سوانح مولانا روم: ایک تنقیدی مطالعہ
الطاف احمد اعظمی
تلخیص
علامہ شبلی نعمانی نے علم کلام
سے متعلق جو کتابیں لکھیں ان میں ’سوانح مولانا روم‘ کا نمبر چوتھا ہے۔ اس سے پہلے
وہ ’علم الکلام‘، ’الکلام‘ (جدید) اور ’الغزالی‘ لکھ چکے تھے۔
علامہ کی دوسری سوانحی کتابوں
کی طرح ’سوانح مولانا روم‘ بھی دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں نہایت اختصار
کے ساتھ مولانا روم کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں، دوسرا حصہ تفصیلی ہے جس میں
مولانا روم کے ’دیوان‘ (غزلوں کا مجموعہ) اور ’مثنوی معنوی‘ پر فاضلانہ ریویو ہے۔
’دیوان‘ کے تعارف میں علامہ شبلی نے مولانا روم کی غزل گوئی کے محاسن کے ساتھ اس
کے بعض معائب کا بھی ذکر کیا ہے۔ مولانا کی غزلوں کا ایک نمایاں وصف سوز و گداز
اور جوش و سرمستی ہے۔
’مثنوی معنوی‘ چھ دفتروں میں ہے۔ علامہ شبلی نے ان دفاتر
کے اہم نکات کی تشریح نہایت خوبی سے کی ہے۔ ’مثنوی‘ کی ایک نمایاں خصوصیت اس کا
تمثیلی طرزِ بیان ہے یعنی حکما اور متکلمین کے برعکس مولانا روم نے مثالوں سے اپنی
بات واضح کی ہے، اس کے علاوہ انھوں نے اخلاقی مسائل کو حکایت کے پیرائے میں پیش
کیا ہے اور تیسری نمایاں خصوصیت اس کے مباحث کا تنوع ہے، اور اس اعتبار سے دوسری صوفیانہ
مثنویوں، مثلاً حکیم سنائی کی ’حدیقہ‘ اور فریدالدین عطار کی ’منطق الطیر‘ سے
ممتاز ہے۔
’مثنوی‘ کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ تصوف کی کتاب
ہے اور اس میں اس کے بنیادی مسائل ہی بیان کیے گئے ہیں، بالخصوص وحدت الوجود کا
مسئلہ جس کے مولانا روم شدت سے حامی تھے لیکن علامہ شبلی پہلے عالم ہیں جنھوں نے
اپنی اس کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’مثنوی‘ عقائد اور علم کلام کی بھی عمدہ تصنیف ہے اور
اس لحاظ سے انھوں نے مولانا روم کو زمرۂ متکلمین میں شمار کیا ہے۔
علامہ شبلی کا یہ خیال محلِّ
نظر ہے۔ ’مثنوی‘ اوّل تا آخر تصوف کی کتاب ہے۔ اس میں عقائد اور علم کلام کے جو
مسائل زیربحث آئے ہیں وہ ایک معنی میں تصوف ہی کی حکیمانہ توسیع ہے۔ ملحوظ رہے کہ
مولانا روم ایک فلسفی صوفی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ’مثنوی‘ میں ایسے بہت سے اشعار ہیں
جن میں فلسفہ و سائنس حتی کہ طب کے بعض امور کا ذکر ہوا ہے لیکن مقصود بالذات عشق
کی شرح و ترجمانی ہے۔ بعض دوسرے اکابر صوفیا کی طرح مولانا روم بھی ادراک حقیقت
میں عقل کے بجائے دل یعنی عشق کی رہ نمائی کو معتبر خیال کرتے تھے۔ ’مثنوی‘ کے ایک
بڑے حصے پر مختلف جہتوں سے عشق کا تصور ہی حاوی ہے۔ انھوں نے حیات و کائنات سے
متعلق اہم مسائل کی عقدہ کشائی اسی زاویۂ نگاہ سے کی ہے اور یہی خصوصیت ’مثنوی‘
اور صاحب مثنوی کا طرۂ امتیاز ہے۔
علامہ شبلی کی زیرتعارف کتاب
میں ’مثنوی‘ کا یہ امتیازی پہلو عقائد اور علم کلام کے مسائل پر زیادہ توجہ دینے
کی وجہ سے بڑی حد تک دھندلا نظر آتا ہے۔
کلیدی الفاظ
علامہ شبلی نعمانی، مولانا
روم، مثنوی معنوی، تصوف، علم کلام، عشق، حیات و کائنات، متکلمین، وحدت الوجودہ،
شریعت، طریقت، حقیقت، فنا، فناء الفنا، بقا باللہ
——————
علامہ شبلی نے یہ معرکہ آرا
علمی کتاب اس وقت لکھی جب وہ حیدرآباد میں بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے لیکن اس کی
اشاعت کی نوبت 1906 میں آئی جب وہ ندوہ کے شعبۂ اہتمام سے منسلک ہوگئے تھے۔ اب
تک اس کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے وہ جدید ایڈیشن ہے جو
دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ سے 2010 میں شائع ہوا تھا۔
مولانا جلال الدین رومی کا
شمار فارسی کے بڑے صوفی شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی مثنوی کے بارے میں اکثر اہل علم
کا خیال ہے کہ وہ تصوف کی کتاب ہے اور اسی حیثیت سے فارسی شاعری میں ایک ممتاز
مقام رکھتی ہے لیکن علامہ شبلی کا خیال ہے
کہ مولانا روم صوفی کے ساتھ ایک بڑے متکلم اسلام بھی تھے۔ انھوں نے مولانا کی
سوانح عمری اسی زاویۂ نگاہ سے لکھی ہے۔ دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’سلسلۂ کلامیہ کا یہ چوتھا نمبر ہے، تین حصے (علم
الکلام، الکلام، الغزالی) پہلے شائع ہوچکے ہیں۔ مولانا روم کو دنیا جس حیثیت سے
جانتی ہے وہ فقر و تصوف ہے اور اس لحاظ سے متکلمین کے سلسلے میں ان کو داخل کرنا
او راس حیثیت سے ان کی سوانح عمری لکھنا، لوگوں کو موجب تعجب ہوگا لیکن ہمارے
نزدیک اصلی علم کلام یہی ہے کہ اسلام کے عقائد کی اس طرح تشریح کی جائے او راس کے
حقائق و معارف اس طرح بتائے جائیں کہ خودبخود دل نشین ہوجائیں۔ مولانا روم نے جس
خوبی سے اس فرض کو ادا کیا ہے، مشکل سے اس کی نظیر مل سکتی ہے، اس لیے ان کو زمرۂ
متکلمین سے خارج کرنا سخت ناانصافی ہے۔‘‘ 1؎
علامہ شبلی نے اپنے اس خیال کے
مطابق مثنوی پر جو تقریظ لکھی اس میں علم کلام کی بحث کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ
بحث 53 صفحات کو محیط ہے اور تصوف اور ا س کے مسائل کا بیان کل دس صفحے میں ہے۔
دیباچۂ کتاب اور اس کی ترتیب مضامین کو دیکھ کر کئی اہل علم نے بھی گمان کرلیا ہے
کہ ’مثنوی معنوی‘ کا بڑا حصہ کلامی مسائل کی توضیح سے تعلق رکھتا ہے۔ مولوی حبیب
الرحمن خاں شروانی جو شبلی کے قدردانوں میں تھے، لکھتے ہیں:
’’مثنوی شریف کو ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے پڑھا ہوگا۔ اس
کی بیسیوں شرحیں لکھی گئیں۔ بہت سے خلاصے ہوئے لیکن (جہاں تک معلوم ہے) صرف ایک
تصوف کی کتاب کی حیثیت سے۔ یہ دیقہ سنجی علامہ شبلی کی نظر کے واسطے ودیعت تھی کہ
مثنوی معنوی، علم کلام کا بھی بہترین مجموعہ ہے۔‘‘ 2؎
لیکن راقم الحروف کو علامہ
شبلی اور ان کے ہم نوا اہل علم کے اس خیال سے اختلاف ہے کہ مولانا روم متکلم تھے
اور ان کی مثنوی کا ایک بڑا حصہ علم کلام کے مسائل سے متعلق ہے۔ مثنوی کا آغاز ہی
اس خیال کی نفی کرتا ہے ؎
بشنواز نے چوں حکایت می کند
و از جدائی ہا شکایت می کند
مولانا روم کا طریقۂ استدلال
جو زیادہ تر تمثیلی اور قیاسی نوعیت کا ہے، متکلّمین اسلام کے عقلی طریقۂ استدلال
سے بالکل مختلف ہے۔ وہ دین کے معاملے میں عقلی استدلال کے سخت خلاف تھے جیسا کہ
درج ذیل شعر سے جو کثیر النقل ہے، بالکل واضح ہے ؎
پایِ استدلال خود چوبیں بود
پایِ چوبیں سخت بے تمکیں بود
گر بہ استدلال کارِ دیں بدی
فخرِ رازی راز دارِ دیں بدی
مولانا روم درحقیقت ایک فلسفی
صوفی تھے اور ان کا فلسفہ عشق کا فلسفہ تھا یعنی عقل و خرد کی نفی اور دل کی حمایت
جو ان کے نزدیک حق شناسی کا معتبر ذریعہ ہے۔ ان کی نظر میں عشق ایک ایسا حاذق طبیب
ہے جو نفس کی تمام بیماریوں کا کامل علاج کرسکتا ہے۔ فرماتے ہیں:
شاد باش ای عشقِ خوش سودایِ ما
اے طبیب جملہ علت ہائے ما
اے دوایِ نخوت و ناموسِ ما
ای تو افلاطون و جالینوسِ ما
مولانا روم کی عشق و سرمستی
میں ڈوبی ہوئی اس صوفیانہ غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں جو شیخ سعدی نے والیِ شیراز
شمس الدین کو بھیجی تھی:3؎
ہر نفس آوازِ عشق میر سد از
چپ وراست
ما بہ فلک می رویم عزم و تماشا
کراست
مابہ فلک بودہ ایم، یارِ ملک
بودہ ایم
باز ہمان جا رویم، باز کہ آن
شہرِ ماست
ماز فلک برتریم، و ز ملک افزوں
تریم
زین دو چرانگذریم، منزلِ ما
کبریاست
علامہ شبلی نے ’فلسفہ و سائنس‘
کے عنوان سے جو اشعار لکھے ہیں اور جنھیں غلطی سے فلسفہ و سائنس کے اشعار سمجھ لیا
ہے (ص 153) وہ درحقیقت عشق کی ترجمانی ہے جو کائناتِ موجودات کے ذرّہ ذرّہ میں
سرایت کیے ہوئے ہے، ہر شے دوسری شے کی عاشق ہے اور اسی کشش سے سارا نظامِ ہست و
بود قائم ہے۔ اشعار ذیل دیکھیں ؎
جملہ اجزائے جہاں زان حکم پیش
جفت جفت و عاشقانِ جفت خویش
ہست ہر جفتے ز عالم جفت خواہ
راست ہم چوں کہربا و برگِ کاہ
——
میل ہر جزئی بہ جزئی ہم نہد
ز اتحادِ ہر دو تولیدی جہد
ہر یکی خواہاں دگر را یار خویش
از پئے تکمیلِ فعل و کارِ خویش
——
دورِ گردوں راز موجِ عشق داں
گر نبودی عشق بفسر دی جہاں
آخری شعر کا مطلب یہ ہے کہ
زمانے کی گردش دراصل ایک موج عشق ہے، اگر عشق نہ ہوتا تو سارا جہاں ٹھٹھر کر ایک
نقطے پر منجمد ہوکر رہ جاتا۔
تصوف کا بنیادی اور سب سے اہم
موضوع وحدت الوجود ہے جس کے مولانا روم سختی سے قائل تھے۔ انھوں نے مثنوی میں اس
خیال کوبکثرت بیان کیا ہے۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ مضمون بھی درحقیقت راز
عشق ہی کی شرح و تفسیر ہے۔ سچا عاشق اسی کو کہتے ہیں جو اپنے معشوق کے تصور میں
ہمہ وقت مستغرق رہتا ہے اور اس حالتِ استغراق میں سارا جہانِ رنگ و بو اس کی نظروں
میں معدوم کا درجہ رکھتا ہے، وہ عالم جنوں میں جدھر دیکھتا ہے ادھر صرف معشوق
دکھائی دیتا ہے۔
مولانا روم کا تصور عشق جس کے
علامہ اقبال شیدائی اور اس کے شارح اور ترجمان تھے، شیخ الاشراق کے فلسفۂ نور سے
ماخوذ ہے۔ شیخ الاشراق سے پہلے فارسی میں فلسفۂ عشق کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ یہ
تصور عشق پہلے حکیم سنائی اور عطار کے یہاں آیا اور پھر وہاں سے مولانا روم کی
شاعری کی زینت بنا۔ حکیم سنائی کی درج ذیل رباعی بڑی شہرت رکھتی ہے ؎
غازی ز پئے شہادت اندر تگ و
پوست
غافل کہ شہیدِ عشق فاضل تر
ازوست
در روزِ قیامت ایں باد کے
مانند
این کشتۂ دشمن است و آن
کشتۂ دوست
’مثنوی معنوی‘ سے متعلق ایک بڑی غلط فہمی کے ازالے کے بعد
اب میں ’سوانحِ مولانا روم‘ کے مباحث کی طرف آتا ہوں۔ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ نہایت
مختصر ہے (کل صفحات 33)، دوسرا حصہ صفحہ 35 سے شروع ہوکر آخر تک گیا ہے، اس حصے
میں جو اس کتاب کا جوہرِ اصلی ہے، مولانا روم کے ’دیوان‘ اور ’مثنوی‘ پر شرح و بسط
کے ساتھ ریویو کیا گیا ہے۔
میں پہلے سوانحی حصے کو لیتا
ہوں۔ تصوف کی تقریباً ہر کتاب میں صوفیا کے کشف و کرامات کا بیان بہت اہتمام سے
ہوتا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ تصوف کے مسائل (مقاماتِ سلوک و وحدۃ الوجود)
اس قدر پیچیدہ ہیں کہ عام لوگ تو کجا بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات بھی ان کو
ٹھیک ڈھنگ سے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس کی تلافی کشف و کرامات کے واقعات سے کی
گئی تاکہ عام لوگوں کا ایک بڑا طبقہ تصوف کا حلقہ بگوش بنا رہے۔
یہ کیسے ممکن تھا کہ مولانا
روم اور شمس تبریز جیسے اعلیٰ پایہ کے صوفیا کی زندگی حیران کن کرامات سے خالی ہو۔
بیان کیا جاتا ہے کہ جس وقت شمس تبریز مولانا روم سے ملے تو مولانا کے اردگرد
کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ انھوں نے مولانا روم سے (کتابوں کی طرف اشارہ
کرکے)پوچھا: یہ کیا ہے؟ مولانا نے کہا، یہ وہ چیز ہے، جس کو تم نہیں جانتے۔ یہ
کہنا تھا کہ دفعتاً تمام کتابوں میں آگ لگ گئی4؎ ایک دوسری روایت میں ہے کہ
مولانا روم ایک حوض کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے، سامنے کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں،
شمس تبریز نے پوچھا کہ یہ کیا کتابیں ہیں؟ مولانا نے کہا، یہ قیل و قال ہے، تم کو
اس سے کیا غرض۔ شمس نے کتابیں اٹھا کر حوض میں پھینک دیں۔ مولانا کو اس طرح کتابو
ںکے ضائع ہونے سے نہایت رنج ہوا اور فرمایا کہ میاں درویش تم نے اتنی قیمتی کتابیں
ضائع کردیں۔ یہ سن کر شمس تبریز نے حوض میں ہاتھ ڈالا اور تمام کتابیں نکال کر اس
حال میں رکھ دیں کہ وہ بالکل خشک تھیں۔5؎
یہ تو شمس تبریز کی کرامت
نمائی تھی، اب مولانا روم کی کم ازکم ایک کرامت تو دیکھ لیں۔ ہلاکو خاں کے سپہ سالار بیچو خاں نے
قونیہ پر حملہ کیا اور اس کا محاصرہ کرلیا۔ اہل شہر نے محاصرہ سے تنگ آکر مولانا
روم کی خدمت میں فریاد کی۔ مولانا نے ایک ٹیلہ پر جو بیچوں خاں کی خیمہ گاہ کے
سامنے تھا، جاکر مصلا بچھا دیا اور نماز پڑھنی شروع کی۔ بیچوں خاں کے سپاہیوں نے
مولانا کو تاک کر تیر چلانے چاہے لیکن کمانیں کھنچ نہ سکیں، آخر گھوڑے بڑھائے کہ
تلوار سے قتل کردیں لیکن گھوڑے جگہ سے ہل نہ سکے، تمام شہر میں غل پڑگیا..... خود
بیچوں خاں نے حملہ کرنا چاہا لیکن پاؤں اٹھ نہ سکے، آخر محاصرہ چھوڑ کر چلا
گیا۔6؎
علامہ شبلی اس واقعے کے متعلق
لکھتے ہیں:’’یہ پوری روایت ’مناقب العارفین‘ (صفحہ 153) میں ہے۔ صوفیانہ روایتوں
پر خوش اعتقادی کے حاشیے خودبخود چڑھتے جاتے ہیں، اس لیے اگر ان کو الگ کردیا جائے
تو واقعہ اس قدر نکلے گا کہ مولانا نے جب اطمینان، استقلال اور بے پروائی سے نماز
پڑھنی شروع کی ہوگی..... تو اس نے بیچوں خاں کے دل کو مرعوب کردیا ہوگا۔‘‘7؎
مثنوی کے سوانحی حصے میں دوسری
عجیب چیز یہ نظر آتی ہے کہ مولانا روم پہلے شمس تبریز کے گرویدہ ہوئے اور جب وہ
غائب ہوگئے تو ان کے فراق میں غزلوں پر غزلیں کہہ ڈالیں جن میں بے انتہا درد و سوز
ہے۔8؎ درج دیل اشعار دیکھیں جو دونوں یارانِ طریقت کے گہرے تعلقات کی غمازی کرتے
ہیں ؎
مطربا! نرمک بزن تا روح باز
آید زتن
چوزنی برنامِ شمس الدین تبریزی
بزن
مطربا! بہر خدا تو غیر شمس
الدین مگو
برتن و جاں وصفِ او بنوازتن تن
در نتن
نام شمس الدین بگوشم خوشتر از
درِّ ثمین
نامِ شمس الدین چو شمع و جان
بندہ چوں لگن
شمس الدین تبریز جب دوبارہ
غائب ہوگئے (روایت ہے کہ مولانا روم کے کسی مرید نے ان کو قتل کردیا تھا) تو اسی
گہرے انس و محبت کا معاملہ شیخ صلاح الدین زر کوب کے ساتھ پیش آیا جو ان کے ایک
ناخواندہ مرید تھے۔ مولانا روم نے شمس تبریز کی طرح اس مرید کی مدح میں بھی بہت سی
غزلیں لکھیں۔ دو شعر ملاحظہ ہوں9؎ :
مطربا! اسرارِ ما را باز گو
قصہ ہائے جاں فزا را باز گو
چوں صلاح الدین صلاحِ جانِ
ماست
آن صلاحِ جان ہا را باز گو
662ھ میں جب شیخ صلاح الدین کا انتقال ہوا تو ان کی جدائی
کے غم میں ایک پرسوز غزل لکھی جس کا مطلع ہے
؎
ای ز ہجراں در فراقت آسمان
بگریستہ
دل میانِ خون نشستہ، عقل و جان
بگریستہ
شیخ صلاح الدین کے انتقال کے
بعد حسام الدین چلپی کو یہ درجۂ خاص حاصل ہوا۔ علامہ شبلی لکھتے ہیں:
’’صلاح الدین کی وفات کے بعد مولانا نے حسام الدین چلپی کو
جو معتقدان خاص میں تھے، ہمدم و ہم راز بنایا اور جب تک زندہ رہے انہی سے دل کو
تسکین دیتے رہے۔ مولانا ان کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے کہ لوگوں کو گمان ہوتا تھا
کہ شاید ان کے مرید ہیں۔‘‘10؎
مثنوی میں حسام الدین چلپی کا
ذکر بکثرت مقامات پر آیا ہے۔ ملحوظ رہے کہ مولانا روم نے حسام الدین ہی کی
درخواست پر مثنوی لکھنی شروع کی تھی جیسا کہ درج ذیل شعر میں ہے ؎
ہم چنیں مقصودِ من زیں مثنوی
ای ضیاء الحق حسام الدین توئی
تصوف کی تاریخ میں غالباً یہ
پہلا واقعہ ہے کہ کسی پیر نے اپنے مرید سے اس قسم کا والہانہ تعلق رکھا ہو کہ ؎
من تن شدم تو جاں شدی تو تن
شدی من جاں شدم
تا کس نہ گوید این سخن، من
دیگرم تو دیگری
کتاب کے حصۂ دوم میں جیسا کہ
پہلے ذکر ہوا، مولانا روم کی شعری تصانیف پر تقریظ و تبصرہ ہے۔ علامہ شبلی نے ’کشف
الظنون‘ کے حوالے سے ’دیوان‘ کے متعلق لکھا ہے ’’دیوان میں اگرچہ کم و بیش 50 ہزار
اشعار ہیں لیکن صرف غزلیں ہی غزلیں ہیں، قصیدہ یا قطعہ وغیرہ مطلق نہیں۔‘‘11؎ آگے
مولانا روم کی غزل گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’غزل کے لیے خاص قسم کے
مضامین، خاص قسم کے الفاظ، خاص قسم کی ترکیبیں مقرر ہیں، جن لوگوں نے غزل گوئی کو
اپنا فن قرار دیا ہے وہ کبھی کسی حالت میں اس محدود دائرہ سے نہیں نکلتے۔ بخلاف اس
کے مولانا اس کے مطلق پابند نہیں، وہ ان غریب و ثقیل الفاظ تک کو بے تکلف استعمال
کرتے ہیں جو غزل کیا قصیدہ میں بھی لوگوں
کے نزدیک بار پانے کے قائل نہیں۔ غزل کی عام مقبولیت اور دل آویزی کا بہت بڑا
ذریعہ یہ ہے کہ اس میں مجاز کا پہلو غالب رکھا جائے گا..... مولانا کے کلام میں
حقیقت کا پہلو اس قدر غالب ہے کہ رندوں اور ہوس بازوں کو جو غزل کی اشاعت اور
ترویج کے نقیب ہیں، اپنے مذاق کے موافق بہت کم سامان ہاتھ آتا ہے۔ فکِّ 12؎ اضافت
جو شاعری کی شریعت میں ابغض المباحات ہے، اس کو مولانا اس کثرت سے برتتے ہیں کہ جی
گھبرا جاتا ہے۔‘‘13؎
بے شبہ مولانا روم کی غزلوں
میں بعض فنی نقائص پائے جاتے ہیں لیکن اس کمی کی تلافی اس سوز و گداز اور جوش و
سرمستی سے ہوجاتی ہے جو ان کی اکثر غزلوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ شبلی نے بھی اس
خوبی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چیز بھی جسے شبلی نے شعری عیب قرار دیا ہے، ان
کے کمال شاعری میں شمار ہوگی کہ انھوں نے غزل کے تنگ دائرے کو توڑ کر اس میں ہر
قسم کے خیالات ظاہر کیے۔ مزید برآں مولانا روم سے پہلے غزلِ مسلسل کا رواج بہت کم
تھا، انھوں نے کثرت سے اس قسم کی غزلیں لکھیں جن میں ایک ہی مضمون یا حالت کا
پرجوش بیان ہے۔ عشق چاہے مجازی ہو یا حقیقی، اگر وہ سچا ہے تواس سے کلام کا حسن و
تاثیر بہت بڑھ جاتی ہے۔ رومی کے کلام میں عشق حقیقی کی جلوہ گری اس جوش و سرمستی
کے ساتھ ہے کہ بسااوقات گمان ہوتا ہے کہ یہ حقیقی کے بجائے مجازی عشق ہے۔
علامہ شبلی نے مولانا روم کی
غزل گوئی پر جو تبصرہ کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ فارسی ادبیات کے بڑے
رمز شناس تھے اور انھوں نے مولانا روم کے ’دیوان‘ کا مطالعہ بڑی دقت نظر سے کیا
تھا۔ علامہ نے ان کی غزلوں کی جن اہم خصوصیات کو مثالوں سے بیان کیا ہے اس سے شعر
فہمی کے ساتھ ان کی حیرت انگیز نکتہ سنجی ظاہر ہوتی ہے۔ اسی سلسلۂ بیان میں انھوں
نے رومی کی رباعیوں کا بھی ذکر کیا ہے حالانکہ وہ دیوان کا حصہ نہیں ہیں۔
عبدالحلیم شرر لکھنوی نے ’سوانح مولانا روم‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہمیں
تعجب ہوتا ہے کہ مولانا نے رباعیاتِ مولانا روم کو دیوان میں شامل خیال فرمایا
حالانکہ مولانا کی رباعیاں ایک مستقل تصنیف ہیں اور خاص توجہ کی مستحق ہیں۔‘‘14؎
مثنوی
علامہ شبلی نے ’دیوان‘ کے بعد
مولانا روم کی مثنوی پر نہایت تفصیل سے تبصرہ کیا ہے۔ ’مثنوی معنوی‘ چھ دفتروں میں ہے، دوسرے لفظوں میں اس کے چھ
دیوان ہیں۔ اس مثنوی کی تصنیف کا سہرا جیسا کہ اس سے پہلے ذکر ہوچکا ہے، مولانا
روم کے مرید خاص حسام الدین چلپی کے سر ہے۔ اس کا تذکرہ مثنوی کے متعدد اشعار میں
ہوا ہے۔
علامہ شبلی نے سب سے پہلے ان
اسباب کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے مولانا روم کی مثنوی کو اس قدر شہرت و مقبولیت
حاصل ہوئی کہ فارسی کی کسی دوسری ادبی کتاب کو یہ شہرت حاصل نہ ہوسکی۔ حتیٰ کہ اس
کی مقبولیت فردوسی کے ’شاہ نامہ‘ سعدی کی ’گلستاں‘، حکیم سنائی کی ’حدیقہ‘ اور
خواجہ فریدالدین عطار کی ’منطق الطیر‘ سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گئی حالانکہ نفس
شاعری کے اعتبار سے وہ ان کتابوں سے بلند درجہ نہیں رکھتی۔ اس مقبولیت کی ایک بڑی
وجہ اس کے مضامین کا تنوع اور اس کی معنوی گیرائی ہے۔ علامہ لکھتے ہیں:
’’فارسی میں جس قدر کتابیں نظم یا نثر میں لکھی گئی ہیں
کسی میں ایسے دقیق، نازک اور عظیم الشان مسائل اور اسرار نہیں مل سکتے جو مثنوی
میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، فارسی پر موقوف نہیں، اس قسم کے نکات اور دقائق کا
عربی تصنیفات میں بھی مشکل سے پتہ لگتا ہے۔‘‘ 15؎
علامہ شبلی نے حکیم سنائی کی
’حدیقہ‘ اور فریدالدین عطار کی ’منطق الطیر‘ اور مولانا روم کی مثنوی کے بعض مشترک
مضامین کا مقابلہ مثالوں سے کیا ہے اور دکھایا ہے کہ ’’مثنوی کو ’حدیقہ‘ اور ’منطق
الطیر‘ سے وہی نسبت ہے جو قطرہ کو گوہر سے ہے، سیکڑوں حقائق و اسرار جو مثنوی میں
بیان ہوئے ہیں حدیقہ وغیرہ میں سرے سے ان کا ذکر نہیں، جو خیالات دونوں میں مشترک
ہیں ان کی بعینہ یہ مثال ہے کہ جس طرح کسی شخص کو کسی چیز کا ایک دھندلا سا خیال
آئے اور ایک شخص پر اس کی حقیقت کھل جائے۔ نمونہ کے لیے چند مثالیں ہم درج کرتے ہیں۔‘‘
16؎
مثنوی کی ایک نمایاں خصوصیت
جیسا کہ شبلی نے لکھا ہے، اس کا تمثیلی طرزِ استدلال ہے یعنی انھوں نے حکما اور
متکلمین کے برعکس تمثیلات کے ذریعے اپنی بات کو واضح اور مدلل کیا ہے۔ اس کی دوسری
اہم خصوصیت یہ ہے کہ اخلاقی مسائل کو حکایت کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ جیسا
کہ سعدی کی ’گلستاں‘ میں ہے۔ مولانا روم نے اس طرز کو کمال کے درجے تک پہنچا دیا
ہے۔17؎ مثنوی کی تیسری قابل ذکر خصوصیت اس کے مباحث کا تنوع ہے۔ اس تنوع میں جو
موضوعاتی وحدت پائی جاتی ہے اس تک بہت کم اہل علم کی نظر جاسکی ہے اور شبلی بھی اس
سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
علامہ شبلی نے اپنی اس کتاب
میں یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ ’مثنوی معنوی‘ تصوف کے ساتھ عقائد اور
علم کلام کی بھی عمدہ تصنیف ہے۔18؎ راقم الحروف اس خیال کو صحیح نہیں سمجھتا اور
اس پر مختصر گفتگو اس مضمون کے شروع میں ہوچکی ہے۔ مثنوی میں تصوف اور اس کے حقائق
و معارف ہی مختلف پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں البتہ طرزِ بیان فلسفیانہ اور
طریقۂ استدلال دوسرے صوفیہ سے مختلف لیکن زیادہ مؤثر اور دل نشین ہے۔ مولانا روم
نے مثنوی میں دین اسلام کی کلی تعبیر پیش کی ہے اور اس کے تمام مسائل سے حکیمانہ تعرض
کیا ہے خواہ ان کا تعلق عقائد (ذاتِ باری، صفات باری، معاد، نبوت) سے یا اس کے
متعلقات (وحی، معجزہ، روح، جبر و قدر وغیرہ) سے ہو۔
علامہ شبلی نے انہی امور و
مسائل کو کلامی مسائل قرار دے کر مثنوی کے اشعار کی روشنی میں مولانا روم کے
خیالات کو نہایت تفصیل سے پیش کیا ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ انھوں نے جس دقیقہ
سنجی کے ساتھ اس نوع کے مضامین کی تشریح کی ہے وہ نہایت درجہ تحسین کے لائق ہے، اس
سے پہلے کسی دانش ور نے نہ تو اس زاویۂ نگاہ سے مثنوی کو دیکھا تھا اور نہ ہی
عقائد سے متعلق اس کے حقائق و دقائق کو اس خوبی سے پیش کیا تھا لیکن ان مباحث کو
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے، علمِ کلام کے نام سے موسوم کرنا صحیح نہ ہوگا، یہ ایک
صوفی فلسفی کی نکتہ طرازیاں ہیں۔ خود شبلی نے لکھا ہے:
’’مولانا کو اگرچہ مثنوی میں فلسفہ کے مسائل کا بیان کرنا
پیش نظر نہ تھا لیکن ان کا دماغ اس قدر فلسفیانہ، واقع ہوا تھا کہ بلا قصد
فلسفیانہ مسائل ان کی زبان سے ادا ہوجاتے ہیں، وہ معمولی سے معمولی بات بھی کہنا
چاہتے ہیں تو فلسفیانہ نکتوں کے بغیر نہیں کہہ سکتے۔‘‘19؎
مولانا روم نے عقائد اوران کے
متعلقات کی وضاحت میں جو نکتہ سنجیاں کی ہیں اس سے ان کی فلسفیانہ طبیعت کا صاف
اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً وجودِ خدا کے مسئلے میں یہ نیا نکتہ پیدا کیا ہے کہ ہر مادّی
صورت کے پس پردہ ایک بے صورت موجود ہے جو قدرے مجرد عن المادّہ ہے، اور یہی اس کی
علت ہے، اسی طرح درجہ بدرجہ ہر علت اپنے سے پہلے کی علت کے مقابلے میں مجرد عن المادّہ
ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آخری درجہ پر پہنچ کر وہ بالکل مجرد عن المادّہ ہوجاتی
ہے اور یہی خدا ہے۔
صفات بارِی تعالیٰ کے معاملے
میں بھی مولانا روم نے متکلّمین سے الگ راہ اختیار کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ
بحث سرے سے فضول ہے۔ خدا کی نسبت صرف اس قدر معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ ہے، باقی یہ کہ
کیسا ہے؟ کہاں ہے، اس کے کیا اوصاف ہیں؟ ادراکِ انسانی سے باہر ہے۔‘‘20؎
اسی طرح مولانا روم نے نبوت کی
حقیقت کو بھی اچھے ڈھنگ سے بیان کیا ہے لیکن انھوں نے وحی کی جو حقیقت بیان کی ہے
وہ صحیح نہیں ہے۔ فرماتے ہیں ؎
پس محلِّ وحی گردد گوشِ جاں
وحی چہ بود؟ گفتن از حسِّ نہاں
’’روح کے کان وحی کا محل ہیں، وحی کس چیز کا نام ہے؟ حسِّ
مخفی کے ذریعہ کہنا ہے۔‘‘ 21؎
لیکن قرآن مجید سے اس خیال کی
تردید ہوتی ہے۔ سورۂ شوریٰ کی آیت 51 میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ وحی ایک
خارجی چیز ہے جسے پیغمبر کبھی بالواسطہ اور کبھی براہِ راست وصول کرتا ہے۔22؎ لیکن
وحی کی حقیقت اور پیغمبر کا اس کو وصول کرنا یہ دونوں امور ادراک انسانی سے باہر
ہیں۔ (سورۂ بنی اسرائیل، 85)
معجزہ کے متعلق مولانا روم کا
خیال ہے کہ وہ اس معنی میں خارق عادت نہیں ہوتا جس معنی میں یہ لفظ بولا جاتا ہے،
معجزہ اسباب کے تحت ہی صادر ہوتا ہے لیکن ان اسباب کے فہم و ادراک سے عقل انسانی
قاصر ہے۔‘‘23؎
روح کے بارے میں مولانا روم کے
خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ شبلی نے لکھا ہے ’’روح جو ہر مجرد ہے اور انسان
میں جو روح حیوانی ہے جس کو جان بھی کہتے ہیں یہ اس کے کام کرنے کا ایک آلہ ہے۔
جس طرح کاریگر آلہ کے بغیر کام نہیں کرسکتا روح بھی اس روح حیوانی کے بغیر کام
نہیں کرسکتی لیکن فی نفسہٖ وہ بالکل ایک جداگانہ شے ہے اور چونکہ وہ جوہر مجرد ہے
یعنی نہ مادّہ ہے، نہ مادّہ سے مرکب ہے، اس لیے اس کو فنا نہیں۔ انسان دراصل اسی
روح کا نام ہے اور یہ جسم اور روح حیوانی اس کا قالب ہے۔‘‘ 24؎
اس روح انسانی کی سب سے نمایاں
خصوصیت بلکہ ماہیت ادراک و تعقل ہے اور یہ ہر انسان میں یکساں نہیںہوتی، اس میں
فرق مراتب ہے۔ مولانا روم نے روح انسانی کی اس خصوصیت کو درج ذیل شعر میں بیان کیا
ہے ؎
جان چہ باشد باخبر از خیر و شر
شاد از احساں و گریاں از ضرر
’’جان یعنی روح کس چیز کا نام ہے؟ اس چیز کا جو خیر و شر کو جانتی ہے اور جو فائدہ سے
خوش اور نقصان سے رنجیدہ ہوتی ہے۔‘‘ 25؎
معاد یعنی دوسری زندگی کی
حقیقت کو مولانا روم نے نہایت لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مختلف
مدارجِ ترقی (جمادات، نباتات، حیوانات) سے گزر کر آدمی اس درجہ تک پہنچا ہے تو
آگے بھی ترقی کی کوئی منزل ضرور ہوگی، جسم کی ظاہری فنا کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے
وجود کا خاتمہ ہوگیا، اس کا اصلی وجود تو روح ہے، جو غیرفانی ہے، اس لیے روح کی
ترقی کی جو اگلی منزل ہے اس کا نام معاد ہے۔ انسان کی فطرت میں زیادہ ترقی کی
خواہش موجود ہے تو وہ موت کے بعد کی ترقی کا خواہاں کیوں نہیںہوتا، وہ پرانا لباس
وجود چھوڑ کر نئے لباس کی تمنا کیوں نہیں کرتا؟ فنا کے بعد ہی بقا ہے ؎
این بقاہا از فناہا یافتی
از فنا پس رو چرا برتافتی
’’یہ بقا تم نے فنا کے بعد حاصل کی ہے، پھر فنا سے کیوں جی
چراتے ہو۔‘‘ 26؎
مشاہدۂ ملائکہ بھی ایک بڑا
پیچیدہ دینی مسئلہ ہے۔ علامہ شبلی نے مثنوی کے اشعار کی روشنی میں ملائکہ بالخصوص
جبرئیل امین کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کوئی مشخص وجود نہیں بلکہ درحقیقت یہ قوتِ
ملکوتی ہے جو مجسم ہوکر انبیا کو دکھائی دیتی ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’وحی کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قوت ملکوتی مجسم ہوکر
مشاہدہ ہوتی ہے اور پیغامِ الٰہی پہنچاتی ہے۔ مولانا (روم) نے اس کی مثال یہ دی ہے
کہ انسان بعض اوقات خواب میں دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس سے باتیں کررہا ہے حالانکہ
وہ کوئی غیرشخص نہیں ہوتا بلکہ خود وہی انسان ہوتا ہے لیکن خواب میں اس سے الگ نظر
آتا ہے۔ چنانچہ مولانا دفتر سوم میں فرماتے ہیں
؎
ہمچو آں وقتے کہ خواب اندر
روی
توبہ پیشِ خود بہ پیش خود شوی
بشنوی از خویش و پنداری فلاں
باتو اندر خواب گفت ست آں
نہاں۔‘‘27؎
لیکن یہ خیال قرآن مجید کی
متعدد آیات کے خلاف ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ اسی طرح شخصی وجود
رکھتے ہیں جس طرح انسان اور جن کا وجود ہے۔ قرآن میں ہے: فنادتہ الملائکۃ وہو
قائم یصلی فی المحراب (سورۂ آل عمران 39) ’’فرشتے نے اسے اس وقت پکارا جب وہ
محراب (عبادت گاہ) میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا ہے: فلما جاء
آل لوط المرسلونo قال انکم قوم منکرون (سورۂ حجر 62) ’’تو جب آل لوط کے
پاس فرستادے (فرشتے) پہنچے تو (انھیں دیکھ کر) اس نے کہا کہ تم ضرور اجنبی لوگ
ہو۔‘‘ قرآن مجید میں ایک جگہ فرشتوں کو ’عبادالرحمن‘ کہا گیا ہے (سورۂ زخرف 19)
یعنی وہ اسی طرح اس کے بندے ہیں جس طرح انسان اور جن اس کے بندے ہیں۔ جس طرح مادۂ
تخلیق کے اعتبار سے انسان اور جن مختلف حیثیت رکھتے ہیں یعنی ایک مٹی سے اور دوسرا
آگ کی لپٹ سے بنایا گیا ہے (سورۂ حجر 27)، اسی طرح فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کی ایک
مخلوق ہیں لیکن باعتبار تخلیق ان سے جدا ہیں۔ سورۂ فاطر کی پہلی آیت میں ہے کہ
’’اللہ نے فرشتوں کو اپنا پیغام رساں بنایا ہے جن کے دو دو، تین تین اور چار چار
بازو ہیں۔‘‘ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جبرئیل اور دوسرے فرشتے شخصی وجود
رکھتے ہیں۔
عقائد میں جبر و اختیار کا مسئلہ
بڑا مہتم بالشان ہے، ایک گروہ اختیار یعنی مختاری کا قائل ہے اور دوسرا جبر کا
یعنی انسان مجبور محض ہے۔ میر تقی میر کا مشہور شعر ہے ؎
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے
مختاری کی
چاہے ہیں جو آپ کرے ہیں ہم کو
عبث بدنام کیا
مولانا روم کا رجحان اختیار
بلکہ اختیار مطلق کی طرف تھا۔ علامہ شبلی مثنوی کے اشعار کے حوالے سے لکھتے ہیں
’’انسان کے تمام افعال و اقوال سے اختیار کا ثبوت ملتا ہے، ہم جو کسی کو کسی بات
کا حکم دیتے ہیں، کسی کام سے روکتے ہیں، کسی پر غصہ ظاہر کرتے ہیں، کسی کام کا
ارادہ کرتے ہیں، کسی فعل پر نادم ہوتے ہیں، یہ تمام امور اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم
مخاطب کو اور اپنے کو فاعلِ مختار سمجھتے ہیں..... جو چیز جس چیز کی ذاتیات میں ہے
وہ اس سے کسی حال میں منفک نہیں ہوسکتی..... اسی طرح قوت اختیاری بھی انسان کی
ذاتیات میں سے ہے، اس بنا پر وہ کسی حالت میں سلب نہیں ہوسکتی.... حتیٰ کہ خدا کی
قدر ت اور اختیار بھی ہماری قوت اختیار کو جو ہمارے ذاتیات میں سے ہے سلب نہیں
کرسکتا۔‘‘28؎
لیکن قرآن مجید سے انسان کے
کلی اختیار کی نفی ہوتی ہے۔ فرمایا ہے: وما تشآؤن الا ان یشآء اللّٰہ رب العٰلمین (سورۂ تکویر
29) ’’تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ دونوں جہاں کا آقا و حاکم اللہ بھی (ایسا ہی)
چاہیے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کو بے شک اختیار کی نعمت دی گئی ہے لیکن
یہ مطلق نہیں بلکہ اللہ کی مشیت کے تابع ہے۔ اسے کسی کام کے کرنے کا اختیار تو
حاصل ہے لیکن اس کی تکمیل اللہ کی مرضی پر منحصر ہے، وہ نہ چاہے تواس کا وقوع میں
آنا ممکن نہیں ہے۔
تصوف
علامہ شبلی نے تصوف پر اتنی
مختصر بحث کی ہے کہ اسے دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ مثنوی میں اس موضوع کی حیثیت
ثانوی ہے حالانکہ یہی مثنوی کا بنیادی موضوع ہے۔ اس بحث کو علم کلام پر گفتگو سے
پہلے نہایت تفصیل سے آنا چاہیے تھا۔
شریعت، طریقت اور حقیقت تصوف
کی تین بنیادی اصطلاحیں ہیں اس لیے سب سے پہلے ان کا معنی و مفہوم ذہن نشین کرنا
ضروری ہے۔ علامہ شبلی نے بھی انہی تین اصطلاحات کی تفہیم سے تصوف کی بحث کا آغاز
کیا ہے۔ مولانا روم نے مثنوی کے دفتر پنجم میں ان
اصطلاحات کی وضاحت تین مثالوں سے کی ہے یعنی شمع، علم کیمیا اور علم طب۔ اس
تیسری مثال کے حوالے سے شبلی لکھتے ہیں:
’’یعنی مثلاً ایک شخص نے علم طب پڑھا، یہ شریعت ہے، دوا
استعمال کی، یہ طریقت ہے، مرض سے افاقہ ہوگیا، یہ حقیقت ہے، حاصل یہ کہ شریعت علم
ہے، طریقت عمل ہے، حقیقت عمل کا اثر ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ شریعت چار
چیزوں کا نام ہے، اقرار زبانی، اعتقادِ قلبی، تزکیۂ اخلاق و اعمال اور اوامر و
نواہی۔‘‘29؎
پھر شریعت کے ان چاروں اجزا کی
اس طرح تشریح کی ہے ’’اعتقاد تین طریقے سے پیدا ہوتا ہے، تقلید سے، استدلال سے،
کشف و حال سے، پہلی دونوں قسموں کو شریعت کہتے ہیں یعنی ان طریقوں سے کسی کو اگر
اعتقاد حاصل ہو تو کہا جائے گا کہ اس کو شرعی اعتقاد حاصل ہوگیا، تیسری قسم کا
اعتقاد طریقت ہے، یہ قسم بھی شریعت سے باہر نہیں لیکن امتیازاً ایک خاص نام رکھ
لیا گیا ہے کیونکہ یہ اعتقاد سلوک و تصوف اور مجاہدہ و ریاضت کے بغیر حاصل نہیں
ہوتا۔‘‘ 30؎
آگے مزید لکھتے ہیں ’’اسی طرح
تزکیۂ اخلاق کے جو احکام شریعت میں مذکور ہیں، ان کا نام شریعت ہے لیکن محض احکام
کے جاننے سے تزکیۂ اخلاق نہیں ہوتا.....
یہ مرتبہ مجاہدات اور فنائے نفس سے حاصل ہوتا ہے..... اس تفصیل سے معلوم
ہوا کہ شریعت اور طریقت دو متناقض چیزیں نہیں ہیں بلکہ دونوں میں جسم و جان، جسد و
روح، ظاہر و باطن، پوست و مغز کی نسبت ہے۔‘‘ 31؎
علامہ شبلی نے اوپر شریعت اور
طریقت کا مفہوم اور ان میں نسبت و تعلق کی وضاحت تو کی لیکن ’حقیقت‘ کی توضیح نہیں
کی حالانکہ تصوف میں اسی بات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے یعنی مشاہدۂ حق اور دیدارِ
الٰہی۔ اس کے علاوہ شریعت و طریقت کا جو مفہوم بیان کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ علامہ نے تصوف کا دقت نظر کے ساتھ مطالعہ نہیں کیا تھا۔
تصوف کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ
اس میں قرآن مجید کے تصورِ علم و عمل اور اس کی متعلقہ اصطلاحات کو چھوڑ کر نئی
اصطلاحیں وضع کی گئی ہیں اور یہ چیز قرآن مجید کے طرزِ تعلیم سے انحراف اور اس کی
تخفیف کے مترادف ہے۔ قرآن میں علم و عمل کے باب میں چار اصطلاحیں استعمال کی گئی
ہیں، ایمان، اسلام، تقویٰ اور احسان۔ ایمان قلبی اعتقاد و یقین کا نام ہے جس کا
زبان سے اقرار ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ قلب میں تصدیق
ہے یا نہیں۔ اس اعتقاد کے مطابق اعضا و جوارح سے اللہ کی اطاعت کا اظہار اسلام ہے۔
اس اطاعت کے دو اور درجات ہیں۔ جب اللہ کے احکام کی اطاعت دل کی تسلیم و رضا کے
ساتھ کی جاتی ہے تو یہ تقویٰ ہے اور جب یہ جذبۂ اطاعت مقر ایمان کے پورے وجود میں
سرایت کرجاتا ہے اور اس کے نفس کے منفی داعیات بالکل مغلوب ہوجاتے ہیں تو اس حسن
اطاعت کو احسان کہتے ہیں اور اس تمام اطاعت کی غرض محض اللہ کی رضا اور خوشنودی
ہے، اگر اس اطاعت میں کسی اور کی غیرمنصوص اطاعت شامل ہے یا اللہ کی رضا کے علاوہ
کوئی اور غرض ہے تو یہ اخلاص کے منافی ہے اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ نہ تو اس دنیا
میں حاصل ہوگا اور نہ آخرت میں۔
اسی کا دوسرا اصطلاحی نام
شریعت ہے، اور مذکورہ بالا تمام امور اس میں شامل ہیں۔ شریعت کا یہ مفہوم طریقت
اور حقیقت کے صوفیانہ مفہوم یعنی مشاہدہ حق سے مختلف ہے۔ شریعت میں تزکیۂ اخلاق
اور اصلاح باطن اس لیے ضروری ہے تاکہ اللہ کی اطاعت اور نفس کی مخالفت (تصوف میں
نفس کشی ہے جو رہبانیت کے ہم معنی ہے) آسان ہوجائے اور بندے کو روزآخرت اللہ کی
رضا اور اس کا قرب حاصل ہوسکے۔ یہ مشکل کام اسی وقت ممکن ہے جب بندے کے دل میں یہ
پختہ یقین ہو کہ ایک دن اسے اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑا ہوکر ایک ایک عمل کا
حساب دینا ہے۔ فرمایا گیا ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ
رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰیO فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَآویٰO
(النزعٰت: 40,41)
’’اور جو شخص اپنے رب کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو
بری خواہشوں سے روکا تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘
علامہ شبلی کا یہ کہنا کہ
’’شریعت اور طریقت دو متناقض چیزیں نہیں بلکہ دونوں میں جسم و جان، ظاہر و باطن
اور پوست و مغز کی نسبت ہے‘‘ صحیح نہیں ہے۔ شریعت کو پوست اور طریقت کو مغز کہنا
شریعت کی تنقیص ہے۔ مجدد الف ثانی نے شریعت اور طریقت کے درمیان جو نسبت قرار دی
ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں ’’شریعت میں تین چیزیں ہیں،
علم، عمل اور اخلاص اور طریقت و حقیقت شریعت کے خادم ہیں۔‘‘ 32؎
اسی طرح علامہ شبلی کا یہ خیال
بھی محل نظر ہے کہ ’’جس طرح علوم ظاہری کے سیکھنے کا ایک خاص طریقہ مقرر ہے جس کے
بغیر وہ علوم حاصل نہیں ہوسکتے، اسی طرح
اس علم (یعنی علم باطنی) کا بھی ایک خاص طریقہ ہے، جب تک اس طریقہ کا تجربہ نہ کیا
جائے اس کے انکار کرنے کی وجہ نہیں۔‘‘ 33؎
سوال اس دوسرے ذریعہ علم کے
انکار کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا قرآن مجید اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
بعد بھی دینی امور میں کسی اور ذریعۂ علم کی ضرورت ہے؟ اور کیا نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے جلیل القدر اصحابِ ہدایت اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے مذکورہ دو ذرائع
علم کے سوا کسی اور ذریعۂ علم کی طرف مائل ہوئے؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ دین
میں باطنی علم کی شمولیت تحریف فی الدین کے مترادف ہے۔
مولانا روم دوسرے صوفیا کی طرح
علم باطنی کے قائل تھے۔ علامہ شبلی نے مثنوی سے متعدد اشعار نقل کرکے ان کے نقطۂ
نظر کو واضح کیا ہے۔34؎ تصوف درحقیقت اسی
طرح ایک مذہبی فلسفہ ہے جس طرح ہندو مذہب میں ویدانت کا فلسفہ ہے اور دونوں میں
گہری مماثلت ہے۔ 35؎ اگر اس باطنی علم کو جس کا ذریعہ مراقبہ و مشاہدہ ہے، نکال
دیا جائے تو تصوف کی پوری عمارت منہدم ہوجائے گی۔
وحدت الوجود
علامہ شبلی نے ’وحدۃ الوجود‘
کے عنوان کے اوپر ایک اور عنوان دیا ہے یعنی ’توحید‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
صوفیا کے نزدیک توحید کا مطلب وحدت الوجود ہے۔ علامہ اس اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے
لکھتے ہیں:
’’علمائِ ظاہر کے نزدیک تو توحید کے یہ معنی ہیں کہ ایک
خدا کے سوا کوئی اور خدا نہیں، اور نہ خدا کی ذات و صفات میں کوئی اور شریک ہے،
لیکن تصوف کے لغت میں اس لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں، حضرات صوفیہ کے نزدیک توحید کے
یہ معنی ہیںکہ خدا کے سوا اور کوئی چیز عالم میں موجود نہیں، یا یہ کہ جو کچھ
موجود ہے سب خدا ہی ہے، اسی کو ہمہ اوست کہتے ہیں۔‘‘ 36؎
شبلی صوفیا کے اس خیال کو درست
سمجھتے تھے۔ اس کی تصویب میں لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ وحدت الوجود کے بغیر
چارہ نہیں۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے پہلے مقدمات ذیل کو ذہن نشین کرنا چاہیے (1)
خدا قدیم ہے، (2) قدیم، حادث کی علت نہیں ہوسکتا، کیونکہ علت اور معلول کا وجود
ایک ساتھ ہوتا ہے، اس لیے اگر علت قدیم ہو تو معلول بھی قدیم ہوگا۔ (3) عالم حادث
ہے، اب نتیجہ یہ ہوگا کہ خداعالم کی علت نہیں ہوسکتا، کیونکہ خداقدیم ہے اور قدیم
حادث کی علت نہیں ہوسکتا اور چونکہ عالم حادث ہے اس لیے اس کی بھی علت
نہیںہوسکتا..... اس بنا پر تین صورتوں سے چارہ نہیں: (1) عالم قدیم اور ازلی ہے
اور باوجود اس کے خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔37؎ لیکن جب خدا بھی قدیم اور ازلی ہے تو
دو ازلی چیزوں میں سے ایک کو علت اور دوسرے کو معلول کہنا ترجیح بلا مرجح ہے۔ (2)
عالم قدیم ہے اور اس کا کوئی خالق نہیں، یہ ملحدوں اور دہریوں کا مذہب ہے (3) عالم
قدیم ہے لیکن وہ ذات باری سے علیحدہ نہیں، بلکہ ذات باری ہی کے مظاہر کا نام عالم
ہے۔ حضرات صوفیا کا یہی مذہب ہے اور اس پر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا، کیونکہ
تمام مشکلات کی بنیاد اس پر ہے کہ عالم او راس کا خالق دو جداگانہ چیزیں اور ایک
دوسرے کی علت و معلول ہیں۔ غرض فلسفہ کی رو سے تو صوفیا کے مذہب کے بغیر چارہ نہیں۔
البتہ یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شریعت اور نصوص قرآنی اس کے خلاف ہیں لیکن یہ شبہ
بھی صحیح نہیں۔ قرآن مجید میں بہ کثرت اس قسم کی آیتیں موجود ہیں جن سے ثابت
ہوتا ہے کہ ظاہر و باطن، اوّل و آخر جو کچھ ہے خدا ہی ہے: ہُوَالاوّل والآخِرُ
والظَّاہرُ وَالباطِنُ۔‘‘ 38؎
اس اقتباس سے بالکل ظاہر ہے کہ
وحدت الوجود تمام تر ایک فلسفیانہ نظریہ ہے۔ یہ سوال کہ عالم کیسے وجود میں آیا
اور عالم اور خدا میں تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ مذہب اسلام کی طرف سے اس کا سیدھا اور
سادہ جواب یہ دیا گیا ہے کہ عالم مخلوق اور خدا اس کا خالق ہے اور یہ وسیع عالمِ
رنگ و بو اس کے علم و حکمت اور اس کی زبردست قدرت کا مظہر ہے۔ چنانچہ قرآن مجید
کی متعدد آیتوں میں کائنات کے ان آثار و مظاہر پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے
تاکہ علم کی سطح پر خدا کا عرفان حاصل ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ اس کائنات اور ا س
کے مختلف النوع مظاہر کا خالق ایک اللہ ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ اس واضح
تعلیم کے باوجود صوفیا نے مظاہر کائنات پر غور کرنے کے بجائے خود اللہ کی ذات کو
اپنے غور و فکر کا محور بنا لیا حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ہے:تفکروا فی خلق اللّٰہ ولا تفکروا فی اللّٰہ۔39؎ ’’اللہ کی تخلیقات میں غور کرو
مگر اللہ کی ذات میں غور و فکر نہ کرو۔‘‘
صوفیا نے اتنا ہی نہیں کیا کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نظرانداز کردیا بلکہ قرآن کے تصور توحید
کو بھی بدل دیا۔ اسلام کا توحیدی کلمہ ’لا الہ الا اللّٰہ‘ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود و مطاع نہیں۔
صوفیا نے اس کلمہ میں تحریف کردی اور اس کا مطلب یہ بیان کیا کہ ’’لا موجود الا
اللّٰہ‘‘ یعنی اللہ کے علاوہ کوئی موجود نہیں۔ اوّل الذکر کلمہ میں اللہ کے اقتدار
کی وحدت کا اعلان ہے یعنی اس کائنات میں ایک اللہ کے سوا کوئی دوسرا مرکز اقتدار
نہیں ہے اس لیے وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت و اطاعت کی جائے، اس کے سوا کسی
دوسرے کی عبادت اور کلی اطاعت شرک ہے لیکن تصوف میں ایک اللہ کے وجود کے سوا کسی
دوسرے وجود کا اثبات شرک ہے، ببیں تفاوت راہ از کجا است تابکجا۔
علامہ شبلی کا یہ قول ہے کہ
’’قرآن مجید میں بہ کثرت اس قسم کی آیتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ظاہر
و باطن، اوّل و آخر جو کچھ ہے خدا ہی ہے‘‘ محل نظر ہے۔ علامہ نے اپنے اس قول کے
اثبات میں صرف ایک آیت پیش کی ہے اور وہ ’’ہوالاوّل والآخر والظاہر والباطن‘‘
ہے۔ انھوں نے اس آیت کا حوالہ نہیں دیا ہے اور اس کا ایک فقرہ بھی چھوڑ دیا ہے
یعنی ’’وہو بکل شیء علیم‘‘۔ یہ سورۂ حدید کی آیت نمبر3 ہے۔ اس آیت کو علامہ
شبلی کے علاوہ تصوف کے حامی دوسرے علما نے بھی جن میں شاہ ولی اللہ دہلوی بھی شامل
ہیں، نظریۂ وحدت الوجود کی تائید میں پیش کیا ہے
اور اس کی وجہ ظواہر الفاظ ہیں لیکن اس آیت کا وحدت الوجود سے کوئی تعلق
نہیں ہے، اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ اپنے وسیع علم کے ذریعے سے ساری کائنات
کا ہر جہت سے احاطہ کیے ہوئے ہے، اس کا کوئی گوشہ اس کے دائرہ علم و خبر سے باہر
نہیں ہے۔ آیت کے اس مفہوم کو اس کا آخری فقرہ ’وہو بکل شیء علیم‘ کھول دیتا ہے۔
ملحوظ رہے کہ اس فقرے میں ’واؤ‘ حرفِ عطف نہیں بلکہ بیان کا ہے یعنی یہ اوّل فقرے
’ہو الاوّل والآٰخر‘ الخ کی وضاحت کے لیے لایا گیا ہے تاکہ آیت کے ظواہر الفاظ
سے کسی کو دھوکا نہ ہو لیکن قرآن میں عدمِ تدبر کی وجہ سے بہت سے علما اور صوفیہ
دھوکا کھاگئے۔
مولانا روم وحدت الوجود کے
قائل تھے، مثنوی کے متعدد اشعار میں اس خیال کا اظہار ہوا ہے۔ تاریخی طور پر یہ
بات ثابت ہے کہ مولانا روم شیخ محی الدین اکبر سے متاثر تھے40؎، حکیم سنائی اور
خواجہ فریدالدین عطار کے اثرات بھی انھوں نے قبول کیے، یہ دونوں بزرگ صوفی وحدت
الوجود کے زبردست حامی تھے۔ مؤخرالذکر کی کتاب ’منطق الطیر‘ میں اس خیال کو بصورت
تمثیل پیش کیا گیا ہے۔ ان دونوں صوفیا سے مولانا روم کی عقیدت ان کے درج ذیل شعر
سے بالکل ظاہر ہے ؎
عطار روح بود، سنائی دو چشمِ
ما
ما از پسِ سنائی و عطار آمدیم
مولانا روم نے وحدت الوجود کی
حمایت تو کی لیکن صوفیا کے اس خیال سے انکار کیا کہ ممکنات یعنی کائنات کی تمام
اشیا کی عین و ماہیت اللہ ہی ہے کیونکہ اس سے شرک کا دروازہ کھلتا ہے۔ علامہ شبلی
لکھتے ہیں:
’’وحدت الوجود کی صورت میں بھی یہ امر بحث طلب رہتا ہے کہ
ذات باری اور مظاہر کائنات میں کس قسم کی نسبت ہے، مولانا کی یہ رائے ہے کہ ذات
باری کو ممکنات کے ساتھ جو خاص نسبت اور تعلق ہے وہ قیاس اور عقل میں نہیں آسکتا،
نہ کیف و کم کے ذریعے سے بیان کیا جاسکتا ہے
؎
اتصالی بے تکلیف، بی قیاس
ہست رب الناس رابا جانِ
ناس‘‘41؎
بعض اخلاقی مسائل میں بھی
مولانا روم دوسرے صوفیا سے مختلف خیال رکھتے تھے۔ مثلاً تصوف میں توکل کا مطلب نفی
تدبیر ہے لیکن مولانا توکل کے ساتھ تدبیر کو بھی لازمی جانتے تھے۔ انھوں نے مثنوی
میں ایک عمدہ حکایت لکھی ہے جس میں ’جواب شیر‘ کے عنوان سے فرماتے ہیں ؎
گفت آری گر توکل رہبر است
ایں سبب ہم سنتِ پیغمبر است
گفت پیغمبر بآواز بلند
باتوکل زانوے اشتر بہ بند
رمز الکاسب حبیب اللہ شو
از توکل در سبب غافل مشو
رو، توکل کن ت وباکسب اے عمو
جہد می کن، کسب می کن موبمو42؎
’’اس نے کہا کہ اگر توکل کرو تو یہ تمھارا رہبر ہے اس لیے
کہ یہ پیغمبر کی سنت ہے۔ (لیکن اسی کے ساتھ) پیغمبر نے بلند آواز سے یہ بھی
فرمایا ہے کہ توکل کے ساتھ (تدبیر سے غافل نہ ہو)، اونٹ کے گھٹنے ضرور باندھ دو۔
’’کمانے والا اللہ کا دوست ہے‘‘ کے نکتہ کو سنو اور توکل کی وجہ سے سبب اختیار
کرنے میں سست نہ بنو۔ توکل میں کسب اور کوشش زیادہ بہتر ہے تاکہ تو اللہ کا محبوب بن جائے۔ اے چچا! جا، کوشش کے
ساتھ توکل کر، ہاں کوشش کر، کسب کر اور سربسر کسب کر۔‘‘
تصوف عملی طور پر ایک عملِ
مسلسل کا نام ہے جس کو اصطلاحاً مقاماتِ سلوک کہا جاتا ہے۔ مولانا روم نے مثنوی
میں تصوف اور سلوک کے تمام اہم مقامات مثلاً مشاہدہ، فکر، حیرت، فنا، بقا، فناء
الفنا وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ لیکن علامہ شبلی نے صرف مقام فنا پر گفتگو کی ہے۔
لکھتے ہیں:
’’فنا کی یہ حقیقت ہے کہ سالک اپنی ہستی کو بالکل مٹا دے
اور ذات الٰہی میں فنا ہوجائے، یہی مقام ہے جس میں منصور نے انا الحق اور حضرت
بایزید بسطامی نے سبحانی ما اعظم شانی کہا تھا، اور اس حالت میں ایسا کہنا محلِّ
الزام نہیں..... مولانا نے اس مقام کو مختلف تشبیہوں سے سمجھایا ہے (مثلاً) انسان
پرجب کبھی کوئی جن مسلط ہوجاتا ہے تو اس وقت وہ جو کچھ کہتا ہے یا کرتا ہے وہ اس
جن کا قول و فعل ہوتا ہے، جب جن کے تسلط میں یہ حالت ہوتی ہے تو نور الٰہی جس شخص
پر چھا جائے اس کی یہ حالت کیوں نہ ہوگی
؎
چوں پری غالب شود برآدمی
گم شود از مرد وصفِ مردمی
ہرچہ گوید او پری گفتہ بود
زیں سری نہ زاں سر گفتہ بود
خوئے او رفتہ پری خود او شدہ
ترک بے الہام تازی گو شدہ
چوں بخود آید نداند یک لغت
چوں پری را ہست ایں کا و صفت
پس خداوندی پری و آدمی
از پری کے باشد ش آخر کمی
چوں پری را ایں دم و قانون بود
کردگارِ آں پری خود چون بود
’’جب جنّ آدمی میں حلول کرجاتا ہے تو اس آدمی سے آدمیت
کا وصف زائل ہوجاتا ہے، جو کچھ وہ (آدمی) کہتا ہے جنّ کا قول ہوتا ہے (یعنی) اس
(جن کی) طرف سے (جو آدمی میں داخل ہے) اگرچہ اس آدمی کی طرف سے بولا گیا۔ اس
آدمی کی اپنی خو (شخصیت) جاتی رہی وہ بالکل جن ہوگیا (چنانچہ تم نے کبھی دیکھا یا
سنا ہوگا کہ) ایک (جاہل) ترک الہام کے بغیر عربی خواں بن گیا (کیونکہ اس کے اندر
عربی خواں جنّ بولتا ہے) پھر جب وہ (ترک) خود میں یعنی اپنی طبعی حالت میں واپس
آجاتا ہے تو (عربی کا) ایک لفظ نہیں جانتا۔ جب جنّ میں یہ ہنر اور صفت ہے تو جن و
انس کا مالک (اللہ) جن سے کب کم ہوگا (کہ وہ انسان کی زبان سے تکلم نہ کرسکے)، جب
جن کو یہ حوصلہ اور قانون (حاصل) ہے تو اس جن کا پروردگار کیسا ہوگا۔‘‘ 43؎
مولانا روم نے مقام فنا کی
وضاحت میں ایک دوسری مثال بھی دی ہے۔ علامہ شبلی لکھتے ہیں ’’مولانا نے ایک اور
مثال میں اس مسئلہ کو سمجھایا ہے، وہ یہ ہے کہ لوہا جب آگ میں گرم کیا جاتا ہے
اور سرخ ہوکر آگ کا ہم رنگ بن جاتا ہے تو گو وہ آگ نہیں ہوجاتا لیکن اس میں تمام
خاصیتیں آگ کی پائی جاتی ہیں، یہاں تک کہتے ہیں کہ آگ ہوگیا،فنا فی اللہ کے مقام
میں انسان کی بھی یہی حالت ہوتی ہے ؎
رنگِ آہن محوِ رنگ آتش است
ز آتشے می لافد و خامش وش
استیٔ
چوں بہ سرخی گشت ہمچو زرکان
پس انا النار است لافش بے زبان
شد ز رنگ و طبعِ آتش محتشم
گوید اُومن آتشم، من
آتشم‘‘44؎
’فنا فی اللہ‘ یعنی عشق و محبت الٰہی کا اگر یہی اعلیٰ
مقام ہے تو قرن اوّل کے مسلمانوں میں اس کا کوئی نمونہ کیوں نہیں ملتا؟ کیا صحابۂ
کرام سے بڑھ کر کوئی متقی اور خدا سے محبت کرنے والا ہوسکتا ہے؟ یہ وہ عاشق خدا
تھے کہ اس کی رضا جوئی میں گھر بار، آل واولاد حتیٰ کہ جان عزیز تک اس کی راہ میں
قربان کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے تھے لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہیں تھا جس
کی زبان سے محبت الٰہی کے اظہار میں کبھی کوئی خلاف شرع فقرہ نکلا ہو۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صوفیا
نے ’فنا فی اللہ‘ کے مقام پر پہنچ کر جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا وہ غیراسلامی تھا۔
اس فعل کی تاویل بس یہ ہوسکتی ہے کہ حالت سکر میں ان کی زبان سے بعض نامناسب کلمات
نکل گئے تھے۔ ان باتوں کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے مولانا روم کی طرح مثالیں گھڑنا
ناپسندیدہ طرزِ فکر ہے۔ حیرت ہے کہ علامہ شبلی نے جو علماء ظاہر کے حلقہ سے تعلق
رکھتے تھے، اس خلاف حق بات کی تائید کی ہے۔
فلسفہ و سائنس
علامہ شبلی نے کتاب کے آخر
میں ’فلسفہ و سائنس‘ کے عنوان سے بعض ان امور کا ذکر کیا ہے جو مثنوی میں ضمناً
اور تبعاً آگئے ہیں اور جدید سائنس کی تحقیقات سے مطابقت رکھتے ہیں، مثلاً تجاذبِ
اجسام، تجاذبِ ذرّات، تجددِ امثال اور مسئلہ ارتقا۔45؎ تجاذبِ اجسام کا مطلب یہ ہے
کہ تمام اجسام جن میں سیارات بھی شامل ہیں، ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں
جس سے وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ جدید سائنس کی اصطلاح میں اسے کششِ ثقل کہتے ہیں۔
تجاذبِ ذرات کا مفہوم یہ ہے کہ ہر جسم کی ترکیب نہایت چھوٹے چھوٹے ذرّات کے باہم
ملنے سے ہوتی ہے جن کو ایٹم کہتے ہیں، جس قدر ان ذرّات میں باہم کشش زیادہ ہوتی
ہے، اسی قدر ان میں اتصال بھی قوی ہوتا ہے۔ اس کی مثال لوہا ہے جو لکڑی کے مقابلے
میں زیادہ ٹھوس اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے ذرّات میں باہمی کشش زیادہ ہے اور تجددامثال
کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے اجزائِ ترکیبی جنھیں طبی سائنس میں خلیات (Cells) کہا
جاتا ہے، برابر فنا ہوتے رہتے ہیں اوران کی جگہ نئے اجزاء (خلیات) لے لیتے ہیں۔ اس
طرح ایک متعین مدت کے بعد نیا جسم تیا رہوجاتا ہے۔ اس سے مولانا روم نے یہ نکتہ
پیدا کیا ہے کہ بقا کے لیے فنا ضروری ہے۔
علامہ شبلی نے ان امورِ ثلاثہ
کو مثنوی سے مثالیں دے کر واضح کیا ہے۔46؎ مسئلہ ارتقا کا ذکر بھی مثنوی میں ہے
یعنی آدمی کی تخلیق مختلف مراحل (جمادات، نباتات، حیوانات) سے گزر کر ہوئی ہے۔
مولانا روم نے ان مراحل کے لیے ’اقلیم‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ؎
ہم چنیں اقلیم تا اقلیم رفت
تا شد اکنوں عاقل و دانا و زفت
لیکن یہ کوئی نیا خیال نہیں
ہے۔ اس سے پہلے ابن مسکویہ اس خیال کو تفصیل سے بیان کرچکا ہے۔ مولانا روم کے یہاں
اس کا اعادہ ہے۔ ہم اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ مثنوی میں اس قسم کے اشعار کو فلسفہ
و سائنس کا بیان سمجھنا غلط ہوگا۔ یہ دراصل مولانا روم کے تصور عشق کی شرح و تعبیر
ہے۔
مسائلِ طب
قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی
کہ مثنوی میں مسائل طب کا بھی ذکر ہے جس تک علامہ شبلی کی نظر نہیں پہنچ سکی۔ ہم
یہاں چند اہم طبی امور کو جن کا ذکر مثنوی میں ہوا ہے، اختصار کے ساتھ بیان کرتے
ہیں لیکن ملحوظ رہے کہ اس سے مقصود نفس تصوف کا بیان ہے نہ کہ طبی مسائل کی وضاحت۔
عناصر اربعہ: قدیم یونانی
فلسفہ کی تقلید میں طب یونانی میں تسلیم کرلیا گیا ہے کہ عناصر کی تعداد چار ہے
یعنی خاک، باد، آب ونار۔ انہی چار عنصروں کے امتزاج سے اس عالمِ رنگ و بو کی ہر
شے بنی ہے۔ انسان کا بدن بھی عناصر اربعہ سے مرکب ہے۔
اس قدیم تصوف کے مطابق عناصر
کے چار مرکز یا معدن ہیں۔ عنصرِ خاک کا مرکز کرۂ ارض، عنصرِ بادکا کرۂ ہوا، عنصر
نار کا کرۂ نار اور عنصر آب کا کرۂ آب۔ کرۂ خاک وسط میں، اس کے چاروں طرف
کرۂ آب (سمندر)، اس کے اوپر کرۂ ہوا اور اس کے اوپر کرۂ نار ہے۔ یہ تمام کرے
طبق در طبق قائم ہیں۔ مولانا روم نے نہ صرف ان طبقاتِ عنصری کا ذکر کیا ہے بلکہ یہ
بھی لکھا ہے کہ ہر عنصر اپنے اصل یعنی معدن کی طرف کشش رکھتا ہے اور اس کے قرب و
اتصال کے لیے ہر وقت مضطرب رہتا ہے۔ فرماتے ہیں ؎
خاک گوید خاکِ تن را باز کرد
ترکِ جاں گو سوئے ما آہمچو
گرد
جنسِ مائی، پیشِ ما اولیٰ تری
بہ کزاں تن وا بری ویں سوپری
گوید آرے لیک من پابستہ ام
گرچہ ہمچوں تو ز ہجراں خستہ ام
ترّی تن را بجویند آب ہا
اے تری باز آ ز غربت پیش ہا
گرمیِ تن را ہمی خواند اثیر
کہ زناری، راہِ اصل خویش گیر
’’خاک بدن کی خاک سے کہتی ہے کہ واپس آجا، جان کو چھوڑ
دے، ہماری طرف گرد کی طرف اڑ کر آجا۔ تو ہماری جنس سے ہے، ہمارے پاس ہی تیرا قیام
بہتر ہے۔ بہت عمدہ بات ہے کہ اس بدن سے تعلق منقطع کرکے ادھر ہی آجا۔ خاکِ بدن
(جواب میں) کہتی ہے، ہاں (تیری باتیں سب صحیح ہیں) لیکن میں (ایک وقتِ معینہ کے لیے بدن انسان میں) مقید ہوں اگرچہ میں بھی
تیری طرح (تیری جدائی سے خستہ و ملول ہوں۔ (کرۂ آب کے) پانی جسم کی تری کو ڈھونڈ
رہے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) اے تری، بے وطنی سے لوٹ کر ہمارے پاس آجا۔ بدن کی گرمی
کو کرۂ نار (اثیر) بلا رہا ہے کہ تیرا تعلق آگ (کی جنس) سے ہے، اپنی اصل کی طرف
پیش قدمی کر۔‘‘ 47؎
علتِ مرض: طبِّ یونانی میں خلطی نظریہ کو بڑی اہمیت حاصل
ہے۔ اس نظریہ کے مطابق بدن انسان میں چار خلطیں پائی جاتی ہیں، خون، بلغم، صفرا،
اور سودا۔ جب تک یہ چاروں خلطیں باعتبارِ کمیت و کیفیت حالت اعتدال پر رہتی ہیں
بدن انسان تندرست رہتا ہے اور اسے کوئی
بیماری لاحق نہیں ہوتی لیکن جب ان میں کمیت یا کیفیت کے لحاظ سے عدمِ
اعتدال پیدا ہوجاتا ہے تو مرض کا ظہور ہوتا ہے۔
لیکن مثنوی میں اس سے بالکل
مختلف بات کہی گئی ہے۔ مولانا روم نے اخلاط کے بجائے عناصر کو علتِ مرض قرار دیا
ہے اور اس کی وضاحت میں ایک لطیف نکتہ پیدا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عناصر فطری
قانونِ ترکیب کے مطابق اشیا کی صورت میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف اصولِ ترکیب ہے
جو انھیں باندھے رکھتا ہے اور دوسری طرف عناصر ہیں جو اس ’قیدِ اصول‘ سے نکل
بھاگنا چاہتے ہیں۔ اصل و فرع (عناصر و
اصولِ ترکیب) کی کشاکش ہی بدن میں بیماریاں پیدا کرتی ہیں اور بالآخر موت کی صورت
میں عناصر آزاد ہوکر اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس تشریح کی روشنی میں مثنوی
کے درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
علت آید تا بدن را بگسلد
تا عناصر ہمدگر را واہلد
چار مرغ اند ایں عناصر بستہ پا
مرگ و رنجوری و علت پاکشا
پائے شاں ازہمدگر چوں باز کرد
مرغِ ہر عنصر یقیں پرواز کرد
جذبۂ ایں اصلہا و فرعہا
ہر دمے رنجے نہد در جسم ما
تا کہ ایں ترکیب ہا را بردرد
مرغِ ہر جزوے باصل خود پرو
حکمت حق مانع آمد زیں عجل
جمع شاں دارد بصحت تا اجل
گوید اے اجزا اجل مشہور نیست
پر ز دن پیش از اجل تا سودنیست
’’بیماری اس لیے آتی ہے کہ بدن کو فاسد کردے تاکہ عناصر
ایک دوسرے کو چھوڑ دیں۔ یہ عناصر گویا چار مرغ ہیں جن کے پاؤںبندھے ہوئے ہیں۔
موت، مرض اور (دوسری) علتیں (ان کے) پاؤں کو کھولنے والی ہیں۔ جب (مرض اور موت
نے) ان کے پاؤں ایک دوسرے سے کھول دیے تو ہر عنصر کا مرغ یقینی طور پر پرواز
کرگیا۔ اس اصل و فرع (عناصر اور اصولِ ترکیب) کی کشاکش ہر وقت ہمارے جسم میں کوئی
نہ کوئی بیماری پیدا کرتی رہتی ہے حتیٰ کہ وہ بیماری ان عنصری ترکیبوں کو درہم
برہم کردیتی ہے اور اس طرح ہر عنصر کا مرغ اپنے اصل کی طرف پرواز کرجاتا ہے۔ حقِ
تعالیٰ کی حکمتِ (بالغہ) اس طرح (عناصر کے) بعجلت (پرواز) کرنے سے مانع ہے۔ وہ ان
کو موت تک صحت کے ساتھ اکٹھے رکھتی ہے، کہتی ہے کہ اے اجزاء (عناصر) ابھی اجل کہاں آئی اور اجل سے پہلے
پرواز کی کوشش بے سود ہے۔‘‘
تشخیص مرض: کائنات ِ خلقت میں
ہر شے کا ظہور و فنا اسباب و علل کے تابع ہے اس لیے جب تک علت کا علم نہ ہو کسی شے
کا علم صحیح معنی میں حاصل نہیں ہوسکتا۔ امراض کی پیدائش اور ان کا علاج بھی اسی
بنیادی اصول کے ماتحت ہے۔ جب تک مرض کی علت معلوم نہ ہو اس کا معالجہ مشکل ہی نہیں
ناممکن ہے۔ اس لیے طبیب پر لازم ہے کہ وہ علاج سے پہلے سبب مرض کو خوب غور سے
معلوم کرے، مولانا روم فرماتے ہیں ؎
گفت، من رنجش ہمیدانم ز چیست
چوں سبب دانی دوا کردن جلی است
چوں سبب معلوم نبود مشکل است
داروے رنج و دراں صد محمل است
چوبدانستی سبب را سہل شد
دانشِ اسباب دفعِ جہل شد
’’اس نے کہا، میں جانتا ہو ںکہ اس بیماری کا سبب کیا ہے۔
جب تم کو سبب معلوم ہو تو علاج بالکل واضح ہے (یعنی ازالۂ سبب کی تدبیر کی جائے)۔
جب سبب معلوم نہ ہو تو علاج مشکل ہے کیونکہ اس صورت میں سیکڑوں احتمالات ہوتے ہیں۔
جب تم کو سبب مرض معلوم ہوگیا تو علاج آسان ہے۔ اسباب سے آگاہی نے علاج کی
ناواقفیت کو دور کردیا۔‘‘
علاج میں مریض کی عادت کا
لحاظ: مولانا روم معالجہ کے اس جالینوسی
اصول سے باخبر تھے کہ مریض کے علاج میں اس کی عادت کا لحاظ طبیب کے لیے ضروری ہے
کیونکہ عادت کی خلاف ورزی سے ہی بہت سے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ انسان اگر کھانے
پینے (ماکولات و مشروبات)، سونے جاگنے
(نوم ویقظہ) اور غسل و ریاضت میں متعینہ اصول و ضوابط کی پابندی کرے تو عام حالات
میں کسی بیماری میں اس کے مبتلا ہونے کا بہت کم امکان رہتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بدن
انسان کے مختلف النوع افعال کی صحیح طور
پر انجام دہی میں انسان کی عاداتِ مالوفہ کو بڑا دخل ہے۔ مثال کے طور پر ایک
بنگالی کی غذا مچھلی اور چاول ہے۔ اگر وہ اپنی اس غذائی عادت کو یک لخت چھوڑ دے
اور اس کی جگہ روٹی اور دال وغیرہ کھانا شروع کردے تو اس کا نظام ہضم اس تبدیلی کو
قبول نہ کرے گا اور وہ ضرور کسی نہ کسی معدی عارضہ میں مبتلا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ
اطبا بنگالی مریضوں کو دوران علاج مچھلی اور چاول کھانے کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن
غذا غیربنگالی مریضوں کے لیے ممنوع ہوتی ہے۔ اس فرق کی وجہ محض عادت کا اختلاف ہے۔
کیا آپ نے تمباکو نوشوں کو یہ
کہتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ اگر وہ بیڑی یا سگریٹ نہ پئیں تو رفعِ حاجت کے عمل میں
دشواری محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی عادت کا کرشمہ ہے۔ غرض یہ کہ انسان کی صحت و مرض سے عادت کا گہرا تعلق ہے،
اس لیے مرض کے علاج سے پہلے ایک طبیب کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ کہیں یہ مرض کسی
عادت کی خلاف ورزی کا نتیجہ تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس کا علاج اس چیزسے کرنا
چاہیے جو داخل عادت ہو۔ اس وضاحت کے بعد مثنوی کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں ؎
پس چنیں گفت است جالینوس مہ
آنچہ عادت داشت بیمارانش دہ
کز خلافِ عادت است آں رنج اُو
پس دوائے رنجش از معتاد جو
’’اسی لیے حکیم جالینوس اعظم نے کہا ہے کہ بیماروں کو جس
چیز کی عادت ہو وہی ان کو دو کیونکہ خلاف عادت (کھانے پینے) سے اس کو یہ مرض لاحق
ہوا ہے۔ پس اس کے مرض کا علاج اس چیز سے کرو جو داخلِ عاد ت ہو۔‘‘
ہم نے گذشتہ صفحات میں علامہ
شبلی کی اس کتاب کا جو تفصیلی جائزہ لیا ہے اس سے دو باتیں واضح طور پر معلوم
ہوئیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مثنوی اوّل سے آخر تک تصوف کی کتاب ہے البتہ اس میں جن
اسرار و حقائق کا بیان ہے اس کا دائرہ کافی وسیع ہے اور اس لحاظ سے تصوف کی کوئی
کتاب خواہ منثور ہو یا منظوم، مثنوی کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا
طریقۂ استدلال متکلّمین اور صوفیہ دونوں کے طرزِ استدلال سے جداگانہ ہے۔ اس میں فکر
و نظر کا تعمق اتنا زیادہ ہے کہ یہ درحقیقت فلسفہ کی کتاب بن گئی ہے۔ مزید برآں
اس میں تصوف کے بعض بنیادی خیالات سے
انحراف کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا روم اجتہادی ذہن و فکر رکھتے
تھے۔
دوسری بات یہ کہ ’سوانحِ
مولانا روم‘ علامہ شبلی کا ایک بڑا علمی کارنامہ اور اردو ادب میں ایک گراں قدر
اضافہ ہے۔ اس کا ہر صفحہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ فاضل مصنف نے ’مثنوی معنوی‘
کا بڑی دقت نظر کے ساتھ مطالعہ کیا تھا اور اس کے قیمتی جواہر ریزوں کے چننے کے
ہنر سے خوب واقف تھے۔ انھوں نے ان علمی جواہر کو جس خوبی اور حسن ترتیب کے ساتھ اس
کتاب میں جمع کیا ہے وہ کسی اور شخص کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس کتاب میں بس دو نقص
ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا سوانحی حصہ کمزور ہے۔ غالباً اس کی وجہ بعض اہم ماخذ تک
فاضل مصنف کی عدمِ رسائی ہے۔ دوسرے نقص کا ذکر ہم کتاب کے شروع میں ہی کرچکے ہیں،
اور وہ یہ کہ اس میں تصوف پر علمِ کلام کی بحث حاوی ہے، معاملہ اس کے برعکس ہونا
چاہیے تھا۔
حواشی
1؎ سوانحِ مولانا روم دیباچہ، ص 3
2؎ ماہ نامہ الندوہ لکھنؤ، شمارہ اکتوبر و نومبر 1906، ص
24-32، مزید دیکھیں حیات شبلی، ص 376
3؎ سوانح مولانا روم، ص 24
4؎ ایضاً، ص 7
5؎ ایضاً، ص 8
6؎ ایضاً، ص 14,15
7؎ ایضاً، ص 15
8؎ مولانا روم کی غزلوں پر مشتمل دیوان، دیوانِ تبریز کے
نام سے مشہور ہے۔
9؎ سوانح مولانا روم، ص 16
10؎ ایضاً، ص 17,18
11؎ ایضاً، ص 37
12؎ فکّ اضافت کا مطلب علامتِ اضافت کو چھوڑ دینا ہے۔
13؎ سوانح مولانا روم، ص 39
14؎ دیکھیں، ماہ نامہ، دل گداز، مدیر، عبدالحلیم شرر لکھنوی،
شمارہ اکتوبر 1910
15؎ سوانح مولانا روم، ص 53
16؎ ایضاً، ص56
17؎ ایضاً، ص69
18؎ ایضاً، ص81
19؎ ایضاً، ص153
20؎ ایضاً، ص89
21؎ ایضاً، ص95
22؎ مزید دیکھیں، سورۂ طٰہٰ: 114
23؎ سوانح مولانا روم، ص 105,106
24؎ ایضاً، ص115
25؎ ایضاً، ص112
26؎ ایضاً، ص122
27؎ ایضاً، ص97
28؎ ایضاً، ص133,34
29؎ ایضاً،ص 135
30؎ ایضاً، ص 136
31؎ ایضاً،
32؎ مکتوبات، مجدد الف ثانی، دفتر اوّل، مکتوب نمبر 40
33؎ سوانح مولانا روم، ص 137
34؎ ایضاً، ص 138,139
35؎ دیکھیں راقم سطور کی کتاب، وحدت الوجود، ایک غیراسلامی
نظریہ
36؎ سوانح مولانا روم، ص 140
37؎ یہ ارسطو کا نظریہ ہے۔
38؎ سوانح مولانا روم، ص 141,142
39؎ کتاب الاسماء والصفات، امام بیہقی، ص 299
40؎ جن ایام میں مولانا روم ملک شام میں تحصیل علم کی غرض سے
مقیم تھے تو وہ بکثرت شیخ اکبر کی صحبت میں رہے (سوانح مولانا روم، ص 23,24)
41؎ سوانح مولانا روم، ص 143
42؎ مثنوی معنوی، دفتر اوّل، ص 24
43؎ سوانح مولانا روم، ص 147 (اشعار کا ترجمہ راقم الحروف نے
کیا ہے)
44؎ ایضاً، ص 148
45؎ ایضاً، ص 153 تا 156
46؎ ایضاً
47؎ مولانا روم نے عنصر
چہارم ’نار‘ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
Prof. Altaf Ahmad Azmi
RZ-901 B, Gulshan Apartment
Flat No 402, Lane No 24
Tughlaqabad Extn
New Delhi - 110019
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق‘ اپریل تا جون 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں