29/3/19

ریڈیو اور موجودہ سماج مضمون نگار: محمد اخلاق


ریڈیو اور موجودہ سماج
محمد اخلاق

موجودہ دور ، عوامی ذرائع ترسیل کے انقلاب کا دور ہے جس کے فروغ میں 20ویں صدی کا کردار نہایت اہم ہے۔ ریڈیو ذرائع ابلاغ میں سے ایک ہے۔ ریڈیو کی ایجاد کا سہرا مارکونی کے سر جاتا ہے مگر اسے ترقی دینے میں کئی دوسرے سائنس داں بھی شامل ہیں۔ ٹرانزسٹر ریڈیو دراصل مارکونی کے ریڈیو کی ترقی یافتہ شکل ہے جسے ولیم شاکلے نے 1947 میں ایجاد کیا تھا۔ ٹرانزسٹر نے ریڈیو کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ ہندوستان میں ریڈیائی نشریات کا سلسلہ تو 1923 سے شروع ہوگیا تھا لیکن منظم اور باقاعدہ شروعات 1936 سے ہوئی۔ یہ ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے ہمیں مختلف قسم کی اطلاعات، تفریحات اور معلومات بہم پہنچتی ہیں نیز علوم و فنون، تفریحی مواد، حالات حاضرہ، عوامی مسائل اور دیگر بہت ساری معلومات بھی نہایت سرعت سے موصول ہوئی ہیں۔ خصوصی طور پر ریڈیو نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو بہت فروغ دیا۔ ریڈیو کے سامعین کا حلقہ بہت وسیع ہے اور عوام میں اس کی مقبولیت ہی اس کی کامیابی کا سبب ہے کیونکہ ریڈیو ہمارے دلوں پر آواز کے ذریعے حکومت کرتا ہے جس میں نہ پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ دیکھنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ریڈیو کے علاوہ تمام ذرائع ابلاغ ہر کس و ناکس کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ریڈیو تمام خامیوں سے بالاتر ہے اور سب سے سستا ذریعہ ابلاغ ہے جس کی پہنچ ہر خاص و عام تک ہے۔ سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آسانی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ لایا اور لے جایا جاسکتا ہے اس کی پہنچ ایسی ہے کہ اس کی آواز بند کمروں، بلند و بالا پہاڑوں اور ایسی تمام تر جگہوں جہاں پر انسان کا گزر ممکن نہیں ریڈیو کی لہریں پہنچ جاتی ہیں، ریڈیو نے خواندگی کی خلیج کو پرکیا۔ جو لوگ اخبار و رسائل اور کتابوں کے قاری نہیں بن سکتے تھے وہ ریڈیو کے پروگرام کے ذریعے بہترین معلومات اور تفریح حاصل کرنے لگے۔
ریڈیو خواص کا کلب نہیں بلکہ عوام کا ادارہ ہے جس کا مقصد عوام و خواص سب کے معیارِ زندگی اور ذوق کی آبیاری کرنا ہے ۔ ریڈیو ایک جادوئی باکس سے کم نہیں جو آپ کو تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات کا ذخیرہ فراہم کرتا ہے، خواہ وہ ادب ہو، یا معاشرتی یا زندگی کے گوناگوں مسائل سے متعلق ہوں یہی وجہ ہے کہ ریڈیو سننا تفریح کے ساتھ ساتھ ایک ایسا عمل ہے جسے ہم اپنے معمولات زندگی پورا کرنے کے ساتھ ساتھ کرپاتے ہیں۔
ریڈیو ابھی تک ایسا میڈیم ہے جو ایک چینل سے سب سے زیادہ Varitety پروگرام پیش کرتا ہے دور حاضر میں Variety سے بڑھ کر ریڈیو مخصوص پروگرام پیش کرنے لگا ہے۔ گرچہ ضرورتوں کے مطابق نئے نئے چینل وجود میں آئے جو خاص طبقات تک محدود ہیں مگر اس کا فیض عام ہے۔
ایسے طالب علم جو نچلی جماعتوں میں پڑھ رہے ہیں ان کی تعلیمی زندگی اور ضرورتوں کے پیش نظر چینل وجود میں آئے گیان وانی اس کی ایک مثال ہے جہاں سے اسکول کے طالب علموں کے لیے ریڈیائی قدریں مہیا کی گئی ہیں جس سے وہ حاصل کررہے علوم، حساب، سائنس اور سوشل سائنس کی مشکل سے مشکل پہیلیوں کو چٹکی میں حل کرپاتے ہیں۔ لفظ کی ادائیگی اور زبان کی سمجھ بھی ڈراما یا ناٹک کے ذریعے دی جاتی ہے۔ 
ایسے طالب علم جو اعلیٰ جماعتوں میں پڑھ رہے ہیں، ان کے اساتذہ اور شہریوں کے لیے آل انڈیا ریڈیو کی 24 گھنٹے کی Service موجود ہے جو برسوں سے خبر، گیت، غزل، ادب، کھیل کود، تاریخ، سماجیات، فلسفہ، سائنس اور دیگر علوم و فنون پر مسلسل پروگرام نشر کرتا ہے۔ ساتھ ہی ادیب، دانشور، سیاست داں، اسکالر اور فنکاروں کے ساتھ ملاقات بھی کراتا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ عوام اور نوجوان طبقے کی ضرورتیں بھی الگ اور انوکھی ہوتی ہیں ان ضرورتوں کے پیش نظر آکاش وانی اور وودھ بھارتی جیسا چینل وجود میں آیا جو فلمی گپ شپ اور گیتوں کے علاوہ مزاحیہ اور اصلاحی پروگرام پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد F.M چینلوں کا دور شروع ہوا جس نے اس میدان میں خاص کمال دکھا یا اور پوری طرح سے نوجوان طبقے اور عوام کو اپنی گرفت میں لے لیا اور نت نئے پروگراموں کے ذریعے نئی نسل کو بہت متاثر کیا گرچہ سارے پروگرام معیاری نہیں تھے مگر بہت سے پروگرام ایسے سامنے آئے جسے ہم نئی ایجاد کہہ سکتے ہیں۔ عورتوں کا بھی مخصوص چینل منظرعام پر آچکا ہے جو انھیں روزانہ کی ضرورتوں کے مطابق پروگرام پیش کرتا ہے جیسے پکوان خانگی مسائل، بچوں کی پرورش اور صحت پر اطمینان بخش پروگرام بھی پیش کرتے ہیں۔ اگر اس ضمن میں Community ریڈیو کا ذکر نہ کیا جائے تو موضوع کو انصاف نہ مل پائے گا۔ Community ریڈیو صرف ریڈیو اسٹیشن نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے جو دنیا کے تمام ملکوں میں خاص کر ترقی پذیر ملکوں میں نہایت تیزی کے ساتھ کام کررہا ہے یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو معاشرے کی خدمت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ معاشرتی ضرورتوں کے مطابق اپنے پروگرام ترتیب دیتا ہے خواہ معاشرے میں موجود کسان ہو یا طالب یا زندگی کی جدوجہد میں مصروف عوام ہوں یہ سب کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔
مندرجہ بالا تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریڈیو کسی جادوئی باکس سے کم نہیں اور اور یہ ہماری محرومی ہوگی کہ ہم اس کے کرامات سے فیض نہ حاصل کریں۔ ریڈیو کے کانٹے کا کمال دیکھیے کہ اپنی جگہ سے ذرا سا ہلا نہیں کہ مقام بدل گیا پروگرام بدل گیا۔ کاش! ہماری زندگی بھی ایسی ہوجائے کہ جب ہم غمگین ہوں تو ہم بھی ریڈیو کی طرح اپنے ذہن کو کسی سریلے و مست نغموں میں گم کردیں۔
ایک وقت تھا جب ریڈیو سننا لوگوں کا محبوب مشغلہ تھا مگر تیز رفتار زندگی نے اس لطیف شے سے محروم کردیا ریڈیو سننا روایت پارینہ بن چکی ہے ریڈیو کی جگہ IPod اور موبائل فون نے لے لی ہے ریڈیو اب نچلے طبقات کی شے بن کر رہ گیا مگر ریڈیو طبقات سے بالاتر اپنے جامع پروگراموں کے ساتھ ہمیں آج بھی دستک دے رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کا سماج میں جو مقام بصری یعنی Visual میڈیا کے آنے سے پہلے تھا وہ آج نہیں ہے، لیکن روز بدلتے ہوئے سماجی تقاضوں کی بدولت سمعی Audio میڈیا بھی ترقی پارہا ہے جس کا مثبت اثر ریڈیو کی بڑھتی ہوئی مانگ کی صورت میں سامنے آرہا ہے اور خاص طور پر ایف ایم چینلز کی صاف اور واضح نشریات ریڈیو کے بڑھتے ہوئے شوق میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔


Md. Akhlaque., 
34 AM Khwaja Hostel, 
Jamia Millia Islamia, New Delhi - 25
Mob.: 088022976636



ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں