عصمت کا تخلیقی سفر
جمیل اختر
برصغیرکی ممتاز فکشن نگار قرۃ العین حیدر کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے اکثر ناقدین لکیر کے فقیر ہیں‘‘ یہ بات انھوں نے اپنے اوپر کی جانے والی تنقید سے دل برداشتہ ہوکر کہی تھی اور اس لیے بھی کہ ایک ناقد نے شروع میں جو بات کہہ دی آنکھ بندکرکے بلا تحقیق کیے نسل در نسل سب دہراتے چلے گئے اور کسی نے بھی سچائی کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔ نتیجتاً تنقید گمرہی کا شکار ہوتی چلی گئی ۔ اس طرح کئی نسل کی تباہی کا سامان کرگئی۔ ہمارے ناقدین کو یہ بات شاید بری لگے لیکن سچائی یہی ہے جس سے ہم آنکھیں نہیں چرا سکتے۔
دراصل ہم لوگوں نے ادب میں کچھ بت بنا رکھے ہیں اور ان کے قلم سے نکلی ہوئی ہر بات پر آمنا وصدقنا کہہ دیتے ہیں۔ اپنے دماغ کے دریچے نہیں کھولتے اور بنی بنائی ڈگر پر چل پڑتے ہیں جس نے تحقیق و تنقید کے میدان میں ایک خلفشار و انتشار پیدا کررکھا ہے اور سچائی ہم سے کوسوں دور ہے۔ تحقیق و تنقید کا معیار نقل در نقل کا ہوکر رہ گیا ہے۔ ہمارے اکثر ناقدین و محققین اپنے منصب سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے اس کے وقار کو مجروح کررہے ہیں۔ ادب کی کوئی بھی صنف ہووقار و اعتبار محال ہے۔
فکشن کا تو اور بھی برا حال ہے۔ پریم چند سے لے کر آج تک انتشار و خلفشار کی کیفیت ہنوز برقرار ہے۔ بہت سے تحقیق طلب امور بغیر کسی ثبوت و شہادت اور حوالے کے روز اوّل سے آج تک نقل در نقل ہورہے ہیں اور تحقیق و تنقید دونوں اپنے منصب سے عہد برآ نہیں ہورہی ہے۔ انتشار کی یہی صورت حال عصمت چغتائی کے یہاں بھی بنی ہوئی ہے۔ ان کے اوّلین افسانے کا سراغ ہمارے ناقدین و محققین اب تک نہیں لگاپائے۔ اب جب کہ عصمت کی صدی منائی جارہی ہے ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں کل کھڑے تھے۔ عصمت پر خصوصی نمبر نکل رہے ہیں۔ نئی نئی کتابیں چھپ رہی ہیں۔ مجموعے پر مجموعے شائع ہورہے ہیں۔ جامعات میں کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے کچھ مزید لکھے جانے ہیں۔ لیکن ان سب میں نیا مواد کہیں بھی شامل نہیں۔ ہر جگہ جو کچھ موجود ہے اُسی کو سامنے رکھ کر تحقیق بھی اپنے قد ابھار رہی ہے اور تنقید بھی۔ میں نے عصمت پر شائع ہونے والی بیشتر کتابوں کا جائزہ لیا ہے اور مجھے مایوسی ہوئی۔
میں عصمت چغتائی کی کلیات کے سلسلے میں گذشتہ کئی سالوں سے ان پر تحقیقی مشن میں لگا ہوں۔ اب تک بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھا ہے اور مشن کی تکمیل تک بہت سی نئی حصول یابیوں کی توقع ہے۔ میں نے عصمت کے بہت سے ایسے افسانے تلاش کرکے نکالے ہیں جو ان کے کسی بھی افسانوی مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔ ان میں سے چند افسانوں کا ایک نیا مجموعہ ’گل دان‘ کے نام نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا نے 2013 میں شائع بھی کیا ہے۔ آج اس مجموعہ کو شائع ہوئے دو سال ہوگئے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ادبی افق پر اپنی حاضری درج کرانے والے ناقدین جو ہر کسی کی پیدائش اور موت پر اپنے قلم کی جولانی دکھانے سے باز نہیں آتے انھوں نے اس مجموعے کے مطالعے کی زحمت ہی نہیں اٹھائی یا انھیں اس کی خبر بھی نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ عصمت پر لکھی جانے والی تنقید میں وہ اغلاط آج بھی اُسی صحت مند طریقے سے موجود ہیں جیسے پہلے تھیں۔ اردو افسانے کی روایت میں مرزا حامد بیگ نے ’بچپن‘ کو عصمت کی پہلی کہانی قرار دیا ہے۔ کتاب کے حجم اور ان کے نام سے مرعوب ہوکر اور لوگوں نے بھی اس بیان کو سچ مان لیا اور اسے دہراتے چلے گئے۔‘‘ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’پہلی کہانی ’بچپن‘ کے عنوان سے لکھی جو مئی 1938 میں ساقی میں شائع ہوئی۔ کچھ لوگ ’گیندا‘ کو پہلی کہانی مانتے ہیں۔ خود عصمت نے کئی انٹرویو میں کہا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اشاعت کے حوالے سے ’گیندا‘ ان کی تیسری کہانی ہے دوسری کہانی ’نیرا‘ ہے۔
(علی احمد فاطمی: سہیل عصمت نمبر اداریہ، ص 11)
عصمت چغتائی کا تخلیقی سفر عصمت چھاپ افسانہ ’گیندا‘ سے شروع ہوکر غیرعصمت چھاپ افسانہ ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تک پہنچتا ہے۔‘‘
(عصمت چغتائی: منظر پس منظر علی احمد فاطمی، سہیل عصمت نمبر مئی اگست 15 ، ص 98)
یہ دونوں اقتباس علی احمد فاطمی کے ہیں۔ ایک میں ’بچپن‘ اور دوسرے میں ’گیندا‘ کو اول افسانہ قرار دے رہے ہیں۔ تضاد کی اس صورت حال کو آپ کیا کہیں گے؟
پروفیسر سید محمد عقیل فرماتے ہیں:
’’ان کا پہلا افسانہ ’فسادی‘ جنوری 1938 میں ساقی میں چھپا اور بعد کو ’کافر‘ خدمت گار ’ڈھیٹ‘ اور ’بچپن‘ شائع ہوئے۔‘‘
(عصمت چغتائی اور ان کے افسانے: سہیل گیا، عصمت نمبر، ص 183)
میں اس طرح کے غیر ذمے دارانہ اقتباسات سے اپنے مضمون کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا۔ عصمت نمبر میں شائع تمام مضامین اور کتابوں میں یہی بیان من و عن نقل کیا گیا ہے۔ میں ہر کسی کی بات کا فرداً فرداً جواب نہ دیتے ہوئے صحیح صورت حال سے بیان کی طرف آتا ہوں تاکہ حقیقت آپ پر خود ہی روشن ہوجائے۔
عصمت چغتائی نے اپنا افسانوی سفر 1938 سے شروع کیا۔ ان کی پہلی کہانی ’ڈھیٹ‘ ہے جو ساقی دہلی مارچ 1938 میں شائع ہوئی۔ ساقی میں ہی اپریل 38 میں ’کافر‘، مئی 38 میں ’بچپن‘، اکتوبر 38 میں ’خدمت گار‘، جون 39 میں ’نیرا‘، اگست 39 میں ’اُف یہ بچے‘ اکتوبر 39 ’پردے کے پیچھے‘ شائع ہوئیں۔ 1938 میں رسالہ ساقی کے علاوہ کسی دوسرے رسالے میں عصمت کی کہانی کے شائع ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملتے۔ مارچ 38 سے اکتوبر 38 تک کل چار کہانیاں ساقی میں شائع ہوئیں۔
مارچ 38 سے دسمبر 1948 تک عصمت ساقی میں شائع ہوتی رہیں اور اس مدت میں عصمت کی کل 25 کہانیاں ساقی میں شائع ہوئیں اسی مدت میں ساقی کے علاوہ ’رفیق نسواں‘ لاہور اگست 39 میں ’لہو‘، نیا ادب لکھنؤ 39 میں ’گیندا‘ ادبی دنیا فروری 40 میں تاریکی، سالنامہ 40 میں ’شادی‘، فروری 41 میں ’بیمار‘، نومبر 41 میں ’تل‘ شائع ہوئیں۔ ادب لطیف سالنامہ 42 میں ’لحاف‘ افسانہ نمبر 45 میں ’حسین بی‘، سالنامہ 46 میں معائنہ جولائی 46 میں لال چیونٹے شائع ہوئیں۔
1946 کے بعد عصمت کی کہانیاں آجکل دلی، شاہ راہ دہلی، نیا دور کراچی، نقش کراچی، نقوش لاہور وغیرہ میں شائع ہوئیں۔ اس کے بعد یعنی 70 اور 80 کے دہے میں ان کی کہانیاں سیپ کراچی، شمع، روبی، بانو، بیسویں صدی دہلی، شاعر بمبئی، الفاظ علی گڑھ، کتاب لکھنؤ، گفتگو بمبئی میں شائع ہوئیں۔ 80 کے بعد سے انتقال تک ان کی زیادہ تر کہانیاں صرف شمع، روبی، بانو اور بیسویں صدی دلی میں شائع ہوئیں۔ یہاں تک کہ ان کی ’آخری کہانی‘ بھی بیسویں صدی میں ان کے انتقال کے بعد جنوری 92 میں اسی عنوان سے شائع ہوئی ہے۔
1938 سے 1992 تک عصمت چغتائی نے ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک سو پچاس سے زائد کہانیاں لکھی ہیں۔ ڈرامے اور دوسری غیرافسانوی تحریروں کو چھوڑ کر۔ لیکن عصمت پر اب تک کوئی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی جو ان افسانوں کی چھان پھٹک کرکے ان کی صحیح تقویمی ترتیب بنا سکتی اور لوگوں کے سامنے صحیح صورت حال پیش کرسکتی۔ تمام محققین اور ناقدین نے عصمت کے شائع شدہ افسانوی مجموعوں کو ہی تحقیق کی صحیح کنجی مان لی اور عصمت کی کل پونجی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جامعات میں کی جانے والی تحقیق میں بھی اسی پر مکمل بھروسہ کیا گیا اور تحقیق جو تلاش و جستجو اور نئی دریافت کا تقاضا کرتی ہے اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔
اب ان کے افسانوی مجموعوں کی طرف آئیے۔ عصمت کے معتبر چھ افسانوی مجموعے شائع ہوئے: کلیاں، چوٹیں، ایک بات، چھوئی موئی، دو ہاتھ، بدن کی خوشبو ایک اور مجموعہ ’آدھی عورت آدھی خواب‘ کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ اس طرح سات افسانوی مجموعے مستند مجموعوں کی فہرست میں شامل ہوں گے۔ باقی جتنے بھی مجموعے ہیں سب جعلی ہیں اور افسانوی الٹ پھیر کرکے بنائے گئے ہیں جس پر میں آگے گفتگو کروں گا۔ پہلے مستند مجموعوں کی طرف آتے ہیں۔
پہلا افسانوی مجموعہ ’کلیاں‘ ہے۔ 1940 میں ساقی بک ڈپو سے اور 1941 میں مکتبہ اردو لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں کل 13 افسانے شامل ہیں۔ دوسرا افسانوی مجموعہ چوٹیں (1942) ہے اس میں 13 افسانے شامل ہیں۔
تیسرا افسانوی مجموعہ ’ایک بات‘ مکتبہ اردو ادب لاہور سے 1942 میں شائع ہوا۔ اس میں 9 افسانے ہیں۔ ’چھوئی موئی‘ (1952) میں 7 افسانے شامل ہیں۔ ’دو ہاتھ‘ (1952) میں 8 افسانے شامل ہیں۔ ’بدن کی خوشبو’ میں 6 افسانے شامل ہیں، آدھی عورت آدھا خواب میں 6 افسانے شامل ہیں۔ اس طرح عصمت کے افسانوں کی کل تعداد 62 ہوتی ہے۔ یعنی 150 میں صرف 62۔
اب ذرا جعلی اڈیشنوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ہندوستانی بازار میں تو نہیں لیکن پاکستانی بازار میں اس کی بھرمار ہے۔ ان کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس سے زائد ہے اور ’عصمت کے سو افسانے‘ کے نام سے عصمت کی ایک کلیات بھی چار جلدوں میں بازار میں آئی ہے۔ پہلے یہ پاکستان میں شائع ہوئی ہندوستان میں کتابی دنیا دلی نے اسے شائع کیا ہے۔ اس میں ان تمام جعلی اڈیشنوں میں شائع نئے افسانوں کو ملا کر کلیات کی شکل دے دی گئی ہے لیکن کتنے صحیح افسانے ہیں کتنے غلط اس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ کسی میں بھی حوالہ شامل نہیں ہے۔ تقریباً چالیس نئے افسانے اور پاکستانی پبلشروں کی بدولت ہمیں بہ آسانی دستیاب ہوگئے۔ اس کے لیے ہمیں ان پبلشروں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ منافع بازاری کے چکر میں وہ تحقیقی فریضے کی انجام دہی میں جانے انجانے طور پر شامل ہوگئے۔
چلیے کسی طرح کھینچ تان کر یہ تعددا سو تک تو پہنچی۔ ابھی تقریباً پچاس افسانوں کی تلاش کا مسئلہ ہنوز باقی ہے۔ ان پچاس میں سے 17 افسانے تو ’گلدان‘ میں میں نے شامل کردیے۔ بارہ افسانے اور میں نے تلاش کرلیے ہیں۔ باقی میں سے زیادہ تر کا سراغ تو لگ گیا لیکن رسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں تک رسائی ابھی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ رسائی کے لیے وسائل کی بھی کمی ہے۔
مارچ 1938 سے دسمبر 1940 تک عصمت نے کل 19 افسانے تحریر کیے جن میں سے 13 کلیاں میں شامل کیے گئے اور بقیہ 6 افسانے اس مجموعے میں شامل نہیں ہوئے۔ 13 افسانوں میں 12 کے اشاعتی حوالے رسالوں سے دستیاب ہوگئے صرف ’بڑی شرم کی بات ہے‘ کا حوالہ ابھی نہیں مل سکا ہے۔ اسی طرح چوٹیں 1942 میں شائع ہوئی اس کے 13 افسانوں میں سے ’ساز‘ اور ’سفر میں‘ کے علاوہ سب کے حوالے دستیاب ہیں۔ ایک بات کے 9 افسانوں میں سے 4 کے حوالے دستیاب ہیں۔ ہیرو، جال، بیڑیاں، پیشہ، باورچی کے حوالے ابھی دستیاب نہیں ہوئے ہیں۔ ’چوٹیں‘ اور ’ایک بات‘ یہ دونوں مجموعے 1942 میں شائع ہوئے۔ ’چوٹیں‘ کی سنہ اشاعت پر مجھے شبہ نہیں لیکن ’ایک بات‘ کی سنہ اشاعت مجھے درست نہیں معلوم پڑتی۔ اس لیے کہ اس میں شامل دو افسانے ایک عنوان کتاب ’ایک بات‘ ساقی جنوری 1943 اور ’ننھی سی جان‘ ساقی دسمبر 1943 میں شائع ہوئے۔ اگر یہ کتاب 1942 میں شائع ہوئی تو پھر دسمبر 1943 تک کے افسانے اس میں کیسے شامل ہوسکتے ہیں۔ ان افسانوں کی موجودگی اس کی سنہ اشاعت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔
پہلا افسانوی مجموعہ ’کلیاں‘ کی اشاعت اول زیادہ تر لوگوں نے ساقی بک ڈپو کے حوالے سے 1940 درج کی ہے۔ مرزا حامد بیگ نے ’اردو افسانے کی روایت‘ میں یہی سنہ درج کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ سنہ بھی درست نہیں ہے۔ سنی سنائی کا معاملہ معلوم پڑتا ہے اس لیے کہ اس میں دسمبر 1940 تک کے افسانے شامل ہیں۔ میں نے جب اس حقیقت کو جاننے کی کوششیں کی تو میرا شبہ صحیح نکلا۔ 1940 سے 1944 تک ساقی کے ایک ایک شمارے کی ورق گردانی سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ ’کلیاں‘ مکتبہ ساقی سے 1940 میں شائع ہی نہیں ہوئی۔ پھر حیرت ہے کہ یہ حوالے کہاں سے نقل ہوئے اور ہوتے چلے گئے۔ ساقی 1940 اور 1941 کے کسی بھی شمارے میں نہ ’کلیاں‘ کا اشتہار ملتا ہے نہ ہی اداریے میں نئی کتابوں کے ضمن میں اس کا ذکر ہے۔ جبکہ ہر نئی کتاب کی پیشگی اطلاع ساقی میں اشتہار کی شکل میں شائع ہوئی ہے اور اداریے میں ذکر بھی ہوتا رہا ہے۔ چھان بین کرنے پر ساقی سالنامہ جنوری 1942 میں ’کلیاں‘ کا اشتہار نظر آیا۔ پھر فروری 42 کے اداریے میں ’کلیاں‘ کے شائع ہونے اور چوٹیں کے زیرطبع ہونے کی اطلاع موجود ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے ساقی فروری 42 کے اداریے میں یہ اطلاع ان لفظوں میں دی ہے:
’’اس سال چند بہت اچھی کتابیں خاص اہتمام سے شائع ہوئی ہیں۔ حضرت بہزاد کا مجموعہ کلام ’چراغ طور‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ محترمہ عصمت چغتائی کے سولہ افسانے ’کلیاں‘ کے نام سے شائع ہوگئے ہیں151 ان کے علاوہ چند اور کتابیں زیرطبع ہیں جن میں اوپندر ناتھ اشک کا ناول ’ستاروں کے کھیل‘ عصمت چغتائی کے جدید مضامین کا مجموعہ ’چوٹیں:‘ اور منٹو کے نئی طرز کے ڈرامائی مضامین جنازے خاص طو رپر قابل ذکر ہیں۔‘‘
فروری 42 کے بعد سے اس کا اشتہار مستقل موجود ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’کلیاں‘ ادارہ ساقی سے جنوری 1942 میں شائع ہوئی۔ سنہ 1940 کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ اس کا اوّل اڈیشن 1941 میں مکتبہ اردو ادب لاہور سے شائع ہوا اور یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ مکتبہ اردو ادب سے شائع کلیاں میں 17 افسانے ہیں اور ساقی سے شائع ہونے والے مجموعے میں 16 افسانے شامل ہیں۔ یہ فرق بھی ملحوظ خاطر رہے۔
’چوٹیں‘ 1942 میں ساقی اور ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ دونوں جگہوں سے شائع ہوئی۔ اس میں ایک خاکہ، ایک ڈراما اور 13 افسانے شامل ہیں۔ عصمت کا متنازعہ افسانہ ’لحاف‘ اسی مجموعے میں شامل ہے۔ اس سے قبل یہ افسانہ پہلی بار ادب لطیف سالنامہ 1942 میں شائع ہوا تھا۔ یہ بات میں خاص طور پر اس لیے بیان کررہا ہوں کہ اس افسانے کی اشاعت کے متعلق بھی کافی غلط فہمی ہے۔ اکثر لوگ اس کی اول اشاعت ساقی 42 میں مانتے ہیں جو کہ غلط ہے۔
1952 میں دو افسانوی مجموعے ’چھوئی موئی‘ اور ’دو ہاتھ‘ شائع ہوئے۔ ایک ورائٹی بک بنک لاہور اور اردو اکادمی سندھ کراچی سے دوسرا مکتبہ اردو ادب لاہور سے۔ چھٹا افسانوی مجموعہ ’بدن کی خوشبو‘ سرفراز احمد منظور پریس لاہور سے 1979 میں شائع ہوا۔ آخری مجموعہ ’آدھی عورت آدھا خواب‘ مکتبہ شعر و ادب پاکستان اور بیسویں صدی دہلی سے 1986 میں شائع ہوا۔ عصمت کے تمام افسانوی مجموعوں کے اس قدر جعلی اڈیشن شائع ہوئے ہیں کہ جسے جو ہاتھ لگا اس نے اُسی کو صحیح مان لیا اور مزید تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی۔ عصمت کے تمام افسانوی مجموعے کسی بھی لائبریری میں یکجا نہیں ملتے ۔ دوچار دو چار ہی ملتے ہیں۔ ایک نام کے کئی مجموعے ہیں اور مختلف ناشروں کے ذریعے شائع ہوئے ہیں۔ افسانوی مجموعہ ’کلیاں‘، ’افسانے ڈرامے‘ کے نام بھی سے شائع ہوا ہے۔ لہٰذا تعین سنہ کا مسئلہ دشوار ضرور ہے ناممکن بالکل نہیں۔
ناممکن اس لیے نہیں کہ اگر ہم رسائل سے زیادہ تر افسانوں کے حوالے تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ گتھی یوں ہی سلجھ جائے گی اور ہم افسانوی مجموعوں کے سنہ اشاعت پر پورے یقین کے ساتھ گفتگو کرسکیں گے اور ایک ایک حوالہ سچائی تک پہنچنے میں ہماری مدد کرے گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ممکن کیسے ہو۔ ہم جب تک نقل بیانی کے رویے کو ترک نہیں کریں گے اور خود سے ذمے دارانہ کردار ادا نہیں کریں گے یہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنی تن آسانیاں اور سہل پسندی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ ثانوی ذرائع پر اعتبار کو کم کرنا ہوگا۔ اصل کی تلاش کی طرف توجہ مرکوز کرنی ہوگی لاپرواہی کے رویے کو ختم کرنا ہوگا۔ تب ہی معیاری تحقیق کے تقاضے کو ہم کسی حد تک پورا کرسکیں گے۔ کاتا اور لے دوڑی یعنی عجلت پسندی سے پرہیز کرنا ہوگا۔
یہ تو تھی افسانوی مجموعوں اور افسانوں کی بات۔ ناولوں کے سنہ اشاعت میں بھی ہنگامہ مچا ہے۔ زیادہ تر ناولوں کے سنہ اشاعت پر مختلف رائیں ہیں۔ ادب کا طالب علم کس پر یقین کرے کس پر نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے اساتذۂ کرام بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔ ان کا پہلا ناول ضدی ہے جس کے تین سنہ اشاعت ہمیں ملتے ہیں۔ 1940، 1941، 1940-42 میں ساقی بک ڈپو۔ لیکن دونوں میں اشاعت اوّل درج ہے۔ ساقی سے 1942 میں یہ ناول شائع ہوا اس کی تحریری شہادت موجود ہے اور ایجوکیشنل بک ہاؤس کی بھی تحریری شہادت موجود ہے۔ اس روشنی میں طبع اوّل 1941 کو ہی مانا جائے گا۔ جب تک 1940 کی کوئی شہادت سامنے نہ آجائے۔
دوسرا ناول ’ٹیڑھی لکیر‘ طبع اوّل 1944 اور 1945 دونوں درج ہے۔ لیکن درست سنہ 1944 ہے یوپی بک کارنر رام پور سے یہ ناول 1944 میں شائع ہوا تھا اور اس کی شہادت موجود ہے۔ 1945 میں مکتبہ اردو سرکلر روڈ لاہور سے شائع ہوا۔
’معصومہ‘ کا سنہ اشاعت 1961 اور 1962 دونوں درج ہے۔ 1961 میں یہ ناول اشتیاق پبلی کیشنز، دریاگنج دہلی سے شائع ہوا۔ 1962 میں نیا ادارہ لاہور نے شائع کیا۔ ناول ’سودائی‘ کا سنہ اشاعت 1964 سبھوں نے درج کیا ہے۔ 1964 میں یہ نال اسٹار پبلی کیشنز دہلی اور نیا ادارہ لاہور سے بہ یک وقت شائع ہوا۔ ناول ’ایک قطرۂ خون‘ 1975 میں فن اور شخصیت والے صابر دت نے شائع کیا۔ لیکن کچھ لوگوں نے 1976 بھی درج کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ ’کاغذی پیرہن‘ جو ان کا خودنوشت ناول ہے 1994 میں پبلی کیشن ڈویژن دلی سے شائع ہوا۔
ناول عجیب آدمی، جنگلی کبوتر، باندی، اور بچو ں کے لیے لکھے گئے چند ناولٹ تین اناڑی ، نقلی راج کمار، دل کی دنیا اور دیگر چند اور کی سنہ اشاعت کا مسئلہ بھی کافی الجھا ہوا ہے۔ جب تک مزید شہادت مل نہیں جاتی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اب جبکہ ’عصمت صدی‘ پورے ہندوستان میں دھوم دھام سے منائی جارہی ہے ہم لوگوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس غبار آلود فضا کو صاف کریں اور عصمت پر کچھ لکھنے سے پہلے سچائی جاننے کی کوشش کریں۔ ورنہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ ایک صدی کی گمرہی کے بعد روشنی کی نئی کرن تو پھوٹے اور محققین اور ناقدین اپنی ذمے داریوں سے عہد برآہونے کی کوشش کریں۔
Jameel Akhtar
18G, CPW D Colony, Vasant Vihar
New Delhi - 110057
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں