4/5/21

دوارکا پرشاد افق لکھنوی کی شاعری - مضمون نگار: آصف پرویز


 

ہما ری مشترکہ تہذیب کے علمبردار اور عہد ساز شعرا، جنھوں ں نے افق ادب پر چمک کر ایک عہد کو چونکا دیا ان میں ایک نما یا ں نام ملک الشعرا منشی دوارکا پرشا د افق لکھنوی کا بھی ہے۔  افق لکھنوی ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے جہاں شعر و ادب ان کی گھٹی میںپڑا تھا۔ شا عری ان کی پشتینی ورا ثت تھی افق لکھنوی کے دادا منشی ایشوری پرشاد شعا عی شعر و ادب کے پا رکھ تھے اور  اپنے عہد کے خو ش گو شعرا میں شما ر کیے جا تے تھے۔ فار سی شاعری کا عمدہ ذخیرہ یاد گار چھو ڑا ہے۔ آ پ ایک کامیاب نثر نگار بھی تھے۔ افق لکھنوی کے وا لد منشی پو رن چند ذرہ اردو اور فا رسی کے دلدادہ اور شعر و شا عری کا عمدہ مذاق رکھتے تھے۔ انھیں تا ریخ نو یسی میں ید طو لیٰ حا صل تھا۔ ’اودھ سماچار ‘ حکو مت اودھ کی تا ریخ پر مبنی اہم اور تا ریخی دستا ویز کی اہمیت رکھتا ہے۔ مزید بر آں آپ ایک کامیاب صحا فی بھی تھے۔ اپنے بیٹے رام سہا ئے تمنا  کی ادارت میں ایک ہفت روزہ اخبار ’ تمنا ئی ‘ اور ایک اخبار ’ مہر ظرافت ‘ شائع کیا۔

شعر وادب کے ایسے ہی گہوا روںمیں پلنے والے اردو زبان و ادب کے پروردہ اور محب اردو ملک الشعرا منشی دوارکا پرشا د افق لکھنوی ہیں جنھوں نے نہ صرف خاندانی روایت کو آ گے بڑھا یا۔بلکہ اپنی انفرا دی شان و شوکت کے جوہر بھی دکھلائے۔ مذہبی اقدار، گنگا جمنی تہذیب، جذبۂ حب الوطنی، اخلاقیات، معا شرتی میل جول، جذبۂ ایثار و قربا نی، اور خلوص و محبت ان کی شا عری کے طر ۂ امتیاز ہیں۔

ملک الشعرا منشی دوارکا پرشا د افق لکھنوی کی شا عری کا آ غاز غزل سے ہوا اور ابتداً دل تخلص اختیار کیا۔ اس دور کی شا عری سے متعلق دو اشعار پیش خدمت ہیں۔

عا شق  بے سرو سا ماں سے  نہ تم اے  مہرباں

رشتۂ الفت نہ  تو ڑو   عہد و پیماں  کی  طر ح

ساتھ  غیرو ں کے  نہا یا  جس گھڑی وہ بہر حسن

پھٹ گیا دریا  کا  دل  عا شق کے داما ں کی طرح

لیکن انھوں نے جلد ہی افق تخلص اختیار کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے افق شا عری پر چھا گئے۔

خا ک زاہد سے اگر تسبیح کے دا نے بنیں

مانگ لیں ہم رند انگلی پر نچانے کے لیے

ان کے اشعار کے مطا لعے سے فن بلا غت اور عروض پر ان کی کامل دسترس کا بھی پتہ چلتا ہے۔ رعا یت لفظی، تشبیہات و استعارات وغیرہ صنعتوں کا استعمال خوب سے خوب تر ملتا ہے۔ غزل کے علا وہ انھوں نے مسدس، ربا عی، مثنوی، قصیدہ اور تقریبا ً تمام اصناف سخن میں طبع آ زما ئی کی۔

عظیم شا عر ما ضی حا ل اور مستقبل کا نما ئندہ ہو تا ہے۔  اس کی تخلیق ہر دور میں پڑھنے وا لے کے فکر وذہن کو متا ثر کرتی ہے۔ میرے خیال میں ادب وہی کامیاب ہے جو عصری مسا ئل وموضو عات سے ہم آہنگ ہو نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

غربت ہر دور کا ایک اہم مسئلہ رہا ہے مگر افق  صاحب نے یہ سمجھا نے کی کو شش کی ہے کہ غربت زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے۔یعنی غربت کو ئی مسئلہ نہیں بلکہ تمام مسا ئل کا حل ہے کیوں کہ غربت ہی انسان کو خدا کے نزدیک مقبول بنا تی ہے۔ ارشاد ہے۔

امیری  آدمی  کو عیش سے  مجہول کرتی  ہے

غریبی  درگاہ   اللہ  میں  مقبول کرتی   ہے

انسانیت نوا زی اور انسا نی ہمدردی ان کی شا عری کا وصف خا ص ہے۔ آ ج مادہ پرستی کی اس دنیا میں انسانیت دم توڑ رہی ہے انسا نی اقدار شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ حرص وہوس، غرور و گھمنڈ اور خو دپرستی کے اس دور میں انسانیت سسکتی نظر آ تی ہے اس حوا لے سے افق کی شا عری ہر دور میں ہما ری رہبری کرتی ہے۔ ایک جگہ فرما تے ہیں        ؎

خو دی  اہل  خو دی  کا  آ پ  ہی  سر  توڑ  دیتی ہے

خو دی انساںکا  منہ  را ہ  ادب سے مو ڑ   دیتی   ہے

بنا دیتی ہے اندھا چشم   با طن   پھوڑ       دیتی   ہے

ڈبو نے کے لیے کشتی   بھنور میں    چھو ڑ دیتی ہے

خو دی  سے  آ دمی کیسے  فرشتہ  نے  نہ  پھل    پا یا

وہ کھو یا  دم  بھر میں  خو دی  سے  تھا   جو   کل  پا یا

( مسدس خو دی)

عالمی مذہبیات پر منشی دوارکا پرشا د افق لکھنوی کو عالما نہ دسترس تھی۔ ہندو مذہب کے ساتھ ہی دیگر مذاہب کا عمیق مطا لعہ رکھتے تھے۔ مذہبی تعلیمات کے مطا بق تکبر اور گھمنڈ کا انجام صرف اور صرف تبا ہی ہے۔ خدا ئے حقیقی نے غرور کر نے وا لو ں کا کیا انجام کیا، تاریخ شا ہد ہے۔ فرعون، ابرہہ، شداد، نمرود تو دوسری طرف راون، ہرشیہ، کشیپ،را جہ نل وغیرہ نے جب حد سے تجا وز کی اور سرکشی پر اتر آ ئے تو خدا نے ان کو رہتی دنیا تک کے لیے عبرت بنا دیا       ؎

سزاوار اس سے فرعوں ہوگیا قہر الٰہی کا

ملا ضحاک کو داغ اس خودی سے روسیاہی کا

نشانہ بن گیا شداد اس خو سے تباہی کا

ہوا صدمہ اسی سے راجہ نل کی عزلہ شاہی کا

خودی ہی سے تنزل کنس کے اقبال نے دیکھا

خودی ہی سے تہہ تیغ اپنا سر ششو پال نے دیکھا

زما نہ شا ہد ہے کہ مظلوموں پر ظلم ہو تا آ یا ہے اور ہو تا رہے گا۔ افق صا حب فرما تے ہیں خدا مظلومو ں کی فریاد رد نہیں کرتا لہٰذا ایک نہ ایک دن انھیں انصاف مل کر ہی رہتا ہے۔

غضب  ڈھا تی ہیں  مظلوماں  پریشاں حا لی  کی آ ہیں

جلا  دیتی   ہیں  جسم آ ہن  کا  مردہ  کھال کی  آ ہیں

انسانیت ہی دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے انسا نی اقدار سے عا ری شخص حیوان سے بدتر ہے۔ انسانی اقدار زماں ومکا ں کی قیود سے بالا تر ہو تے ہیں انسان چا ہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو انسانیت اولین شرط ہے۔

گوہر انسان خوش گوہر کا ہے جوہر یہی

فخر کا تمغہ یہی ہے وقر کا زیور یہی

آدمیت آدمی کو زینہ معراج ہے

گر نہیں انسانیت کیا ہے جو سر پر تاج ہے

منشی دوارکا پرشا د افق لکھنوی کی شا عری میں گنگا جمنی تہذیب، قومی یکجہتی، مذہبی ہم آ ہنگی اور سیکولزم کے عنا صر خاص طور پر جلوہ گر ہیں۔ جذبہ حب الوطنی سے سر شار ان کی رباعی دیکھیے     ؎

ہندوستاں گھر  جہا ں پناہی کا  ہے

ما تھے  پر اسی  کے  فخر کا ٹیکہ  ہے

عظمت کا ثبوت قدرتی  ہے افق

اوپر  ہے  ہند  نیچے  امریکہ  ہے

ہمالہ کی عظمت پر یوں رقمطراز ہیں         ؎

حو رو ں کی طبیعت اس پہ   لو ٹی   دیکھی

وسعت  میں بہشت اس سے چھو ٹی دیکھی

سر  ہند  سے  ہو گیا  فلک   کا    نیچا

جس وقت  ہما لیہ  کی   چو ٹی    دیکھی

اس ربا عی میں افق صا حب نے ہند کی عظمت اور اس کی تہذیب وثقا فت کا ذکر بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔

افق صا حب کا گھرا نہ مذہبی تھا جس کا اثر ان کی شاعری میں صا ف جھلکتا ہے۔ مذہب اور انسانیت ایک دوسرے کے لیے لا زم و ملزوم ہیں۔ مذہب کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ ہر مذہب نے انسانیت کی تعلیم دی ہے۔ وہ مذہبی تفریق کے خلا ف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ مذہبی اتحاد وہم آ ہنگی گنگا جمنی تہذیب کی رو ح ہے اور آ ج سما جی زند گی اسی رو ح سے خا لی نظر آ تی ہے۔ جس کی بنیاد پر فرقہ وارا نہ فسا دات اور مذ ہبی عدم برداشت کی فضا قا ئم ہو رہی ہے۔ اس حوا لے سے افق فرما تے ہیں        ؎

مولیٰ لا مذہبی سے  انسان کو  بچا ئے

نفرت  نہ کسی دین سے ہو نے پا ئے

مذہب پہ  رہو   افق   ہمیشہ  قا ئم

سمجھے رہو جان جا ئے ایمان نہ جا ئے

مذہبی اتحاد و احترام کے ساتھ قومی یکجہتی جو آ ج کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے اسی کا درس دیتے ہو ئے خلوص ومحبت، نیک نیتی اور ہم دردی پر زور دیتے ہیں       ؎

بھا ئی کی  طلب کبھی نہ اصلا ً دیکھی

سمجھے  نہ بھلی کسی  کا دیکھا  دیکھی

ہمدردی  با ہمی  نہ کی تو نے   افق

دنیا  میں کبھی  نہ  جاتی  دنیا  دیکھی

ہندوستانی سما ج میں عورت کو اعلیٰ مقا م و مرتبہ حا صل ہے۔ عورت دیوی، ماں، بیوی، بہن، بیٹی اور بھا رت ماتا کی مختلف جہت میں ہما رے سامنے آ تی ہے۔ عورت کا تقدس ہی سما ج کی اصل رو ح ہے۔ افق صا حب کے یہا ں عورت کا ذکر کرتے ہو ئے کومل بھٹنا گر لکھتی ہیں:

’’ افق کے یہا ں عورت مثالیت کا پیکر ہے۔ سراپا رحمت ہے، عفت وپارسا ئی، ایثار و قر با نی اور خود سپردگی اس کا جذبہ اعظم ہے۔ عورتو ں کی انہی خصوصیات کی وجہ سے ان کا مرتبہ قا بل ستا ئش ما نا گیا ہے۔ ‘‘

(ملک الشعرا منشی دوارکا پرشاد افق لکھنوی، کومل بھٹنا گر صفحہ نمبر247، لکھنؤ 2007  )

عورت کی پاک دامنی ہی اس کی عفت وعصمت کی حفا ظت کرتی ہے۔ آ ج بھی ایک ہندوتانی عورت اپنی عصمت کو بچا نے کے لیے اپنی جان تک دینے سے گریز نہیں کرتی۔ ہندوستانی عورت کی شوہر پرستی اور وفا شعاری اپنی مثا ل آپ ہے۔ وہ اپنے شوہر کو خدا اور بھگوان کا درجہ دیتی ہے اور اسے پوجتی ہے۔ افق اپنی مثنوی استری دھرم میں فرما تے ہیں          ؎

قلم   کو    ہے  ادب سا وتری  کا

بیا ں  ہے  دھرم  ہندو   استر ی   کا

ہے  ہندو  استری  شوہر  کا  دام    انگ

ہے  چو کھا  اس کے حسن و عشق  کا رنگ

لباس  اخلاق  ہے   زیور   وفا     ہے

سنگار  اس  کا   محبت   ہے ، حیا   ہے

افق صا حب نے ہندوستانی بیوہ عورتوں کی سا دہ زندگی اور ان کی ایثار و قربا نی کو عمدہ اور گہرے جذبات کے ساتھ اپنی شا عری کا حصہ بنا یا ہے۔

مشرف بیوگی سنیاس سے ہے

سوا عظمت میں جوگ ابھیاس سے ہے

تپیاس جوگیوں کی دل لگی ہے

بڑا سے بھی بڑا تپ بیوگی ہے

ریاضت ہے بڑی دل بس میں کرنا

عبادت ہے بڑی پتے کا مرنا

استاد اور شاگرد کا رشتہ ہر دور میں مقدس ما نا جا تا ہے۔ خدمت استاد کو ہما رے سماج میں کا فی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ ایک     طا لب علم جب بھی اپنے استاد کے سامنے آتا ہے۔ آ داب شا گردی کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے۔ افق کی مثنوی ’ گرو سیوا یا خدمت مرشد‘ میں گرو یعنی استاد کی عظمت کا ذکر کیا ہے۔ دیگر مذا ہب کی طر ح ہندو مذہب میں شیش اور گرو کا رشتہ مقدس ما نا جا تا ہے۔ افق  صا حب اس با ت سے بخو بی وا قف تھے کہ گرو کے بنا علم کا حصول ممکن نہیں۔ کیو نکہ گرو کا درجہ ایشور سے بڑا ہے۔ گرو کی محبت و عظمت خدا تک پہنچنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جو شا گرد اپنے گرو کی عزت کرتا ہے وہ دنیا و آ خرت میں کامیاب ہو تا ہے۔ گرو علم کی روشنی سے شا گرد کی دنیا منورکرتاہے۔ افق کہتے ہیں۔

گرو کی  وا جب   التعظیم   ہے  ذات

ہے  اس کی  سا ری دنیا  سے بڑی  بات

گرو  سے  جھکتے  ہیں کشورستاں تک

جا تے  ہیں  اس کے  آستاں  تک

اور پھر          ؎

گرو کی جس نے دل سے بات مانی

ملی اس کو حیات جاودانی

افق تعظیم دو دل سے گرو کی

جگہ دو گوشہ دل میں گفتگو کی

ایک بلندپایہ شاعرما ضی کی بازیافت، حا ل ا ٓ ئینہ اور مستقبل کا پیش رو ہو تا ہے ۔دوارکا پرشاد افق ایسے ہی شعر امیں سے تھے جنھوں نے اپنی تاریخ کے اوراق پا رینہ کو فراموش نہیں کیا اور حال پر بھی غا ئرا نہ نگا ہ رکھی اور مستقبل کے لیے ایسے نکات کو برو ئے کار لا یا جو ان کی شنا خت بن گئی اور شا عری سے پیغمبری کا کام بھی لیا جا نے لگا۔

افق صا حب اپنے عہد کے سب سے بڑے شا عر تھے۔  شا عری کا مذاق ستھرا اور اعلیٰ تھا۔ فن شا عری پر مکمل قدرت کے ساتھ مو ضوع اور بیان کی پیش کش کا پو را خیال رکھتے ہیں۔ شا رب صا حب افق لکھنوی کے حوا لے سے رقمطراز ہیں:

’’ ان کی سب سے بڑی خو بی یہ ہے کہ وہ ایک انسانیت دوست اور قوم وملک کے لیے دردمند دل رکھتے تھے۔ اور انگریزی کی آ مد کے بعد جوتہذیبی انقلاب ملک میں آ یا جس نے اگر ایک طرف ترقی کی راہیں کھو لیںتو دوسری طرف صدیو ں پرا نی تہذیبی وراثت اور  رشتو ں کو مجرو ح ہی نہیں کیا بلکہ نقصان پہنچا یا اور یہ صورت کسی بھی حساس انسان کے  لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ اس زمانے کے تمام عا لمو ں اور دانشوروں نے اس وقت  پیدا ہو نے وا لی برا ئیو ں کی طرف توجہ دلا ئی لیکن اپنی شا عری کے ذریعے جس خوبصورت  اور پر اثرانداز میں دوارکا پرشا د افق ؔنے لوگو ں کو متوجہ کیا اس کے اثرات سے انکار  نہیں کیا جا سکتا۔ افق کی شا عری ایک  طر ح سے اس کا بھی اظہار ہے کہ شاعری  صرف عشق وعا شقی کے اظہار اورتفنن طبع کی چیز نہیں ہے اس کے ذریعے فکر اور  ذہنو ں کو بدلا جا سکتا ہے۔ اپنے عہد میں دوارکا پرشاد افق نے اپنی شا عری کے ذریعے بہت کامیابی سے اس سے یہ کام لیا۔ ان کی شا عری ڈیڑھ سو سال سے زیا دہ  گزر جا نے کے بعد آ ج بھی تا زہ اور اثر آ فریں ہے۔‘‘

(دوارکا پرشاد افق لکھنوی، شا رب ردولوی، نیا دور، ص نمبر39، ستمبر2014)

حواشی

1       دبستان لکھنؤ کے عظیم ادیب ملک الشعرا منشی دوارکا پرشاد افق لکھنوی،کومل بھٹنا گر،2007،نا شرمصنفہ،لکھنؤ

2       منشی دوارکا پرشاد افق لکھنوی نمبر، نیا دور، ستمبر،2014


Asif Parvez

Research Scholar, Dept of Urdu

Alia University

Kolkata - (West Bengal)

Mob.: 9804511171




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں