اخترالایمان اردو کا وہ شاعر ہے جس نے انسانی زندگی سے جڑے ان تمام مسائل کو اپنی شاعری میں اٹھایا ، جن سے حیاتِ انسانی متاثر ہورہی ہے اور انسان لحظہ بہ لحظہ تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہے۔اخترالایمان کو اس بات کی کڑھن ہے کہ انسان ایک عظیم مخلوق ہونے کے باوجود مسائل کے بھنور میں گرفتار کیوں ہے؟ آخر وہ ایسے راستوں کو اپنے لیے کیوں منتخب کررہا ہے جو اس کو اس کی منزل سے بھٹکاکر ایسے مقام تک لے جارہے ہیں جہاں بربادی وتباہی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔انسانی زندگی کی اس درگت اور تباہی پر اخترالایمان تلملااٹھتے ہیں اورانسانی مسائل کو اشعارکی زبان دے کر لوگوںکوان کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
اخترالایمان
کی شاعری کو موضوعاتی تناظرمیں دیکھنے سے یہ احساس ہوتاہے کہ انھوں نے چن چن کراہم
موضوعات کواٹھایا ہے اور شاعری میں برتاہے ،لیکن اشعار میں جو نیچرلٹی ہے وہ
مذکورہ مفروضے کومسترد کردیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اخترالایمان صرف انسانیت کی
تباہی کا نوحہ بیان کررہا ہے اور درد میں ڈوب کر شعر کہتا چلا جاتا ہے۔ اب یہ الگ
بات ہے کہ وہ اس دوران کبھی جذباتی ہوجاتاہے، کبھی سراپاغم کی تصویربن جاتاہے، تو
کبھی زمانے سے ٹکرانے کا حوصلہ دکھاتاہے، کبھی یاسیت و قنوطیت کے بحر میں ہچکولے
کھانے لگتاہے، کبھی وہ اخلاقی قدروںکے زوال پررنج وغم کا اظہار کرتاہے تو کبھی گم
ہوتی ہوئی تہذیب کا رونا روتاہے۔کبھی اقدارِ رفتہ کی بازیافت کے لیے صدائے بازگشت
بلندکرتاہے تو کبھی اقدارِ جدیدہ سے بچنے کی تلقین کرنے لگتاہے ۔اس کی شاعری
کابہائو خود بخود ایسے تمام موضوعات کو اپنی آغوش میں لیتا چلا جاتا ہے جو انسانی
زندگی کاالمیہ ہیں۔ اس طرح بہت سے موضوعات خواہی نہ خواہی اخترالایمان کی شاعری
کاحصہ بن جاتے ہیں۔آل احمد سرور لکھتے ہیں:
’’اخترالایمان کی نظموں میں زندگی کے سبھی رنگ ملتے ہیں۔اخترالایمان نے خود بھی زندگی سے آنکھیں چار کی ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کو بھی یہ حوصلہ دیا ہے۔‘‘(اخترالایمان عکس اور جہتیں، ص 65)
اخترالایمان
کی شاعری میں مختلف موضوعات اس لیے بھی مجتمع ہوگئے ہیں کہ اخترالایمان حسّاس شاعر
ہیں۔ اگرچہ ہر شاعر اور فنکاربلکہ ہرانسان اور انسان ہی کیا، ہر جاندار حساس ہوتا
ہے ، لیکن اخترالایمان ان شعرا میںسے ہیں جن کے یہاں حسیت زیادہ بیدار ہے، جوسماج
میں آئے دن رونما ہونے والے ان معمولی واقعات سے بھی ملول ومغموم ہوجاتے ہیں
جواور لوگوںکے نزدیک محض روزہ مرہ کے عام واقعات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن شعرا کے یہاں
احساس کی تپش اتنی تیز ہو، ان کے نزدیک ہر واقعہ چاہے وہ معمولی ہو یا غیر معمولی
،ایک موضوع بن کر ابھرتا ہے۔ اخترالایمان نے ایسے بہت سے واقعات کوشاعری میں بیان
کیا یاان پر شعر کہے تو ان کی شاعری کے موضوعات کا دائرہ دور تک پھیلتا چلا گیا۔
اخترالایمان
کے یہاں انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک ان کی داخلی زندگی سے ہم آہنگ اور
دوسرا ان کی خارجی زندگی سے متعلق۔ دونوںہی پہلوان کے احساس کی گرفت میں جکڑے ہوئے
ہیں۔ انھوںنے اپنی زندگی کے بھی مختلف نشیب وفراز دیکھے ہیں اور دوسروں کی زندگیوں
کے بھی۔ اخترالایمان کابچپن جن حالات میں گزرا، وہ ان کے ذہن وقلب پر ایسے انمٹ
اثرات چھوڑ گیا جو تادمِ آخر ان کی یاد داشتوں میں شامل رہے۔ گھر میں غربت کا بسیرا
تھا، اس پر طرہ یہ کہ والد غیر ذمے دار او رلاپرواہ ثابت ہوئے تھے ،جس کے باعث ماں
باپ کے درمیان ٹکرائو کا ماحول بنا رہتا تھا۔ اخترالایمان اگرچہ کم سن تھے، مگر ان
کی کمسن نگاہوں میں وہ تمام منظر اس طرح جذب ہوگئے تھے کہ کبھی اوجھل نہ ہوئے ۔
گھر سے دور اور بہت دور جاکر غربت وافلاس اور عائلی تنازعات کی زندگی توپیچھے چھوٹ
گئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یادہائے رفتہ اور مناظرگزشتہ ان کا پوری زندگی تعاقب کرتے
رہے ۔نئی زندگی میں انھیں اگرچہ مفلوک
الحالی کا سامنا نہ تھا اور نہ اس سے پنپنے والے مسائل کا ، لیکن یہاںکے پُرفریب
مناظر فی الواقع جس قدرمہیب تھے، وہ اخترالایمان جیسے حساس شخص اور شاعر کو کیسے چین
سے بیٹھنے دے سکتے تھے۔ یہاںبیرون کچھ اور، اندرون کچھ تھا۔ یہاں نئی تہذیب کے
ہنگامے تھے لیکن مروت وانسانیت جس طرح اس تہذیب کے پیروں تلے روندی جارہی تھی اور
اخلاقی قدریں اورروایتیںمادیت کے چنگلوں میں کراہ رہی تھیں، انھوںنے اخترالایمان
کو اور زیادہ مضطرب کردیا۔اخترالایمان فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہے، معروف ومشہور
ہستیوں سے ان کا واسطہ رہا، صاحب ثروت اشخاص کی زندگی کے طورانھوںنے دیکھے، غریبوں
کا استحصال کرکے مالداروں کو اپنی تجوریاں بھرتے ہوئے دیکھا ،تو انھیں سخت تکلیف
پہنچی، شاعر تھے تو یہ تکلیف ان کی شاعری میں شامل ہو گئی۔ زندگی کے نئے زاویوں نے
انسان کو کس قدر مصائب دیے ہیں اور کس طرح اس کی زندگی کا رخ موڑ کررکھ دیا ہے۔
اخترالایمان کہتے ہیں ؎
صبح اٹھ
جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں
اور روٹی
کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں
شام کو
ڈھور پلٹتے ہیں چراگاہوں سے جب
شب گزاری
کے لیے میں بھی پلٹ آتا ہوں
’’صبح اٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں‘‘ یہ مصرع ان
انسانوں کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے جورات کی نیند سے بیدار ہوکردووقت کی روٹی کے
حصول کے لیے جہاں تہاںسرگرداںہوجاتے ہیں۔ان کی یہ تگ ودو شام ڈھلے تک جاری رہتی
ہے۔ گویاکہ صبح تا شام سارا وقت زندگی کے محض ایک شعبے(معیشت) کی نذر ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا معیشت کے علاوہ انسانی زندگی کا کوئی اور شعبہ یا پہلولائق
اعتنا نہیں۔ اگر زندگی صرف کھانے اور کمانے کا نام ہے تو پھر جانوروں اور انسانوں
کے مابین فرق کیاہے؟انسان کی یہ حالت اس نئی تہذیب نے کی ہے جس میں مادّیت ہی سب
کچھ ہے۔ اس نئی تہذیب نے انسانی زندگی کے سامنے اس قدر مسائل کھڑے کردیے ہیں کہ وہ
ان کے سدِباب کے لیے ایک مشین کی طرح کام کرنے پر مجبور ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ
اپنے گائوں، کھیت کھلیانوں ، دوستوں ، رشتے داروں کو چھوڑ کر دور اجنبی شہروں کا
رُ خ کررہا ہے جہاں ہر طرف غبار ہی غبار ہے، جہاں چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے
پوری فضا کو کثیف اور پراگندہ کیا ہوا ہے۔ ایسے گھٹتے ہوئے ماحول میں دنوں اور
راتوںکومحنت ومزدوری کرنے اور اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ غیر فطری اجنبی ماحول میں
گزارنے کے بعد بھی انسان کو حاصل کیا ہوتا ہے ؟ کیا اسے راحت وسکون سے زندگی
بسرکرنے کے لیے وسائل فراہم ہوجاتے ہیں؟ کیا وہ اپنے ان مسائل کا تدارک کرلیتاہے،
جن کے لیے اس نے اپنی اس بستی کو خیر باد کہا تھا، جہاں سب کچھ اپنا تھا، جہاں کی
فضا مانوس تھی،جہاں کی صبحیں نہایت خوشنما منظرپیش کرتی تھیں اور شامیں بڑی
خوشگوار ہوتی تھیں، جہاںسانس لینے میں بھی تازگی کا احساس ہوتا تھا ۔حقیقت یہ ہے
کہ اپنے گھروں کو پیچھے چھوڑ کرآنے والے کچھ فیصدلوگوں کو چھوڑ کر زیادہ تربس اپنی
پوری عمر اجنبی جگہوںپر ضائع کردیتے ہیں اور انھیں کچھ میسر نہیں آتا۔ اخترالایمان
نے اپنی آنکھوں سے نہ جانے کتنی زندگیوں کواس طرح برباد ہوتے ہوئے دیکھا ، اس لیے
وہ بے چین ہوگئے اور صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے ؎
یوں نہ ہو
مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی
خواب ہی
خوا ب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ملتوی کرتا
رہا کل پہ تری دید کو میں
اور کرتا
رہا اپنے لیے ہموار زمیں
آج لیتا
ہوں جواں سوختہ راتوں کا حساب
جن کو
چھوڑآیا ہوں ماضی کے دھندلکوں میں کہیں
مادیت پرستی یا موجودہ صنعتی انقلاب کے خلاف احتجاج
اخترالایمان کی شاعری میں ایک مستقل موضوع کی حیثیت اختیارکرگیا ہے۔ انھوںنے اس
تناظر میں کئی نظمیں کہی ہیں اور بہت سے اشعار۔ ان کی نظم ’عہدوفا‘ مادیت پرستی کے
اندوہناک نتائج کا پورا چربہ اتارکررکھ دیتی ہے۔ ’’جدھر اونچے محلوں کے گنبد، ملوں
کی سیہ چمنیاں آسماں کی طرف سر اٹھائے کھڑی ہیں‘‘ سے اخترالایمان نے نئی دنیا کا
منظر کھینچا ہے جو اگرچہ بظاہر خوشنما محسو س ہوتا ہے ۔ اونچے محل اور ان کے گنبد
نظر آتے ہیں ، مگر ان پر سیاہ چمنیوں کے دھوئیں کے بادل منڈلارہے ہیں اور محلوں کی
فضا کو مکدر کررہے ہیں۔نظم ’عہدوفا‘کے یہ الفاظ ’’یہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے
چاندی کے گہنے ترے واسطے لینے جاتا ہوں رامی‘‘ ان خواہشوں اور خوابوں کا علامتی بیان
ہیں جن کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے انسان اپنے آپ کو پُرشور بھیڑ میں گُم کردیتاہے
اور اپنے پیچھے ان منتظر نگاہوں کو چھوڑ جاتاہے جو بس انتظار ہی کرتی رہتی ہیں۔
اخترالایمان
موجودہ مادی نظام سے بیزاراس لیے ہیں کہ اس نے اچھے خاصے انسان کو مفاد پرست، لالچی
اور چاپلوس بنادیا ہے، اچھی خصلتوں پر بری عادتوں کو غالب کردیا ہے۔ اس نے حیاتِ
انسانی سے متعلقہ فطری نظام کو بکھیر کررکھ دیا ہے۔ اخترالایمان کی نظم ’ایک لڑکا‘
میں فطری اور غیر فطری، خودداری اور چاپلوسی، ایثار وقربانی اور مفادپرستی دونوں
پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ نظم نہ صرف کسی ایک شخص کی زندگی کا بلکہ پوری بنی نوعِ
انساں کی زندگی کا المیہ معلو م ہوتی ہے۔ عصرِحاضر میں انسان کس طرح اپنی فطری
زندگی سے بچھڑ کر ہنگامہ آرائی اور استحصالی بھول بھلیوں میں گم ہوگیا ہے۔نظم کے
چندمندرجہ ذیل اشعارمیں پہلے معصوم بچے کی فطری زندگی کو دیکھیں، اس کے بعداس بچے
کے بدلے ہوئے پہلو کا بھی مشاہدہ کریں۔اخترالایمان کہتے ہیں ؎
کبھی جھیلوں
کے پانی میں ، کبھی بستی کی گلیوں میں
کبھی کچھ نیم
عریاں کمسنوں کی رنگ رلیوں میں
تعاقب میں
کبھی گم ، تتلیوں کے سونی راہوں میں
کبھی ننھے
پرندوں کی نہفتہ خواب گاہوں میں
……
یہ لڑکا
پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو
یہ لڑکا
پوچھتاہے جب تومیں جھلا کے کہتا ہوں
وہ آشفتہ
مزاج اندوہ پرور اضطراب آسا
جسے تم
پوچھتے رہتے ہو کب کا مرچکا ظالم
اسے خود
اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا
اسی کی
آرزوئوں کی لحد میں پھینک آیاہوں
مٹتی ہوئی
تہذیبی اور اخلاقی قدریں بھی اخترالایمان کی شاعری کااہم موضوع ہیں۔ انھوںنے اس
موضوع کے حوالے سے خاصی شاعری کی ہے اور ڈوب کرکی ہے۔ ایسالگتاہے کہ انھیں قدیم
تہذیب سے بے انتہا محبت ہے۔ وہ اسے انسانیت
کے لیے اہم سمجھتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ وہ تہذیب جو اب آہستہ آہستہ ہمارے ماضی
کا حصہ بنتی جارہی ہے، معدوم ہوجائے۔ کیونکہ اگر و ہ تہذیب ختم ہوگئی تو نہ صرف
پورے ایک عہد کا خاتمہ ہوگا بلکہ انسانیت ہی مرجائے گی۔ نئی تہذیب انسانیت کو آگے
نہیں بڑھاسکتی، اس کے اندر تصنع اور بناوٹ ہے، وہ فطرت اور فطری حسن و غنائیت سے
عاری ہے، وہ انسان کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتی بلکہ اسے ایک مشین بنادیتی ہے جس
میں ضمیر و احساس نہیں ہوتا۔ اخترالایمان چاہتے ہیں کہ ایسی تہذیب رواج نہ پائے لیکن
یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ ہمارا تہذیبی اثاثہ نہ صرف محفوظ رہے بلکہ وہ ہماری زندگی
میں گھلا ملا ہو یا ہماری زندگی اس تہذیب کے سائے میں آگے بڑھے۔اسی لیے وہ معدوم
ہوتی ہوئی پرانی تہذیب کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اور اس کے باقیات کو دیکھ کر غمزدہ
ہوجاتے ہیں۔ان کی نظم ’مسجد‘ اسی تہذیب کا علامیہ ہے ۔اس نظم میں اخترالایمان
نے تہذیبی اور انسانی اقدار کی بربادی
کامرقع کھینچا ہے۔ اخترالایمان کو ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ موجودہ نسلوں کے
جمود و غفلت کے نتیجے میںبقیہ تہذیبی آثار بھی ختم ہوجائیں۔چند اشعار دیکھیے ؎
تیز ندی کی
ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی
ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہالوں
گی تجھے توڑ کے ساحل کے قیود
اور پھر
گنبد و مینار بھی پانی پانی
اخترالایمان
کی شاعری میںغربت وافلاس کا مسئلہ بھی بار بار آیا ہے ۔اس لیے کہ اخترالایمان
غربت کی کوکھ سے پیدا ہونے والے مسائل سے واقف ہیں۔ان کی اپنی زندگی کا اچھا خاصا
حصہ اسی غربت کے عالم میں گزرا تھا اور انھوںنے دوسرے بہت سے ایسے لوگ بھی دیکھے
جن پر غربت نے بڑے ستم ڈھائے تھے۔ غربت کے موضو ع کو دوسرے شعرا نے بھی اپنی شاعری
میں برتاہے لیکن اخترالایمان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوںنے غربت کی تصویریں کچھ اس
انداز سے کھینچی ہیں کہ غربت کے نتائج وعواقب ان تصویروںکے بیک گرائونڈ میں اس طرح
نمایاں ہوجاتے ہیں کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
تقسیم وطن
اور سلسلۂ فسادات جیسے موضوعات بھی اخترالایمان کی شاعری میں موجود ہیں۔تقسیم وطن
اوروقتاً فوقتاً پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات نے انسانیت کو جونقصان پہنچایا،
جس طرح عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے قتل کیے گئے، گھر اجڑے، آبائی گائوں اور
مکانات چھوٹے، انھوں نے حساس اور دردمند انسانوں بالخصوص ادیبوں، فنکاروں اور شاعروں
کی آنکھوں کو اشک بار کیاہے۔ اخترالایمان جو انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھتے
تھے ، کہتے ہیں ؎
فسادات دیکھے
تھے تقسیم کے وقت تم نے
ہوا میں
اچھلتے ہوئے ڈنٹھلوں کی طرح
شیر خواروں
کو دیکھا تھا کٹتے
اور پستاں
بریدہ جواں لڑکیاں تم نے
دیکھی تھیں
کیا بین کرتے
(راہِ فرار)
اخترالایمان
نے اپنی نظم ’پندرہ اگست‘میں آزادی کی چھائوں میں ہونے والی تباہی وبربادی کا
منظر پیش کیاہے ،ایسے انداز میں کہ گویا حسین دوشیزہ سے وابستہ گہری یادوں کا کوئی
گیت چھیڑدیاہو ،لیکن اس کی آڑمیں انھوںنے جوطنز کیا ہے وہ واقعی دلوںکو چیرتا چلا
جاتا ہے۔ انسانیت کی بربادی ہندوستان میں ہو یا ہندوستان سے باہر، اختر الایمان اس
پرماتم کناں نظرآتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انھوںنے دوسری جنگ عظیم کے خطرناک نتائج
اور ہولناکی کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا ہے ۔اس تناظرمیں ان کی نظم ’تاریک سیارہ‘بہت
اہمیت کی حامل ہے۔ اس نظم میںانھوںنے تمثیلی اور ڈرامائی انداز اختیار کیا ہے ۔نظم
کا آغازاس طرح ہوتاہے ؎
جانِ من
حجلۂ تاریک سے نکلو دیکھو
کتنا دلکش
ہے سیہ رات میں تاروں کا سماں
اخترالایمان
کی شاعری میںفناوبقا، یقینیت وغیر یقینیت، تہذیب ومعاشرت، سماج کی ناانصافی
،جبرواستحصال اور عدمِ مساوات، حال و استقبال اور فکر وفلسفے جیسے موضوعات بھی
شامل ہیں جو ان کی شاعری کے کینوس کو وسیع کردیتے ہیں۔ اس نوع کے مضامین اخترالایمان
نے مسجد، پرانی فصیل، ایک لڑکا، نقش پا، میرانام، ناصرحسین جیسی نظموں میں شامل کیے
ہیں۔
حقیقت یہ
ہے کہ اخترالایمان کی شاعری زندگی کے بہت سے پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے اور زندگی
کے سفرکی روداد بن جاتی ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ وہ شاعری نہیں کررہے ہیں، زندگی
کو بیان کررہے ہیں ایسی زندگی کو جس میں نشیب وفراز اور اتارچڑھائو ہیں، ان کی
نظم’ پگڈنڈی‘ اسی قبیل کی نظم ہے ۔نظم میںزندگی کے کئی پہلو اجاگر ہوئے ہیں۔ زندگی
بل کھاتی ہوئی ،کبھی خوشی کے شادیانوںکی آوازوں اور مسرت کے قمقموں کی روشنیوں سے
گزرتی ہے، تو کبھی مایوسی اور شکست خوردگی کے گہرے احساسات سے دوچار ہوجاتی ہے۔یہ
نظم نہ صرف حقیقت کے مظہرہے بلکہ تاثیر وغنائیت سے پُربھی ہے۔ اشعار دیکھیے ؎
انگڑائی لیتی،
بل کھاتی، ویرانوں سے آبادی سے
ٹکراتی،کتراتی،
مڑتی، خشکی پر گرداب بناتی
اٹھلاتی،
شرماتی، ڈرتی، مستقبل کے خواب دکھاتی
سایوں میںسستاتی،مڑتی
بڑھ جاتی ہے آزادی سے
امنگ،جذبہ،
ولولہ ،آگے بڑھنے کا حوصلہ انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ انسان نامساعدحالات کو بھی
اپنے حوصلے اور جذبے سے اپنے موافق بنالیتا ہے۔ اونچائیوں کو چھونے کا حوصلہ بعض
اوقات انسانوںکے اندراتنا زیادہ ہوتا ہے کہ انھیں یوں محسوس ہوتاہے گویا وہ
آسمانوںکو چھولیں گے اور تارے توڑ لائیں گے۔لیکن اس کے بعد یہ حوصلے پست بھی
ہوجاتے ہیں ،جذبات سرد پڑجاتے ہیں، چلتے چلتے تھکاوٹ کااحساس ہونے لگتاہے، ناکامی
ومایوسی ہرچہار جانب سے آن گھیرتی ہے۔ اخترالایمان زندگی کی اس سچائی کو بھی بیان
کرنے سے نہیں چوکتے۔ کہتے ہیں ؎
جیون کی
پگڈنڈی یونہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے
چھوسکتاہے، راہ میں سانس اکھڑجاتی ہے
اور بھی کئی
نظموں میں اس طرح کے مضامین اخترالایمان نے بیان کیے ہیں۔ان کی اس نوع کی نظموں کو
پڑھنے کے بعد کہاجاسکتاہے کہ ان کے یہاں شکست خوردگی، محرومی اور مایوسی کا احساس
زیادہ ہے۔ وہ ماضی کی شاعری کرتے ہیں، حال میں انھیں جاذبیت نظرنہیں آتی اور نہ
وہ مستقبل سے پُرامید دکھائی دیتے ہیں۔ شاید وہ انسانوں کے حالات کو دیکھ کر ان کے
اندر ایسی رمق نہیں دیکھتے کہ وہ ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکیں۔
نظم ’تنہائی میں ‘ بھی کچھ اسی طرح کا تاثر پیش کیا گیاہے۔اسے اخترالایمان کی شاعری
کی خوبی بھی کہا جاسکتا ہے اور خامی بھی۔ خوبی اس لیے کہ انھوںنے نہایت دردمندی سے
اپنا اور قوم کا حال سنادیا، خامی اس لیے کہ وہ حوصلے سے کام نہیں لیتے
اوراکثراپنے اردگرد یاسیت کا ماحول پیدا کرلیتے ہیںاور پھر اس سے باہر نہیں آتے۔
اقبال کی شاعری کا معاملہ اس سے جدا ہے، وہ زندگی کے حقائق کو کھول کر بیان کرتے ہیں،
تہذیبی واخلاقی اقدار کے زوال کا رونا بھی روتے ہیں، موجودہ نسلوں کی غفلت کی بھی نشاندہی کرتے ہیں،
مگر اس کے باوجود وہ مایوس نظر نہیں آتے۔ وہ کہتے ہیں ’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت
زرخیز ہے ساقی‘‘اس کے برعکس اخترالایمان کی نظم’ پگڈنڈی‘ کا نچوڑدرج ذیل مصرع
ہے ؎
کون ستارے چھوسکتاہے، راہ میں سانس اکھڑجاتی ہے
ناموافق
حالات کو سازگاربنانے کی خواہش اپنی جگہ، جذبات اور امنگوںکا اظہار بھی اپنی جگہ
مگر حقیقت یہ ہے کہ کون ستارے چھوسکتاہے راہ میں سانس اکھڑجاتی ہے۔ یہ شاعر کا
اپنا زاویۂ نظر ہے۔ ضروری نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جائے۔ حوصلوں سے انسان نے کیا
نہیں کر دکھایا، پہاڑوں کے درمیان سے
راستے نکال لیے ، سمندر کے سینے کو چیر کر اپنے لیے گزرگاہیںبنالیں، انتہائی
مستحکم قلعوںکو تسخیر کرلیا ، شیطانی اور طاغوتی قوتوں کو پسپائی اختیار کرنے پر
مجبورکردیا۔ عہدِ رفتہ کی نسلیں ایسے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دے کر گزرچکی ہیں۔
عہدِ حاضر کی نسلیں گو کہ خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہیں ، لیکن اگروہ بیدارہوجائیں
توعین ممکن ہے کہ حالات مختلف ہوں۔ اخترالایمان موجودہ نسلوں سے مایوس ہوکر انھیں
بیدار ہونے کی تلقین ہی نہیں کرتے بلکہ اور ہمت توڑ دیتے ہیں، لیکن اقبال آج کی
نسلوں کی عیش پرستی اور مادیت پرستی کے باوجود مایوس نہیں ہوتے، اس لیے بھرپور جوش
کے ساتھ انھیں جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ؎
نہیں تیرا
نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں
ہے، بسیرا کرپہاڑوں کی چٹانوں میں
اخترالایمان
کی شاعری کا مذکورہ اندازغالباً اس لیے ہے کہ وہ صرف شاعری کرتا ہے ، جو کچھ دیکھتاہے
یا جس چیز کا احساس کرتا ہے ، اسے بے کم وکاست بیان کردیتاہے، نہ کوئی نظریہ وضع
کرتا ہے اور نہ اسے دوسروںپر تھوپتا ہے، وہ شاعری میں دیانت داری سے کام لیتا ہے۔
اخترالایمان نے شاعری کی زبان میں اپنے جذبات کی ترجمانی کی ہے اور خلقِ خدکے
احساسات کی بھی۔اس نے شاعری میں جو کچھ پیش کیا ہے، وہ پورے سماج کے لیے آئینہ ہے
جس میں انسانی سوسائٹیاںاور نئی نسلیں اپنی حرکات وسکنات کی تصویر دیکھ سکتی ہیں۔اگر
آئینہ دیکھ کر چہرے کی گندگی کو مٹانے کا ارادہ ہو تولوگ اخترالایمان کی شاعری میں
اپنے چہرے کودیکھ کر اپنی صورت کو صاف کرسکتے ہیں۔ اس طرح اخترالایمان کی شاعری
موجودہ اور آنے والی نسلوںکے لیے درس بھی بن جاتی ہے اور اصلاح کا ذریعہ بھی ۔اپنی
اصلاح کرنے کے لیے سب سے پہلے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک اس بات کی کہ اپنی کمیوں
کا اعتراف کرلیا جائے ، دوسرے اس بات کی کہ ان کمیوں کودور کرنے کا عز م مصمم اور عمل کیا جائے۔ نیت خالص ہوجائے تو اصلاح کے
راستے نکل آتے ہیں۔اس کام کو اخترالایمان نے بخوبی انجام دیاہے۔
موضوعاتی نقطۂ نظرسے اخترالایمان کی شاعری کے مطالعے
کے بعد یہ بات بہت وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اخترالایمان کی شاعری کا موضوعاتی
دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی شاعری کے کچھ اہم اور خاص موضوعات پر مذکورہ سطریں لکھ
کر میںیہ کہنا چاہتاہوںکہ اخترالایمان کی شاعری پر موضوعاتی حوالے سے مستقل کام
وقت کی ضرورت ہے ۔
Dr. Yusuf Rampuri
Mohalla: Tandola,
Tanda
Rampur - 244925
(UP)
Mob.: 9310068594
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں