے۔یہاں کے اخبارات میں ہندی اورپنجابی کے الفاظ کثرت کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں،جب کہ دوسرے صوبوں کے اردو اخبارات ورسائل اتنے زیادہ ہندی الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے  ہیں۔مثال کے طورپر’ ہند سماچار‘ کے یکم فروری کے شمارے میں شائع یہ خبر ملاحظہ فرمائیں:

’’آتنک واد پر پاکستان کے دوہرے رویے کی وجہ سے افغانستان نے اس سے دوری بنالی ہے۔افغانستان کے راشٹرپتی اشرف غنی نے آج پاکستان کے پردھان منتری شاہد عباسی سے فون پر بات کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔‘‘ (ہند سماچار، یکم فروری، 2018)

اس اقتباس میں آتنک واد، راشٹرپتی ، پردھان منتری وہ ہندی الفاظ ہیں جنھیں دوسرے مقامات کے اردو اخبارات استعمال نہیں کرتے ، وہ آتنک واد کی جگہ دہشت گردی، راشٹرپتی کی جگہ صدرجمہوریہ اور پردھان منتری کی جگہ وزیر اعظم لکھتے ہیں،البتہ اب زبان کی صورت حال میں کافی فرق آرہا ہے اور اس کی غالباً بنیادی  وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے اردو اخبارات ایجنسیوں کی خبریں شائع کررہے ہیں اور زیادہ ترایجنسیاں اردو خبروں میں ہندی ،پنجابی الفاظ کے استعمال سے گریز کرتی ہیں۔

مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات کا انفراد یہ بھی ہے کہ ان کے زیادہ تر ایڈیٹران اور مالکان غیر مسلم رہے ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ اردو کسی خاص طبقے کی زبان نہ کل تھی اور نہ آج ہے۔ذیل کی تفصیل سے اندازہ کیاجاسکتاہے :

اخبارات کا نام        ایڈیٹر؍مالک

محنت ،جالندھر      ستیہ نند شاکر

سندیش ،لدھیانہ    برہم دیوموہالہ

بے بس ،لدھیانہ    دھرم پال کپور

نوائے ملت، لدھیانہ            سریند رسود

ترجمان، لدھیانہ    امرداس بھاٹیہ

عوامی اخبار،امرتسر            رتن سنگھ

آزاد بھارت ،امرتسر           نہل سنگھ

نیشنل فرنٹ ،لدھیانہ           موہن لال

جمہوری سوشلزم، امرتسر      پیارے لال کوثر

نئی منزل، لدھیانہ   جوگندرلال پانڈے

ڈگر ،بھٹنڈہ پنجاب   مدن لال کیف

رہبر،گورداس پور  اوم پرکاش

پندرہ روزہ اخبارآزادجگت ،لدھیانہ        اونکار ناتھ شرما

آنِ پنجاب، پٹھانکوٹ           کرپال سنگھ

نیل کمل ،پٹھانکوٹ برج موہن

عوامی لیڈر،امرتسر ہربھجن مجبور

حیات ،لدھیانہ      اودے چند

ماہنامہ رازِ صحت، جالندھر      بہاری لال کھتری

پیغامِ صحت ،فیروزم پور         ہنسراج

پرواز،لدھیانہ       راج شرما

نگارش، مہندر باواامرتسر      مہندر باوا

منور ،امرتسر        پریم کمار ساز

جن سنسار،امرتسر آرایل بھنڈاری

گرداب ،امرتسر    رام رچھپال پروانہ

ساری دنیا، امرتسر  امرناتھ

تعمیر سیرت ،مالیر کوٹلہ         مولانا مفتی فضیل الرحمن

انمول رتن، تگرن تارن پنجاب           کلدیپ سنگھ

مذکورہ فہرست سے ظاہرہے کہ مشرقی پنجاب میں اردو صحافت کو مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے ا پنا یا۔ اس فہرست سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مشرقی پنجاب کی اردو صحافت میں مسلمانوںکی نمائندگی بہت کم رہی ہے۔ مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ بلاتفریق مذہب وملت اردوپنجاب کے باشندوں کی پسندیدہ زبان رہی ہے اور پنجاب کے لوگوں نے دل کھول کر اپنے خیالات ونظریات کی اشاعت   وترسیل کا ذریعہ اردو کوبنایا اور یہ تاثر دیا کہ اردو پر ان کا بھی اتناہی حق ہے جتنا دوسروںکا۔اخبارات ورسائل کی مذکورہ تفصیل سے اس بات کی بھی آگہی ہوتی ہے کہ پنجاب میں اردو رسائل واخبارات کے زیادہ تر قاری غیر مسلم رہے ہیں۔کیونکہ وہاں کے اردو اخبارات میں مسلمانوں کے مسائل کم اور سکھوں وہندوؤں کے مسائل زیادہ ملتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مشرقی پنجاب میں اردو صحافی مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم تھے اور ہیں۔

مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل اس اعتبار سے دوسرے صوبوں کے اردو اخبارات ورسائل سے جدانظرآتے ہیں کہ ان میں مسلم کلچر کی جھلک کم دکھائی دیتی ہے، جب کہ دوسرے مقامات کے اخبارات خواہ وہ دہلی سے نکلنے والے ہوں یا اترپردیش سے ، یا مغربی بنگال ، گجرات، مہاراشٹر ، کرناٹک، وغیرہ سے ، ہر جگہ اردواخبارات مسلمانوںکی زیادہ باتیں کرتے ہیں، ان کے مسائل اٹھاتے ہیں وغیرہ۔ جب کہ مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل سے یہ تاثر قائم نہیں ہوتا۔ چند فیصد اخبارات ورسائل کا ضرور استثنا کیا جاسکتاہے۔ مگرمجموعی طورپر یہاں کے اخبارات پر مسلم چھاپ نہیں ہے۔ دوسرے صوبوں کے اردو اخبارات ورسائل پر مسلمانوں کی چھاپ واضح طورسے نظرآتی ہے۔دوسرے صوبوں کی اردو صحافت میں زیادہ تر کیا بلکہ 80-90 فیصد مسلمان صحافی ہیں ، ہندوئوں یا سکھوں کی تعداد بہت کم ہے یا نہ کے برابر ہے۔یہ صورتِ حال یوپی ، دہلی ، مغربی بنگال ، مہاراشٹر ، گجرات، حیدرآباد ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔ اس تناظر میں مشرقی پنجاب کی اردو صحافت کا منظرنامہ مختلف ہے، اسے مشرقی پنجاب کی اردو صحافت کا امتیاز بھی کہاجاسکتاہے۔ 

اس حوالے سے یہ بات فخر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کا حقیقی چہرہ پنجاب میں پہلے بھی دکھائی دیتا تھا اور آج بھی نظر آتا ہے۔یعنی اردو پر کسی خاص قوم یا ملت کی اجارہ داری نہیں ہے ، وہ گنگاجمنی تہذیب کی علمبردار وآئینہ دار ہے۔یہ الگ بات ہے کہ تقسیم وطن کے بعد اردو کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور بہت سی جگہوں پر یہ رویہ اختیار کیا گیا۔ بہت سی جگہوں پر غیر مسلم خاندانوں نے اردو سے رشتہ منقطع کرلیا ،اور بہت سی جگہوں پر اردو کو مسلمانوں نے اپنا لیا ، مگر مشرقی پنجاب اس طرح کے تصور سے الگ رہا اور اس نے اردوکے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوطی کے ساتھ قائم رکھا ،یہاں تقسیم وطن کے بعد بھی اردومیں اخبارات ورسائل نکالے گئے، اردواخبارات خریدے، پڑھے گئے، اردومیں لکھاگیا اوراردوکو اپنے خیالات ونظریات کی تبلیغ کا ذریعہ بنایاگیا۔

 پنجاب میں اردو کی اس صورت حال کوآزادی کے بعد بھی برقراررکھنے میں مشرقی پنجاب کی اردو صحافت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مشرقی پنجاب میں اردو جاننے والوں، پڑھنے سمجھنے والوں اور اردو بولنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے مگر ساتھ ہی اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے پنجاب میں اردو کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے اور نئی نسلیں اردو کی طرف کم متوجہ ہورہی ہیں۔ جہاں اس کی دوسری بہت سی وجوہات ہیں، وہیں ایک وجہ یہ بھی نظرآتی ہے کہ فی زمانہ یہاں اردو صحافت کازور خاصا کم ہوگیا ہے، اردو اخبارات و رسائل کی تعداد بھی گھٹی ہے اور ان کے قارئین کی بھی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مشرقی پنجاب میں اردو صحافت کو پھر سے مقبول بنانے کی کوشش کی جائے ،مزید اردو اخبارات ورسائل جاری کیے جائیں اور اردوقارئین کی تعداد میں اضافہ کرنے کی بھی تگ ودوکی جائے ۔اردو صحافت کا جو منظرنامہ ماضی میں پنجاب کی سرزمین پر نظرآتا تھا ، اس کے احیا کی سعی کی جائے۔


Dr. Yusuf  Rampuri

Mohalla Tandola Tanda

Rampur-244925 (UP)


 ماہنامہ اردو دنیا، ، ستمبر 2020


2/11/20

پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی اردو کی گنگا جمنی تہذیب کے آخری سفیر : مضمون نگار معصوم مراد آبادی

 



میں پچھلے چالیس پینتالیس برسوں سے دہلی کی شعری اور ادبی زندگی کا مشاہدہ کررہاہوں۔ ایک طالب علم کے طور پراس شہرکے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کو قریب سے دیکھا اور جانا ہے۔سبھی اپنی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ان کے دم سے دہلی کاادبی اور شعری منظر نامہ اتنا بھرپور تھا کہ اسے پوری طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان ادبی محفلوں کی آن، بان اور شان سمجھے جانے والے بیشتر ادیب اور شاعراپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ لیکن ان میں ایک ہستی ایسی ضرور تھی جس کی سر گرمیوں کو دیکھ کر مجھے نہ جانے کیوں یہ خوش فہمی تھی کہ یہ شخصیت دیر تک اور دور تک ہمارے درمیان رہے گی۔ یہ شخصیت تھی پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کی،جنھیں میں اکثر’ گل گلزار ‘کہہ کر پکارتا تھا۔افسوس کہ وہ بھی دوسروں کی طرح پچھلے دنوں ہم سب کو اداس کرکے چلے گئے۔

 آج میں گلزار دہلوی کے بغیر دہلی کے شعری اور ادبی منظر نامے کا تصور کرتا ہوں تو مجھے ہر طرف بڑی ویرانی نظر آتی ہے۔ہر محفل میں گرجتے برستے، چہکتے اور چہچہاتے گلزار دہلوی ایک ایسی باغ وبہار شخصیت تھے کہ ہر محفل ان کے ہی دم سے آباد تھی۔ انھیں شاعری کے ساتھ ساتھ تقریر کے فن پر بھی کمال حاصل تھا۔ وہ جب دلّی کی ٹکسالی زبان میں مرحوم دلّی کے قصے سناتے تو محفل خوب جمتی تھی۔ وہ دلّی کی سینکڑوں برس کی تہذیبی روایات اور اس کی شعری، ادبی اور سماجی زندگی کے واقعات کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے تھے اورصحیح معنوں میں دلّی کے روڑے تھے۔ان کی سب سے بڑی شناخت ان کا وہ پرتو تھا جس میں وہ اردو کی گنگا جمنی تہذیب کی بھرپور نمائندگی کرتے تھے۔یہ مشترکہ تہذیب ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کے لفظوں میں:

’’گلزارمشترکہ ہندوستانی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔یہ تہذیب ان کی رگ رگ میں پیوست اور ان کے لہو کی بوند بوند میں گھلی ملی ہوئی ہے۔مشترکہ تہذیب کے مفہوم میں سیکولرازم، قومی اتحاداور انسان دوستی یہ سبھی چیزیں شامل ہیں۔ان کی شخصیت کا یہی وہ جوہر ہے، جس کے سبب بیسویں صدی کی تمام تاریخی ہستیوںکا قرب انھیں حاصل رہا ہے۔ان شخصیتوںمیں پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر راجندرپرشاد، شیخ عبداللہ، پروفیسر ہمایوں کبیر،خان عبدالغفار خاں،اندرا گاندھی، بابو جگجیون رام،اوما شنکر دکشت،بھیم سین سچر،موہن لال سکھاڈیا، پروفیسر نورالحسن اور پروفیسر سروپ سنگھ جیسی ہستیوں کے نام خاص طور پر لیے جاسکتے ہیں۔‘‘

گلزار دہلوی کی سب سے بڑی جیت یہ تھی کہ وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجودگھر نہیں بیٹھے اور آخری وقت تک سرگرم عمل رہے۔عمر کے آخری حصے میں جبکہ ان کے قویٰ جواب دینے لگے تھے تو وہ اپنے ایک معاون کی مدد سے ہر اس محفل کی زینت بڑھاتے تھے، جہاں انھیں عزت و احترام سے بلایا اور سرآنکھوں پربٹھایا جاتا تھا۔ ابھی کچھ ہی دن کی تو بات ہے کہ انجمن ترقی اردو کی دہلی شاخ کے روح رواں اقبال محمود فاروقی نے ’یوم ذوق‘ کا اہتمام انجمن کے دفترواقع کوچہ نیل کنٹھ (دریا گنج)میں کیا تھا۔ گلزار دہلوی اپنے تام جھام کے ساتھ اس میں شریک ہوئے۔ پروگرام کی نظامت کا بار میرے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیا گیا۔ گلزار صاحب جس شعری نشست میں شرکت کرتے تھے، اس میں شعروشاعری سے زیادہ حصہ ان کی دلچسپ تقریر کا ہوا کرتاتھا جس میں وہ اردو زبان کی ترویج واشاعت سے متعلق اپنی خدمات اور ’کاملان دلّی ‘کے قصے بیان کیا کرتے تھے۔ان کی گفتگو میں دہلی کی پوری ادبی، تہذیبی اور سماجی زندگی سمٹ آتی تھی۔ اکثر یہ تقریر اتنی طویل ہوجاتی کہ دیگر شرکا اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے اونگھنے لگتے تھے۔گلزار صاحب نے یوم ذوق کے نثری حصے کی صدارتی تقریر کو اتناطولانی کردیاکہ شعری نشست کا وقت ختم ہونے لگا۔گلزار صاحب کو ٹوکنے کی جرات ہر کسی میں نہیں تھی۔ پھر بھی بطور ناظم میں نے اپنے اختیار ات کا استعمال کرتے ہوئے ایک رقعہ ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ مجھے ان کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر ان کا کمال یہ بھی تھا کہ ناراض بھی کچھ اس انداز میں ہوتے تھے کہ بات بگڑتی نہیں تھی۔ روک ٹوک کے باوجود انھوں نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ ان کا حافظہ غضب کا تھا کہ94 برس کی عمر میں بھی80 سال پرانے قصے کہانیاں ایسے سناتے تھے، گویا کل ہی کی بات ہو۔

اردو دنیا سوگوار

گلزار دہلوی کے انتقال سے اردو دنیا سوگوار ہے۔ وہ خالص دلّی والے تھے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان ہی گلی کوچوں میںگزرا تھا، جنھیں خدائے سخن میر تقی میر نے اوراق مصور سے تشبیہ دی تھی۔وہ مرحوم دہلی کی ایک توانا آوازتھے اور اس مٹتی ہوئی تہذیب کے امین تھے، جس نے اس شہر کو وقار بخشا تھا۔ وہ ہر شعری نشست کی آبرو تھے اور انھیں بزرگی کی وجہ سے سب سے آخر میں پڑھوایا جاتا تھا، لیکن انھوں نے اپنی پیرانہ سالی اور نقاہت کے باوجود اس روایت کو ٹو ٹنے نہیں دیا۔ان کی شخصیت کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ وہ مذہبی طور پر خالص ہندوبرہمن ہونے کے باوجود اپنے عادات واطوار اور بود وباش سے مسلمان نظر آتے تھے۔ حمدیہ اور نعتیہ نشستوں میں پورے خشوع وخضوع کے ساتھ سرخم کرکے شرکت کرتے تھے۔ یہ کوئی اداکاری نہیں تھی بلکہ اس ماحول کا فیض تھا جس میں انھوں نے تربیت پائی تھی۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری یا طاقت اردو زبان اور اس کی ملی جلی تہذیب تھی، جس کی بقا کے لیے وہ آخری دم تک جدوجہد کرتے رہے۔وہ اردوتعلیم کے سب سے بڑے وکیل تھے اور اس کے رسم الخط پر سب سے زیادہ اصرار کرتے تھے۔ہر محفل میں وہ شرکا سے یہ ضرور کہتے تھے کہ اپنے بچوں کو آٹھویں کلاس تک اردو ضرور پڑھائیں۔ اردو زبان اور اس کی مٹتی ہوئی تہذیب کو زندہ کرنے کی انھوں نے ہر ممکن کوشش کی۔بقول خود     ؎

درس اردو زبان دیتا ہوں

اہل ایماں پہ جان دیتا ہوں

میں عجب ہوں امام اردو کا

بتکدے میں اذان دیتا ہوں

گلزار دہلوی نے موت سے چند روز پہلے ہی نوئیڈا کے ایک اسپتال میں کورونا جیسی موذی وباکوشکست دے کر زندگی کا پرچم دوبارہ بلند کیا تھا۔94برس کی عمر میں اپنی بے مثال قوت ارادی سے کورونا کو شکست دینے والے گلزار دہلوی جب اسپتال سے باہر نکلے تو قومی اخبارات کے کئی نمائندے اورفوٹو گرافر ان کے منتظر تھے۔ان کی حیات نو کی کہانی کئی بڑے انگریزی اخباروں نے جلی عنوانات کے ساتھ شائع کی۔ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ وہ ابھی اور جئیں گے، لیکن یہ کیا ہوا کہ وہ کورونا کو شکست دے کر زندگی سے ہی ہارگئے۔

 گلاب کا ایک پھول پنڈت نہروکی طرح ہمیشہ گلزار دہلوی کی شیروانی پر آویزاں رہتا تھا۔ سفیدشیروانی ان کامحبوب لباس تھا اور میں نے کسی ادبی محفل میں انھیں اس کے بغیر نہیں دیکھا۔ اردو، ہندی، فارسی،سنسکرت اور عربی کا ثقافتی ورثہ، کشمیر،پنجاب، دہلی اور یوپی کا سنگم اگر کسی کوایک شخصیت میں دیکھنا مقصود ہو تو وہ گلزار دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا تھا اور گلزار دہلوی اس کی حسرت کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسکراتے تھے۔

قادر الکلام شاعر

گلزار دہلوی ایک قادرالکلام شاعر، ایک ذی علم ادیب اور محفل پر جادو کردینے والے بے مثال مقرر تھے۔ وہ اپنے والد ماجد علامہ زار دہلوی کے سچے جانشین ہی نہیں تھے بلکہ حضرت بیخود دہلوی، نواب سائل دہلوی اور علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی اور مولوی عبدالحق کے بھی صحیح جانشین تھے۔ وہ ادب میں داغ اور حالی کے ادبی خانوادے کے مایہ ناز سپوت تھے۔ انھوں نے 1946 میں انجمن تعمیر اردو اور ادارہ نظامیہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کی سرگرمیوں کو جلا بخشی۔دہلی کا اجڑتا ہوا اردو بازار برسوں ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا اور وہ مولوی سمیع اللہ قاسمی کے کتب خانہ عزیزیہ میں ادبی محفلوں کی جان رہے۔ وہ ہر سال رمضان کے مہینے میں’’ روزۂ رواداری‘‘ رکھتے تھے اور ہم جیسے خوشہ چینوں کو اس میں بذریعہ پوسٹ کارڈ مدعو کرکے خوش ہوتے تھے۔وہ اتحاد واخوت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ جگر مرادآبادی، فراق گورکھپوری، مولوی عبدالحق، علامہ نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی جیسے عبقری شعرائے کرام گلزار دہلوی سے انسیت رکھتے تھے۔

گلزار دہلوی کا پورا نام پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی تھا۔وہ حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت امیر خسرو سے بے پناہ عقیدت کے سبب اپنے نام کے ساتھ نظامی و خسروی لکھتے تھے۔خط وکتابت میں اپنے نام کے بعد یادگار اسلاف لکھنا بھی نہیں بھولتے تھے۔وہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کی منیجنگ کمیٹی کے سرگرم ممبر تھے اور ہر سال عرس کے موقع پر وہاں بڑی عقیدت سے حاضری لگاتے تھے اور عرس کی تمام تقریبات میںشریک ہوتے تھے۔ان کے آباواجداد شاہجہاں کے دور میں دہلی آئے، جہاں وہ مغل شہنشاہ کے دربار میں شہزادوں کی تعلیم وتربیت کی خدمت پر مامور ہوگئے۔ یہ لوگ عربی، فارسی، سنسکرت اور اردو کے ماہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہ کے دربار میں ان کے علمی وقار کو تسلیم کیا جاتا تھا۔گلزار دہلوی کے خاندان کو یہ وصف حاصل تھا کہ ان کے خاندان میں ہرکوئی شاعر تھا۔ ان کے والدپنڈت تربھون ناتھ زتشی زار دہلوی اپنے زمانے کے بہترین شاعر تھے اور ان کا شمار مرزا داغ دہلوی کے جانشینوںمیں ہوتا تھا۔ گلزار دہلوی کی والدہ محترمہ برج رانی زتشی بھی شاعرہ تھیں اور بیزار دہلوی تخلص تھا۔ وہ نواب سائل دہلوی کی شاگرد تھیں۔گلزار دہلوی کے دوبڑے بھائی پنڈت دیناناتھ زتشی اور رتن موہن ناتھ خار دہلوی بھی سائل دہلوی کے تلامذہ میں تھے۔ اس طرح ان کے خاندان میں زار، بیزاراور خار کے بعد گلزار دہلوی نے شاعری کا پرچم لہرایا اور دہلی کے شعری اور ادبی منظرنامے پر چھاتے چلے گئے۔

پیدائش و پرداخت

گلزار دہلوی کی پیدائش 13جولائی 1926 کو دہلی میں ہوئی۔ان کے والدپنڈت تربھون ناتھ زتشی زار دہلوی لڑکیوں کے اندرپرستھ کالج میں اردو اور فارسی کے استاد تھے اور’ مولوی صاحب‘ کہلاتے تھے۔ان کی شاگرد خواتین میں اردو کی بڑی نامی گرامی قلم کار اور دانشور گزری ہیں۔ گلزار دہلوی نے دہلی یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل یل بی کا امتحان پاس کیا۔بعدازاں بابائے اردو مولوی عبدالحق اور پنڈت دتاتریہ کیفی کی سرپرستی میں چلنے والے انجمن ترقی اردو کے اردو کالج سے اردو میں ادیب فاضل اور فارسی میں منشی فاضل کے امتحانات پاس کیے۔گلزار دہلوی کا بیان ہے کہ وہ مادرزاد شاعر پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے سات آٹھ برس کی عمر میں شعر گوئی شروع کردی تھی۔ ان کا تخلص رکھے جانے کی باقاعدہ تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے ادیب اور شاعر شریک ہوئے تھے۔شروع میں انھوںنے اپنے والد علامہ زار دہلوی سے اصلاح لی۔ حضرت داغ دہلوی کے رشتے سے گلزار دہلوی اردو زبان اور کلچر کی گود میں پل کر جوان ہوئے۔ان کے بچپن کے بزرگوں اوراساتذہ میں نواب مرزا سراج الدین خاں سائل دہلوی،علامہ دتاتریہ کیفی،مولوی عبدالحق، استاد بیخود دہلوی، نوح ناروی، احسن مارہروی اور جوش ملیح آبادی جیسے شعراء شامل ہیں۔ابتدائی کلام اپنے والد زار دہلوی اور نواب سائل کو دکھایا اور سات برس کی عمر میں نواب سائل سے ہی مولانا روم،حافظ شیرازی،اسلامی دینیات اور تلمیحات اقبال پڑھیں۔1938 میں باقاعدہ علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی کے آگے زانوے تلمذ طے کیا۔

گلزار دہلوی کے بقول شروع میں انھوں نے کچھ دن اردو لیکچرر کی خدمات انجام دیں۔اس کے بعد دہلی کلاتھ ملزکے مالک سرشنکر لال کے مشیر کی حیثیت سے آرٹ، زبان اور کلچر سے متعلق امور دیکھتے رہے۔ 1970 میں جب سی ایس آئی آر نے اردوماہنامہ ’سائنس کی دنیا ‘ شروع کیا تو گلزار صاحب اس کے بانی ایڈیٹر بنائے گئے اور 1990تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے انور جمال قدوائی کی قیادت میں انھیں سائنسی صحافت کو مقبول بنانے کے سلسلہ میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی تو اس کے بعد ان کے نام کے ساتھ’ ڈاکٹر‘ کا اضافہ ہوا۔گلزار دہلوی نے بحیثیت شاعر دنیا کے تقریباً پچاس ملکوں کا دورہ کیا۔ ان میں یوروپ، مشرق بعید، وسط ایشیاء،روس، عرب اور امریکہ شامل ہیں۔ان مشاعروں میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی اور انھیں انعام واعزاز سے نوازا گیا۔گلزار دہلوی بیان کرتے تھے کہ جب ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو پہلی بار سعودی عر ب گئے تو انھیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

ڈاکٹر اسلم پرویز کا بیان ہے کہ ’’گلزار دہلوی کو بچپن سے تیراکی کا شوق تھا اور وہ گلی کشمیریان، بازار سیتا رام سے سائیکل پر سوار ہوکرتیراکی کی مشق کے لیے جمنا آتے تھے، لیکن شیروانی اور چوڑی مہری کا پاجامہ زیب تن کیے ہوئے۔شیروانی کے بٹن کھلے ہونااور چوڑی مہری کا پاجامہ گویا اس بات کی علامت تھی کہ یہ ان کا غیر رسمی لباس یا اسپورٹس ڈریس ہے۔گویا شیروانی کی پاسداری ان کے لیے کسی نہ کسی صورت یہاں بھی ضروری تھی۔رسمی لباس میں چوڑی دار پاجامے کے ساتھ شیروانی کے بٹن گلے تک بند ہوتے تھے اور اس حالت میں ان کی آواز گلے سے اور زیادہ تیکھی ہوکر نکلتی تھی، جو جلسوں میں تقریریں کرنے، مشاعروں میں کلام سنانے اور ادبی جلسوں میں نظامت کرنے جیسے مواقع پربڑی موثر ثابت ہوتی تھی۔‘‘

انجمن تعمیر اردو

یوں تو گلزار دہلوی نے اپنی زندگی میں کئی تنظیمیں اور انجمنیں قایم کیں۔ مثال کے طور پر1946 میں ادارہ نظامیہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء، 1947میں انجمن تعمیر اردو، 1971 میں نیشنل رائٹر ایسوسی ایشن،1984 میں ڈاکٹر سیف الدین میموریل کونسل،1989 میں آل پارٹی سینٹرل یوتھ اردو کونسل کے نام شامل ہیں، لیکن جو انجمن آخری وقت تک قایم ودائم رہی وہ دراصل انجمن تعمیر اردو ہی تھی جو انھوں نے 1947کے ایسے پرآشوب دور میں قایم کی تھی جب دہلی کی ادبی، سماجی اور تہذیبی زندگی اجڑچکی تھی۔انجمن تعمیر اردو کے سرپرستوں میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، حکیم عبدالحمید اور میر مشتاق احمد جیسی شخصیات شامل تھیں۔ میر مشتاق احمد کو اس انجمن کا صدر بنایا گیا تھا۔اس انجمن کی سرگرمیاں 1956کے آس پاس اپنے شباب کو اس وقت پہنچیں جب تقسیم کے زخم مندمل ہونے لگے تھے۔انجمن تعمیر اردو کی ایک خصوصی نشست 1958کے اوائل میں اردو بازار میں کٹرہ نظام الملک میں اس مکان میں منعقد ہوئی جس میں مجاہدآزادی حافظ علی بہادر خاں (ایڈیٹر ہفتہ وار’ دورجدید‘ )کا دفتر تھااور خود ان کی قیام گاہ بھی تھی۔اس کے بعد انجمن تعمیر اردو کی ہفتہ واری نشستوں کا سلسلہ ہر اتوار کو پابندی کے ساتھ ارونا ہال، اردو بازار میں اس جگہ ہونے لگاجو عرف عام میں میر مشتاق احمد کا کمرہ کہلاتا تھا اور جہاں بعد کو میرصاحب نے جنتا کوآپریٹیو بینک قایم کیا۔یہ شعری اور تنقیدی نشستیں پابندی کے ساتھ سترہ اٹھارہ سال تک اس وقت تک چلتی رہیں جب تک ایمرجنسی کے زمانے میں وہاں بلڈوزر نہیں چل گیا۔اس بلڈوزر نے نہ صرف جامع مسجد کی سیڑھیوں کے کلچر کا صفایا کردیا بلکہ پورے اردو بازار کی ادبی اور تہذیبی فضا کو بھی تہہ و بالا کردیا۔اس خلفشار سے پہلے انجمن تعمیر اردو کی مخصوص نشستیں اردو بازار میں وہ رنگ جماگئیں، جو ہمیشہ یاد رہے گا۔گلزار دہلوی کی بدولت انجمن کی ان نشستوں میںادب کی دنیا کی ہر محترم اور معتبر شخصیت نے ان محفلوں کا وقار بڑھایا۔ علامہ زار دہلوی، خار دہلوی،طالب دہلوی، حافظ علی بہادر خاں،گوپی ناتھ امن، انور صابری جیسی برگزیدہ شخصیتیں پابندی کے ساتھ ان نشستوں میں شرکت کرتیں اور ان نوجوان قلم کاروں کا حوصلہ بڑھاتیں جو تنقیدی نشستوں میں اپنی شعری اور نثری تخلیقات پیش کرتے تھے۔ یہ گلزار دہلوی کا ہی دم تھا کہ انجمن تعمیر اردو کی ان نشستوں میں جوش ملیح آبادی،جگر مرادآبادی، شکیل بدایونی،ساغر نظامی، پروفیسر عبدالقادر سروری،پروفیسر محی الدین قادری زور، قاضی عبدالودود، فیض احمد فیض،مولانا امتیازعلی عرشی،سجاد ظہیر، خواجہ غلام السیدین، مسعود حسین رضوی ادیب،سلام مچھلی شہری، ماہر القادری،پروفیسرآل احمد سرور، سید احتشام حسین، عصمت چغتائی،بیگم صالحہ عابد حسین،علامہ انور صابری، بسمل سعیدی اور عمیق حنفی جیسی شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ان کے علاوہ پاکستان سے جو دانشور اور ادیب ہندوستان آتے تھے، گلزار دہلوی ان کی بھی انجمن کی انہی محفلوں میں پذیرائی کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کا بیان ہے کہ ’’ 1975کے بعد دہلی میں وارد ہونے والے ادیبوں کو چھوڑ کروہ تمام نوجوان ادیب اورشاعرجو مختلف مسالک فکر سے تعلق رکھتے انجمن تعمیر اردو کی نشستوں میں شریک ہوتے تھے۔ادبی تربیت، نکتہ سنجی، نکتہ شناسی،سخن سنجی اور سخن فہمی کا جو سامان ان نشستوں نے مہیا کیا، اس سے ہماری نسل کے کتنے ہی نوجوانوں نے فائدہ اٹھایا۔آج بھی گلزار صاحب کی انجمن تعمیر اردو تو زندہ ہے لیکن اس کا شیرازہ بالکل اسی طرح بکھرچکا ہے، جس طرح شہردہلی کے جغرافیہ اور اس کی تہذیب کا۔ اس کے بعد نوجوانوں کی ادبی تربیت کا ایسا کوئی دوسرامرکزدلّی میں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

انجمن تعمیر اردو سے گلزار دہلوی کوقلبی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اسے ایک زندہ جاوید حیثیت عطا کی تھی۔ وہ دل سے چاہتے تھے کہ ان کے بعد بھی یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے۔ انھوں نے راقم الحروف کو کئی مرتبہ اس طرف متوجہ کیا، لیکن میری صحافتی مصروفیات اس میں حائل رہیں۔ اس کا اندازہ ان کے اس خط سے بھی ہوتا ہے جو انھوں نے 15 مئی2016کو خاکسار کے نام لکھا تھا۔ملاحظہ فرمائیں          ؎

مائی ڈئیر میاں معصوم مرادآبادی سلمہ

زندہ پائندہ وتابندہ باد، دعائے نظامی وخسروی۔ سلامت

عزیزمن، کبھی ہمارے گھر بھی ادبی دوستوں کو لے کر آؤ۔ ایسے اجنبی نہ بنو،

91 سال کے بزرگ اردو کوجس کی 82سال کی اردو کی تبلیغ وجہاد اور ادبی خدمت، اور قومی یکجہتی میں خصوصاًمسلم دوستی اور ان کے حق میں آواز بلند کرنے والے خیر خواہ کو بھول جاؤگے۔

70 سال سے انجمن تعمیر اردو چلا رہا ہوں۔ اب آؤ اور آگے70سال تم اس انجمن کو چلاؤ۔ 1946سے1972تک جب کہ کوئی دوسری انجمن، اکاڈمی، انسٹی ٹیوٹ، بزم یا مرکزنہیں تھا، صرف مجھے ہی انجمن کی جانب سے لڑنا مرنا پڑاتھا۔ اب مجھے مستقبل کے لیے اردو کا مجاہد درکار ہے۔ کچھ دوستوں کو لے کر آجاؤ۔اللہ توفیقات میں اضافہ کرے۔

 چشم براہ، منتظر جواب۔ گلزار دہلوی عفی عنہ یادگار اسلاف۔

اس مکتوب سے قبل انھوں نے جولائی2014میں اپنے71 ویں روزہ رواداری کی تقریب کا دعوت نامہ ارسال کرتے ہوئے لکھا تھا:

محب عزیز پیارے معصوم مرادآبادی سلمہ، ولطفہ وطول عمرہ واقبالہ، تابندہ باد

ہدیۂ خلوص، دعائے نظامی وخسروی

اب تمھیں انجمن تعمیر اردو دلّی (رجسٹرڈو قائم شدہ 1947)کا جوائنٹ سیکریٹری بننا ہے اور سیکریٹری رابطہ عامہ بھی۔میری طرح تن من دھن، وقت اور مشوروں سے بھی انجمن کی اور میری مدد کرنی ہے۔ اگر ہوسکے تو جلد آکر مل بھی جاؤ۔ شکریہ جزاک اللہ

گلزار دہلوی، یادگار اسلاف

روزہ رواداری

اردوکی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب اور ہندومسلم یکجہتی کا جذبہ محض نظر یاتی طور پرگلزار دہلوی کے مزاج کا حصہ نہیں تھا بلکہ وہ عملی طور پر اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔رمضان کے مہینے میں وہ ہر سال ایک روزہ رکھ کرمشترکہ تہذیبی قدروں کو تقویت پہنچاتے تھے۔ یہ روزہ عام طور پر الوداع کا ہوتا تھا۔اسے انھوں نے ’’روزہ رواداری ‘‘کا نام دیا تھا۔ ان کی روزہ کشائی کے لیے احباب باقاعدہ چندہ کرکے ایک شایان شان افطارپارٹی منعقد کرتے تھے۔ گلزار صاحب کا کہنا تھا کہ اس روزہ رواداری کی شروعات انھوں نے حضرت مولانا احمد سعید مرحوم کی ہدایت پر کی تھی،جسے انھوں نے بعد میں اپنی اخلاقی اور تہذیبی قدروں کاایک حصہ بنالیا۔گلزار صاحب کے اس ’ روزہ رواداری ‘ میں ہر برس بلا تفریق مذہب و ملت اہم شخصیات نے شرکت کی اور ان کے اس جذبہ خلوص کی ہر سطح پر پذیرائی کی گئی۔13جولائی 2014 کو نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں ان کا71 واں ’ روزہ رواداری تھا۔ اس موقع پر راقم کوانھوں نے جودعوت نامہ اپنے مکتوب کے ساتھ روانہ کیا تھا، اس کا متن ملاحظہ فرمائیں         ؎

یادگار اسلاف اور دلّی کی گنگا جمنی تہذیب کے نمائندے

علامہ پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کا

اکھتّر (71)واں روزہ رواداری-افطار وضع داری

13 جولائی 2014، اتوار، انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی

حسب ذیل پروگرام منعقدہوگا۔

نعتیہ نشست و ذکر سیرت: ساڑھے تین بجے

(اسی روز ڈاکٹرگلزاردہلوی کے 89 ویں یوم ولادت کی تقریب بھی ساتھ ہی منعقد کی جارہی ہے(آپ سے درخواست ہے کہ وقت مقررہ پر تشریف لاکراس تاریخ ساز نورانی محفل کے گواہ بنیں۔اس تقریب کے منتظرین میں سید شاہد مہدی،ڈاکٹر سید فاروق، متین امروہوی،مولوی عبدالسلام قاسمی،حسن ضیا ء اور محمد عتیق صدیقی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

 سائنس اور شاعری

عام طور پر شاعری اور سائنس کو ایک دوسرے کی ضد تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کے رسیا سائنس سے دور رہتے ہیں اور جو سائنس کے دل دادہ ہیں، وہ شاعری سے دور کی راہ ورسم رکھتے ہیں۔ لیکن یہ گلزاردہلوی کا ہنر تھا کہ انھوں نے سائنس اور شاعری کے درمیان ایک پل تعمیر کرلیا تھا جس پر وہ بے تکان سفر کیا کرتے تھے۔ گلزار دہلوی نے اپنی زندگی کا طویل حصہ ماہنامہ ’سائنس کی دنیا ‘ کی ادارت کرتے ہوئے گزارا۔ اس کے ساتھ ہی وہ شعر وشاعری کا سفر بھی طے کرتے رہے۔وہ شاعر اور ادیب ہونے کے باوجود ایک سائنسی جریدے کے کامیاب مدیر ثابت ہوئے۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ قطب شمال اورقطب جنوب قیامت کے دن ہی سہی مگر آپس میں مل سکتے ہیں، لیکن سائنس اور شعر وادب کبھی نہیں مل سکتے۔لیکن گلزار دہلوی نے مغربی مفکرین کے اس خیال کو اپنے عمل سے غلط ثابت کردکھایا۔ایک بار کچھ دوستوں نے گلزار صاحب سے پوچھا کہ ’’ سائنس حقائق کی تحقیق کرتا ہے اور ادب حقائق کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتا ہے، لہٰذا ایک شاعر وادیب کو’ سائنس کی دنیا ‘کی کمان سنبھالنے میں دشواری پیش نہیں آئی؟‘‘ یہ سن کر گلزاردہلوی نے کہا کہ’’ ارے بھئی، سائنس میں بھی تو خورد بین سے چھوٹے چھوٹے ذرات، خلیوں اور جراثیم کو بڑھا چڑھا کرپیش کیا جاتا ہے تاکہ سائنسی تحقیق آسانی سے کی جاسکے۔ اسی طرح ادب میں سماجی، معاشی،ثقافتی، مذہبی، تعلیمی اور سیاسی معاملات کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین، سامعین اور ناظرین کودین ودنیا کا آئینہ آسانی سے دکھایا جاسکے، اس لیے سائنس اور ادب ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔‘‘

خواجہ احمد عباس نے سائنس اور شاعری کے حوالے سے اردو ہفتہ وار ’ بلٹز‘ میں ان پر باقاعدہ کالم لکھا۔ اس کا عنوان تھا ’سائنس اور شاعری‘۔ اس کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’اردو میں ’سائنس کی دنیا‘سارے برصغیرمیںاپنی نوعیت کا واحداور بے مثل رسالہ ہے اور اس کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ ایک شاعر اور دانشور کی زیر ادارت نکلتا ہے۔یہ شاعر اپنی لگن اور اردو میں سائنس کی واقفیت کی وجہ سے اس کے بانی ہیں اور اس سے وابستہ ہیں۔ حکومت کے کتنے ہی اردورسالے ملک میں نکلتے ہیں، جن میں بہ آسانی ایک مشہور ادیب وشاعر کو جگہ مل سکتی ہے۔مگر اردو کوسائنس کے علوم سے مالا مال کرنے کا یہ جذبہ اور کوشش ان کے ہی حصے میںآئی، جس کا انھوں نے لاجواب حق ادا کرکے دکھایا۔ یہ شاعر ہیں علامہ پنڈت زار دہلوی(یادگار داغ)کے صاحب زادے پنڈت گلزار زتشی دہلوی، جو کہ ساٹھ برس کے ہونے پر بھی خوب رو، جامہ زیب صاحبزادے معلوم ہوتے ہیں۔ نوجوانی ان کے سرخ وسفید چہرے پر لکھی ہوئی ہے۔حال ہی میں اودے پور کے ایک مشاعرے میںوہ نوجوان ترین شاعر معلوم ہوتے تھے۔ اگرچہ وہاں دس بارہ ان سے کم عمر شاعراور بھی موجود تھے، مگر گلزار صاحب باتوں کے انداز سے، پڑھنے کے اسٹائل سے اور اپنے خیالات کے باغیانہ اسلوب سے نوجوان ہی لگتے تھے۔‘‘

خواجہ احمد عباس نے اردو ’ بلٹز‘میں یہ کالم اب سے کوئی 34برس پہلے لکھا تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ گلزار دہلوی 94برس کی عمر تک اسی طرح تروتازہ رہے اور انھوں نے اس عمر میں بھی کورونا جیسے موذی مرض کو ہرایا تھا مگر اس کے چند روزبعد ہی وہ ہم سے رخصت ہوگئے۔


Masoom Moradabadi

Z-103, Taj Enclave, Geeta Colony,

Delhi-110031




ماہنام اردو دنیا،ستمبر 2020

بلراج مینرا کا افسانہ ’وہ‘ - مضمون نگار: نور فاطمہ

 


 بلراج مینرا کا شمار دورجدید کے اہم اور منفرد افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔مینرا ادبی صحافت کی تاریخ میں بھی ایک ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔رسالہ’شعور‘کی ادارت نے ان کو ادبی صحافت کی تاریخ میں اہم مقام عطا کیا۔ بلراج مینرا کا شمار ایسے افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے کوتاہ قلمی کے باوجود اپنی شناخت نہ صرف علاحدہ قائم کی بلکہ اپنے قلم کے جادو سے ادبی دنیا میں ہلچل مچا دی۔مینرا کاپہلا افسانہ’بھاگوتی‘ ’ساقی‘ کراچی 1953  میں شائع ہوا۔جس نے ہندو پاک میں ان کی ادبی حیثیت کو مسلّم کر دیا۔ا ن کی تمام کہانیاں غوروفکر کا تقاضاتو کرتی ہی ہیں ساتھ ہی قاری کے لیے سوالیہ نشان بھی قائم کرتی ہیں۔ بلراج مینرا کی کہانیوں کی جو خصوصیت قاری کی توجہ اپنی طرف سب سے زیادہ مبذول کراتی ہے وہ اشاریت اور کفایت لفظی ہے۔جس کی وجہ سے ان کے افسانوں کی صرف ظاہری سطح معنی خیزنہیں معلوم ہوتی بلکہ ان کے افسانوں کے بین السطور میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہوتا ہے۔ان کے افسانوں میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جس کی وضاحت سے افسانہ نگار دانستہ طور پر گریز کرتا نظر آتا ہے۔مینرا نے تقریباً 37 افسانے لکھے۔ بلراج مینرا نے اپنے مجموعے میں شامل کچھ افسانوںمیں متن در متن کی ٹیکنیک کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کہانیاں اس طرح بھی سفر کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی مخصوص موضوع یا کسی بندھے ٹکے اصول کو پیش نظر رکھ کر نہیں لکھے گئے ہیں۔لیکن ایک نکتہ جو بار بار اپنی طرف متوجہ کرتا ہے وہ ان کی کہانیوں کا مسلسل سفر ہے۔ ان کے افسانوں کے کردار ساکت و جامد نہیں ہیں بلکہ کسی تلاش میں گم اور سرگرداں اور ذہنی سفر میں مبتلا ہیں۔اس ضمن میں ان کے افسانے ’واردات‘، ’بس اسٹاپ‘، ’شہر کی رات‘،  ’ماضی کی سڑک‘ اور’ رفتار‘ قابل ذکر ہیں۔مینرا نے کمپوزیشن سیریز کی کہانیاں بھی لکھی ہیں جس کے عنوان نے ہی سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔اردو فکشن میں پہلی بار ایسا ہو ا کہ کسی افسانہ نگار نے کمپوزیشن کا لفظ استعمال کیا ہو۔ یہ پنے آپ میں انوکھا اور چونکا دینے والا انداز تھا۔ کمپوزیشن میں مختلف اجزا کی تنظیم کی جاتی ہے مصوری، بت تراشی، موسیقی،فلم اور شاعری میں تو مختلف اجزا کو مرتب کرنے  کے تجربے تو کافی کیے گئے ہیں لیکن فکشن میں مینرا سے پہلے کسی نے کمپوزیشن کا لفظ استعمال نہیں کیا۔اس کے پیچھے مینرا کا مقصد شاید ادب کے قارئین تک یہ پیغام پہچانا ہو کہ جدید افسانہ آرٹ کی وہ تمام خصوصیات اپنے اندر رکھتا ہے جو مصوری، موسیقی اور فلموں وغیرہ سے عبارت ہے۔

زیرِنظر افسانہ’وہ‘کا شماربلراج مینرا کے نمائندہ افسانوں میں کیا جاتا ہے۔افسانے کا مرکزی کردار ’وہ‘ ایک نوع کی بے چینی اور اضطراب کے عالم میں گرفتار ہے۔افسانے کاتجزیہ کرنے سے پہلے اس کی مختصر سی تلخیص پیش کرنی مناسب ہے۔ افسانے کا آغاز  دسمبر کی سرد رات میں مرکزی کردار ’وہ‘کی بے وقت آنکھ کھلنے سے ہوتا ہے۔وہ بیڈ کی سائڈ ٹیبل سے سگریٹ اٹھا کر لبوں سے لگاتا ہے۔کافی تلاش کرنے کے بعد بھی اسے خالی ماچس کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔رات کے دو بجے وہ ماچس کی تلاش میں کمرے کی ہر چیز الٹ پلٹ کر دیتا ہے ’’سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا ہے۔سلگتے سگریٹ اور دھڑکتے دل  میں کتنی مماثلت ہے‘‘وہ سوچتا ہے ’ایک بار آنکھ کھل جائے،پھر آنکھ نہیں لگتی‘‘وہ وقت سے بے خبر چادر کندھوں پر ڈال کر اندھری رات میں باہر نکل آتا ہے اور ایک حلوائی کی دکان کے پاس پہنچتا ہے۔ شاید اس کی بھٹّی سے وہ اپنی سگریٹ جلانے میں کامیاب ہو جائے۔اتنے میں آواز آتی ہے ’’کون ہے؟کیا کر رہے ہو‘‘’’میں بھٹّی میں سلگتا ہوا کوئلہ ڈھونڈ رہا ہوں‘‘’’پاگل ہو کیا، بھٹّی اس وقت ٹھنڈی پڑی ہے ‘‘’’ماچس ہے آپ کے پاس‘‘’’ماچس سیٹھ کے پاس ہوتی ہے۔وہ آے گا اور بھٹّی گرم ہوگی‘‘وہ آگے قدم بڑھاتا ہے اور نہ جانے کتنے لیمپ پوسٹوں کو پیچھے چھو ڑتے ہوئے بے خبر چلتا رہتا ہے۔اس کو سامنے سے کوئی آتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو وہ اس سے بھی پوچھتا ہے کہ آپ کے پاس ماچس ہے ؟میں اس علت سے بچا ہوا ہوں۔اپنے گھر جا رہا ہوں تم بھی اپنے گھر جاؤ۔وہ پھرلیمپ پوسٹوں سے بے خبر دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہوا چلتا ہے۔وہ ایک مرمت شدہ پل پر پہنچتا ہے۔ اس کے سامنے خطرے کا نشان ہے جہاں سرخ کپڑے میں لپٹی ہوئی لالٹین لٹک رہی ہے۔وہ لالٹین سے اپنی سگریٹ سلگانا چاہتا ہے مگر ایک سپاہی پوچھتا ہے یہاں کیا کر رہے ہو ؟ تم کون ہو،کہاں رہتے ہو؟تسلّی بخش جواب نہ ملنے پروہ ا سے تھانے لے جاتا ہے۔تھانے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظرمیز پر بیٹھے ہوئے چند سپاہیوں پر پڑتی ہے۔سب سگریٹ پی رہے ہیں، ان کے سامنے سگریٹ اور ماچس کے پیکٹس پڑے ہوئے ہیں۔وہ ان سے ماچس مانگتا ہے مگر وہاں بھی اس کو سگریٹ جلانے میں کامیابی نہیں ملتی اور ذرا سی تفتیش کے بعد اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔کبھی ختم نہ ہونے والی سڑک پر وہ دھیرے دھیرے چلنا شروع کرتا ہے۔ وہ سوچتا جا رہا ہے سگریٹ پینا ایک علّت ہے!میں نے یہ علت کیوں پال رکھی ہے ؟ماچس کہاں ملے گی؟نہ ملی تو؟یہی سوچتے سوچتے وہ وقت، لیمپ پوسٹوں اور اپنے بدن کی تھکان سے بے خبر چلتا رہتا ہے۔صبح ہو جاتی ہے۔ وہ دم بھر کو رکتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کوئی سامنے سے چلا آرہا ہے۔ اس کے لبوں میں بھی سگریٹ کانپ رہا تھا۔اس کی حیرانی مزید بڑھ جاتی ہے جب وہ اس سے ماچس طلب کرتا ہے۔وہ کہتا ہے ماچس کے لیے تو میں...مگر وہ اس کی بات سنے بنا ہی آگے بڑھ جاتا ہے جدھر سے وہ خود آیا تھا۔

اس مختصر سی تلخیص کے بعد بظاہر تو یہ افسانہ سیدھا سادہ لگتا ہے جہا ں ایک کے بعد دیگر واقعات رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔مگر اس سادہ سے بیانیہ میں احساس، جذبے اور تاثرات کا ایک سلسلہ شامل ہے۔ ظاہری طورپر تووہ چل رہا ہے اور جگہ جگہ رک کرماچس کی تلاش کر رہا ہے مگر اس کا ذہن لگاتار دباؤ میں ہے۔ حسّی اور جذباتی طور پر وہ خود کو اپنی سگریٹ نوشی کی علّت اور گھٹن میں مبتلا محسوس کرتا ہے۔ افسانے کے بیشتر حصّے حقیقت پسندی کو ظاہر کرتے ہیں۔افسانے میں ماڈل ٹائون،راستہ،حلوائی کی دکان،سپاہی،پولیس اسٹیشن اور راستے میں لگے لیمپ پوسٹ تمام چیزیں جانی پہچانی ہیں۔ مگر افسانے کا آخری حصّہ قاری کو عجیب سے واہمہ میں مبتلا کرتا ہے جہاں ’’وہ‘‘ کی ملاقات خود ’’وہ‘‘ سے ہوتی ہے۔یہاں قاری کے ذہن میں کئی سوالیہ نشان ابھرتے ہیں۔آیا اس کی ملاقات کسی دوسرے شخص سے ہوتی بھی ہے یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ خود کلامی کے انداز میں اپنے ہمزاد سے بات کر رہا ہو ؟ اور وہ ذات اور غیرذات میں کوئی فرق ہی محسوس نہ کر پا رہا ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماچس ایسی کون سی شے ہے جس کی وجہ سے مرکزی کردار کی آدھی رات کو بے وقت آنکھ کھل جاتی ہے اور ماچس نہ ملنے پر وہ اس طرح بے چینی ور اضطراب کے عالم میں مبتلا ہو جاتاہے حتیٰ کے گھر کی ہر چیز الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔مگر گوہرِمقصود ہاتھ نہیں آتا۔ماچس کی تلاش میںرات کی

سیاہی اور سردی کی پرواہ کیے بغیر دیوانہ وار نکل پڑتا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار دور جدید کا باشعور اور حسّاس انسان ہے، اسے کسی کھوئی ہوئی شے کی تلاش ہے جو اس کی زندگی میں یا سماج میں سرے سے مفقود ہے۔اب ماچس کی علامت واضح ہوتی نظر آتی ہے۔یہاں ماچس روشنی کی علامت ہو سکتی ہے، آگ کی تلاش ہو سکتی ہے، زندگی کی امید کی تلاش، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی تلاش یا پھر زندگی کی معنویت اور اپنے وجود کی تلاش کے معنی ہم اس کے اندر سے بر آمد کر سکتے ہیں۔ جس سنجیدگی اور بے چینی سے وہ ماچس کی تلاش کر رہا ہے اس میں گہرے معنی پوشیدہ ہیں اور کسی بڑے مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پورا افسانہ کچھ چھوٹے اور کچھ بڑے فقروں میں لکھا گیا ہے۔مینرا نے کہیں بھی وضاحتی انداز اختیار نہیں کیا ہے۔ ہر جگہ اشاراتی انداز میں اپنی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔آنکھ کابے وقت کھلنااور اس کا یہ کہنا’’ایک بار آنکھ کھل جائے تو،پھر آنکھ نہیں لگتی!‘‘یہاں آنکھ کھلنے کا مطلب باطن کی آنکھ کھلنے سے بھی ہو سکتا ہے۔اسی طرح اور بھی متعددمعنی خیز اشارے اس افسانے میں جا بجا ملتے ہیں۔ ’’سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔سلگتے سگریٹ اور دھڑکتے دل میں کتنی مماثلت ہے!‘‘یہاں سلگتا سگریٹ زندہ رہنے کی علامت بن گیا ہے۔اچانک اس کو احساس ہوتا ہے کہ اس آگ سے وہ محروم ہے جو آگ محض ماچس میں نہیں اس کے دل میں بھی روشن ہے۔یہ آگ محض ایک گرم معروض ہی نہیں بلکہ روشنی اور زندگی کی حرارت کا سرچشمہ بھی ہے۔اس باعث اس کی سوچ میں کچھ اس طرح کا اضطراب اور کشمکش کی کیفیت شامل ہو جاتی ہے۔

’’ماچس کہاں ملے گی؟

ماچس نہ ملی توکہیں...

تو کہیں...

میرا دھڑکتا دل خاموش نہ ہو جائے!‘‘

ان جملوں میں مرکزی کردار کے ذہنی کرب، اضطراب اور زندگی کی معنویت کی تلاش صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس آگ کی تلاش میں نا معلوم سفر پر نکل پڑتا ہے۔یہاں افسانہ نگار نے سیاہی کا ذکر معنی خیز ا نداز میں کیا ہے۔

’’دسمبر کی سرد رات تھی،سیاہی کی حکومت اور خاموشی کا پہرہ، رات کالی تھی،رات خاموش تھی اور دور دور تا حدِ نظر کوئی دکھلائی نہیں دے رہا تھا،لیمپ پوسٹوں کی مدھم روشنی رات کی سیاہی اور خاموشی کو گہرا کر رہی تھی‘‘

 ظاہر ہے کہ اگر اپنے وجود کے باہرسیاہی،تاریکی اور منجمد خاموشی کااحساس شدید نہ ہوتو ماچس کی شکل میں روشنی اور گرمی کی تلاش کے معنی متعین نہیں ہو سکتے۔ یہاں افسانہ نگار کا اشارہ سیاسی بھی ہو سکتا ہے۔ظاہر ہے یہ اشارے واضح نہیں مبہم انداز اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی تمام خارجی کوائف راوی کی داخلی کیفیت کے غمّاز ہیں۔ یہاں تک کہ را ستے میں لگے لیمپ پوسٹ بھی رات کی تاریکی کو کم کرنے کے بجائے اور گہرا کر رہے ہیں۔ اس موقعے پر سیاسی پہلو کی بات اس لیے کہی گئی ہے کہ ہمارے سیاسی نظام کی وجہ سے انسان کے مسائل روز بہ روز الجھتے جا رہے ہیں اور پورا معاشرہ ان گنت بد عنوانی اور سماجی مسائل کا شکار بنا رہتا ہے۔یہ سیاہی اور خاموشی کی کیفیت دراصل اسی کیفیت کی غمازی کر رہی ہے۔آگے چل کر اسے حلوائی کی دکان نظر آتی ہے اور وہ بھٹّی میں سلگتا ہوا کوئلہ ڈھونڈنے لگتا ہے۔مگر بھٹّی ٹھنڈی پڑی ہوتی ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ:

’’ماچس سیٹھ کے پاس ہوتی ہے۔وہ آئے گا تب بھٹّی گرم ہوگی۔‘‘

وہ مزید آگے چلتا ہے تو اس کی ملاقات ایک اور آدمی سے ہوتی ہے،جوماچس مانگنے پر جواب دیتا ہے کہ:

’’ نہیں میرے پاس ماچس نہیں ہے۔میں اس علت سے بچا ہوا ہوں‘‘

تھکا ماندہ وقت سے بے خبر وہ ایک مرمت طلب پل پر پہنچتا ہے جہاں سرخ کپڑے میں لپٹی ہوئی لالٹین سے وہ اپنی سگریٹ جلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اتنے میں ایک سپاہی بہت سے سوال کرتا ہے

’’کیا کر رہے تھے؟

کچھ نہیں !

میں کہتا ہوں،کیا کر رہے تھے؟

آپ کے پاس ماچس ہے؟

میں پوچھتا ہوں کیا کر رہے تھے اور تم کہتے ہو، ماچس ہے۔کون ہو تم؟

مجھے سگریٹ سلگانا ہے،آپ کے پاس ماچس ہو تو...

تم کون ہو،کہاں رہتے ہو؟

میں...

ماڈل ٹاؤن!

اور تمھیں ماچس چاہیے... ماڈل ٹاؤن میں رہتے ہو...ماڈل ٹاؤن کہاں ہے؟

ماڈل ٹاؤن!

اس نے گھوم کر اشارہ کیا۔

دور دور تا حدِنظر سیاہی پھیلی ہوئی تھی۔‘‘

  مذکورہ بالا مکالموں سے دونوں کرداروں کی نفسیات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف توسپاہی کے سوال پوچھنے کے انداز میں جھنجھلاہٹ اور بے وقت کسی کی موجودگی سے اکتاہٹ،تودوسری طرف مرکزی کردار کی مستقل مزاجی اور ماچس کی طلب میں شدت کا مظاہرہ صاف نظر آتا ہے۔مزید اس بات کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے کہ ماچس جو اس کی زندگی سے غائب ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے گھر سے میلوں دور نکل آیا ہے جس کا اسے پورا اندازہ بھی نہیں۔رات کی سیاہی میں خطرے کی جگہ پہنچنے کے جرم میں سپاہی اسے تھانے لے جاتا ہے۔تھانے میں کچھ سپاہی ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے سامنے سگریٹ اور ماچس کے کئی پیکٹس پڑے ہوئے تھے

’’صاحب!یہ شخص پل کے پاس کھڑا ہوا تھا۔کہتا ہے، ماڈل ٹاؤن میں رہتا ہوں اور ماچس ماچس کی رٹ لگائے ہوئے ہے!  

کیوں بے؟

اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی ماچس استعمال کر لوں۔مجھے اپنا سگریٹ سلگانا ہے!

کہاں رہتے ہو؟

میں اجنبی ہوں!کیا میں ماچس...

ماڈل ٹائون میں کب سے رہتے ہو؟

تین ماہ سے!ماچس...

ماچس...ماچس کا بچہ... اجنبی...جائو اپنے گھر... ورنہ بند کر دوں گا...ماچس؟

تھانے میں اور تھانے سے باہرپولس کی غیر ضروری مداخلت اور روز مرہ کے معاملات میں شک و شبہہ کا گمان کرنا دراصل عام سماجی زندگی میں قانون کے نام لیوا رکھوا لوں  کے ذریعہ مداخلت اور استحصال علامتی طور پر ایک عام آدمی کی بے ضرر ضروریات کی راہ میں روڑے اٹکانے کے مترادف بن جاتا ہے۔بلراج مینرا کے تقریباً تمام افسانوں میں جبر اور استحصال کے خلاف رد عمل اور مزاحمت کا رویہ ملتا ہے جو زیر بحث افسانے میں بھی نمایاں ہے۔ پورے افسانے میں واقعات کا تانا بانا جس طرح بُناگیا ہے اس سے نہ صرف قاری کی دلچسپی بلکہ تجسّس میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔آیا وہ اپنی سگریٹ جلانے میں کامیاب ہوگا؟اس کو کہیں ماچس ملے گی یا نہیں؟اس سے قطع نظر اگر ہم پولیس اسٹیشن میں ہوئے مکالموں کو دیکھیں توصاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کردار مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی معصومیت اور موقف پر قائم رہتا ہے۔ اسے کسی سوال کے جواب میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کو صرف ماچس چاہیے۔بار بار ہر سوال کے جواب میں ماچس کی رٹ لگانااور رات بھرماچس کی تلاش میں تگ و دو کرتے رہنا سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ماچس کی تلاش یا یوں کہیں کہ اپنے وجود کے حوالے کی تلاش اس کی زندگی کا اہم مقصد بن گئی ہے۔دوسری طرف جن لوگوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے وہ سب بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔جس شدت کی ساتھ اس کو ماچس کی تلاش ہے، بار بار پوچھنے پر کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا۔الٹا اس کو پاگل سمجھ کر گھر جانے کی صلاح دی جاتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ یہاںبھی سماج کے استبدادی اداروں پر طنز ملتا ہے جس کی بہترین مثال پولیس اسٹیشن ہے۔ عام آدمی کی طرف پولیس والوں کا منفی رویہ اور ان کو حقارت سے دیکھنے اور دھتکارنے کا عمل اس استبداد کو مزید بے نقاب کرتا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ افسانے کا مرکزی کردار کہیں بھی سگریٹ جلانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔حلوائی کی دکان پر بھٹّی کا ٹھنڈا ہونا،راستے میں اجنبی سے ماچس مانگنے پر اس کا یہ کہنا کہ’’میں اس علت سے بچا ہوا ہوں‘‘لالٹین سے سگریٹ جلانے کی کوشش میں تھانے پہنچا دیے جانا،حتیٰ کہ ماچس سامنے ہونے کے باوجود سگریٹ سلگانے میں کامیابی نہ ملنا، یہ تمام چیزیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اپنے وجود کو سمجھنے، زندگی میں کسی مقصد کو حاصل کرنے اور اپنے طور پر کسی عام آدمی کو بھی بے ضرر زندگی گزارنے تک کی آزادی مشکل سے مل پاتی ہے۔لوگ اپنے نصب العین سے بے خبر بے حسی کی زندگی جی رہے ہیں۔جس کا احساس راوی کو شدت سے ہے۔ تمام کاوشوں کے باوجود اس کو یہ آگ کہیں نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ تھکان کی وجہ سے اس کا بدن پوری طرح ٹوٹنے لگتا ہے۔وہ بے ساختہ سوچتا ہے۔

’’سگریٹ پینا ایک علت ہے!

میں نے یہ علت کیوں پال رکھی ہے؟‘‘

اس خیال کو و ہ اپنے ذہن سے جھٹکتے ہوئے وقت،بدن کی تھکن اور گردوپیش کی ہر چیز سے بے خبر گرتا پڑتا ماچس کی تلاش میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی ہے۔وہ لمحہ بھر کو رکتا ہے اور دیکھتا ہے کہ سامنے سے کوئی آرہا ہے اس کی حالت بھی بالکل اسی کی طرح ہے۔وہ شخص بھی اس سے وہی سوال کرتا ہے جو رات بھر ماچس کی تلاش میں مختلف لوگوںسے کرتا رہاہے۔افسانے کے آخری چند جملے دیکھیے:

’’آپ کے پاس ماچس ہے؟

            ماچس؟

            ماچس کے لیے تو میں...‘‘

وہ اس کی بات سنے بغیر ہی آگے بڑھ جاتا ہے جدھر سے وہ خود آیا تھا۔ظاہر ہے یہاں افسانہ نگار نے اپنی طرف سے کوئی وضاحت نہیں کی بلکہ چند جملوں میں اپنی بات ختم کر دی۔ یہ شش و پنج کی کیفیت،ساری رات محض ماچس کے لیے تلاش و جستجو کی اذیت اور ہر جگہ سے انکار  یا شک و شبہے کی اذیت ہی دراصل بلراج مینرا کے اس افسانے ماچس(جو بعض جگہ ’وہ‘ کے عنوان سے بھی چھپا ہے)کا مرکزی خیال ہے۔تفصیلات سے گریز اور اشاروں کنایوں میں بات کہنے کا انداز بلراج مینرا کے فن کی بنیادی انفرادیت ہے جو ان کے افسانوں کی معنویت میں اضافہ بھی کرتا ہے اور معنی و مفہوم کے مزید امکانات کو بھی برقرار رکھتا ہے۔یہی سبب ہے کہ متعدد تنقید نگاروں نے الگ الگ انداز میں بھی اس افسانے کی تفہیم کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔


Dr. Noor Fatima

Asst Prof. Dept of Urdu

MANUU, Lucknow Campus

504/122, Tagore Marg

Near Shadab Market

Lucknow - 226020 (UP)

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020


تازہ اشاعت

جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی اور ان کی غزلیہ شاعری، مضمون نگار: فیضان حیدر

اردو دنیا، اپریل 2025 جہان رنگ و بو میں کچھ ہستیاں ایسی بھی عالم وجود میں آئیں جو اپنی بصیرت، تخلیقی فکر اور ادبی خدمات سے نہ صرف معاشرے ...