سیّدہ جعفرحیدر آباد کی ایک مایہ ناز علمی و ادبی شخصیت ہیں۔اُن کا شمار ہندوستان کی دانشور خواتین میں ہوتا ہے۔ وہ ایک اعلیٰ پایہ کی استاد، انشا پرداز، محقق اور نقاد ہیں۔
سیدہ جعفر کا تعلق تنقید کے کسی مخصوص دبستان سے نہیں تھا۔ انھوں نے کسی نظریاتی یاموضوعاتی دائرے کو اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا بلکہ عملی تنقید کرتے ہوئے صحت مند ادب پر زور دیا۔ انھوں نے تحقیق و تنقید کے تعلق سے بہت سے کام کیے لیکن ان کا اصل میدان تحقیق ہی تھا۔ انھوں نے جس متن کی بھی تدوین کی ہے، اس کے طویل مقدمے سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی طرف سے تمام مآخذ کو دیکھ کر ہی قلم اٹھایا۔ انھوں نے تنقید میں اپنی بصیرت اور شعور کا مکمل ثبوت دیا ہے۔سیدہ جعفر نے ’تنقید‘ پر کوئی مستقل کتاب تصنیف نہیں کی ہے۔ تاہم ان کے مضامین میں ان کے تنقیدی نظریات اور زاویۂ نگاہ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے جو اردو زبان و ادب کی نقاد خواتین میں انھیں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین کے چار مجموعے، فن کی جانچ، تنقید اور اندازِ نظر، مہک اور محک دکنی ادب کا تنقیدی مطالعہ شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے تنقید کے تعلق سے اپنا نقطئہ نظر واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’تنقید کے بارے میں میرا نقطئہ نظر یہ رہا ہے کہ وہی تنقید بھر پور اور وزن رکھنے والی ہو سکتی ہے جس میں اس پس منظر کا عطر کھنچ آئے جس میں کسی فن پارے کی تخلیق ہوئی ہو لیکن محض تاریخی پس منظر میں انسانی عمل اور رد عمل کے نتائج کا اظہار جامع تنقید نہیں۔اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں اس فن پارے کے شعری محاسن اور فنی نکات پر بھی نظر رکھنی ہوگی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فنکار کی تخلیقات میں اس کی شخصیت کی مہک، اس کے نظریات کا اظہار اور اس کی ذات کی جلوہ گری کس طرح ہوئی ہے اور اس کے پیچھے فنکار کے نفسیاتی محرکات اور نجی تجربات زندگی کے گوناگوں اثرات کس طرح کار فرما ہیں۔‘‘
(فن کی جانچ: سیدہ جعفر،نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان، حیدرآباد، 1965، ص، 3)
تحقیق اور تنقید تو ان کے مستقل اور پسندیدہ میدان تھے۔ڈاکٹر سیدہ جعفر کی تنقیدنگاری کا انداز تجزیاتی ہے۔ وہ تہذیبی تناظر کو بھی پیش نظر رکھتی ہیں اور فنی نزاکتوں پر بھی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتی ہیں۔ وہ موضوع کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس لیے موضوع کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنا ضروری سمجھتی تھیں۔ ان کی تنقیدمیں فقرہ بازی یا سطحیت سے کام نہیں لیا گیاہے۔
ڈاکٹر سیدہ جعفرکی تنقید ان کے وسیع مطالعے کی ترجمان ہیں۔ ’تنقید اور انداز نظر‘ اور ’مہک اور محک‘ کے مضامین میں مغربی مصنّفین کے متعدد حوالے ہماری نظر سے گزرے ہیں جن کا مقصد محض قاری کو مرعوب کرنا نہیں ہے۔ ان کا مقصد موضوع کے کسی مخصوص گوشے کی وضاحت ہے۔
ڈاکٹر سیدہ جعفر کے تنقیدی محاکمے متوازن اور سنجیدہ ہوتے ہیں وہ تنقید میں جذباتیت کو راہ نہیں دینا چاہتیں اور افراط و تفریط سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے فیصلے جذباتی نہیں ہوتے، وہ اپنے موضوع کا غائرمطالعہ کرتی ہیں۔ان کی نظرصرف محاسن یا صرف معائب پر نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر سیدہ جعفر تنقید کو قصیدہ خوانی یا ہجوگوئی تصور نہیں کرتیں بلکہ بے لاگ تبصرہ فرماتی تھیں۔
’فن کی جانچ‘ سیدہ جعفر کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں کل بارہ مضامین شامل ہیں لیکن کچھ مضامین ایسے بھی ہیں، جو تحقیقی نوعیت کے ہیں۔اس ضمن میں ’تذکروں کی تنقیدی اہمیت‘ اور ’کچھ مضمون نگاری کے بارے میں‘ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔آخرالذکر ان کے تحقیقی مقالہ ’اردو میں مضمون نگاری‘ کے تعلق سے ہے۔اس مضمون میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ اردو کے پہلے مضمون نگار ماسٹر رام چندر تھے۔1846کے آس پاس ان کے مضامین منظر عام پر آئے۔سر سید احمد خاں اور ان کے رفقا (حالی، محسن الملک، چراغ علی اور وقارالملک) نے 1857کی ناکامی کے بعد اپنے مضامین کو ذہنی بیداری اور سماجی شعور کو عام کرنے کا ذریعہ بنایا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو اردو میں مضمون نگاری کا آغاز 1846کے آس پاس ہوا۔ سیدہ جعفر نے ماسٹر رام چندر کو اردو کا پہلا مضمون نگار ثابت کیا ہے۔سر سید اور ماسٹر رام چندر کے درمیان مضمون نگاری کا فاصلہ تقریباً دس سا ل کا ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ماسٹررام چندراردو کے پہلے مضمون نگار ہیں لیکن سر سید اور ان کے رفقا نے اس کی توسیع میں بلاشبہ غیرمعمولی کردار ادا کیا۔البتہ جب زمانی فاصلہ اتنا کم ہو تو ایسے میں بہت سی باریکیوں سے آگاہی ہونی چاہیے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سیدہ جعفر نے جس محنت اور تجزیے سے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کے پہلے مضمو ن نگار ماسٹر رام چندر ہیں، یہ ان کا ایک گرانقدر کارنامہ ہے۔یہ تبھی ممکن ہو سکاہے، جب انھوں نے ان مضامین کا تنقیدی جائزہ لیا ہوگا۔مذکورہ بالامضمون میں سیدہ جعفر نے سرسری تاریخ بیان کی ہے، جو ماسٹر رام چندر سے شروع ہوتی ہے اور آل احمد سرور پر ختم ہو جاتی ہے۔
’تذکروں کی تنقیدی اہمیت‘ میں سیدہ جعفر نے لکھا ہے کہ جس طرح سے اردو نے دوسری اصناف ادب میں عربی اور فارسی روایات اور پیرایٔہ بیان کو اپنایا ہے، اسی طرح سے ادبی جانچ پڑتال کی کسوٹیاں بھی عربی اور فارسی سے لی ہیں۔کیونکہ اردو میں تذکرہ نویسی کا رواج فارسی کے اثر سے ہوا ہے اور فارسی تذکروں کے تتبع میں اردو دانوں نے تذکرہ نویسی کا فن اختیار کیاہے۔سیدہ جعفر نے ایک طرح سے تذکرے کی روایت کو سرسری طور پر پیش کیا ہے۔اس کے بعد اردو تذکروں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح سے ان تذکروں نے اردو تنقید کو فروغ دیاہے۔انھوں نے لکھا ہے:
’’تذکروں کی تنقیدی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تذکرہ نویسی میں تنقید نگاری کا ہیولا بنتا ہوا نظر آتا ہے۔شعرا کے کلام پر رائے دینا اور انتخاب کلام پیش کرنا یا معاصر ین سے ان کا مقابلہ کرنا، یا فارسی شعرا سے اردو شعرا کا موازنہ کرنا، بغیر تنقیدی صلاحیت کے کیسے ممکن تھا۔تذکروں کا ایک تنقیدی پہلو یہ بھی تھا کہ میر، میر حسن، قائم، شیفتہ اور مصحفی وغیرہ نے جہاں ضرورت محسوس کی تھی کلام پر اصلاحیں بھی دی تھیں۔اصلاح کلام دراصل فنی اور عملی تنقید ہی کا ایک پر تو ہے۔اصلاح ایک طرح سے اصولی تنقید اور عملی تنقید کا بڑا اچھا امتزاج ہوتا ہے۔ تذکروں میں جو اصلاحیں ملتی ہیں ان کی نوعیت زیادہ تر صوری اور لسانی ہے، لیکن معنوی پہلو بھی ان کے پیش نظررہا ہے۔‘‘(فن کی جانچ، سیدہ جعفر ،ص69-70)
’اردو مضمون کا ارتقا 1950 تک‘ کے موضوع پر سیّدہ جعفر نے عبدالقادر سروری کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے ۔ڈگری انھیں 1959 میںحاصل ہوئی۔یہ مقالہ کافی ضخیم تھا لیکن اس کو مختصر کر کے کتابی شکل دے دی گئی۔مقالے میں کئی قسموں کے مضامین شامل کیے گئے ہیں جیسے سماجی، سیاسی، تاریخی، تنقیدی، تحقیقی، رومانی وٖغیرہ۔ مقالے میں کئی ایسے مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں تک دوسروں کو رسائی حاصل نہ ہو سکی۔’ماسٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقا میں ان کا حصہ‘ یہ کتاب1960 میں منظر عام پر آئی۔یہ ان کی پہلی مطبوعہ کتاب ہے۔اردو مضمون کا ارتقا لکھتے وقت سیّدہ جعفر کو ماسٹر رام چندر سے متعلق کئی اہم معلومات فراہم ہوئیں، جن کو پی ایچ ڈی کے مقالے میں سمیٹنا مشکل تھا ۔اسی لیے انہوں نے یہ کتاب لکھ کر الگ سے ان کے کارناموں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کتاب سے پہلے ماسٹر رام چندر کے حالات و واقعات تذکروں میںدھندلے سے ملتے تھے لیکن سیّدہ جعفر نے طویل بحث کر کے اردو دنیا کو ان سے روشناس کروایا۔ اس کتاب میں مصنفہ نے بحث کر کے یہ ثابت کیا کہ آیا سرسیّد جن کو آج تک مضمون نگاری کا امام سمجھاجا تا تھا درست ہے یا نہیں اور آخرمیںبتایاکہ اس صنف کے اوّلین نقوش ماسٹر رام چندر کے ہاں ملتے ہیں۔
’ڈاکٹر زور‘ سیّدہ جعفر کی ایک غیر تدوینی تحقیقی کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے ڈاکٹر زور کے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ان کی تصانیف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اس میں انھوں نے چند اہم گوشوں کی طرف نشاندہی کی ہے۔
’من سمجھاون‘ سیّدہ جعفر کی ایک اور تحقیقی کاوش ہے۔ یہ تامل ناڈو کے ایک مشہور شاعرشاہ تراب کی طویل نظم ہے جوترجمہ شدہ ہے۔اس سے پہلے شاہ تراب کی زندگی اور ان کی تصانیف کے بارے میں بہت کم جانکاری ملتی تھی لیکن مصنفہ نے ان کے تقریباً ہر ایک پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً اس کتاب کے علاوہ ان کی چھ اور کتابوں، غزلوں اور چھ مخطوطات کی تفصیل بیان کی ہے۔
’دکنی رباعیات‘ سیّدہ جعفر کی تحقیقی تصنیف ہے۔ رباعی اور اس کے فن پرقلم اٹھاناکافی مشکل کام ہوتا ہے۔ سیّدہ جعفر نے محنت شاقہ سے اس پر طویل گفتگو کی ہے۔ انھوں نے اس میںدکنی شعرا کی رباعیاںجمع کر کے ایک اہم فریضہ انجام دیاہے۔یہ کتاب تحقیق وتدوین دونوں کے ضمن میںآتی ہے۔
’سکھ انجن‘ ابوالحسن بیجاپوری کی نظم ہے۔سیّدہ جعفر کی تحقیقی کاوش سے پہلے اس نظم کا ذکر کہیں نہیں ملتا تھا لیکن انھوں نے اس کتاب کو مرتب کر کے اہم مقام حاصل کیا ہے۔اس کتاب میں انھوں نے ان کی زندگی کے اہم اور غیر اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔یہ کتاب 1968میں منظر عام پر آئی۔ یہ ایک صوفیانہ نظم ہے اس میں صوفیانہ موضوع پر تنقید اور اس کے بعدلسانی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
’یادگار مہدی‘ اور’دکنی نثر کا انتخاب‘ بھی سیّدہ جعفر کی یادگار تصانیف ہیں۔اول الذکر ان کے جد اعلیٰ نواب مہدی نواز جنگ کے کارناموں پر مشتمل ہے اور مؤخر الذکر دکن کے نثری ادب پر محیط ہے ،جو بہمنی دور سے لے کر عہد عالمگیر تک کے تمام اہم شعرا اور ادیبوںکی تخلیقات پر مشتمل ہے۔اس میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ تاریخ ادب کے ابتدائی تین سو سال کا نمائندہ انتخاب پیش کیا جائے اور بہمنی دور اور اس کے بعد وجود میں آنے والی سلطنتوں کی تخلیقات کی مکمل نمائندگی ہو جائے۔
’یوسف زلیخا‘ بھی ان کی اہم تحقیق ہے۔یہ احمد گجراتی کی مثنوی ہے۔سیّدہ جعفر نے اس مثنوی کو دبستان گولکنڈہ کی پہلی مثنوی قرار دیا ہے۔کیونکہ اس سے پہلے وجہی کی قطب مشتری کو گولکنڈہ کی پہلی مثنوی تسلیم کیا جاتا تھا لیکن سیدہ جعفر نے اختلاف کر کے یوسف زلیخا کو اولیت دی ہے۔ انھوں نے اس میں مثنوی کے مصنف احمد گجراتی کے نام،تاریخ پیدائش،وطن، مذہب، شاعر کا پیشہ غرض زندگی کے اہم گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔
’کلیات محمد قلی قطب شاہ‘ سیّدہ جعفر کا ایک اور تحقیقی کارنامہ ہے۔کلیات محمد قلی قطب شاہ کو محی الدین قادری زور نے پہلے مرتب کیا تھا بعد میںسیّدہ جعفرنے اضافہ کر کے اس کو دوبارہ شائع کیا ہے۔سیّدہ جعفر نے ڈاکٹر زور کی بہت مدح سرائی بھی کی ہے لیکن یہ کہنے میں بھی وہ نہیںہچکچاتیں کہ اس میں بھاگ متی کا واقعہ اختلافی ہے۔ ڈاکٹر زور نے یہ کلیات اگر چہ پہلے مرتب کیا لیکن ان کی رسائی وہاں تک نہیں ہوئی جہاں تک سیدہ جعفر پہنچ گئیں۔ سیدہ جعفر نے مزید اضافہ کر کے محمد قلی قطب شاہ کی دو غزلیں اور بارہ نظمیں پہلی بار شائع کیں۔ اس تدوین کا مقدمہ281 صفحات پر مشتمل ہے۔مقدمہ سے ایک اہم بات ثابت ہوتی ہے کہ مسعود حسین خان نے محمد قلی قطب شاہ کی مشہور ترین غزل ’پیا باج پیالہ پیا جائے نا‘ کو قدیم اردو جلد دوم ص 402 میںغواصی سے منسوب کیا ہے۔اگر سیدہ جعفر نے اس کلیات کو مرتب نہ کیا ہوتا تو نہ مقدمہ کی نوبت پیش آتی اور نہ ہی مسعود حسین خاںکی غلط فہمی کی اصلاح ہو پاتی ۔
مقیمی کی مثنوی ’چندر بدن اور مہیار‘ سیّدہ جعفر نے ترتیب دے کر ہندی میں تفصیل کے ساتھ اس کا مقصد بیان کیا ہے۔مقیم اور مقیمی کو ایک ہی شخص تصور کیا جاتا تھا لیکن سیّدہ جعفر نے ثابت کیا کہ یہ دو الگ الگ شخص ہیں۔ اس میں مثنوی کے مصنف مقیمی کے حالات زندگی کوبھی پیش کیا ہے۔
’ماہ پیکر‘ جنیدی کی مثنوی ہے اس کے مرتب ہونے سے سیدہ جعفر کی ادبی کاوش میں اور اضافہ ہوگیا۔عبداللہ قطب شاہ کے دور میں لکھی گئی یہ مثنوی غیر مطبوعہ تھی ڈاکٹر سیّدہ جعفر نے اسے مرتب کر کے شائع کیا ۔
’اردو ادب کی تاریخ1700 تک‘ (پانچ جلدیں) یہ کتاب سیّدہ جعفر نے گیان چند جین کے اشتراک سے لکھی ہے۔اصل میں ترقی اردو بیورو نے یہ کام ان دو مصنفوں کو سونپا تھا ۔سیدہ جعفر نے 1700صفحات لکھے ہیں جب کہ گیان چند جین نے 400صفحات لکھے ہیں۔
آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو تنقید کا ذکر ہو یا تحقیق کا، سیدہ جعفر کا ذکر دونوں صورتوں میں ہوگا۔ انھوں نے جو کچھ کیا ہے، علمی حلقوں میں اس کا اعتراف بھی کیا گیا ہے، اور آگے بھی کیا جاتا رہے گا۔جب بھی دکن کے محققین یا ناقدین کا شمار کیا جائے گا، سیدہ جعفر کا شمار ان اہم لوگوں میں ہوگا جنھوں نے اردو تحقیق و تنقید میں گرانقدر اضافہ کیا ہے۔ ان کی خدمات سے آنے والی نسلیں مستفید ہو تی ہیں۔
Rushda Shaheen
Research Scholar, Dept of Urdu
Room no 101, LH9,South Campus
University of Hyderabad- 500046 (Telengana)
Mob. No: 8125931503, 8707317633
Mail Id:- rushdashaheen25@gmail.com
ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں