ندوۃ المصنّفین کی
تاریخ رسالہ برہان کے ذکرکے بغیر ادھوری ہوگی۔جس طرح برہان کا ذکر مولانا
سعید احمد اکبر آبادی کے بغیر ناقص ہے۔
ندوۃ المصنفین محض ایک اشاعتی ادارہ ہی نہیں ؛ ایک مشن اور ایک تحریک تھا۔
ندوۃ المصنّفین کے قیام کے پس منظر کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ندوۃ المصنّفین کے قیام
کے پس پردہ مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے بڑے مقاصد تھے،جنھیں وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے
عملی جامہ پہنانا چاہتے اور قوم کو جمود و یاسیت سے نکالنا چاہتے تھے۔یوں توقدیم
علمی سرمایے کی کمی نہیں تھی اور نہ جدید زمانے میں لکھنے والوں کی کمی تھی ؛اگر
کمی تھی تومحنت و لگن،خلوص اور جنون کی حد تک کوششوں کی کمی تھی اور قدیم سرمایے
کو جدید اسلوب میں ڈھال کر زمانے کے سامنے پیش کرنے کی سخت ضرورت تھی اور اس کے لیے
ایک ایسے پلیٹ فارم کا ہوناضروری تھا جو لوگوں کے چہرے اور مسلک کو دیکھے بغیر ان
کے علم و تحقیق کی قدر کرے اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے ان کا تعاون بھی حاصل
کرے،یہی وجہ ہے کہ مفتی عتیق الرحمن عثمانی کو اتحاد امت کے عَلَمبردار کی حیثیت
سے بھی جانا جاتا ہے اور ہر مکتبِ فکر میں انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
مفتی عتیق الرحمن عثمانی دار العلوم دیوبند سے تکمیل ِ
تعلیم کے بعدکچھ دنوں وہیں معین المدرسین رہے پھر ڈابھیل (گجرات)چلے گئے لیکن وہاں
بھی زیادہ دن قیام نہیں رہا۔مفتی صاحب اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی دونوں نے اب
کلکتے کا رخ کیا اور وہاں کی مسجدوں میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔کلکتہ کے
بعض اصحابِ خیر کے مالی تعاون سے مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے اپنے رفیقِ خاص
مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے ساتھ مل کرجولائی
1938 میں ندوۃ المصنّفین کی داغ بیل ڈالی۔ قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی اپنے ایک
مضمون میں لکھتے ہیں
’’وہاں
کی مرکزی مسجدوں میں دونوں نے درسِ قرآن جاری کیا،پھر وہیں کے دورانِ قیام میں
’ندوۃ المصنّفین‘ کا خاکہ بنایا،کلکتہ کے بعض مخیر اصحاب نے ان کی مالی مدد کی،
پھر دہلی آکر اپنے ساتھیوں مولانا سیوہاروی اور مولانا سعید احمد اکبرآبادی کے
ساتھ (جو ان دنوں مدرسہ عالیہ فتح پوری میں مدرس تھے اور انگریزی کے امتحانات بھی
دے رہے تھے) اس خاکے میں رنگ بھرا۔‘‘
(مفکرِ
ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نمبر، ندوۃ المصنّفین، دہلی1987،ص 44)
لکھنے پڑھنے اور پڑھانے کی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود
مفتی صاحب نے ندوۃ المصنّفین جیسے ادارے کا منصوبہ بنایا، قائم کیا اور اس کے
انتظامی امور کے لیے خود کووقف کر دیا اور تادم ِ حیات اسے سجانے، سنوارنے میں لگے
رہے۔اسی طرح سے مولانا اکبر آبادی نے علمی معاونت اور برہان کی ادارت کے ذریعے
ندوۃ المصنّفین کے مشن کو وسعت عطا کی اور دنیابھر میں اس کے پیغام کو پہنچایا اور
اپنا، اپنے ادارے اور اپنی قوم کا سر بلند کیا۔مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ہر دو
لحاظ سے ادارے کے معاون تھے، وہ مفتی صاحب کی اس تحریک میں ان کا ہاتھ بھی بنے رہے
اور علمی دنیا کو اپنی وقیع تصانیف سے بھی نوازا۔دراصل یہ تینوں اس مشن کی تثلیث
تھے۔ندوۃ المصنّفین سے ان تینوں کا جسم و روح کا تعلق تھا، ان کے خلوص و محنت اور
بے مثال قربانیوں ہی کا نتیجہ تھا کہ چھ دہائیوں سے زائد عرصے تک یہ ادارہ بڑی خوش
اسلوبی سے چلتا رہا اور اپنے مشن میں کامیاب رہا۔
ندوۃ المصنّفین کے قیام کے مقاصد عظیم تھے جنھیں مندرجہ
ذیل نکات سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے
’’
اغراض و مقاصد ندوۃ المصنّفین
- وقت کی جدید ضرورتوں کے مطابق قرآن اور سنت کی تشریح و تفسیر کرنا۔
- وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق فقہ ِ اسلامی کی ترتیب و تدوین اس طرح کرنا کہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول کی قانونی تشریح کا مکمل نقشہ سامنے آجائے۔
- علما اور فارغ التحصیل طلبا کے لیے ایسے شعبۂ تحریر و تقریر کا قیام جس کا نصاب موجودہ ضروریات کے مطابق ہو۔
- ملک کے ان تصنیفی،
تالیفی اور تعلیمی اداروں سے خاص طور پر اشتراک ِ عمل کرنا جو وقت کے جدید تقاضوں
کو سامنے رکھ کر ملت کی مفید خدمات انجام دے رہے ہیں اور ایسے اداروں، جماعت اور
افراد کی قابل ِ قدر تالیفات کی اشاعت میں مدد کرنا بھی ندوۃ المصنّفین کی ذمے داریوں
میں شامل ہے اور اس ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔‘‘
(اسلامی علوم میں ندوۃ المصنفین کی خدمات:ایک مطالعہ،ڈاکٹر عبد الوارث خاں،اسلامک بک فائونڈیشن، نئی دہلی،1999،ص(11-10)
بلاشبہ مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے ملک کے چوٹی کے
علما، اسکالر اور قلمکاروں کو ندوۃ المصنفین کے پلیٹ فارم پر جمع کر لیا تھااور
اپنے اہداف سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کی اور اپنی محنت و لگن اور خلوص کی بنیاد
پر وہ کامیاب بھی ہوئے۔ مفتی صاحب نے آٹھ نو سال تک خون پسینے سے سینچ کر جس
ادارے کو شجرِسایہ دار و ثمر دار بنایاتھا وہ 1947کے خوں چکاں فسادات کی نذر ہوگیا،
قرول باغ میں قائم ندوۃ المصنّفین کا سارا سرمایہ ٔ علمی بیک دم راکھ کا ڈھیر بن گیا
لیکن مفتی صاحب کے عزم مصمم اور دل گردے کی ہی بات تھی کہ اسی راکھ سے دوبارہ
انھوں نے ندوۃ المصنّفین قائم کر لیا۔اب یہ ادارہ قرول باغ سے جامع مسجد دہلی کے
علاقے میں منتقل ہوگیا تھااور تازہ دم ہوکر ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف گامزن
ہوگیا تھا۔
ندوۃ المصنّفین نے اپنے معاونین کو ہر سال چار کتابیں
مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن 1939-1989 تک کی فہرستِ مطبوعات کو دیکھ یہ
اندازہ ہوتا ہے کہ ایک آدھ سال دو سے تین کتابوں کا سلسلہ بھی رہا مگر کئی بار ایسا
بھی ہوا کہ فی سال چھ چھ سات سات کتابیں بھی یہاں سے شائع ہوئیں۔ کئی نئے لکھنے
والے یہاں مصنف ہوئے اور کئی مصنّفین کو یہاں سے ملک بھر میں شہرت و مقبولیت حاصل
ہوئی اور کئی مشہور و مقبول مصنّفین و محققین نے اپنا قلمی تعاون پیش کرکے اطمینان
کا اظہار کیا۔قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی،مفتی ظفیر الدین مفتاحی،مولانا بدر
عالم میرٹھی،مولانا تقی الدین امینی،مولانا منت اللہ رحمانی،قاری محمد طیب قاسمی،مولانا
حامد الانصاری غازی، قاضی اطہر مبارکپوری،علی میاں ندوی اور علامہ سید مناظر احسن
گیلانی رحمہم اللہ وغیرہ کے اسمائے گرامی خصوصیت سے قابل، ذکر ہیں۔قاضی زین العابدین
لکھتے ہیں :
’’ندوۃ المصنّفین نے ہر سال چار کتابیں اپنے معاونین کو مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا۔یہ کتابیں التزام کے ساتھ شائع ہوتی رہیں، اور اب حضرت مفتی صاحب کے انتقال (1984) تک ان کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ متجاوز ہو چکی تھی۔ان میں حضرت مولانا سیوہاروی کی ’قصص القرآن‘ اور’ اسلام کا اقتصادی نظام‘،مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی’ فہم ِ قرآن‘اور ’ مسلمانوں کا عروج و زوال‘ اور مولانا بدر عالم میرٹھی کی ’ ترجمان السنہ‘ بہت مقبول ہوئیں۔میری بھی تین کتابیں ’ نبی ِ رحمت‘،’خلافتِ راشدہ ‘ اور’ خلافتِ بنی امیہ ‘ ابتدائی سالوں ہی میں شائع ہوئیں جو میری اولین قلمی کاوش ہیں۔‘‘(مفکر ِ ملت ۔۔۔ص45)
اس طرح ندوۃ المصنّفین نے علمی، دینی، تاریخی اور ادبی
کتابوں خاص طور پر اسلامی علوم پر مشتمل کتابوں کی اشاعت و ترویج میں حیرت انگیز
کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
ندوۃ المصنّفین کو اپنے مشن کو دور تک پہنچانے کے لیے ایک
رسالے کی بھی ضرورت تھی جو ذمے دارانِ ندوۃ المصنفین کے خواب کو شرمندۂ تعبیر
کرسکے اور کام کو وسعت دے سکے۔چناں چہ ادارے کے ساتھ اس کا ایک ترجمان بھی منصوبے
میں شامل تھااس لیے ندوۃ المصنّفین اور رسالہ ’ برہان‘ایک ساتھ منصہ شہود پر آئے۔
’اشاریہ برہان، دہلی‘ سے علم ہوتا ہے کہ جولائی 1938سے اپریل 2001 تک پورے 63سال یہ
رسالہ بغیر رکے اور بغیر تھکے جاری و ساری رہا۔ندوۃ المصنّفین اور رسالہ برہان
دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم رہے۔ اول روز سے اس کے مدیر مولانا سعید احمد
اکبرآبادی رہے۔ فروری 1943سے دسمبر 1945تک سینٹ اسٹفن کالج دہلی میں لکچرر مقرر
ہوجانے کی وجہ سے ڈھائی پونے تین برسوں کو منہا کرکے وہ اپنی وفات (مئی 1985)تک
برہان کے مدیر رہے۔اس وقفے میں مفتی صاحب ہی برہان کا اداریہ تحریر کرتے
رہے۔مولانا اکبر آبادی کے صاحب فراش ہوجانے کے بعد مارچ 1985سے مئی 1985تک مولانا
اظہر صدیقی نے اداریہ لکھااس کے بعد کچھ دنوں یہ ذمے داری جمیل مہدی مرحوم نے
نبھائی مگر اب باضابطہ برہان کی ادارت کی ذمے داری مفتی صاحب کے صاحبزادے عمید
الرحمن عثمانی کے سپرد ہوگئی اور اخیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ان حضرات کے علاوہ
برہان کی مجلس ادارت میں قاضی اطہر مبارکپوری،مولانا غلام محمد نورگت،ڈاکٹر معین
الدین بقائی،سید اقتدار حسین،عابد رضا بیدار،غفران احمد، محمد اظہر صدیقی،حکیم
محمد عرفان الحسینی، ڈاکٹر جوہر قاضی،محمود سعید بلالی جیسے علما و دانشور شامل
رہے ہیں۔ 1991سے 1995تک حکیم عبد الحمید چانسلر جامعہ ہمدرد، دہلی برہان کے سر
پرست رہے،اس کے بعد رسالے کے نگرانِ اعلیٰ حکیم محمد زماں حسینی رہے۔
مقدمہ
اشاریہ ماہنامہ برہان، دہلی،محمد شاہد حنیف،اوراقِ پارینہ پبلشرز، لاہور(س ن)ص (17-19)
بقول مولانا اکبر آبادی کے کسی ادارے کی کامیابی کے لیے
دوچیزیں ضروری ہیں۔ایک اہلیت و لیاقت دوسری خلوصِ نیت۔(برہان،دہلی،جولائی 1938)
مولانا ان دونوں شرطوں پر کھرے اترے اور برہان کو ایسا مقام عطا کیا کہ مجلاتی
صحافت کی تاریخ میں اس کے علمی، اسلامی، تحقیقی اور تاریخی کارناموں کوہمیشہ یاد
رکھا جائے گا۔
برہان کی خوش نصیبی تھی کہ اسے مولانا سعید احمد
اکبرآبادی جیسا مدیر ملا جن کی ذات دین و عصر کاحسین امتزاج تھی۔ نافع قدیم اور
صالح جدید کے پاسدار تھے،گروہ بندی ان کے مزاج کے خلاف تھی، وہ عالم و فاضل ہونے
کے ساتھ علم پرور اورعلم کے قدر شناس بھی تھے۔انھوں نے برہان کو اعلی معیار کا
رسالہ بنانے میں اپنی ساری صلاحیت صرف کردی۔وہ بنفس نفیس رسالے کی ترتیب کا پورا
کام انجام دیتے تھے۔اس کے ٹکر کا صرف ایک ہی رسالہ اس زمانے میں تھااور وہ اعظم
گڑھ کا معارف تھا، دونوں میں معاصرانہ چشمک بھی چلتی تھی تاہم دائرے سے آگے نہیں
اور کبھی دونوں ایک دوسرے کی تعریف بھی کرتے تھے۔
’نظرات
‘کے عنوان سے اس کا اداریہ ہوا کرتا تھا،یہ اداریے کبھی کبھی مختصر اور اکثر طویل
ہوا کرتے تھے اور حالاتِ حاضرہ کے مختلف جہات کا احاطہ کرتے ہوئے بڑے چشم کشا ہوا
کرتے تھے۔ وفیات کا بھی ایک مستقل عنوان تھا جس کے تحت مولانا نے ڈیڑھ سو سے زائد
مضامین لکھے۔اب ڈاکٹر تبسم صابر نے انھیں کتابی صورت دے کر شائع کردیا ہے۔ سید اختیار
جعفری کے مطابق مولانا اکبر آبادی کے وفیات پر لکھے کل 176چھوٹے بڑے مضامین ہیں۔(’اشاریہ
مولانا سعید احمد اکبرآبادی‘ سہ ماہی ’فکر و تحقیق، نئی دہلی،جنوری تا مارچ 2016)
ڈاکٹر سہیل شفیق نے 1938-2001تک کے جملہ وفیات کو مرتب کر دیا ہے جس میں تین سو سے
زائد شخصیات پر لکھے مضامین شامل ہیں۔نقد و نظر کے عنوان سے تبصروں کا بھی ایک
مستقل کالم تھا،اسی طرح سے کسی کتاب پر طویل تبصرے یا تبصراتی مضامین ’ باب التقریظ
والانتقاد‘ کے زیر ِ عنوان تحریر کیے جاتے تھے۔اس سلسلے میں مولانا بڑے معتدل اور
اصولی انسان تھے،وہ ایسے مواقع پر شخص کے بجائے فن پر نظر رکھتے تھے۔ان کے تبصرے
بھی کتابی شکل اختیار کرچکے ہیں اور ان کے اداریوں اور سفر ناموں پر بھی تحقیقی
کام جاری ہے۔ندوۃ المصنّفین کی بہت سی کتابیں پہلے قسط وار برہان ہی میں شائع ہوتیں
پھر کتابی شکل اختیار کرتیں۔ اُس وقت ہندوستان کا شاید ہی کوئی معتبر اردو کامحقق
ہوگا جو برہان میں نہیںچھپا ہوگا۔
’برہان
‘دین و عصر کا خوبصورت امتزاج اور اپنے زمانے کا ایک منفرد رسالہ تھا۔معروف نقاد
حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
’’ برہان کی جو ادبی، مذہبی خدمات رہی ہیں ان سے اہلِ دانش و بینش بخوبی واقف ہیں۔’برہان ‘ نے اردو زبان کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور زبان کے دائرے کو علمی و فکری اعتبار سے وسعت عطا کی۔ بہت سے اہم فکری اور ادبی مباحث کے ذریعے اردوداں طبقے کو آگاہ بھی کیا ہے اور ادب کو ایک نئی معنویت عطا کی،اسے مذہب، معاشرہ اور کلچر کے تناظر میں پرکھا اور اس کے افادی پہلو ئوں کو روشن کیا۔‘‘
(دارالعلوم
دیوبند: ادبی
شناخت نامہ،آل انڈیا تنظیم علمائے حق، نئی دہلی، 2006ص: (106-107
برہان کے امتیازات و خصوصیات پرمزید روشنی دالتے ہوئے
ڈاکٹر عفیرہ حامد لکھتی ہیں :
’’ یہ علمی و ادبی رسالہ تھا، اس نے مذہب، تاریخ، عمرانیات، لسانیات اور احادیث کو اپنے صفحات میں جگہ دی،’برہان‘ نے اردو زبان کے مسئلے کو شرعی نقطۂ نظر سے پیش کیا اور مختلف آیات کے حوالوں سے یہ بات ثابت کی کہ کسی قوم کی تہذیب و تمدن کا تحفظ اور بقا اس کی زبان میں مضمر ہے۔۔۔۔ ’برہان‘ کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے اردو زبان کے تحفظ کے لیے منفرد نظریے کو اپنایا اور شرعی نقطہ ٔ نظر سے اس کی وضاحت کی اس لیے اس کی ادبی خدمات کو اس دور کا ہر رسالہ تسلیم کرتا ہے جس نے دین اسلام اور تاریخ اسلام کو اردو داں طبقے میں دوبارہ زندہ کیا۔‘‘
)اردو
ادبی رسائل کا جائزہ، مخزن، لاہور،7بحوالہ دار العلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ،ص107)
آج جب کہ اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن منایا جارہا ہے اور اخبارات و رسائل اور ان کے مدیران کو یا د کیا جارہا ہے لیکن افسوس !دور دور تک اس عظیم رسالے کا کوئی ذکر نہیں ملتا جب کہ اہل علم و قلم جانتے ہیں کہ تریسٹھ برسوں تک مجلاتی صحافت کی دنیا میں ماہنامہ ’برہان‘دہلی کا کیسا دبدبہ رہا اور اس نے صحافتی میدان میں اپنے مدلل و مثبت اسلوب اور معتدل اور نرم لہجے کے ذریعے کیسا انقلاب برپا کیا تھا۔کاش اس کا سلسلہ مزید دراز ہوتا۔
Dr Mohammad Serjuddin
Assistant Professor
Islamic Studies MANUU Arts and Science College, Near KSERT College
Budgam Road, Humhama
Srinagar - 190021 (J&k)
Mobile :9899189028
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں