5/5/21

مئوناتھ بھنجن کا شعری منظرنامہ - مضمون نگار: ذکریٰ خاتون

 


مئو ناتھ بھنجن مشرقی اترپردیش کا ایک علمی،ادبی اور صنعتی شہر ہے۔پارچہ بافی اس شہر کی اہم ترین صنعت ہے۔ یہ اعظم گڑھ کے پورب اور غازی پور کے اتر میں تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پرٹونس ندی کے کنارے واقع ہے۔یہاں مدارس اور درس گاہوں کا جال بچھا ہواہے، اسی لیے اسے عالموں کا شہر بھی کہاجاتا ہے۔ مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولاناڈاکٹر محمد مصطفی مصری، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری، مولانا سلطان احمد، مولانا عبداللطیف نعمانی، مولانا عزیزالرحمن اعظمی اور مولانا سعید الرحمن اعظمی جیسی علمی شخصیات کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ ان میں سے اکثرنے علمِ حدیث پر ایسے محققانہ کارنامے انجام دیے ہیں کہ عالمِ اسلام ان کی علمی بصیرت اور دقیق نظری کا قائل ہوگیاہے۔ملک کی آزادی میں بھی شہرمئو ناتھ بھنجن کا حصہ رہاہے۔ترقی پسند تحریک کے زیراثر جلسے جلوس، کانفرنسیں اور مشاعروں کا اہتمام بھی ہوتارہا۔سجاد ظہیر اور دیگرادیبوں وشاعروں کی آمد نے اس شہر کی ادبی فضا کو رونق اورجلابخشی ہے۔ اردوزبان کی بقا اور تحفظ کے لیے متعدد انجمنیں (’بزمِ ادب‘، ’شانِ ادب‘اور’بزمِ تعمیر اردو‘) بھی قائم کی گئیں ان میں’بزم ادب ‘ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ بزمی بنارسی،ششدر اعظمی،عبدالرشید انجم، فیض الحسن فیض، فضا ابن فیضی اور اثرانصاری وغیرہ کی کوششوں نے ’بزمِ ادب‘ کو مئو ناتھ بھنجن کی ایک فعال اور سرگرم انجمن بنادیا۔ اسی کے زیر اہتمام ’دانش کدہ اردو لائبریری‘ کا قیام عمل میں آیا۔یہ لائبریری نہ صرف تسکینِ ذوق اور مطالعۂ کتب ورسائل کا سبب بنی بلکہ ترقی کے اس قدر منازل طے کیے کہ بہت جلد ایک علمی، ادبی اورثقافتی پروگراموں کا مرکزبھی بن گئی۔اسے پروان چڑھانے والوں میں منورعلی، مولوی عبدالباقی، ڈاکٹر انیس ادیب، مولوی عطاء الرحمن، کامریڈ امتیاز، ضیاء العبید، حاجی مختار علی، مشتاق احمدکار، عبد الحکیم گرہست،حاجی فخرالدین اور ماسٹرنثاراحمد وغیرہ پیش پیش تھے۔

مئو ناتھ بھنجن کے شعری منظر نامے کو پیش کرنے کے لیے پہلے ان شعرا کو زیر بحث لایا جائے گا جو آزادی سے قبل کے ہیں اور بعد کاحصہ ان شعراپر مشتمل ہوگا جن کی آمد آزادی کے بعد کی ہے۔مئو ناتھ بھنجن کے ابتدائی دور کے شعرا میںمحمد عبداللہ شائق (پیدائش1892) فیض الحسن فیض (1896-1973)، صفا انصاری (1898-1975)، عبدالرحمن اچڑم (1903-1963)، حبیب اللہ نیر اعظمی (پیدائش1906) اور رام کمار سنگھ فہیم (پیدائش1909) وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ان شعرا نے مئو ناتھ بھنجن میں ادبی وشعری فضا قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیاہے۔ محمد عبداللہ شائق مدرسہ دارالحدیث مئو کے بانی ہیں، درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔اردو فارسی اور عربی زبان وادب پر اچھی دسترس تھی۔طبیعت بڑی موزوں پائی تھی۔شعروسخن کا ذوق زمانۂ طالب علمی سے تھا،لہٰذاشاعری میں شمشاد لکھنوی کے شاگرد ہوئے۔ ان کے کلام کا بیشترحصہ ضائع ہوگیا۔ فیض الحسن فیض کی ابتدائی تعلیم مدرسہ دارالعلوم مئو سے ہوئی اورمدرسہ سبحانیہ الہ آبادسے فضیلت کی سند حاصل کی۔اردو فارسی اور عربی زبانوں پرقدرت رکھتے تھے۔شاعری میں وسیم خیرآبادی اور پھر نواب جعفر علی خاں اثر لکھنوی سے مشورۂ سخن کرتے رہے۔ماہرِعروض تھے اور اصغر گونڈوی سے عقیدت رکھتے تھے۔ نظم، غزل، رباعی، قصیدہ اور قطعہ میں طبع آزمائی کے باوجودکوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوسکا۔زبان وبیان میںشائستگی اورگداختگی ہے اور فکروفن گہری معنویت لیے ہوئے ہے          ؎

جلوۂ حسنِ رخِ یار ہے چلمن کے قریب

روشن اک آگ سی ہے وادیِ ایمن کے قریب

پھونک دے گی اسے خود آہِ جگر سوز مری

کوندتی پھرتی ہے کیوں برق نشیمن کے قریب

محمد مصطفی صفا انصاری مولانا سلطا ن احمد (بانی مدرسہ دارالعلوم مئو)کے صاحبزادے تھے۔شاعری کاستھرا ذوق تھا۔ بچپن میں ہی اپنے چچا شیخ حسام الدین کے یہاں پونے (مہاراشٹر) چلے گئے اور وہیں پر تعلیم پائی۔شاعری میں سلیم پونوی کے شاگرد تھے۔پونے اور بمبئی میں شعروسخن کی محفلوں میں شریک ہونے کے مواقع میسر آئے ا وروہیں سے شعری موشگافیوں کی استعدادبہم پہنچائی۔ سیاست سے خاص لگاو تھا اسی لیے ان کے کلام میں سیاسی رنگ نمایاں ہے۔عبدالرحمن اچڑم کو محمد یوسف رسا اور محمد عبداللہ شائق سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔طنزومزاح کے شاعر تھے لہٰذا ہزل گوئی سے انھیں خاص دلچسپی تھی۔بڑے ذہین اور شوخ طبیعت کے مالک تھے۔محمد حبیب اللہ نیر اعظمی مولانا ضمیر قدوسی کے شاگردتھے۔شعری بزم ’شان ادب‘ کے صدر بھی رہے۔بقول اثر انصاری:’’کبھی شہزادۂ تجارت تھے،آج تاجدارِ غزل ہیں، بڑانکھرا ہوا ذوق رکھتے ہیں۔زبان میں پاکیزگی، بیان میں شوخی،فکروفن میں پختگی ہے۔جتنا اچھا کہتے ہیں اتنا ہی اچھا پڑھتے بھی ہیں۔‘‘ 1

رام کمار سنگھ فہیم بسمل الہ آبادی کے شاگرد تھے۔ان کے والد شری مہیش نرائن اردو فارسی کے عالم تھے۔فہیم الہ آباد یونیوسٹی میں زیر تعلیم رہے، زمانۂ طالبِ علمی میں فراق گورکھپوری کی صحبتوں نے ان کی شعری صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ غزل اور نظم میں عمدہ کلا م کہتے ہیں۔ان کے کلام میں غالب کا عکس نمایاں ہے        ؎

لبوں سے آہ نکلے اشک آنکھوں سے رواں کیوں ہو

محبت ضبط کی خوگر ہے رازِ دل عیاں کیوں ہو

الگ ہے آسماں اس کا اندازِستم گاری

زمینِ کوئے قاتل ہم سوادِ آسماں کیوں ہو

فہیم خوش بیاںبھی شیفتہ ہے طرزِ غالب کا

جہانِ شعر میں غالب ساکوئی نکتہ داں کیوں ہو

آزادی اور تقسیمِ ہند کے دور میں مئو ناتھ بھنجن کے جن شعرا نے شہرت ومقبولیت حاصل کی، ان میں فضا ابنِ فیضی (1922-2008) اور اثر انصاری (1923-2007) خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ان کے علاوہ ضیا  انصاری، ظہیرالحق نشاط سیمابی،عبدالرشید انجم اور مشتاق احمد شوق وغیرہ کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں۔فضا ابن فیضی اردو شاعری کا ایک معروف اور معتبر نام ہے۔انھیں فیض الحسن فیض سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ غزل اور نظم کہنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے، رباعی گوئی میں انھیںخاص ملکہ حاصل تھا۔ان کے کلام میں صوت ولفظ کے نازک رشتے گویا اس طرح مربوط ہیں کہ اردو شاعری کی کلاسیکی روایات، نئے شعری رجحانات اور نئے طرزِ احساسات کا پتہ دیتے ہیں۔لہٰذا ان کے کلام میں تہہ داری پیدا ہوگئی ہے۔یہی سبب ہے کہ ان کے متعدد شعری مجموعے ’سفینۂ زرِ گل‘ (1973)، ’شعلۂ نیم سوز‘(1978)،’دریچۂ سیم سمن‘ (1989)، ’سرِشاخِ طوبیٰ‘ (1990)، ’ پسِ دیوارِ حرف‘ (1991)،’سبزۂ معنیِ بیگانہ ‘(1994)وغیرہ شائع ہوکر ادبی حلقوں میںنہ صرف مقبول ہوئے ہیں بلکہ ان کے اعترافِ ہنر کا سبب بھی بنے ہیں۔ان پر کئی تحقیقی کام بھی ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر شفیع احمد نے بنارس ہندو یونیورسٹی (یوپی) اور ڈاکٹر حدیث انصاری نے دیوی اہلیہ یونیورسٹی اندور (ایم پی)سے ان کی شاعری اور شخصیت پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔فضا ابن فیضی کی زبان دانی کے حوالے سے پروفیسر مسعود حسین خاں نے لکھاہے:

’’انھیں زبان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے، اس کے تخلیقی استعمال کے فن سے وہ بہ خوبی واقف ہیں، اسی لیے روایت کا شکار نہیں ہوتے۔ دوسرے الفاظ میں وہ صوت اور لفظ کے نازک رشتوں کے محرمِ راز ہیں حرف ومعنی کے چھپے ہوئے روابط پر ان کی گہری نظر ہے اور ان کا ذہن’ کمپیوٹرائی‘ سرعت کے ساتھ مانوس کو نامانوس سے ہمدگر کردیتاہے۔بعض اوقات اور بعض حضرات کو ممکن ہے، یہ روابط میکانیکی نظر آئیں لیکن تھوڑے سے غوروفکر کے بعد ان کی تہہ داری پر قاری  چونک پڑتاہے۔‘‘ 2

ہر چند کہ فضا ابن فیضی کو زبان پردسترس اور عبور حاصل ہے ا وران کے یہاں نئی ترکیبیں، خوبصورت بندشیں اور دل آویز تشبیہیں ان کی شاعری کو اعتبار بخشتی ہیں لیکن فارسی اور عربی الفاظ وتراکیب کے مشکل اور بھرپور استعمال نے ان کے کلام کو عام قاری سے دور کردیاہے۔ اثر انصاری مئو ناتھ بھنجن کے ایک اہم اور قابلِ ذکر شاعر ہیں۔ انھوں نے اپنے کلام میں شاعری کی قدیم فنی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جدید عصری تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا ہے۔ اگرچہ وہ بنیادی طورپر غزل کے شاعر ہیں تاہم انھوں نے نظم میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور نثر میں بھی اپنے فن کے عمدہ جوہر پیش کیے ہیں۔ان کے شعری مجموعے ’کم وکیف‘ (1974ء)،’ افکارِ پریشاں‘ (1980)، ’ زبانِ غزل‘(1987)، ’ آئینہ در آئینہ‘ (1990) ’پیراہنِ گل‘ (1996)اور’نوائے سروش ‘ (2001)وغیرہ ادبی حلقوں سے دادو تحسین حاصل کرچکے ہیں۔اثر انصاری پر کئی تحقیقی کام بھی ہوئے ہیں۔ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی نے ’اثر انصاری حیات اورخدمات‘پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کرکے ویر بہادر سنگھ پروانچل یونیورسٹی جونپور (اترپردیش) میں جمع کیا تھا جس پر یونیورسٹی نے انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی تھی اور ڈاکٹر محمد زبیر نے ’’اثرانصاری شخصیت اور شاعری‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی ممبئی سے ایم فل کی سند حاصل کی ہے۔علاوہ ازیں متعدددانشوروں اور اہلِ قلم نے اثر انصاری پر اپنی تحریریں پیش کرکے ان کی شعری اور ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ اپنی شاعری میں اپنے تجربات اوردیدہ وری سے نئے مسائل ومعاملات کو کلاسیکی رنگ وآہنگ کے ساتھ اس فن کاری سے پیش کرتے ہیں کہ کہیں بھی ہندوستانی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب مجروح نہیں ہوتی اور نہ ہی غزل کا بانکپن اپنی شعری روایتوں سے پامال ہوتا نظر آتا ہے        ؎

اب تو اپنے بھی نہیں پوچھتے اپنوں کا مزاج

آج کل شہر کا ماحول ہے یکسر بدلا

اپنی غزلوں کو نیا انداز دینے کے لیے

میں روایت کی حسیں قدریں مٹا سکتا نہیں

ضیا ء الرحمن ضیا انصاری (وفات1973) حضرت سیماب اکبرآبادی کے شاگردوں میں تھے۔اردو فارسی کی تعلیم مدرسہ مفتاح العلوم مئو سے حاصل کی تھی۔شاعری کا شوق عین جوانی میں پیدا ہوا۔زبان وبیان میں شائستگی اور سادگی ہے،  طرزِ ادا میں جدت اور فکروخیال میں شوخی ہے۔ غربت اور تنگ دستی کا مارا یہ البیلا شاعر بہت جلد اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ظہیرالحق نشاط سیمابی(پیدائش 1911) سیماب اکبرآبادی سے شرف تلمذ رکھتے تھے۔ بچپن میں ہی سایۂ پدری سے محروم ہوگئے۔بڑے نفاست پسند اور پرگو شاعرتھے۔غزل اور نظم ان کے پسندیدہ اصناف ہیں۔اردو فارسی اور عربی کی تعلیم مدرسہ مظہر العلوم بنارس سے حاصل کی۔تعلیمی سلسلے کے بعد مئو ناتھ بھنجن کے متعدد اداروں، دارالعلوم،  شاہی کٹرہ اور مسلم انٹر کالج میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ عبدالرشید انجم (1969 1907-)عبداللہ شائق کے شاگرد تھے، اردو فارسی اور عربی کی اچھی صلاحیت رکھتے تھے۔ لکھنؤ تکمیل الطب کالج سے حکمت کی سند حاصل کی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں حکمت وفلسفہ کے مضامین درآئے ہیں۔ زبان وبیان کا اچھا درک رکھتے تھے۔زبان میں دل کشی اور فکروفن میں بلندپروازی پائی جاتی ہے۔غزلوں کو ترنم سے پڑھنے کا نرالااور انوکھا انداز رکھتے تھے۔ محمد عبداللہ وہمی رحمانی(1990۔ 1934) مولانا محمد شبلی شیدا خیرآبادی کے شاگرد تھے۔اردو فارسی کی تعلیم مدرسہ فیض عام مئو سے حاصل کی۔ بے تکلف اور پرگوہونے کے باوجودخودداری اور خود اعتمادی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔آزاد روی اور لذت کوشی نے سفرِ زندگی کوبے سمت اور بے سہارا کردیا۔ اس دورِ تغیر میں بھی ان کی زندگی میں کوئی بدلاو نہیں آیا        ؎

کسی کے قتل پہ کیوں لوگ دل گرفتہ ہیں

یہ روز روز کی باتیں ہیں واردات نہیں

نظامِ گردشِ دوراں بدل گیا لیکن

تیرے مزاج میں وہمی کوئی تغیرات نہیں

وہمی رحمانی کے شاگرد اظہر سلیم نے ان کے کلام کو مرتب کرکے  ’جذب وجنوں‘ کے نام سے کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔ مشتاق احمد شوق(1923-2010)تلمیذ محمد عبداللہ شائق،مدرسہ فیض عام مئو کے فارغ التحصیل تھے اور جامعہ دارالحدیث میں فارسی کے استادتھے۔شاعری کا شوق زمانۂ طالب علمی میں ہی پید ا ہوگیا تھا۔ فارسی میں غزلیں، نظمیںاور قصائد کہتے تھے۔ کلام میں صوفیانہ رنگ پایاجاتا ہے۔ انواراحمد محشر (پیدائش1928)فضا ابن فیضی کے شاگردتھے۔اردو فارسی اور عربی کی تعلیم اپنے والد حافظ عبدالشکور سے حاصل کی تھی۔تعلیم کے بعد اردو صحافت سے وابستہ ہوئے، آگے چل کر پرنٹنگ پریس بھی قائم کیا۔ مذہب اور سیاست ان کی شاعری کے خاص موضوعات ہیں۔ڈاکٹر انیس ادیب (1934-2014) مولانا قاری ریاست علی صاحب کے صاحبزادے تھے۔ ’اردو کے مشاہیر شعرا کی فارسی شاعری‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر بنارس ہندو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔ درس وتدریس سے وابستہ رہے، بحیثیت ادیب اور خطیب طلبااورخاص وعام میں بڑے مقبول و معروف ہوئے۔یہ شاعر کم اور نثر نگار زیادہ تھے۔ڈاکٹر شکیل احمد اپنی کتاب ’سمٹتا سائبان‘ میں ڈاکٹر انیس ادیب کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

’’ادیب کے علاوہ ایک مصنف کی حیثیت سے بھی آپ کی خدمات اہم ہیں۔ تخلیقی ادب میں آپ کے افسانے،انشائیے اور اشعار شامل ہیں۔ایک انتخاب کی شکل میں اس کی اشاعت’’ نقوشِ صدرنگ‘‘ کے نام سے دوسال قبل ہوئی…اس کتاب کی علمی ادبی حلقوں میں پذیرائی ہوئی۔‘‘3

بسمل انصاری (1939-2010)مئو ناتھ بھنجن کے ان معدودے شعرا میں سے ہیں جنھوں نے مئو کے تانے بانے کی رنگ آمیزی کی مہارت کے ساتھ اردو شعروغزل میں بھی اپنے فن کے عمدہ نمونے پیش کیے۔انھیں فضا ا بن فیضی اور اثر انصاری سے شرف تلمذ حاصل تھا۔’روحِ ادب‘ اور ’ بزمِ ادب ‘ سے وابستہ رہے۔انھو ںنے صنفِ غزل کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔غزلوں کا مجموعہ ’’تخیلات بسمل‘‘ کے نام سے 2018 میں شائع ہواہے۔ایم اے دل حسینی(1940-2010) اثر انصاری کے شاگرد تھے۔ ان کی شاعری کا آغاز تیرہ برس کی عمر سے ہوگیاتھا۔انھیں شاعری وراثت میں ملی تھی۔ ان کے خاندان کے افراد اکثر شاعرہوئے ہیں، جن میں سلیم حسین اور مضطرحسینی بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔’ہم چشم ‘ کے نام سے ایک ادبی ماہنامہ رسالہ اور ’بنکر ٹائمز‘ کے نام سے ایک پندرہ روزہ اخبار بھی نکالا تھا۔مدرسہ بحرالعلوم مئو میں درس وتدریس سے وابستہ رہے پھر ایک شبینہ اسکول’روحِ ادب‘ قائم کیا۔نظم، غزل اور نعت عمدہ کہتے تھے۔ان کے دو نعتیہ مجموعے’نغمۂ دل‘ اور ’فردوسِ خیا ل ‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ غزلوں اور نظموں کے مجموعے ’افسونِ جرس‘، ’کیف وجنوں‘، ’ حدیثِ دیگراں‘ اور ’خونِ تمنا‘ شائع ہوکر ادبی حلقوں میں مقبول ہوئے ہیں۔دل حسینی نے اپنے کلام میں اپنے عہد کی بہترین تصویر کشی کی ہے۔آزاد ہندوستان کے دیگر گوںاور ابتر حالات کو اپنی نظم’ اب تو دیش آزاد ہے اپنا‘ میں بڑی کامیابی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔اس نظم کا ایک بند ملاحظہ کریں         ؎

دیپ خوشی کے کیوں نہیں جلتے کیوں تاریکی چھائی ہے

جاگو جاگو ہند کے ویرو !نیند تمھیں کیوں آئی ہے

ہندو،مسلم، سکھ، عیسائی آج بھی بھائی بھائی ہے

اب تو دیش آزاد ہے اپنا، اب تو دیش آزاد ہے اپنا

ماہر عبدالحی(1947-2011)کا شمار فضاابن فیضی کے خاص شاگردوں میں ہوتا ہے۔ انھیں اپنے استاد سے گہرا لگاؤ تھا۔ اردو زبان و ادب کی متعدداصناف میں اظہارِ خیال کے مالک ہیں لیکن انھوں نے اپنے استاد کی طرح غزل گوئی کو ہی اپنا وسیلۂ اظہار بنایا۔ شعری مجموعہ ’ہری سنہری خاک‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہر عبدالحی با اخلاق، خوش گو، خوش فکر اور خوش اسلوب شاعر تھے۔ علاوہ ازیں ان کا مطالعہ وسیع، فکرو خیال عمیق، جذبہ و احساس شدید اور تخیل میں بلند پروازی موجود ہے۔ ان کی غزلوں میں جو تنوع ہوتا ہے اس میں حسب ضرورت کلاسیکیت اور روایت کی پاسداری کے ساتھ جدت و عصریت کا احترام و اہتمام بھی ہے۔ وہ کسی گروہ یا تحریک کے پاسدار نہیں بلکہ اپنے ذہن ودل کو کھلا رکھتے ہیں اور اپنے محسوسات وخیالات کو موزوں الفاظ کا جامہ پہنا کر غزل کا پیکر عطا کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر منور انجم( پیدائش8؍ اگست 1948) مئو ناتھ بھنجن کے ایک معروف ادیب اورشاعر ہیں۔ ان کی علم دوستی،ادبی ذوق و شوق اور ادارہ ’ڈی سی ایس کے پی جی کالج‘کی لیکچر شپ نے بہت جلد باشندگان مئو میں انھیں مشہور و معروف کر دیا۔وہ اس کالج میں اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے ہوئے صدر شعبۂ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے اور2011  میں اپنے عہدے سے سبک دوش بھی ہو ئے۔ڈاکٹرمنور انجم صرف خوش گو اورخوش فکر شاعر ہی نہیں بلکہ بہترین نثر نگار بھی ہیں، انھیں نثر اور نظم ہردو اصناف پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ نثر میں ان کی متعدد کتابیں ’اقبال سہیل حیات اور شاعری‘ ( تحقیقی مقالہ)  ’اردو ادب کے ماہ و انجم‘ اور ’اردو ادب کے مہ و کہکشاں‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔انھوںنے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے، منظومات اور قطعات میں جذبات واحساسات کو پیش کرنے کی بھرپور صلاحیت موجودہے۔ حمد اور نعت جیسی پاکیزہ اور مقدس صنفوں میں بھی اپنے خیالات کا اظہار انتہائی دلکش اور مؤثر انداز میں کرتے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں۔ غزل ان کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ان کے متعدد مجموعۂ کلام ( ’شمعِ آرزو‘، ’ شرحِ آرزو، ‘’ شہرِ آرزو‘اور ’بحرِآرزو‘)شائع ہوکر ادبی حلقوں میں شہرت و مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ان کاایک قطعہ پیش خدمت ہے        ؎

شمعِ الفت تیری محفل میں جلانے کے لیے

گیت لکھتاہوں غمِ دل کو بھلانے کے لیے

جانتا ہوں ترا دامن میری قسمت میں نہیں

جانتا ہوں کہ مسرت ہے زمانے کے لیے

شفیق احمد قلمی نام سردار شفیق، مولانا عبداللہ شائق اور فضا ابن فیضی کے شاگرد تھے۔ترقی پسند تحریک کے زیر اثرابتدا میں نظم کی طرف مائل تھے لیکن آگے چل کر غزل کی جانب رجوع ہوئے۔ان کی غزل گوئی نصف صدی پر مشتمل ہے۔  انھوں نے بہترین غزلیں لکھی ہیں اور اپنے استاد فضا ابن فیضی کی تقلید کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انھیں غزل سے خصوصی لگاؤ ہے اور اس صنف میں نہ صرف طویل ریاضت کی بلکہ دل وجان سے صنفِ غزل کا حق بھی ادا کردیاہے۔ یہی سبب ہے کہ سردار شفیق کی غزلوں پر مشتمل دو شعری مجموعے ’تازہ ہوا‘ اور’غبارِ صدا‘شائع ہوکر خاص و عام میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ تیسرا مجموعہ منظومات پر مشتمل ہے اورچوتھا غزلوں کا مجموعہ ’حنائے دست غزل‘ زیر ترتیب ہے۔سردار شفیق ’بزم تعمیر اردو‘ کے صدررہے اور نئے شعرا کی رہنمائی اور تربیت میں بھی پیش پیش رہے۔غنی احمد غنی مولانا عبداللہ شائق کے صاحبزادے اور فضا ابن فیضی کے شاگرد تھے۔ اردو فارسی کی تعلیم مدرسہ فیض عام مئو سے حاصل کی۔گھر کا ماحول علمی وادبی ہونے کے سبب شاعری وراثت میں پائی ہے۔ خوبصورت اور عمدہ غزلیں کہتے ہیں لیکن بہت کم کہتے ہیں۔مشتاق احمد شبنم خلف حافظ فیض الرحمن اورتلمیذ فضا ابن فیضی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے۔شاعری کا عمدہ ذوق تھا اور مطالعۂ کتب میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے،لہٰذا یہی مطالعے ان کی صلاحیتوں میں نکھارکا سبب بنے۔ غزلیں کہتے تھے اور خوب کہتے تھے۔ ڈاکٹر وکیل اشہر تعلیم الدین انٹر کالج مئو سے بحیثیت فارسی استاد ریٹائر ہوچکے ہیں۔ ’پروفیسر نورالحسن انصاری حیات اور خدمات ‘ کے موضوع پر ان کا تحقیقی مقالہ شائع ہوچکا ہے جس پر بنارس ہندویونیورسٹی نے انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی تھی۔اردو اور فارسی دونوں زبانوں کا اچھا درک رکھتے ہیں۔ عمدہ شعرکہتے ہیں لیکن بہت کم گو ہیں۔

ڈاکٹر شمشاد احمدعنبر آفاقی (پیدائش یکم مارچ 1958)  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ شاعری میں فضا ابن فیضی کے شاگرد ہیں۔ بچپن سے مطالعے کا ذوق وشوق جنون کی حدتک تھا،ان کا یہ ذوقِ علم انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لے گیا۔ علی گڑھ میں ڈاکٹر شہریار اور آل احمد سرور جیسے عظیم فن کاروں سے فیض یاب ہونے کے مواقع میسر آئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد علاج   ومعالجہ کے پیشے سے وابستہ ہوگئے اور مختلف جگہوں اور مقامات پر میڈیکل پریکٹس کرتے رہے،بعد میں ریاستی محکمۂ طبِ یونانی(اتر پردیش) میں ملازمت اختیار کی۔  مریضوں کی مسیحائی کرنے کے ساتھ ساتھ شعروسخن کی مشاطگی میں بھی لگے رہے۔ غازیپور کے دورانِ قیام بہت سے شعرا سے فیض یاب ہوئے۔ بعدازاںان کا تبادلہ لکھنؤ ہوگیا۔ گھرکا ماحول بڑی حدتک شاعرانہ تھا۔ ان کے دوبھائی ریاض احمداور ڈاکٹر اقبال زاہد شعرفہمی اور شعر خوانی میں اچھا ذوق رکھتے تھے۔ لہٰذا ڈاکٹر شمشاد عنبرآفاقی کی تعلیم وتربیت اور شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں ان کے بھائیوں کی شفقت ومحبت اور سرپرستی نے کا فی اہم رول ادا کیا۔ شاعری کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے ہی ہوگیا تھا۔لیکن ان کی شعرگوئی کا باقاعدہ آغاز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) سے ہوتاہے۔ڈاکٹر عنبر آفاقی غزل اور نظم دونوں اصناف پر قدرت رکھتے ہیں۔ غزلوں پر مشتمل دومجموعے ’کفِ آب‘(2015) اور ’رگِ تاک‘ (2017) اہلِ ادب سے دادو تحسین حاصل کرچکے ہیں اور نظموں کا مجموعہ’دُرِ ناب‘ (2019) منظرِعام پر آچکا ہے۔ان کی شاعری کے حوالے سے ڈاکٹر محمد زبیر نے اپنے مضمون’ ڈاکٹرعنبر آفاقی کی نظم نگاری‘ میں لکھاہے:

’’ڈاکٹر شمشاد عنبر آفاقی نے کوچۂ شاعری میں جب قدم رکھا تو صنف ِغزل کو اپنے لیے موزوں پایا۔ اسی لیے اس صنف میں انھوں نے شعروسخن کے خوب خوب گیسو سنوارے، اپنے ذہنی بہاو اور مخصوص لب ولہجے کے ساتھ اس میں نئے پیکروں اور لفظوں کومحلول کرکے اردوغزل کی لفظیات اور جمالیات میں گراں قدر اضافے بھی کیے۔ لیکن جب نظم کی جانب مائل ہوئے تو اس میں انھوں نے نہ صرف اپنے فکروفن کے کمال دکھائے بلکہ زمین وزماں کے متعدد خوب صورت سمعی، بصری، لمسی اورحرکی پیکر بھی وجود میں آگئے۔ بایں سبب عنبر آفاقی کی غزلوں کی طرح نظموں کی اہمیت بھی مسلم ہے۔‘‘ 4

ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی (12 جنوری1958۔17؍ اکتوبر 2019) مشرقی اترپردیش کے علمی وادبی شہر مئو ناتھ بھنجن کے وہ واحد چشم وچراغ ہیں جنھوں نے اپنی تحقیقی وتنقیدی اور صحافتی غیرجانب داری اور بے باکی سے اردو ادب کو اعتبار بخشا ہے۔وہ ایک ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ایک بہترین غزل گواور عہدساز شاعر بھی ہیں۔ ان کا شمار ان باکمال شعرا میں ہوتاہے جنھوں نے مئو کی ادبی اور شعری بزم کو اپنے فکروفن کے چراغ سے روشنی بخشی ہے۔ انھوں نے اپنے کلام پر اثر انصاری سے اصلاح لی ہے۔ ان کے دو شعری مجموعے’ میزانِ آگہی‘ (2011) اور ’فیضانِ آگہی‘ (2016) ادبی حلقوں میں مقبول ہوچکے ہیں۔ دیگر شعرا کی طرح ان کے یہاں محبوب کے حسن وجمال اور عشق ومحبت کی فراوانی نہیں بلکہ ان کا کلام تعلیم وتعلم اور غوروفکرکی دعوت دیتا ہے۔ وہ ایک حساس اور باشعور شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں قوم وملت کے مسائل اور دیگر عوامل اس قدر بیان ہوئے ہیں کہ گویا ان کی شاعری قومی تنزلی اورملی مسائل سے عبارت ہوگئی ہے۔ وہ اپنی شاعری کے وسیلے سے قوم کے نونہالوں کو اپنے اجدادکی ایجادات اور کارناموں کو یاد دلاکر یہ باور کراناچاہتے کہ ہمارے اکابرین علم وہنر اور ایجادات میں نہ صرف یکتا تھے بلکہ انھوں نے ہی اپنے علم وفن اور فکروریاضت سے پورے عالم کو جہالت اور کار ِ مذلت سے نجات بھی دلائی تھی۔ علاوہ ازیں جب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک درد مندانہ شاعری ہے جو ہرقسم کے تصنع اور بناوٹ سے پاک ہے۔ان کی زبان آسان، انداز بیان سلیس اور عام فہم ہے۔ان کی یہی شعری انفرادیت دیگر شعرا سے انھیں ممتازکرتی ہے۔اس سلسلے کے چند اشعار پیش ہیں         ؎  

پڑھی ہیں اہلِ یورپ نے کتابیں میرے ابا کی

نہیں تو اس سے پہلے کتنے ظلمت ناک تھے بابا

ہماری دین ہے، وہ کیمیا ہو یا کہ زولوجی

ہمارے تجربے بھی کتنے حیرت ناک تھے بابا

خود کو ہر دم نئی اڑان میں رکھ

پائوں ہرپل نئے جہان میں رکھ

محفوظ الرحمن عادل (پیدائش11 فروری1962 )بھی مئو ناتھ بھنجن کے ایک بہترین شاعر ہیں۔مدرسہ بحرالعلوم کھیری باغ مئو میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ شاعری کا آغاز زمانۂ طالبِ علمی سے ہی ہوگیا تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کے منازل طے کرتا گیا۔شاعری میں ماہر عبدالحی اور سردار شفیق کے شاگرد ہیں۔ سادہ مزاج،مخلص اور ملنسار انسان ہیں۔وہ اپنی غزلوں کے ذریعے پوری نسلِ انسانی کوبھائی چارگی اورہمدردی کا پیغام دیتے ہیں۔اب تک ان کے تین شعری مجموعے’جلتے بجھتے خواب‘ (2012)، ’روپ کی دھوپ‘(2014) اور لفظوں کا تعاقب (2016) شائع ہوکر اہلِ ادب میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں اور چوتھا مجموعہ ’زہے نصیب‘ زیر ترتیب ہے۔ علاوہ ازیں مئو ناتھ بھنجن میں ایسے بے شمار شعرا موجود ہیںجو اپنے فکروفن اور علم وہنرسے اردو شعروادب کوپروان چڑھانے میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ان میںڈاکٹر امتیاز ندیم،گمان انصاری، ڈاکٹر مطیع الرحمن غاسق، عبدالسلام فانی، اظہرسلیم، رحمت اللہ اچانک، جاوید سامر، سعید اللہ سعد، ذکی محفوظ، منظورالحق ناظر،جمیل منظر عاشق اور ظہیر حسن ظہیر وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ لیے جاسکتے ہیں۔

حواشی

1          تذکرہ سخنورانِ مئو،اثرانصاری،ص32

2          مجموعۂ کلام سبزۂ معنیِ بیگانہ، فضا ابن فیضی، ص9

3          سمٹتا سائبان، ڈاکٹر شکیل احمد،ص48

4          شعری مجموعہ دُرِ ناب،ڈاکٹر شمشاد عنبر آفاقی،ص14


Zikra Khatoon

Research Scholar, Dept. of Urdu

University of Mumbai

Add. 403 Rimsha Tower

Shibli Nagar, Mumbra

Thane-400612 (Mumbai)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں