معرکۂ چکبست و شرر
شمس بدایونی
ادب میں ان تمام
چشمکوں، رقابتوں، مناظروں، مناقشوں، مجادلوں اور معاصرانہ چھیڑ چھاڑکو ’معرکہ‘
کہتے ہیں جو دو ادیبوں، فنکاروں، عالموں یا دو گروہوں کے درمیان علم و ادب کی
بنیاد پر ظہور میں آیا ہو۔ اپنے اپنے موقف پر قائم رہنے کے لیے فریقین کچھ عقلی و
نقلی دلائل رکھتے ہیں اور اس نوع کے دلائل سے ایک دوسرے کے دلائل کا رد کرتے ہیں۔
یہ معرکے خواہ لسانی ہوں یا تحقیقی، شاعری سے متعلق ہوں یا تنقید سے، صحافت سے ان کا
تعلق ہو یا خطابت سے، بہر حال اس احساس ِانفرادیت کے تخلیق کردہ ہیں جو ایک فنکار
میں اپنی انفرادیت و فوقیت کو دوسروں سے تسلیم کرانے کے لیے جذباتی طور پر پیدا ہو
جاتا ہے۔
ادبی معرکے
مولانا عبد الحلیم شرر (ف 1926) اور پنڈت برج نرائن چکبست )ف1926) سے پہلے بھی تھے
اور بعد میں بھی رونما ہوتے رہے۔ میر و سودا ، انشا و مصحفی، آتش و ناسخ، انیس و
دبیر، ذوق اور شاگردانِ شاہ نصیر میں معاصرانہ چشمکیں اور رقابتیں رہی ہیں۔ اب سے
کچھ زمانہ قبل فراق و اثر میں بھی خوب لے دے رہی ہے۔ میدان صحافت میں اگر دیکھیں
تو مولانا عبد الماجد دریابادی اور نیاز فتحپوری، مولانا محمد علی جوہر اور خواجہ
حسن نظامی کے مابین بھی یہ معرکہ آرائی نظر آئے گی۔ تنقید میں کلیم الدین احمد
اور پروفیسر آل احمد سرور، احتشام حسین اور ڈاکٹر عبادت بریلوی میں خوب خوب چوٹیں
ہوئیں۔ رشید حسن خاں اور ڈاکٹر وحید اختر، مجنوں گورکھپوری اور ڈاکٹر محمود الہٰی
کے درمیان بھی معاصرانہ بحثیں چھڑیں۔یہ دوسری بات ہے کہ ادب میں چکبست و شرر کا
معرکہ اپنی گوناگوں خصوصیات کے سبب ایک خاص اہمیت حاصل کر گیا ہے۔ یہ ایک لامتناہی
سلسلہ ہے جو ہر دور میں بڑے فنکاروں کے درمیان رہا ہے اور رہے گا۔ ڈاکٹر عابد
پیشاوری لکھتے ہیں :
’’معرکوں
اور مناقشوں میں عموماً دو طرح کے ادیب ملوث ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو خود دوسروں پر
انگلی اٹھاتے ہیں اور جواباً ہدف تعریض بنتے ہیں۔ دوسرے وہ جو چھیڑے جاتے ہیں تو
جواباً چھیڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پہلا گروہ غالباً احساسِ برتری کا شکار ہوتا
ہے اور دوسرا پاسِ خودی سے مجبور۔‘‘
[انشا کے حریف و حلیف،
الہٰ آباد،1979 ، ص 15]
چکبست کا تعلق
اس معرکے میں دوسرے گروہ سے تھا یعنی وہ چھیڑے گئے تھے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب
جب اس معرکے کا ذکر آتا ہے تو چکبست کا نام پہلے لیا جاتا ہے یہ شاید اس لیے ہو
کہ اس معرکے میں کامیابی چکبست کے ہاتھ رہی۔
شرر کا موضوع
فکشن (Fiction) تھا لیکن اسلامی تہذیب و معاشرت بھی ان کے
حیطۂ فکر میں تھی۔ وہ بیک وقت ناول نگار ، انشائیہ نگار، صحافی، ناقد اور شاعر
تھے۔ ’محشر‘ اور ’مہذّب‘ نام کے دو اخبار وہ خود نکال چکے تھے۔ اس کے علاوہ ’اودھ
پنچ‘ (اجرا 1877) میں بھی معاون ایڈیٹر رہے تھے۔ پھر
’دلگداز‘کااجرا(جنوری1887)کیا۔ علمی زندگی میں وہ چکبست سے سینیئرتھے اور آگے
بھی۔چکبست کا خاص میدان، شاعری تھا۔ انھوں نے شاعری میں ہیئت کے اعتبار سے نظم کا
انتخاب کیا اور موضوع کے لحاظ سے قومیت و وطنیت کا۔ اگر چہ انھوں نے نثری مضامین
بھی لکھے ہیں اور ’’ صبح امید‘‘
(اجرا 1918) کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں لیکن
ان کا امتیازی وصف ان کی شاعری بنی جو قومیت و وطنیت کے مضامین سے مملو ہے۔ اس
اعتبار سے حالی کے بعد وہ پہلے نظم گو شاعر تھے جو وقت کے دو اہم موضوعات ’’قومیت
و وطنیت‘‘ کے سہارے اپنی بلند پروازی کا مظاہرہ کر رہے تھے اور لگاتار مقبولیت
حاصل کر رہے تھے۔ لہٰذا بعض مقامی لوگ یہ چاہتے تھے کہ چکبست اپنی راہ سے ہٹ
جائیں، یہی لوگ تھے جو اس معرکے کو ہوا دیتے تھے۔
اس ادبی معرکے
کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ پنڈت دیا شنکر نسیم
(ف 1845) کی مقبول زمانہ مثنوی’’ گلزار نسیم‘‘ (سالِ تالیف و اشاعت
1838/1844) کے کچھ غیر ذمے دار مطبعوں کی طرف سے شائع شدہ نسخوں میں زبان و بیان
کی بے شمار اغلاط راہ پا گئی تھیں جن کو پیش نظر رکھ کر حالی نے اس مثنوی پر پہلے
پہل ’’مقدمۂ شعرو شاعری‘‘ میں اعتراضات وارد کیے تھے۔ نسیم کے پوتے پنڈت ترلوکی
ناتھ کول جو خود ایک با مذاق اور با صلاحیت انسان تھے، نسیم کی شاعری کو اس طرح
پامال ہوتے نہ دیکھ سکے۔ ان کے خاندان میں اس مثنوی کا ایک قلمی نسخہ موجود تھا۔
1904 میں انھوں نے یہ نسخہ چکبست کے حوالے کر دیا اور ان سے اسے از سر نو مرتب
کرنے اور دیباچہ لکھنے کی درخواست کی۔ چکبست نے اسے جدید اصولوں پر ترتیب دیا۔
یعنی سب سے پہلے 31 صفحات پر مشتمل مقدمہ جس میں نسیم کے سوانحی حالات کے ساتھ
ساتھ ان کی شاعری کا جائزہ بھی شامل تھا۔ اس کے بعد اصل مثنوی، جو قدیم قلمی نسخے
کے مطابق مرتب کی گئی تھی۔ آخر میں نسیم کے کلام کا کچھ انتخاب۔ اس ترتیب سے
فروری1905 میں اس مثنوی کا نیا ایڈیشن باسم ’’مثنوی گلزار نسیم مع دیوان نسیم‘‘
مطبع منشی جے نرائن ورما، لکھنؤ میں طبع ہو کر شائع ہوا۔
اس ایڈیشن میں
شامل مقدمہ اگرچہ اپنی جگہ تنقیدی استحکام رکھتا تھا اور بر محل بھی تھا لیکن کسی
قدر جوش اور امنگ میں لکھا گیا تھا، اس لیے’’ گلزار نسیم ‘‘سے متعلق بعض کمزور
روایات اور حالی کے اعتراضات بھی زیرِ قلم آ گئے جو وجہ نزاع بن گئے۔ مولوی عبد
الحلیم شرر نے اس مقدمے کا نوٹس لیا اور اپنے رسالے ’’دلگداز‘‘ (مارچ و اپریل
1905) میں اس پر سخت انداز میں تبصرہ کیا۔ اس تبصرے میں حسب ذیل امور سے بحث کی
گئی تھی :
الف: گلزار
نسیم، آتش لکھنوی (استادِ نسیم ) کی تصنیف ہے جو بعض مصلحتوں کی بنا پر نسیم کے
نام سے شائع ہوئی۔
ب: اس کی زبان
لکھنؤ کی مستند زبان نہیں۔
ج: اس میں زبان
و بیان کی بے شمار اغلاط ہیں۔ مثال میں بعض اشعار بھی پیش کیے گئے۔
اس بے رحمانہ
اور غیر منصفانہ تبصرے کو چکبست کی غیور طبیعت برداشت نہیں کر سکی۔ باوجود کم عمری
کے وہ ایک بزرگ اور معمر ادیب سے ٹکر لینے پر آمادہ ہو گئے۔ اس طور پر بحث و
مباحثے کا بازار گرم ہو گیا۔ ’’اودھ پنچ‘‘ (لکھنؤ )نے اس بحث میں چکبست کا ساتھ
دیا اور بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پہلا جواب ’’اودھ پنچ ‘‘ہی کی 11 مئی 1905 کی
اشاعت میں شائع ہوا۔ یہ جواب اداریے کی شکل میں تھا۔ پہلے اور دوسرے اعتراض کو
بنیاد بنا کر بہت ہی واضح اور اصولی بات یہ کہی گئی تھی کہ اگر ہم’’ گلزار نسیم‘‘،
کو بقول شرر آتش کی تصنیف مان لیں تو اس پر وارد شررکے اعتراضات اور اس کی زبان
کو لکھنؤ کی غیر مستند زبان کہنے والے جملہ افراد کے بیانات متضاد ہو جاتے ہیں
کیوں کہ آتش کی زبان لکھنؤ کی مستند زبان ہے جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ میں
یہ لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ شرراس واضح اور اصولی بات کو سمجھ نہیں سکے
تاہم انھوں نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا اور کچھ اس طور پر ’ریاض الاخبار‘کی 16
جون 1905 کی اشاعت میں جواب دیا کہ فریقین کی ستیز آمادگی میں مزید جوش پیدا ہو
گیا۔
اس زمانے میں
’اودھ پنچ‘ بڑے ذوق و شوق سے پڑھاجاتا تھا۔ منشی سجاد حسین کاکوروی (ف 1915) مدیر’’اودھ پنچ ‘‘ چکبست کے حلیفوں
میں سے تھے۔ شرر منشی سجاد حسین کی ٹانگ بھی گھسیٹ چکے تھے اور جوش میں آکر یہاں
تک لکھ گئے تھے:
’’منشی
سجاد حسین صاحب نے کچھ ایسی گھڑی میں جنم لیا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا جب
کوئی جھگڑا ہوتا ہے تو وہ ہندوؤں کا ساتھ دیتے ہیں اور اسی اصول پر گلزار نسیم کی
طرف داری کر رہے ہیں۔‘‘
[پیام یار، اپریل 1905]
منشی سجاد حسین
بھلا یہ مذہبی حملہ کب برداشت کرنے والے تھے، انھوں نے بھی شرر کو آڑے ہاتھوں
لیا۔ ’’اودھ پنچ‘‘ کے ایک مضمون کی سرخی دیکھیے:
شرر کہتا ہے میں
چکنا گھڑا ہوں
جو تو چکبست ساون کی جھڑی ہے
یا
نکلا جو رن میں
پنچ کا خنجر غلاف سے
اڑنے لگے شرر
دمِ خارا شگاف سے
الغرض یہ معرکۂ
عدل کھنچتا گیا۔ شرر اور چکبست دونوں کی جانب سے جواب الجواب دینے والوں اور رائے
زنی کرنے والوں کی ایک لمبی صف تیار ہو گئی۔ ملک کے بیشتر اہل قلم اس بحث میں حصہ
لینے لگے۔ مختلف اخباروں اور رسالوں نے خود کو اس معرکے کے لیے وقف کر دیا اور ہر
چھوٹی بڑی اہم غیر اہم تحریر کو شائع کر کے کسی ایک فریق کی ہم نوائی میں آواز
بلند کرنے لگے۔
اس معرکے میں
علمی مباحث بھی ہوئے اور ذاتیات پر حملے بھی۔ شرر کی طرف سے حسن افضل بدر بدایونی
اور حکیم برہم گورکھپوری (ف1929) ان کی حمایت میں آئے اور چکبست پر انھوں نے خوب
خوب چوٹیں کیں۔ لکھنؤ کے ایک عطر فروش اس زمانے میں ایک گلدستہ ’پیام یار‘ (اجرا،
جنوری 1838) کے نام سے نکالتے تھے، اس میں بھی چکبست پر پھبتیاں کسی جاتیں جو
تہذیب و شائستگی سے گری ہوتیں۔
ایک مضمون میں
’’اودھ پنچ ‘‘کے مدیر منشی سجاد حسین پر کچھ فحش جملے لکھے گئے اور آوازے کسے
گئے۔ ان پھبتیوں کے رد عمل میں یہ غزل ظہور میں آئی جو اودھ پنچ 9نومبر1905 کی
اشاعت میں شامل ہوئی۔ اس غزل کے خالق چکبست تھے :
زلف جاناںکی طرح
ہے ٹانگ بل کھائی ہوئی
اُف تری گندھی
جوانی جوش پر آئی ہوئی
’پیام
یار‘ کے مدیر محمد نثار حسین نثارکی ایک ٹانگ گھومی ہوئی تھی۔ پہلے مصرعے میں اسی
طرف اشارہ ہے۔ اس شعر پر’’اودھ پنچ ‘‘کا نوٹ بھی کیا خوب تھا، ’’قسم خدا کی کیا
جوش ہے معلوم ہوتا ہے بوتل کا کاگ اڑا جاتا ہے۔ بوتلوں کا کاگ نکالتے نکالتے ایک
ٹانگ پینچ کش ہو گئی :
اس طرح گرما گیا
گندھی، کہ گندھک ہو گیا
رنگ لائی ہے شرر
کی آگ بھڑکائی ہوئی
مرد سے مردک سنا
تھا مگر گندھی سے گندھک چکبست نے وضع کیا۔ شرر اور گندھک کی رعایت بھی قابل داد ہے
:
دیکھنا انصاف اس
پروردگار پاک کا
پردہ در کی
پردۂ عصمت سے رسوائی ہوئی
شرر پردے کے
مخالف تھے۔ اور اس غرض سے ایک رسالہ ’پردہ ٔ
عصمت‘ نکالتے تھے :
ہے حلیمن
سرنگوں، بدرالنسا ہے شرم سار
اک ’پیام یار‘
سے دونوں کی رسوائی ہوئی
چور کی داڑھی کے
تنکے کی پھر یری ہو بہم
آج کل گندھی کے
دل میں ہے یہ دُھن آئی ہوئی
بیکسی پر اپنی
روکر یہ حلیمن نے کہا
لکھنؤ کی صبح
مجھ کو شامِ رسوائی ہوئی
ہوش اڑ جائیں گے
گندھی کے مثالِ بوے عطر
ہے اگر طبعِ
جنابِ غاد گرمائی ہوئی
ہے بیابانی کے
تکیے پر جو املی کا درخت
پھر اسی کی اک
گلہری رنگ ہے لائی ہوئی
بیابانی کے تکیے
پر حضرت شرر رہتے تھے اور مکان میں املی کا درخت تھا۔ حلیمن اور بدر النسا
بالترتیب عبد الحلیم شرر اور حسن افضل بدر کے ناموں کی تانیثی صورتیں ہیں۔
یہاں سے یہ
تحریری معرکہ مجاد لے کی شکل اختیار کر گیا اور علمی بحث و تمحیص کی جگہ طنز و
تعریض، سب و شتم اور ظریفانہ شاعری کے پردے میں ایک دوسرے کی تذلیل کے سامان فراہم
کیے جانے لگے۔ جان صاحب کی ریختی اسی دوران ظہور میں آئی۔ اس ریختی کو پڑھتے وقت
لفظ ’’حمل‘‘ کو ذہن نشیں رکھنا ہوگا۔ شرر کا اس لفظ پر یہ اعتراض تھا کہ مثنوی میں
جابجا حَمَلْ نظم ہوا ہے۔ جب کہ صحیح تلفظ اس کا حَمْلْ ہے۔ یعنی ح پر فتحہ اور م
و لام ساکن۔ ریختی ملاحظہ کیجیے :
بنے زباں دان
ایرے غیرے، تمام اس لکھنؤ میں آکر
دو گانہ جانی یہ
وہ مثل ہے، ملے شہیدوں میں خوں لگا کر
خدا ہی سمجھے گا
اس سے باجی حمل بگاڑا ہے جس نے میرا
کروں گی رسوا
میں سارے عالم میں خوب نکّو اسے بنا کر
نہ جان پر میری
رحم کھایا، نہ اپنی ذلت کا دھیان آیا
گرایا میری زباں
کا پایہ، حمل میں بیکار یہ بڑھا کر
ہیں طرفہ معجون
یہ دہاتی، سمجھ پہ ان کی پڑی ہے پٹکی
جہاں ہوئی بحث
شاعری کی، چلے بغل میں لُغت دباکر
حمل فصاحت ہے
شاعروں کی، لغت ہو ملاؤں کو مبارک
جو حمل سننے کی
آرزو ہے، رہیں فرنگی محل میں جاکر
میں صاف ڈنکے کی
چوٹ کہتی ہوں، نظم میں نے حمل کیا ہے
اگر نہ مانو
اٹھاؤ تیسوں کلام، صاحب ابھی منگا کر
ہزار کوشش کریں
میاں جی، یہ حمل قائم نہیں رہے گا
ہیں جن کی
آنکھیں وہ خود ہی دیکھیں، ہمارا دیواں ذرا اٹھاکر
خراب مٹی ہے
شاعروں کی، اجڑ گیا شہر لکھنؤ کا
زبان تھی مستند
جہاں کی، وہاں دہاتی بسے ہیں آکر
مُوا تصرف یہ کیا
بلا ہے، یہ وہ زمانہ ہے باجی اماں
گواہیاں دیتے
ہیں مسلمان، جو جھوٹے قرآں اٹھا اٹھا کر
سزا ہے ان کی،
دہاتیوں کو جنھوں نے بے کار سر چڑھایا
یہ تال بے تال
کیوں نہ ناچیں، کیا خراب ان کو منھ لگا کر
زباں سے خاک ان
کو مس نہیں ہے، حسد کی ہے آگ دل میں روشن
ہوائیں اپنی یہ
باندھتے ہیں، نسیم کا مضحکہ اڑا کر
جو یہ تعصب کھلا
کھلا ہے، چلے گا ڈھونگ اتحاد کا کیا
یہ کچی دیوار
بیٹھ جائے گی ایک دن آپ پھس پھسا کر
جو ایک مجھ کو
کوئی کہے گا، مری زباں سے وہ دس سنے گا
محل کی لونڈی
نہیں ہے بندی، جو منھ میں رہ جائے گڑ گڑا کر
یہ اچھی مضموں
نگاریاں ہیں، کہ غیر کی آڑ میں ہیں کہتے
چلے تو ہیں
ناچنے کو صاحب مگر ہیں گھونگھٹ میں منھ چھپا کر
دبیل بندی نہیں
کسی کی اڑا کے رکھدوں گی دھجیاں میں
نہ جان صاحب پہ
منھ کی آئیں، یہ پنچ مرزا سے منھ کی کھا کر
[ اودھ پنچ ،لکھنؤ، 13جولائی
1905]
اس معرکے سے
متعلق چکبست کے مضامین تنقیدی توازن کے بہترین نمونے ہیں۔ ’’اردوئے معلی‘‘ اور’’
اودھ پنچ ‘‘میں ان کے جو مضامین شائع ہوئے وہ ان کی دقتِ نظر اور علمی لیاقت کے
مظہر ہیں۔ مباحثہ’’ گلزار نسیم ‘‘کے مؤلف مرزا محمد شفیع شیرازی لکھتے ہیں:
’’انصاف
ہمیں یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ جناب چکبست کے قلم سے جو مضامین جناب شرر کے
اعتراضات کے جواب میں شائع ہوئے، ان میں پوری شان تنقید قائم ہے، اور اپنے مخالفین
کی شان میں ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا ہے جو مذاقِ سلیم کے پائے سے گرا
ہوا ہو۔‘‘
[مباحثہ
گلزار نسیم، لکھنؤ،1942 ، ص 4]
یہ حقیقت ہے کہ
چکبست کی کوشش یہی رہی کہ ان کا قلم کسی غیر سنجیدہ انداز و اسلوب سے آلودہ نہ ہو
لیکن تقاضائے بشریت سے وہ بھی دامن نہ بچا سکے اور کہیں کہیں اینٹ کا جواب پتھر سے
دینے والے مقولے پر بھی عمل کر گئے ہیں۔ مذکورہ صدر ریختی کے علاوہ مندرجۂ ذیل
رباعیاں بھی شرر کی شخصیت پر چوٹ کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ تمام کلام چوں کہ چکبست نے
فرضی ناموں سے شائع کرایا لہٰذا ان کے دیوان’’ صبح وطن‘‘ (طبع اول، لکھنؤ، 1918) میں موجود نہیں۔
رباعیاں حسب ذیل
ہیں:
بت کی وقعت نہیں
خدا کے آگے
کیا زاغ کا رتبہ
ہے ہما کے آگے
بے کار نسیم سے
بگڑتے ہیں شرر
چنگاری ہے کیا
چیز ہوا کے آگے
جب غیض سے گرما
کے بگڑتے ہیں شرر
پھولوں کے عوض
دہن سے جھڑتے ہیں شرر
لیکن یہ نسیم سے
بگڑنا کیا خوب
سبحان اللہ ہوا
سے لڑتے ہیں شرر
یا
تو فخرِ آغانی
شد وفا ساقط ازو
تو ماہر دیں
ہستی و ہا ساقط ازو
آتش زنِ اتحادِ
باہم ہستی
نام تو شرر ہست،
و را ساقط ازو
مذکورہ تینوں
رباعیاں بالترتیب میر انیس، مرزا دبیر اور سودا کے نام سے ’’اودھ پنچ ‘‘لکھنؤ کے 24 اگست 1905کے شمارے میں شائع ہوئی تھیں۔
پنڈت تر لوکی ناتھ کول نے اپنے مضمون
(اے مصحفی میں روؤں کیا اگلی صحبتوں کو ...الخ) مشمولہ ماہنامہ ’’بہار
کشمیر ‘‘لاہور، فروری 1939 کے چکبست نمبر میں ریختی جان صاحب اور اس غزل کو جوسطور
بالا میں درج ہوئی نیز تینوں رباعیوں کو چکبست ہی کا ظریفانہ کلام قرار دیا ہے جو
قرین قیاس ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ چکبست نے مضامین میں جس متانت و سنجیدگی اور
علمی دیانت داری کا مظاہرہ کیا نظم میں وہ اسے بروئے کار نہیں لا سکے اور رعایت
لفظی کا سہارا لے کر شرر کو دہاتی، ملّا، غیر زباں داں، دہاتی، اتحاد کو جلا دینے
والے، نسیم کے مقابل چنگاری کی سی حیثیت رکھنے والے غرض کہ طنز ومزاح کے پیرائے
میں اپنے دل کا بخار نکالنے میں کمی نہ کی۔ اس کے علاوہ ’’اودھ پنچ ‘‘میں 30
جولائی1905 سے 16نومبر1905 تک آتش کے خطوط کا سلسلہ ’’جنت کی ڈاک‘‘ کے عنوان سے جاری رہا جس میں
12 خطوط آتش کی طرف سے شرر کے نام شائع ہوئے تھے۔ ان ظریفانہ خطوط کے مصنف بھی
چکبست ہی تھے۔ مرزا محمد شفیع شیرازی لکھتے ہیں :
’’سنجیدہ
مضامین کے علاوہ جو مضامین ’’اودھ پنچ‘‘ میں ’’جنت کی ڈاک‘‘ کے سلسلے میں آتش کے
خطوط کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں وہ بھی لوگ چکبست کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ہم کو
بھی ذاتی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ مضامین مذکور جناب چکبست کے لکھے ہوئے ہیں۔‘‘
[دیباچہ ،مباحثہ گلزار نسیم، ص4]
مذکورہ صدر
منظوم کلام اور خطوط سے پتا چلتا ہے کہ چکبست کی شخصیت میں ایک عظیم طنز نگار اور
مزاح نگاربھی چھپا ہوا تھا جس پر انھوں نے مصلحتاً پردہ ڈالے رکھا۔ چکبست کی شخصیت
و شاعری کا یہ پہلو ہنوز توجہ کا منتظر ہے۔
معرکۂ چکبست و
شرر میں حصہ لینے والوں کی تعداد کثیر تھی۔ چکبست و شرر کے حریفوں اور حلیفوں میں
یوں تو خاصی تعداد میں لوگ ہیں لیکن یہ چند نام اہم ہیں :
منشی سجاد حسین
کاکوروی (ف 1915)، منشی احمد علی شوق قدوائی (ف1925)، نقاد لکھنوی یعنی منشی نوبت
رائے نظر (ف 1923)، حافظ جلیل حسن جلیل مانک پوری (ف 1946)،حکیم برہم گورکھپوری
(ف1929)، سید محمد ضامن کنتوری (ف1946)، مظہر الحق (ف 1930) اور حسن افضل بدر
بدایونی۔
یہ معرکہ 1905
کے اوائل میں شروع ہوا ( شرر کے تبصرے کی اشاعت کے فوراً بعد اپریل 1905) اور
اواخر 1905 (دسمبر1905) میں ختم ہو گیا۔ تقریباً دس سال کے بعد چکبست نے اس معرکہ
کو ایک لطیف یاد کی صورت میں متشکل کرتے ہوئے لکھا:
’’اودھ
پنچ ‘‘کا آخری یادگار معرکہ’’ گلزار نسیم‘‘ کا مباحثہ ہے۔ اس کی ابتدا اس طرح
ہوئی کہ لکھنؤ کے مشہور افسانہ نویس مولانا شرر نے ’’گلزار نسیم ‘‘کی زبان اور
شاعری پر اعتراض شائع کیے اور اسی کے ساتھ تاریخی حیثیت سے یہ بھی لکھا کہ یہ
مثنوی اصل میں آتش کی تصنیف ہے نسیم کا نام محض فرضی ہے۔ ’’اودھ پنچ ‘‘نے اپنی
پرانی وضع کے مطابق ان معروضات کا خاکہ اڑایا اور سب سے بڑی گرفت یہ کی کہ اگر یہ
مثنوی آتش کی تصنیف ہے تو اس میں زبان اور محاورے کی شرم ناک غلطیاں کس طرح نظر
آتی ہیں۔ مولانا شرر نے اس اشارے کو کافی نہیں سمجھا اور اس عنوان سے جواب دیا کہ
فریقین کی طبیعتیں جوش پر آگئیں اور ’’اودھ پنچ‘‘ کی بجھتی ہوئی آگ کچھ ایسی
بھڑکی کہ اس کی آنچ دور دور تک پہنچی۔’’گلزار نسیم ‘‘کا قصہ تو درکنار رہا،
مولانا شرر کی زباں دانی اور نثر نگاری پر اعتراضات شائع ہونے لگے اور عرصے تک نظم
و نثر کی پھل جھڑیاں چھوٹا کیں۔ یہ سلسلہ بھی سال بھر بعد ختم ہوا۔ اس بحث کے غیر
لطیف حصے کے علاوہ نفس مضمون کے متعلق جو مضامین نکلے ان میں اکثر زبان و محاورے
کی تحقیقات کا خاص لطف موجود ہے۔‘‘
[مضامین چکبست،
الہٰ آباد، 1928، ص234]
اس معرکے سے
متعلق مضامین کو مرزا محمد شفیع شیرازی نے’’ مباحثۂ گلزار نسیم‘‘ (معرکۂ چکبست و
شرر) کے نام سے مرتب کیا اور منشی نولکشور پریس لکھنؤ نے 1942 میں اسے شائع کیا۔
تاریخ ادب میں یہ مضامین اس معرکے کی پر لطف یادگار اور روداد کی حیثیت اختیار کر
گئے ہیں۔ فراق گورکھپوری نے ایک جگہ لکھا ہے :
’’دنیا
جانتی ہے کہ اس معرکے میں مولانا شرر نے منھ کی کھائی لیکن سوائے چکبست کے کسی اور
کا کام بھی نہیں تھا کہ قلم کے اس سورما (شرر) سے ٹکر لے سکے۔‘‘
[نیا
دور ،لکھنؤ، ستمبر1964 ، ص39]
چکبست، شرر سے
تقریباً 23 سال چھوٹے تھے۔ معرکے کے وقت یعنی 1905میں شرر (ولادت 1859) کی عمر 46
سال اور چکبست (ولادت 1882) کی عمر 23 سال کی تھی۔ چکبست کا یہ تعلیمی دور تھا اور
اس وقت تک سوائے مثنوی’’ گلزار نسیم ‘‘کے ان کی کوئی تالیف یا تصنیف شائع نہیں
ہوئی تھی۔ شرر کو شاید یہ گمان رہا ہوگا کہ یہ طفل ادب اور شاعر محض کیا میرے منھ
آئے گا لیکن چکبست کی ذہانت اور علمی
لیاقت و فراست کو اہلِ لکھنؤ نے محسوس کر لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس معرکے میں
اہل لکھنؤ نے ان کا بھر پور ساتھ دیا اور وہ شرر پر غالب آئے۔ آج 101 سال 06
ماہ بعد جب اس معرکے کے بارے میں راقم
الحروف یہ سطور لکھ رہا ہے تو بیساختہ میر سوز کا یہ شعر حافظے سے چھن کر باہر آ
گیا :
اس طرح جی کہ
بعد مرنے کے
یاد کوئی تو گاہ
گاہ کرے
پتہ:
شمس بدایونی
58,
New Azad Puram Colony
Izzat Nagar, Bareilly, (U. P.)
سہ ماہی ’ فکر و
تحقیق، جنوری تا مارچ 2008
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں