18/9/18

مغرب میں تنقید کی روایت۔ مبصر حقانی القاسمی






مغرب میں تنقید کی روایت

مبصر:  حقانی القاسمی
ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2018



پروفیسر عتیق اللہ بین علومی نقاد ہیں۔ مغربی و مشرقی ادبیات، تحریکات، رجحانات، میلانات پر ان کی گہری نظر ہے۔ انھوں نے اردو تنقید کو بہت سی نئی جہتوں اور زاویوں سے بھی روشناس کرایا ہے۔ ماحولیاتی تنقید کی نظری اور اطلاقی صورتوں کی تلاش کا شمار ان کی اوّلیت میں کیا جاسکتا ہے۔ نئے جہانِ افکار کی جستجو ان کے مزاج میں شامل ہے۔ ان کی تنقیدی تحریروں میں تازگی اور توانائی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے زاویے بھی روشن ہوتے ہیں جن سے عموماً اردو والے نا آشنا ہیں۔ ’مغرب میں تنقید کی روایت (قدیم یونان و روم سے دریدا تک)‘ بھی ان کی ذہنی جستجو کا ایک نیا جزیرہ ہے۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے اس سرچشمے سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے جس سے اردو تنقید کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ یہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اردو تنقید نے مغربی تنقیدی اصول و نظریات سے کسب نور کیا ہے اور اردو تنقید کی شعریات وضع کرنے میں مغرب سے ہی مدد لی گئی ہے۔ اردو تنقید کا اوّلین منشور’ مقدمہ شعر و شاعری‘ (خواجہ الطاف حسین حالی) بھی مغربی تنقیدی اصول سے ہی ماخوذ ہے اور اردو کے جدید تنقیدی مباحث اور ڈسکورس میں بھی اب زیادہ تر حوالے مغربی ناقدین کے ہی آتے ہیں خاص طور پر جدید اور مابعد جدید تنقیدی نظریات و اصطلاحات بیشتر مغربی تنقید سے ہی مستعار ہیں۔ اردو کی نظری اور اطلاقی تنقید میں بھی مغربی معیارِ نقد کو ہی مدِ نظر رکھا جاتا ہے اس لیے اردو تنقید کی روایت، منہج اور طریقِ کار کو سمجھنے کے لیے مغرب کی تنقیدی روایت کا ادراک اور اس کی تفہیم ضروری ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اردو میں مغربی تنقید کی روایت کے حوالے سے کوئی مستند اور مبسوط کتاب نہیں ہے۔ ایسی صورت میں طلبا اور اساتذہ کے لیے ایک ایسی کتاب کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی جس میں مغرب کی تنقیدی روایت سے آگہی کی کوئی صورت سامنے آئے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اسی ضرورت کے تحت یہ کتاب تشکیل دی ہے اور مغرب میں تنقید کی قدیم و جدید روایت، رجحانات، رویے اور جدید تنقیدی مباحث پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ خاص طور پر ساختیات، پس ساختیات، ردِّتشکیل جیسے تنقیدی مباحث پر انھوں نے اپنی کتاب میں بہت مبسوط اور معروضی انداز میں گفتگو کی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں جن مباحث اور موضوعات کو شامل کیا ہے وہ آج کے تناظر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ مغرب میں تنقید کی روایت اور رویوں کو سمجھے بغیر اردو تنقید میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اس موضوع پر کتاب تحریر کرتے وقت انگریزی کی ان اہم کتابوں کو اپنے سامنے رکھا ہے جن سے مغرب کی تنقیدی روایت ، رویے ، رجحانات اور افکار و تصورات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ 
پروفیسر عتیق اللہ کی یہ کتاب گیارہ ابواب پر محیط ہے۔ پہلا باب ’مغرب میں شعریات کا باب اوّل‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں انھوں نے شعریات کی توضیح کرتے ہوئے شعریات کو شاعری کی تخلیقی گرامرقرار دیا ہے۔ ہیومر، پنڈار وغیرہ کا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے پانچویں صدی قبل مسیح کے زبانی ادب کے حوالے سے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اس کی کوئی منظم شعریات نہیں تھی صرف اشارات ہیں جن سے اس عہد کے تنقیدی ذہن کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اسی باب میں افلاطون اور ارسطو کے تنقیدی نظریات کے حوالے سے بھی بحث کی ہے اور افلاطون کے شعر مخالف نظریے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ افلاطون شاعری سے اس لیے کَد رکھتا ہے کہ اس کی اساس تخیل یا محض نقل پر ہے۔ ارسطو کے شعری نظریے پر بھی انھوں نے بحث کی ہے۔ ان کے قاری اساس تصور یعنی نظریہ کیتھارسس کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔ افلاطون اور ارسطو کے نظریات کے حوالے سے بہت عمدہ بحث ہے۔ چونکہ افلاطون اور ارسطو دونوں ہمارے تنقیدی مباحث میں شامل رہتے ہیں اس لیے ان دونوں کے نظریات سے آگہی اردو کے ناقدین کے لیے ضروری ہے۔ 
پروفیسر عتیق اللہ نے دوسرے باب میں اطالوی/رومی ادب و تنقید کو اپنا موضوع بناتے ہوئے ورجل، ہوریس اور دیگر شعرا کا ذکر کیا ہے اور ہوریس کو پہلا مکمل ہیئت پسند نقاد قرار دیتے ہوئے یہ تحریر کیا ہے کہ اس کے خیالات پر یونانی شعریات کا گہرا اثر تھا۔ شاعری کے تعلق سے بھی اس کے مخصوص نظریات تھے۔ تقابلی تنقید کے بنیاد گزار کوئن ٹلین کے بارے میں انھوں نے تفصیلی بحث کرتے ہوئے بڑی اہم بات لکھی ہے کہ اسی نے تقابلی ادب کو ایک معیار دینے کی کوشش کی اور ا س کی شعریات کا بنیادی موضوع خطابت اور اسلوب کے تعلق سے کچھ امور تھے۔ رومانی تنقید کا بنیاد ساز لانجائنس کے نظریات پر بھی انھوں نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ 
تیسرے باب میں انھوں نے قرونِ وسطیٰ اور دانتے کے حوالے سے تفصیلی بحث کی ہے۔ دانتے کے تعلق سے انھوں نے لکھا ہے کہ اس نے گو کہ لاطینی زبان کو مردہ قرار دیا تھا لیکن اس کے کلاسیکی ادب کا زبردست معترف تھا۔ دانتے نے مقامی زبان میں ’طربیہ خداوندی‘ جیسا شاہکار لکھ کر یہ ثابت کیا کہ ورناکیولر میں بھی زبردست اظہار کی قوت ہے۔ مقامی زبان کی عظمت کے حوالے سے یہ باب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 
عہد نشاۃ الثانیہ پر پروفیسر عتیق اللہ نے چوتھے باب میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اسے تجدید کی سمت اقدامِ اوّل قرار دیا ہے۔ اس باب کے ذیل میں انھوں نے سر فلپ سڈنی، بین جانسن جیسے اہم نقادوں کے تصورات اور نظریات پر بحث کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ سر فلپ سڈنی نے اپولوجی فار پوئٹری میں شاعری کا دفاع کرتے ہوئے نشاۃ الثانیہ کی اصل روح کو کسب کرنے کی طرف خاص توجہ دی ہے۔ ان کے مطابق سڈنی شاعری کو تضیع اوقات نہیں بلکہ انسانوں کو نیکی کی طرف مائل کرنے والی شے قرار دیتا ہے۔ بین جانسن جیسے ڈراما نگار، شاعر اور نقاد پر گفتگو کرتے ہوئے انھیں انگریزی ادب کی تاریخ کا ایک تخلیق کار ہی نہیں اہم نقاد کہا ہے اور ان کے افکار و نظریات کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔
کتاب کا پانچواں باب نوکلاسیکی تنقید سے متعلق ہے۔ اس میں انھوں نے نوکلاسیکی تنقید کے خد و خال پر روشنی ڈالتے ہوئے جوزیف ایڈیسن، الیگزینڈر پوپ، ڈاکٹر جانسن، ڈرائڈن، بوالو جیسے اہم ناقدین کے نظریات سے گفتگو کی ہے اور بہت سے اہم نکات پیش کیے ہیں۔ ایڈیسن کے تعلق سے ان کا خیال ہے کہ اسی نے قاری کو ایک اہم حیثیت دی جبکہ پوپ نے کلاسیکی اصولوں کا اطلاق کیا اور جانسن نے انگریزی تنقید میں تاریخی شعور کو اہمیت دی۔ ڈرائڈن نے تنقید کو تنقید کے طور پر سنجیدگی سے لیا اور بوالو نے نوکلاسیکیت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے بوالو کے تصورِ شعر اور تصورِ زبان پر بھی فکرانگیز گفتگو کی ہے۔ 
چھٹے باب میں رومانیت کو انھوں نے اپنا مرکز بناتے ہوئے اِسے شعر و نقد میں ایک نئے معیار کی تلاش کا عنوان دیا ہے اور اِس ضمن میں انھوں نے رومانویوں کے تصورِ تخیل پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ شیلی، لیمب ، ولیم ہیزلٹ کے تصورات پر بھی گفتگو کی ہے۔ شیلی جو ایک رومانی شاعر تھا اس کا خیال تھا کہ صرف موزوں تحریر ہی شاعری نہیں ہے بلکہ نثر میں بھی شعری حسن پیدا ہوسکتا ہے۔ لیمب اور ولیم نے بھی بہت فکرانگیز تنقیدی مضامین تحریر کیے ہیں۔ ہیزلٹ کا یہ خیال ہے کہ اس کی تنقید کا مقصد محض تحسین ہے جنھیں وہ پسند کرتا ہے انہی پر قلم اٹھاتا ہے۔ اس باب میں انھوں نے رومانیت کے تصور ساز ولیم ورڈس ورتھ اور وجدان اساس فلسفیانہ تنقید کا بنیاد ساز کالرج پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ولیم کے پوئٹک ڈکشن (Poetic diction)پرا نھو ں نے اچھی بحث ہے جس سے بہت سے ایسے نکتے سامنے آئے ہیں جنھیں آج کے عہد میں اگر بروئے کار لایا جائے تو شاعری کی لفظیات میں تبدیلی و تغیر ہی نہیں بلکہ ترقی کے امکانات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ کالرج کے تصورِ شعر پر بھی معنی خیز بحث ہے کہ یہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ناقدانہ ذہن بھی رکھتا تھا اور اسی نے رومانیت کو فلسفیانہ اساس مہیا کی ہے۔ 
ساتویں باب میں انھوں نے سائنسی مطالعے کے موسس چارلس آگسٹن، سینٹ بیوو اور ہپولٹ ٹین کے نظریات سے گفتگو کی ہے۔ رومانیت کے بعد مغرب کے تنقیدی نظریات میں بڑی تبدیلیاں آئیں اور بہت سے نقادوں نے پرانے تصورات سے انحراف بھی کیا۔ اسی عہد میں سینٹ بیوو ابھرتے ہیں جن کے بارے میں ایلیٹ جیسے ناقد کا یہ کہنا تھا کہ جدید تنقید کا آغاز سینٹ بیوو سے ہوتا ہے۔ اسی عہد میں ٹین بھی تھے جنھوں نے سائنسی بنیادوں پر ادب کے مطالعے کو تنقید کا صحیح منصب قرار دیا۔ یہ باب آج کے تناظر میں بہت اہم ہے کہ اب ادب اور سائنس کے رشتوں کے حوالے سے گفتگو کا آغاز ہوچکا ہے اور سائنسی بنیادوں پر ادب کی تفہیم اور تنقید کے عمل کی شروعات بھی ہوچکی ہے اور اس کے بہت مثبت اور مفید نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ 
آٹھویں باب میں حقیقت پسندی کی شعریات پر گفتگو کی گئی ہے۔ حقیقت پسندی کے فلسفیانہ اور ادبی تصور پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے لوکاچ کا ایک قول نقل کیا ہے کہ ادیب پر لازم آتا ہے کہ ہر موانعات اور خوف کو بالائے طاق رکھ کے اپنے اردگرد کی جانی ہوئی حقیقتو ں کو نہایت دیانت داری کے ساتھ پیش کرے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے شیلر کی یہ رائے بھی لکھی ہے کہ حقیقت پسندی کسی کو شاعر نہیں بنا سکتی اور یہ بھی تحریر کیا ہے کہ چیمپ فلوری حقیقت پسندی کے نعرے سے خوش نہیں تھا ۔ اس ضمن میں انھوں نے حقیقت پسندی اسکول سے تعلق رکھنے والے بالزاک کا بھی ذکر کیا ہے۔ 
نواں باب ’عہد وکٹوریہ کی تنقید قدیم و جدید کی آویزش ‘ کے عنوان سے ہے۔ اس عہدکی تنقیدی رو اور روش پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے نیومین، کارلائڈ، آرنل، والٹر پیٹر اور آسکر وائلڈ کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور ان کے تنقیدی افکار پر مبسوط روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے آرنلڈ کو تنقید کی تاریخ میں ایک ایسا اہم موڑ بتایا ہے جس کی وجہ سے تنقید میں بڑی تبدیلیاں پیدا ہوئیں ۔ آرنلڈ نے ہی نہ صرف تنقید میں غیرجانب داری پر زور دیا بلکہ تہذیب، تاریخ، سیاست اور اخلاق جیسے موضوعات کو بھی تنقید میں شامل کیا۔ ٹی ایس ایلیٹ اور ایف آر لیوس پر بھی آرنلڈ کا بہت گہرا اثر پڑا۔ اسی باب میں انھوں نے جمالیات جیسے تصورِ نقد کا بھی جائزہ لیا ہے اور اِس ضمن میں ہیگل اور کروچے کے جمالیاتی تصورات پر روشنی ڈالی ہے۔ خاص طور پر انھوں نے جمالیات کے تھیوری ساز والٹر پیٹر کو اپنا محور بناتے ہوئے اسلوب کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ پیٹر اسلوب کی دو خصوصیات بتاتا ہے۔ ایک دماغ اساس اسلوب، دوسرا روح اساس اسلوب۔ ان دونوں اسالیب کے حوالے سے بڑی اچھی گفتگو سامنے آئی ہے۔ ایک اقتباس سے اس کی وضاحت ہوسکتی ہے:
’’ محض مناسب ترین لفظوں کا انتخاب یا فن پارے کی خارجی نامیاتی وحدت کسی اسلوب کو پوری ایک قوت میں نہیں بدلتی۔ اسلوب میں روح یا شخصیت کی رنگ آمیزی کے بغیر فن پارہ محض ایک چست و درست گوشت پوست کا ڈھانچہ تو ہوسکتا ہے لیکن زندگی سے عاری ڈھانچہ۔ فن کار کی شخصیت ’سانس‘ کی طرح اس کے فن میں غیرمعمولی سرگرمی کا باعث ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے الفاظ روشن اور حیات بیز ہوجاتے ہیں۔ یہ سارا عمل روح کی سطح پر نامیاتی ہوتا ہے اس کے لیے کوئی خاص اصول متعین نہیں ہیں۔ ’دماغ اساس اسلوب‘ کے تحت تمام اجزا کو ایک وحدت میں ڈھالا جاتا ہے جس کا تعلق فن پارے کے ڈزائن اور منصوبہ بندی سے ہے۔ روح اساس اسلوب ’اسلوب میں آدمی‘ Man in Style کا مظہر ہوتا ہے۔ اس طرح وہ جتنا شخصی ہوتا ہے اتنا ہی غیرشخصی بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے اس میں ہر ایک کے لیے کشش ہوتی ہے اور ہر ایک اس کی طرف رجوع ہونا چاہتا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو اسے وسعت بخش کر آفاقیت سے ہم کنار کرتا یا ’انسانیت‘ کی روح سے سرشار کرتا ہے۔ حقیقت اساس اسلوب اور روح اساس اسلوب مل کر خیال اور اظہار میں وحدت کے موجب ہوتے ہیں نیز کسی بھی فن پارے کی کاملیت اور عظمت کا راز بھی خیال و اظہار کی ہم آہنگی میں مضمر ہے۔‘‘
دسویں باب میں پروفیسر عتیق اللہ نے بیسویں صدی میں قدیم و جدید شعریات، تصادم اور ادغام پر بحث کی ہے اور اس ذیل میں انھوں نے ان تمام تصورات کی توضیح کی ہے جو ساختیاتی شعریات اور ساختیاتی فکر سے متعلق ہیں۔ آئی اے رچرڈ کے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ پہلا نقاد ہے جس نے ادبی تنقید کے اصولوں کا سوال اٹھایا اور یہ بھی بتایا کہ شاعری کی زبان جذباتی ہوتی ہے اور نثر کی زبان حوالہ جاتی۔ رچرڈ کے تنقیدی طریقِ کار پر تفصیلی گفتگو کے علاوہ ٹی ایس ایلیٹ کے تنقیدی تصورات و طریق کار بھی انھوں نے روشنی ڈالی ہے۔پیکریت اور دادائیت جیسے تحریکات و رجحانات کے خد و خال سے بھی قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے مارکسی تنقید اور اس کے فکری نظام پر گفتگو کرتے ہوئے کارل مارکس کی جدلیاتی مادیت کی تشریح کی ہے۔ کارل مارکس اور فرائڈ کے تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ مارکس اور فرائڈ دونوں نے دنیائے ادب کو متاثر ہی نہیں کیا بلکہ بڑی حد تک اس کی قلب ماہیت کردی۔ مارکس کا تعلق سرتاسر خارج سے تھا جبکہ فرائڈ نے فرد کی اندرونی شخصیت کی طرف توجہ دی۔ اِس باب میں اڈلر اور یونگ کے نفسیاتی تصورات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور ان ناقدین کا ذکر کیا گیا ہے جنھوں نے ادب میں تحلیلِ نفسی کے تنقیدی طریق کار کے اطلاق کی کوششیں کی۔
گیارہویں باب میں تھیوری اور ادبی تھیوری کے ضمن میں انھوں نے ساختیات، روسی ہیئت پسندی اور ساختیاتی ردِّ تشکیلی تنقید، پس ساختیات/ردتشکیل، نومارکسی تنقید، تاریخی نو تاریخی تنقید، تہذیبی مطالعے کی روایت اور نئی ترجیحات پر بحث کی ہے۔ انھوں نے تھیوری کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے علم و فہم کے بغیر ہمارا نقاد ذہناً یتیم اور یسیر ہے۔ ساختیات کے بنیاد گزار: فردِناں دی سوسیئر کے ادبی اور لسانی تصورات پر گفتگو کرتے ہوئے ساختیات کی اہمیت اور اس کے بنیادی نکات کو بھی واضح کیا ہے۔ انھوں نے ساختیاتی مفکرین میں رولاں بارتھ، لیوی اسٹراس، جولیا کرسٹیوا اور دیگر نقادوں کے حوالے سے بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ ساختیات کی عمارت لسانیات کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ روسی ہیئت پسندی کے ذیل میں میخائل باختن کے تصورات، بیانیات اور اس کے متعلقات کے حوالے سے عمدہ بحث ہے۔ ردِّ تشکیلی تنقید کے ضمن میں ژاک دریدا کے تصورات اور اردو تنقید میں ڈی کنسٹرکشن کے حوالے سے بہت اچھی بحث ہے۔ ردِّ تشکیل کا سب سے بڑا نمائندہ ژاک دریدا ہے جس نے ردِّتشکیل کو صرف ادبی تنقید تک محدود نہیں کیا بلکہ دوسرے متون کی قرأت پر بھی اس کا اطلاق کیا۔ یہیں لاکاں اور فوکو کے تصورات پر بھی بہت اہم بحث ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ نام ہیں جن کے حوالے تنقیدی ڈسکورس میں شامل رہتے ہیں خاص طور پر یہ نام مابعد جدید تنقید میں بہ کثرت اور تواتر کے ساتھ استعمال میں آتے رہے ہیں۔ اس لیے مابعد جدید رجحان کو سمجھنے کے لیے ان کے تصورات کی تفہیم لازمی ہے۔ اس کے بغیر مابعد جدیدیت کی تمام شقیں واضح نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی ساری طرفیں کھل سکتی ہیں۔ پروفیسر عتیق اللہ نے نومارکسی تنقید اور تانیثی تنقید و تحریک پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور صنفی مساوات کے علم برداروں میری وال اسٹون کرافٹ، جان اسٹواٹ مل وغیر ہ کا ذکر کیا ہے۔تانیثی تحریک کے حوالے سے انھوں نے بہت سی اہم تفصیلات درج کی ہیں۔ ان کے مطابق تانیثیت درجِ ذیل مروج کلیوں کے رد سے عبارت ہے کہ:
-1 عورت بہ مقابلہ مرد کے ایک کمزور اور نازک جنس ہے۔ 
-2 عورت اور مرد کے مابین ایسی مخصوص حیاتیاتی عضویت کی تفریق ہے جس کی بنیاد پر انھیں دو علاحدہ علاحدہ خانوں اور درجوں میں رکھا جانا ضروری ہے۔ 
-3 مروّج صنفی تقسیم کے مطابق مرد و عورت کی کارکردگی، حتیٰ کے پیشہ ورانہ کارکردگی کے دو نمایاں درجات ہیں۔ اگر مرد کا درجہ اوّل ہے تو عورت کا دوم۔ اسی نسبت سے وہ دوسری درجے کی شہری ہوئی اور اس کی ملازمتیں، پیشے اور کام بھی مخصوص بلکہ ثانوی درجے کے ٹھہرے۔ 
-4 اعصابی اور جسمانی اعتبار ہی سے نہیں بلکہ ذہنی اور عقلی سطح پر بھی دونوں اجناس دو مختلف حدود کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی لیے تعلیم و تربیت کے شعبے مردوں اور عورتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ 
-5 جذباتی، احتساسی اور احساساتی سطح پر بھی دونوں کے ردہائے عمل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ 
-6 عورت ایک قابل رحم اور مجبور صنف ہے جسے ہمیشہ مردوں کے دستِ شفقت اور پناہ کی ضرورت ہے۔ 
-7 مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی سطحوں پر مرد اور عورت کے حقوق و فرائض کے درجے مختلف ہیں وہ کہیں داسی ہے، کہیں کنیز، کہیں کٹھ پتلی ،کہیں ملکیت ،کہیں نگرو دھو،گویا وہ ایک شے commodityیا طبقے کی طرح ٹائپ ہے اور تابعداری جس کی تقدیر۔ 
پروفیسر عتیق اللہ نے ورجینا وولف کے مطمح نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ وولف نے Androgynism دو جنسیت (بہ یک وقت نر مادہ کی خصوصیت رکھنے والا) کے اس حیاتیاتی تصور پر بھی واضح طور پر روشنی ڈالی ہے جسے سب سے پہلے اساطیری ذہن نے خلق کیا تھا۔ وولف تذکیر و تانیث کے اس تصور کے منافی ہیں جس سے وحدت اور ہم آہنگی کے بجائے نفاق اور دوئی کو تحریک ملتی ہے۔ وہ ہر اس علاحدگی کے تصور کے خلاف ہیں جس کے تحت مرد و زن کی خصوصیات کو دو مختلف خانوں میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے اور علی العموم اس قسم کی درجہ بندی چند مروّج اور موجود از قبل مفروضات کا ایک تدریجی نتیجہ ہوتی ہے۔ وولف مسلسل تجزیے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ
’’غالباً وہ ذہن جو خالص تذکیری ہے، ایک خالص تانیثی ذہن کے سوا کچھ اور پیدا کر ہی نہیں سکتا۔‘‘
ورجینا وولف کے تصورات نے ادب و تنقید اور تانیثی صحافت پر گہرے اور دور رس اثرات قائم کیے ہیں۔ ‘‘
پروفیسر عتیق اللہ نے تاریخی نو تاریخی تنقید، تاریخی تہذیبی مطالعے کی روایت، نئی ترجیحات پر بھی بہت عمدہ بحث کی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مغرب کے جدید قدیم تنقیدی تصورات اور افکار کی تفہیم میں یہ کتاب ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



#Haqqani_alqasmi 

1 تبصرہ:

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...