24/11/17

مضمون ۔ سفر نامہ: ایک جائزہ از صبیحہ انور

سفر نامہ:ایک جائزہ



دیکھ لے اس چمن دہر کو جی بھر کے نظیر
پھر  ترا    کاہے   کو   اس   باغ    میں آنا    ہوگا
سفر نامہ وہ بیانیہ ہے جسے مسافر سفر کے دوران یا منزل پر پہنچ کر اپنے تجربات اور مشاہدات کی مدد سے تحریر کا جامہ پہناتا ہے اور اپنی گزری ہوئی کیفیات سے دوسروں کو واقف کراتا ہے۔ راہ میں پیش آنے والے اپنے تحیّر، استعجاب اور اضطراب کو اس طرح سے قلم بند کرتا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے نہ صرف پوری تصویر آجاتی ہے بلکہ اس مقام سے متعلق تمام معلومات مع تفصیل اس کے علم اور آگہی میں اضافہ کردیتےہیں۔

لائبریری سائنس کے اصول کے مطابق سفر نامے جغرافیہ کے ساتھ معلوماتی ادب کے ساتھ جگہ پاتے ہیں۔ اپنے اوپر گزرنے والی کیفیات کا بیان کرتے وقت سفر نامہ لکھنے والا خودسفر نامے کے مناظر کا حصہ بن جاتا ہے سفر میں گزرنے والے حالات و تاثرات کایہ اصلی اور جذباتی رکارڈ ہوتاہے جس میں سفر کی نوعیت سے لے کر دوسری تفصیلات، موسم، جغرافیائی، تاریخی، سماجی احوال اپنی رائے کے ساتھ درج کیے جاتے ہیں۔ سفرنامہ راستے کی دشواریوں سے محفوظ رہنے کی تدابیر بھی فراہم کرتا ہے۔ اُن دنوں جب آمدو رفت کے وسائل محدود تھے سفر آسان نہ تھا اور جب تک کوئی بہت ضروری کام نہ ہو کوئی سفر کا جوکھم نہیں اٹھاتا تھا۔ مسافر گھر والوں، اعزا  و  اقربا سے کہا سنامعاف کراکے ہی گھر سے نکلتا تھا۔ اس وقت کا سفر معلومات کا سرچشمہ ہوتے تھے۔ معلومات کی نوعیت کا تعلق بہت کچھ مسافر کی دلچسپی اور مقصدِ سفر پر منحصر ہوتا تھا۔

سفر نامہ لکھے جانے کا بہت کچھ انحصار مسافر یا سیّاح کی مزاجی کیفیت، قوت مشاہدہ اور انداز تحریر پرہوتا ہے۔ عازم سفر کے لیے یہ دلاسہ ہوتا ہے کہ باہر تو نکلو، مسافر نواز بہتیرے ملیں گے۔ ہزاروں شجر سایہ دار راہ میں منتظر ہیں۔ کچھ سفر کسی ضروری کام یا کسی مقصد کے لیے ہوتے ہیں اور کچھ محض لذتِ صحرا نوردی کے لیے جہانیاں جہاں گشت بن جاتے ہیں۔شوق سفر انسانی زندگی کے خمیر میں اس طرح پیوست ہے جیسے فولاد میں جوہر، انسان نے اس انوکھی قدم قدم پر حیرت اور استعجاب اور ہر لمحہ رواں دواں زندگی میں کبھی ایک جگہ ٹھہرنا  پسند ہی نہیں کیا، ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا کے مصداق، نئی دنیاؤں کی تلاش اس کی سرشت میں شامل ہے۔حرکت زندگی کا ثبوت ہے اور آگے بڑھتے رہنے کا شوق مہیا کرتی ہے۔ آج کی ترقی پذیر دنیا انسان کے اسی تجسس اور جستجو کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک جگہ نہیں بیٹھنا چاہتا ہے۔ فطرت کے ہر راز کو افشا کرنا ہر بھیدکی تہہ تک پہنچنا خواہ بہشت میں گندم کھانے کا تجسس ہو یا پوٹاشیم سائنایڈ کا مزہ ہو۔ صرف اس کی سچائی جاننے کے لیے کتنی جانوں کی قربانیاں دی گئیں۔ چاند تاروں پر کمندیں ڈالنے کا جنون اور سمندر کی تہہ کو کھنگالنے کا شوق اب بھی برقرار ہے اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سفر انسانی زندگی کو سنوارنے اور مرتب کرنے کی کوشش کا ایک سلسلہ ہے۔

 البیرونی، مارکو پولو، فاہیان، ناصر خسرو، شیخ سعدی، ابن ہیکل بغدادی اور ابن بطوطہ جیسی ہستیوں کے تجربات اور مشاہدات نے انسانی فکر کی گہرائی اور علم و تجسّس میں اضافہ کیا ہے۔ یونانی سیّاح میگس تھنیز (Megasthenes)، چندر گپت موریہ کے دربار میں تقریباً تین سو سال قبل مسیح ہندوستان آیا تھا۔ میگس تھنیز کے سفر کے تجربے اور بیانیہ شاید دنیا کا پہلا سفر نامہ ہے۔ جس کے آج صرف حوالے ہی ملتے ہیں اور اسے دنیا کی قدیم ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یونانی بادشاہ سکندر اعظم نے ہندوستان پر حملہ کیا... یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سفر نامے نے ہی سکندر اعظم کی ہندوستان تک رہبری کی تھی۔ ہندوستان پر سکندر اعظم کا حملہ تین سو پچاس سال قبل مسیح ہوا تھا۔


اردو میں سفرناموں کی روایت عربی، فارسی سفر ناموں کی دین ہے۔ مغرب کے مقابلے میں مشرق میں سفر نامے کی روایت زیادہ پرانی ہے۔ابن بطوطہ آٹھویں صدی ہجری کا مشہور سیاح گزرا ہے۔ اس نے کم وبیش ربع صدی مشرق و مغرب کی سیاحت میں بسر کی اس نے دلچسپ اور معلوماتی سفر نامہ ’تحفة النظار‘ کے نام سے لکھا۔ ا س کا خلاصہ اردو میں شائع ہوا۔


یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ ’عجائبات فرنگ‘ سوا سال کی سیاحت کے 9سال بعد 1947 میں طباعت سے آراستہ ہوا۔ جسے اردو کا اوّلین سفر نامہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کی کوئی تحریر اردو میں دستیاب نہ تھی...“ (اوراق لاہور، 1978)


یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ عجائبات فرنگ، جعفر تھانیسری کی تصنیف کالا پانی، محمد حسین آزاد کی ’سیر ایران‘ اور سر سید احمد خاں کی ’مسافران لندن‘ بہت اہم سفر نامے ہیں۔ جو کئی اعتبار سے اردو سفر نامے کی تاریخ میں بنیادی نام ہیں۔ سر سید احمد خاں نے 1869 میں لندن کا سفر کیا۔ سر سید کا یہ سفر صرف ایک ترقی یافتہ اور حاکم ملک کا سفر نہ تھا بلکہ یہ سفر نامہ کئی اعتبار سے ایک تاریخی سفر کی روداد ہے جو سر سید کے شوق، اضطراب اور بے چینی کا بھی بیان ہے... جو قوم کا درد اور ترقی اور انقلاب کی تڑپ دل میں رکھنے والے سر سید کی بے چینی کی بھی تصویر ہے۔ یہ سفر نامہ نہیں ہے۔ سر سید کی علمی تحریک اور قوم کی شخصیت سازی کے سر سید کے تصور کو واضح شکل دینے میں ان سفر ناموں اور نئی دنیا کے منظر ناموں نے مہمیز کا کام دیاتھا۔ اور قوم کے شوق اور اشتیاق میں شدت پیدا کی تھی۔


اردو کے ابتدائی سفر ناموں میں مولانا جعفر تھانیسری کا ’کالاپانی‘ 1862 میں سامنے آیا۔ مولانا کو انگریزوں نے کالا پانی کی سزا دی تھی۔ یہ سفر نامہ اسی کیفیت میں انڈمان کے سفر اور مشکلات کا بیان ہے۔ اپنی زندگی کے بارے میں جو باتیں لکھی ہیں وہ نہ صرف حیرت انگیز ہیں بلکہ زندگی کی عجوبہ کاری اور نیرنگی زمانہ کا بیان ہیں۔ پھانسی کی سزا پانے والے کی نفسیاتی حالت کے ساتھ ساتھ انگریز سے نفرت اور ضرورت کے لیے انگریزی زبان سیکھنے کی محنت کا ذکر ملتا ہے۔

اگر چہ یوسف خاں کمبل پوش، جعفر تھانیسری اور سرسید احمد خاں تینوں کے سفر مخصوص مقاصد کے لیے تھے مگر یہ بہ حیثیت مجموعی سیاح کی غیر جانبدار نظر سر سید اور جعفر تھانیسری کے سفر ناموں میں نہ کھل سکی۔ ان پر قومی اور اصلاحی جذبہ اس قدر حاوی رہا کہ اپنے مشاہدے میں آزادانہ طور پر لطیف کیفیات میں قاری کو شامل نہ کرسکے۔ ایک طرح کا احساس کمتری اور شکستگی کی بے چینی ہے جو پورے سفر نامے پر طاری ہے۔جب کہ یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ ایک آزاد فکر سیاح کا سفر نامہ ہے۔ وہ دنیا کو اپنی آنکھوں اور مشاہدے میں سمیٹ لینا چاہتا ہے۔ جس وقت اردو کا قاری داستان کے مافوق الفطرت ماحول اور کرداروں میں دلچسپی لے رہا تھا، یوسف خاں نے اہل ادب کی توجہ حقیقی مشاہدے کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔
1892 میں مولانا شبلی نے پروفیسر آرنلڈ کے ہمراہ قسطنطنیہ کا سفر اختیار کیا اور ترکی، مصر، شام کا دورہ کیا۔ شبلی کا یہ سفر علمی سفر تھا۔ اپنی معرکة الآرا کتاب ’الفاروق‘کے لیے مواد اکٹھا کیا۔ اور اپنے سفر نامے کا نام رکھا ’سفر نامہ مصرو روم و شام‘ جس میں انھوں نے وہاں کے سیاسی سماجی حالات پر روشنی ڈالی ہے اور وہاں کی تاریخی عمارتوں، کتب خانوں اور علمی اداروں پر تفصیل سے معلومات یکجا کی ہیں۔

بیسویں صدی میں جب سفر کی سہولیات میسر آنے لگیں تو نہ صرف سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا بلکہ حالات سفر بیان کرنے کا شوق بھی پروان چڑھا۔ چناں چہ منشی محبوب عالم کا سفر نامہ یورپ، شیخ عبدالقادر کا سفر نامہ ’مقام خلادت‘ خواجہ حسن نظامی کا سفر نامہ مصرو فلسطین، قاضی عبدالغفار کا ’نقش فرنگ‘ قاضی ولی محمد کا’سفر نامہ اندلس‘ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان سفرناموں میں دنیا کے عجائبات اور مختلف دلچسپ مشاہدات کا ہی بیان نہیں ہے بلکہ دنیا کے عجائبات کو دیکھنے کے شوق کو بھی بڑھاوا ملتا ہے۔


عبدالماجد دریابادی کا سفر حجاز اردو سفر ناموں میں ایک اہم نام ہے۔ پروفیسر احتشام حسین کا سفر نامہ ’ساحل و سمندر‘ 1954 اور ڈاکٹر مختارالدین آرزو کی سرگذشت سفر ”زہے روانی عمر کہ در سفر گذرد“ یوروپ کے علمی وادبی سفر نامے ہیں۔


موجودہ عہد میں اظہار ذات کا حوصلہ ہی نہیں بڑھا بلکہ دنیا کو دیکھنے کا ذوق بھی بیدار ہوا ہے۔ اور بڑی تعداد میں سفر نامے لکھے جارہے ہیں۔ سفر نامہ نگاروں میں اپنی بات کو کہنے کا شوق بھی بڑھا ہے۔ ابن انشاءکا ’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘، ’ابن بطوطہ کے تعاقب میں ‘ اور ’دنیا مرے آگے‘ قابل ذکر ہیں۔ رام لعل نے ’زرد پتوں کی بہار‘ سفر نامہ لکھا اور رام لعل کا یہ سفر نامہ 1980 میں پاکستان کا سفر ہے جو جذباتی طور پر دلوں کو بے چین کردینے والا سفر نامہ ہے۔

آج وقت بڑی تیز رفتاری سے ہر آن نئے رخ اختیار کرتا ہوا  ا ٓگے بڑھ رہا ہے کہ دوسروں کے تجربوں سے واقفیت کی ضرورت بہت کم ہوگئی ہے۔ دنیا کو کتابوں، ٹی وی اور انٹرنیٹ کی مدد سے دیکھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ جہاں تک تجسّس کی سیرابی کا سوال ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت آج دنیا مٹھی میں سما گئی ہے کہنا غلط نہیں ہے، اور یہ صرف ایک محاورہ نہیں ہے کہ دنیا بہت چھوٹی ہوگئی ہے۔ آج اس دنیا کی ہر چیز آزمودہ اور دیکھی ہوئی ہے۔ مگر اس کے بعد بھی آج نئے نئے انداز سے سفرنامے لکھے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہزاروں سال پرانی دنیا آج بھی اتنی ہی نئی اور اتنی ہی من موہنی ہے جتنی کہ روز اوّل تھی۔ سورج ہمیشہ ایک ہی طرح سے طلوع ہوتا ہے مگر ہر روز ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے اندھیرے کو روشنی میں بدلنے کا شعبدہ پہلی بار دکھایا ہے۔ہر صبح ایک نئی صبح ہوتی ہے۔ دن کو روشنی کی تابناکی اور ہے اور رات کے اندھیرے کا اسرار دوسرا ہے۔ یہ دنیا چھوٹی یا بڑی ہر پل رنگ بدلنے والی نیرنگ نظر دنیا کو دیکھنا آج بھی بہت مشکل ہے۔ نہ اس کو دیکھنے کی بے چینی کم ہوئی ہے اور نہ ہی آج تک کسی کیمرے، کسی کتاب، کسی قلم کو دنیا کی ساری جلوہ سامانیاں دیکھنے اور دکھانے کا افتخار حاصل ہوا ہے۔

سفر فطرت انسانی کے اس جذبہ متحرک کا نام ہے جسے روانی، بے چینی اور تجسّس کہتے ہیں۔ نئی نئی فضاؤں کو وہ اپنے مشاہدات، اپنی نظر سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ ایک اور کیفیت جو سفر نامے کے ہر منظر کو انوکھا، قابل دید اور قیمتی بناتی ہے چونکہ یہ سفر کا بیان ہے اس لیے ہر مقام، ہر منظر، ہر تعلق کے وقتی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کے سرعت سے گزرنے کا احساس جس طرح وقت کو قیمتی بناتا ہے، اسی طرح سفرنامہ کو بھی اہم اور حسین۔جب تک دنیا کو دیکھنے کا شوق اور بے چینی انسان میں موجود ہے اس وقت تک یہ سفر نامے لکھے جاتے رہیں گے۔

 صبیحہ انور
لکھنؤ

4 تبصرے: