6/5/21

طنز و مزاح کا معتبر حوالہ زبیرالحسن غافل – مضمون نگار: عبدالغنی

 




 26 جنوری دوہزار اکیس کی شام ہے کہر آلود آسمان میں سورج پہلے سے غروب ہے۔شام کے ڈھلنے اور رات کی ابتدا کا کوئی اَتا پتا نہیں ہے۔ سرد لہر کے سبب شہر بھی جامد اور ساکت ہے۔ اسی درمیان یہ اندوہناک اور دلدوز خبر موصول ہوئی کہ طنز و مزاح کے معتبر حوالہ مشہور و معروف شاعر زیبرالحسن غافل کا پٹنہ میں انتقال پرملال ہوگیا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون اور اسی کے ساتھ ظریفانہ شاعری کے ایک باب کا خاتمہ ہوگیا۔ اچانک ان کی موت کی اطلاع سے اردو دنیا اور بالخصوص علاقہ سیمانچل سوگوار ہوگیا۔ دراصل زبیرالحسن غافل کی موت واقعی غیر متوقع ہوئی ہے کئی ماہ سے وہ علیل ضرور تھے مگر معالجین کی نگہداشت میں روبہ صحت ہورہے تھے مگر قاضی اجل کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ طویل علالت اور اس کے بعد ملنے والی صحت کا زمانہ ان کی سانسوں کی طرح سمٹ کررہ گیا تھا وہ صحت یاب ہوئے، پھر اپنے آبائی گھر آئے اور پھر رب حقیقی سے جاملے۔

زبیرالحسن غافل ظریفانہ شاعری کے ایک اہم معتبر شاعر تھے جو طنز و مزاح کے پردے میں سماجی کرب کا برملا اظہار کرتے تھے۔ ان کی شاعری سیاست سے لے کر معاشرت تک محیط تھی۔

زبیرالحسن غافل پیدائشی شاعر تھے۔ بچپن سے ہی ان کو شعر و شاعری کا ذوق و شوق تھا۔شعرو شاعری ان کو وراثت میں ملی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ددیہال اور ننیہال میں شعر و شاعری کا ماحول تھا۔ ان کے نانا فرزند علی شیدا اردو اور فارسی میں ظریفانہ شاعری کرتے تھے۔ زبیرالحسن کی پیدائش 27 جنوری 1944کو کملداہا ارریہ کے ایک متوسط زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ 1966میں بی۔ایس۔سی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد والد کے حکم سے قانون میں داخلہ لے لیا۔1968میں بی۔ایل کرنے کے بعد 1969میں سول کورٹ ارریہ میں وکالت شروع کی۔ 1975میں منصف کے مقابلہ جاتی امتحان میں شریک ہوئے اور ان کو کامیابی نصیب ہوئی۔ جس کے بعد وہ بہار کے مختلف اضلاع میں منصف کے عہدے پر فائز رہے۔ جنوری 2004میں بہار کے مظفر پور سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ ان کے والد جناب ظہورالحسن صاحب کہنہ مشق شاعر تھے اور حسن تخلص رکھتے تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ’صحرا میں سمندر‘ بھی ادبی حلقوں میں مقبول ہوا۔ انسانی کمالات اور خوبیوں سے متصف عدل و انصاف کے پیکر زبیرالحسن غافل کی زندگی کا ہرپہلو روشن ہے۔ جس میں ہرایک کو اپنے لیے کچھ نہ کچھ نظر آتا تھا۔ اس میں اہل علم، شعرا و ادبا،علما،اہل مدارس،گاؤں کے ہم سایہ، شہر کے ضرورت مند،قانونی حاجت مند غرض وہ مرجع خلائق تھے۔ ان کے پاس ہرآنے والا شخص مطمئن ہوکر رخصت ہوتا تھا۔شریف النفسی،خوش اخلاقی اور صلہ رحمی کے نیک جذبے سے سرشار زبیرالحسن غافل بہتوں کی آس تھے۔ زبیرالحسن غافل اپنی شاعری کے حوالے سے بھی اردو دنیا میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ان کی شاعری پڑھنے کے بعد وقتی طور پہ قارئین زیرلب مسکراتے ہیں مگر جلد ہی دردمندی کے احساس سے مغلوب ہوجاتے ہیں دراصل ان کی شاعری میں زندگی کے آلام و مصائب کا ذکر شامل ہے ان کی نظم’مسجد اقصی کی پکار‘ اور ’ایک گھر اللہ کا‘ اسی کرب واذیت کا اظہار ہے مسجد اقصی کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں         ؎

میں مسجد اقصی میرے چاہنے والو

غیروں کے تسلط سے مجھے آکے چھڑالو

یہ وقت عمل کا ہے مقدر پہ نہ ٹالو

اے چاہنے والو میرے چاہنے والو

غافل کی شاعری طنزو مزاح اور سوزوگداز سے پر ہے۔ ان کی شخصیت کی طرح ان کا فن بھی کائناتی ہے یہی وجہ ہے وہ حالات کے ستم ظریفی سے رنجیدہ ضرور ہیں مگر حالات کی تبدیلی اور صبح انقلاب کی آمد کے لیے پرامید ہیں مسجد اقصی کی پکار کے مذکورہ بالا اشعار میں جہاں وہ دعوت عزیمت دے رہے ہیں وہیں ملت اسلامیہ کے جیالوں کو وارث ہونے کا عار بھی دلارہے ہیں اسی طرح سماج کے لیے ناسور بن چکے رشوت ستانی اور استحصالی نظام کے خلاف بھی وہ سراپا احتجاج نظر آرہے ہیں۔ رشوت کے چلن عام ہوجانے پر سماج کے کمزور طبقات پر جو جبر ہوا ہے وہ ہرحساس دل کو جھنجھوڑتا ہے۔ ’رشوت‘ کے عنوان سے ان کی نظم میں کتنا گہرا طنز ہے ملاحظہ فرمائیں         ؎

مردہ رگوں میں پھر سے نئی جان ڈال دے

بوڑھے کلرک کو بھی جوانی کی چال دے

تحت الثری میں چھپی فائل نکال دے

رشوت میں وہ کمال کہ دفتر کھنگال دے

اس سے نظر چرالے کوئی کیا مجال ہے

سب کے گھروں میں اس کے سبب روٹی دال ہے

ہربار نیا ایک کرشمہ یہ دکھائے

معصوم کو پھانسے کہیں مجرم کو بچائے

ان کی دیگر نظموں میں ’روزگار‘اجنبی شہر’ایک پہیلی‘اینٹی شوہر کانفرنس اور نسخہ لیڈری جس کا ہر ایک شعرگہرائی و گیرائی لیے ہوئے ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کا عنوان شاعر، لیڈر، پروفیسر ،کلرک،بیوپاری،افسر،عوام اور چور کو بنایا ہے اور اس پر طنز و مزاح کے نشتر چھوڑے ہیں جو قاری کو پڑھنے کے بعد ہنسنے اور پھر سوچنے پہ مجبور کردیتا ہے لیڈر کے عنوان سے رقم ان کی نظم کے چند بند ملاحظہ فرمائیں       ؎

لیڈر کو اگر آپ کہیں ڈھونڈھنا چاہیں

وہ رات کو دعوت کہیں کھانے میں ملیگا

اور صبح کو صندوق نما توندکو بھر کر

بیٹھا ہوا وہ چمچوں کے نرغے میں ملے گا

اور دن کو وہ لکھوا کے کوئی موقع کا بھاشن

رٹتا ہوا تنہا کسی کمرے میں ملے گا

اسی طرح خود اپنے بارے میں ان کے اشعار ملاحظہ فرمائیں کہ     ؎

غافل کو اگر آپ کہیں ڈھونڈھنا چاہیں

وہ رات کو بیوی سے جھگڑنے میں ملے گا

اور صبح کو ہاتھوں میں لیے کیس کی فائل

اک کوہ گراں کو رائی کرنے میں ملے گا

کرسی عدالت پہ بڑے صبر سے دن میں

بکواس وکیلوں کی وہ سننے میں ملے گا

نظم نسخۂ لیڈری کے اشعار ملاحظہ فرمائیں کہ

ایک قرص بے حیائی صبح اٹھ کر لیجیے

چار چمچے آب خودغرضی ملاکر پیجیے      ؎

ناشتے میں ایک چمچہ جھوٹے وعدوں کا لبوب

ساتھ اس کے دے مزاعرق ریاکاری بھی خوب

تخم کینہ پاؤ ماشہ لیجیے پھر تول کر

خوب اس کو بھونئے حرص وہوس کی آگ پر

طویل نظم کا آخری شعر دیکھیں         ؎

چند ہفتوں تک اگر اس پر عمل کر لیجیے

نیتا بننے کی ضمانت ہم سے آکر لیجیے

طنزیہ شاعری کے علاوہ وہ غزل کے بھی حساس شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعے کے علاوہ غیر مطبوعہ کلام کثیر تعداد میں ہے جس میں تغزل ہے۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں کہ     ؎

شرم آنکھوں سے رخ سے حیا لے گئی

جانے تہذیب نو اور کیا لے گئی

اب بچا ہی ہے کیا آشیاں میں مرے

چند تنکے تھے وہ بھی ہوا لے گئی

ان اشعار کو دیکھیں کہ عشق حقیقی میں شرابور کیفیت کا برملا اظہار اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا ہے      ؎

کبھی جو گزرا تیری گلی سے چراغ یادوں کے جل گئے ہیں

نظر جو آئی تمہاری چوکھٹ جبیں پہ سجدے مچل گئے ہیں

زبیرالحسن غافل نے نعتیہ عشقیہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے جس میں عشق محمدی کی جھلک ہے ۔

شعر وادب کے علاوہ وہ علاقے کے ایک شجرسایہ دار سرپرست تھے مربی تھے۔

بڑی تعداد میں ان کے قریب ترین وہ لوگ تھے جو کملداہا اور قرب وجوار کے تھے اور سبھی کو بس یہی لگتا تھاکہ جج صاحب کے ہم خاص ہیں۔

اپنی پہلی ملاقات ان سے کب کی ہے، یاد نہیں۔ البتہ ملاقاتوں کے سلسلے،ملاقاتوں پر اصرار اور گاہے گاہے ان کا میرے احوال دریافت کرنا یاد ہے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد وہ مستقل ادبی اور سماجی خدمت میں مصروف ہوگئے تھے علاقے کے شعرا و ادبا پر مشتمل انجمن سوشیو لٹریری سوسائٹی کی تمام نشستوں میں شریک رہتے تھے۔ نشست اور بیٹھک میں لوگوں سے ملاقات کا جو سلیقہ ان میں تھا شاید ہی اب ایسے لوگ ملیں۔ رواداری اور تواضع کی اعلی مثال تھے۔ ایک موقع پر گھر کے لوگوں کے بیچ تھے انہیں معلوم ہوا کہ میں الیاس احمد باوفا مرحوم کا نواسہ ہوں اس پر وہ بے انتہا خوش ہوئے اور حاضرین کو بہت شوق سے بتانے لگے کہ غنی الیاس بھائی کا نواسہ ہے معلوم ہے تم لوگوں کو۔ان کی یادیں،باتیں،ان کا زیرلب مسکرانا،ملاقاتیوں سے حسب حال گفتگو کرنا۔عموماً ان کا رویہ سب کے ساتھ مشفقانہ ہوتا تھا۔مگر ہراس شخص کی ضرور پذیرائی کرتے یا حوصلہ بڑھاتے تھے جن کو ضروری سمجھتے تھے اس میں قرابت یا کوئی اور وجہ نہیں ڈھونڈھتے تھے بس اچھے کام کرنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ آہ کیا ترتیب اور تنظیم کی تھی زندگی کی ان کی۔ زندگی بھر عجزوانکساری کے پیکر بنے رہے۔

تعلیمی پسماندگی پر اکثر کرب کا اظہار کرتے اور تعلیمی انقلاب کے لیے عملی اقدامات پر زور دیتے تھے۔ ایک موقع سے ان کا کہنا تھاکہ’’تعلیمی میدان میں اپنا علاقہ پسماندہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زمیندار اور اس کے مزارع کا علاقہ ہے ان کے ذہن میں تھا کہ پڑھائی کرنے سے کیا ہوگا۔زمیندار طبقہ تعلیمی طور پر پسماندہ رہا ہے۔ پہلے کے مقابلے اب تعلیمی بیداری آئی ہے۔ مسلم بچے پڑھائی سے جی چراتے ہیں۔انٹر کے بعد ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ ہم تعمیری کام کے بجائے مسجد قبرستان خانقاہ اور وقف زمین پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ صورت حال کو بدلنے کے لیے منظم جدو وجہد کی ضرورت ہے۔‘‘

عوام الناس کی خدمت کے علاوہ اردو شعروادب کو بھی انھوں نے مالامال کیا ہے طنزومزاح اور ظریفانہ شاعری کے حوالے سے وہ ایک معتبر نام ہیں۔ بہار میں ظرافت کو جن شعرانے معیار اور وقار بخشا ہے ان میں  رضا نقوی واہی کے بعد زبیرالحسن غافل کا نام سرفہرست ہے۔ان کا شعری مجموعہ اجنبی شہر سال 2006 میں شائع ہوا ہے جو ادبی حلقے میں خوب پسند کیا گیا اور مجموعے کا دوسرا ایڈیشن 2015 میں بھی شائع ہوا۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں بہاراردو ادکادمی نیز دیگر اداروں نے اعزازات سے نوازا ہے۔


Abdul Ghani

Mob.: 9931222982

Email.:abdulghani630@gmail.com

 

 

ماہنامہ اردو دنیا،مارچ 2021


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں