24/7/20

دیوانِ رضا میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کا استعمال اور ان کی معنویت مضمون نگار: محمد احمد نعیمی




دیوانِ رضا میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کا استعمال
اور ان کی معنویت
محمد احمد نعیمی

تلخیص
امام احمد رضا خاں قادری حنفی (پ1856 / 1272ھ م 1921/1340ھ) غیر منقسم ہندوستان کے ایک مشہور فقیہ، محدث، مفسر، مترجم قرآن اور نعت گو شاعر تھے۔پچاس سے زائد علوم و فنون میں آپ کو مہارت حاصل تھی۔ مختلف موضوعات پر آپ کی سیکڑوں تصانیف پائی جاتی ہیں جن میںتقریباً دو سو پچاس سے زائد کتب زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ مذکورہ بالا علوم و فنون کے علاوہ شعر و سخن بالخصوص نعتیہ شاعری کے میدان میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے جس کا زندہ ثبوت آپ کا نعتیہ دیوان ’حدائق بخشش‘ ہے جس میں آپ نے مدحِ رسول اور ثنائے رسول کے گراں قدر گوہرِ نایاب لٹائے ہیں اورنعتِ رسول کو انتہائی جاذب و مسحور کن شعری جامہ پہنایا ہے۔
امام احمد رضا خاں کی نعتیہ شاعری میں اردو، عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت اور علاقائی زبانو ںکا حسین امتزاج ملتا ہے۔ آپ اردو، عربی، فارسی کے علاوہ ہندی، سنسکرت، علاقائی اور مقامی زبانوں اور بولیوں پر بھی عالمانہ دسترس رکھتے تھے اور بنا کسی تکلف کے حسبِ ضـرورت ان کے الفاظ کا استعمال فرماتے تھے۔
مولانا احمد رضا خاں کے دیوان’’حدائقِ بخشش میں ہندی، ہندوستانی، علاقائی، بھوجپوری اور سنسکرت وغیرہ کے الفاظ اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں کہ جو ایک طویل تحقیقی مقالہ کے متقاضی ہیں۔ آپ نے اپنے نعتیہ کلام میں اس حسن و خوبی کے ساتھ ان کو نظم و منسلک کیا ہے کہ ماہرینِ لسانیات اور دانشورانِ شعر و ادب کو بارہا یہ کہتے سنا ہے کہ مختلف زبانوں کا ایسا حسین امتزاج اور سندر سنگم شاید و باید ہی کہیں دیکھنے کو ملتا ہے۔
دیوانِ رضا نے ہندی یا ہندوستانی زبان کے حوالے سے ایک اور عظیم کارنامہ انجام دیا ہے اور وہ یہ کہ بہت سے الفاظ متروک ہوگئے تھے اور بہت سے الفاظ کمتر سمجھ کر حقارت و پستی کے تاریک غار میں ڈھکیل دیے گئے تھے لیکن مولانا احمد رضا خاں نے اپنے دیوان میں ان کو مناسب مقام اور موزوں شکل دے کر معراجِ لفظی اور ادبی بلندیوں سے ہمکنار کیاہے۔
مختصر یہ کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کی شاعری ادبی و شعری تنوع اور مختلف زبانوں کی بوقلمونی سے مرصع و مسجع ہے،جس میں اردو، عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت اور ہندوستانی الفاظ کے حسین سنگم اور گنگا جمنی تہذیب کے بہترین تصور کی رعنائیاں جابجا بحسن و خوبی نظر آتی ہیں۔
کلیدی الفاظ
نعتیہ شاعری، مولانا احمد رضا خاں، دیوان رضا، ہندی، سنسکرت، جدید آریائی زبانیں، صوفیا، علما، سلاطین، مقامی زبان، منقبت، حدائق بخشش
—————
امام احمد رضا خاں قادری حنفی (پ1856 / 1272ھ م1921/1340ھ) غیر منقسم ہندوستان کے ایک مشہور فقیہ، محدث، مفسر، مترجم قرآن اور نعت گو شاعر تھے۔پچاس سے زائد علوم و فنون میں آپ کو مہارت حاصل تھی، جن میں تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، عقائد وکلام، تصوف، صرف و نحو، ادب و بلاغت، تاریخ و تہذیب، منطق و فلسفہ، علمِ نجوم و علمِ رمل، علم ریاضی و زیجات اور شعر و ادب جیسے علوم شامل ہیں۔ آپ کی حیات ہی میں غیر منقسم ہندوستان اور عرب ممالک کے علماء و فقہاء نے آپ کو ایک بے مثال فقیہ اورمتبحر عالم تسلیم کیا ہے۔ دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں آپ کی علمی خدمات پر بہت سی پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں ایوارڈ کی جاچکی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مختلف موضوعات پر آپ کی سیکڑوں تصانیف پائی جاتی ہیں جن میںتقریباً دو سو پچاس سے زائد کتب زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ جن میں کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ اور ترجمۂ قرآن کنزالایمان، الامن و العلیٰ، فوزِ مبین در ردِ حرکتِ زمین اور جد الممتار وغیرہ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ 1؎
مذکورہ بالا علوم و فنون کے علاوہ شعر و سخن بالخصوص نعتیہ شاعری کے میدان میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ آپ نے قرآن و حدیث، ذاتِ رسول، اوصافِ رسول، محاسنِ رسول، سیرتِ رسول، عظمتِ رسول، معجزاتِ رسول اور واقعاتِ رسول وغیرہ کو اس طرح صنفِ نعت کے قالب میں ڈھالا ہے کہ اردو نعتیہ شاعری میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ جس کا زندہ ثبوت آپ کا نعتیہ دیوان ’حدائق بخشش‘ ہے جس میں آپ نے مدحِ رسول اور ثنائے رسول کے ایسے گراں قدر گوہرِ نایاب لٹائے ہیں اورنعتِ رسول کو ایسا منظوم شعری جامہ پہنایا ہے کہ داغ دہلوی جیسے استاد شاعر پکار اٹھتے ہیں:
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے  ہو  سکِّے  بٹھا دیے  ہیں 2؎
 پروفیسر ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ آزاد کہتے ہیں:
’’اردو کی نعتیہ شاعری کا ایک معتبر و مستند نام ہے مولانا احمد رضا خاں صاحب جنھوں نے نعت کے فروغ و ارتقاء میں بہت اہم کام کیا ہے۔ ان کا دیوانِ نعت حدائقِ بخشش تین جلدوں میں ہے۔ تبحر علمی، زورِ بیاں، وابستگی اور عقیدت ان کی نعتوں میں یوں گھل مل اور رچ بس گئے ہیں کہ اردو نعت میں ایسا خوشگوار امتزاج کہیں اور دیکھنے کو نہیں آتا۔‘‘ 3؎
امام احمد رضا خاں کی نعتیہ شاعری میں اردو، عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت اور علاقائی زبانو ںکا حسین امتزاج ملتا ہے۔ آپ اردو، عربی، فارسی کے علاوہ ہندی، علاقائی اور مقامی زبانوں اور بولیوں پر بھی عالمانہ دسترس رکھتے تھے۔ اپنے اس مقالہ میں ہمیں ’دیوانِ رضا میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کا استعمال اور ان کی معنویت‘ کے تعلق سے ایک تحقیقی جائزہ لینا ہے اور دلائل و امثال کی روشنی میں یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ امام احمد رضا خاں بہترین ماہرِ لسانیات بھی تھے۔ دیگر زبانوں کی طرح وہ ہندی اور سنسکرت زبان سے بھی بخوبی واقف تھے اور بنا کسی تکلف کے حسبِ ضـرورت وہ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا بھی استعمال فرماتے تھے۔
دیوانِ رضا میں ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا تحقیقی جائزہ لینے سے قبل ضروری ہے کہ پہلے ہندی زبان کے تخلیقی، تاریخی اور ارتقائی حقائق کا بھی مختصر تحقیقی مطالعہ کیا جائے تاکہ اس کی آفرینش، تربیت و پرورش اور استعمالی روش کے خدوخال بھی بخوبی آشکارا ہوجائیں۔
ہندی‘ لفظ کا آغاز و ارتقا
ہندی حقیقت میں فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنیٰ ہے ’ہندی کا‘ یا ’ہندی سے متعلق‘۔ ہندی لفظ ہندو سے مشتق و ماخوذ ہے جو کہ ایک جدید لفظ ہے اس معنیٰ کر کہ ہندوستان کے قدیم مذہبی ادب اور مذہبی تاریخ میں یہ لفظ نہیںپایا جاتا ہے۔ سوا شبد کلپدرم کے اور شبد کلپدرم کی بنیاد میروتنتر ہے جو قدیم ثابت نہیں ہوتا۔ ہاں فارسی لغات میں ہندو لفظ ضرور ملتا ہے اور اس سے نکلے ہوئے مختلف الفاظ بھی جیسے ہندوستان، ہندسا، ہندی اور ہندو۔ (سوامی، اننیا نند،ہندو دھرم کا سارو بھوم تتوکلکتہ، ادویت آشرم، 1997، ص1) نیز ہندو علماو محققین کہتے ہیں کہ جن جن سنسکرت گرنتھوں اور مذہبی کتابوں میں ’ہندو‘ لفظ آیا ہو انھیں بھی جدید ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ اگر یہ لفظ قدیم سنسکرت رہتا تو ویدوں میں نہ سہی، کم از کم اسمرتیوں، پرانوں، مہابھارت اور قدیم لغات (شبد کوش) میں ضرور پایا جاتا اور تو اور ہماری قدیم لغت (کوش گرنتھ) امر کوش بھی اس ہندو لفظ سے پوری طرح ناواقف ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو لکھتے ہیں:
’’ہمارے قدیم مذہبی ادب میں تو ہندو لفظ کہیں آتا ہی نہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس لفظ کا حوالہ ہمیں جو کسی ہندوستانی کتاب میں ملتا ہے وہ آٹھویں صدی عیسوی کے ایک تانترک گرنتھ میں ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ لفظ بہت قدیم ہے اور اویستا میں اور قدیم فارسی میں آتا ہے۔‘‘ 4؎
حقیقت یہ ہے کہ قدیم ہندوستانی لوگ اس لفظ سے نابلد تھے۔ سب سے پہلے اس کا استعمال قدیم ایرانیوں اور عربوں نے کیا اور وہ بھی صرف جغرافیائی یا ایک مخصوص قوم و آبادی کے ترجمان کی حیثیت سے۔ کیونکہ یہ معنی ایک خاص مذہب تو گیارہویں صدی عیسوی یا اس کے بعد کی ایجاد ہے۔ 5؎
ہندی زبان کے مشہور قومی شاعر اور مفکر رام دھاری سنگھ دِنکر لکھتے ہیں:
’’ہندو لفظ ہمارے قدیم ادب میں نہیں ملتا ہے۔ بھارت ورش میں اس کا سب سے پہلا ذکر آٹھویں صدی عیسوی میں لکھے گئے ایک تنتر گرنتھ میں ہے۔ جہاں اس لفظ کا استعمال مذہبی معنی یا مذہبی رسم کے طور پر نہیں کیا گیا ہے بلکہ ایک گروہ یا ذات کے معنی میں کیا گیا ہے۔‘‘ 
مشہور ہندو محقق رجنی کانت شاستری اس تعلق سے یوں رقم طراز ہیں:
’’اگرچہ لفظ ہند وپارسیوں کی ہزاروں سال پہلے لکھی مذہبی کتاب ’دساتیر‘ میں ملتا ہے جس میں ہمارے ملک کو ہند اور ہمیں ہندو کہہ کر پکارا گیا ہے۔ چنانچہ دساتیر میں مرقوم ہے ’’اکنوں برہمن ویاس نام از ہند آمد پس دانا کہ عقل چناں نیست‘‘ یعنی ویاس نامی ایک برہمن ہند سے آیا جس کے برابر کوئی دوسرا عقل مند نہیں۔‘‘
یقینا یہ ویاس مہابھارت اور اٹھارہ پرانوں کے قلم کار مہرشی کرشن دوے پاین وید ویاس ہی ہوں گے تبھی ان کی عقل مندی کو بے مثال کہا گیا ہے۔ اور اسی کتاب میں ’ہندی‘ لفظ کا استعمال ہند والے کے معنی میں ہوا ہے۔ مثلاً      ؎
چوں ویاس ہندی بلخ آمد
گشتا شپ زبردشت را خواند
یعنی جب ہندو الا ویاس بلخ آیا تو ایران کے بادشاہ گشتا شپ نے زبردشت کو بلایا۔ یہ زبردشت یا زرتُشت پارسی دھرم کا بانی تھا۔ نیز آگے لکھا ہے     ؎
من مردے ام ہند نزاد، و ہند باز بازگشت
یعنی میں ہند میں پیدا شدہ ایک مرد ہوں اور پھر وہ ہند کو لوٹ گیا۔7؎
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’ہندو‘ لفظ کی اصل یا ماخذ اوراس کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ تو اس سلسلے میں ہندو دھرم اورہندوستان کی تاریخ سے متعلق مختلف کتب میں بہت سے حوالہ جات و اقوال موجود ہیں لیکن قریب قریب سب کا ماحصل ایک ہی معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بھارت کا یہ نام غیر ملکیوں کا دیا ہوا ہے۔ سنسکرت اور ویدوں کے عظیم محقق و مفکر ڈاکٹر وید پرکاش اُپادھیائے، ویوگ ہری، سوامی اننیانند، ہندی کے مشہور قومی شاعر رام دھاری سنگھ دنکر اور ممتاز ہندو محقق رجنی کانت شاستری لکھتے ہیں کہ:
’’اہلِ علم کا خیال ہے کہ ہند لفظ جو کہ غیر ملکیوں بالخصوص پارس والوں کے ذریعے اس ملک کا نام رکھا گیا ہے ’سندھو‘ لفظ سے جو پنجاب کی ندی کا نام ہے سے نکلا ہے، پھر اسی ہند لفظ سے ہندو اور ہندی ان دونوں لفظوں کا اشتقاق ہوا۔ ہند لفظ سے پارس والوں کا مطلب سندھو ندی کے پار والے (پارورتی) ملک سے ہے۔ ہندو لفظ سے ہند کے باشندوں سے اورہندی لفظ سے ہند کے باشندوں کی زبان سے تعلق و مقصود تھا۔ پارس والے جہاں ہم سَ (سا) بولتے ہیں وہاں اکثر ہَ (ہا) کا استعمال کرتے ہیں۔ جیسے سپت -   ہفت، اَسُر -اَہر، سرسوتی-ہرہوتی اور سپت سندھو -  ہفت ہندو وغیرہ۔ اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سندھو سے ہندو اور ہند سے ہندو اور ہندی یہ دو لفظ پیدا ہوئے۔ یونانی (Greeks) سندھو ہندی کو اِنڈس (Indus) سندھو کے پار والے ملک کو انڈیا (India)اور وہاں کے رہنے والوں کو انڈینس (Indians)کہتے تھے۔ ہم نے بھی ان ناموں کو ان کے تعلق اور میل ملاپ میں آکر اپنا لیا تھا اور آج بھی ہم یوروپین (Europian)کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اپنا تعارف انڈین (Indian)کہہ کر ہی کراتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہم نے پارس والوں کے ہند، ہندو اور ہندی لفظوں کو ان کے ساتھ قدیم زمانے میں اپنی قربت کے سبب اپنالیا تھا۔ 8؎
ہندی زبان کا آغاز وارتقا
آج ہم جس زبان سے بنام ہندی متعارف ہیں وہ جدید آریائی زبانوں میں سے ایک ہے۔ آریائی زبان کا قدیم ترین روپ وید کی سنسکرت ہے، جو ادب کی عقیدت سے معمور زبان تھی۔ اسی زبان میں وید، سنہتا، اپنشد اور ویدانت وغیرہ ہندو مذہبی کتب کی تخلیق ہوئی ہے۔ مذہبی کتب کی زبان کے ساتھ ساتھ یہی عام بول چال کی زبان تھی جس کو دنیاوی سنسکرت بھی کہا جاتا ہے۔ سنسکرت کا عروج و ارتقا شمالی ہندوستان میں بولی جانے والی ویدوں کے دور کی زبانوں سے مانا جاتا ہے۔ تخمینی طور پر آٹھویں صدی قبل مسیح میں اس کا استعمال ادب میں ہونے لگا تھا۔ سنسکرت زبان میں ہی رامائن اور مہابھارت جیسے مذہبی گرنتھ (کتاب) تالیف کیے گئے اور بالمیکی، ویاس، کالی داس، اشوگھوش، ماگھ، بھوبھوتی، وِشاکھ، ممّٹ، دنڈی اور شری ہرش وغیرہ سنسکرت ز بان کی ہی عظیم ہستیاں ہیں۔ اس طرح سنسکرت ادب دنیا کے خوشحال ادب میں سے ایک ہے۔
سنسکرت کے دور کی بنیادی بول چال کی زبان تبدیل ہوتے ہوتے پانچ سو قبلِ مسیح کے بعد تک کافی متغیر ہوگئی، جس کو پالی کے نام سے یاد کیا گیا۔ مہاتما بدھ کے زمانے میں پالی عوامی زبان تھی اور انھوںنے پالی کے ذریعے ہی اپنی تعلیمات و ہدایات و نصائح کی تبلیغ و اشاعت کی۔ غالباً یہ زبان پہلی صدی عیسوی تک رائج رہی۔ بعد ازاں پالی زبان اور متغیر ہوئی اور پھر اس کو پراکرت (Parakirt)کا نام دیا گیا۔ اور اس کا دور پہلی صدی عیسوی سے پانچ سو عیسوی تک رہا۔ پالی کے تحت آنے والی یا پالی سے ملتی جلتی دوسری زبانوں کی صورت میں پراکرت زبانیں پچھمی (مغربی) پوربی (مشرقی) پچھم اتری (مغربی شمالی) اور مدھیہ دیشی (وسط ملکی) زبانوں کی شکل میں مقبول ہوئیں، جن کو ماگدھی، شورسینی، مہاراشٹری، پیشاچی، براچڈ اور اردھ ماگدھی بھی کہا جاسکتا ہے۔ بعدہٗ زمانۂ آئندہ میں پراکرت زبانوں کی علاقائی صورتوں سے اپبھرنش (مسخ شدہ یا بگڑی ہوئی) زبانیں معرض وجود میں آئیں۔ ان کا عہد پانچ سو عیسوی سے ایک ہزار عیسوی تک مانا جاتا ہے۔ اپ بھرنش زبان ادب کی خاص طور سے دو قسمیں ملتی ہیں: (1) پچھمی ہندی (2) پوربی ہندی۔ پچھمی ہندی شورسینی اپ بھرنش سے ترقی پذیر ہوئی ہے۔ اس میں قنوجی، بانگڑو، بندیلی، کھڑی بولی اور بِرج یہ پانچ بولیاں ہیں، جن میں آخر الذکر دو خاص ہیں۔ ان دونوں میںاول کا ادب، دوسری کے قدیم ادب سے کافی ترقی یافتہ ہے۔ کھڑی بولی اپنے ادبی روپ میں ’ہندی‘ نام سے مشہور ہوئی اور یہی ہندوستان کی سرکاری زبان ہے۔ اس کا عربی، فارسی لفظوں سے مزین دوسرا روپ ’اردو‘ ہے۔ جو مخصوص قسم کے شعر و ادب کے نظریے سے کافی خوشحال ہے۔ کھڑی بولی وغیرہ کے لیے ناگری رسم الخط کا استعمال ہوتا ہے اور اردو کے لیے عربی کے ترمیم شدہ رسم الخط کا۔ ہندی اردو کا ملا جلا روپ ہندوستانی کہلاتا ہے۔ پوربی ہندی نے اردھ ماگدھی اپ بھرنش سے عروج پایا ہے۔ اس میں اودھی، بگھیلی اور چھتیس گڑھی تین بولیاں ہیں۔ قدیم ادب کے نقطۂ نظر سے اودھی مالدار زبان ہے جس کو تلسی اور جائسی جیسے اعلیٰ درجے کے کوی (شاعر) حاصل ہوئے ہیں۔ 9؎
مختصر یہ کہ قیاس کے مطابق ایک ہزار عیسوی کے قریب اپ بھرنش کی مختلف علاقائی زبانوں سے جدید آریائی زبانوں کی نشو ونما ہوئی اور اپ بھرنش سے ہی ہندی زبان کی تخلیق ہوئی۔ ہندی زبان و ادب کے ماہرین اپ بھرنش کی آخری شکل و صورت ’اوہٹھ‘ سے ہندی کی ولادت تسلیم کرتے ہیں۔ بعض ماہرینِ زبان نے اسی ’اوھٹھ‘ کو قدیم ہندی کا نام دیا ہے۔
جدید آریائی زبانوں میں ہندی بھی ہے، جس کی پیدائش ایک ہزار عیسوی کے قریب ہوئی لیکن اس میں ادبی تخلیق کا عمل گیارہ سو پچاس عیسوی یا اس کے بعد تیرہویں صدی میں شروع ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاری پرساد دویدی ہندی کو دیہاتی اپ بھرنشوں (بگڑی ہوئی زبانوں) کا روپ مانتے ہیں۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ ہندی زبان جو کہ دنیا کی مشہور اور ہندوستان کی سرکاری زبان ہے وہ سنسکرت کے الفاظِ صحیحہ، مسخ شدہ، تبدیل شدہ اور مختلف علاقائی زبانوں کی مرہونِ منت ہے۔10؎
لسانیات کے ماہرین و محققین ہندی اور اردو کو ایک ہی زبان خیال کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ’ہندی‘ دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور الفاظ کی سطح پر زیادہ تر سنسکرت کے لفظوں کا استعمال کرتی ہے جب کہ ’اردو‘ فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور الفاظ کی صورت میں اس پر عربی و فارسی زبان کے لفظوں کا زیادہ اثر ہے۔ لیکن جہاں تک عربی، فارسی اور انگریزی وغیرہ کے الفاظ کے استعمال کی بات ہے تو اس تعلق سے دونوں زبانوں میں کافی یکسانیت ہے۔ ہندی کے بابت اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے ماہر لسانیات ڈاکٹر بھولا ناتھ تیواری لکھتے ہیں:
’’ہندی میں تقریباً پچیس سو عربی الفاظ، پینتیس سو فارسی الفاظ، تین ہزار انگریزی الفاظ، ایک سو پرتگالی الفاظ، سو سے زائد پشتو الفاظ اور تقریباً ایک سو پچیس ترکی الفاظ ہیں جن کا اس وقت ہندی میں دھڑلّے سے استعمال ہورہا ہے۔‘‘11؎
لفظی یکسانیت کے علاوہ اصول و قواعد کے اعتبار سے بھی اردو اور ہندی میں تقریباً سو فی صد مماثلت ہے۔ صرف بعض چیزوں میں الفاظ کے اشتقاق وماخذ میں فرق ہوتا ہے۔ نیز کچھ مخصوص آوازیں اردو میں عربی اور فارسی سے لی گئی ہیں اور اسی طرح فارسی اور عربی کے کچھ خاص قواعد کی تشکیل کا طریقہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح اردو اور ہندی کو کھڑی بولی کی دو اقسام کہا جاسکتا ہے۔
ہندوستانی زبانوں کے ماہرین و محققین نے ہندی کی چار اقسام یا چار شکلیں بیان کی ہیں:
(1)         خالص و اعلیٰ ہندی: یہ ہندی کا معیاری روپ ہے، جس کا رسم الخط دیوناگری ہے۔ اس میں سنسکرت زبان کے بہت سے الفاظ ہیں، جنھوںنے فارسی، عربی اور انگریزی وغیرہ کے بہت سے الفاظ کی جگہ لے لی ہے۔ یہ کھڑی بولی پر منحصر ہے۔
(2)         دکھنی: یہ اردو اور ہندی کی وہ شکل ہے جو حیدرآباد اور اس کے اطراف و اکناف میں بولی جاتی ہے۔ اس میں فارسی اور عربی کے الفاظ بمقابل اردو کم ہوتے ہیں۔
(3)         ریختہ: یہ اردو کا وہ روپ اور وہ قسم ہے جو شاعری میںاستعمال ہوتا ہے۔
(4)         اردو: یہ ہندی کا وہ روپ ہے جو عربی و فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔ اس میں سنسکرت کے الفاظ قلیل ہوتے ہیں اور عربی و فارسی کے کثیر۔ اس کا بھی کھڑی بولی پر مدار ہے۔ اور کھڑی بولی کی ان دونوں اقسام یعنی اردو اورہندی کو ہندوستانی زبان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مسلم صوفیا، علما، شعرا اور سلاطین کا ہندی سے تعلق
ہندوستان گنگا جمنی تہذیب اور عقیدت و محبت کی سرزمین ہے۔ اس کے ذرّہ ذرہ میں کچھ ایسی مقناطیسی قوت رہی ہے کہ دنیا کی ساری قومیں اور مذہبی اکائیاں اس کی طرف شروع سے ہی متوجہ رہی ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے ہمارا یہ عز یز ملک نہ صرف ہمیشہ انسانیت و مروت کا مرکز بنا رہا بلکہ اس کا سماجی ماحول اور معاشرتی زندگی گوناگوں مذہبی و روحانی اثرات سے معمور رہا۔ کیونکہ علم سماجیات کا عام اصول ہے کہ جب دو یا چند عظیم ثقافتیں و تہذیبیں باہم قریب ہوتی ہیں تو ان میں گفت و شنید، نشست و برخاست، تبادلۂ خیالات، باہمی تعلقات و میل جول اور آپسی معاملات و لین دین کی وجہ سے بہت سے اثرات معرضِ وجود میں آتے ہیں۔ اسی باعث اس وطنِ عزیز میں نت نئے افکار و نظریات نے جنم لیا۔ افکار ونظریات کے اختلاف نے نہ صرف ہندوستانی تہذیب کو عروج بخشا بلکہ مختلف تہذیبوں کے اتصال و ربط کا راستہ ہموار کیا اورایک دوسرے کے خیالات اور نظریات کو سمجھنے کا بھی موقع فراہم کیا۔ جس کے نتیجے میں ایک مشترکہ تہذیب کی نشوونما ہوئی۔
مشترکہ تہذیب ہندوستان کی ایک امتیازی شان ہے جس کی نشوونما میں صوفیاء کرام، علماء عظام اور مختلف مذاہب کے سادھوؤں، سنتوں اور دھرم گروؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ اپنے خیالات اور تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کے لیے نہ صرف انھوںنے رواداری، امن و آشتی کا طریقہ اختیار کیا بلکہ عوام کے قلوب تک پہنچنے کے لیے انھیں کی زبان استعمال کی۔ کیونکہ عوام کو متاثر کرنے اور ان کو قریب کرنے کے لیے ان ہی کی زبان میں گفتگو کرنا ضروری ہے۔ اسی کے بعد ایک دوسرے کے خیالات و نظریات میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے تبلیغ و تعلیم کے لیے انھوں نے جہاں دیگر اصول و طریقے اپنائے وہاں اس علاقے کی رائج زبانوں پر دسترس حاصل کی تاکہ بحسن و خوبی اپنا پیغام عوام تک پہنچاسکیں۔ چنانچہ اشاعتِ اسلام کی ہندوستانی تاریخ شاہد ہے کہ جو بھی صوفیا اور علما سرزمینِ ہندوستان میں دیگر ممالک سے تشریف لائے یا ہندوستان میں پیدا ہوئے وہ متبحر عالم و فاضل اور مفتی ہونے کے باوجود دیگر زبانوں کے بھی عالم و متکلم ہوتے تھے اور عوام سے انھیں کی مادری و علاقائی زبان میں گفتگو اور تبلیغ و تعلیم فرمایا کرتے تھے۔ مثلاً: ابوریحان محمد بن احمد البیرونی (پ 973- 1050عیسوی) مایہ ناز اسلامی محقق وعالم ہونے کے ساتھ ساتھ ہندو دھرم اور سنسکرت کے ایسے عظیم اسکالر تھے کہ جن کو اہلِ علم و دانش ہندو دھرم کے حوالے سے بھی ایک مستند و متبحر عالم کی حیثیت سے جانتے اور مانتے ہیں۔ اور آپ کی شاہکار تصنیف ’تحقیق ماللہند‘ ہندو دھرم کے تعلق سے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ سلطان بلبن کے دور میں مشہور صوفی بزرگ اور اولیاء اللہ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر، شیخ بہاؤالدین، شیخ بدرالدین اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی جیسے اکابرین ہوئے ہیں جن کے کلام میں ہندی شاعری کے اثرات موجود ہیں۔ جلال الدین خلجی کے عہد میں مشہور صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیاء گزرے ہیں ان کی بھی ہندی نگارشات ملتی ہیں اور حضرت امیر خسرو (پ 1253، م 1325) کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ یہ نظام الدین اولیا کے شاگرد رشید ومرید خاص تھے اور علاء الدین خلجی کے دربار میں ماہر موسیقی کی حیثیت سے وابستہ تھے۔12؎
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز (پ 1321 م 1422) دکن کے بہت عظیم صوفی عالم ہیں۔ گلبرگہ کرناٹک میں آپ کی عظیم الشان خانقاہ و مزار ہے۔ آپ نے اپنے دور میں ہندوؤں کے فرضی قصوں کو مسلمانوں کی اخلاقی تعلیم کے لیے مثالی طور پر استعمال کیا ہے۔ حضرت شیخ محب اللہ الٰہ آبادی (1587-1648) سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ گزرے ہیں وہ ہندو مذہب کی معلومات سے دلچسپی رکھتے تھے اور سنسکرت کے بھی زبردست عالم تھے اور ان کی اس سلسلے میں کچھ تصانیف بھی پائی جاتی ہیں۔ خود مولانا امام احمد رضا خاں ہندو دھرم پر گہری نظر رکھتے تھے جیسا کہ فتاویٰ رضویہ جلد ہشتم قدیم کے رسالہ ’انفس الفکرفی قربان البقر‘ سے بخوبی ظاہر ہے۔13؎
صوفیا و علما کے علاوہ مسلم سلاطین اور ان کے درباری شعراء کا بھی ہندی سے کافی شغف تھا۔ ہندی زبان اور اس کے علم وادب سے محمود غزنوی کو جو دلچسپی تھی اس کی دوسری مثال تاریخ کے صفحات میں نہیں ملتی۔ اس کے قابلِ ذکر شعرا میں خواجہ مسعود سعد سلمان بھی ہے، جو اس کے دور کا مشہور فارسی گو شاعر تھا لیکن اس کی ہندی شاعری کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت امیر خسروں نے بھی سلمان کے ہندی دیوان کا ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں محمود غزنوی کی علم دوستی و سرپرستی نے سنسکرت کو بھی نوازا اور اپنے سکوں پر سنسکرت کے الفاظ کندہ کرائے۔14؎
فیروز تغلق بھی ہندی کے شعرا کا خاص خیال رکھتا تھا۔ رتن شیکھر نامی ہندو شاعر سے اس کو بہت انس تھا۔ ہندی کے صوفی شاعر ملا داؤد نے اپنی عشقیہ تخلیق ’چنداین‘ اسی عہد میں مکمل کی تھی۔15؎
سترہویں صدی یعنی دورِ جہانگیری میں ملا مسیح پانی پتی ہندی کا مشہور شاعر اور سنسکرت قواعد کا زبردست عالم تھا، جس نے فارسی میں رامائن کا منظوم ترجمہ کیا، جو رامائن مسیحی کے نام سے مشہور ہے اور منشی نول کشور پریس سے طبع ہوا ہے۔ دورِ جہانگیری کے ضمیر شاعر نے بھی ہندی میں شاعری کی تھی۔ غواصی بھی اسی دور کا ہندی شاعر تھا جس نے طوطی نامہ کا فارسی سے ہندی میں منظوم ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ ملا نوری، شیخ محمد بن شیخ معروف دونوں ہندی کے عمدہ شاعر تھے۔ جن کا تذکرہ آزاد بلگرامی نے بھی کیا ہے۔16؎
اسی طرح عبدالرحیم خان خاناں (1556-1627)، مرزا جانِ جاناں مظہر (1699-1781) اور ملک محمد جائسی (1467-1542)جیسے بہت سے ایسے مسلم صوفیا، علما و شعرا گزرے ہیں کہ جنھوںنے ہندی اور علاقائی زبانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ اور ہندی شعر و ادب کی دنیا میں اپنا ایک منفرد و نمایاں مقام بنایا ہے۔
مسلم علما، صوفیا، شعرا اور سلاطین کا ہندی ادب سے یہ شغف اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ حضرات کسی زبان کے مخالف نہ تھے۔ وہ مختلف علاقوں اور بستیوں اور ان کی زبانوں سے ویسا ہی تعلق رکھتے تھے جیسے اپنی مادری زبان سے۔ چنانچہ محمود شیرازی لکھتے ہیں:
’’شروع سے ہی مسلمانوں کا تعلق ہندی ادب سے رہا۔ چنانچہ بھکتی اور ریتی کال (دور) میں مسلم صوفی اور غیر مسلم صوفی شعراء اور سلاطینِ وقت نے ہندی ادب کے حوالہ سے بھی مثالی اہم کردار ادا کیا۔‘‘ 17؎
مختصر یہ کہ مسلم اہلِ علم ودانش جہاں جہاں بھی پہنچے انھوںنے علاقائی یا مقامی زبان اور ان کے خیال و ادب کو اپنے سانچے میں ڈھالنے اور اپنانے کا رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں عربی، ترکی اور پہلوی یا فارسی زبان کو مسلم ثقافت کی خاص زبان اور اس کے ادب کو اس کا مخصوص ادب کہا جانے لگا۔ رواداری کے اسی پہلو کے پیشِ نظر مسلمانوں نے سنسکرت زبان بھی سیکھی۔ اس حوالہ سے البیرونی، داراشکوہ، عبدالرحیم خان خاناں بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ نیز مسلم حکمرانوں نے سنسکرت کی سرپرستی بھی کی۔ اس کے بعد جب ہندی کا رواج بڑھا تو اس زبان کی خصوصیات کے تحت اس کو بھی مکمل طور پر قبول کیا۔ چنانچہ ترکی، فارسی اور ہندی کو ایک دوسرے کے قریب کرنے میں حضرت امیر خسرو کی شخصیت اور ان کا شعری و نثری سرمایہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مثلاً ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں    ؎
فارسی بولی آئینہ
ترکی ڈھونڈھی، پائی نا
ہندی بولی آرسی آئے
خسرو کہے کوئی نہ بتائے18؎
صوفی شاعر ملک محمد جائسی نے بھی اس کو خوب خوب فروغ بخشا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں:
ترکی، عربی، ہندوی بھاشا جیتی آنہی
جیہہ منہہ مارگ پریم کا سبے سراہیں تانہی19؎
بابا فریدالدین گنج شکر (م664ھ)کہتے ہیں      ؎
جو بن جائے تو جائے، پر پیا کی پیت نہ جائے
 دیکھ سکی جوبن کتنے، بن پریت کے کمہلائے
بو علی شاہ قلندر پانی پتی(م724ھ) فرماتے ہیں      ؎
سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے
بدھنا  ایسی  رین کر  بھور کدھی  نہ ہوئے 20؎
نعت و منقبت وغیرہ میں ہندی الفاظ کا استعمال
ہندی، اردو یا ہندوستانی زبان کی ابتدائی و ارتقائی تاریخ میں طبقۂ صوفیا و علما میں ایسے نفوس بھی ایک اچھی تعداد میں رہے ہیں کہ جن کو شعر و سخن سے کافی دلچسپی تھی اور یہ ذوق فطری اور قدرتی طور پر ان میں ودیعت تھا۔ چنانچہ انھوں نے ہندی و علاقائی زبان میں نعتیں، منقبتیں، رباعیات، گیت، چھند اور دوہے وغیرہ لکھے، جس کے ذریعے وہ نبیِ اکرمؐ کی بارگاہِ اقدس اور بزرگ اکابرین کے دربار پر وقار میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ اس کو نہ صرف خیروبرکت اور نجات و مغفرت کا ذریعہ تصور کرتے تھے بلکہ اسلامی تعلیمات اور پیغامِ رسالتؐ کو امتِ اجابت و دعوت تک پہنچانے کا طریقہ سمجھتے تھے۔ بقول مومن خاں مومن       ؎
اس سہارے پر پڑھی مومن نے نعتِ مصطفی
حشر میں شاید نجاتِ دائمی مل جائے گی
اور بقول قمر شمس آبادی       ؎
اسی یقین سے پڑھتے ہیں نعتِ پاک رسول
گنہ گار ہیں شاید نجات ہو ہی جائے
ہندی ادب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم صوفیا، علما اور شعرا نے قدیم ہندوستانی شعر و ادب کی اہمیت کو بھی خوب اچھی طرح سے جانا، پہچانا اور فروغ بخشا۔ ہندی، ہندوستانی و علاقائی زبانوں میں دیگر تخلیقات کے ساتھ ساتھ بارگاہِ رسول اور بارگاہِ اولیاء میں بھی عمدہ اسلوب میں قصیدہ خوانی فرمائی، جن میں ملک محمد جائسی، امیر خسرو، نور محمد، مناظر احسن گیلانی اور الیاس برنی وغیرہ بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔ چنانچہ ملک محمد جائسی کہتے ہیں      ؎
باس سباس لیو ہیں جہاں
ناؤں رسول پکاریں تہاں
(جہاں جہاں انسانوں کی آبادی رہی رسول کا نام وہاں پکارا گیا یعنی رسول آئے۔)
سوا لاکھ پیغمبر سر جیو
ساتھ کھنڈ بیکنٹھ سنواریو
رتن ایک دھنے اوتارا
ناؤ محمد جگ اُجیارا21؎
(یہاں اوتار سے مراد رسول ہے۔ اور اوتار کا لغوی معنی ہے بھیجا ہوا، اتارا ہوا، اور یہی رسول کے معنی بھی ہیں۔)
چار میت جو محمد ٹھاؤں
جنھیں دینیہہ جگ نرمل ناؤں
(چار یار جو محمدؐ سے بہت قریب تھے اور جن کو دنیا نے بہترین نام سے یاد کیا۔)
گگن  ھتا نہیں مہی ھتی ھتے چند نہیں سور
ایسی اندھ کوپ مہہ رچا محمد نور22؎
قیامت کا منظر اور حضور انورؐ کی شفاعتِ کبریٰ کا نقشہ پیش کرتے ہوئے ملک محمد جائسی کہتے ہیں:
سوا لاکھ پیغمبر جیتے      اپنے اپنے پائیں تیتے
ایک رسول نہ بیٹھ چاہاں
سب ہی دھوپ لیہیں سرماہاں
کہب رسول کہ آیسو پاووں
پہلے سب دھرمی کے آووں23؎
(سوالاکھ پیغمبر سب کے سب سایہ میں نہ بیٹھ کر دھوپ میں رہیں گے اور اپنی اپنی اُمت کی شفاعت کریں گے۔ پھر رسول کہیں گے کہ اجازت مل گئی۔ اس سے پہلے سب نیک لوگوں کو لے آؤ)۔
حضرت امیر خسرو فرماتے ہیں     ؎
رینی چڑھی رسول کی سو رنگ مولیٰ کے ہاتھ
جس کے کپرے رنگ دیے سو دھن دھن وا کے بھاگ
ساجن یہ مت جائیو تو ہے بچھڑت موہے کو چین
دیا جلت ہے رات میں اور جیا جلت بن رین
خسرو سریر سرائے کیوں سووے سکھ چین
کوچ نگارا سانس کا باجت ہے دِن رین
ہندی شاعر نور محمد اپنی شاہکار تخلیق اندراوتی میں بارگاہِ رسول میں یوں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں     ؎
پہلے نور محمد کینہا
پاچھے تیہک جنتا سب کینھا
اپنی دشت جائی جییہ کیری
سو وہیں تمہیں وہ جوت ست تیری
(پہلے نورِ محمد پیدا کیا، پھر پوری دنیا پیدا کی۔ اپنی نظر جس طرف جاتی ہے سو وہیں تمھیں وہ جوت ست تیری)
نس دن سمر محمد ناؤں
جاسوں ملے سرگ میں ٹھاؤں24؎
(ہر دن محمدؐ  کا نام یاد کرو اسی سے جنت میں جگہ ملے گی۔)
علامہ مناظر احسن گیلانی بہ زبانِ ہندی اس طرح اللہ کے رسولؐ کی مدح خوانی کرتے ہیں     ؎
پیارے محمد جگ ساجن
تم پر واروں تن من دھن
تمہری صورتیاں من موہن
کبھو کرائیو تو درشن
جیا کنھڑے دلوا ترسے
کڑکا کڑے، بدرا برسے
صلی اللہ علیک نبینا25؎
اور الیاس برنی اپنی محبتوں کا اس طرح خراج پیش کرتے ہیں      ؎
لاج رکھیو نبی جی ہماری
میں تو چیری جی سے تمہاری
لاگی پریم کی من میں کٹاری
جاکے تم بن کرے کون کاری
ایسے من میں بسے ہیں محمد
جاؤں جا پہ بلہاری
مورا جیرا تم پہ واری26؎
احد احمد کا بھید جو پایا یہ چترنگ وہ گایا جی
بے رنگی سے رنگ میں آیا وہ بدھ روپ دکھایا جی
خودی کنوائے خدا کو پائے یہ منتر من بھایا جی
جاؤں وا جد گرو کے بلہاری جن یہ بھید بتایا جی27؎
ہندی یا ہندوستانی زبان میں صرف مسلم صوفیا علما اور شعرا نے ہی مدح سرائی نہیں کی ہے بلکہ اس سلسلے میں ہندو سنتوں، دھرم گروؤں اور کویوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے کہ جنھوں نے بہ زبانِ ہندی صرف نعتیہ ومنقبتیہ کلام ہی نہیں پیش کیا ہے بلکہ شاید و باید ہی اسلام کا کوئی گوشہ ایسا ہو کہ جس کو انھوںنے ہندی شعر وسخن کے سانچے میں نہ ڈھالا ہو۔ یہ اسی کاوش کا نتیجہ ہے کہ ہندی ادب میں اسلام کی بہو رنگی چھاپ نظر آتی ہے۔ آپ خود ہی ملاحظہ فرمائیے۔ مشہور ہندو سنت داود دیال کہتے ہیں    ؎
دل دریا میں غسل ہمارا وضو کر چت لاؤں
صاحب آگے کروں بندگی بیر بیر بلی جاؤں
کیا وضو پاک کیا منھ دھویا کیا میست سر لایا
جو دل میہ کپٹ نواج گزرا ہو کیا حج کعبہ جایا
(دل کے دریا میں ہمارا غسل ہو وضو کریں، دل لگائیں، مالک کی بندگی کریں اور بار بار قربان ہوں۔ وضو کے ذریعے منھ دھونے کا کیا فائدہ، مسجد میں جاکر سجدہ کرنے کا کیا فائدہ ؟ اگر دل میں بغض ہے تو نماز پڑھنے اور کعبہ جاکر حج کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔)
بہشت دوزخ دین دنیا چکارے رحمان
میر میری پیر پیری فرشتہ فرمان
آب آتش عرش کرسی دیدنی دیوان
ہر دو عالم خلق خانہ مومناں اسلام
زور نہ کرے حرام نہ کھائی
سو مومن بہشت ما جائی
سو مومن موم دل ہوئی
سائیں کو پہچانے سوئی28؎
سنت کبیر داس اس طرح گویا ہوتے ہیں      ؎
اللہ اول دین کو صاحب جور نہیں فرماوے
نواج سوئی جو نیائی و چارے کلمہ اکلہہ جانے
پانچھوں مس مصلی بچھاوے تب تو دین پہچانے
(اللہ تعالیٰ دین میں کوئی زبردستی نہیں فرماتا ہے نماز اسی کی ہے جو عدل سے کام لے اور کلمہ اسی کے لیے ہے جو عقل سے سمجھے۔ پانچوں وقت کی نماز پڑھنے والا ہی دین کو پہچان سکتا ہے۔)29؎
بابا ملوک داس فرماتے ہیں    ؎
جو پیاسے کو دیوے پانی
بڑی بندگی موحمد مانی
جو بھوکے کو اَن کھواوے
سو ستاب صاحب کو پاوے30؎
بابا گرونانک اللہ، رسول اور قرآن کی اس طرح تعریف کرتے ہیں     ؎
کل پروان کتیب قرآن
پوتھی پنڈت رہے پران
نانک ناؤ بھئی رحمان
کرکرتا تو، ایکو جان

کتھے نورِ محمدی ڈٹھے نبی رسول
نانک قدرت دیکھ خودی گئی سب بھول
محمد من تو من کتاباں چار
من خدائے رسول نوں سچا ای دربار31؎
شہنشاہ اکبر کے دربار کے معروف ہندی کوی تان سین پیغمبر اسلام کی خدمتِ اقدس میں یوں محبت کے پھول پیش کرتے ہیں     ؎
پاک محمد اللہ رسو ل تیرا ہی نور ظہور
دھن دھن پروردگار گنہ گار تو کرن جگ رم رہیو بھرپور
بیچن بیچکن دے سمیوے نمن اول آخر توں ہی نکٹ تو ہی دور
جنت دیکھوں تت توں بیاپ رہیو جل تھل دھرتی آکاش تان سین...تو ہی حضور32؎
بابا بھاگو داس اپنے خیالات کی اس طرح ترجمانی کرتے ہیں   ؎
کانپت ہے تب سے جیا ہمرو
کون جتن لاگب پار
کیسے کرب آئے لے جاون ہار
بھاگو سوچ مت کیجئو
ہیں محمد سب کو نباہن ہار
کیسے کرب آئے لے جاون ہار
سماج گون پیالے کے چلے
نہیں کوئی سکھی سنگ ہمار
کیسے کرب آئے لے جاون ہار33؎
دھرما، مراؤ بریلوی اپنے جذبات کا یوں گلدستہ پیش کرتے ہیں       ؎
نینن پسار دیکھا سب جگ
تمھیں ہو دوسر نہیں اور
پیا اِک بیر دیکھو نینن کی اور
کب دیہو درشن پیا محمد موہے
یہ ہی نس دن گور
پیا اک بیر دیکھو نینن کی اور34؎
اسی طرح سنت کبیر دار بنارسی نامِ محمد کی اہمیت و عظمت کو ریاضی کے ایک فارمولے کے ذریعے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محمد کے عدد یا نمبر92 ہیں جو اس کائنات کی ہر شے میں جلوہ گرہیں     ؎
عدد نکالو ہر چیز سے چوگن کرلو وائے
دو ملا کے پچگُن کرلو بیس کا بھاگ جگائے
باقی بچے کے نو گن کرلو دو اس میں اور ملائے
کہت کبیر سنو بھائی سادھو نامِ محمد آئے
اور بابا گرودت داس اپنے جذباتِ محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں     ؎
جہکا سبھی خدائے کہت ہیں
سب کے ہردے میں بسے بھر پور
مگن بہئے منوا نرکھت نور
لکھ گرودت اللہ اَلکھ
اب چل حاضر ہوؤ حضور
مگن بہئے منوا نِرکھت نور35؎
دیوانِ رضا میں ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا استعمال
مولانا احمد رضا خاں کے دیوان’’حدائقِ بخشش میں ہندی، ہندوستانی، علاقائی، بھوجپوری اور سنسکرت وغیرہ کے الفاظ اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں کہ جو ایک طویل تحقیقی مقالہ کے متقاضی ہیں۔ آپ نے اپنے نعتیہ کلام میں اس حسن و خوبی کے ساتھ ان کو نظم و منسلک کیا ہے کہ ماہرینِ لسانیات اور دانشورانِ شعر و ادب کو بارہا یہ کہتے سنا ہے کہ مختلف زبانوں کا ایسا حسین امتزاج اور سندر سنگم شاید و باید ہی کہیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مولانا احمد رضا خاں نے زبان ہائے مختلف کو ایسا شعری جامہ پہنایا ہے کہ اگر وہ اشعار صرف اردو یا دیگر کسی ایک زبان میں ہوتے تو ہرگزوہ حسن اور ندرت آفرینی جلوہ گر نہ ہوتی جو دیگر زبانوں کے استعمال و اتصال سے کلام میں رونما ہوئی ہے۔
دیوانِ رضا میںمستعمل جملہ ہندی و سنسکرت الفاظ کا اس مختصر مقالے میں تحقیقی جائزہ ہرگز نہیں لیا جاسکتا، اس کے لیے ایک طویل دفتر چاہیے سرِ دست ہم تین چار نعتوں کے ان اشعار کو یہاں رقم کررہے ہیں جن میں ہندی الفاظ بکثرت وارد ہوئے ہیں۔ ہندی الفاظ کو ہم ہندی، سنسکرت اور اردو لغات کے حوالہ جات کے ساتھ اس طرح ذکر کریں گے کہ ہر لفظ کے سامنے لغت کا نام اور صفحہ نمبر درج ہوگا۔ ہندی الفاظ کی لغوی اور معنوی وضاحت کے لیے ہم نے بالخصوص ’’پاٹھک، پنڈت رام چندر، آدرش ہندی شبد کوش، وارانسی، بھارگو بکڈپو، 2001، آپٹے،وامن شوا رام، سنسکرت ہندی کوش، دہلی، موتی لال بنارسی داس،1997، اورمولوی فیروزالدین،  فیروز اللغات، لاہور،فیروز سنز، جدید ایدیشن ‘‘ سے استفادہ کیا ہے۔ اس لیے حوالہ جات میں ہم بطورِ اختصار تینوں لغات کا مکمل نام نہ ذکر کرکے صرف ہندی لغت کے لیے’ہ‘ سنسکرت لغت کے لیے ’س‘ اور فیروز اللغات اردوکے لیے ’ف‘ ہی بار بار استعمال کریں گے۔
دیوانِ رضا میں مختلف زبانوں کے الفاظ کا انتہائی بے تکلفی اور آسانی سے استعمال بھی دیوانِ رضاکو ایک منفرد و یگانہ دیوان کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے، اس لیے کہ آپ سے پہلے بھی اگرچہ اس طرز پر متعدد حضرات نے بہت ہی نادر اسلوب اور عمدہ پیرائے میں اشعار کہے ہیں لیکن مرورِ زمانہ کے پیشِ نظر آپ کے کلام میں اس نہج کا عروج و ارتقاء نظر آتا ہے۔ چنانچہ شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ (م944ھ) فارسی کے ساتھ ساتھ ہندی میں الکھ داس کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ ان کے یہاں فارسی اور ہندی کا کتنا حسین امتزاج ہے ملاحظہ فرمائیے     ؎
صدق رہبر، صبر توشہ، دشت منزل، دل رفیق
ست نگری، دھرم راجا، جوگ مارگ (کذا)36؎
یہی انداز اور یہی رنگ حضرت امیر خسرو کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً     ؎
زحالِ مسکیں مکن تغافل، دورائے نیناں بتائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہوں کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف، و روز وصلش چو عمرکوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں37؎
مقالے کے عنوان کے تعلق سے یہ حقیقت بھی قارئین کے پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ ہندی الفاظ کے ضمن میں ہی سنسکرت کے الفاظ کا بھی تذکرہ موجود ہے کیونکہ سنسکرت کے اکثرو بیشتر الفاظ پر ہی ہندی کا انحصار ہے۔ سنسکرت کے الفاظ ہندی میں یا تو بعینہٖ استعمال ہوئے ہیں یا مسخ و ترمیم شدہ انداز میں۔ مشتے نمونہ از خروارے ہم ایسے چند الفاظ کی فہرست ذیل میں پیش کررہے ہیں جو سنسکرت اور ہندی میں یکساں طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً:
جگ،       راج،       چندن، چندر، دردا، دھن، بن، جھلجھل، نر، پتر، پرتھم، چتر
پتر، ماتر، بھراتر، پاؤ، ابھرو، چکشو، دنت، شیام، چھایا، میگھ،           پرتاپ، بھوم
تارا،        سوریہ، روم،            پنچم،        وایو،         چندرما، گریشم،آہار،گئو،مَہِش اَشو،            
شاکھا،ہلاہل،دام،دُھتر،سپتم،ششم،اشٹم،نوم،شت،ورشا، ہاھو،            
سوسر،      ماش اورجال وغیرہ۔
دیوانِ رضا نے ہندی یا ہندوستانی زبان کے حوالے سے ایک اور عظیم کارنامہ انجام دیا ہے اور وہ یہ کہ بہت سے الفاظ متروک ہوگئے تھے اور بہت سے الفاظ کمتر سمجھ کر حقارت و پستی کے تاریک غار میں ڈھکیل دیے گئے تھے لیکن مولانا احمد رضا خاں نے اپنے دیوان میں ان کو مناسب مقام اور موزوں شکل دے کر معراجِ لفظی اور ادبی بلندیوں سے ہمکنار کیا۔
مختصر یہ کہ اردو، عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت اور ہندوستانی الفاظ کے حسین سنگم اور گنگا جمنی تہذیب کے بہترین تصور کی رعنائیاں دیوانِ رضا میں جابہ جا بحسن و خوبی نظر آتی ہیں۔ آپ خود ہی ملاحظہ فرمائیے     ؎
لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِی نَظَرٍ مثلِ تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہِ دوسرا جانا
ہندی الفاظ مع معانی: جگ: دنیا، ہ192، راج: حکومت، ہ 537، تورے: تیرے، ہ 258۔ اول الذکر دونوں الفاظ سنسکرت سے اخذ کیے گئے ہیں۔
البحر علا والموج طغی من بیکس و طوفاں ہوش ربا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا
ہندی الفاظ مع معانی: منجدھار: دریا کی بیچ دھار، ہ 487، بگڑی: خراب شدہ، ف 210، موری: میری، ہ 522، نیا: کشی، ناؤ، ہ۔
یا شمس نظرت إلی لیلی چو بطیبہ رسی عرض بکنی
توری جوت کی جھل جھل جگ میں رچی مُری شب نے نہ دن ہونا جانا
ہندی الفاظ مع معانی:  توری: تیری، ہ 258، جوت: روشنی، س411، ہ 205، جھل جھل: چمک دمک، س 412، 210، جگ: دنیا، سنسار، ہ 192، س 393، رچی: رچنا، سجنا، بسنا، ہ 531، موری: میری، ہ 522۔
لک بدر فی الوجہ الاجمل خط ہالہ مہ زلف ابرِ اجل
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا
ہندی الفاظ مع معانی:  تورے: تیرے، ہ 258، چندن: خوشبودار لکڑی، س371، ہ164، چندر: چاند، س 371، ہ 164، کنڈل: چاند یا سورج کا حلقہ و دائرہ، ہ 1035، بھرن: زور شور کی بارش جو دم بھر میں جل تھل کردے، ف 235۔ علاوہ ازیں بھرن ایک پیمانہ ہوتا تھا اور دھات کا ایک برتن جو لگن کی طرح ہوتا تھا اس کو بھی بھرن کہتے تھے۔ اسی برتن میں اناج یا زر و جواہر یا لباس وغیرہ سجاکر راجستھانی راجہ مہا راجہ دیا کرتے تھے اسی کو بھرن دینا یا بھرن برسانا کہا جاتا تھا۔ آزادیِ ہندوستان سے قبل یہ رواج میواڑ کے راجاؤں میں رائج تھا۔                 
  (بستوی، سراج احمد، ڈاکٹر، مولانا احمد رضا خاں کی نعتیہ شاعری، دہلی، رضوی کتاب گھر، 1997، ص 278)
اَنا فی عطش وسخاک اتم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند اِدھر بھی گرا جانا
ہندی الفاظ مع معانی:  برسن: برسنا، ہ 438، ہار: موتیوں جیسی مالا، ہ 682، برسن ہارے: برسنے والے یا بارش والے، رم جھم رم جھم: چھوٹی چھوٹی پانی کی بوندوں کا برابر گرنا، ہ542، گرانا: نیچے ڈالنا، پھینکنا، ہ 1088۔
یا قافلتی زیدی اجلک رحمے بر حسرت تشنہ لبک
مورا جیا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا
ہندی الفاظ مع معانی:  مورا: میرا، ہ 522، جیا: من، دل، ہ200، لرجے: لرجنا، ہلنا، کانپنا، ہ554، درک درک، خوف زدہ، پھٹا ہوا، ہ 269۔
واہاً لسویعاتٍ ذہبت آں عہد حضور بارگہت
جب یا آوت موھے کر نہ پرت دردا وہ مدینے کا جانا
ہندی الفاظ مع معانی:  آوت: آتا ہے، ہ58، موھے: مجھ کو، ہ 522، پرت: پڑتا ہے، ہ 457، دردا: درد سے، ہ 269، درد سے دردا ہندی بولی بمعنی تکلیف۔
القلب شج والہم شجون دلِ زار چناں جاں زیر چنوں
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مرا کون ہے تیرے سوا جانا
ہندی الفاظ مع معانی:  پت: عزت، مالک، سوامی، ہ 352، بِپَت: دکھ درد، رنج و تکلیف، ہ453، کاسے: کس سے، کس کو، ہ107، جانا: جانا بوجھا، ف 447، یا جاناں سے جانا بمعنی محبوب، پیارا اور عزیز جان ف 443۔
الروح فداک فرزد حرقاً  یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا
ہندی الفاظ مع معانی:  مورا: میرا، ہ 522، من: دل، س771، دھن: دولت، پیاری اشیاء، س 487، پھونک دیا: جلا دیا، راکھ کردیا، ہ 425۔ پیارے: محبوب کے لیے کلمۂ خطاب: ہ 322۔
مذکورہ بالا بہو رنگی زبانوں سے متصف نعت کے علاوہ بہت سی ایسی نعتیں ہیں کہ جن میں کثرت سے ہندی اور ہندوستانی زبانوں کی حسین جلوہ گری ہے۔ مثلا      ؎
اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
دلِ بیکس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: اندھیری رات: کالی، سیاہ رات، ہ 129، گھٹا: کالی بدلی، ف 1121۔
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اُجالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: اندھیرا پاکھ: ہندوستانی تاریخ و تہذیب میں مہینے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک اُجالا پاکھ جس کو سنسکرت میں شکل پکچھ کہتے ہیں اور دوسرا اندھیرا پاکھ جس کو سنسکرت میں کرشن پکچھ کہتے ہیں۔ یعنی چاند کے مہینے کے پہلے پندرہ دن جس میں چاند کی روشنی دھیرے دھیرے بڑھتی ہے اس کو اجالا پاکھ کہتے ہیں اور بعد کے پندرہ دن جس میں چاند کی روشنی دھیرے دھیرے گھٹتی ہے اس کو اندھیرا پاکھ کہتے ہیں۔ اترتے چاند: ڈوبتا چاند، آخر ماہ، ف63۔ ڈھلتی چاندنی : گھٹتی چاند کی روشنی، ف 685۔ اجالی: روشنی، چمک، ف 66۔
ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آگئی سر پر
کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا ابالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: ارے: دیکھو، تعجب کے لیے، ہ 41، بھیڑ یا، بن: جنگل، ہ435۔
اندھیرا گھر اکیلی جان دم گھٹنا دل اُکتانا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: اندھیرا گھر: جس میں روشنی نہ ہو، ہ7، دم گھٹنا: سانس رکنا، گھبراہٹ ہونا، ہ:158، ف 346۔ دل اکتانا: گھبرانا، ہ64، پیارے: محبوب کے لیے کلمۂ خطاب، ف 322۔
زمیں تپتی کٹیلی راہ بھاری بوجھ گھائل پاؤں
مصیبت جھیلنے والے ترا اللہ والی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: کٹیلی راہ: نوک دار، کانٹے دار، ہ 89، بھاری بوجھ: بہت وزنی، بوجھل: ف 229۔ گھائل پاؤں: زخمی پیر، ہ 157، 371، جھیلنا: برداشت کرنا، ہ 214۔
نہ چونکا دن ہے ڈھلنے پر تری منزل ہوئی کھوٹی
ارے او جانے والے نیند یہ کب کی نکالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی:  چونکا: خوف سے کانپا، بیدار ہوا، ہ 179، ڈھلنا: لڑھکنا، بیتنا، ہ 234۔ کھوٹی: ناقص، ادھوری، ہ 137۔ ارے او: کلمۂ ندا و تعجب، ف 57۔
اسی طرح دیوانِ رضا کی حسب ذیل نعت کو دیکھیں کہ ہندی الفاظ کا کتنا حسین امتزاج اس میں نمایاں ہے۔
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والے جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی:  سونا: بیابان، ویران، ہ 661، رات اندھیری: کالی رات، سیاہ رات، ہ 129، چھائی بدلی: پھیل کر چھایا ہوا بادل، ہ 434، جاگتے رہیو: محاورہ ’ہ‘، بیدار رہنا، نہ سونا۔ رکھوالی: حفاظت کرنے والی یا طریقۂ حفاظت، ہ 531۔
آنکھ سے کاجل صاف چرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گٹھری تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی:  آنکھ سے کاجل چرانا: اس طرح چوری کرنا کہ کسی کو خبر تک نہ ہو، ف 30، ہ 104۔ چور بلا کے: انتہائی غضب کے، نہایت چالاک، ہ 128، گٹھری: بڑی پوٹری، ہ 139، تاکی: ٹکٹکی باندھ کر دیکھی، ہ 190، نیند نکالنا : نیند پوری کرنا، ہ 695-1297۔
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دم میں نہ آنا مت کیسی متوالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: ٹھگ: فریبی، چنچل، ہ 223، مار ہی رکھے گا: مار ہی ڈالے گا، ہائے: آہ، افسوس، ف 710، دم: دھوکہ، مت: عقل، ہ 489، متوالی: جنونی، پاگل، ہ 489۔
سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا زہر ہے اٹھ پیارے
تو کہتا ہے میٹھی نیند ہے تیری مت ہی نرالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی:  سونا: زر، ف 437، سونا: ویران، بیاباں، ہ 661، سونا: نیند لینا، ہ 438، میٹھی نیند: سکھ کی نیند، خوابِ راحت، ف 1327، مت: عقل، ہ 489، نرالی: عجیب وغریب، ہ 330۔
آنکھیں ملنا جھنجھلا پڑنا لاکھوں جمائی انگڑائی
نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے اٹھنا بھی کوئی گالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی:  آنکھیں ملنا : ہ مسلنا، جھنجھلا پڑنا: چڑچڑانا، ہ 213، جمائی: جمہائی لینا، ہ 195۔ انگڑائی: سستی سے بدن کا ٹوٹنا، ہ 6، ف 132۔ اٹھنا: جاگنا، بیدار ہونا، ف 67، گالی: فحش بات، بد زبانی، ف 1078۔
جگنو چمکے پتا کھڑکے مجھ تنہا کا دل دھڑکے
ڈر سمجھائے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی:  جگنو چمکے: چمکدار اڑنے والا کیڑا، ف 365، پتّا کھڑکے: پتے کی آواز آنا، ہ 130، دل دھڑکے: دل کا ہلنا، ڈرنا، ہ 298، ڈر: خوف، ہ229، پون: ہوا، س 597، اگیا بیتالی: غول بیابانی، بھوت پریت جیسا، ف 111۔
بادل گرجے بجلی چمکے دھک سے کلیجہ ہوجائے
بن میں گھٹا کی بھیانک صورت کیسی کالی کالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: بادل گرجے: بادل یا بجلی کی آواز، کڑک، ف 1088، بجلی چمکے: چمک، برق، ف 181، دھک سے کلیجہ: اچانک سے، ہ 298، حیران،ڈر، ف 664۔ بن: جنگل، ہ 435، گھٹا: بادلوں کا گروپ، کالی بدلی، ہ 154، بھیانک: خوفناک، ہ 470۔
پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اوندھے منھ
مینہ نے پھسلن کردی ہے اور دھڑ تک کھائی نالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: پاؤں: پیر، ہ 371، ٹھوکر کھائی: کسی سخت چیز کی ٹکر لگی، صدمہ یا دھوکہ کھانا، ف 431، سنبھلا: تھمنا، خبردار ہونا، گرنے سے بچنا، ف811۔ اوندھے منھ: منھ کے بل، ہ 83، مینہ: بادل، بارش، ہ 520، پھسلن: پھسلنے کی جگہ یا عمل، ہ 423۔ دھڑ: کمر کے اوپر کا حصہ، ہ 298۔ کھائی نالی: نالی جیسا گڈھا، ہ 133۔
ساتھی کہہ کر پکاروں ساتھی ہو تو جواب آئے
پھر جھنجھلا کر سر دے پٹکوں چل رے مولیٰ والی ہے
ہندی الفاظ مع معانی:  ساتھی: دوست، ہمراہی، ہ 640، جھنجھلا کر سرد ے پٹکنا: بہت زیادہ غصہ، پیچ و تاب کھانا اور چڑچڑا ہونا، ف 496، 278، 213، 268۔ چل رے: ہٹ، دور ہو، ف 284، رے: کلمۂ ندا و خطاب، ف 57۔
پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں کوئی آس نہ پاس کہیں
ہاں اک ٹوٹی آس نے ہارے جی سے رفاقت پالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی:  پھر پھر کر: ٹہل کر، چکر لگا کر، ہ 423، آس: امید، ہ 59، پاس: قریب، ہ 59،ہارے جی: شکستہ دل، ٹوٹے دل، ہ 201، 682۔ اس شعر میں آس اور پاس کے مابین نہ کہ فصل نے شعر کے معنوی حسن کو دوبالا کردیا ہے۔
دنیا کو تو کیا جانے یہ بِس کی گانٹھ ہے حرافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی:  بِس: زہر، ہ 455، گانٹھ: گٹھری، ہ 144، زہر کی پڑیا ف 400، بھولی بھالی: سیدھی سادھی، ہ 483۔
شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہر کُش
اس مردار پہ کیا للچانا دنیا دیکھی بھالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: ڈائن: بھیانک عورت، ہ 230، للچانا: لالچ کی نیت سے دیکھنا، ہ 554۔ دیکھی بھالی: جانی پہچانی، سمجھی بوجھی، ف 872، جانچ پڑتال کی ہوئی، ہ 289۔
وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنت کا
ہم مفلس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
ہندی الفاظ مع معانی: سستا سودا: کم قیمت، گھٹیا، ہ 637، مول: قیمت، ہ 517، چکائیں: ادا کریں، ہ 175، ہاتھ خالی: روپیہ پیسہ پاس نہ ہونا، ف 1423۔
علاوہ ازیں دیوانِ رضا سے ہم کچھ چیدہ چیدہ اشعار ذیل میں مزید نقل کررہے ہیں ان سے بھی آپ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیںکہ دیوانِ رضا میںہندی الفاظ کی کتنی کثرت اور کیسی ادبی معنویت ہے:
کچھ ترے پروانے کو نام کی پروا نہ ہو
لاکھ جلیں ساتوں شمع بارہ کنول نو لگن
کاٹی بندھے دھار سے پہونچے کے مچھلی ڈگن
ہندی الفاظ مع معانی: پرواہ: فکر، ہ 361، لاکھ: سو ہزار، ہ 556، کنول: ایک پھول، گلِ نیلوفر، ف 1037۔ لگن: طشت، پرات، ف 1161۔ کاٹی: چھوٹا مہین کانٹا، ہ 103، بندھے: پھنسے، اٹکے، ہ 248۔ دھار: پانی کا بہاؤ، ہ 303، ڈگن: مچھلی شکار کرنے کا ایک آلہ، ف 680۔
کبھی زندگی کے ارماں کبھی مرگِ نو کا خواہاں
وہ جیا کہ مرگ قرباں وہ موا کہ زیست لایا
ہندی الفاظ مع معانی:  جِیا: زندگی، جی، پیارا، ف 504، مُوا: مردہ، مرا ہوا، ف 1308۔
میل سے کس درجہ ستھرا ہے یہ پتلا نور کا
ہے گلے میں آج تک کورا ہی کرتا نور کا
ہندی الفاظ مع معانی:  میل: گندگی، ہ 520، ستھرا: صاف، ہ 653، پتلا: مورتی، مجسمہ، ہ 388، گلا: گردن، ہ 142، کورا: نیا، غیر مستعمل جیسے کہا جاتا ہے کورا کاغذ، کورا برتن اور کورا گھڑا وغیرہ، ف 1042۔
یاں بھی داغِ سجدئہ طیبہ سے تمغانور کا
اے قمرکیا تیرے ہی ماتھے ہے ٹیکا نور کا
ہندی الفاظ مع معانی: ماتھا: پیشانی، جبیں، ہ 505، ٹیکا: تِلک، قشقہ، صندل یا سندور یا ہلدی چاول کا نشان جو ماتھے پر لگایا جاتا ہے، ہ 220، ف 435۔
حوالہ جات
 .1          قادری، بدرالدین،سوانح اعلیٰ حضرت، بستی،مدرسہ غوثیہ، 1984 ص 387 تا396
.2            قادری، امانت رسول، تجلیات امام احمد رضا، کراچی، مکتبہ برکاتی پبلشرز،ص 90
.3           آزاد، دھرمیندر ناتھ، پروفیسر، ہمارے رسول، نئی دہلی، سفارت جمہوری ایران، 2011 ص 138
.4            پنڈت جواہر لال نہرو، ہندوستان کی کہانی، نئی دہلی، سستا ساھتیہ منڈل، 1947 ہندی، ص78
.5           طبری، ابو جعفر محمد بن جریر، تاریخ طبری،کراچی، نفیس اکیڈمی،2004 جلد 3،ص165، طبقات ابن سعد،جلد ۱،ص339
.6           دنکر، رام دھاری سنگھ، سنسکرتی کے چار ادھیائے،دہلی، راج پال اینڈ سنس،1956،ص 36
.7           شاستری، رجنی کانت، ہندو جاتی کا اتھان اور پتن،نئی دہلی، کتاب محل، 2008،ص3,4
.8           ہندو جاتی کا اتھان اور پتن،ص1,2
                 ہندوستان کی کہانی، ہندی، ص78
.9           تیواری، ڈاکٹر بھولاناتھ، بھاشا وگیان کوش، وارانسی،گیان منڈل لمیٹڈ، 2020، سموت، ص 727 تا 741،  تیواری، ڈاکٹر بھولاناتھ، بھاشا وگیان، الٰہ آباد،کتاب محل،  1951، ص 194-95
.10         تیواری، ڈاکٹر بھولاناتھ، بھاشا وگیان کوش،وارانسی، گیان منڈل لمیٹڈ، 2020، سموت، ص 727 تا 741
.11        تیواری،ڈاکٹر بھولاناتھ، شبدوں کا جیون، نئی دہلی، راج کمل پرکاشن،1977، ص54
.12         شیرانی، محمود،پنجاب میں اردو، لکھنؤ، مکتبہ کلیان،1960،ص 144
                سید صباح الدین، ہندوستانی مسلمان حکمرانوں کے تمدنی جلوے، اعظم گڑھ، معارف پریس، 1963، ص60
.13        ڈاکٹر محمد عمر، ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر،نئی دہلی، نشریات حکومت ہند،1995،ص19
                فاروقی، عماد الحسن آزاد، ہند اسلامی تہذیب کا ارتقا،نئی دہلی، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، 1985،ص53,75
.14         فیروزسی، ایران ان اٹڈیا تھرو دی ایجز، دہلی، ممبئی،دادر ایشیا پبلشنگ ہاؤس،1962، ص144، لباب الباب (محمد عوفی) جلد2، ص246
.15        سید اسد علی، ہندی ادب کے بھکتی کل پر مسلم ثقافت کے اثرات، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2009، ص35
                 ہندوستانی مسلمان حکمرانوں کے تمدنی جلوے، ص61
.16        امیر حسن نورانی،علمی اجالے، لکھنؤ، منشی نول کشور بکڈپو، 1959، ص 16
.17          شیرانی، محمود،پنجاب میں اردو، لکھنؤ، مکتبہ کلیان،1960،ص 27
.18        داس، برج رتن، امیر خسرو کی ہندی کویتا، کاشی، ناگری پرچارنی سبھا 2010 بکرمی، ص 20
.19        شکلا، رام چندر،جائسی گرنتھاولی، پدماوت،اکھراوٹ،آخری کلام، کاشی، ناگری پرچارنی سبھا، 2017 بکرمی،ص 301
.20         سیدہ جعفر،گیان چندجین،تاریخ ادب اردو،ج۱ ص 377،383
.21         شکلا، رام چندر، جائسی گرنتھاولی،پدماوت،اکھراوٹ، آخری کلام، کاشی، ناگری پرچارنی سبھا، 2017 بکرمی، ص 347، 357، 341
.22         جائسی گرنتھاولی، پدماوت، ص 5، اکھراوٹ، ص 303
.23         جائسی گرنتھاولی، آخری کلام، ص 350
.24         نور محمد، اندراوتی، 1906، ص 96
.25         آزاد، دھرمیندر ناتھ، پروفیسر، ہمارے رسول، نئی دہلی، سفارتِ جمہوری ایران، 2011، ص 140
.26         ہمارے رسول، ص 141
.27         ہمارے رسول، ص 144
.28         دادو دیال کی بانی، الٰہ آباد، ویل ویڈیر پرنٹنگ ورکس، 1963، بھاگ ۱، ص 63، 130، 129، بھاگ 2، ص 166
.29         شیام سندر، ڈاکٹر،کبیر گرنتھاولی، وارانسی، ناگری پرچارنی سبھا، آٹھواں ایڈیشن، ص 253-54
.30         ملوک داس جی کی بانی، پریاگ، ویل ویڈیر پریس، تیسرا ایڈیشن، 1946، ص22
.31        مشرا، جے رام، ڈاکٹر، نانک بانی، الٰہ آباد، منتر پرکاش، 2019 بکرمی، ص 501، ہمارے رسول، ص 590
.32         اگروال، سرلوپرساد، ڈاکٹر، اکبری دربار کے ہندی کوی تان سین کے دھروپد، لکھنؤ، یونیورسٹی، 2007، بکرمی، ص394
.33        ہمارے رسول، ص 591
.34         ہمارے رسول، ص 592
.35        ہمارے رسول، ص 594
.36        قادری، حامد حسن، داستان تاریخ اردو، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ص 57
.37        عبدالحق، مولوی، اردو کی نشوونما میں صوفیاء کرام کا کام، نئی دہلی، انجمن ترقی اردو، ص 12
.38        پاٹھک، پنڈت رام چندر، آدرش ہندی شبد کوش، وارانسی، بھارگو بکڈپو، 2001
.39        آپٹے،وامن شوا رام، سنسکرت ہندی کوش، دہلی، موتی لال بنارسی داس،1997
.40         مولوی فیروزالدین،  فیروز اللغات، لاہور،فیروز سنز، جدید ایڈیشن

Dr. Muhammad Ahmad Naeemi
Asst Prof., Dept of Islamic Studies
Jamia Hamdard (Hamdard University),
New Delhi - 110062
Mob.: 9013008786

سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل تا جون2020



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...