29/3/19

بہار میں اردو کے ریڈیائی ڈرامے: 1980 کے بعد مضمون نگار: زین رامش



بہار میں اردو کے ریڈیائی ڈرامے
1980 کے بعد

زین رامش

ہندی کے مشہور ڈراما نگار اور ہندی ڈرامے کے معتبر ناقد ڈاکٹر سدھ ناتھ کمار نے اپنی قابل ذکر کتاب ’ریڈیو ناٹک کی کلا‘ کے پیشِ لفظ میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ٹیلی ویژن کے آنے کے بعد مغرب میں یہ خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ ریڈیو کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔یہ خدشہ غلط ثابت ہوا ہے۔ اب ٹیلی ویژن محدود نہیں ہے اور اب اس کی ترقی ابتدائی مرحلے میں بھی نہیں ہے۔ساتھ ہی ریڈیو گھر گھر میں موجود بھی نہیں رہ گیا ہے لیکن اس حقیقت سے آج کی تاریخ میں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ریڈیو کی اہمیت برقرار ہے اور برقرار رہے گی۔لہٰذا ریڈیائی ڈراموں کے امکانات باقی ہیں اور باقی رہیں گے۔
ہندوستان میں ریڈیو نشریات کا آغاز 1927 میں ہوا اور ابتدا سے ہی ڈراما ریڈیو نشریات کے مشمولات میں شامل رہا، لیکن اس سلسلے میں عشرت رحمانی اپنی کتاب ’اردو ڈرامے کی تاریخ و تنقید‘ کے صفحہ219 پر لکھتے ہیں کہ1936-37 کے قریب بر صغیر میں آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے نشریات کا آغاز ہوا اور ادبیات کی ہر صنف نشری پروگرام کا لازمہ قرار پائی۔لہٰذا ڈراما پر جو ادبیات کا اہم جزو اور خصوصاً نثری ادب کا لازمی عنصر ہے اس پر خاص توجہ کی گئی، لیکن ڈاکٹر اخلاق اثر نے اپنی کتاب ’ریڈیو ڈراما کا فن‘ کے صفحہ 90پر اس سلسلے میں وضاحت کی ہے کہ :
’’ہندوستان میں نشریات کا باقاعدہ آغاز 1927 میں ہو گیا تھا اور ریڈیو ڈرامے بھی نشر ہونے لگے تھے۔یہ ضرور ہے کہ اردو ریڈیو ڈرامے کی تاریخ نامکمّل اور ادھوری ہے اور 1927 سے 1935 کا درمیانی حصّہ تاریکی میں ہے۔‘‘
ریڈیو ڈرامے کے تعلق سے اس تمہیدی گفتگو کے درمیان ہی اس بات کی وضاحت بھی شاید ضروری ہے کہ ریڈیو کے لیے خاص طور سے تحریر کیا گیا پہلا انگریزی ڈراما 15جنوری1924 کو بی بی سی سے نشر ہوا، گویا باضابطہ طور پر یہیں سے ریڈیائی ڈراموں کی روایت شروع ہوتی ہے۔پروفیسر آل احمد سرور کے مطابق :
’’دنیا ریڈیو سے روشناس ہوئی، سائنس کے اس نئے کرشمے کے ساتھ کہ ڈرامے نے ایک نئی صنف کو جنم دیا ہے جسے اصطلاح عام میں ریڈیو ڈراما کہتے ہیں۔‘‘ 
(اردو تنقید کے مسائل، ’شب خوں‘ مارچ1964 از آلِ احمد سرور)
ڈاکٹر حسن مثنیٰ اپنی کتاب ’ریڈیو نشریات آغاز و ارتقا‘ میں بڑی مدلل گفتگو کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’یوں تو ڈرامے کی تاریخ تقریباً تین ہزار سال پرانی ہے لیکن ریڈیائی ڈراموں نے ابھی اپنے تخلیقی سفر کی ایک صدی بھی مکمّل نہیں کی ہے۔پھر بھی ناقدین ادب اس بات پر متفق ہیں کہ اس قلیل مدّت میں ریڈیو ڈرامے نے عصری میلانات اور فنکارانہ مہارت کے اعلیٰ معیار کو پیش کرنے کی عمدہ سعی کی ہے۔‘‘ ( ص200 )
موصوف اسی سلسلے میں یہ اطلاع بھی فراہم کرتے ہیں کہ اس میدان میں سید ذوالفقار علی بخاری پیش پیش رہے ہیں اور انھیں کی کوششوں سے اردو میں ریڈیائی ڈرامے کو وقار و اعتبار بھی حاصل ہوا ہے۔ان کی خدمات کے پیش نظر ہی انھیں ریڈیائی ڈرامے کا بابائے آدم قرار دیا جاتا ہے۔بلا شبہ اردو کے حوالے سے اگر گفتگو کی جائے تو ریڈیائی ڈراموں کو واضح شکل عطا کرنے اور اس کے خد و خال کے تعین کے سلسلے میں ان کی خدمات کو فراموش کرنا ناممکن ہے۔ سید ذوالفقار علی بخاری نے مارٹن ایسلِن کی اس فکر کو عملاً برتنے کی کوشش کی کہ فنکار کے لیے ریڈیو اظہار کا معقول ترین ذریعہ ہے اور اس میں تحریر کا معیار ہی سب سے اہم ہے۔ریڈیو ڈراما نگار امید نہیں کر سکتا کہ کیمرہ کے دل کو موہ لینے والے کام اور انتہائی نمائش والے اسٹیج کے اثرات اس کی فنی کمزوریوں کو دور کر دیں گے۔ سید ذوالفقار علی بخاری کے ساتھ ساتھ اردو کے جن اہم ترین ڈراما نگاروں نے اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا ان میں سید امتیاز علی تاج، سید عابد علی عابد، مرزا عظیم بیگ چغتائی، شاہد احمد دہلوی، صوفی غلام مصطفی تبسّم، سید انصار علی ناصری، فضل حق قریشی، مرزا ادیب، اپندر ناتھ اشک اور خواجہ احمد عباس وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ ایسے اہم ترین فکشن رائٹرز کا نام لینا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے جنہوں نے ریڈیائی ڈراموں کے تعلق سے بھی اہم خدمات انجام دیں اور ان کی خاصیت یہ رہی کہ انھوں نے اپنی ڈراما نگاری کی ابتدا ہی در اصل نثری ڈراموں سے کی۔ ان میں رفیع پیر زادہ، شوکت تھانوی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، ملک حسیب احمد، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، محمود نظامی، سلطان ایف حسین، میاں لطیف الرحمن، یوسف ظفر، مختار صدیقی اور علامہ اقبال کے فرزند جاوید اقبال کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
اس بات کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں کہ اردو کی ادبی خدمات کے تعلق سے اس کی اہمیت و معنویت مسلم ہے۔خصوصاً فکشن کے سلسلے میں غیر منقسم بہار (جھارکھنڈ سمیت)نے اہم ترین اور نمایاں ترین خدمات انجام دی ہیں۔ تحقیقی مطالعہ اس بات کا بھی احساس دلاتا ہے کہ ڈراما نگاری اور خاص طور سے ریڈیو ڈراما کے سلسلے میں بھی بہار کی خدمات ناقابل فراموش رہی ہیں۔ بہار کا پہلا اردو ڈراما پنڈت کیشو راج بھٹ کا تحریر کردہ ’ سجّاد وسنبل‘ قرار پاتا ہے جو 1874 میں تحریر ہوا۔ لیکن مجھے چونکہ بہار میں اردو ڈرامے کی روایت پر نہیں بلکہ1980 کے بعد بہار میں اردو کے ریڈیائی ڈراموں کا جائزہ لینا ہے، لہٰذا میں اس سلسلے کی اپنی گفتگو کا آغاز سہیل عظیم آبادی سے کرنا چاہوں گا۔باوجودیہ کہ29 نومبر1979 کو دوران سفر اِلٰہ آباد ریلوے پلیٹ فارم پر دل کا دورہ پڑنے کے سبب وہ اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔تاہم حقیقت ہے کہ یہ سہیل عظیم آبادی کی ہی شخصیت تھی جس نے بہار کی سطح پر ریڈیائی ڈراموں کی تاریخ میں انقلاب پیدا کر دیا۔ 1955 میں وہ آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت میں آئے اور ڈراما نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ظاہر ہے ایسے میں ان کی توجہ کا مرکز ریڈیائی ڈرامے ہی تھے۔ 1950 سے لے کر 1970یعنی ملازمت سے اپنی سبکدوشی تک، پندرہ سالوں کی مدّت میں اردو ڈراما نگاری کے فروغ اور خصوصی نشر و اشاعت کے سلسلے میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ان کے 17مکمّل ڈراموں میں بیشتر ریڈیائی ڈرامے تھے۔اس سلسلے کی سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہار میں اردو ڈرامے کی تاریخ سہیل عظیم آبادی کی مرہون منّت ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پٹنہ ریڈیو اسٹیشن سے اردو نشریات کا آغاز بھی نہ صرف یہ کہ ان کے وقت میں ہوا بلکہ یہ ان کی توجہ اور محنت کا ہی ثمرہ تھا۔ 1980 کے بعد بہار میں اردو کے ریڈیائی ڈراموں کا مطالعہ بہت ہی حوصلہ افزا ہے۔ہندی ریڈیائی ڈراموں کے نامور خالق اور ناقد سدھ ناتھ کمار کو یہ شکوہ بھلے ہی ہو کہ اپنے ملک کی سبھی زبانوں میں ریڈیو ڈرامے بڑی تعداد میں لکھے جارہے ہیں اور نشر ہو رہے ہیں، لیکن معیار کے نقطۂ نظر سے پر اثر ڈراموں کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ لیکن بہت اطمینان کے ساتھ اور یقینی طور پر بلاخوفِ تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ 1980 کے بعد بہار میں اردو کے ریڈیائی ڈراموں پر ان باتوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لندن سے شائع ہونے والے ریڈیو ڈراما ’ ٹوڈے‘ میں ایک جگہ لکھا گیا ہے کہ ’چونکہ ریڈیو ڈراما الفاظ اور انفرادی تحریر پر ہی منحصر ہوتا ہے لہٰذا اسے سہل اور قابلِ حظ ہونا چاہیے۔‘ اور سچّی بات یہ ہے کہ 1980 کے بعد بہار میں تحریر کیے جانے والے اردو ریڈیائی ڈراموں میں یہ خاصیت بدرجۂ اتم نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں میں سب سے پہلے شین مظفر پوری کا نام لینا چاہوں گا۔ بحیثیت فکشن رائٹر کم از کم بہار کی سطح پر شین مظفر پوری کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔ شین صاحب بہار کے ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے ناول، افسانے، انشائیے اور خاکے وغیرہ کے ساتھ ہی ساتھ بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے۔ میرے اس خیال سے اختلاف ممکن ہے لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ شین صاحب کو سب سے زیادہ جس چیز نے شہرت و مقبولیت عطا کی وہ ان کے ریڈیائی ڈرامے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے مشہور زمانہ ریڈیائی ڈراما ’خون کی مہندی‘ کا ذکر ہی کافی ہے، جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی بہار کے مقبول ترین ریڈیائی ڈراموں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔’خون کی مہندی‘ کا وصف یہ ہے کہ وہ ریڈیائی ڈراما ہونے کے باوجود نہ صرف موضوع اور اسلوب کی سطح پر انفرادیت کا حامل ہے بلکہ ڈرامائی عناصر اور اثر انگیزی کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔اسی نام سے شین صاحب کے ڈراموں کا مجموعہ بھی شائع ہوا جس میں چھ مزید ڈرامے شامل ہیں۔ان کے علاوہ بھی انھوں نے بہت سارے ڈرامے مثلاً ’بے چارہ‘، ’اچھا آدمی‘، ’عورت تیرے کتنے روپ‘، ’قصّہ میاں بیوی کا‘ لکھے جن میں بیشتر ڈرامے ریڈیائی ہیں۔
’بہار میں اردو ڈراما آزادی کے بعد‘ کے مصنف ڈاکٹر محمد منصور انصاری کا خیال ہے کہ اردو کے ریڈیائی ڈرامے چونکہ صرف بہار کے مختلف ریڈیو اسٹیشنوں مثلاً پٹنہ، رانچی، دربھنگہ اور بھاگلپور سے تواتر کے ساتھ نشر ہورہے ہیں، جس کے سبب قلم کاروں کو ڈراموں کی طرف متوجہ ہونے کی تحریک ملتی رہی اور بہار کے تقریباً ہر علاقے میں اردو ڈراما نگار پیدا ہوئے۔ یہ معاملہ ظاہر ہے غیرمنقسم بہار کا رہا ہے جس میں موجودہ ریاستِ جھارکھنڈ بھی شامل ہے۔
شین مظفر پوری کے بعد زیر بحث موضوع کے اعتبار سے ایک اہم نام شفیع مشہدی کا ہے۔افسانوں کے علاوہ ڈراما ان کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ڈرامے کی شکل میں ان کی جو تحریریں موجود ہیں وہ اپنے انفرادی طرزِ اظہار کی بنیاد پر دامنِ ذہن و دل کھینچتی ہیں۔یوں بھی اسلوبیاتی سطح پر شفیع مشہدی کو صاحب طرز نثر نگار کی حیثیت حاصل ہے۔شفیع مشہدی کے ڈراموں کا مجموعہ ’دو پہر کے بعد‘ 1982 میں شائع ہوا جس میں کل چھ(6) ڈرامے شامل ہیں؛ (1) اجنبی دیواریں (2) کینسر (3) دوپہر کے بعد (4) انگلیاں فگار اپنی (5) پتھروں کا شہر اور (6)مٹھی بھر خاک۔ یہ سبھی ڈرامے ریڈیائی ہیں اور ان میں سے بیشتر نشر ہو چکے ہیں۔ مذکورہ بالا ڈراموں کا وصف خاص ان کا موضوع ہے۔ شفیع مشہدی نے افراد کی انفرادی زندگی کے گو ناگوں مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے اور ان پیچیدگیوں کا فلسفیانہ اظہار ہمارے سامنے کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر قمرجہاں بحیثیت افسانہ نگار اور بحیثیت ناقد کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔خصوصاً افسانوں کے تعلق سے موضوع کا تنوع اور اسلوب کی انفرادیت جس طرح ان کے حصّے میں آئی ہے وہ کم افسانہ نگاروں کو نصیب ہوئی۔ محترمہ نے ریڈیائی ڈراموں میں بھی اپنی تخلیقی ہنر مندی کا مظاہرہ کیا ہے اور کئی ڈرامے تحریر کیے ہیں اس کا اندازہ ادب کے قارئین کو شاید مکمّل طور پر نہ ہو۔ ان کے کم از کم دو ڈرامے ’بکھری سچاّئیاں‘ اور ’دوری کا بھرم‘ آل انڈیا ریڈیو بھاگلپور سے نشر ہوئے۔ پہلا ڈراما انسانی زندگی کی تلخ حقیقتوں اور اس کے ناقابلِ قبول نتائج کو پرت در پرت ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا ڈراما ’دوری کا بھرم‘ مزاح کی کیفیت سے مملو ہے۔ اپنے ان دونوں ہی ڈراموں میں قمر جہاں نے تخلیقی ہنر مندی کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔
نوید ہاشمی 1980 کے بعد سامنے آنے والے بہار کے ان ڈراما نگاروں میں ہیں جنھوں نے باضابطہ طور پر ڈرامے کو اپنے لیے مخصوص کیا اور اُسی کے ہو لیے۔ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’چاند کا داغ‘ 1991میں شائع ہوا جس میں کل چھ ڈرامے شامل ہیں، اس مجموعے کا پہلا ڈراما ’کلاکار‘ ہے۔ ’کلاکار‘ ہی نوید ہاشمی کا پہلا تحریر کردہ ڈراما بھی ہے جو نومبر1987 تا جنوری 1988 کے ’مرّیخ‘ میں شائع ہوا جس کے بعد سے رسالوں میں ان کے ڈراموں کی اشاعت اور ریڈیو سے نشریے کا سلسلہ قائم رہا۔ ریڈیو پٹنہ سے نشر ہونے والے مشہور ڈراموں میں ’چاند کا داغ‘ کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو سے ان کے جو ڈرامے نشر اور مقبول ہوئے ان میں ’مٹی پکارتی ہے‘، ’سازش‘ اور’مجبور فرشتے‘ قابلِ ذکر ہیں۔
رحمن شاہی نے بحیثیت افسانہ نگار تو اپنی شناخت قائم کی ہی، بحیثیت ڈراما نگار بھی انھیں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔خاص طور پر ان کے ریڈیائی ڈراموں میں ’کیکٹس کے پھول‘ کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ رحمن شاہی نے اپنے جن ریڈیائی ڈراموں کی بنیاد پر بحیثیت ریڈیائی ڈراما نگار اپنی انفرادی شناخت قائم کی ان میں ’سوندھی مٹی‘، ’سویرا‘، ’وَچن‘ اور ’کیکٹس کے پھول‘ شامل ہیں۔
ریڈیو سے رخسانہ صدیقی کی وابستگی باضابطہ اور باقاعدہ رہی ہے۔ بحیثیت ڈراما نگار اور خصوصاً بحیثیت ریڈیو ڈراما نگار رخسانہ صدیقی نے بہار کی خواتین ڈراما نگاروں کی بہترین اور قابلِ لحاظ نمایندگی کی ہے۔ اب تک ان کے تقریباً ایک درجن سے زیادہ ڈرامے شائع اور نشر ہو چکے ہیں، جن میں ’واپسی‘، ’دوسری خوشبو‘، ’جنگل کی آخری رات‘، ’شیرا‘، ’اپنے حصّے کا درد‘ اور ’چار دن‘ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ مذکورہ ڈراموں میں بیشتر ریڈیو سے نشر ہو چکے ہیں۔ رخسانہ صدیقی کا ریڈیائی ڈراما ’اپنے حصّے کا درد‘ بہت پر اثر بھی ہے اور اس میں فنّی چابکدستی بھی موجود ہے۔ یوں تو عام طور پر رخسانہ کے ڈراموں میں انسان کی عمومی زندگی کے نشیب و فراز کا بہترین عکس دیکھنے کو ملتا ہے، مگر کبھی جب وہ فرد کی ذات کے نادیدہ المیوں کی پیکر تراشی کرتی ہیں تو ان کی تحریر دو آتشہ ہو جاتی ہے اور یہی کیفیت ان کے ڈرامے ’اپنے حصّے کا درد‘ میں موجود ہے۔ رخسانہ شعورِ فن کی اس بالیدگی سے بھی متّصف ہیں کہ اپنے بالکل ذاتی کرب کو کس طرح دوسروں کا کرب بنا دیا جائے۔
اشرف قادری کی شخصیت صاحبِ دیوان شاعر اور متعدد کتابوں کے مصنف کی رہی ہے۔’چمپارن میں جنگِ آزادی‘ کے عنوان سے 9ایکٹ پر مشتمل تاریخی حقائق پر مبنی ان کا طویل ڈراما ناقابلِ فراموش ہے اسے ہم ان کا ایک بڑا کارنامہ کہہ سکتے ہیں۔ اس پورے ڈرامے کو ریڈیائی ڈرامے کی حیثیت حاصل ہے جس کے کچھ حصّے باضابطہ طور پر پٹنہ ریڈیو اسٹیشن نے اہتمام کے ساتھ نشر کیے اور یہ کافی مقبول بھی ہوا۔ 12 نومبر 1998کو اشرف قادری اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اگر ان کی حیات نے کچھ اور وفا کی ہوتی تو بلا مبالغہ ان کی کچھ مزید تحریریں ریڈیائی ڈرامے کی شکل میں سامنے آتیں۔ ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، علمی اور ادبی سطح پر فعال ہیں اور ان کا مرکزی میدان تحقیق اور تصّوف ہے لیکن چونکہ ویر کنور سنگھ یونیورسٹی آرہ کا صدر شعبۂ اردو ہونے سے قبل آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے ان کی طویل وابستگی رہی لہٰذا انھوں نے ڈراما نگاری کے میدان میں بھی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور کئی ڈرامے تحریر کیے جن کی نوعیت ریڈیائی ہے۔ ان ڈراموں میں ’اکبرِ اعظم‘، ’سلطان شیر شاہ سوری‘ اور ’عظیم آباد کا یادگار مشاعرہ‘ قابلِ ذکر ہیں۔ یہ سبھی ڈرامے خاص طور سے ریڈیو کے لیے ہی تحریر کیے گئے تھے، لہٰذا نشر ہوئے اور کافی مقبولیت حاصل کی۔ سید شاہ حسین احمد کے علاوہ ابوالکلام عزیزی کا ریڈیائی ڈراما ’طوفان‘ اور سلطان آزاد کا ڈراما ’قصّہ ایک شاعر کا‘ بھی قابلِ ذکر ہے۔
طنز و مزاح اور ظرافت نگاری کے تعلق سے بہار کے جن ڈراما نگاروں نے بحیثیت ریڈیو ڈراما نگار بھی شہرت و مقبولیت حاصل کی ان میں تمنّا مظفر پوری، نعمان ہاشمی اور ایم اے کریمی کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تمنّا مظفر پوری کے ڈراموں میں ’ قصّہ کراسن تیل کا‘ اور ’بیگم کا گھریلو بجٹ‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے خصوصی توجہ کے طالب ہیں۔ تمنّا مظفر پوری کے ڈراموں کا مجموعہ ’پردے کے سامنے‘ 1989 میں منظرِ عام پر آیا۔ اس میں نو ڈرامے شامل ہیں جن میں سے بیشتر ریڈیو سے نشر ہو چکے ہیں۔ نعمان ہاشمی نے ریڈیائی ڈراموں میں خاصی دلچسپی دکھائی ہے۔ نعمان ہاشمی کا پہلا ریڈیائی مزاحیہ ڈراما 1984 میں نشر ہوا اور تب سے تواتر کے ساتھ بڑی تعداد میں ان کے ڈرامے ریڈیو سے نشر ہوئے۔ان کے قابلِ ذکر ڈراموں میں ’چکر ڈاکٹر کا‘ اور ’چکّر گیس کا‘ وغیرہ شامل ہیں۔
ایم اے کریمی نے اپنی ادبی زندگی افسانہ نگاری سے شروع کی، لیکن بہت جلد اسے وسعت دے کر اپنے آپ کو انشائیہ نگاری اور ڈراما نگاری کے لیے وقف کر دیا۔ انھوں نے زیادہ تر ڈرامے ریڈیائی تحریر کیے جو نشر ہوکر مقبول ہوئے۔ ان ڈراموں میں ’دوری کا چکّر‘ اور ’ٹکے کیلو شاعر‘ کافی مقبول ہوا۔
اگر ریڈیائی ڈراموں کی تخصیص ہٹا دی جائے اور صرف 1980 کے بعد بہار میں اردو ڈراما نگاری پر گفتگو کی جائے تو بہت سارے اہم ناموں کا تذکرہ لازمی اور ضروری ہو جائے گا، مثلاً طارق جمیلی، عظیم اقبال، اکبر رضا جمشید، نسیم اختر پالوی، ظفر عدیم، مناظر عاشق ہرگانوی، اسد رضوی، نثار احمد صدیقی اور فخرالدین عارفی وغیرہ۔ یہ تمام حضرات بحیثیت ڈراما نگار تو اہمیت کے حامل ہیں لیکن جنھوں نے ریڈیائی ڈرامے تحریر کیے۔ اس سلسلے میں ایک اہم نام ڈاکٹر قمر التوحید کا ضرور ہے جن کا صرف ایک ڈراما میری نظر میں ہے جو ’گوداوری کی گود میں‘ کے عنوان سے آل انڈیا ریڈیو، پٹنہ (بہار) سے بہت ہی اہتمام کے ساتھ نشر ہوا اور بہت ہی مقبول ہوا۔
راقم السطور نے آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے اپنی سات آٹھ سالہ وابستگی کے دوران ’لہو کا رنگ ایک ہے‘ اور ’آزاد ہیں ہم‘ جیسے مقبول ترین فیچر کے علاوہ ریڈیائی ڈرامے تحریر کیے جن میں ’رات کے آخری پہر‘ اور ’کرفیو‘ کو توقع سے زیادہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ دونوں ڈرامے اردو سیکشن اور ڈراما سیکشن سے بار بار نشر ہوئے۔ ’1980کے بعد بہار میں اردو کا ریڈیائی ڈراما ‘ کے موضوع پر یہ گفتگو بس اشاریے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں تحقیقی اور تنقیدی پہلوؤں کی تلاش کی گنجائش فی الوقت نہیں ہے۔
کتابیات 
.1 ’ریڈیو نائک کی کلا‘ - ڈاکٹر سِدھ ناتھ کمار
.2 ’اردو ڈرامے کی تاریخ و تنقید‘ ، عشرت رحمانی
.3 ’ریڈیو ڈراما کا فن‘، ڈاکٹر اخلاق اثر
.4 ’اردو تنقید کے مسائل‘ ، پروفیسر آلِ احمد سرور
.5 ’ریڈیو نشریات آغاز و ارتقا‘، ڈاکٹر حسن مثنٰی
.6 ’بہار میں اردو ڈراما آزادی کے بعد‘ ، ڈاکٹر محمد منصور انصاری 

Dr. Zain Ramish,
 Associate Professor, 
Binova Bhave University, Hazaribagh, 
Distt. Hazaribagh -825301 (Jharkhand)

ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں