اختر تلہری: ایک گمنام ادبی شخصیت
اختر تلہری کا نام سید اختر علی تھا۔انھوں نے عصری علوم کے ساتھ دینی علوم بھی حاصل کیے۔ مولاناسیداختر علی تلہری 21اپریل 1901 میں شاہ جہانپور (اترپردیش) کے ایک چھوٹے سے قصبہ تلہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا واجداددور مغلیہ میں گاسنا ڈاسنا سے کسی سبب ہجرت کرکے تلہر آبسے تھے۔مغلیہ سلطنت نے انھیں خاصی عزت بخشی تھی اورتصرف کے لیے باغات وغیرہ بھی دے رکھا تھا،لیکن 1857کے غدر میں باغیوں کی اعانت کی پاداش میں ساری چیزیں ضبط کر لی گئیں۔ اختر تلہری کے والد سید اکبر علی ریاست رام نگر کے منیجر تھے۔ان کا انتقال اختر تلہری کے بچپن میں ہی ہوگیا اور والدہ بھی بچپن میں ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ والدین کے انتقال کے بعد پرورش کی ذمہ داری ان کی پھوپھی خورشید بیگم نے سنبھالی۔ جب وہ سن بلوغ کو پہنچے تو ان کے چچا حکیم سید اصغر علی جو کہ خود بھی ایک شاعر تھے اور اصغر تخلص کرتے تھے، بہتر تعلیم کے لیے ان کو اپنے ساتھ لیتے گئے۔خیال تھا کہ مجتہد بنائیں گے۔ اسی بات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی سے شروع ہوئی اور ان کا داخلہ مدرسہ اسلامیہ عین العلم میں کرادیاگیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسہ عالیہ رام پور میں داخلہ ہوا۔ جہاں پر ان کا شمار ممتاز طالب علموں میں ہوتارہا۔ رام پور سے فراغت کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے عربی اور فارسی کی اعلیٰ اسناد حاصل کیں۔ 1916 میں مولوی فاضل، 1917 میں درس نظامی اور 1918میں منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔1ہائی اسکول اور انٹر کے امتحانات بھی ساتھ ہی ساتھ پاس کرلیے۔تعلیم مکمل ہوتے ہی ملازمت مل گئی۔ پہلا تقرر 1919 میں گورنمنٹ ہائی اسکول للت پور میں بحیثیت مدرس (عربی وفارسی) ہوا۔ایک سال بعدیعنی 1920میں للت پور سے ٹرانسفر ہوکر گورنمنٹ ہائی اسکول حمیر پور آگئے۔حمیر پور میں چار سال تک پڑھایا، پھر 1924 میں جوبلی انٹر کالج لکھنؤ میں تبادلہ ہوگیا اور وہاں 18 سال کی طویل مدت تک تعلیم دی۔ 1942میں گورنمنٹ ہائی اسکول شاہجہاں پور بھیج دیے گئے۔ 1957 میں شاہجہاں پور سے ہی ریٹائر ہوئے۔ 1947 میں شاہجہانپور کے کلکٹر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ان کی تدریسی خدمات کے عوض ایوارڈ سے نوازا۔ جب 1957 میں اختر تلہری ریٹائر ہوئے تواس وقت تاریخ آزادی ہند لکھی جارہی تھی، جس میں اختر تلہری کو بحیثیت پروجکٹ ریسرچ اسسٹنٹ کے لکھنؤ میں متعین کیاگیا۔ مگر عارضہ چشم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس فرض سے سبکدوش ہونا پڑا اور پھر لکھنؤ میں ہی مع اہل وعیال مستقل قیام پذیر ہوگئے۔
اختر تلہری ہمیشہ نزلے کا شکاررہتے تھے اور کام کی کثرت کی وجہ سے رفتہ رفتہ ذہن بھی کمزور ہوتاچلاگیا۔ 1970 میں دل کا پہلا دورا پڑا،جس کی وجہ سے ایک ہاتھ اور ایک پیر مفلوج ہوگیا۔ ابھی اس دورے سے سنبھل بھی ناپائے تھے کہ1971میں پھردوسرا دوراپڑگیا۔ یہ دورااس قدر شدید تھاکہ ڈاکٹروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود انھیں بچایا نہ جاسکا اور وہ 21 اپریل 1971 کو دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین ان کے آبائی قبرستان مہمندگڑھی میں ہوئی۔2 ان کی نماز جنازہ شیعہ وسنی دونوں ہی طریقوں سے ادا کی گئی۔ آپ کے جنازے میں عقیدت مندوں کی کثیر تعدادموجود تھی۔
مولاناسیداختر علی تلہری ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ادیب،نقاد، بہترین نثرنگار اور لغت شناس ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کے اشعار کا کوئی دیوان یا مجموعہ تو موجود نہیں ہے،البتہ ان کے اشعار غزل، نظم اور سلام کی صورت رسالوں میں بکھرے پڑے ہیں۔اگر ان کو اکٹھا کیاجائے تو ایک خاصا مجموعۂ کلام ضرورتیار ہوسکتاہے۔ان کے اشعار کے مختلف رنگ و آہنگ ہیں۔ وہ ایک روشن خیال شاعر تھے اور اسی روشن خیالی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے کبھی بھی سکہ بند شاعری نہیں کی۔ یہاں پر ان کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کیے جارہے ہیں تاکہ ان کی فکری اور فنی صلاحیتوں کاقدرے اندازہ لگایا جاسکے۔مختلف غزلوں کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں۔ ملاحظہ کریں
ہر نفس قید نو ہے میرے لیے
یوں نظر آرہاہوں میں آزاد
یہ مرے ذہن کی شوریدہ مزاجی اختر
اپنے ہی رنگ میں رنگتا ہے وہ یزداں ہی سہی
سبحہ و زنّار میں الجھا ہوا ہے تیر ا ذوق
تو ابھی انسانیت کے رنگ میں کامل نہیں
غزلوں کے علاوہ ان کی نظموں کا بھی اپنا ایک الگ اسلوب ہے۔ بطور مثال ان کی ایک نظم کے دوشعر ملاحظہ کریں
نظر نہیں ہے حقیقت نگر تری ورنہ
بہار میں ہے وہ کیا رنگ جو خزاں میں نہیں
حدیث گردش دوراں ہے دل گداز مگر
فغاں کا ذکر کہیں میری داستاں میں نہیں
اختر تلہری نے غزلوں اور نظموں کے علاوہ’ سلام‘ بھی کہے ہیں۔ایک سلام کے چند اشعار نقل ہیں
دل میں جگہ دے سوزِ مشیت گداز کو
تجھ کو اگر ہے خواہش فیضانِ زندگی
او محوِ نائے و نوش نظر کو بلند کر
دیکھی نہیں ہے تو نے ابھی شان زندگی
تو نے حیات کا ہمیں بخشا نیا نظام
حیدر کی جان اے شہِ مردانِ زندگی
مولاناسیداختر علی تلہری کی اصل دلچسپی نثر نگاری سے تھی۔ان کی نگارشات میں فلسفہ مذہب میں’ابتلائے عظیم‘(1925)، ’شہادت عظمیٰ‘ (1930)، ’مذہبی تصورات‘ (1953)، اور ’علوی تصورات‘(1954) شامل ہیں۔ادبی نگارشات میں ’تنقیدی شعور‘ (1957)، ’شعروادب‘ (1958) اور’مقالات تلہری‘ (1960) کے علاوہ معیاری ادبی جریدوں خاص کرسرفراز،ادب، نگار، الحکیم وغیرہ میں بہت سارے مضامین بکھرے پڑے ہیں۔اگر انھیں اکٹھا کر دیا جائے توادب کے لیے کافی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
مولانا سید اختر علی تلہری ایک غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے۔ ان کے لیے مشہور یہ تھا کہ وہ ترقی پسند تحریک کے مخالفوں میں ہیں۔ جبکہ یہ خیال درست نہیں ہے۔ اصلاًوہ قدامت پسندی سے دور تھے اور ادب کے تمام گوشوں پر ایک روشن فکر رکھتے تھے۔ ان کی طبیعت میں اعتدال تھا۔اسی سبب انھیں افراط و تفریط سے دوری تھی اور اگر کوئی ادیب کسی مسئلے پر افراط و تفریط کا شکار ہوجائے، چاہے وہ ان کا محبوب سے محبوب تر ادیب و شاعر ہی کیوں نہ ہو،اس پر اعتراض کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ اسی لیے ان کے زیادہ تر مضامین کی کیفیت ادیبوں کے افراط و تفریط کا جواب ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ان کے مجموعہ مضامین ’تنقیدی شعور‘ کا مضمون ’حالی اور پیروی مغربی‘ ہے۔ ’حالی اور پیروی مغربی‘ کافی اہم مضمون ہے جس میں اختر تلہری نے خواجہ الطاف حسین حالی کے مندرجہ ذیل شعر میں ’پیروی مغربی‘ کی وضاحت بڑی خوبی کے ساتھ کی ہے۔حالی کا مشہور زمانہ شعر
حالی اب آؤپیروی مغربی کریں
بس اقتدائے مصحفی و میرکرچکے
اصل میں اس شعر میں لفظ ’پیروی مغربی‘ کے سلسلہ میں 5 ستمبر 1948 کے صداقت (لکھنؤ )میں پروفیسر احتشام حسین نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ’پیروی مغربی‘ سے مغربی ادب اور مغربی خیال کے سوا اور کوئی چیز مراد نہیں ہوسکتی۔ اسی کے جواب میں اختر تلہری نے اس خیال کی تردید کی اور بڑا ہی راسخ خیال اپنی دلیلوں کے ساتھ رکھا۔ اختر تلہری کا ماننا ہے کہ اس شعر میں ’پیروی مغربی‘ سے مغربی خیال کی پیروی مرادنہیں ہے بلکہ ایک ایرانی نژاد صوفی شاعر شیریں تبریزی المتخلص بہ مغربی گذرا ہے۔ اس شعر میں حالی اسی شاعرکی پیروی کی بات کررہے ہیں۔ جبکہ مولانا اختر علی تلہری نے اس مضمون میں مغربی شاعروں سے حالی کے متاثر ہونے کی بھی بات مضمون کے شروع ہی میں قبول کی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ مجھے اس بارے میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اپنی عمر کے آخری حصے میں سر سید کے اثر سے حالی بھی مغربی ادب و شعر سے اچھے خاصے متاثر ہوگئے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کا محور بدل دیاتھا۔‘‘3
مولانا اختر علی تلہری ما قبل کے اقرار نامے کے باوجود ’پیروی مغربی‘ سے مرادایرانی صوفی شاعر ’مغربی‘ کی ہی پیروی کو مانتے ہیں۔ اس کے ثبوت میں وہ چند دلیلیں بھی رکھتے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’میں جہاں تک اس شعر کے انداز بیان، نشست الفاظ اور اسلوبِ خیال پر غور کرتا ہوں مجھے اس کا یقین بڑھتا جاتاہے کہ حالی نے اس شعر میں کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے جس کے سمجھنے کے لیے فلسفیانہ نظریات کا سہارا لینے کی ضرورت ہو بلکہ یہ سیدھی سادی سی بات کہی ہے کہ ہم بوالہوسی کے سوتے سے جو کیفیتیں اور جذبے پھوٹتے ہیں انھیں کی ترجمانی کرتے رہے، آؤ ! اب وارداتِ ہوس کی تصویر کشی سے کنارہ کریں اور اس عشق حقیقی کی دنیا میں قدم رکھیں جہاں پاکیزگی ذرّے ذرّے میں لہریں لیتی ہے۔ اس خیال میں کوئی خاص شاعرانہ ندرت نہیں ہے۔ عشق مجازی کے کاکل و گیسو میں الجھے ہوئے بہت سے شاعروں میں بوالہوسی سے نفرت پیدا ہوئی ہے اور انھوں نے مختلف پیرایوں میں اسے ادا کیاہے۔ اس شعر میں تازگی اسلوب بیان کے راستے سے آئی ہے۔ عشق مجازی کا نمائندہ مصحفی ومیر کو قرار دیاگیا۔ اس لیے کہ ان کی شاعری کا غالب حصہ مجازی حسن وعشق کے زلف وگیسو ہی کو الجھاتا اور سلجھاتا رہاہے اور عشق حقیقی کا نمائندہ ایران کے مشہور صوفی شاعر شیریں تبریزی المتخلص بہ مغربی کو قرار دیاگیا۔ اس لیے کہ تصوف کے ایک خاص الخاص نظریے کے آستانے پر اس کی شاعری کی جبین عقیدت ہمیشہ جھکی رہی۔‘‘4
اس سلسلہ کی دوسری توجیہہ میں اختر تلہری کا خیال ہے کہ اگر اس شعر میں ’پیروی مغربی‘ سے مغرب کی پیروی مان لی جائے تو حالی جیسے قادر الکلام شاعر پر نفسیاتی الجھن کے تحت غلط ترکیبوں کے استعمال کا الزام آئے گااور ایسا حالی جیسا شاعر نہیں کرسکتا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’حالی کے مذکورہ بالا شعر کے اس ٹکڑے ’پیروی مغربی‘ میں ’مغربی‘ سے مراد قطعاً ایران کا مشہور شاعر شیریں تبریزی ہی ہے اور یہ کوئی بڑا ادق معمائی مطلب بھی نہیں ہے۔ جو لوگ ’مغربی‘ سے متعارف ہیں ان کا ذہن فوراً اس طرف منتقل ہوگا، البتہ جولوگ مغربی سے آشنا نہیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کا ذہن مغربی شاعر کی طرف منتقل نہ ہو مگر اسی کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ اگر انھیں اردو کے صرفی ونحوی نکات اور اس کی عبارتی ترتیب کے ڈھانچوں کے انداز سے واقفیت ہے تو ان کے سلیقۂ شعر فہمی کو اس مقام پر ٹھٹک جانا چاہیے کیونکہ حالی کا سا قادرالکلام شاعر ’پیروی مغرب‘ کی جگہ ’پیروی مغربی‘ استعمال نہیں کرسکتا۔‘‘5
اسی سلسلہ گفتگو میں اختر تلہری حالی کے اردو الفاظ کے تصرفات کا دائرہ وسیع مانتے ہوئے،ان کے تصرفات کے دائرے کی بھی نشاندہی کردیتے ہیں تاکہ کسی کو کسی اعتبار کا کوئی شبہ باقی نہ رہ جائے۔چنانچہ اسی سلسلہ تحریک میں لکھتے ہیں:
’’مولانا حالی کے نزدیک اردو کے تصرفات کا دائرہ اچھا خاصا وسیع ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو ہے کہ حالی انھیں غلط الفاظ کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں جو خاص وعام دونوں زبانوں پر جاری ہوجائیں۔
عوام اور جہلا کی زبان پر جو غلط لفظ جاری ہوگئے ہیں ان کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ ’مزاج‘ کو ’مجاز‘۔ ’نسخہ‘ کو ’ نخسہ‘ کہنا ان کے نزدیک بھی غلط ہے۔ ایسی حالت میں وہ ’مغرب‘ کی جگہ یا ’مغربی شاعری‘ کی جگہ ’مگربی‘ استعمال کریں،محال تو نہیں لیکن بہت ہی مستعبد امر ہے۔‘‘6
’پیروی مغربی‘ کی تیسری اور آخری توجیہ میں اختر تلہری نے ’مقدمہ دیوان‘ سے حالی کی ہی تحریر کا سہارا لیا ہے جس میں حالی نے سعدی، رومی، حافظ، عراقی، جامی، احمد جامی کے ساتھ مغربی کا ذکرکرتے ہوئے ان شعرا کو عشق الٰہی کا راگ گانے والا اور اہل اللہ کہاہے۔ ’مقدمہ دیوان‘کا اقتباس یہ ہے :
’’غزل کو جن لوگوں نے چمکایا اور مقبول خاص وعام بنایاہے، یہ وہ لوگ تھے جو آج تک اہل اللہ اور صاحب باطن یا کم سے کم عشق الٰہی کا راگ گانے والے سمجھے جاتے ہیں جیسے سعدی، رومی، خسرو، حافظ، عراقی، مغربی، احمد جام اور جامی وغیرہم۔‘‘7
اقتباس بالا کے نقل کرنے کے بعد اختر تلہری لکھتے ہیں کہ’’ اگر اہل ذوق نظر ڈالیں گے تو انھیں اس کے تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوگا کہ ’پیروی مغربی‘ سے مراد ’مغربی‘ شاعر ہی ہے۔‘‘
اختر تلہری کی تنقید نگاری میں ادبی دیانت کا خاصہ ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں اعتدال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ان کی تحریریں ناقدین میں ایک نیا رنگ انقلاب بھرنے کا کام کرتی ہیں اور ایک عالمانہ اور حکیمانہ ادبی شعور بھی بخشتی ہیں۔علی عباس حسینی ان کی تحریروں کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
’’ان کی تحریر میں استدلال وتفکر انشا پردازی کی صوری خوبیوں سے چولی دامن کی طرح ہمکنار ہیں۔ وہ نئی نئی ترکیبیں ایجاد کرنے اور اچھوتے فقرے تراشنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ان کا ادبی مذاق بہت ہی سلیم، سلجھا اور رچا ہوا ہے۔ ان کی نقد کا پورا رنگ نکھرا، ستھرا، خالص، سچا، پر خلوص، مدلل، حق بین اور راست گوہے۔‘‘8
حواشی
(1) انجمن وظیفہ سادات ومومنین رجسٹرڈ کا سلور جبلی نمبر ص104
(2) شمیم مبارک: سخنوران شاہجہانپورص206)
(3) اختر علی تلہری: تنقیدی شعور، ص 196
(4) ایضاً، ص 197 (5) ایضاً، ص 198
(6) ایضاً، ص 198 (7) ایضاً، ص 200
(8) (علی عباس حسینی از مقدمہ ’شعروادب‘
n
Syed Abu Zar Ali
Research Scholar, Dept of Urdu
BHU, Varanasi - 221005 (UP)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے