5/5/21

ماہر غالبیات مالک رام - مضمون نگار: مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی

 



اردو زبان و ادب،تاریخ و ثقافت اور تحقیق و تنقید کے میدان کارزار میں ماہر غالبیات مالک رام (22 دسمبر 1906- 16 اپریل 1993) کا شمار ادبیات و لسانیات اور تحقیقات و تنقیدات کے ماہر ین،محققین، باحثین اور ناقدین میں ہوتا ہے، وہ جہاں ماہر غالبیات تھے وہاں ماہر ابوالکلامیات بھی تھے،وہ ایک کثیر التصانیف و التالیفات مصنف و مولف بھی تھے،ان کی تصنیفات و تالیفات میں ذکر غالب، تذکرہ معاصرین،تذکرہ ماہ و سال،عورت اور اسلامی تعلیم اور اسلامیات و غیرہ بہت ہی مشہور و معروف ہیں،و ہ اپنی علمی و تحقیقی کتابوں کے حوالے سے بر صغیر ہندو پاک کے علمی و ادبی حلقوں میں نیک نام و شہرت دوام رکھتے تھے، انھیں کلاسیکی ادب و روایت و علمی و تمدنی آثار و اثاثے کے تحفظ و بقا  اور ارتقا کا ہمہ وقت و ہمہ جہت خیال رہتا تھا،انھیں جب کبھی قدرت کی جانب سے موقع نصیب ہوا،انھوں نے عام ادیبوں،فنکاروں اور قلم کاروں کی مروجہ روشوں اور روایتوں کے برعکس و بر خلاف ’’موقع و محل‘‘ کو غنیمت جانا تھا اور اس نعمت غیر مترقبہ سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور علمی و ادبی کلاسیکی ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کیا اور پائیدار و مستحکم اور واضح و محسوس کام سے اپنا نام تاریخ ادبیات و تحقیقات اور مذہبیات میں ثبت کیا۔

مالک رام گجرات (پنجاب ) کے ایک غیرمسلم خانوادے کے گل سر سبد تھے،جہاں آپ کے والد اردو فارسی جانتے تھے، آپ کے جوان مرگ بڑے بھائی اردو قصوں،کہانیوں اور اردو شعروشاعری سے دل چسپی رکھتے تھے، گھر میں اردو و فارسی پڑھنے کا چلن تھا اور وہاں اردو فارسی کی کتابیں بھی وافر مقدار میں موجود تھیں،مالک رام نے پرائمری اسکول گجرات سے میڈل پاس کیا اور وزیرآباد کے ہائی اسکول سے انٹرمیڈیٹ کیا، جہاں  کے اسکولوں میں بھی اردو اور فارسی کی تعلیم ہوتی تھی،دس پندرہ سال کی عمر میں ان کی اردو و فارسی کی استعداد ان کی اسکولی تعلیم سے کہیں وسیع تر ہو گئی تھی، ان کی نوعمری میں ان کے آساتذہ ان کی اردو و فارسی دانی پر حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے اور ان کے تابناک و شاندار مستقبل کی پشین گوئی کرتے تھے، 1928 میں جب وہ لاہور آئے، جہاں سے بی اے اور تاریخ میں ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی،اس وقت لاہور اردو زبان و ادب کا بڑا مرکز تھا، صحافیوں میں ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار، عبد المجید سالک ایڈیٹر انقلاب،شورش کاشمیری ایڈیٹر چٹان،  محمد دین تاثیر اور شاعروں ا دیبوں اور خطیبوں میں عطاء اللہ شاہ بخاری،مولاناتاجور نجیب آبادی اور علامہ اقبال موجود تھے، مالک رام کو اہل علم،علما  اصحاب ادب و صحافت اور ارباب فکر و دانش سے ملنے ملانے کا شوق تھا، مالک رام ان حضرات سے اپنی ملاقاتوں اور مجلسوں کا بڑا دل چسپ ذکر کیا کرتے تھے اور ان سے علمی استفادے کا بھی اعتراف کیا کرتے تھے۔

مالک رام کو اردو،فارسی، عربی حتی کہ قرآن کریم پڑھنے کا اس قدر شوق تھا،جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے،جس کا ذکر انھوں نے پروفیسر ظہیر احمد صدیقی سے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے کہ جب وہ لاہور آئے تو ان کے ذہن میں آیا کہ ہمیں قرآن پڑھنا چاہیے چنانچہ انھوں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ میں قرآن کریم پڑھنا چاہتا ہوں،کسی مولوی صاحب کو تلاش کرو، اتفاق سے سید دلاور شاہ بخاری تیارہو گئے مگر انھوں نے یہ شرط رکھی کہ نماز فجر سے پہلے آنا ہوگا،مالک رام کہتے ہیں کہ آ پ کو تعجب ہو گا کہ میں سردی گرمی میں صبح ہی صبح متواتر دو سال تک ان کی خدمت میں جاتا رہا،حالانکہ ان کا گھر میرے مسکن سے تین کلو کے فاصلے پر تھا،میں نے ان سے قرآن کریم کے 18 پارے پڑھا، اس کے بعد وہ اپنی بعض مصروفیات کی وجہ سے کہیں چلے گئے اور یہ سلسلہ منقطع ہو گیا، پھر میں باقی قرآن کریم کے بارہ پارے خود ہی پڑھ کر قرآن کریم کو مکمل کیا۔

1926 میں وہ لاہور سے دہلی آگئے اورقرول باغ میں مقیم ہو گئے،اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ قرول باغ دہلی میں تھی،جس کے ذمے داروں میں ڈاکٹر ذاکر حسین خاں، پروفیسر محمد مجیب اور پروفیسر سید عابد حسین تھے ان سے وہاں ملاقاتیں رہتی تھیں، وہیں اتفاق سے حکیم محمد عرفان ندوی تھے جو ماہ نامہ پیام تعلیم کے ایڈیٹر تھے،ان سے عربی سیکھنی شروع کردی۔ انہی دنوں ان کی ملاقات مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی ہوتی تھی، مالک رام الہلال اور البلاغ کے مستقل قاری رہ چکے تھے، وہ الہلال و البلاغ کے پر چوں کو بڑے شوق و ذوق سے پڑھتے تھے اور ان کے تمام پرچوں کو بڑی حفاظت سے اپنی ذاتی لائبریری میں رکھے ہوئے تھے،اب ان کا کیا حال ہے اس کامجھے علم نہیں ہے۔

مالک رام کی ذہنی و فکری تعمیر و تشکیل میں بقول ان کے نیاز فتح پوری ایڈیٹر نگار اور مولانا ابوا لکلام آزاد ایڈیٹر الہلال و البلاغ کا بڑا دخل رہا ہے، مالک رام کہتے تھے کہ میرا سب سے پہلا مضمون نگار میں چھپا تھا،جو مرزا غالب اور ذوق کے متعلق تھا، مالک رام یہ بھی کہتے تھے کہ مجھے اسلامیات کی طرف رجحان ہوا وہ در اصل نیاز فتح پوری کی وجہ سے ہوا کیو نکہ نیاز فتح پوری کی ایک عادت تھی کہ وہ ہر مسئلے میں ایک چونکانے والی بات کرتے تھے اور تنازعے کھڑے کر دیتے تھے،اس کی وجہ سے مجھے اسلامی کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا، نیاز فتح پوری اور مولانا آزا د کی تحریروں میں جو شگفتگی اور برجستگی تھی،وہ مالک رام کی تحریروں میں بھی جھلکتی ہے،جس کا اعتراف خود مالک رام نے کیا تھا، وہ کہتے تھے کہ میری تحریروں میں جو تھوڑی بہت شگفتگی آئی ہے،وہ دراصل مولانا آزاد اور نیاز فتح پوری کی وجہ سے ہے۔مگر نیاز فتح پوری کی اسی عادت کی وجہ سے مولانا دریابادی جریدہ نگار کو فتنہ روز گار کہا کرتے تھے اور صدق اور صد ق جدید میں دونوں کے درمیا ن بڑی ادبی معرکہ آرائیاں ہوا کرتی  تھیں۔

اس کے بعد وہ فارن سروس میں آگئے اور اسکندریہ مصر چلے گئے، دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے وہاں انھیں دس سال تک سفارت خانہ میں رہنا پڑا،اسکندریہ میں عربی زبان بولی جاتی تھی انھوں نے  وہاں عربی زبان کو پڑھنا لکھناسیکھ لی، اور قرآن کریم کے مطالعے کے ساتھ آحادیث نبوی کے مطالعے بھی شروع کرد یا اور وہ کہتے تھے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں یہاں احا دیث کی موجود تمام متداول کتابوں کو پڑھ لی تھی،وہ یہ بھی کہتے تھے کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے غیر مسلم بہت مل جائیں گے لیکن احا دیث پڑھنے والے غیر مسلم نہیں ملیں گے،خود مسلمانوں میں احادیث پڑھنے کا عام رواج نہیں ہے، چونکہ احادیث کا ذخیرہ بڑا وسیع ہے، جب مالک رام سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ کی تصنیفات میں کون سی تصنیف زیادہ پسند ہے تو کہتے تھے کہ میری کتابوں میں دو کتابیں مجھے بہت پسند ہیں،ایک ذکر غالب اور دوسری عورت اور اسلامی تعلیم،ذکر غالب،مرزا غالب کی سوانح عمری ہے۔ دوسری عورت اور اسلامی تعلیم،احا دیث کے مطالعے کا نتیجہ ہے،میں برابر سوچتا رہتا ہوں کہ میں نے اس موضوع پر ایسی کتاب کیسے لکھ دی ہے، جس کا عربی ترجمہ اور انگریزی ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔اور بہت ہی مقبول ہے۔

مجھے صحیح تاریخ یاد نہیں، غالبا 1983-84 کی بات ہے،ایک دفعہ مالک رام مہندیان تشریف لائے، میں ان دنوں جامعہ رحیمیہ مہندیان مرکز شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ میں مدرس تھا،میری کتاب’چند عظیم شخصیتیں ‘ چھپ چکی تھی،اور غالبا ان کے علم میں آچکی تھی،تھوڑی دیروہ مجھ سے گفتگو فرماتے رہے،پھر فرمایا قاسمی صاحب! میں مہندیان قبرستان دیکھنا چاہتا ہوں،میں نے کہا تشریف لایئے، مالک رام ٹیک لگاتے ہوئے اٹھے اور میرے کندھے پر مشفقانہ و محبانہ ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اپنی چھڑی کے سہارے گورغریباں کی طرف چل پڑے،میں پہلے انھیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور ان کے خانوادہ کے چبوترہ کی طرف لے گیا،اور اسی کے بغل میں مشہورشاعر حکیم مومن خاں مومن بھی آسودہ راحت ہیں، ان کی تربت کی طرف اشارہ کیا،مالک رام میری بات بھی سن رہے تھے اور کوئی چیز ڈھونڈ بھی رہے تھے،مجھ سے کہا کہ آپ اس احاطے سے با ہر مغربی جانب قبر ستان میں چلیے،میں نے کہا کہ وہاں کی قبریں بے نشان ہو چکی ہیں اور مقبروں کے شکستہ آثار و کھنڈرات ہی برائے نام باقی رہ گئے ہیں، مگر ان کا اصرا ر تھا،جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو میں نے دیکھا کہ وہ ان شکستہ مقبروں، شکستہ کتبوں، لوحوں اور ٹوٹی ہوئی قبروں کوبڑے غور سے دیکھ رہے ہیں، مگر جب انھیں وہ مطلوبہ اور متاع گمشدہ نہ ملی تو انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ قاسمی صاحب یہاںکبھی مرزا مغل بیگ کی قبر ہوا کرتی تھی، جو مرزا غالب کے عزیز تھے، میں نے 1947 سے قبل اسے دیکھا تھا،غالبا 1947 میں اسے نقصان پہنچا دیا گیا،پھر انھوں نے بڑی حسرت و یاس  سے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی، وَ تِلْکَ الْایَّامُ نُدَاوِلُہَابَیْنَ النَّاسِ۔

مالک رام عموماً علی گڑھین طرز کی سلی ہوئی نفیس و عمدہ شیروانی اور ٹوپی میں ملبوس رہتے تھے اور اپنی مجلسی گفتگو میں بسم اللہ،سبحان اللہ،الحمد اللہ اور اللہ کے فضل و کرم وغیرہ الفاظ استعمال کرتے رہتے تھے، اور اس کے سخت عادی تھے، قرآن کریم کی آتیں اور حدیثیں بھی پڑھا کرتے تھے،قرآ ن کریم کے اردو کے تراجم پر انھیں بڑی دسترس تھی،و ہ ہر آیت کے بارے میں بڑے وثوق و اعتماد سے کہتے تھے کہ اس آیت کا شاہ عبدالقادر محدث دہلوی نے یہ ترجمہ کیا ہے،حضرت شیخ الہند یہ کہتے ہیں، مولانا آزاد نے بڑا عمدہ و فصیح ترجمہ کیا ہے،مولانا عبدالماجد دریابادی نے حضرت تھانویؒ کی ابتاع و پیروی میں یہ ترجمہ کردیا،ڈپٹی نذیر احمد نے اردو محاورہ استعمال کیا ہے، مولانا مودودی نے کچھ اس طرح کیا ہے، جس سے بعض لوگوں کو اعتراض ہو گیا، اور فلاں میں یہ سقم ہے، غرضیکہ تمام متقدمین مفسرین، مترجمین اور معاصر مترجمین و مفسرین کے تراجم و تفاسیر پر نقد و جرح اور تبصرہ و رائے زنی کرتے جاتے تھے۔ مگر ان کا طور طریقہ اور لب و لہجہ عالمانہ اور بڑا فاضلانہ ہوا کرتا تھا،اگر چہرے پر داڑھی ہوتی تو اجنبی آدمی انھیں کسی مدرسہ کا شیخ الحدیث یا شیخ التفسیر یا کسی ملک کا شیخ الاسلام کہنے پر مجبور ہوتا مگر اللہ کی مشئیت اور مرضی !

جن لوگوں کو میرے اس دعوے میں کوئی شک وشبہ ہو توان کو ترجمان القرآن،تذکرہ اور خطبات آزاد پر مالک رام کے قلم سحر نگارسے نکلے ہوئے حواشی  ہوامش کو پڑھنا چاہیے،وہ یقینا میرے اس دعوے کی تصدیق کرنے پر مجبور ہوں گے۔

5فروری 1992 میں میری کتاب الواح الصنادید حصہ دوم کا اجرا ایوان غالب ماتا سندری لین نئی دہلی میں ہوا تھا،جس کی صدارت مشہور مورخ اور مجاہد آزادی ڈاکٹر بی این پانڈے سابق گورنر اڑیسہ نے کی تھی، جس کے مہمانان خصوصی میں سید حامد وائس چانسلر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ،ڈاکٹر خلیق انجم جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند اور مالک رام صدر انجمن ترقی اردو ہند تھے،مالک رام نے الواح الصنادید کی تصنیف پر بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا،وہ کہا کرتے تھے کہ جب کوئی اچھی کتاب چھپتی ہے اور وہ سامنے آتی ہے،تو خیال آتاہے کہ کاش یہ میری کتاب ہوتی،مالک رام مجھ حقیر فقیر پر بھی بڑی شفقت فرماتے تھے،جب کبھی کہیں مل جاتے تھے تومیری حوصلہ آفزائی فرماتے تھے،مجھے بارہا ان سے گفتگوکرنے کا موقع ملا ہے، وہ انتہائی درجے کے شریف النفس اور وضع دار انسان تھے۔


Maulana Mufti AtaurRahmanQasmi

N-80/C, AbulFazalEnalave

Jamia Niagar, Okhla

New Delhi - 110025

Mob.: 9811740661




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں