16/11/22

عربی زبان کے مایہ ناز استاذ پروفیسر محمدراشدندوی: عبدالماجد قاضی


 

صبح آٹھ بجے کا وقت ہے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی صبحِ نشاط کا سحر انگیز سماں ہے، پوری فضا سرشار ہے، طلبہ کچھ تنہا، کچھ چھوٹی ٹکڑیوں اور کچھ گروہوں میں، بہترین لباس زیب تن کیے، بلکہ بہت سے باقاعدہ بن ٹھن کر ہنستے، مسکراتے کلاسوں کی طرف کشاں کشاں جا رہے ہیں، علی گڑھ کی ثقافتی روایات کا جلوہ ہر سو نمایاں ہے۔ ہر طرف سے سلام کی آوازیں ماحول میں سکون اور اپنائیت کا رنگ پھیلا رہی ہیں، شیروانی میں ملبوس طلبہ و اساتذہ کا تناسب بھی کافی زیادہ ہے، اسکولوں کے بچے رنگ برنگ یونیفارم میں ملبوس صبح کو مزید خوبصورت بنا رہے ہیں۔

طلوع آفتاب کی پہلی کرنوں کے جلو میں جب اسکولوں، درسگاہوں اور دانش گاہوں کی سمت علم کے طلب گار جذبہ و امید کی مجسم تصویر بن کر گھر سے نکلتے ہیں تو وہ ہماری کائنات کے حسن کا مرکزی نقطہ ہوتے ہیں،  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انہی مناظرِ حسن کی ہر سو نمود ہے، میں اپنی چشمِ تصور سے فروری 1992 کی ایک صبح کا منظر دیکھ رہا ہوں، یونیورسٹی کی مرکزی شاہراہ پر آمد و رفت عروج پر ہے، سائکلوں سے طلبہ طالبات اور ملازمین اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں، کچھ اساتذہ رکشوں پر سوار ہیں، نسبتاً کم تعداد میں سکوٹر اور موٹر سائیکلیں بھی دکھائی دے رہی ہیں، شاذ و نادر کوئی ایمبیسڈر کار یا اس سے بھی شاذ ماروتی 800 کے ذریعے بھی کچھ لوگ گزر رہے ہیں، اس دیارِ دانش میں کسی کا سماجی رتبہ اس کے زیرِ استعمال سواری کی خود کاری یا پہیوں کی تعداد  سے نہیں طے ہوتا، بلکہ در حقیقت یہاں کے بڑے اہل علم بھی سائکل کا استعمال زیادہ پسند کرتے ہیں، پروفیسر چغتائی صاحب اور پروفیسر عرفان حبیب صاحب جیسے فرزانے بھی سائکل ہی بطور سواری استعمال کرتے ہیں، ایک قابلِ لحاظ تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو رکشے کے ذریعے اپنی اقامت گاہوں سے دفاتر اور درسگاہوں کا رخ کرتی ہے۔

اسی دوران ایک رکشا آرٹس فیکلٹی کے سامنے سے گزرا،  شیخ الجامعہ کی رہائش گاہ سے آگے بڑھا اور اگلے چوراہے سے داہنی طرف موریسن کورٹ جانے والی سڑک پر مڑا، کچھ ہی قدموں کے فاصلے پر واقع تکون سے بائیں جانب والے راستے پر آگیا اور حالی روڈ پر کچھ دور چلنے کے بعد شعبہ عربی اور ادارہ علوم اسلامیہ کی مشترک عمارت کے سامنے آکر رک گیا۔

رکشے سے اترنے والے صاحب نے جیب سے پیسے نکال کر کرایہ ادا کیا اور سیدھے عمارت کے اندر داخل ہو گئے، سفید براق شرٹ، سرمئی رنگ کی پینٹ اور سیاہ پالش شدہ سینڈل میں ملبوس، میانہ قد، جسم قدرے فربہی مائل، کشادہ جبین، گندمی رنگ، سیاہ گھنے بال قدرے دراز، اس سلیقے  کے ساتھ کنگھی کیے ہوئے کہ وہ چمکدار تہ دار، اور ہموار شکل لیے ہوئے ہیں، گھنے ابرو، نگاہوں میں کسی فوری تاثر کا کوئی شائبہ نہیں۔ سلیقے سے تراشی ہوئی قدرے باریک مونچھیں، چہرہ نا آشنائے ریش، آواز میں ایک طرح کی کھنک لیکن بہ وقت گفتگو دھیمی، پورے سراپا کو دیکھتے ہی ان کے بارے میں ایک باوقار شخصیت کا تاثر ذہن نشین ہو جاتا ہے، یہ ہیں استاذ محترم پروفیسر محمد راشد ندوی سابق صدر شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔

گزشتہ صدی کے آخری دہے میں اگر آپ کو شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا ہوگا تو آپ نے اس باوقار اور سدا بہار دیارِ علم و ادب میں پروفیسر محمد راشد صاحب کی کوئی جھلک ضرور دیکھی ہوگی۔ ہر روز صبح اسی معمول کے مطابق پروفیسر راشد صاحب رکشے سے شعبہ عربی پہنچتے، وہ صدرِ شعبہ تھے اور اپنے دفتر میں بیٹھ کر لکھنے پڑھنے میں مصروف ہو جاتے، تمام اساتذہ اپنے کمروں یا کلاس روم میں ہوتے، ہر کام نظام کے تحت انجام پزیر ہوتا تھا۔

میں نے پروفیسر راشد صاحب سے زیادہ مستقل مزاجی اور معمول کی پابندی کے ساتھ کسی اور کو اپنے دفتر میں اتنے طویل اوقاتِ کار تک بیٹھتے نہیں دیکھا۔ صبح آٹھ بجے سے دوپہر دو بجے تک کرسی پر متمکن ہو کر دفتری امور پر توجہ اور وقت ملنے پر مطالعہ جاری رکھنا، کلاس کا وقت ہو جانے پر کلاس روم میں موجودگی، وقت کی پابندی اور شعبے کی ہمہ جہت کارکردگی کی نگرانی۔ یہ تھا استاذ گرامی کا وہ یومیہ گوشوارۂ عمل جس کی زمانی و مکانی پابندی کی مثال گھڑی کی سوئیوں کی پیہم تگ و تاز سے ملتی جلتی تھی، جن کی گردش ایک محدود مکانی دائرے میں ہوتی ہے لیکن وہ لا محدود زمانی حقیقتوں کی پیمائش کے ساتھ امکانات کو مفروضوں اور واہموں کی دنیا سے نکال کر واقعات اور حقائق کا وجود عطا کر رہی ہوتی ہیں۔ یہاں ہر شخص کبھی ساکن اور کبھی سیّار ہوتا، لیکن پروفیسر راشد صاحب مانندِ کوہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر تدریس و انتظام کی تمام ذمے داریوں کو انجام دیتے، اتنی دیر تک جم کر بیٹھ جانا اور اس معمول پر سال بھر قائم رہنا ایک مشکل ترین کام ہے مگر پروفیسر راشد صاحب کے لیے بہت آسان تھا کیونکہ ان کی دلچسپی صرف پڑھنے پڑھانے اور لکھنے میں تھی، ان کو کسی اضافی انتظامی عہدے کی طلب نہیں، وہ کسی ہال کے پرووسٹ نہیں بننا چاہتے، وہ اساتذہ کی انجمن میں کسی عہدے کے طلب گار نہیں وہ یونیورسٹی کی اندرونی سیاست میں سرگرم کسی گروہ کا حصہ نہیں، ان کو شیخ الجامعہ سے تقرب کی کوئی تمنا نہیں، کسی مالی منفعت یا اثر و رسوخ کی چاہت نہیں، اس طرح کے کردار والا شخص اپنی ایک دنیا خود بناتا ہے اور اس دنیا میں خوش رہتا ہے۔

اس دوران اگر ان کو گیلری میں کوئی طالب علم وقت گزاری یا گپ شپ میں مصروف مل جاتا وہ اس سے باز پرس کر لیتے کہ وہ کلاس کے وقت یہاں کیا کر رہا ہے، یا اگر وہ ریسرچ سکالر ہے تو لائبریری چھوڑ کر باہر کیوں گھوم رہا ہے، بلکہ میں نے ایک آدھ مرتبہ ایک نوجوان استاذ کو کسی تاخیر یا غفلت پر ان کے سامنے جواب دہی پر مجبور دیکھا۔

ایم اے سال دوم میں ہمیں پروفیسر راشد صاحب نے ادب کی تنقید پڑھائی، حسبِ معمول وقت پر کلاس شروع ہوتی اور پورے وقت گفتگو نصاب میں شامل موضوعات پر ہی ہوتی، ذاتی زندگی یا مقرر شدہ موضوعات کے علاوہ چیزوں میں وقت گزاری کا یہاں کوئی گزر نہیں تھا، ہمارے ساتھیوں میں کچھ لوگ کیرالا کے بھی تھے اس لیے پورا لیکچر فصیح اور معیاری عربی میں ہوتا، سوالات کے تشفی بخش جواب دیے جاتے۔ بلا ناغہ کلاسیں اگر عرصۂ دراز تک ہوتی چلی جائیں تو آپ پڑھنے میں جتنے بھی سنجیدہ ہوں کبھی کبھی چاہتے ہیں کہ بارش ہو طوفان ہو یا جو بھی امکان ہو، کسی دن چھٹی مل جائے اور معمول کی یکسانیت ٹوٹے، یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار طلبہ کو اساتذہ کی ناسازی طبیعت کی خبر، خبرِ وحشت اثر نہیں معلوم ہوتی، پروفیسر راشد صاحب، اور دیگر اساتذہ بھی کبھی کلاسوں سے غیر حاضر نہیں ہوتے تھے، البتہ سال میں ایک آدھ مرتبہ طلبہ کی یہ خواہش بھی پوری ہو جاتی، استاذ گرامی شعبہ عربی کالی کٹ یونیورسٹی کے بورڈ آف سٹڈیز کے ممبر تھے، اس کے اجلاس میں شرکت کے لیے جب سفر ہوتا تو اس کا مطلب تھا ایک ہفتے کی چھٹی، اس زمانے میں ریل کے ذریعے سفر کا زیادہ رواج تھا اور کالی کٹ کا یک طرفہ سفر بھی تین دن پر محیط ہوا کرتا تھا۔

کلاس کے باہر یا عام مزاج کے حوالے سے استاذ محترم کا شمار طبعا کم گو لوگوں میں کیا جانا چاہیے، وہ اگر کسی علمی محفل میں موجود ہوتے تو محض اپنی موجودگی درج کرانے کے لیے کوئی لب کشائی نہ کرتے، جیسا کہ بعض حضرات کے مزاج کا لازمہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی نشست میں ہوں حاضرین میں مرکزِ توجہ بننے کے لیے گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ ہر خاص و عام کو پتہ چل جائے کہ یہاں ایک اہل علم تشریف فرما ہے۔

استاذ محترم کے مزاج میں کسی پروگرام میں رسما یا ضمناً یا محض شرکت برائے شرکت کا کوئی تصور نہ تھا، کسی مجلس میں طفیلی بن کر یا کسی پروگرام میں سرکاری مراعات کا فائدہ اٹھا کر بغیر کسی با مقصد کردار ادا کیے شریک ہونا انہیں بالکل منظور نہ تھا، سعودی عرب میں ہر سال اعلیٰ سرکاری سطح پر جشنِ جنادریۃ کے زیر عنوان ایک ثقافتی ہفتہ منایا جاتا ہے، اس میں علمی ادبی اور متنوع ثقافتی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، سنہ  1999 یا 2000 میں دہلی کے سعودی سفارت خانے سے استاذ محترم کے ساتھ رابطہ کیا گیا کہ اس سال کے پروگرام میں ایک دو اور مہمانوں کے علاوہ ہندوستان کی نمائندگی کے لیے ان کے نام کا انتخاب ہوا ہے، استاذ محترم نے معلوم کیا کہ اس پروگرام میں ان کی شمولیت کس عنوان کے تحت ہوگی اور ابھی اس کی تاریخ میں کتنا وقت باقی ہے، معلوم ہوا کہ دس دن کا وقفہ ہے اور وہ معزز مہمان کے طور پر رسمی شمولیت کریں گے، انھوں نے بغیر کسی توقف کے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے شرکت سے معذرت کر دی کہ اتنا طویل سفر محض کوئی رسم نباہنے کے لیے نہیں کر سکتا۔ ایک نامور، معروف اور سرگرم دانشور جو اتفاق سے پروفیسر راشد صاحب کے شاگرد بھی رہ چکے تھے انھوں نے فون سے رابطہ کر کے استاذ گرامی کو آمادہ کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ سفر کا پورا انتظام سعودی حکومت کی طرف سے ہے وہاں کی رہائش بھی پانچ ستارہ معیار کی ہو گی آخر دعوت قبول کرنے میں کیا چیز مانع ہے، لیکن راشد صاحب نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک بغیر کسی علمی مقصداور واضح اور معروضی جواز کے اس پروگرام یا اس جیسی کسی تقریب میں شرکت ایک بے معنی عمل تھا، وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔

کچھ لوگوں کی منطق کی رو سے یہ بات بالکل ناقابل فہم ہوگی کیونکہ وہ ہر طرح کے پروگراموں، تقریبات اور محفلوں میں شامل ہونا اپنے آپ میں ایک کمال اور ہنر سمجھتے ہیں چاہے وہاں نشست و برخاست اور لذت کام و دہن کے علاوہ ان کا کوئی کردار نہ ہو۔

پروفیسر راشد صاحب کا آبائی وطن قصبہ بندی خورد ضلع اعظم گڑھ ہے، اس خطۂ مردم خیز کے ایک ممتاز علمی خاندان میں آپ کی ولادت 1936 میں ہوئی، آپ کے والد مولانا محمد سعید ندوی سید سلیمان ندوی کے خاص شاگردوں میں سے تھے ان کو مولانا حمید الدین فراہی سے شرفِ تلمذ بھی حاصل تھا وہ ایک عرصے تک مدرسۃ الاصلاح میں استاذ رہے، بعد میں وہ دار العلوم ندوۃ العلما  میں حدیث و تفسیر کے استاذ مقرر ہوئے، پروفیسر راشد صاحب کے دادا مولانا محمد مرتضی صاحب بھی لغت و فقہ کے راسخ عالم تھے اور ندوہ میں لمبے عرصے تک استاذ رہے، اسی طرح آپ کے خاندان کے ایک بزرگ عالم مولانا حفیظ اللہ صاحب ندوہ کے منصبِ اہتمام پر چالیس سال تک فائز رہے، وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی تدریس سے وابستہ رہے، مولانا حفیظ اللہ صاحب شبلی نعمانی کے معاصر تھے اور انہی کی شمس العلماکے خطاب سے نوازے گئے۔

زمانہ طالب علمی میں استاذ گرامی کو کئی عہد ساز شخصیات سے کسبِ فیض کا موقع ملا، جیسا کہ سطورِ بالا میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ان کے والدِ گرامی مولانا محمد سعید صاحب ندوی دار العلوم ندوۃ العلمامیں استاذ تھے، راشد صاحب کم سنی میں ہی اپنے والد کے ہمراہ لکھنؤ آگئے اور  ندوہ میں داخل ہو گئے تھے، ان کو ندوہ کے دیگر ممتاز اساتذہ کے علاوہ مولانا علی میاں سے بھی براہ راست استفادے کا بیش بہا موقع ملا، وہ درسی کتابوں کے ساتھ مولانا کی نگرانی اور مشورے کے مطابق مربوط و منصوبہ بند مطالعے میں مصروف رہے اور علمی اشتغال اور ادبی ذوق کی تربیت حاصل کرتے رہے، تکمیلِ ادب کورس کے لازمی جزکے طور پر انھوں نے کسی علمی موضوع پر ایک  مبسوط مقالہ بھی مولانا علی میاں کی زیر نگرانی لکھا، اس لیے بجا طور پر وہ ان کے بہت عزیز شاگردوں میں سے تھے ، ندوہ سے تعلیم کی با امتیاز تکمیل کے بعد وہ اس سہ رکنی تعلیمی وفد کا حصہ تھے جس کو مولانا علی میاں صاحب نے دمشق یونیورسٹی میں تعلیم کی تکمیل کے لیے روانہ کیا تھا، اس میں پروفیسر محمد اجتبا ، ڈاکٹر رضوان علی اور پروفیسر راشد صاحب شامل تھے۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ نادر موقع آیا تھا کہ شامی حکومت نے ہندوستان کے لیے تین تعلیمی وظائف منظور کیے تھے اور اس کی اطلاع دمشق یونیورسٹی میں لا فیکلٹی کے ڈین پروفیسر مصطفی سباعی صاحب نے مولانا علی میاں کو خط لکھ کر دی اور انتخاب کی ذمے داری بھی ان ہی کو سپرد کی، اس با وقار علمی اعزاز اور ایک عرب ملک میں تحصیلِ علم کے لیے انھوں نے1955 میں بذریعہ سمندری جہاز شہر بصرہ تک سفر کیا، وہاں سے زمینی راستے سے بغداد کا رخ کیا اور مختصر قیام کے بعد بذریعہ بس شام پہنچے اور دمشق یونیورسٹی میں بی اے میں داخلے کی کارروائی مکمل کی، یہاں ان کو مشہور ماہر لسانیات پروفیسر محمد المبارک، پروفیسر سباعی اور پروفیسر زرقا جیسے نامور اساتذہ سے تحصیلِ علم کا سنہری موقع ملا۔ شام سے واپسی کے بجائے انھوں نے مصر کا رخ کیا اور قاہرہ یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا۔

قاہرہ میں قیام کے دوران انھوں نے رسمی اور روایتی طور پر کلاس کی حاضری اور لگے بندھے طور طریقوں پر اکتفا کرنے کے بجائے مصر کے بڑے ادبا اور مایہ ناز محققین کی مجلسوں میں حاضر باشی کو اپنے معمول کا حصہ بنایا، ان کے ذوقِ علم کو دیکھتے ہوئے علم و ادب کے ان اساطین نے ان کی پزیرائی بھی کی۔ ان کو عربی کے ممتاز ادیب نقاد شاعر اور مفکر عباس محمود عقاد کی ہفتہ وار نشستوں میں جانے اور ان کی محققانہ گفتگو کو سننے کا شرف حاصل ہوا۔ عربی کے معروف ادیب طہ حسین کے لیکچرز میں حاضری کے مواقع بھی ملتے رہے، ہندوستان کے مایہ ناز محقق پروفیسر عبد العزیز میمن صاحب نے اپنے سفر  قاہرہ کے دوران عربی زبان کے بڑے محقق محمود شاکر سے راشد صاحب کو ملوایا اور ان سے علمی استفادے کی تاکید کی، میمن صاحب کو عرب دنیا میں انتہائی احترام حاصل تھا اور وہ قاہرہ کی عربی اکیڈمی کے رکن تھے، کسی غیر عرب کو یہ اعزاز ملنا نادر نوعیت کا واقعہ ہے، اس لیے میمن صاحب کے عرب احباب بھی علم و تحقیق کی دنیا کے نمایاں ترین لوگ تھے اور راشد صاحب کا ان سے متعارف ہو جانا ان کے آئندہ علمی سفر کے لیے انتہائی خوش آئند ثابت ہوا۔ محمود شاکر صاحب کے ساتھ راشد صاحب کے بطور خاص طالب علمانہ مراسم قائم ہوئے اور ان کے دولت خانے پر بے تکلف آمد و رفت اور ان کی علمی مجلسوں میں بیٹھنے، شریک گفتگو ہونے اور علمی مباحثوں اور ان کے نہایت وسیع ذاتی کتب خانے سے پوری طرح مستفید ہونے کا موقع ملا۔

شام و مصر کے سفر، وہاں کی جامعات میں تعلیم اور ممتاز مفکرین، ادبا اور محققین سے علمی استفادے کی بدولت پروفیسر راشد صاحب کو وسعتِ فکر و نظر کی عظیم دولت حاصل ہوئی۔ علم و فکر کی دنیا میں نقل مطابق اصل کا کوئی مقام نہیں، ہر بڑا ادیب یا عالم اپنے فکری سفر کے دوران کچھ ایسے مقامات سے گزرتا ہے جہاں وہ اپنے پیشرو یا معاصرین کے مقابلے میں کچھ زیادہ دریافت کرتا ہے اور اس دریافت کی تفہیم و توضیح پر زیادہ ارتکاز کرتا ہے۔ علم و تحقیق کی بنیاد پر نقطہ نظر کا اختلاف اور مدارک کے تفاوت کی وجہ سے ذوق کا تنوع ایک مسلمہ حقیقت ہے، کسی انسان کے علمی مرتبے اور فکری گہرائی کا تعین بھی اسی بات سے ہوتا ہے کہ وہ اختلاف کو قبول کرنے کی صلاحیت اور ظرف سے بہرہ ور ہے یا نہیں۔

ہندوستانی جامعات میں مشرقی مطالعات کے شعبوں میں ایک تناسب ایسے لوگوں کا بھی ہوتا ہے جن کی طرف سے نظریاتی، جماعتی اور مؤسساتی گروہ بندیوں کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہتا ہے، بلکہ کچھ حضرات کی توانائی کا بڑا حصہ اس تنوع کے خد و خال کو اس قدر ابھارنے میں صرف ہونے لگتا ہے کہ وہ ذوق و تنوع کی دوسری اکائیوں کے ساتھ سرد مہری بلکہ سرد جنگ کا ماحول پیدا کر دیتے ہیں۔ اس تناظر میں پروفیسر راشد صاحب کے رویے اور تعامل سے ہمیشہ وسعت نظر کا ثبوت ملا، کسی بھی مسئلے میں ان کی جو بھی رائے ہوتی وہ اس کا برملا اظہار کر کے گزر جانے کا ہنر اور ظرف رکھتے تھے، ان کو ہر گز یہ اصرار نہیں تھا کہ ان کے مخاطبین اس کو قبول کریں اور ہمنوائی کا دم بھریں، ان کے وسیع المشرب رویے میں یقینا ان کی جہاں دیدگی اور بیسویں صدی میں عربی زبان و ادب کی بلند قامت شخصیات سے براہ راست استفادے کا واضح کردار نظر آتا ہے۔

اردو داں طبقے کو نظر میں رکھتے ہوئے انھوں نے جدید عربی ادب و ثقافت کی نمائندہ شخصیات اور ان کی خدمات سے متعارف کروانے کا کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ اس ضمن میں انھوں نے بطور خاص ان اہل قلم کا انتخاب کیا جن کے افکار کی عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر پزیرائی ہوئی اور جنھوں نے جدید نسل کی فکر پر گہرے نقوش چھوڑے۔

عرب ممالک میں قومیت کے رجحان اور عثمانی سلطنت سے علیحدگی کے پورے پس منظر کو درست تاریخی سیاق میں سمجھنے کے لیے انھوں نے عرب قومیت کے دو علمبرداروں، عبد الرحمن کواکبی اور ساطع حصری پر دو مفصل مضامین لکھ کر اس اہم سیاسی مسئلے میں عرب قومیت کے طرفداروں کے نقطہ نظر کی وضاحت کی، ان دونوں تجزیاتی مضامین میں اس قضیے کو دینی یا فقہی زاویۂ نگاہ سے دیکھنے کے بجائے انھوں نے خالص سیاسی اور مادی منطقیت کی رو سے پیش کیا، اگر چہ یہ موضوع اتنا پیچیدہ ہے کہ اس کے تمام عوامل کا تجزیہ کرنے کے لیے انیسویں صدی سے بیسویں صدی کے اوائل تک کے عالمی منظر نامے کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ عالم اسلام کی تعلیمی پسماندگی، اقتصادی کمزوری، سماجی اور سیاسی ناہمواری اور داخلی انتشار کے ساتھ ہی جدید یورپ کی قومی تحریکوں، قومیت سے متعلق فلسفیانہ نظریات کی ہمہ گیر مقبولیت اور ان نظریات کی مشرقی ممالک میں بازگشت اور عرب ممالک میں بیرونی خفیہ مداخلت، استعماری عزائم اور منصوبہ بند دسیسہ کاری کے دور رس اثرات کا اندازہ لگایا جا سکے۔

 پچھلی صدی کے دوران عرب دنیا میں تجدیدِ فکر اور اصلاح و تہذیب کے لیے طویل جدوجہد اور بیش بہا علمی و فکری رہنمائی میں شیخ محمد عبدہ، شکیب ارسلان اور شیخ رشید رضا کا اہم کردار رہا ہے راشد صاحب نے ان شخصیات پر  کافی مبسوط اور تجزیاتی مقالات لکھے، اردو داں حضرات کو ان موضوعات پر ان کی تحریروں سے زیادہ پر مغز اور ہمہ گیر نگارشات نہیں مل سکتیں۔ اسی طرح استاذ محترم نے شامی ادبا اور مفکرین میں خلیل مردم بک اور کرد علی، فقہا اور قانون دانوں میں پروفیسر مصطفی زرقا کے غیر معمولی علمی کاموں کا مفصل تعارف اور ان کی خدمات سے روشناس کرایا۔

ادب اور تنقید کے دو فرزانوں، عباس محمود عقاد اور سید قطب نے فکر وفن کی دنیا کو جس گہرائی اور گیرائی سے ہمکنار کیا، جوہر اور جمال کی پرکھ کا جو معیار قائم کیا استاذ محترم نے ان دونوں کی امتیازی اور کلیدی نگارشات کا باریک بینی سے جائزہ لیا تاکہ اردو والے بھی ان کے نام، کام اور مقام سے واقف ہو سکیں۔

غرض اسی طرح مولانا فراہی کے بلاغت سے متعلق افکار، توفیق الحکیم کی ڈرامہ نگاری، یحییٰ حقی کا تنقیدی و فنی شعور، محمود شاکر کا تنقیدی و تحقیقی مقام وغیرہ موضوعات پر راشد صاحب کے قلم سے بہترین مقالات اردو میں شائع ہوئے، انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس سے متعلق تمام اساسی معلومات یکجا کر دیں اور اس کے سبھی اہم گوشوں کا اس خوبی سے احاطہ کیا کہ پڑھنے والے کو کسی تشنگی کا احساس نہ رہے اور اس کے ذہن میں موضوع کا ایک واضح خاکہ محفوظ ہو جائے۔ ان کی اکثر تحریروں کا مرکزی موضوع مختلف ادوار میں مختلف شخصیات کے حوالے سے ادب کی تنقید، اس کا ارتقا اور نئے رجحانات کا جائزہ رہا ہے، اس ضمن میں ان کی توجہ کا مرکز ہندوستان اور مصر و شام بطور خاص رہے ہیں. وہ اصولی طور پر تنقید میں اعتدال کے منہج پر قائم رہے اور نئے لکھنے والوں کو اسی کی دعوت بھی دی۔ اپنی کتاب ’جدید و قدیم عربی زبان و ادب اشخاص و افکار‘ کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں ’’ میں ہمیشہ اس بات پر قائم رہا ہوں کہ جو بھی زبان ہو اور اس کے جو بھی اصول و ضوابط ہوں اس کو پوری طرح ملحوظ رکھنا چاہیے، شخصیات کے تبصرے میں جو بھی تنقیدی پہلو ہوں اس میں ہمیشہ اعتدال پسندی ہونی چاہیے، عام طور سے نوجوان لکھنے والے جن کا قلم جوش میں بہہ جاتا ہے وہ صحیح بات پیش کرنے کے بجائے چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ جاتے ہیں اور تنقید میں بھی ان کا رویہ معتدل نہیں رہتا، ان کی تنقید کبھی تحقیر اور تنقیص میں بدل جاتی ہے۔‘‘

پروفیسر راشد صاحب ہندوستانی جامعات کے ان اولین اساتذہ میں سے ہیں جنھوں نے عربی زبان کو نظر آنے اور پڑھے جانے والے سیاہ حرف کے جامد مرحلے سے اٹھا کر زبان سے ادا ہونے اور کان سے سنی جانے والی آواز کے زندہ و متحرک مرحلے تک پہنچایا، یعنی عربی کو ایک زندہ زبان کے طور پر استعمال کرنے کا رواج پیدا کیا، وہ خود بہترین عربی داں تھے، بولنے میں ان کو اہل زبان جیسی مہارت حاصل تھی، بے شمار اشعار یاد تھے جنھیں وہ موقع و مناسبت سے ایسے بہترین انداز میں پڑھتے کہ سماں بندھ جاتا، ذریعۂ تعلیم کے طور پر بھی وہ عربی زبان کا استعمال کرتے تھے، ان کے اور ان کی ہم عصر پیڑھی کے چند دیگر اساتذہ سے پہلے ہندوستان کی عصری جامعات میں عربی نہیں بلکہ عربی کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا، وہ طاق نسیاں اور کتب خانوں کی الماریوں میں سجائی ہوئی ایک کلاسیکل زبان تھی لیکن پروفیسر راشد صاحب، پروفیسر عبد الحلیم صاحب، پروفیسر اجتبا صاحب، پروفیسر منور نینار صاحب، پروفیسر زبیر احمد فاروقی صاحب، پروفیسر ضیاء الحسن صاحب، پروفیسر عبد الحق صاحب، پروفیسر احسان الرحمن صاحب، پروفیسر شفیق احمد خان صاحب، پروفیسر فینان صاحب اور پروفیسر سلیمان اشرف صاحب وغیرہ نے عربی زبان کو عصری جامعات میں کتاب کی جامد دنیا سے نکال کر لب گفتار سے روشناس کروایا اور پھر عربی شعبوں میں عربی ایک زندہ و متحرک زبان کے طور پر مسلسل رواج حاصل کرتی چلی گئی۔

پروفیسر راشد صاحب عربی اور اردو میں یکساں مہارت کے ساتھ تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، ان کے عربی مضامین معیاری علمی مجلات میں شائع ہوتے تھے، ان کے اردو مقالات کے مجموعے دو مبسوط کتابوں، ’جدید عربی زبان و بیان کے مشاہیر‘ اور ’جدید و قدیم عربی زبان و ادب؛ اشخاص و افکار‘ کے عنوان سے بالترتیب 2016 اور 2019 شائع ہو چکے ہیں۔

تصنیف و تالیف میں ان کا اپنا مخصوص طریقہ کار تھا، انھوں نے مجھے خود بتایا تھا کہ جب وہ کسی موضوع پر قلم اٹھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس سے متعلق اپنی معلومات کی تجدید کرتے ہیں، اس کے لیے دستیاب  علمی مراجع کا مطالعہ کرتے ہیں اس کے بعد اس موضوع پر غور و فکر کے طویل عمل کے لیے کافی دنوں کا وقت اور وقفہ رکھتے ہیں، پھر ان کتابی معلومات کے ہر پہلو کا اپنے انداز سے جائزہ لینے  اور اپنی سوچ سے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں موضوع کے اجزاء ترکیبی کو مرتب کر لینے کے بعد حاصلِ فکر و مطالعہ کو ضبطِ تحریر میں لاتے ہیں۔ اس حقیقت کا مجھے خود بھی متعدد مرتبہ ادراک ہوا کیونکہ پروفیسر راشد صاحب عام طور سے اپنے ہاتھ سے کچھ لکھنے کے بجائے اپنے بعض شاگردوں، جن میں بعض اساتذہ بھی شامل ہیں، کو اپنے گھر مدعو کرتے، کاغذ اور قلم دے کر املا شروع کرا دیتے، بہترین منطقی ترتیب سے موضوع کے مشمولات پر بولتے چلے جاتے جملوں کے تسلسل اور ان کی ساخت باہم اتنی مربوط اور معقول ہوتی کہ کسی جملے میں ترمیم یا کسی ترکیب میں تبدیلی کی ضرورت نہ پڑتی، ایسے مواقع پر عام طور سے ایک طویل نشست میں مقالہ پورا کروا کر ہی اٹھتے، استاذ محترم کے ملفوظ افکار کو ضبطِ تحریر میں لا کر مقالات کی شکل میں لانے کی سعادت کئی مرتبہ مجھے بھی حاصل ہوئی۔

ہندوستان کی عصری جامعات میں عربی زبان کی تدریس و تحقیق کا دائرہ وسیع کرنے میں جن اساتذہ کا نمایاں کردار ہے ان میں پروفیسر راشد صاحب کا نام سر فہرست ہے، انھوں نے دینی مدارس کے فارغین کو عصری تعلیم کے دھارے سے جوڑنے کے لیے ہندوستان کے بڑے دینی اداروں کی اسناد کے علمی اعتراف اور منظوری کی کامیاب کوشش کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بڑے مدارس کے فضلاکو داخلے کی سہولت مہیا ہوئی، اسی کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ، مدراس یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی اور دیگر جامعات میں بھی یہ خوشگوار سلسلہ شروع ہوا۔

عربی زبان و ادب کی تدریس و تعلیم اور تحقیق میں نمایاں کردار کی پزیرائی اور اعزاز کی خاطر پروفیسر راشد صاحب کو 1994 میں صدر جمہوریۂ ہند کی طرف سے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

راشد صاحب کے علمی نقوش کی تابندگی سے بھی کچھ زیادہ تابناک ان کی سیر چشمی اور علم کے وقار کی حفاظت ہے۔ اس متاعِ بے بہا کی قدر دانی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ سود و زیاں کی لغات سے اختلاف کی اخلاقی اور ظرف مندانہ ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا جائے۔ میں نے ان کو عظیم اہل علم کے ساتھ نیازمند اور دوسری وجوہات کی بنا پر نمایاں افراد سے روگرداں اور بے نیاز دیکھا، ان کی یہ ادائے درویشانہ دل میں ان کے مقام کو بہت بلند کر گئی۔

پروفیسر راشد صاحب کو تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوئے پچیس سال مکمل ہو رہے تھے، ہم اس موقع کو جشنِ سیمیں کا نام دے کر خوش ہونے اور شکر ادا کرنے کی تیاری میں تھے کہ دو ہفتے کی شدید علالت کے بعد 2 مئی 2021 بمطابق 19 رمضان المبارک انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا، اور کورونا وبا کی قہر سامانیوں کے درمیان ہندوستان میں عربی زبان سے وابستہ وسیع تر خاندان کے اس رکن رکین کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا         ؎

 آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے


Prof. Abdul Majid Qazi

Dept of Arabic

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...