20/8/20

مہدی افادی کی انفرادیت مضمون نگار: زیبا محمود




 زبان ایک ذریعہ خیال ہی نہیں بلکہ سماجی عمل بھی ہے۔ اس کی غیر معمولی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ انسانی تہذیب سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ اسے ارتقائی عمل سے بھی آشکار کرتی ہے۔ اس مقام پر اسلوب میں انفرادیت کا مسئلہ بھی قابل توجہ ہے کیونکہ شخصیت کی بلند آہنگی سے شخصیت کی بو قلمونی اور اس کے وقار کا پتہ چلتا ہے۔مہدی افادی باغی نہیں مجتہد تھے، ان کا اندازو اسلوب انفرادی کوششوں کا بر ملا اظہار ہے۔ 

مہدی افادی کا گورکھپور کے قدیم شیوخ خاندان سے تعلق تھا۔ ان کا سنہ پیدائش پروفیسر محمود الٰہی کی تحقیق کے مطابق 1870 کے لگ بھگ ہے حاجی علی حسن کی گیارہویں اولاد ہوئی جس کا نام انھوں نے مہدی حسن رکھا ( رشحات: پروفیسر محمود الٰہی کی ادبی کاوشیں ص28 )۔ مہدی افادی کی شخصیت اور مزاج کی تعمیر میں شیوخ خاندان کا زبردست رول رہا ہے۔ اسی کی پیروی کرتے ہوئے اپنی ذاتی زندگی میں نظم و ضبط کے قائل تھے۔ ناقدین ادب نے انھیں اوصاف کو ان کی تخلیقیت کا خمیر قرار دیا۔ مہدی افادی پیشے کے اعتبار سے ایک غیر شاعرانہ ماحول سے وابستہ رہے لیکن ان کی سرکاری دلچسپیوں اور مصروفیتوں سے الگ وہ اپنا تمام تر وقت انگریزی عربی فارسی اور اردو کی بہترین کتابوں کے مطالعے میں صرف کرتے تھے جنھیں وہ ’نازنین ادب‘کہتے تھے۔قدیم ادب کے ساتھ نئے علوم پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ یورپ کی رومانوی تحریک اور اس کے ادب کا مہدی افادی نے بڑے شوق و شغف کے ساتھ مطالعہ کیا تھا اور اس کا ان کے طرز فکر اور اسلوب ادا پر بہت گہرااثر ثبت ہوا۔ بقول سید سلیمان ندوی :

’’ ان کا قلم باغ و بہار تھا بلا کی شوخ اور شگفتہ طبیعت پائی تھی۔ اچھے خاصے خشک فلسفیانہ مباحث میں بھی وہ اپنے طرز بیان سے رنگینی پیدا کردیتے تھے جس طرح لبریز ساغر سے شراب چھلک جاتی ہے۔ 

ان کی طبیعت کی رنگینی الفاظ میں بکھری رہتی ہے۔ ‘‘

  ( مہدی افادی از فیروز احمد ص 128 )

مہدی افادی کی زبان و بیان میں جو شوخی شگفتگی اور شائستگی تھی اس کا اظہار یا اس کا تعارف دوسروں کی زبانی نہیں خود مہدی افادی کے اپنے قلم کی زبانی ہی سب سے بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے۔ مثال پیش ہے:

’’ سچ کہیے عذرا واقعی بہت حسین ہے۔ حسین تو ایک معمولی اور سر سری لفظ ہے عورتیں سبھی اپنی اپنی جگہ حسین ہوتی ہیں لیکن میں اپنے تخیل میں اوروں سے اس قدر مختلف ہوں کہ صرف گوشت پوست سے کام نہیں چلتا، عذرا مری عذرا تو نظم زندگی یعنی پوری شاعری ہے۔ اس کی آواز کامل موسیقی، اس کاتبسم میرا عنصر حیات ہے وہ قطعاً  توبہ شکن اور کافر ایمان... جہاں آنکھیں ملیں بس یہ معلوم ہوتا ہے تمام جسم میں بجلی دوڑ گئی۔ مدت ہوئی پہلی نظر میں جب شیدا ہوا دل سے آواز آئی ’خدا یا خیر‘ جس کا نتیجہ آج تک بھگت رہا ہوں۔ ‘‘ ( ادیب علی گڑھ ص180) 

مہدی افادی کے لٹریچر کی یہ خوبی ہے کہ سنجیدہ تحریریں بھی ان کے یہاں خشک و بے مزہ نہیں۔ان کے رشحات قلم میں ایک ایسی تازگی اور ندرت ادا ہے جو صر ف اور صرف ان کے اسلوب کاحصہ ہے۔ وہ ہمارے ادیبوں اور دانشوروں میں محمد حسین آزاد سے سب سے زیادہ متأثر معلوم ہوتے ہیں مگر انھوں نے آزاد کی صرف تقلید نہیں کی بلکہ ان کی شوخی میں نذیر احمد کی ظریفانہ نکتہ سنجیوں کو شامل کر کے ایک نئی پر کاری پیدا کردی۔ جہاں تک ان کی ادبیات کا سوال ہے مہدی کی تحریریں اردو لٹریچر میں قطعتاً غیر فانی ہیں۔ بقول ڈاکٹر تنویر احمد علوی:

’’ان میں وہ جوانی ہے جس پر عمر کا اثر نہیں ہوتا وہ مستی ہے جس میں شراب انگور کی مہک نہیں وہ بانکپن ہے جس پر سادگی قربان اور وہ سادگی ہے جس پر بانکپن نثار ہے۔‘‘ ( ماہنامہ ادیب علی گڑھ ص190 ) 

یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ مہدی افادی کے اپنے مذاق و مزاج کی تصویر ہی ہے۔ 

  تعلیم کسی قوم کے ارتقائی عمل میں کیا کردار ادا کرتی ہے اس سے مہدی افادی بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ تعلیمی تصورات کوئی مسئلہ نہیں مگر اس کی شرحیں ’کثرت شرح پریشان خواب من از کثرت تعبیر ہا ‘ کا مصداق بن گئی ہیں۔ تعلیمی تصورات اور تعلیمی فلسفہ اور زندگی کا رشتہ گوشت اور ناخن کا ہے۔ مہدی افادی کے نزدیک تعلیم ایک ’ذریعہ‘ جس میں انسانیت کے تمام مادی اور ذہنی قویٰ کی مکمل ہم آہنگ نشو ونما ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی مہدی افادی ایسی تعلیم کے خواہاں تھے جو اپنے تہذیبی ورثے کی عظمت کو برقرار رکھنے میں  پیش پیش رہے۔  پروفیسر محمود الٰہی نے صحیح لکھا ہے کہ:

’’ علی گڑھ تحریک کے اغراض و مقاصد ان کے پیش نظر تھے۔ لیکن جب علی گڑھ والوں میں طائوس و رباب کی طرف میلان بڑھا تو مہدی افادی نے بڑی سختی سے اس کا احتساب کیا۔ ‘‘ ( صحیفۂ محبت ص28 ) 

موصوف کے مطابق سماجی حالات میں ان کی فکری بالیدگی  بین ثبوت ہے اور اس سے یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ وہ اپنے پیش روئوں کے نظریات کے محض خوشہ چیں نہیں تھے۔ مہدی افادی کے مطابق انسانی اور اخلاقی قدریں ہر دور میں مذہب کے زیر سایہ ہی پروان چڑھی ہیں۔ مذہب اور سائنس کے متعلق ان کے خیالات کافی دلچسپی سے مملوہیں۔ مثال پیش ہے:

’’ مذہب کے اولیات کا انحصار کلیتہً امور غیر مادّی یعنی ایسی چیزوں پر ہے جو مدرکات انسانی سے باہر ہیں۔ یعنی ہمارے حواس فطری ان کے سمجھنے بوجھنے سے عاری ہیںاور سائنس صرف مادیت سے غرض نہیں رکھتا بلکہ اس کا دعویٰ ہے ’ عالم غیر‘ کا خیر سے وجود ہی نہیں ہے۔ جس پر ہم آپ اس قدر مٹے ہوئے ہیں۔ بہرحال فلسفہ اتنا برا ہی نہیں کہ ’ سنی سنائی ‘ کبھی کبھی مان لیتا ہے لیکن سائنس اتنا کٹر ہے کہ جب تک ’ آنکھوں دیکھی ‘ نہ ہو ہزار کہیے، کتنے ہی بڑے جبہ و دستار پیش کیجیے، مذہب کی دہائی دیجیے ایک نہیں سنتا ظاہر ہے کہ اتنا بڑا کافر بر خود غلط، کسی ’ شریعت سہلتہ ‘ کی گرفت میں کہاں تک آسکتا ہے، لیکن کیا اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ ہم مذاہب سے عموماََ دست بردار ہوجائیں ؟ اس کا فیصلہ میں انسان کی اگلی پچھلی اخلاقی تاریخ پر چھوڑتا ہوں جس کی تکمیل کی نسبت خود فلسفے کا یہ دعویٰ ہے کہ بغیر مذہب کے، ہو، ہی نہیں سکتی... ‘‘( افادات مہدی ص 223 ) 

مندرجہ بالا اقتباس کے افکار کو مذہب بیزاری، کے مترادف نہیں کہا جاسکتا۔ مہدی افادی نے بلا خوف و خطر اپنی آرا کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیا۔ اپنے مضمون ’اردو لٹریچر کے عناصر خمسہ‘ میں ببانگ دہل اور مثالوں کے ساتھ اردو کے پانچ بڑے انشا پر دازوں پر گہرائی اور گیرائی کے ساتھ تنقیدی نگاہ ڈالی ہے جس میں زبان کے تاریخی حالات اس کی خصوصیات اور مختلف دور میں جو انقلابات رو نما ہوئے اس کا جائزہ پیش کردیا اور دو ٹوک انداز بیان میں کہہ دیا کہ آزاد جامع اللغات اور تذکرئہ شعرائے فارسی کی تکمیل نہ کرسکے نذیر احمد قاموس الاسلام کے وسیع پیمانے کو گھٹا کر لغات اسلام مرتب نہ کرسکے اور اسی طرح شبلی سیرۃ النبی کے ساتھ مسلمانوں کی تاریخ بھی رقم نہ کرسکے۔ ان کو یہ احساس تھا کہ تصنیفی عہد ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ 

مہدی افادی کے وضع اصطلاحات اور تراکیب و جملے کے میلان کو دیکھتے ہوئے اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں:

’’ مہدی کی طباعی اور ذہانت کا ثبوت یوں تو ان کے قلم کی ہر کشش سے ثابت ہے مگر انھوں نے انگریزی الفاظ کے لیے جو مترادفات تراشے ہیں اور جو نئی ترکیبیں وضع کی ہیں وہ اپنی جگہ کسی تخلیق سے کم نہیں، مہدی انگریزی کا شائستہ اور ستھرا مذاق رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ہی اپنی زبان میں توسیع بلاغت اور رمزیت پیدا کرنے کے ذرائع سوچتے رہتے تھے یوں تو اب اردو میں فنی اصطلاحات کی کمی نہیں مگر مہدی نے انگریزی الفاظ کے لیے جیسے چست اور برجستہ الفاظ ڈھالے ہیں وہ ان کی غائر نظر اور لطافت طبع کے غماز ہیں۔ ‘‘ ( فن اور تنقید ص 282) 

مہدی افادی شمس العلما شبلی نعمانی کی وسعت نظر کے محض قائل ہی نہیں بلکہ ان کے بے پناہ معتقد تھے۔ شبلی کی تصنیف الکلام پر جہاں انھوں نے اپنے تاثر ات کا اظہار کیا وہیں اپنے مضمون ’آدھ گھنٹہ علامہ شبلی کے ساتھ ‘ میں اس خیال کا اعادہ کردیا کہ:

’’عربی کا یہ پروفیسر نہایت سخت عجمی ہے۔ توبہ یہ کیا کہہ گیا... ہاں تو یہ وصف اضافی ان کی عربیت میں اس قدر دب گیا ہے کہ بہتیروں کو یہ بات معلوم نہیں۔ ‘‘ 

( ماہ نامہ ادیب علی گڑھ ص 192 ) 

 غرض علامہ شبلی نعمانی کے مذاق فلسفہ تاریخ اور معیار تحقیق کے متعلق جو کچھ مہدی افادی نے کہا ہے اس میں صحت و مذاق کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ شبلی کی نثر کو ایک عالم ادب کی نگارش قلم سے موسوم کرتے ہیں جس میں شگفتگی کے ساتھ سنجیدگی کے وہ زبردست قائل ہیں۔ 




جہاں تک مہدی افادی کی مکتوب نگاری کا سوال ہے انھوں نے خط کو انسانی دل کا آئینہ قرار دیا اس ضمن  میں وہ سیمول جانسن کے اس قولA man letter are only the mirror of his herartکی پیروی کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ یہ خطوط ہی ہیں جو انسان کے دلی جذبات و خیالات کا روز نامچہ اور اسرار حیات کا صحیفہ ہوتے ہیں۔ مہدی افادی کے اکثر خطوط دل سے لکھے گئے ہیں جن سے انسانی فطرت کے را ز ہائے سربستہ کی عقدہ کشائی ہوئی ہے۔ مکاتیب مہدی کے بعد ان کے خطوط کامجموعہ صحیفئہ محبت کے نام سے شائع ہوا جسے انھوں نے اپنی رفیقۂ حیات عزیز النساء کے نام رقم کیے اور جس کی ترتیب و تدوین میں پروفیسر محمود الٰہی نے خون جگر صرف کر دیا اور ایک بسیط مقدمہ بھی تحریر کیا۔ فرماتے ہیں:

’’ مہدی افادی اپنے اور مہدی بیگم کے خطوط کو صحیفۂ محبت یا صحیفۂ عشق کہا کرتے تھے، اور یہ خطوط اپنے حاوی اور غالب موضوع کی وجہ سے ہیں بھی اسم بامسمٰی، زن و شوہر کی محبت کی ان گنت داستان موجود ہیں لیکن محبت میں اتنا استحکام اور استحکام کے ساتھ مواظبت بہت کم ملے گی ان کے یہ خطوط بارہ سال کی مدت کو محیط ہیں، پہلے خط میں جس محبت کا اظہار ہے وہی آخری برسوں کے خطوط میں بھی موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان خطوط میں صرف محبت کی بات ہو، یہ بہر حال خطوط ہیں جن میں اور بھی موضوعات لازماََ آگئے ہیں جن سے ان کے مزاج اور ان کی شخصیت کی گرہیں کھلتی ہیں، اور یہ وہ صحیفۂ محبت ہیں جس نے گھر میں اور گھر کے باہر بھی زندگی کرنے کا سلیقہ سیکھایا اور ایک خاندان کو ایک طرز فکر اور ایک راہ عمل عطا کیا۔ ‘‘ ( صحیفۂ محبت ص31-32 )

 صحیفۂ محبت کے خطوط بیک وقت ایک مخلص دوست ایک سچے عاشق ایک دیوانہ وار شوہر اور ایک شفیق باپ کے جذبات کا شفاف آئینہ ہیں۔ غالب کا مشہور مصرع خط لکھیں گے گر چہ کچھ مطلب نہ ہو کے مصداق مہدی افادی کے خطوط خلوص و محبت کے پیکر ہیں۔ پروفیسر محمود الٰہی کے اس خیال میں بڑا وزن ہے کہ صحیفۂ محبت کے خطوط میں اکثر انشاپر دازی کے بہتر سے بہتر نمونے ملیں گے جو افادات کے مضامین کی بازآفرینی کے زمرے میں شمار کیے جائیں گے۔ غرض صحیفۂ محبت کے خطوط بقول ڈاکٹر فیروز احمد، مہدی کی نفیس الطبعی اور جدت طرازی کے غماز ہیں اور یہ میلان اردو خطوط نگاری میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔ مہدی افادی کی جدت طرازی اور چابکدستی کے متعلق مولانا احسن مارہروی کی تنقیدی تحریر جو نقاد، میں شائع ہوئی وہ مہدی افادی کی زبان اور انشاء پردازی کے بالکل شایان شان ہیں جس کا ایک اقتباس نقل کر رہی ہوں جس سے مہدی افادی کی انشاء پردازی کے خد و خال واضح ہو جاتے ہیں:

’’واقعی آپ کے مضامین میں جدت و ندرت، نزاکت و لطافت اور اختراعی خصوصیات دل کش ہوتی ہیں اور خاص ترکیبوں کے ساتھ نئے لفظوں کی تراش خراش پوری ذہانت کا پتہ دیتی ہے، طبیعت کی روانی کے ساتھ قوت آخذہ بھی چولی کی طرح دامن سے لگی ہوئی، ایسی مستعد اور قابل طبیعتیں ان زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے بہت موزوں و مناسب ہیں جن میں سرمایۂ الفاظ کم ہوںاور اس کے واسطے نئی اصطلاحات کی ضرورت ہو جیسے ہماری اردو۔ ‘‘ (الناظر ص 60 نمبر 45 جلد8،  1913)

الغرض مہدی افادی بڑے لطافت پسند اور حسن پرست واقع ہوئے۔ ان کا مقصد تھا کہ جو شے حسین ہے میری رشتہ دار ازلی ہے۔ حسن سے اپنے اس ازلی تعلق کا اظہار انھوں نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر کیا ہے اور ان کا ہر جنبش قلم سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ان کی رعنائی خیال اور حسن نظر خود کو رومانی قلم کے ساتھ شائستہ و دلکش اور ترشے ہوئے پیرائے میں پیش کرتی ہے جسے’عروس جمیل و لباس حریر‘ سے تشبیہ دی جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ مزاج کی نفاست اور ایک نئے البیلے انداز تحریر کی وجہ سے مہدی افادی ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ 


Dr. Zeba Mahmood 

Dept of Urdu, Ganpat Sahai

PG College 

Sultanpur - 228001 (UP)

ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...