29/3/19

حالی اور برکھا رُت مضمون نگار: جگر تجمل اسلام


حالی اور برکھا رُت
جگر تجمل اسلام


1837 کا سال اردو زبان و ادب کی تاریخ میں سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا، جہاں ایک طرف مولانا حالی پیدا ہوئے، وہیں اردو کو ہندوستان کی سرکاری زبان کا درجہ بھی حاصل ہوا۔1853 میں حالی نے دِلی کا رُخ کیا، دِلی کالج کی سرگرمیاں عروج پر تھیں،لیکن مغل سلطنت کا آفتاب غروب ہو رہا تھا، حالی نے اِن حالات کو بہت قریب سے دیکھا۔1861میں دوسری مرتبہ جب حالی دلی آئے اس وقت وہ فارسی،عربی اور اس وقت کے دیگر مروجہ علوم پر خاصی قدرت حاصل کر کے مولانا ہوگئے تھے۔ لیکن مولانا کو اس دفعہ روزگار کی ضرورت تھی نواب مصطفی خان شیفتہ کے بچوں کے لیے اُستاد کی ضرورت کے پیشِ نظرحالی شیفتہ کے بچوں کو پڑھانے لگے، 1869میں نواب شیفتہ کا انتقال ہوا اور حالی بے روزگار ہوگئے، اسی دوران پنجاب گورنمنٹ بُک ڈپو لاہور میں انھیں نوکری مل گئی اور انجمن پنجاب کواپنے انداز کا نیا اور باصلاحیت شاعر مل گیا۔ شیفتہ،غالب اورسرسید کی صحبت میں رہنے والے مولانا الطاف حسین،محمد حسین آزاد کی صحبت میں کیا رہنے لگے کہ ان کی ذہنی اڑان جو پہلے سے ہی جدت کی طلبگار تھی اب اور پروان چڑھنے لگی۔ اب وہ مکمل حالی ہوگئے۔دونوں نے اردو شاعری کے لیے ایک نیا خاکہ تیار کیا اور یوں جدید شاعری خصوصاً نظم کی تحریک کے لیے کوششیں تیز ہوئیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’جدید اردو شاعری کی حد بندی آزاد اور حالی کے کلام سے ہوتی ہے۔ جدید شاعری میں آزاد کی اہمیت جتنی تاریخی ہے اتنی ادبی نہیں۔ حالی نظم کے امام ہیں، انھوں نے زبان و بیان کے نئے سانچے بنائے۔‘‘
ایک طویل عرصے بعد 8مئی1874کو انجمن کا ایک اور جلسہ منعقد ہوا اس میں آزاد نے یہ بحث چھیڑی کہ اب اردو والوں کو انگریزی ادب سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ آزاد کو اردو کے شعری کلام میں کلامیت کم اور مبالغہ آرائی زیادہ نظر آرہی تھی،اس موقعے پر جو مثنوی مولانا آزاد نے سنائی اُس کا پہلا ہی مصرعہ نئی صبح کے آنے کی دستک دے رہا تھا:
اے آفتاب صبح سے نِکلا ہوا ہے تو
عالم کے کاروبار میں دن بھر پھرا ہے تو
اس موقعے پر کرنل ہالرائیڈ نے جو تقریر کی اس میں انھوں نے کہا، ’آیئے آج ہم ایسے مشاعرے کی بنیاد ڈالتے ہیں، جس میں شعرا ایک مخصوص مضمون کے تحت نظم لکھیں اور آج میں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہم ہر مہینے ایک مشاعرہ کریں اور اگلے مہینے کے مشاعرے میں شعرا حضرات ’برسات کے مُوسم ‘ کے مضمون پر نظمیں لکھیں گے۔‘‘
اَب شعرا کو مصرعہ طرح کے بجائے ایک عنوان مِلا تھا، مولانا حالی نے بھی اسی عنوان کے تحت اپنی نظم ’برکھا رُت‘ لکھی اور اس مشاعرے میں پیش کی۔مشاعرہ منعقد کرانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انگریزی نظموں کی ہیئت میں نظمیں لکھی جائیں، جیسے مصرعوں کے غیر مساوی ہونے اور بالعموم بے قافیہ اور بے ردیف ہونے کے طریقے کو اردو اور فارسی والے نظم کی صورت میں پیش کریں۔ حالانکہ محمد حسین آزاد نے پہلے ہی اس بابت کہا تھا کہ وزن، بحر، قافیہ وغیرہ کلامِ موزوں نہیں ہے،لیکن مغرب میں جس طرح نظم کے مصرعے وزن،بحر وغیرہ سے عاری ہوتے ہیں،اردو نے ان باتوں کو جوں کا توں قبول نہیں کیا،خود آزاد مثنوی کی ہیئت سے باہر نہیں آ پائے۔اردو میں مصرعے چھوٹے بڑے تو ہوسکتے ہیں لیکن بحر وزن وغیرہ لازماً ہونی چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ مولانا حالی نے اپنی نئی شاعری نئے موضوع میں تو پیش کی لیکن فنی معاملے میں اُنھیں بھی مثنوی کی ہیئت میں نظم لکھنا بہتر نظر آیا۔ تقریباً ایک سو چوالیس اشعار پر مشتعل یہ نظم اردو شاعری کے حوالے سے پہلا کامیاب تجربہ ہے،جس میں شاعر فطرت کی منظر نگاری کو تفصیلی انداز میں اس طرح سے اداکرتا ہے کہ جذبات اور محسوسات کی ایک نئی دنیا جنم لینے لگتی ہے۔
اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظم ’برکھا رُت‘، ’مقدمہ شعر وشاعری ‘کے پیمانے پر کھرا اترتی ہے یا نہیں۔ مقدمہ دراصل حالی کے اپنے شعری دیوان کا ہی مقدمہ ہے، اس مقدمے میں جو پیمانے حالی نے وضع کیے ہیں، جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ کیا انھوں نے اپنی شاعری کی پرکھ مقدمے کی کسوٹی پر کی تھی یا نہیں ؟ کیا آج تک ایسا ہوا ہے کہ کسی شاعر نے اپنے ہی کلام پر اس طرح سے مدلل گفتگو کی ہو کہ ایک نیا دبستان وا ہو جائے،حالی کی شاعری کی بڑی خوبی یہی ہے کہ حالی کے قول و فعل میں تضاد نظر نہیں آتا۔
مقدمہ میں حالی نے ان چیزوں کو خاصی اہمیت دی ہے۔سادگی،اصلیت،جوش اور فطرت نگاری،حالی لکھتے ہیں:
’’...شعر کی خوبی یہ کہ وہ سادہ ہو،جوش سے بھرا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو...نیچرل شاعری سے مراد وہ شاعری ہے،جو لفظاً و معنیًٰ دونوں حیثیتوں سے نیچر یعنی فطرت کے موافق ہو‘‘
’برکھا رت‘کے مطالعے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ہر شعر سے سادگی ٹپکتی ہے،وہیں اس سادگی میں وہ جوش پنہاں ہے کہ خوبصورتی سے واقعات کی اصلیت سامنے آجاتی ہے، شاعر نے لفظیات کو اس طرح سے برتا ہے جیسے نظم میں میر کی جامع مسجد کی سیڑھیوں کی زبان میں بات ہو رہی ہو اور یوں لگتا ہے برسات کے موضوع نے شاعر کو اپنی اور کھینچا ہو، جب ایک ایک شعر آنکھوں کے سامنے کھُلتا ہے، تو نئے نئے دریچے کھُل جاتے ہیں، یوں دل کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں۔ ایک ایک لفظ میں جوش اس سادگی سے بھرا ہے کہ کوئی بھی چیز غیر فطری (unnatural)نہیں دکھائی دیتی ہیں۔جیسے :
بازار پڑے تھے سارے سنسان
آتی تھی نظر نہ شکل انسان 
حالی کی تربیت شاعری کی قدیم روایات میں ضرور ہوئی تھی، لیکن وہ اپنے عہد کے تقاضوں اور تبدیلیوں کو سمجھ چکے تھے اس لیے انھوں نے نظم کو نئے انداز میں پیش کیا، یہ نظم اردو شاعری کی دنیا میں پہلا کامیاب تجربہ ہے، جس نے اردو شاعری میں ایک انقلاب برپا کیا، ’’ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حالی ’’پنجاب گورنمنٹ بُک ڈپو‘‘ لاہور میں جس کام کے لیے تعینات ہوئے تھے، وہ انگریزی سے اردو میں کتابوں کے ترجموں کی اردو عبارت کو درست کرنا تھا۔ اس دوران حالی کی انگریزی ادب سے مناسبت پیدا ہو گئی، پھر یہ بات فطری ہے کہ انگریزی ادب کے اثرات سیدھے طور حالی کی تخلیقات پر بھی پڑے۔ برکھارت کو ہی دیکھ لیجیے۔ نظم میں مختلف اصناف کی امیزش نظر آتی ہے۔ میری نظر میں اس نظم کو ’تین‘ حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ یوں لگتا ہے کہ شاید حالی نے بھی اس میں ڈرامائیت پیدا کرنے کے لیے اسے مختلف ابواب "Acts"میں تقسیم کیا ہے۔ تاکہ یہ نظم نئے انداز کی محسوس ہو، دوسرے حا لی کا مقصد یہ بھی تھا کہ قارئین بھی روایتی طرز عمل سے باہر آئیں۔ حالانکہ حالی نے ابواب کا کوئی نام نہیں رکھا ہے، لیکن میرے نزدیک یہ تین حصے اس طرح سے ہونے چاہیے:
(1) دیباچہ (2) اصل موضوع،اور (3) اختتام 
نظم کے پہلے شعر سے چھٹے شعر تک حالی نے نظم کا مقصد کیا ہے؟ کے بیان کرنے کی ایک بہترین کوشش کی ہے، یوں لگتا ہے کہ حالی جیسے کسی کتاب کا دیباچہ لکھ رہے ہوں،یہ اشعار بڑی خوبصورتی سے ایک ایسے منظر کا دریچہ وا کر رہے ہیں،جہاں سے ساری کہانی صاف نظر آرہی ہے۔
ان اشعار کے بعد نظم کا ’اصل موضوع‘ شروع ہوجاتا ہے کہ کن حالات میں لوگ زندگی بسر کر رہے تھے، گرمی نے زندگی کا ہر پل اجیرن بنایا تھا، حالی اس طریقے سے گرمی کا راگ چھیڑتے ہیں کہ قاری خود پسینے پسینے ہو جاتا ہے، اور آہستہ آہستہ گرمی کی کہانی تفصیل کے ساتھ سامنے آجاتی ہے، اس دلیل کو پیش کرنے کے لیے سادہ لفظوں کو برتنے میں کمال کی کاری گری کی گئی ہے:
اور صبح سے شام تک برابر
تھا العطش العطش زبان پر
تھی آگ کا دے رہی ہوا کام 
تھا آگ کا نام مفت بدنام 
ان اشعار سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظم کوئی عام نظم نہیں بلکہ کوئی مرثیہ ہے اور شاعر ماتم کناں ہے کیونکہ لفظیات کے برتاؤ نے نظم میں مرثیے کا رنگ بھر دیا ہے، پانی کی شدید قلت، بچوں کا پیاسا رہنا، جانوروں کا تڑپنا، شہر، دیہات، جنگل کے حالات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کن اذیت ناک حالات سے لوگ گزر رہے ہیں، لیکن اسی بیچ آسمان ایک اچھی خبر سناتا ہے، لوگ اچانک جنگ جیت جاتے ہیں اور خدائے بزرگ اِن کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور ایک پر سکون کیفیت طاری ہوتی ہے۔حالی اس کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
پروا کی دہائی پھر رہی ہے 
پچھوا سے خدائی پھر رہی ہے 
برسات کا بج رہا ہے ڈنکا 
اک شور ہے آسمان پر برپا 
یوں حالی برسات کی آمد پر مدح سرائی کر رہے ہیں اور زمین پر رہنے والے ہر نفس کی خوشی کو بیان کرتے ہیں، جس طرح حالی نے نظم میں گرمی کی عکس بندی کی تھی اب اسی طرح تفصیلاً برسات اور اس کے بعد کے حالات کی راگنی چھیڑی گئی ہے، یہاں پر بھی ہر چیز کا خیال رکھا گیا، خوشی میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں وغیرہ کا بھی ذکر ملتا ہے:
کوئل کی کوک جی لبھاتی
گویا کہ دل میں ہے بیٹھ جاتی
آگے چل کر حالی نے مذہبی رواداری کو بھی قائم رکھا ہے، جہاں یہ بتایا گیا کہ مسلمان کس طرح سے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، وہیں ہندو مسلم، سکھ وغیرہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ حالی مساوات اور بھائی چارے کے علمبردار تھے:
مسجد میں ہے وردِ اہل تقویٰ
یا رب لَنا وَلا علَینا 
مندر میں ہر کوئی ہے یہ کہتا
کرپا ہوئی تیری میگھ راجا 
کرتے ہیں گرو، گرو گرنتی 
گاتے ہیں بجھن، کبیر پنتھی 
قارئین کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے حالی نظم کا ذائقہ بدل کر ایک پردیسی کا ذکر چھیڑتے ہیں، جو اپنے وطن سے دور غریب الوطنی میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ ناسٹولجیک (Nostolgic)انداز اختیار کرتے ہیں دلوں کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں، جیسے یہ پردیسی خود قاری ہو:
اول کہیو سلام میرا
پھر دیجیو یہ پیام میرا
قسمت میں میری یہی تھا لکھا
فرقت میں تمھارے آئے برکھا
خلیق انجم لکھتے ہیں:
’’حالی کا لاہور میں دل نہیں لگا، انھیں دہلی یاد آتی رہی۔ وہ چاہتے تھے کہ جس طرح ممکن ہو دلی واپس چلے جائیں، لیکن ملازمت کی مجبوری... لاہور میں ان کا کوئی ایسا دوست آشنا نہیں تھا جس پر وہ اعتماد کر سکتے۔ اس لیے تنہائی کے شدیداحساس نے انھیں بہت تکلیف دی ۔۔۔ وہ وبائی امراض کا شکار ہوئے۔ حالی نے اپنی اس بے بسی اور ذہنی پریشانی پر ایک غزل بھی کہی تھی۔ غزل میں ۔۔۔ غریب الوطنی اور پردیس میں تنہائی کے شدید احساس کا بھی ذکر کیا ہے‘‘ 
اور اب آخری شعر پر نظر ڈالیے کہ کس طرح سے حالی نے نظم کو سمیٹا ہے:


پھر غور سے جو اک نظر ڈالی 
نکلا وہ ہمارا دوست حالی
یہاں پر حالی نے روایتی اندازِ بیان ترک نہیں کیا حالانکہ انگریزی نظموں میں شاعراپنا نام نہیں لاتے ہیں، لیکن یہاں پر حالی نے غزل کی طرح آخری شعر مقطع میں بدل دیا، حالی اپنا تخلص شاید اس لیے چاہتے تھے، تاکہ قارئین جان پائیں کہ اِس داستانِ غم میں،میں بھی برابر شریک ہوں، حقیقت میں یہ شعر حالی نے ان تمام لوگوں کی نذر کیاہے جنھیں غریب الوطنی میں زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ اس طرح اس نظم کا ایک المیہ اختتام ہوتا ہے۔ 
اسلم پرویز نظم برکھارُت کے متعلق گارساں وتاسی کے حوالے سے یہ عبارت نقل کرتے ہیں۔ جو دتاسی نے کسی پنجابی اخبار سے نقل کی تھی، لکھتے ہیں:
’’جس نے یہ نظم نہ پڑھی ہو، وہ پڑھ کر دیکھے،کہ شاعر نے کس خوبی سے یہ تصویربنائی ہے۔ جس نے شاعر کی زبان سے اسے سنا وہ مرحبا کہہ اُٹھا اور کوئی صاحب ذوق اس کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا... بڑی بات یہ کہ شاعر نے کوئی بے موسم کی راگنی نہیں چھیڑی ہے اور نہ حسن و عشق کے چرچے کیے، پھر بھی اس کی سادگی کام کر گئی ہے۔‘‘ 



Jigar Tajammul Islam,
 Ph.D, Scholar, 
 Kashmir University, Srinagar - 190006 (J&K)
ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2016



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں