15/11/22

ڈاکٹر محی الدین قادری زور اور سب رس کی ادبی خدمات

ڈاکٹر زور نے حیدرآباد میں علمی و ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے ایک ادبی ادارے کی ضرورت محسوس کی اور 1931 میں ادارہ ادبیات اردو کی بنیاد پنچ گٹہ حیدرآباد میں رکھی، جس کا مقصد زبان و ادب کی خدمت کے علاوہ دکنی تہذیب اور ریت و رواج کی بقا تھا، ڈاکٹر زور دکنی ادب اور تہذیب کے عاشق تھے، انھوں نے یہاں کی تہذیب، تمدن اور تاریخ کو ادب کے علاوہ ادارہ ادبیات اردو کے ذریعے جاری و ساری رکھا، اس کی بقاو تحفظ کا سامان فراہم کیا ہے۔ ڈاکٹر زور نے اپنی تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی تصانیف سے اردو زبان و ادب کو مالامال کیا۔ انھوں نے زبان و ادب میں پہلی مرتبہ تنقید و لسانیات کو متعارف کروایا ،اس کے علاوہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اردو زبان خاص کر دکنی زبان و ادب کے فروغ کے لیے جنوری 1938 سے ماہنامہ ’سب رس‘ جاری کیا۔ عوام اور خواص کے ادبی ذوق کی تسکین کے علاوہ ادارے کی ترقی اور کام کی وسعت کے لیے ترجمان کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو اپنے مقاصد اور خیالات سے اردو داں طبقے کو روشناس کراسکے۔ اسی خیال کی عملی صورت ’سب رس‘ ہے۔ یہ ایک طرف معلوماتی تھا، دوسری طرف اس میں سلاست اور افادیت کا بھی خاص خیال رکھا گیا، اس لیے یہ حیدرآباد ہی میں نہیں بلکہ حیدرآباد کے باہر بھی مشہو رہوا اس کے پہلے شمارے کا سرورق عبدالرحمن چغتائی نے بنایا تھا، ایک سال تو یہ رسالہ ڈاکٹر زور کی نگرانی میں صاحب زادہ میر محمد علی خاں میکش کی ادارت اور خواجہ حمیدالدین شاہد کے زیراہتمام پابندی سے نکلتا رہا، لیکن جب اس کی مانگ بڑھی تو اس کے لیے ایک مجلس انتظامی کی ضرورت محسوس کی گئی، نگراں ڈاکٹر محی الدین قادری زور تھے۔ سکینہ بیگم نے خواتین کے مضامین کی اور معین الدین احمد انصاری نے بچوں کے مضامین کی ذمے داری سنبھالی۔ 1940 تک ایک ہی سب رس نکلتا تھا جس میں بچوں کے ضمیمے کے علاوہ ایک اور ضمیمہ معلومات کا شامل کیا گیا، آگے چل کر بچوں ا ور معلومات کا حصہ ختم کردیا گیا۔ 1940 سے بچوں اور طلبہ کے سب رس کے علاوہ ایک اور پرچہ سب رس معلومات کے نام سے جاری کیا گیا جس میں معلوماتی سائنسی علمی ادبی مضامین شائع ہوتے تھے۔

میر محمد علی خاں میکش کے بعد خواجہ حمیدالدین شاہد سلیمان اریب اور وقار خلیل بھی مختصر عرصے کے لیے سب رس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر زور کے انتقال کے بعد لگ بھگ بارہ سال تک اس کی ادارت کے فرائض ڈاکٹر اکبرالدین صدیقی نے انجام دیے۔ سلیمان اریب کی صحافتی زندگی کا آغاز بھی درحقیقت سب رس ہی سے ہوتا ہے اور وقار خلیل سب رس سے مستقل طور پر وابستہ رہے۔ ان کے بعد ڈاکٹر مغنی تبسم اس کے مدیر رہے۔ ڈاکٹر مغنی تبسم کے انتقال کے بعد پروفیسر بیگ احساس اس ماہنامہ کے مدیر رہے۔ ان کے انتقال کے بعد پروفیسر ایس اے شکور سب رس کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ شکور صاحب کچھ انقلابی تبدیلی لائے اور سب رس میں زیادہ تر حیدرآباد دکن کے قلمکاروں کو جگہ دی جانے لگی اور یہ ڈاکٹر زور کا خواب بھی تھا کہ حیدرآباد دکن کے ادیبوں و شعرا کی تخلیقات کے لیے سب رس جاری ہوا تھا، اس کے پہلے شمارے میں بھی اعلان کیا گیا تھا کہ اس میں دکنی فن پارے کو جگہ دی جائے گی، یہ خوش آئند اقدام ہے۔

عام شماروں کے علاوہ سب رس کے خاص شمارے بھی شائع ہوئے۔ مارچ اپریل 1948 کو میکش نمبر نکلا جس میں ان کی حیات و شاعری سے متعلق مضامین اور نظمیں شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ میکش کا غیرمطبوعہ کلام اور خطوط بھی شائع کیے گئے میکش کا سب رس سے بہت قریبی اور گہرا تعلق رہا اور وہ اس رسالے کے پہلے مدیر رہے، سب رس نے ان کی خدمات کے اعتراف اور خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس نمبر کا اہتمام کیا۔ سب رس نے اپریل 1949 میں ایک خاص نمبر نواب سالار جنگ مرحوم شائع کیا جس کا جلد نمبر 12 شمارہ نمبر 4 میں نواب سالار جنگ بہادر کی زندگی اور کارناموں پر روشنی ڈالی گئی اس کے جملہ صفحات 64 ہیں۔

سب رس نے ڈاکٹر زور کے انتقال پر 1962 ماہ اکتوبر نومبر دسمبر نمبر شائع کیا، اس خاص نمبر میں ڈاکٹر محی الدین قادری زور کی شخصیت فنی اور ادبی کارناموں خصوصاً لسانیاتی خدمات پر مضامین شائع کیے گئے ان پر مضامین لکھنے والو ںمیں نصیرالدین ہاشمی، سید حرمت الاکرام، ڈاکٹر گیان چند جین وغیرہ شامل تھے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر زور کی تخلیقات، مضامین خطبات، خطوط، نظمیں اور غزلیں شائع ہوئیں۔ سب رس نے مندرجہ بالا خاص نمبرات کے علاوہ جنوری 1971میں سالنامہ جاری کیا۔ اس میں دکنی شعرا اور دکنی زبان پر مضمون شائع ہوئے۔ اس سالنامہ کے نگراں اور مرتب پروفیسر سید علی اکبر اور محمد اکبرالدین صدیقی تھے۔ یہ 128 صفحات پر مشتمل ہے۔ متذکرہ بالا نمبرات کے علاوہ سب رس کے کئی بیش بہا گرانقدر نمبر شائع ہوئے جن میں بشیرالنسا بیگم، قلی قطب شاہ نمبر، غالب نمبر قابل ذکر ہیں۔ نجیب اشرف ندوی، نواب عنایت جنگ اور نصیرالدین ہاشمی کے انتقال پر ان کے بارے میں خاص نمبر شائع کیے گئے۔ اس کے علاوہ سب رس کے خاص نمبرات گوشے،  سالنامے ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئے اور ہر نمبر کے بارے میں ملک کے اہم سب ہی رسائل و جرائد میں مبصرین نے ان پر اظہار خیال کیا، جناب طیب انصاری اپنی تصنیف حیدرآباد میں اردو صحافت شائع شدہ جون 1980 میں سب رس کی خدمات کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:

’’علمی اور ادبی نقطۂ نظر سے ’سب رس‘ کی اشاعت بے حد اہمیت رکھتی ہے، تحقیق کے میدان میں سب رس خضر کا فرض انجام دیتا ہے۔ یہ باب الداخلہ ہے جہاں ہر ادیب اور محقق کو ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ سب رس ہمیشہ سے موقتی تحریکوں سے محفوظ رہا ہے، لیکن ہر نئے رجحان کو اس میں جگہ ملی ہے، اس رسالے کی اگر کوئی خصوصیت ہے بھی تو یہی کہ اس کے صفحات دکنی ادب کی بازیافت کے لیے ہمیشہ کھلے رہے ہیں، دکنی ادب کی بازیافت ایک تہذیب اور ایک کلچر کی دریافت ہے۔‘‘  (حیدرآباد میں اردو صحافت، ص 190)

حیدرآباد کے رسائل و جرائد میں ’سب رس‘ کی حیثیت اس لیے بھی منفرد ہے کہ یہ زمانہ قدیم ہی سے اردو زبان و ادب کی خدمت کرتا چلا آرہا ہے اس کے ہمعصر زمانے کے دست برد سے متاثر ہوکر اپنے وجود کو برقرار نہ رکھ سکے۔ قدامت کے لحاظ سے منفرد ہونے کے  علاوہ یہ آج بھی علم و ادب کی شمع جلائے ہوئے ہے۔ سب رس ایک طرف تو علم و ادب کی خدمت کرتا رہا تو دوسری طرف ملک کے نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات شائع کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے علاوہ ان مصنّفین کی کتابیں بھی شائع کیں جن کے کئی مضامین سب رس میں شائع ہوچکے تھے۔ آج کل اس میں دکنی ادب کو شائع کرنے کے لیے زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ اس کو ابتدا ہی سے صف اول کے ادیبوں، نقادوں اور شاعروں کا قلمی تعاون حاصل رہا۔ اس کا مطالعہ محققوں، ادیبوں، شاعروں، نقادوں اور ادب کے طالب علمو ںکے لیے بے حد ضروری اور مفید ثابت ہوگا۔ آج بھی یہ پابندی سے آب و تاب کے ساتھ اردو کی گراں قدر خدمت انجام دے رہا ہے۔ سب رس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دکنی ادب سے متعلق مضامین اور تحقیقی مقالو ںکو شائع کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان و پاکستان کی جامعات میں جہاں جہاں دکنی پڑھائی جاتی ہے وہاں سب رس سے استفادہ بھی کیا جاتا ہے اور اس کے مضامین حوالے کے طور پر دوسرے معاصر رسالوں میں ڈائجسٹ بھی کیے جاتے ہیں۔

جناب مغنی تبسم درس و تدریس سے سبکدوشی کے بعد اس ادارے سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اپنے آپ کو ادارے کے لیے وقف کردیا تھا۔ ماہنامہ سب رس کے معیاری اور ادبی قدکو بڑھا دیا تھا۔ آپ کی وابستگی ادبی وقار و وزن کا موجب بنی۔ آپ نے رسالہ سب رس کو نئی آب و تاب اور  وسعت عطا کی۔ آپ کی ادارت و نگرانی میں تحقیقی تنقیدی اور ادبی مضامین کے علاوہ دکنی ادب سے متعلق گوشے شائع ہوئے اور خاص نمبر بھی نکلے۔ جو آج بھی دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں۔

پروفیسر بیگ احساس کے دور میں یہی روایت چلتی رہی، لیکن دکنی قلمکاروں و ادیب کو کم موقع دیا گیا۔ پروفیسر بیگ کے انتقال کے بعد پروفیسر ایس اے شکور نے ادارت کے فرائض کی ذمے داری سنبھالی۔ انھوں نے اگست 2021 سے سب رس میں زیادہ تر حیدرآباد دکن کے قلمکارو ںکو موقع دیا ہے۔ ان کی ادارت میں چند شمارے شائع ہوئے ہیں۔ وہ بھی کیفیت و کمیت کے اعتبار سے معیاری ہیں۔ ادارہ ادبیات اردو اور سب رس کے مزاج و منہاج کا خیال رکھا جارہا ہے۔ میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ سب رس کے شمارے ادبی  علمی مخزن کے نمونے ہیں، اسکالر استفادہ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس کی مجلس ادار ت میں سرپرست راجکماری اندرادیوی دھن راج گیر صدر جناب زاہد علی خاں، معتمد عمومی پروفیسر ایس اے شکور اور مجلس مشاورت میں پروفیسر گوپی چند نارنگ او رپروفیسر اشرف رفیع شامل ہیں۔  پروفیسر ایس اے شکور مدیر سب رس اکتوبر 2021 اداریے میں سب رس کے آغاز و ارتقا کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں

’’آزادی سے قبل حیدرآباد میں اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے جن شخصیتوں نے بڑے پیمانے پر تحریک اور اشاعتی کام انجام دیے، ان میں سب سے نمایاں اور ذی وقار پروفیسر سید محی الدین قادری زور تھے۔ ان کے بے شمار ادبی کارناموں میں ماہنامہ ’سب رس‘ کے اجرا کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ زور صاحب کا خیال تھا کہ حیدرآباد میں ادبی ذوق کے حامل باصلاحیت تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی کام انجام دینے والو ںکی کمی نہیں ہے۔ اکثر علمی گھرانوں، درگاہوں سے منسلک کتب خانوں اور عمومی لائبریریوں میں ادبی مخطوطات کے انبار موجود تھے۔ ان خزانوں میں چھپے ادبی سرمایہ کی کیفیت اور اہمیت سے عام طور پر لوگ واقف نہیں تھے، جن کو کسی قدر اندازہ تھا، اپنی معلومات قلم بند کرتے اور دنیائے ادب تک مطبوعہ اپنی تخلیقات شائع کرنے کی طرف راغب نہیں تھے۔‘‘

اس اقتباس سے اندازہ ہوجائے گا کہ ڈاکٹر زور سب رس کو کس طرح ادبی اعتبار سے ہمہ جہت بنانا چاہتے تھے۔ وہ ادب کے تمام گوشوں پر کام کرنا چاہتے تھے اور نئے نئے تنقیدی، تحقیقی اور تخلیقی انکشافات کرنا چاہتے تھے۔ ’سب رس‘ سے وابستہ مدیروں نے شروع سے ہی تمام گوشوں پر مقالات و مضامین پیش کرکے اردو زبان و ادب میں وقیع اضافہ کیا ہے۔ آج بھی اس کا گٹ اَپ سٹ اَپ خوب صورت اور مشمولات بصیرت افروز فکرانگیز ہوتے ہیں۔ لگ بھگ 83 سال سے زبان و ادب کی ترویج میں مشغول و منہک ہے۔

 ’سب رس‘ کے کئی خاص شمارے اور خصوصی نمبرات و خصوصی گوشے شائع ہوئے جن کی تفصیل اس طرح ہے:

lمحرم نمبر، مارچ 1938، lاقبال نمبر، جون 1938، l حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس ضمیمہ، اکتوبر 1938،  lمرقع دکن نمبر، 1939،  lاردو نامہ نمبر، جنوری 1940، lسالگرہ نمبر، جنوری 1940، lجنگ نمبر، فروری 1940، l ریڈیو نمبر، جنوری 1941، lادارہ ادبیات اردو نمبر، مئی 1941، lترقی پسند ادب نمبر، جولائی 1942، lمیکش نمبر مارچ اپریل 1948، lسالار جنگ نمبر، اپریل 1949، lافسانہ نمبر، ستمبر 1949، lخاص نمبر، فروری مارچ 1954، lحیدرآباد اردو کانفرنس نمبر، جون- جولائی اگست 1954، lجشن سیمیں 25 ادارہ ادبیات اردو جنوری مارچ 1956، lصفی نمبر، مارچ اپریل 1956، lامجد نمبر، جولائی اگست 1956، lادارہ نمبر، جنوری 1957، lخاص نمبر قلی قطب شاہ، اپریل مئی جون 1958، lمحمد قلی قطب شاہ نمبر جنوری 1960، lادارہ نمبر، مارچ 1960، lایوان اردو نمبر، مئی 1960، lادارہ نمبر، اپریل 1961، lٹیگور نمبر، جون 1961، lمحمد قلی قطب شاہ نمبر جنوری 1962، lادارہ نمبر، مارچ 1962، lامجد نمبر، مئی جون 1962، lعزیز جنگ و لا نمبر، جولائی 1962، lظفر نمبر، جنوری فروری 1963، lادارہ نمبر، اپریل 1963، lزور نمبر، اکتوبر تا دسمبر 1963، lیوم قلی قطب شاہ نمبر، فروری 1964،lادارہ نمبر، مئی 1965،lنصیرالدین ہاشمی نمبر، جنوری 1965، lادارہ نمبر، جولائی 1965، lیادگار محمد قلی قطب شاہ نمبر، اپریل 1966، lادارہ نمبر، اگست 1966، lیوم زور اکتوبر، 1966، lادارہ نمبر، اگست 1967، lیوم قلی نمبر، جولائی 1968، lادارہ نمبر، ستمبر 1968،lنجیب اشرف ندوی نمبر، اپریل 1969، lغالب نمبر، پہلا حصہ، ستمبر اکتوبر 1969، lغالب نمبر، دوسرا حصہ، دسمبر 1969، lادارہ نمبر، جولائی 1970، lسالنامہ جنوری، 1971 بشیرالنسا بیگم نمبر،lعنایت جنگ نمبر، اپریل 1971، lادارہ نمبر، فروری 1972، lخاص شمارہ یوم قلی، جون 1972، lنظیر نمبر، جولائی 1972، lادارہ نمبر، ستمبر 1972، lاحتشام نمبر، مارچ 1973،lادارہ نمبر، اکتوبر 1973، lادارہ نمبر، ستمبر 1974، lادارہ نمبر، جولائی 1975، lیوم محمد قلی قطب شاہ، مارچ 1976، lسالنامہ، جنوری 1977، lاقبال نمبر، نومبر 1977، lیوم محمد قلی قطب شاہ نمبر، مارچ 1977، lادیب نمبر، ستمبر 1980، lزور نمبر، نومبر 1980، lپروفیسر علی اکبر، نمبر ستمبر اکتوبر 1983، lعالم خوند میری نمبر، جنوری 1985، lسکینہ بیگم نمبر، ستمبر-اکتوبر 1986، lسلور جوبلی تقاریب یوم محمد قلی قطب شاہ، مارچ 1987، lمحمد قلی قطب شاہ نمبر، مئی 1988، lمحمد قلی قطب شاہ نمبر، ستمبر 1989، lمحامد علی عباس نمبر، اکتوبر 1989، lڈاکٹر حفیظ قتیل نمبر، نومبر دسمبر 1990، lڈاکٹر سکینہ الہام نمبر، اگست 1991، lعابد علی خاں نمبر، جنوری، فروری، مارچ 1993

سب رس کے خصوصی نمبرات:

یوم قلی قطب شاہ، مئی جون 1996، محبوب حسین جگر، مارچ 1998، lیوم محمد قلی قطب شاہ نمبر، اپریل 1998، l تہنیت النسا، بیگم نمبر، نومبر 1998، lزور نمبر، ستمبر 1999، lخواجہ حمیدالدین شاہد نمبر، دسمبر 2001، lغالب نمبر، فروری 2006، lعزیز احمد نمبر، نومبر 2010، lحکیم شمس اللہ قادری نمبر، جون 2011، lپروفیسر شہریار اور پروفیسر مغنی تبسم، مارچ 2012، lمہ لقا چندہ بائی، ستمبر 2012، lپروفیسر آغا حیدر حسن مرزا، جنوری 2018، lگوشہ پروفیسر بیگ احساس، جنوری 2002، lممتاز افسانہ نگار گوشہ علی باقر، جون 2007، lگوشہ سید تقی الدین قادری، نومبر 2007، lگوشہ، ڈاکٹر شاہد صدیقی، ستمبر 2008

Dr. Mohd Nazim Ali

Makan No.: 17.7.335, Barhaman Wari

Yaqutpura

Hyderabad- 500023 (Telangana)

Mob.: 9603018825

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مغرب کی تقلید میں شعری ادب کا بھلا نہیں: رفیق جابر،خصوصی گفتگو، غضنفر اقبال

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024   غضنفراقبال:محترم رفیق جعفر صاحب!آج کا اُردو قاری یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی کے وہ کون سے سین ہی...