4/5/21

حسرت موہانی کی تذکرہ نگاری - مضمون نگار: ذکیہ رخشندہ

 



اردو زبان کی نثری اصناف میں تذکرے کو جو اہمیت حاصل ہے محتاج وضاحت نہیں۔ اِ س صنف ِ ادب میں تذکرہ نگار اپنے محسوسات، جذبات اور تاثرات مثبت انداز میں پیش کرتا ہے اوراگرتنقید کرتا بھی ہے تو اس کا جذبہ مصنف کا قد اونچا کرنے اور زبان و ادب کو سر بلندی عطا کرنے کا ہوتا ہے۔ اسے ماہرین نے سیرت نگاری کی ایک شاخ بھی قراردیا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ بجا طورپر رقم طراز ہیں:

’’درحقیقت تذکرہ اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک مرکب نوع تصنیف ہے۔ وہ اجزا جن پر ایک تذکرہ  مشتمل ہوتا ہے عموماً تین ہوتے ہیں۔۔۔ جدید اصطلاحات کی رو سے ان کے تذکروں میں بیاگرافکل ڈکشنری (قاموس)، لٹریری ہسٹری (تاریخ ادب) اور لٹریری کرٹسزم (تنقید ادب) کے عناصر سہ گانہ یکجا مجتمع ہوتے تھے۔‘‘1

یہاں اس امر کی طرف اشارہ بے محل نہ ہوگا کہ اردو میں تنقید کی ابتداانھیں تذکروں کی مرہونِ منت ہے۔

جس طرح عربی سے فارسی نے اکتساب فیض کیا، اسی طرح اردو نے فارسی زبان سے جلا پائی، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اردو تذکرہ نگاری بھی اردو شاعری کی طرح فارسی کی مرہون منت ہے۔ فارسی کے تذکرے اردو تذکروں کے لیے اساس اور نمونہ ثابت ہوئے، بلکہ ایک قدم اور آگے بڑ ھ کر بیشتر قدیم تذکروں کی زبان فارسی ہی تھی۔ حتی کہ اس کا قدیم ترین اور اولیں تذکرہ یعنی نکات الشعرا (میر تقی میر) فارسی میں ہی لکھا گیا، جو اہمیت کے لحاظ سے بھی سب سے ممتاز اورمقدم ہے اور تذکرے کے تقاضوں کو بہمہ وجوہ پورا کرتا ہے۔

جملہ ماقبل تذکروں پر سیر حاصل گفتگو واقعی مفید ثابت ہوتی،تاہم طوالت کے خوف سے محض چند تذ کروں تک مقالہ کو محدود رکھا جائے گا۔ نکات الشعرا، تحفۃ الشعرء اور گلشن گفتار 1752 میں تصنیف کیے گئے۔ اس کے علاوہ تذکرہ مخزن الشعرا (قاضی نور الدین فائق)، تذکرہ مخزن نکات (محمد قیام الدین قائم چاند پوری)، گلزار ابراہیم (علی ابراہیم خاں) فارسی زبان میں ہی لکھے گئے۔ کم و بیش پچاس سال تک فارسی سایہ فگن رہی۔ اسی دوران کبھی کبھی اردو زبان بھی اپنے جلوے دکھا دیتی تھی۔ مثال کے طور پر تذکرہ گلشن ہند کو اردو زبان میں اولیت حاصل ہے، جس کے مصنف میرزا علی لطف ہیں۔ انھوں نے گلزار ابراہیم کا ترجمہ کرکے حذف و اضافہ کے بعد 1801 میں مکمل کیا اورشمس العلماء علامہ شبلی نعمانی کی تصحیح و تحشیہ کے بعد بابائے اردو مولانا عبدالحق کے عالمانہ مقدمہ کے ساتھ دار الاشاعت پنجاب نے 1906 میں شائع کیا۔ مرزا لطف علی ہی کے زمانے میں انتخاب دواوین کے نام سے شعرا کے کلام کا انتخاب مع مختصر حیات اردو میںلکھا۔ یہی تذکرے آئندہ اردو زبان میں تذکرہ نگاری کی بنیاد بنے، حالانکہ اس کے بعد بھی فارسی زبان میں تذ کرہ نگاری کا سلسلہ جاری رہا، تاہم 1260ھ/ …کے بعد اردو شعرا کے بیشتر تذکرے اردو میں ہی لکھے گئے۔

ابتدائی ادوار میں اردو شعرا کے تذکرے فارسی زبان میں لکھنے کی روایت تھی کیونکہ اس  وقت ہندوستان میں فارسی زبان اپنے عروج پر تھی، تاہم اردو زبان بھی معیار و اعتبار بہرحال حاصل کرچکی تھی، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ فارسی کا تذکرہ علامہ شبلی نعمانی نے اردو زبان میں لکھ کر فارسی جیسی ترقی یافتہ زبان کے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیاتھا۔ اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ پانچ جلدوں پرمشتمل شعر العجم نے فارسی زبان و ادب کے ماہرین سے نہ صرف داد و تحسین حاصل کی، بلکہ مدت مدید تک بنیادی مآخذ کے طور پر فارسی زبان و ادب کے محققین اور دانشوروں کا مرکز نگاہ بنی رہی۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ حسرت کے مزاج میں بلا کی جولانی تھی، وہ زندگی بھر کبھی خاموش نہیں بیٹھے، بلکہ اُن کی سیماب صفت طبیعت نے جہاں ایک طرف سیاست میں انھیں حصہ لینے پر مجبور کیا، وہیں پابند سلاسل ہوکر بھی وہ ملک و ملت کی خاطر جملہ ناروا سزائیں کاٹتے گئے۔ علمی و ادبی دنیا میں بھی اُن کا شاداب ذہن برق رفتاری سے کام کرتا رہا جو بیک وقت متعدد موضوعات پر مفید اور کار آمد لٹریچر اردو دنیا کو عطا کرتا تھا، چنانچہ انھوں نے اردوئے معلی اور ارباب سخن کی بھی خوبصورت بزم آراستہ کرنے کی سعی بلیغ کی۔

ارباب سخن : حسرت دراصل اردو شعراء کا ایک ایسا قاموس مرتب کرنے کا منصوبہ ذہن میں تیار کرچکے تھے، جس میں تذکرہ نگاری کے ساتھ ساتھ تاریخی شعور بھی شامل ہو۔حسرت کی تذکرہ نگاری سے دلچسپی علی گڑھ میں دوران طالب علمی ہی میں ظاہر ہونے لگی تھی۔ مثال کے طور پر حسب ذیل موضوعات پر انھوں نے انجمن اردوئے معلی کے اجلاس منعقد ہ 1901/2 میں مقالات پیش کرکے ارباب علم و ادب سے خراج تحسین حاصل کیا:

(1)اصغر علی خاں نسیم(2)سید محمد خاں رند(3)منیر، (4)سالک، (5)میر کے بہترنشتر

ارباب سخن کے متعلق احمر لاری لکھتے ہیں:

’’حسرت کے تذکرہ ارباب سخن کا پہلا اور دوسرا حصہ پہلے اردوئے معلی (جنوری تا اگست 1927) بعد میں کتابی شکل میںرئیس المطابع کانپور سے شائع ہوا، تیسرا حصہ اردوئے معلی تذکرۃ الشعرا کے اوراق میں اور انتخاب دو او ین کے مقدموں کی شکل میں بکھرا ہوا ہے۔ چوتھا اور پانچواں حصہ غالباً لکھا ہی نہیں گیا اور اگر لکھا گیا تو چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔‘‘2

حسرت شعرائے اردو کے تذکرہ پر مربوط انداز میںکام کرنا چاہتے تھے، جس کے لیے انھوں نے خاکہ بھی مرتب کر لیاتھا، جس میں مفید رہنمایانہ مناہج متعین کیے گئے تھے۔جس سے ان کے منصوبہ کی بھر پور غمازی ہوتی ہے۔یہ خاکہ انھوں نے ارباب سخن (اول، دوم) میں شامل کیا تھا۔

’’اس نام سے ہم شعرائے اردو کا ایک جامع ومستند تذکرہ لکھنا چاہتے ہیں جس کے مفصلہ ذیل پانچ حصے قرار دیے گئے ہیں :

(1) حصہ اول سلاسل شعرائے اردو جس میں شعرائے اردو کی ترتیب و تقسیم ان کے سلسلہ شاعری کے اعتبار سے درج کی جائے گی جس کے دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہوسکے گا کہ کس شاعر کا کس خاندان سے تعلق ہے۔

(2)     حصۂ دوم فہرست شعرائے اردو جس میں مذکورہ بالا سلاسل کے جملہ اردو شاعروں کی ایک مکمل فہرست بقید نام و نشان مرتب کر دی جائے گی۔

(3)     حصہ سوم تذکرہ شعرائے اردو جس میں تمام قابل ذکر شعرائے اردو کا حال مع انتخاب کلام درج کیا جائے گا۔

(4)     حصہ چہارم طبقات شعرائے اردو جس میں اردو زبان کے جملہ مشہور اور صاحب دیوان اساتذہ کی تقسیم ان کے زمانہ شاعری کے لحاظ سے مفصلہ ذیل سات طبقوں میں کی جائے گی۔

طبقہ اول از ابتدائے عہد تا 1180ھ، طبقہ دوم از 1180ھ تا 1210ھ،طبقہ سوم از 1211ھ تا 1240ھ، طبقۂ چہارم 1241ھ تا 1270ھ، طبقہ پنجم از 1271ھ تا 1300ھ، طبقہ ششم از 1301ھ تا 1330ھ، ہفتم 1331۔

(5)     حصہ پنجم مربیان شعرائے اُردو۔ جس میں شاہان وامرائے دہلی و اودھ دور اور نوابان و امرائے مرشد آباد، عظیم آباد، حیدر آباد، رامپور، بھوپال، ٹونک، بنارس، کدورہ، فرخ آباد، باندا، مہردین سے ان سب کا حال درج کیا جائے گاجو خود شاعر تھے اورجنہوں نے اپنے زمانے میںمشاہیر سخن کی مربی گری کی تھی۔

حصہ اول سلاسل شعرائے اردو، اس حصے میں مندرجہ ذیل سلاسل شعراکا نقشہ پیش کیا جائے گا: سلسلہ شاہ حاتم تا شاہ نصیر (باستثنائے ذوق و مومن)، 2- سلسلہ ذوق و شاگردان ذوق تا شاگردان داغ و ظہیر،3-سلسلۂ مومن و شاگردان مومن ’’تانسیم و تسلیم و شاگردان تسلیم، 4-سلسلۂ ظہیر جانجاں، 5-سلسلۂ میر تقی میر، 6-سلسلہ خواجہ میر درد،سلسلہ سوز، 7- سلسلۂ حسرت وجرأت و شاگردان جرأت،9- سلسلۂ مصحفی و شاگردان مصحفی، 10 -سلسلہ آتش و صباو شاگردان آتش وغیرہ، 11-سلسلۂ اسیر و امیر، 12- شاگردان ناسخ، 13- سلسلۂ غالب، 14-اساتذہ و متفرق صاحب دیوان۔ 3

اس کے بعد شجروں کا سلسلہ 7 صفحات (2-8) پر محیط ہے۔ جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ان شجروں کی تدوین میں کس قدر عرق ریزی اور دماغ سوزی سے کام لیاہوگا۔

حصہ دوم شعرائے اردو کی فہرست پر مشتمل ہے۔ جو ص9 تا ص 36 پر محیط ہے، جوبڑی جامع ہے۔ جس میں ان کے دواوین /قلمی/مطبوعہ کے بھی حوالے ہیں۔ تمام سلسلوں کی تکمیل کے بعد شعرائے متفرق کی فہرست بھی پیش کی گئی ہے، جسے حروف تہجی کے اعتبار سے ردیف وار ترتیب دیاگیا ہے۔ یہ دس صفحات (27 تا 36) پر مشتمل ہے۔

دراصل اردوئے معلّٰی پہلے مرحلے میں جولائی 1903 تا جون 1913 جاری رہا، لیکن اس دوران بھی مئی 1908 تا ستمبر 1909 پرچہ بند رہا (حسرت کی گرفتاری کے سبب)، 1925 میں دوبارہ چھپناشروع ہوا اور یہ سلسلہ1942 تک جاری رہا۔ اسی اثنا میں جب اردوئے معلی بند ہوگیاتھا، حسرت نے جولائی 1914 سے سہ ماہی تذکرۃ الشعراء جاری کیا۔ جس کے محض سات ہی شمارے منظر عام پر آسکے۔ ان رسائل میں بھی حسرت شعراء کا تذکرہ شائع کرتے رہے۔ ثاقب بدایونی کا تذکرہ اسی رسالے میں چھپا تھا۔

ثاقب بدایونی:تاریخ ولادت گیارہ ربیع الاول شریف 1285ھ یوم جمعہ بوقت صبح صادق۔ حسرت کے تذکروں سے اکثر شعرا کی شاعری کی ابتداء اور اس کے تدریجی ارتقاء پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ لہٰذا ثاقب بدایونی کی ابتدائی شاعری اور اس کے ارتقا پرروشنی ڈالتے ہوئے مصنف رقمطراز ہیں:

’’اس کا شوق آپ کے خاندان میں نسلاً بعد نسلٍ چلا آرہا ہے۔ آپ کے اجداد میں سے ایک نہ ایک کو اردو، فارسی، عربی وغیرہ کسی نہ کسی زبان میں اس کا شوق رہا۔ آپ کا آٹھ برس کی عمرسے اس کی طرف رجحان ہے چنانچہ ہشت سالہ عمر میں جو غزل سب سے پہلے لکھی تھی اس کا مطلع بجنسہٖ درج ہے   ؎

کیا بتائوں تمھیں کہ کیا ہوں میں

اے بتو! بندۂ خدا ہوں میں

ایک غزل فارسی کی جونو سال کی عمرمیںلکھی تھی اس کا بھی ایک شعر بحالہ ٖدرج کیا جاتا ہے         ؎

چہ پرسی واعظ نادان از سوز درون من

خدا شاہد کہ داغ عشق محبوبِ خدا دارم

پچیس سال کی عمر تک کسی سے اصلاح نہیں لی بلکہ یہ طریق اختیار کیا کہ اردو کے اساتذۂ متقدمین و متاخرین میں سے ایک ایک کے رنگ میں تھوڑی تھوڑی مدت تک بطور خود مشق کرتے رہے اور ہمیشہ یہ خیال پیش ِ نظر رہا کہ کسی رنگ میں طبیعت مجبور نہ ہو۔ ساتھ ہی اس کے جمیع اصناف شعر میں طبیعت کی روانی دکھاتے رہے۔ اردو، فارسی، عربی، ہندی، چار زبانوں میں مشق سخن حاصل ہے۔ مگر اردو کی طرف ہمیشہ سے زیادہ رجحان رہا۔‘‘4

مندرجہ بالا اقتباس سے نہ صرف اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ شاعری کا شوق ثاقب بدایونی کو خدا کی طرف سے وراثت میں ودیعت ہوا تھا بلکہ انھوں نے کمسنی یعنی محض آٹھ سال کی عمر سے ہی اردو میں شاعری کی ابتداء کردی تھی اور نو سال کی عمر میں فارسی زبان میں بھی غزل کہہ ڈالی۔ اتنی کم عمر میں اردو، فارسی، ہندی، عربی، چار زبانوں پر نہ صرف عبور حاصل کرلیاتھا بلکہ ان زبانوں میں طبع آزمائی بھی کرتے رہے لیکن اردو کو سب زبانوں پر فوقیت دیتے تھے۔اس تذکرے سے ثاقب بدایونی کی استادی شاگردی نیز میدانِ سخن میں ان کو حاصل ہونے والے امتیازات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ابتدا میں ثاقب بدایونی اپنے کلام پر کسی سے اصلاح نہیں لیا کرتے تھے۔ لیکن اقتباس ذیل اس بات کا شاہد ہے کہ بعد میں لوگوں کے اصرار سے انھوں نے داغ دہلوی اور ظہیر دہلوی سے مشورہ لینا شروع کیا، مصنف رقمطراز ہیں:

’’آخر کار احباب کے اصرارِ پیہم سے ابتدائً اپنا کلام نواب فصیح الملک مرحوم داغ دہلوی کی خدمت میں گاہ بگاہ رجوع کیا اور بعد ازاں بزمانہ قیام ریاست ٹونک نواب راقم الدولہ حضرت ظہیر دہلوی سے وقتاً فوقتاً مشورہ کرتے رہے۔ استاد ظہیر نے اسی زمانے سے اپنے کل تلامذہ کی اصلاح آپ کے سپرد کردی اور بسا اوقات تقریراً و تحریراً آپ کو اپنا جانشین ظاہر کیا۔ جس کا استدلال ان مرحوم کی چند تحریروں سے ہوسکتا ہے۔ حقیقتِ امر تو یہ ہے کہ جب طبیعت ہونہار اور مواد علمی کامل طور پر تیار ہوتو اصلاح کی چنداں محتاجی نہیں رہتی بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے شاگرد شروع ہی سے مایۂ ناز و فخر استاد ہوتے ہیں۔ اسی زمانہ قیام ٹونک میں امام الکلام پہلوان سخن کا معزز خطاب حاصل کیا اور زمانہ قیام ریاست بڑودہ میں طوطی گجرات کا خطاب حاصل کیا۔‘‘5

استاد ظہیر دہلوی نے اپنے شاگرد کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ لہذا انھوں نے نہ صرف ثاقب کو اپنے تلامذہ کا استاد مقرر کردیا بلکہ اکثر اوقات تحریری و تقریری طور پر بھی ان کو اپنا جانشین بنادیتے تھے۔ ایسے مایہ ناز شاگردوں کو فخر استاد قرار دیا ہے اور اسی کے ساتھ مندرجہ بالا اقتباس سے ثاقب بدایونی کو میدانِ شاعری میں حاصل ہونے والے خطابات کا بھی ہمیں علم ہوجاتا ہے۔

ان تذکروں سے شاعر کے اخلاق و عادات پر بھی روشنی پڑتی ہے، لہٰذا مرزا مظہر جانِ جاناں (1115ھ تا 1195ھ) کے اخلاق و عادات کے ذیل میں حسرت نے جو درج کیا ہے اس کے ایک اقتباس کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہیں:

منشی کریم الدین ترجمہ تاریخ شعرائے اردو مطبوعہ 1848 میں اپنے زمانے کی زبان میں لکھتے ہیں :

’’نفاست اور نزاکت اس قدر مزاج میں تھی کہ اس کے بیان کرنے کے واسطے ایک دفتر درکار ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کے مکان میں کوئی شے بد زیب یا بے قرینہ رکھی نہ دیکھی، اگر میرزا بازار کو بارادہ سیر آتے تھے اور راہ میں کسی غریب کی چارپائی خراب یا جھلنگا پڑی پاتے اسی جائے بیٹھ جاتے اور کہتے کہ جب تک یہ درست نہ ہولے گی میں آگے نہ جائوں گا۔ کوئی نواب عالی قدر ان کی ملاقات کے واسطے ایک روز آیاتھا اس نے جھجہر میں سے پانی پی کر آبخورا ٹیڑھا رکھ دیاتھا۔ اس سے خفا ہوئے اورکہا کہ تو بالکل گدھا ہے۔ کس بے وقوف نے تجھے نواب بنادیا ہے۔ آبخورا سیدھا رکھنا بھی نہیں آتا۔ مرزا کی یہ حالت تھی کہ اگر کوئی شخص بے انتظام یا بدزیب پاتے تو فوراً مثل ماہی بے آب تڑپنے لگتے۔‘‘6

مندرجہ بالا اقتباس صرف مرزا مظہر جان جاناں کی نازک مزاجی کا دلچسپ مرقع نہیں ہے، بلکہ اس سے حسرت جیسے شاعرکی افتادِ طبع کا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ وہ بین السطور اپنے قاری کے لطف کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے مضامین بھی تلاش کرکے درج کرتے جاتے ہیں جو قاری کو ان کی تحریروں سے جوڑنے کا وسیلہ ثابت ہوں اوروہ بوریت کا شکار نہ ہوں۔

تذکروں میں شاعر کے حالاتِ زندگی، شاعر کی شخصیت، اس کانمونۂ کلام اور کلام پر تنقید شامل ہوتی ہے۔

حسرت خاندان مومن و نسیم دہلوی کے شعرا نیز اپنے دیگر ممتاز معاصر شعراء کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں۔ چنانچہ گستاخ رامپوری کے بارے میں رقمطراز ہیں:

’’گستاخ رامپوری: (1866 تا1914) کرامت اللہ خاں نام، گستاخ تخلص، خلف عبداللہ خاں مرحوم۔  رام پور کے ایک مشہور اوربا اثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جنرل عظیم الدین خاں کے واقعۂ قتل میں آپ کے والد کی نسبت بھی سازش کا شبہ کیاگیا، جس کا نتیجہ خود ان کی اور ان کے کل خاندان کی بربادی کی صورت میں نمودار ہوا۔ مگر حسن اتفاق کا کرشمہ دیکھیے صرف یہی نہیں ہوا کہ اس وقت کرامت اللہ خاں مرحوم حکومت کی داروگیر سے بچے رہے، بلکہ بعد میں بدگمانیوں کے رفع ہونے پر والیٔ رامپور کی نوازشِ خاص سے بھی بہرہ اندوز ہوئے۔

اردو و فارسی کی رسمی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے ملازمت کو ذریعہ معاش بنایا۔ سلسلۂ ملازمت کی ابتدا رامپور سے ہوئی۔مگر بعد میں حکومت انگریزی کے محکمۂ جیل میں جگہ مل گئی، جہاں آخر وقت تک داروغی جیل کی خدمت ادا کرتے رہے۔ چنانچہ راقم حروف کو پہلے پہل جب آپ سے نیاز حاصل ہوا تو آپ علی گڑھ جیل کے داروغہ تھے۔ علی گڑھ کے بعد ایٹہ، انائو، سلطانپور وغیرہ مختلف اضلاع میں بڑی کامیابی اور نیک نامی کے ساتھ جیلری کی۔ ارادہ یہ تھا کہ وطن میں قیام کرکے باقی حصہ عمر نواب صاحب بہادر رامپورکے خسروانہ مراحم و الطاف کی بدولت بآسانی و آرام بسر کریں گے، مگر افسوس ہے کہ عمر نے وفا نہ کی اور بہ مرض استسقا 50 سال کی عمرمیں بہ مقام دہلی انتقال کیا۔ گستاخ کی تصنیف سے ان کی غزلوں اور چند قصیدوں کے سوا اور کچھ دستیاب نہیں ہوا۔ غزلیں بھی نہایت ابتر اور بے ترتیب حالت میں ملیں۔۔۔ شاعری میں گستاخ مرحوم منشی امیر احمد مینائی کے شاگرد تھے۔۔۔‘‘7

حسرت شاعر کی زندگی اور شخصیت سے زیادہ اس کے کلام پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ اپنے تذکرے میں شعراء کے کلام پر کوئی رائے دیتے ہوئے زیادہ تر زبان اور اسلوب بیان کو پیشِ نظر رکھتے ہیں،کیونکہ اُن کا بنیادی مقصد اصلاحِ زبان ہے۔ درج ذیل اقتباسات ان کے اس طرز کے عکاس ہیں جس سے ان کی تنقیدی آراء کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

نسیم دہلوی:

’’دلفریبی خیال اور رنگینی بیان شاعری کے دو خاص جوہر نسیم کو مومن خاں سے بحیثیت میراث استاد حاصل ہوئے تھے جن کو انھوں نے بہ ا ضافۂ تجرید زبان خوب سے خوب تر بناکر دنیائے شاعری میں اس آن بان کے ساتھ پیش کیا کہ لکھنؤ کی زبان اور دہلی کے بیان کی پسندیدہ اور معتدل ترکیب کا جلوہ جیسا مرزا نسیم کی شاعری میں نظر آتا ہے، اس کی مثال کسی دوسرے شاعر کے کلام میں نہیں مل سکتی اور یہی وجہ ہے کہ ہم نسیم کی منتخب غزلوں کو اردو شاعری کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں۔‘‘8

وفارامپوری:

’’ الفاظ کی رنگینی، تراکیب کی خوبی، مضمون کی نزاکت اورمعنی کی دشواری کو کلام وفا کی خصوصیات میں سمجھنا چاہیے۔ ان کی شاعری سوقیانہ مذاق اور عامیانہ مضامین سے بالکل پاک ہے اور متانتِ مضمون اور بلندی خیال کے لحاظ سے بھی ہر آئینہ ستائش کی مستحق ہے۔۔۔ صرف دشوار پسندی کا ایک عیب البتہ ایسا ہے جس سے کبھی کبھی ان کے شعر کی کل اور خوبیاں بے کار ہوجاتی ہیں۔۔۔‘‘۔9

حسرت نہ صرف ممتاز شاعر ہیں بلکہ ایک بہترین نقاد بھی ہیں اور صاحبِ طرز ادیب بھی۔ ان کے تذکروں کی تنقید میں بھی ادب کا رنگ غالب رہتا ہے۔اُن کے یہاں یہ ادبیت محض تشبیہات و استعارات اور رنگینئی عبارت کی مرہونِ منت نہیں ہوتی، بلکہ ان کی تحریریں سلیس اور رواں ہوتی ہیں۔ اس کے باوصف حسرت کی طرز تحریر خشک اور روکھی پھیکی نہیں ہوتی بلکہ اس کی شگفتگی آخر تک برقرار رہتی ہے۔

مذکورہ جائزے کی روشنی میں یہ  بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ حسرت کے تذکروںکی اہمیت اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ برقرار رہے گی کیونکہ یہ ادبِ عالیہ کا حصہ بن چکے ہیں۔

حواشی:

1       شعرائے اردو کے تذکرے اور تذکرہ نگاری کا فن، مکتبہ جدید، لاہور1952، 92,93 بحوالہ حسرت موہانی- حیات اور کارنامے،  احمر لاری، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 1973، ص 305

2       ایضاً: ص 317

3       ارباب سخن، حصہ اوّل و دوم، سید فضل الحسن حسرت موہانی، رئیس ا لمطابع کانپور،1929، ص 1

4       ، تذکرۃ الشعرا (جزو اول)ثاقب بدایونی، مرتبہ سید فضل الحسن حسرت موہانی، مطبع فیضِ عام علی گڑھ، جولائی 1914، ص 1,2

5       ایضاً، ص 2

6       تذکرۃ الشعراء، حضرت مرزا مظہر جان جاناں، از سید فضل الحسن حسرت موہانی، اردوئے معلّٰی، فیض عام، علی گڑھ، مارچ 1907، ص 2

7       اردوئے معلّٰی، سید فضل الحسن حسرت موہانی، احمد المطابع، کانپور، اپریل، مئی، جون، 1925، ص 1-3

8       ایضاً، مطبع فیضِ عام، علی گڑھ، جنوری 1907، ص 7

9       ایضاً، احمد المطابع، کانپور، مارچ 1925، ص 5,6


Dr. ZakiaRakhshinda,

'Dilkusha',N-49,Abul Fazl Enclave,

Jamia Nagar,

New Delhi-110025

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں