26/8/21

کشمیر کی درد آشنا: ترنم ریاض - مضمون نگار: قدوس جاوید

 



’’میرا عظیم وطن، میرا کشمیر، نرم خو، حلیم اور حسین کشمیریوں کی  زمین۔ دانشوروں،فنکاروں اور دستکاروں کا خطہ، ریشم و پشم، زعفران زاروں اور مرغزاروں کی سرزمین، پہاڑیوں اور وادیو ں کا مسکن،یہ جنتِ بے نظیر، جس کی پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ موجود ہے،جس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔قدیم ترین زبان و تہذیب کا مرکز کشمیر، رِشیوں، مُنیوں کا کشمیر،شیخ العالم اور لل دید کا کشمیر، شاکیہ منی کی پیش گوئی کا بودھ گہوارہ کشمیر، کشیپ رشی اور پرور سین کا کشمیر، للتا دتیہ اور سوئیہ کا کا کشمیر، اشوک، کنشک، کلہن، اور بڈشاہ کا کشمیر، حبہ خاتون کا کشمیر،ارنی مال کا کشمیر ۔‘‘

یہ اقتباس، اسی کشمیر کی خاک سے اٹھنے والی ایک غیر معمولی قلم کار خاتون ترنم ریاض کے ناول ’برف آشنا پرندے‘ سے ماخوذ ہے۔اس اقتباس کے الفاظ، کشمیر کے تئیں ترنم ریاض کے فخر آمیز عشق اور عقیدت مندی کا مظہر ہی نہیں، اس حقیقت کا اشاریہ بھی ہے کہ ’اٹوٹ انگ‘  اور ’شہہ رگ‘ کی دو چکیوں کے بیچ پستی ہوئی کشمیر ی سائکی، معاشرت، سیاست اور ثقافت کے پاکیزہ  منظر نامے کو لہو کی چھینٹوں سے بدنما بنانے کی کیسی کیسی کوششیں اور سازشیں کی گئیں اور صرف ’ برف آشنا پرندے‘  ہی نہیں، کم و بیش ترنم ریاض کی ہر تحریر کسی نہ کسی زاویے سے ان کے وطن عزیز کشمیر کو لازماً مَس کرتی نظر آتی ہے۔

محمد الدین فوق، چراغ حسن حسرت، پریم ناتھ پردیسی اور نور شاہ کے فکشن، اور زینب بی بی محجوب، مہجور،غلام رسول نازکی اور حکیم منظور  کے شعری سرمایے کی امین  ترنم ریاض کشمیر کے معروف علاقہ ’کرن نگر ‘میں ایک معزز گھرانے میں (9اگست1960) کو پیدا ہوئیں۔ اسکول اور کالج کے بعداول تو انھوں نے کشمیر یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔اے کیا اور پھر کشمیر یونیورسٹی سے ہی ’ایجوکیشن‘ میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا۔ ترنم ریاض کی شادی کشمیر کے مشہور ادیب، پروفیسر ریاض پنجابی سے ہوئی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مواقع ملنے کے باوجود ترنم ریاض نے کہیں باضابطہ ملازمت نہیں کی۔ یہاں تک کہ جب ان کے شوہر مشہور سوشل سائنٹسٹ اور ادیب، J.N.U کے پروفیسر ریاض پنجابی کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر (جنوری2008، جون2011) مقرر ہوئے تو کئی شعبوں کی جانب سے آفر کے باوجود ترنم ریاض نے کو ئی عہدہ قبول کرنا منظور نہ کیا۔ البتہ وہ کئی یونیورسٹیوں اور باوقار تعلیمی اداروں کے ساتھ ’وزٹنگ  فیلو‘اور ’گیسٹ پروفیسر‘ کے بطور وابستہ رہیں۔ 2014 میںانھیں SAARC Literary Award  سے نوازا گیا۔ غالباً اس سے قبل اور بعد یہ اعزاز جموں وکشمیر کے کسی اور قلم کار کے حصے میں نہیں آیا۔ ترنم ریاض تا دمِ حیات، وزارت ثقافت (حکومت ہند) کی ’سینئر فیلو‘ کی حیثیت سے بھی سرگرم رہیں۔ترنم ریاض نے  ہندوستان  کے کئی صوبوں کے تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے علاوہ مختلف ممالک میں ’سارک ‘ کے کئی ’لٹریری فیسٹول میں اجلاس کی صدارت کی اور اپنی شعری اور نثری تخلیقات بھی پیش کیں۔ 2005 میں اسلام آباد پاکستان میں منعقدہ ’ورلڈ اردو کانفرنس ‘ میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 2010 میں کراچی پاکستان میں ہونے والے ’امن کی آشا‘ لٹر یری فیسٹول میں بھی ترنم ریاض نے شرکت کی۔ 2011 میں انھوں نے کناڈا میں ’انڈین رائٹرس فیسٹول ‘میں لیکچر دیا اور کولمبیا یونیورسٹی میں اپنی شعری تخلیقات سے سامعین کو مسحور کیا۔ مرزا غالب، قرۃالعین حیدر، وارث علوی پر ان کے لیکچرس یادگار مانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق، تصوف، تانیثیت اور مشترکہ تہذیب کے موضوعات پر ان کے مضامین خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ترنم ریاض ایک عمدہ شاعرہ بھی تھیں اور کشمیر کی معاصر شاعرات رخسانہ جبیں اور شبنم عشائی کی طرح وہ بھی ملکی اور بین الاقوامی مشاعروں میں مدعو کی جاتی رہیں۔

ترنم ریاض کو ہندوستان، پاکستان اور کناڈا کے علاوہ قطر اور ریاض ( سعودی عرب ) میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ ترنم ریاض کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، مثلاً پرانی کتابوں کی خوشبو، بھادوں کے چاند،  زیرسبزہ محوِخواب وغیرہ۔ ترنم ریاض کی شاعری کے مزاج اور معیار کا اندازہ ان کی ایک غزل کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے          ؎

میں درد جاگتی ہوں زخم زخم سوتی ہوں

نہنگ جس کو نِگل جائے ایسا موتی ہوں

وہ میری فکر کے روزن پہ کیل جڑتا ہے

میں آگہی  کے تجسس کو خون روتی ہوں

مری دعا میں نہیںمعجزوں کی تاثیریں

نصیب کھولنے والی میں کون  ہوتی ہوں

شجر کو دیتی ہوں پانی تو آگ اُگلتا ہے

میں فصل خار کی چُننے کو  پھول بوتی ہوں

 فضا میں پھیل گیاہے،تری زبان کا زہر

میں سانس لینے کی دُشواریوں پہ روتی ہوں

ترنم ریاض کے ادبی اعمال نامے میں تقریباً بیس تصنیفات شامل ہیں۔ ترنم ریا ض نے دو ناول لکھے ہیں۔پہلا ناول ’مورتی ‘ کے نام سے 2004 میں شائع ہوا۔  جس میں ایک حساس (مجسمہ ساز )عورت کی نفسیاتی کشمکش اور شوہر کے رویے کے سبب ’انا‘کی شکستگی کو بڑی سادگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اگر ’مورتی‘ کو ابتدائی تانیثی ناولو ں میں شمار کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ترنم ریاض کا دوسرا ناول ’برف آشنا پرندے ‘پہلی بار 2009  میں شائع ہوا اور اب تک اس ناول کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ترنم ریاض کے مختصر ناولوں کا ایک مجموعہ 2005 میں ’فریبِ خطائے گُل‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں: یہ تنگ زمیں (1998)، ابابیلیں لوٹ آئیں گی(2002)،  یمبرزل (2004)، مرا رختِ سفر(2008)

اردو فکشن کے معتبر نقاد وارث علوی نے اپنی کتاب ’گنجفہ باز ِخیال ‘میں لکھا ہے :

’’ترنم ریاض ایک غیر معمولی صلاحیت کی افسانہ نگار ہیں۔ترنم ریاض کے یہاں اچھے افسانے اتنی وافر تعداد میںملتے ہیں کہ ہمواری اور ثروت مند ی کا احساس ہوتا ہے۔ترنم ریاض کی ایک بڑی خوبی ان کی فن کارانہ شخصیت کی سادگی ہے۔ ان کے یہاں کوئی  Artistic Pretensions نہیں،کوئی بلند بانگ دعوے نہیں،کوئی تکنیک کی طراریاں نہیں۔کہیں نظر نہیں آتا کہ استعارے، علامتیں  اور اساطیر مُنہ میں سو کینڈل پاور کا بلب لیے جلوہ افروزہیں۔  ان کے یہاں کاوش اور کاہش کی جگہ برجستگی اور بے ساختگی ہے ‘‘۔           ِ

 ترنم ریاض کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی ’ اجنبی جزیروں میں ‘کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ ترنم ریاض ساہتیہ اکیڈمی، منسٹری آف کلچر اور ادبی سمیناروں کے لیے تنقیدی مضامین بھی لکھتی رہیں۔ان مضامین کو انھوں نے ’ چشمۂ نقشِ قدم‘کے نام سے ترتیب دیا تھا،لیکن بحیثیت مجموعی میرے خیال میں ترنم ریاض کو ان کے شاہکار کشمیر مرکوز ناول’برف آشنا پرندے ‘ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ برف آشنا پرندے،کشمیری سائیکی، سماج اور ثقافت کا رزمیہ ہے۔ اکیسویں صدی میں یوں تو ’نا دید‘ (جوگندر پال )، چاندنی بیگم (قرۃالعین حیدر )، مکان (پیغام آفاقی )، مسلمان (مشرف عالم ذوقی )، اور دویہ بانی ( غضنفر ) اور برف آشنا پرندے کے بعد یا ساتھ ساتھ جو کئی شاہکار ناول منظر عام پر آئے مثلاً ’اماوس میں خواب‘ ( حسین الحق)، جہاں تیرا ہے یا میرا (عبدالصمد )، فائر ایریا (الیاس احمد گدی )، عندلیب بر شاخ شب (شائستہ فاخری )، کہانی کوئی سناو متاشا (صادقہ نواب سحر )، خواب سراب (انیس اشفاق )، ندی(شموئل احمد )، بُلہا کیہ جاناں میں کون ‘(ذکیہ مشہدی ) اور شبیر احمد کے ’ہجور آما‘ سے لے کر محسن خان کے ’ اللہ میاں کا کارخانہ ‘ تک ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ ناول سامنے آئے لیکن ان میں ترنم ریاض کے ناول ’بر ف آشنا پرندے ‘کا انفراد و امتیاز یہ ہے کہ اس ناول میں پہلی بار سِکھ دور سے لے کر ڈوگرہ دور تک کے جبر اور صبر کے واقعات کمال فنی و جمالیاتی در و بست کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ تاریخی،سیاسی،سماجی اور ثقافتی نشیب و فراز اور انتشار و بحران نے کشمیری عوام کی نفسیات،جذبات اور محسوسات پر کس قدر منفی اثرات مرتب کیے ہیں،ترنم ریاض نے اس کی تصویر کشی ناول کے کرداروں،شیبا،پروفیسر دانش، پروفیسر شہاب، نجم خان، سلیم میاں،ثریا بیگم،سیمیں، خدا بخش، سکینہ بیگم اور باب صاحب وغیر ہ کے حوالے سے بڑی خوبی سے کی ہے۔ ترنم ریاض نے کشمیر کے مختلف طبقوں کے ان کرداروں کے شعور اور لاشعور میں اتر کر،لا محدود امکانات کے ساتھ جس طرح ان کاImpersonal Narration کیا ہے اس کی بنا پر برف آشنا پرندے کی موضوعی پرواز کشمیر سے شروع تو ہوتی ہے لیکن اس کا آسما ن آفاقی ہے۔اس ناول میں ’بیانیہ ‘کا ایسا منفرد روپ ملتا ہے جس میں کردار کی خارجی زندگی سے کہیں زیادہ داخلی زندگی کی وضاحت کی گئی ہے۔ ترنم ریاض نے کشمیر اور اہل کشمیر کے تئیں استحصالی قوتوں کے Colonial Attitude کے خلاف اہل کشمیر کی احتجاجی سوچ کا  اظہار اس طرح کیا ہے:

’’عجب محرومی تھی اس وادی کی معصومیت اور سادگی کی، کہ کوئی دوسرے خطوں سے اور کوئی سمندر پار سے آکراس کی قسمت کا مالک ہو جاتا تھا۔افغانوں اور سکھوں نے اگر کوئی کسر چھوڑی تھی تو وہ ڈوگرہ راج میں پوری ہو گئی۔‘‘ (ص 259)

آزادی سے قبل کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے گئے، ویسے مظالم ’ابو غریب‘ کے عقوبت خانوں میں امریکیوں نے عراقیوں پر بھی نہ ڈھائے ہوںگے۔اس کا اندازہ ’گلگِت بیگار ‘کے حوالے سے درج ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے :

’’۔۔۔۔گلگت ‘ ریاست جموں کشمیر کی آخری سرحد تھا۔۔۔۔ جہاں بد نصیب کشمیریوں کو (بیگار کے لیے )سالم و ثابت بھیجا جاتا تھا،اور اکثر ان کے جسم کا ایک ٹکڑا یعنی ’سر‘ واپس آتا تھا،بہت سے سر،لاریوں میں ٹُھنسے ہوئے بے شمار سر۔بچ گئے افراد کی لاشوں کی بجائے اُن کے مجبور و مظلوم وارثوں کے حوالے ان کے عزیزوں کے ’سر ‘ کیے جاتے تھے کہ کوئی کیوں غلام قوم کے لواحقین کی سالِم لاشیں ان کے حوالے کرتا اور وہ انھیںصحیح طرح سپرد خاک کرکے اپنے مجروح سینوں پر جدائی کی سِل رکھ لیتے۔‘‘(ص261)

برف آشنا پرندے میں ترنم نے کشمیر کی تاریخ نہیں دُہرائی ہے بلکہ تاریخی حقائق کی تہوں کو کھولا ہے اور جو کچھ ہاتھ آیا ہے انھیں گرفت میں لے کر بڑی مہارت کے ساتھ ناول کے اصل موضوع کی طرف لوٹ آئی ہیں۔ لیکن ناول کے بیانیہ کو آگے بڑھانے اور اپنے نقطہ نظر کو مستحکم کرنے کی غرض سے کشمیر کی دلدوز تاریخی جہات کو بھی مزید واضح بھی کرتی گئی ہیں:                                                ’’سن انیس سو اکتیس سے لے کر سن چھیالیس تک کشمیر کی عوامی تحریک نہ صرف برِصغیر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لی گئی تھی۔‘‘ (ص 260)

’’اس تاریخی حقیقت سے چشم پوشی کی جاتی ہے کہ جب سرحدوں پر قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا،وادی کشمیر پُر سکون تھی، غیر مسلم اقلیتیں،مسلم اکثریت کے حفظ وامان میں شادماں تھی۔پوری وادی میں لوگ ٹولیاں بنا بنا کر عوام کو صبر و تحمل کی تلقین کر رہے تھے۔     

حملہ آور خبردار،ہم کشمیری ہیں تیار      

شیرکشمیر کا کیا ارشاد،ہندو مسلم  سکھ اتحاد۔‘‘ ( ص272)

آزادی سے پہلے،پُرکشش نعروں اور وعدوں سے پوری ریاست گونج رہی تھی:             

 1  ’’سرداری عوام کا حق ہے۔یہ ملک ہمارا ہے،اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔‘‘شیخ محمد عبداللہ(ص 269)

2  ’’کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں‘‘۔ جواہر لعل نہرو(ص 270)

3   ’’اب جب کہ پورا برِ صغیر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوب گیا ہے،مجھے کشمیر سے روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔ مہاتما گاندھی۔ (ص 272)

ترنم ریاض اردو اور ہندی ادبیات کے علاوہ مغربی ادبیات کے بھی جدید ترین تخلیقی رویوں، رحجانات اور نظریات کا گہرا شعور رکھتی تھیں۔اسی لیے ان کی تخلیقات میں، خواہ وہ شاعری ہو یا افسانہ،ناول ہو یا سماجی یا تنقیدی مضامین،ہر جگہ ان کی فکریات،اظہار و بیان اور اصناف کے فنی و جمالیاتی تقاضوں کے برتائو میں اجتہاد اور آزادہ روی کے عناصر کا غلبہ نظر آتا ہے۔دراصل ترنم ریاض کے ادبی سفر کا زمانہ1980کے آس پاس سے شروع ہوتا ہے۔یہ وہ زمانہ ہے جب اردو میں سوسئیر کے نظریۂ لسان اور رولاں بارتھ اور دریدا کے ساختیات،پس ساختیات اور ردِ تشکیل وغیرہ نظریات کے زیر اثر جدیدیت کا رحجان مجہول اورمابعد جدید تصور مضبوط و مستحکم ہورہا تھا۔ عالمی سطح پر تخلیقی اور تنقیدی ادب میں داخلی اور خارجی ہر اعتبار سے اجتہاد اور تجربہ پسندی کا رحجان عام ہو رہا تھا۔خاص طور پر گیبریل گارسیامارکیز کے ناول’تنہائی کے سو سال ‘ کی مقبولیت، اور روسی ہئیت پسندوںجیکوبسن اور شکلووسکی کے علاوہ  جولیا کرسٹیوا  وغیرہ کے، ’ادب میں زبان کی کار کردگی‘ اور ’ادب کی ادبیت ‘ جیسے نظریات کی مقبولیت کے بعد عالمی سطح پر (تخلیقی اور تنقیدی )ادب میں تعمیری اور انسان دوست بصیرت مندی کو برتنے کا جو رحجان عام ہوا، اردو میں اس کی عمدہ مثالیں قرۃالعین حیدر اور لالی چودھری کے بعد ترنم ریاض کے یہاں بھی ملتی ہیں۔اگر’ برف آشنا پرندے‘ اور ترنم ریاض کی دیگر تخلیقات کی بھی سنجیدہ قرأت کی جائے تو ادب عالیہ سے متعلق یہ بات درست معلوم ہوگی کہ کسی بھی فن کار کے فن کے انفراد اور اعتبار کا ایک جواز یہ بھی ہوتا ہے کہ جس معاشرے اور ثقافت کے حوالے سے اس فن کار کا فن پارہ ( ناول،افسانہ، نظم یا شعر ) لکھا گیا ہے، اس معاشرے کی سائیکی اور ثقافت کی ’تعمیر نو‘ کے امکانات بھی اس فن پارے میں موجود ہوں۔ اس اعتبار  سے بحیثیت مجموعی ترنم ریاض کا فن (فکشن،شاعری اور مضامین )کشمیری سائیکی کا بے باک ترجمان توہے ہی، ساتھ ہی فکری اعتبار سے اہلِ کشمیر / قارئین کو،کشمیر کی ’تعمیر نو‘کے امکانات سے رُو برو کرنے کی کامیاب کوشش سے بھی عبارت ہے۔  

Quddus Javed

Ex. Head Dept of Urdu

Kashmir University- 190006 (J&K)

Mob.: 9419010472

 

 


 

 

 

 

 

 


23/8/21

آمنہ ابوالحسن: اردو افسانے کا ایک معتبر نام - مضمون نگار : ارشاد شفق

 



خواتین افسانہ نگاروں میں آمنہ ابوالحسن ایک بڑا نام ہے۔موصوفہ کی پیدائش 10مئی 1941 کو حیدر آباد میں ہوئی۔ ان کا اصل نام سیدہ آمنہ اور قلمی نام آمنہ ابوالحسن تھا۔ ابتدائی کہانیاں انھوں نے بچوں کے ایک رسالے ’تارے‘کے لیے لکھیں،لیکن باقاعدہ طور پر ادبی زندگی کا آغاز  1951 میں کیا۔اگرچہ انھوں نے بہت کم عمری میں لکھنا شروع کردیا تھالیکن شعور کی پختگی کے بعد ان کی پہلی کہانی ’ساقی‘میں شائع ہوئی۔اس کے بعد آمنہ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کے متعدد افسانے برصغیر کے معیاری رسائل میں شائع ہوئے جن میں ’بیسویں صدی‘، ’شاعر‘ اور ’آجکل‘ اہم ہیں۔ افسانے کے علاوہ انھوں نے کئی ناول بھی لکھے جن میں ’سیاہ سرخ سفید‘، ’تم کون ہو‘اور ’واپسی‘کافی مشہور ہوئے۔ ’واپسی‘ پر انھیں یوپی اور بہار اردو کادمی کی جانب سے انعام بھی ملا۔ افسانوی دنیا میں ان کے دو افسانوی مجموعے ’کہانی ‘ اور ’بائی فوکل‘ ان کی شناخت قائم کیے ہوئے ہیں۔

آمنہ ابوالحسن کا فکری شعور جس زمانے میں پروان چڑھا وہ ترقی پسند تحریک کا عہد تھا۔اگرچہ انھوں نے آزادی کے بعد لکھنا شروع کیا تاہم جس دور میں ان کی ذہنی آبیاری ہوئی اس دور میں ترقی پسند تحریک کی لہر چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی،لیکن آمنہ اس تحریک سے متاثر نہیں ہوئیں۔انھوں نے اپنے افسانوی موضوعات عام انسانی زندگی سے اخذ کیے اورجو کچھ بھی لکھا اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر لکھا،یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔پروفیسر قمر رئیس ان کی انفرادیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آمنہ ابوالحسن کے افسانے حقیقت نگاری کی توانا روایت کے آئینہ دار ہیں۔ان کا تعلق مصنفین کی درمیانی پیڑھی سے ہے۔آمنہ اپنے افسانوں میں لطیف اور نازک جذبات کی کامیاب ترجمانی کرتی ہیں۔ ان کی سبھی کہانیاں شاعرانہ حسن سے معمور ہوتی ہیں۔خوف ودہشت اورعدم تحفظ کی آگ میں جلتا ہوا انسان،آمنہ کی تخلیقی فکر کا مرکزی نقطہ ہے۔‘‘

(آزادی کے بعد اردو افسانہ دہلی میں،قمررئیس،مشمولہ ’شاعر‘ ہم عصر اردو ادب نمبر،مئی تا دسمبر1997-98،ممبئی،ص 342)

آمنہ نے اپنے افسانوں میں دور جدید کی بڑھتی اور سسکتی زندگی کی پیچیدگی،انسان کی کرداری گراوٹ، فرد کی نفسیاتی اور داخلی  کربناکی، متوسط طبقے کاسماجی اور معاشی اُتار چڑھاؤ، اقدار کی پامالی،نئے معاشرے کی کجروی، مغربی تعلیم کی بے راہ روی، فرقہ وارانہ فساد، انسانی خود غرضی، تہذیبی پیچیدگی،شکست خوردگی، معاشرتی کربناکی،سماجی ہیجان انگیزی،معاشرے کی مثبت ومنفی صورتحال کی جستجو،نئی تہذیب وکلچر کی عکاسی،نسلوں کی کشاکش،تہذیبی تضادات،انسانی ہوس پرستی اور بے انصافی، کے علاوہ رشتوں کے الجھائووغیرہ جیسے جیتے جاگتے موضوعات کو افسانوی صفحات میں جگہ دے کرایسے مستحسن انداز میں پیش کیا ہے،جس کے مطالعے کے بعد قاری کو ان کی ذہانت،علمیت اور تخلیقیت کے نئے نئے باب رو شن ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ موصوفہ کاطبقاتی شعور بہت پختہ اور نکھرا ہوا ہے۔ انھیں اپنے ارد گرد کے ماحول اور معاشرے کی تبدیلی کا بھر پور احساس تھا۔ انھوں نے سماج سے کٹ کر ایک آزاد فرد کی طرح زندگی گزار نے پرکبھی اکتفا نہیں کیا۔مختصر یہ کہ موضوعاتی طور پر آمنہ کے افسانے اپنے عہد کے متنوع مسائل سے ترتیب پاتے ہیںجس پر کسی تحریک یا رجحان کا لیبل چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔

آمنہ ابوالحسن ہمیشہ زندگی کے مثبت پہلو کی قائل رہیں۔ ان کے افسانوں میں اقدار زندگی کو سمجھنے،اسے بہتر بنانے،قسمت اور خدا پر یقین رکھنے کا درس ملتا ہے، جس کی تہہ میں فکری بلوغت کی صداصاف سنائی دیتی ہے۔ ان کے اس نہج کے افسانے جہاں انھیں اپنے عہد کے مفکر ومدبّر کا درجہ دلاتے ہیں وہیں موصوفہ کی بصیرت اور مشاہدات کا آگہی نامہ بھی بن جاتے ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لے کر افہام وتفہیم کے نئے نئے در وا کرتے ہیں۔اس موضوع پر ان کے دو افسانے’برجو‘ اور ’طواف‘ ہیں جس میں زندگی کو مثبت سمت کی طرف لے جانے کا اشاریہ موجود ہے۔افسانہ ’طواف‘کی ہیروئین (ناظرہ)ساری زندگی دھوکہ کھانے اور اپنا بچہ کھودینے کے بعد بھی صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔وہ ماں باپ کو ٹھکرا کراپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرتی ہے جس کی سزا بھی اسے ملتی ہے لیکن مایوسی کو بالائے طاق رکھ کراپنے سارے غم بھول جاتی ہے۔اسی طرح افسانہ ’برجو‘ کا مرکزی کردار جو پیشے سے جنگل میں لکڑیاں کاٹنے والا ایک مزدور ہے،اسے جنگل کی ہر شے سے محبت ہوتی ہے لیکن اس کا دوست اسے شہر جاکر نوکری کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔وہ اس کی بات مان کر شہر بھی جاتا ہے لیکن اچانک ایک دن کھیت میں سانڈ گھسنے سے وہ چوکیداری کی نوکری چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ کسی اور جنگل میں پہنچ جاتا ہے اور باقی کی زندگی وہیں گزارتا ہے۔ اس افسانے میں آمنہ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رزق دینے والا اللہ ہے اور بندہ اگر اپنی محنت میں ثابت قدم رہے تو اسے اور اس کی آنے والی نسل کو رزق ہمیشہ ملتا رہتا ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے جس سے موصوفہ کے نظریات کا بھر پور اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

’’دلوں کا طواف کرویہی کعبہ کا طواف ہے۔ جو بھی انسان سے محبت نہیں کرتا وہ کبھی خدا سے محبت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ تڑپنا ایک تجزیاتی عمل ٹہرا اور جو انسان تڑپنانہ جانے وہ بھلے ہی اپنی پیدائش کا منطقی مصرف پورا کرے مسکین بن کر جیے اورعمر تمام کرے لیکن جو دھوپ بن کر زمانہ پر نہ پھیلے اور عود عنبر کی طرح اپنے آپ میں نہ سلگے وہ درحقیقت زندگی کا مفہوم کیا سمجھے۔‘‘

(برجو،آمنہ ابوالحسن،مشمولہ ماہنامہ شاعر،مدیر افتخار امام صدیقی،جلد 70،شمارہ1،ممبئی،ص12)

آمنہ بدلتی دنیا اور گزرتے وقت کی نباض ہیں،وہ اپنی باریک بین نظرسے نئی تہذیب میں ڈھلے معاشرے اور اس سے پیدا شدہ برائیوں کابغور مطالعہ کرتی ہیںاور اسے اپنی فکری آنچ میں تپا کر افسانے کے قالب میں ڈھالتی ہیں۔وہ موڈرن معاشرے کی برائیوں اور بے اعتدالیوں کو بڑی فنکاری سے پیش کرتی ہیں۔ان کے افسانے اپنے عہد کی معاشرتی زندگی اور اخلاقی اقدار کے مثبت ومنفی رجحان کے ترجمان ہیں۔ان کے یہاں نئی اور پرانی تہذیب کو سمجھنے کا شعور بہت پختہ اور متاثر کن ہے،جو ان کے ذاتی غم کا سانحہ بننے کے بجائے معاشرتی حقائق کی صحیح اور سچی تصویر واضح کرتا ہے۔’اندھیرے کا خوف‘، ’پرنو‘ اور ’گہن‘ جیسے افسانے موڈرن معاشرے کی برائیوں اور بے اعتدالیوں پر مبنی ان کے بہترین افسانے ہیں۔ ’اندھیرے کا خوف‘ میں موصوفہ نے مغربی ممالک میں رہنے والے مسلم طبقے کی عکاسی کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح یہ طبقہ اپنے تمام مشرقی عقائد اورمذہبی اصولوں کو بھول کر مغربی تہذیب میں ڈھل جاتاہے۔ ’پرنو‘ میں انھوں نے موڈرن معاشرے میں بچوں کی پرورش صحیح ڈھنگ سے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہونے والی منفی تبدیلیوںاور سوچ کو موضوع بنایا ہے۔ موڈرن معاشرے کے والدین اپنے بچوں کی تمام تر ذمے داریاں ملازمہ کے سر ڈال دیتے ہیں اور ملازمہ کم عقل اور پڑھی لکھی نہ ہونے کے سبب جو باتیں بچوں کے ذہن میں پیوست کرتی ہیں، وہ ساری زندگی محفوظ رہتی ہیں۔ افسانہ ’گہن‘ میں انھوں نے ایک شخص کی محض ایک غلطی سے اس کی پوری زندگی کو تباہ ہونے کی تصویر دکھائی ہے،جس سے پورا معاشرہ اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ وہ پوری زندگی اپنی ماں کا کہنا نہ ماننے پر پچھتاتا رہتاہے:

’’اپنی ماں کی درد بھری سسکیاں اس کے کانوں میں گونج کر اسے مزید بے حال کر گئیں۔ماں نے کتنا سمجھایاتھا۔کتابوں کو اپنا سب سے اچھا دوست سمجھ۔مگر اس نے سب پربھروسہ کیا۔‘‘

(گہن،آ منہ ابوالحسن،مشمولہ ’بائی فوکل ‘،موڈرن پبلشنگ ہائوس، دریاگنج،نئی دہلی،1990،ص63)

آمنہ فرد کے نہاں خانوں میں ڈوب کراس کی ذات وکردارکا محاسبہ کرتی ہیں۔ انھیں فر د کے داخل میں جھانکنے اور اس کے جذبات واحساسات کو ٹٹولنے پر عبور حاصل ہے۔وہ معاشرے کے جیتے جاگتے کرداروں کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنے کے بجائے اس کی اندرونی کیفیت کو اہمیت دیتی ہیں۔ افسانہ ’بائی فوکل‘ میں موجود مرکزی کردار آفاق کی اندرونی کیفیت کو انھوں نے جس فنکاری سے پیش کیا ہے وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آفاق پوری زندگی اپنے طرز پر جیتا ہے لیکن نوادرات جمع کرکے مطالعہ کرنے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ اب تک اس نے جو زندگی بسر کی ہے اس کا ماحصل کچھ بھی نہیں، چنانچہ وہ سخت ذہنی کرب میں مبتلا ہوکر ساری زندگی سکون کا متلاشی رہتا ہے۔وہ ہمیشہ اپنے خاندان،اپنے لوگ اور اپنی ذات کو اہمیت دیتا ہے اور دوسرے طبقے یا معاشرے کے دیگر افراد کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتاجس کی وجہ سے ہمدردی،ایثارا ورقربانی جیسے جذبات سے وہ محروم رہ جاتا ہے۔افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ ہوں:

’’کاش وہ کسی غریب کے ذہن ودل میں اتر کر وہاں سے ایک نظر اس کی ٹوٹی پھوٹی تاراج دنیا کو دیکھ لیتا تو شاید پھر اسے کسی ’بائی فوکلـ‘ کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ تب وہ یقینا مکمل مطمئن اور ناقابل تسخیر ہوجاتا۔مگر ساری دنیا کو دیکھ کر ہر ہر چیز پا کر بھی آفاق نے کسی غریب کے ذہن ودل کو کہاں دیکھا۔اس کی محرومیوں کو کہاں جانا، اس کی دردمندی کی توفیق خود میں کہاں پیدا کی تھی۔‘‘

(بائی فوکل،آمنہ ابوالحسن،مشمولہ ’بائی فوکل‘، موڈرن پبلشنگ ہائوس، دریاگنج،نئی دہلی،  1990، ص142)

آمنہ کے افسانوںمیں اصلاح کا پہلو بھی ابھرتا ہے۔وہ سماج اور فرد کی برائیوں کو قاری کے سامنے لا کر اس کی اصلاح کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔افسانہ ’دریچہ‘ میں وہ ایک نوجوان لڑکی کی ذہنی تربیت کرتی ہیں۔ افسانہ ’چاپ‘ میں وہ والدین کے ذریعے بچوںکی اصلاح کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ افسانہ ’عفریت‘ میں موصوفہ جہاں فساد کی ہولناکیاں دکھا کر مذہب،ملک اور قوم کے نام پر لڑانے والے افراد پر طنز کرتی ہیں وہیں معاشرے کو امن پسندی کا درس بھی دیتی ہیں۔افسانہ ’مولی‘ میں وہ معاشرے کی اس ذہنیت کی اصلاح کرتی ہیں جو معذور بچوں کو کبھی برابری کا درجہ نہیں دیتا۔ ’شیشے کی دیوار‘ میں وہ ایسے افراد کی اصلاح کرتی نظر آتی ہیں جو ظاہری دکھاوے کی وجہ سے ساری زندگی مسائل کے شکار رہتے ہیں۔اس نہج کے افسانوں میں موصوفہ زمان ومکان کے لوازمات ڈھونڈکر انھیں حل کرنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں، لیکن ان کی یہ کوشش اپنے ہم عصروں میں انھیں تقلیدی روش اختیار کرنے سے جہاں محفوظ رکھتی ہے،وہیں افسانوں کے مختلف موضوعات کی بھیڑ میں انھیں انفرادیت بھی عطا کرتی ہے۔

آمنہ نے اپنے افسانوں کے پلاٹ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے ترتیب دیے ہیں۔ ان کے افسانے سیدھے سادے انداز میں چل کر قاری کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں۔پلاٹ کے برعکس زبان وبیان اور اسلوب کے لحاظ سے وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز رہی ہیں۔ ان کے افسانوں میں بیانیہ کا عنصر بہت مضبوط ہے۔ ان کے اسلوب میں تجسس کا عنصربھی برقرار ہے جو قاری کو کہانی کے اختتام تک باندھے رکھتا ہے۔موصوفہ کے بعض افسانوں میںحقیقت نگاری کے روایتی اسلوب کا تاثر اُبھرتا دکھائی دیتا ہے لیکن اس تاثر میں کہیں تکرار یا یکسانیت کی فضا نظر نہیں آتی۔ افسانوی مجموعہ ’بائی فوکل‘ کے برعکس ’کہانی‘کے افسانوں میں حقیقت اور تخیل کا تضاد ہے۔ ان افسانوں میں فلسفیانہ بحث اور شاعرانہ انداز کے علاوہ طنز کا عنصر بھی اُبھرتا ہے لیکن ان کا طنز بے مقصد ہونے کے بجائے معاشرتی مسائل کو اُبھارتا ہے۔ دراصل آمنہ کے اسلوب کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں معاشرتی اقدار اور فرسودہ روایات سے بغاوت تو کرتی ہیں لیکن اسلوب اور کہانی کے روایتی سانچے کو توڑنے کو تیار نہیں ہوتیں۔لفظوں کے استعمال میں انھوں نے بہت مصلحت سے کام لیا ہے۔ان کے اسلوب میں لفاظی، سطحیت اور جانب داری کا عمل دخل نہیں ہے۔ انھوں نے تخلیق کی بنیادی وہیئتی کیفیات کو جس منفرد انداز میں پیش کیا ہے وہ ان کے ہم عصروں کے یہاں ناپید ہے۔ ان کے فکر وشعور ان کے افسانے کے تخلیقی اشارات اور ارشادات کو فعالیت عطا کرتے ہیں۔ فکر وزبان کی سطح پر موصوفہ کے افسانے جذباتی عقیدت،محسوسات اور مفکرانہ خصوصیات کا مظہر بن کر قاری کو اپنے حصار میں لینے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔پروفیسر قمر رئیس ان کی زبان پر گرفت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’آمنہ ابوالحسن کا طرز بیان انتہائی دلکش اور جاندار ہے جو ان کے معجزبیان اور قادرالکلام ہونے کی دلالت کرتا ہے۔ آمنہ ابو الحسن جگہ جگہ ایسے پتے کی باتیں اپنے دل نشین انداز میں کہہ گزرتی ہیں کہ جن سے ان کے پختہ شعور،بالغ نظری،باریک بینی اور نفسیات پر حاوی ہونے کے ثبوت ملتے ہیں۔آمنہ صاحبہ نے کبھی اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے سہارے اختیار نہیں کیے بلکہ اپنے منفرد طرز نگارش،لطافت بیان اور جاندار کردار نگاری کے ذریعے ادبی دنیا میں اپنا بلند مقام بنایا اور برابر بلندی کی طرف مائل ہیں۔‘‘

(بحوالہ شاعر،ہم عصر اردو ادب نمبر،مئی تا دسمبر1997-98،ممبئی،ص 341)

کردارنگاری کے سلسلے میں آمنہ نے معاشرے کے مختلف طبقوں کے کردارپیش کیے ہیں۔ آمنہ کے کردار معاشرے کے چلتے پھرتے افراد ہیں اس لیے انسان ہونے کی وجہ سے ان میں بشری خوبیان اور خامیاں دونوںموجود ہیں۔وہ اپنے کردارکو فرشتہ بنا کر پیش کرنے کے بجائے ان کے منفی اور مثبت دونوں پہلو کو اہمیت دیتی ہیں۔اس کی وضاحت انھوں نے اپنے افسانوی مجموعے ’کہانی‘کے دیباچے میں کی ہے۔وہ لکھتی ہیں:

’’زندگی کی عمدہ اقدار اور توانارجحانات کی دل سے موئید رہی ہوں اور ادیبوں،فنکاروں،دانشوروں کی ذمے داری بھی یہی سمجھتی ہوں کہ وہ اپنے ساتھ یا پیچھے آنے والے انسانی کارواں کی اسی سمت رہنمائی کریں جہاں حیات کے صالح اور صحت مند حقائق ان کے منتظر ہوں۔انسان اپنے ماحول اور اپنی ساری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ سچا انسان نظر آئے۔دنیا سے ماوریٰ کوئی فرضی کردار نہیں۔‘‘

(حقیقت،مشمولہ’کہانی‘،آمنہ ابوالحسن، پبلشرمصطفی علی اکبر،مارچ 1965،ص10)

آمنہ کے افسانوں کے بیشتر کردار پلاٹ میں آنے والی تبدیلیوں سے اپنا رُخ بدلتے نظر آتے ہیں اس لیے ان کے افسانوں میں متحرک (Active)کرداروں کا عمل دخل زیادہ نظر آتا ہے جو کہانی کو عروج تک پہنچانے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔  ان کرداروں کی انفرادیت بیان کرتے ہوئے سیدہ جعفر نے لکھا ہے:

’’آمنہ ابوالحسن کی کہانیاں اس لیے جاندار اور متحرک ہوتی ہیں کہ انھوں نے دنیا کے نگار خانے میں واقع تصویروں پر محض سرسری نظر نہیں ڈالی بلکہ ان تصویروں میں مختلف رنگوں کے امتزاج اور ان کی معنویت کو سمجھنے کی پر خلوص کوشش کی ہے۔ آمنہ ادب کو مختلف خانوں میں بند کردینے کا رجحان نہیں رکھتیں بلکہ اپنے کرداروں کو ان کی بشری صفات وخصوصیات پیش کرنے کا قابل غور سلیقہ رکھتی ہیں۔‘‘

(بحوالہ شاعر،ہم عصر اردو ادب نمبر،مئی تا دسمبر1997-98، ممبئی، ص،341-42)

اس طرح دیکھیں تو آمنہ کے افسانوں میں زندگی اور فن دونوں کا امتزاج بھر پور موجود ہے۔ان کے افسانوں میںزبان وبیان اور اسلوب کے نئے نئے پہلو اُبھرتے ہیںجس کو پڑھنے کے بعد عمل اور ردّعمل کی نئی نئی راہیں وا ہوتی ہیں۔میرے خیال سے ان کے افسانے اردو کے اہم اور اچھے افسانوں میں جگہ پانے کے مستحق ہیں۔

 

Dr.Irshad Shafaque

H.No: 1/A, BL No: 23, Kelabagan,

Po: Jagatdal, Dist: 24 Pgs(N),

Pin: 743125, (West Bengal)

Ph: 8100035441

Email: Irshadnsr5@gmail.com

 

 

 


 

 

 

 

 


18/8/21

عالمگیریت اور تعلیم: باہمی رشتے اور اثرات - مضمون نگار: آفتاب عالم

 



عالمگیریت ایک ایسا حقیقی اور لا محدود عمل ہے جس نے اس دنیا میں موجود ہر شخص اورہر فرد یہاں تک کہ دنیاکے مادّ ی اور غیر مادّ ی دونوں طرح کی اشیا کوغیر معمولی طور پر متاثر کیا ہے۔ عالمگیریت اکیسوی صدی کے زبان زد الفاظ میں سے ایک ہے جس کے لغوی معنی ـ ’دنیا میں پھیل جانا‘ اور ’دنیا پر چھاجانا‘ہے۔ اس نے دنیا کے تمام ممالک کی جغرافیائی سرحدوں کو کمزور کردیااور علاقائی و ملکی معیشت کو ایک عالمی معیشت سے صرف مضبوطی سے جوڑا ہی نہیں بلکہ ان کے مابین موجود آپسی پابندیوں کو بھی تقریباً ختم کردیاہے۔ عالمگیریت نے زندگی کے ہر زاویے اور میدان میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ دنیا کا کوئی شعبہ، کوئی ملک اور زندگی کا کوئی پہلو عالمگیریت کے اثر سے بچ نہیں سکا اور یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ پھر ایسے حالات میں شعبہ تعلیم اور تعلیمی عمل کیسے عالمگیریت کے اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ درحقیقت تعلیم اور عالمگیریت دونوں میں ایک مضبوط رشتہ ہے۔ دونو ں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی رشتہ رکھتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ دونو ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔  عالمگیر یت اب حقِ انتخاب نہیں بلکہ زندگی کا ایک جزوِلا ینفک بن گئی ہے۔

عالمگیریت کا تصور اور تعریف

 عالمگیریت کے سبب جدید دنیا بغیر جغرافیائی سرحدوں اور کسی قسم کی رکاوٹوںکے دیکھی جا رہی ہے۔ عالمگیریت دنیاکی معاش کو جوڑنے اور مصنوعات، خیالات، کلچر، تہذیب و تمدّن، سائنسی اختراعات اور ٹکنالوجی وغیرہ کے باہمی تبادلے کے عمل کا نام ہے۔ عالمگیریت عالمی طور پر یکجا ہونے کا عمل ہے جو چیزوں کے باہمی تبادلے کے عمل کے ذریعے پیدا ہو تی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ اس کا مطلب ملکوں کے سرحدوں سے پرے معاشی سرگرمیوں میں اچانک اضافہ ہے۔

بیک ((Beck)  نے  اس کی تعریف اس طرح کی ہے کہـ نیٹ ورک کی توسیع اور شناختوں اور مختلف امکانی قوتوں کے ذریعے پوری دنیا کے ممالک کی خود مختاری کو کم کرنے کا ایک عمل عالمگیریت ہے۔ روبرسٹن نے عالمگیریت کو ذرایٔع ترسیل و ابلاغ اورمواصلات  کے زاویے کا سمٹ جانا ہے۔ اسی طرح، لیوک نے ٹکنالوجی کی توسیع پر توجہ دی اور زور دے کر کہا کہ عالمگیریت پوری دنیاکو ایک عالمی گاؤں میں ڈھالنے کا عمل ہے تاکہ افراد معلوماتی اور مواصلاتی ٹکنالوجی کے جدید آلات کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرسکیں۔ واٹرس کے مطابق (1995، ص 3) عالمگیریت کو ایک معاشرتی تبدیلی کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے جہاں معاشرتی اور ثقافتی پہلوؤں پر جغرافیائی سرحدوں کا اثر کم ہو رہا ہے اور لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو عالمگیریت کا مقصد عالمی طورپر معاشرتی تعلقات میں اضافہ  ہے جو دور دراز کے علاقوں کو اس طرح جوڑتاہے کہ مقامی واقعات سے دور درازمیں رونما ہونے والے واقعات متاثر ہوتے ہیں۔

لہٰذا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمگیریت ملکوں اور ریاستوں کی  جغرافیائی سرحدوںکو کم کرنے اور اسے ختم کرنے کا عمل ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلووں جیسے ثقافت، معاشرتی تعامل، معیشت، سیاست اور دیگر تمام پہلوؤں کومتاثر کرتا ہے۔ غیرواضح سرحدوںکا مطلب یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ اگر بات چیت ایک ہی درجے اور حیثیت والے لوگ یا جماعت کے ما بین ہو تو غیر جانب دارانہ ہوسکتی ہے۔ تاہم، اگر بات چیت غیر مثاوی حیثیت یا طاقت والے لوگ یا جماعت کے ما بین ہے تو طاقتور افراد کمزور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

 عالمگیریت کے اقسام

1  ثقافتی عالمگیریت: ثقافتی عالمگیریت کاتعلق ثقافت کے ایک مضبوط عنصر کی توسیع سے ہے۔ عام طور پر مستحکم اور ترقی یافتہ ممالک کی ثقافت عالمی پیمانے پر غالب رکھی جاتی ہے تاکہ اس کے ذریعے ممالک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کو ثابت کیا جا سکے۔ ثقافتی عالمگیریت ایک ایسا عمل ہے جہاں مقامی ثقافت ایک خاص شرح سے کم ہوتی جاتی ہے اور وہ عالمی ثقافت سے بدل دی جاتی ہے۔

2 معاشی عالمگیریت: معاشی عالمگیریت مختلف پہلووںپر مشتمل ہے جیسے بین الاقوامی کمپنیاں جو ملکوں کے خاص قوانین و ضوابط کی پیروی کیے بغیر عالمی سطح پر کام کرتی ہیں۔یہ کمپنیاں ٹیکس کے ذریعے ملک میں منافع لاتی ہیں اور بہت ہی اثرورسوخ کا حامل ہوتی ہیں کیونکہ وہ کسی ملک کی قوانین کے پابند نہیں ہیں نیز اس کے اختیارات ریاستوں سے بالا تر ہیں۔ معاشی عالمگیریت میںقومی معاشی فنڈ ) آئی ایم ایف)  جیسی بڑی تنظیمیں شامل ہیں جو ترقی پذیر ممالک کو قرض اور فنڈ مہیا کراتی ہیں۔ جونس کے مطابق،  علامتی اشیا اور خدمات کے بہاؤ کے ساتھ دو علاقوں کے مابین تبادلے کی آزادی، ممالک کو حاصل مخصوص قدرتی وسائل اور جغرافیائی فوائدکی وجہ سے علاقائی مخصوص اشیا کی پیداوار میں توازن، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، عالمی منڈیوں کی بابت لچکدار ردّعمل، غیر قومی مالیاتی منڈیاں اور مزدوروں کی آزاد نقل و حمل وغیرہ معاشی عالمگیریت میں شامل ہیں۔

3 سیاسی عالمگیریت: سیاسی عالمگیریت کا مانناہے کہ ملکوں اور علاقائی حکومتوںکی طاقتیں عالمگیریت کی وجہ سے کم ہو رہی ہیں۔ جونس کے مطابق، سیاسی عالمگیریت کو عالمی سطح پر مختلف طاقت کے مراکز اور ملکوں کی خود مختاری کی عدم موجودگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔یہاں مقامی مسائل پر بحث عالمی برادری کے تعلّق سے ہوتی ہے، طاقتور بین الاقوامی تنظیمیں قومی تنظیموں پر غالب رہتی ہیں، مختلف مراکزپر مبنی عالمی تعلقا ت قومی ریاست (Nation-State) کی ا قدار کو کمزور اور عالمی سیاسی ا قدار کو مظبوط کرتی ہیں وغیرہ۔ لہٰذا کسی خاص ملک اور ریاست کا شہری ہونے کی اہمیت کم ہو چکی ہے۔

عالمگیریت کے نظریات

عالمگیریت کے متعلق تین اہم نظریات ہیں اور ہر ایک نقطہ نظر عالمگیریت کے تعلق سے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤںپر بحث کرتی ہے۔ تینوں مختلف نظریات مندرجہ ذیل ہیں:

1غیر معمولی  عالمگیریت کا نظریہ (Hyper- Globalist Perspective):   اس نظریہ کے حامل لوگوں کا کہنا ہے کہ تاریخِ ماضی اور موجودہ معاش دونوںنے مل کر ایک نیا رشتہ پیدا کیاجہاںسارے ممالک معاشی اور سیاسی طورپر متحد ہورہے ہیں نیز ان معاملات میں سارے ممالک کا متحد ہونا ضروری ہے تاکہ عالمگیریت کی دنیا میں کامیاب ہو سکیں اوریہ سچائی ہے کہ جو ممالک متحد نہیں ہوئے وہ اس عالمگیریت کی دنیا میںپیچھے رہ گئے۔ اس نظریے کے حامل لوگوں کا مانناہے کہ دنیا کی معاش حکومتوں کے اختیارمیں نہیں بلکہ موجودہ بازارکے ضبط و تسلط میں ہے اور صنعت و حرفت، تجارت اورعالمی معاشی بازارنے معیشت کو حکومتوں کے اختیار سے نکال کر بازارکے اختیار میں لا دیاہے۔ مجموعی طورپر بات یہ ہے کہ انفرادی حکومتوںکی طاقتیں کم ہوئی ہیں اور عالمگیریت نے معیشت کے بند و بست کی انفرادی حکومتوںکے اختیارات کو کم کر دیا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ’صارفیت پسند نظریہ‘ کی تبلیغ اور اشتہار روایتی شناخت کو توڑنے کی راہ میں پہلا قدم ہے۔جب آزاد خیال جمہوریت دنیامیں پھیلے گی معاشی اور سیاسی تنظیم کے عالمی اصولوں کی نشوونما ہوگی او رپھر ا ن سب کے بعد ایک حقیقی عالمگیریت ممکن ہوگی۔ دوسرے نظریات کے مقابل اس نظریے کے حاملین دنیا کی ساری معیشت کو ایک ہی اکائی کے طورپردیکھتے ہیں۔

تشکیک کانظریہ(Sceptical Perspective):  تشکیکی نظریے کے حامل حضرات عالمگیریت کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں اور دنیا کو عالمگیریت کے بجاے علاقا ئیت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں نیز اس حقیقت کومستردکرتے ہیں کہ عالمی ترقیاتی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ایک عالمی ثقافت کی ترقی ہورہی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ دنیا عالمگیر ہو رہی ہے لیکن مختلف خطے کے آپس میں ملنے کی وجہ سے ہے اور ماضی اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ دنیا ایک معاشی منڈی نہیں بن رہی ہے بلکہ علاقائی معاشی شعبوں کی ایک توسیع اور ملکوں کے مابین تجارتی تعاون ہے مثلاًترقی یافتہ اور صنعتی ممالک آپس میں تجارت کرتے ہیں اور ایک تجارتی بلاک بناتے ہیں پھر آہستہ آہستہ ترقی پذیر ممالک سے مصنو عات خرید نا شروع کرتے ہیں اور ان ممالک کو اس بلاک میں شامل کر لیتے ہیں۔اس نقطہ نظر کا ماننا ہے کہ بین ممالک تجارت کو آسان بنانے اور عالمی معیشت کو چلانے کے لیے ایک مظبوط ملک کی ضرورت ہے ورنہ طاقتور ممالک کمزور وترقی پذیر ممالک میں تجارت کے نظام کو چلائیںگے۔ ان کا ایک عالمگیر دنیا میں یقین ہے لیکن یہ ماننا ہے کی عالمگیریت کی شروعات علاقائیت سے ہو کر ایک عالمگیر معیشت کی طرف جاتی ہے۔

تبدیلی کا نظریہ(Transformationalist Perspective):  یہ نقطہ نظر دوسرے نظریات سے دو طریقوں سے مختلف ہے، اول، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عالمگیریت کے پیچھے کو ئی انفرادی وجہ (مارکیٹ یا معاشی منطق) نہیں ہے اورعالمگیریت کو ایک ایسا رجحان سمجھا جاتا ہے جو سالوں سے آہستہ آ ہستہ ترقی کررہی تھی۔ دوئم، محققین کا کہنا ہے کہ عالمگیریت کے عمل کے نتائج کا تعین مشکل ہے اور عالمگیریت ایک غیر معلوم رجحان ہے جس کا اثر سالوں تک نظر نہیں آئے گا۔ ان کاماننا ہے کہ عالمگیریت کے سبب کچھ عام تبدیلیاں ہو ئی ہیںلیکن یہ کہنامشکل ہے کہ یہ تبدیلیاں کس معین سمت میں ہوئیں نیز یہ نقطہ نظرکسی تاریخی واقعات یا عوامل کی وضاحت نہیں کر تا جس سے عالمگیریت کی تعریف ہو تی ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی حکو متوں کی طاقتیں بڑھ رہی ہیں لیکن ان حکومتوں کی نوعیت بدل رہی ہے اور عالمگیریت کے عمل کو متاثر کرنے والے عوامل کی حد زیادہ ہے اور عالمگیریت کے نتائج بہت غیر یقینی ہیں۔

 تعلیم پرعالمگیریت کا اثر

 عالمگیریت نے موجودہ وقت میں تعلیم کی ضرورت کو بڑھادیا ہے اور بہت سارے ممالک کے لیے یہ مشکل کر دیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو کافی مقدار میں اور اعلی معیار کی تعلیم مہیا کرائے۔ عالمگیریت کا زور اس بات پر ہے کہ دنیا میں موجود ہر فردکی رسائی ہر درجے کی تعلیم تک ہو اور اس کی وجہ سے آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

تعلیم کونجی کرنا: عالمگیریت نے مصنوعات کی پیداوار کے ساتھ ساتھ ساری خدمات جس میں تعلیم شامل ہے کو نجی کرنے پر زور دیا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ عالمی تجارتی تنظیم  (ڈبلو ٹی اوWTO/)نے ان ساری خدمات کو اپنے معاہدے میں شامل کیا ہے جس پر دنیا کے اکثر ممالک کے دستخط ہیں۔بنیادی تعلیم کو پہلے نجی کیا گیا اور پھر اعلی تعلیم کو بھی آہستہ آہستہ نجی کیا جارہاہے، اس کی مثال یہ کہ ہندوستان میں نئی تعلیمی پالیسی 2020نے بھی تعلیم کو نجی کرنے پر زور دیا ہے۔

تعلیم کی تجارت:  عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلو ٹی اوWTO/) عالمگیریت کی سہولت کی غرض سے معاشرتی زندگی کے تمام شعبوں کوبین الاقوا می سرمایے کے لیے کھول دیا جس میں عام خدمات جیسے تعلیم شامل ہیں اورتاجروں کو تعلیم کی خدمات کوآگے بڑھانے میں سہولت فراہم کیا۔ خدمات کی تجارت کے بارے میں عالمی تجارتی تنظیم کے عام معاہدے میں قومی خدمات جیسے تعلیم کی تجارت کی مسلسل آزادی شامل ہے۔مستقبل میں سماجی زندگی کے سارے پہلوئوںکی تمام خدمات کے سا تھ سرمایہ کاری ہو گی جبکہ یہ تنظیم سماجی زندگی کے سارے پہلوئوںکو سرمایہ کاری کے قابل ما نتی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلو ٹی اوWTO/) پوری دنیا کا واحد طاقتور ادارہ ہے جس کی اطاعت کے لیے امریکہ اور یورپی یونین بھی مجبور ہیں جبکہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈخصوصاًترقی پذیر ممالک کو متاثر کرتے ہیں۔

تعلیم کی عالمی رسائی: عالمگیریت کی وجہ سے موجودہ وقت میں زندہ رہنے اور ترقی کے لیے ہر فرد کو تعلیم حاصل کر نانہایت ہی ضروری ہے۔ تعلیم سے متعلق یونیسکوترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک میں تحقیقات کرتا ہے اور ان ممالک کو مالی تعاون بھی فراہم کرتاہے جن کو اتنے وسائل اور سرمایہ میسرنہیں ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو عالمی سطح کی معیاری تعلیم مہیا کراسکیں۔ مختلف ممالک میں متعلقہ حکومتوں کی مدد سے مختلف تعلیمی منصوبے چلائے جاتے ہیں جیسے ہندوستان میں سروشکشا ابھیان( ایس ایس اےSSA/) اورراسٹریہ مادھمک شکشا ابھیان  ( آر ایم ایس اےRMSA/ ) اور اب دونوں کا مجموعہ سمگرا شکشا ابھیان وغیرہ تاکہ ہر طبقہ، ذات، نسل،خطہ،مذہب اور صنف کے لوگوں تک معیاری تعلیم پہنچ سکے۔

تعلیم کی آزادی:  عالمگیریت تعلیم جیسی عوامی خدمات کی فراہمی میں حکومت کے کردار کو کم کرنے اور محدود کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس اکیسوی صدی نے ریگولیٹری میکانزم کے ساتھ تعلیم کو ایک آزاد منڈی میں بطور انڈسٹری بنادیا ہے۔عالمگیریت کا تقاضا ہے کہ تعلیم کے شعبے میںلائسنسنگ کے ساتھ ساتھ تجارتی آزادی ہو اور تعلیمی اداروں کو آزادی کے ساتھ ساتھ کاروباری کارپوریشن کی طرح کام کرنے کا مکمل اختیارہو۔

تعلیم میں ٹیکنالوجی کا استعمال: یہ عالمگیریت کا اثر ہے کہ پوری دنیا معلومات سے بھرپور معاشرے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ معلومات اور مواصلات کی ٹکنالوجی (آئی سی ٹیICT/) کی بڑھتی ہوئی ضرورت اورتکنیکی گزیٹ کا استعمال، مصنوعی ذہانت، ای لرننگ، آن لائن کلاس، معنوی درسگاہیں، ڈیجیٹل پلیٹ فارم، ڈیجیٹل لائبریری، ڈیجیٹل ڈھانچہ وغیرہ اس عالمگیریت کی مرہون منت ہیں۔ تعلیم میں آئی سی ٹی اور ٹیکنالوجی کا استعمال طلبا، اساتذہ  اور انتظامیہ کو موجودہ نظام تعلیم میںرہ کر بہتر انداز میں کام کرنے کا موقع فراہم کر تا ہے۔ اکیسویں صدی میں پوری دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے جیسے بڑے اعدادو شمار، مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت وغیرہ کے میدان میں تیزی سے ایجادات اور اختراعات ہور ہیں ہیں۔ 

عالمی سطح کی معیاری تعلیم:  دنیا میں  معیاری تعلیم اور اس کے نظام کے لیے کی جارہی کوششیں عالمگیریت کے اثرات کی عکاسی کر تی ہیں اور موجودہ وقت میں معیاری تعلیم دنیا میں نہایت ضروری ہو گئی ہے۔ عالمگیریت نے تعلیم جیسی خدمات میں بھی ایک مسابقتی مارکیٹ تیار کیا ہے  اور یہ لازم کردیا ہے کہ ہر فرد بین الاقوامی معیار کی تعلیم حاصل کرے اور ہر ادارہ اسی معیار کی تعلیم فراہم کرے تاکہ عالمی مارکیٹ میںبرقرار رہ سکے اور ترقی کر سکے۔ ڈیلر کمیشن کی رپورٹ اکیسویں صدی کی نسل کی رہنمائی کے لیے عالمگیریت کے پیش نظر تیار کی گئی تھی اور اس رپورٹ نے معیاری تعلیم کے چار ستون پیش کیے جیسے یہ سیکھناکہ کیا اور کون سی چیزیں جاننا ہے، کیا کر نا ہے اور کیسے کر نا ہے، کیابنناہے اور کیسے بننا ہے اور یہ سیکھنا کہ سماج میں کیسے ساتھ رہنا ہے۔

  تعلیم کی عالمگیریت: اکیسویں صدی نے تعلیم کی عالمگیریت کے عمل کو تیز کر دیا اور پوری دنیا نے اس کی اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے۔اوریہ متعدد شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے غیر ملکی طلبا کے لیے داخلے کی سہولت، دنیا کے کسی حصے میں پیشہ ورانہ ملازمت اختیار کرنا، مختلف ممالک کے ماہرین تعلیم کے ساتھ تحقیقات کرنا، دو ملکوں اور کئی ممالک کے مابین اساتذہ کا تبادلہ، نامور بین الاقوامی یونیورسٹیاں، معروف بین الاقوامی مدارس، معزز بین الاقوامی تعلیمی ادارے، ہزاروں آن لائن کورسزاور مختلف ممالک میں سیٹلائٹ کیمپس وغیرہ۔ تعلیم کو عالمگیر ہوناہی ہے کیوں کہ پورا معاشرہ عالمگیریت کی راہ پر گامزن ہے۔

آن لائن اور فاصلاتی تعلیم: تعلیم کو عالمگیر بنانے اور اس کو دنیامیں موجود ہر فرد تک پہونچانے کے لیے آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ان کے ذریعے ہر فرد کو اپنی ضرورت کے حساب سے علم حاصل کر نے کا موقع فراہم کیا جاتاہے۔ تعلیم ایک مسلسل عمل ہے اور انسان پوری زندگی سیکھتاہے  لہٰذا زندگی کے ہر مرحلے میں اس کے لیے سیکھنے کا راستہ ہموار ہو نا چاہیے۔ آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کے ذریعے افراد کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم جاری ر کھ سکتے ہیں اور ان کی وجہ سے تعلیم سستی اور آسان بھی ہوئی ہے۔ اب لوگ مدارس، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور دوسرے تعلیمی ادارے میں گئے بغیر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں  اور ان کی وجہ سے دنیا میں خواندگی کی شرح بڑھی ہے۔

سائنس اورٹکنالوجی کی تعلیم پر زور:  اس عالمگیریت کے وقت میں سائنس اورٹکنالوجی کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور اس میدان میںمختلف معروضی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ سائنس اورٹکنالوجی کی اہمیت اور ضرورت میں اضافے نے ان کی تعلیم پر زور کو بڑھادیاہے۔اسی وجہ سے سائنس اورٹکنالوجی کے میدان میں نئے نئے کورسز اور سبجکٹس شروع ہو رہے ہیں اورنئے نئے ڈپارٹمنٹ اور ادارے نیز لیب کھل رہے ہیں۔آج کے اس دور میں ہر ملک سائنس اورٹکنالوجی کی تعلیم پر زور دے رہا ہے جیسا کہ نئی قومی پالیسی 2020 نے بڑی باریکی سے تعلیم اور ٹکنالوجی کے باہمی رشتے  پر غور کیا  اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیا۔آج کی معیشت مکمل طور سے سائنس اورٹکنالوجی پر منحصر ہو چکی ہے اور جو ملک سائنس اورٹکنالوجی  میںجس قدر آگے ہے اسی اعتبار سے اس دنیا میں قدر اور مرتبہ رکھتاہے۔

پیشہ ورانہ تعلیم:عالمگیریت کا بنیادی مقصد پیداوار بڑھانا اور تعلیمی نظام کو ایک آلہ بنانا ہے تا کہ وہ طلبا کو تیار کرے کہ طلبا دنیا کی موجودہ مارکیٹ میںمعاشرے کے ثمرآور رکن کے طورپر مقابلہ کر سکیں اور اس مادّیت کے دور میں بغیر کسی احتیاج کے خوشحال زندگی گزار سکیں۔بڑھتی ہوئی حرفت کی نوعیتیں، نئی نئی ٹکنیکل ایجادات، تحقیقی اختصاص اور اسی اعتبار سے خاص مہارتوں کی ضرورت نے پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ پیشہ ورانہ تعلیم زیادہ محسوس ہونے کی وجہ سے اس کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جا چکا ہے بلکہ اس کی طرف طلبا اور والدین کا رجحان بھی بڑھ رہاہے۔

نصاب میںمسلسل بدلائو:  جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمگیریت کے اس دور میں زندگی اور معاشرے کے ہر شعبے میں ہر روز نئی نئی اختراعات اور ایجادات ہو رہی ہیں اور ان سب کا اثر بالواسطہ اور بلا واسطہ تعلیم پر ہورہا ہے۔ اس تیزی سے بدل رہے معاشرے کو دیکھتے ہوئے ضرورت کے حساب سے تعلیم اور خصوصاً نصاب میں مسلسل بدلائو کیا جاتاہے۔ یہ نصابی بدلائوکبھی کم اور کبھی زیادہ اور پالیسی کے درجے پر بھی ہوتاہے پھر عالمی اور قومی اداروں کو اس کی پیروی کی لیے کہا جاتاہے جیسے قومی نصاب تعلیم فریم ورک( این سی ایفNCT/) 2005 اور ڈیلر کمیشن رپورٹ 1996۔ وقت اور حالات کے اعتبار سے معلوماتی مواد اور تدریسی عمل دونوں میں بدلاؤ اور سدھار ہوتے ہیں۔

تعلیمی پالیسی:عالمگیریت کا اثر تعلیم پر ہر زاویے سے ہے  لہذا تعلیمی پالیسی کیسے اس کے اثرسے باہر رہ سکتی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کی سب سے پہلے تعلیم پالیسی کے درجے پر ہی متاثر ہوئی۔ عالمگیریت کا اثردنیا کے سارے ممالک ( ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ )کی تعلیمی پالیسیوں میں دیکھاجاسکتاہے  اور اس کی واضح مثال ہمارے ملک کی نئی تعلیمی پالیسی 2020 ہے جس نے بنیادی اور اعلی تعلیم کی نج کاری، عالمی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں کی ملک میں آمد، ملکی تعلیم کی مرکزیت اور تعلیم کو ڈیجیٹل کرنے پر زور دیاہے۔

تعلیمی نظم ونسق:تعلیمی نظم ونسق پر بھی عالمگیریت کا عمل ا ثر انداز ہواہے اور پوری دنیا میں اس کے متعلق رائج طور طریقے میں تبدیلی کا باعث بناہے۔ عالمگیریت کی وجہ سے تعلیمی اداروں کا نظم و نسق کاروباری اداروں اورد یگر عام انتظامی محکمات کی طرح ہو گیاہے۔ تعلیم کی مرکزیت کا باعث بھی  عالمگیریت کو مانا جاتاہے۔ 

تعلیم اور اس کا تصور:

محققین اور ماہرین تعلیم کی مختلف تعریفیں کر تے ہیں اور مختلف انداز میں اس کی وضاحت بھی کر تے ہیں لیکن مختصر یہ کہ تعلیم حصول علم کا ایک تا حیات عمل ہے جو انسانی زندگی اور طرز عمل میں مثبت تبدیلیاں لاتی ہے۔ مہاتما گاندھی اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہـ ’تعلیم سے میری مراد بچے اور انسان کے جسم، دماغ اور روح میں پائی جانے والی ہمہ جہت صلاحیتوںکو باہر نکالناہے‘۔ تعلیم سیکھنے کی سہولت فراہم کرنے، یا علم، ہنر، اقدار، اخلاقی عقائد اور عادات کے حصول کا عمل ہے۔در حقیقت، تعلیم صرف کلا س روم کی چہاردیواری کے اندر ہی نہیں ہوتی بلکہ تعلیمی اداروں کے باہر اپنے تجربات سے کہیں بھی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے۔تعلیم کی بنیادی تین قسمیں ہیں، رسمی تعلیم، نیم رسمی تعلیم اور غیر رسمی تعلیم۔

عالمگیریت پر تعلیم کے اثرات

تعلیم کا بھی عالمگیریت کے عمل میں ایک اہم رول ہے اور تعلیم بالواسطہ اور بلاواسطہ عالمگیریت کے عمل میں اہم کردار نبھانے والے اسباب اور وجوہات کو متاثر کرتی ہے۔عالمی معیشت کی ترقی نے ان ممالک کے لیے امکانات کو بڑھادیا  جن کی تعلیم کا معیار اچھاہے لیکن دوسری طرف ان ممالک کے لیے مشکلات پیداکردی جن کے یہاں تعلیم کا معیار اچھا نہیں ہے۔ تعلیم پوری دنیا میں انسانی وسائل کی ترقی کا بہتر ین واحد ذریعہ ہے۔ اچھے وسائل اور معاشی پالیسیاں رکھنے والے ممالک کو ٹکنالوجی، برآمدات اور فی کس آمدنی میں تیزی سے ترقی ملتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب بھی کر تے ہیں۔ عالمگیریت کے اس دورمیں ان ممالک کو مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے جہاں انسانی وسائل کی کمی ہے۔ مزید برآں، یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی آزاد بازار میں مقابلہ کرنا مشکل محسوس ہوتاہے جب تک کہ وہ معیاری تعلیم و تربیت اور تحقیق میں سرمایہ کاری نہ کریں۔ معیاری تعلیم انسانی ترقی اور وسائل کی برق رفتارترقی اور اعلی پیداوار کا باعث ہے۔ معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے تعلیم ہمیشہ ہی ایک عنصر رہی ہے جیساکہ بہت ساری سائنسی تحقیقات نے اشارہ کیا ہے۔

عالمگیر تعلیم:  عالمگیر تعلیم کامقصد بین الاقوامی معاشرت اور عالمگیر شہریت نیز عالمی اخوت اور انسانیت کی ضرورت اور اہمیت پر زور دینا اور بین الاقوامی مکالمے اور تعاون کو رائج کر ناہے۔ عالمگیر تعلیم  بین الاقوامی افہام و تفہیم اور آپسی معاونت کی دعوت کے ساتھ ساتھ علاقائی تہذیب و تمدّن اور ثقافت بلکہ انفرادی تہذیب پر بھی زور دیتی ہے۔   عالمگیر تعلیم لوگوںکو اس بات کا درس دیتی ہے کہ قوم، مذہب، ذات، نسل، علاقہ اورجنس وغیرہ  جیسے محدود سوچ اور سمجھ سے اوپر اٹھ کر عالمی بصیرت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا مقصد عالمی اخوت، عالمی امن و امان، سماجی انصاف، بین الاقوامی معاونت و شراکت کا حصول اور آپسی اختلافات کے باعث اسباب جیسے حرص، خودغرضی، حسد و کینہ، نفرت و عداوت اور عدم مساوات وغیرہ سے تحفظ ہے۔   عالمگیر تعلیم پوری انسانیت کے لیے ایک خوشگوار مستقبل ہے جو ہر فرد کو ایک بہتر زندگی گزارنے کی راہ دکھاتی ہے۔

حوالے

1       الیگزینڈر سی اور کے کارویک (2007)۔حکومتیں، برآمدات اور نشوونما:  عالمگیریت کے چلینجیز اور مواقع کا جواب۔ عالمی معاش، (1)30، 177-194

2       بیشوپ ٹی اور اڈمس ٹی (2011)۔ عالمگیریت: رجحانات اور نظریات۔ جرنل آف عالمی تجارتی تحقیق، (1)10 117-130

3       چینمائی  ایس (2005)۔ تعلیم اور کلچر پر عالمگیریت کے اثرات،  نئی دہلی

4       جاروس پی(2000)۔ عالمگیریت، آموزیشی معاشرہ اور مقابلہ جاتی تعلیم (3)36، 343-355

5       جانس پی ڈبلو (1998)۔ عالمگیریت اور بین الاقوامیت: عالمی تعلیم کے ڈیموکریٹک تناظر۔ مقابلہ جاتی تعلیم،(2)34،  143-155

6       روزا  ایم اور فاطمہ ایس ایف (2017)۔ تعلیم پر عالمگیریت کا اثر۔ تھیاگاراجر کا لج اُف پرسیپٹرس، 39۔

7       اسٹوارت ایف (1996)۔  عالمگیریت اور تعلیم۔ تعلیمی نشوونماکا بین الاقوامی جرنل، (4)16، 327-333

8       جاروس پی  (277)۔ عالمگیریت، تازندگی تعلیم اورعلمی معاشرہ : عمرانی تناظر۔ رائوٹلج۔

 

Aftab Alam

Assistant Professor

College of Teacher Education (MANUU)

Darbhanga, Ilyas Ashraf Nagar

Chandanpatti, Laheria Sarai

Darbhanga - 846001 (Bihar)

Mob.: 8285835517

 

  ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2021

تازہ اشاعت

علم طب، ماخوذ ازہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی

  ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024 علم طب کی ابتدا بھی ویدک دور ہی میں ہوگئی تھی۔ اتھرووید میں بہت سی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر موجود ہ...