آشفتہ چنگیزی اپنی مختلف آواز اور لب و لہجے کے ساتھ جانے جاتے ہیں۔ آشفتہ چنگیزی نے غزل اور نظم دونوں صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ لیکن یہاں آشفتہ چنگیزی کی غزل گوئی کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔
شاعری در اصل محسوسات کی مرہون ہے ایک حساس طبیعت انسان
خصوصاً ایک شاعر کسی چیز کو روا روی میں نہیں لیتا وہ کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس
کی مشاہداتی حس جاگ پڑتی ہے اور وہ اس محسوس کی ایک واضح شکل احاطۂ تحریر میں لے
آتا ہے ؎
الاؤ ٹھنڈے ہیں لوگوں نے جاگنا چھوڑا
کہانی ساتھ ہے لیکن کسے سنائیں گے
اس شعر میں شاعر نے محسوس کیا ہے کہ دورِ حاضر میں کسی
کے پاس اتنا وقت نہیں کہ کسی کی آپ بیتی سن سکے۔ اس کی نظروں میں وہی منظر گھوم
گئے جب لوگ الاؤ کے پاس بیٹھ کر لمبی لمبی کہانیاں سنا کرتے تھے۔ شاعر کی ذات آج
بھی اپنے ماضی کی طرف گھوم رہی ہے۔ الاؤ علامت ہے جاگنے کی شعر بڑے سلیقے اور
عمدہ پیرایے میں کہا گیا ہے۔ شعر کی زبان صاف اور سادہ ہے۔شعر میں ماضی کا کرب بھی
ہے اور تہذیب کے شکست و ریخت کا بیان بھی معنی خیز ہے ؎
تمام جنگ کی تیاریا ں مکمل ہیں
بہے گی شہر میں نہرِ فرات بھی اک دن
مذکورہ شعر کی ہئیتِ لفظی سے پتا چلتا ہے کہ آشفتہ چنگیزی
حال کی جنگی تیاریوں میں مستقبل کی تباہی کا منظر دیکھ رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں
کہ یہ جنگی تیاریاں یہ خطرناک ترین جنگی سامان تباہ کاری کا پیش خیمہ ہے۔ان کا یہ
احساس کرب ناک اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔نہرِ فرات بغداد کی ایک نہر کا نام ہے۔جہاں معرکہ کر بلا
پیش آیا اور بہتر(72) اہلِ بیت کو اس
نہر کے کنارے شہید کر دیا گیا تھا۔ اس مقام کی نحوست کی منظر کشی کرتے ہوئے آنے
والے دور کی کربناک تصویر شعری قالب میں ڈھالی گئی ہے اس میں تلمیح کا پہلو موجود
ہے۔ آشفتہ چنگیزی تاریخی دستاویز پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ شعر کا بڑا کمال یہ ہے
کہ مضمون میں کسی قسم کا الجھاؤ نہیں ہے۔نہر فرات سے شعر میں معنویت کے ساتھ
وسعتِ بیکراں آگئی ہے۔ جس کی تشریح کے لیے کئی سو صفحات درکار ہیں ؎
جانے کیا افتاد پڑی
خواب میں اس کو دیکھا ہے
کہاوت ہے کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔ یعنی جب کوئی
چاہنے کی حدتک چاہنے لگتا ہے تو اس کی ذرا سی تکلیف کو بھی روح محسوس کرتی ہے۔ اسی
کیفیت کو آشفتہ چنگیزی نے شعری شکل دے کر محبت اورخلوص کے فلسفیانہ احساس کو بڑے
فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ یقیناً شاعرِموصوف محسوسات کے اسیرہیں۔ شعر فی
الواقع جتنا سادہ ہے اتنا ہی دلچسپ ہے
؎
اڑنے والا پنچھی کیوں
پنکھ سمیٹے بیٹھا ہے
اس شعر کی بحر جتنی چھوٹی ہے موضوع اس سے کہیں بڑا ہے۔
اتنے مختصر لفظوں میں کسی طویل موضوع کو سمو دینے کو ہی تو ’’کوزہ میں دریا کو بند
کرنا ‘‘ کہتے ہیں۔ اس شعر کے ذریعے شاعر دنیا کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ صاحبِ
استطاعت انسان کیوں کسی کا محتاج رہے اورکیوں کسی کی طرف حاجت مند نظروں سے دیکھے۔
اپنی صلاحیت و قدرت کو بروئے کار لائے اور سطح گردوں پر چھا جا ئے اپنے میسر ذرائع
کا بھر پور استعمال کرے بقول علامہ اقبال ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں
ہے‘‘۔موضوع بہت خوبصورت اور اپنے اندر ایک پیغام سمیٹے ہوئے ہے۔ شعر کی خوبی یہ ہے
کہ بہت ہی مختصر لفظوں میں ایک جامعِ پیغام کا مظہر ہے۔ اس کو آشفتہ کا کمالِ شعری
نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے ؎
اکھڑ تے جا رہے ہیں سارے خیمے
طنابیں کتنی ڈھیلی ہو گئی ہیں
یہ شعر آشفتہ چنگیزی نے خلیل الرحمن اعظمی کی یاد میں
کہا ہے۔ اس کے ذریعے بظاہر شاعرِ موصوف نے اعظمی کے گزر جانے کو شدت سے محسوس کیا
اور اپنے دلی تاثرات کو الفاظ کا قالب عطا کر دیا اور اپنے دلی درد کو کچھ کم کر لیا۔
لیکن شعر کی معنویت پر غور کیا جائے تو یہ شعر شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے
بزرگوںاور اساتذہ کو خیموں سے تشبیہ دینا وسعتِ ظرف و نظر اور سعادت مندی کی دلیل
ہے جس سے شاعر کے ظرف عالی کا پتا چلتا ہے۔ وقت کو طنا بوں سے تشبیہ دینا اور اساتذہ کو خیموں کے
مشابہہ لکھنا تشبیہات کا عمدہ استعمال ہے
؎
اتنی بارش ہی بھیج دنیا میں
ڈوب کے سارے لوگ مر جائیں
بسا اوقات ایک شاعر اپنی دنیا اور اپنے ماحول کی بے رخی
سے اتنا اثر لیتا ہے اور ایسی کیفیات کا شکار ہو جاتا ہے کہ اسے اپنی زندگی بار
لگنے لگتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ دنیا اور اس کے لوازمات آسمانی آفتوں کا
شکار ہو جائیں۔ مذکورہ بالا شعر ایسی ہی کیفیات کی دین ہے۔شعر کے تخلیقی محرکات کا
سبب شاعر کے اجتماعی لاشعور میں پیوست وہی واقعات ہیں جن کا تعلق انبیائے کرام کی
ذات سے وابستہ ہے اور انھوں نے اپنی قوموں سے تنگ آکر ان کے حق میں بد دعا کی تھی۔
یہ شعر انھیں تحریکات کا آئینہ دار ہے
؎
جو مڑ کے دیکھا تو ہوجائے گا بدن پتھر
کہانیوں میں سنا تھا سو بھوگنا ہے مجھے
شاعر کا احساس ان کو ائف کی نشاندہی کر رہا ہے جن کی
بدولت انسان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے تجربات اس کو خبر دیتے
ہیں کہ اس دنیا میں رہنا کوئی ہنسی کھیل نہیں۔ ذراسی چوک بڑے خسارے کا سبب بن سکتی
ہے۔دوسرا شعر تجربہ کا رانہ ذہن کی ترجمانی کر رہا ہے۔اس شعر میں شاعر کے مشاہدات
نے شاعر کی رگِ احساس کو زندہ رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ بدن پتھر کا ہو جانا ایک
علامت ہے مصیبتوں کے حاوی ہونے کی لفظ بھوگنا شعر کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا
ہے۔ انھیں احساسات کے ساتھ شعر میں اسعد بدایونی کی طرح اساطیری رنگ اور داستانی
روغن تحلیل ہے۔
سبھی کچھ تو دریا بہا لے گیا
تجھے اور کیا چاہیے آسماں
شعر میں معنویت ہے، مضمون صاف ستھرا ہے۔ شاعر نے ان
حوادت کی طرف اشارہ کیا ہے جب انسان مسلسل مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ مشکلات کے
علاوہ اس کے پاس کوئی اثاثہ ٔزندگی نہیں بچتا تو اس کے ہونٹوں پر کلماتِ شکوہ
آجاتے ہیں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اب تو سب کچھ ختم ہو گیا ہے اب
اور کیا بچا ہے جو اے آسماں تجھے پیش کیا جائے۔ در اصل آشفتہ چنگیزی احساس کے
شاعر ہیں اور ان کا احساس ہی ان کو حادثات کی وادی کا پتا دیتا ہے اور وہ اپنے
محسوسات کو صفحۂ قرطاس پر بکھیرنے کے فن سے واقف ہیں۔
جنوں کے قصوں پہ بچوں نے چونکنا چھوڑا
کہاں ہیں لوگ جو جی جان سے گزرتے ہیں
اگلے زمانے میں جنونِ شوق کے قصے منظرِ عام پر آتے
رہتے تھے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ عہدِ رفتہ کے لوگ وفا پرست اور محبت آشنا تھے ان
کا خلوص انھیں ہر قسم کے ایثار و قربانی کی ترغیب دیتا تھا اور وہ جان تک دینے میں
بھی تامل نہیں کرتے تھے۔ لیکن آج صورتِ حال دوسری ہے لوگ جذبۂ محبت سے بے بہرہ
اور خلوص و وفا سے نا آشنا ہیں۔ اپنے دور کی تصویر دیکھ کر بچوں کو اگلے زمانے کے
جنوں خیز قصوں پر یقین نہیں آتا اور وہ کسی حادثے پر نہیں چونکتے مذکورہ شعر دورِ
حاضر کا پوری طرح عکاس ہے ؎
طلوع ہوتا تھا بانگوں سے مرغ کی سورج
پرند پنجروں میں قرآں کا ورد کرتے تھے
شاعر کو عہدِ گزشتہ کی عظمت کا بے حد پاس ہے اور وہ اس
زمانے کی پاکیزگی کو ذہن کے پردوں میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ اس شعر کی وضاحت یہ ہے کہ
اگلا دور بہت ہی پاکیزہ اور اگلے لوگ بہت ہی خدا پرست اور اخلاص پرور تھے۔ سورج
آج بھی مرغانِ سحر کی بانگوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اور طائرانِ خوش الحان آج بھی
اس کی حمد و ثنا کے گیت گاتے ہیں اور اس کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں۔ بہر کیف شعر
برائے شعر خوب ہے ؎
موسموں سے دشمنی مہنگی پڑی
ورنہ سارے راستے ہموار تھے
مندرجہ بالا شعر میں یہ تاثر ملتا ہے کہ انسان خود ہی
اپنی راہیں مسدود کر لیتا ہے۔ آج کے دور میں کسی سے دشمنی کرنا اپنے راستے میں
کانٹے بچھانے کے مترادف ہے۔ مضمون معمولی ہے زبان مضمون کے عین مطابق صاف ستھری
ہے۔ اس کے باوجود شعر میں صداقت ہے۔ زبان استعاراتی ہے۔ موسم اور راستے کا تعلق بڑی
خوبی سے ظاہر کیا گیا ہے ؎
ہوائیں تیز تھی یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
شاعر تجربہ کار ذہن کا مالک ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بسا
اوقات انسان عمل کی راہ میں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتا ہے اور معمولی سی مشکل کو
سبب بنا کر عمل کا دامن چھوڑ دیتا ہے۔ مذکورہ بالا شعر میں ایسے ہی حادثے کی
ترجمانی کی گئی ہے۔ اندازِ بیاںمعنی خیز اور فلسفیانہ فکر کا آئینہ ہے۔ شعر کی
خوبی یہ ہے کہ شاعر کوتاہی عمل کا شاخسانہ عامل کے سر نہیں ڈالتا۔ بلکہ موافق
حالات کو کوتاہی عمل کا جواز ملتاہے۔ شاعر فطرتِ انسان کا گہرا مشاہدہ رکھتا
ہے ؎
لوٹ جاؤ زمیں پہ آشفتہ
کوئی دم خم نہیں خلاؤں میں
شاعر کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اپنی دنیا اور اپنے
جہاں سے بہتر کوئی جگہ نہیں لوگ خلاؤں کو سر کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ جب کہ
خلاؤں کے دامن میں ہمارے کرہِ ارض سے بڑھ کر کوئی حسین جگہ نہیں ہے۔اس شعر میں
اپنے وطن سے محبت کا مواد ملتا ہے۔ آشفتہ چنگیزی کی زبان نہایت سادہ اور پر اثر ہے ؎
دیواریں اتنی اٹھا ئیں کہ سانس گھٹتی ہے
کوئی تو راستہ رکھنا تھا آنے جانے کا
شاعر کا دل آج کے ماحول سے پریشان ہے وہ دیکھ رہا ہے
کہ آج کا انسان اتنا سنگ دل ہو گیا کہ پسِ ترکِ تعلق کی کوئی گنجائش بھی رسم و
راہ کی نہیں چھوڑتا ایسے ماحول میں کسی احساس پرور دل کو حالات کی کربناکی کا
احساس نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ شاعر جانتا ہے کہ کم از کم رسم و راہ کے دروازے
تو بلند نہ کیے جائیں۔ عہدِ حاضر کے لوگوں کے اس جاں گسل رویے کو چنگیزی نے اچھے
الفاظ عطا کیے ہیں دیواروں کی تخفیف کھٹکتی ہے دیواروں کو دیو اریں لکھنا ضعفِ تالیف
کے سوا کچھ نہیں ؎
ابھی تو راہ میں کتنے ہی صحرا باقی ہیں
خیال تک نہیں آتا ہے گھر بسانے کا
شعر اچھا ہے بڑے عمدہ پیرائے میں کہا گیا ہے۔ مضمون بھی
مناسب ہے۔ تجرباتی فکر کا حامل یہ شعر شاعرانہ ترکیب سے کہا گیا ہے۔ شاعر کا تجربہ
ہے کہ گھر بسانے کے لیے بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں درپیش مسائل و مراحل سے فراغت کے بعد ہی گھر
بسانے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ مذکورہ خیالات کے مطالعے سے شاعر کی تجربہ
کارانہ طبیعت کا پتا چلتا ہے۔ شعر نہایت سادہ اور پر اثر ہے ؎
مدت گزر گئی ہے یہی سوچتے ہوئے
بھولیں کسے کسے ! کسے رکھیں شمار میں
شاعر ربطِ باہمی کو بہت اہم جانتا ہے اور آپسی جان
پہچان کو سماجی اور انسانی ضرورت جانتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی کو یاد رکھنا اور کسی
کو بھول جانا انسانی فطرت کے منافی ہے لفظ مدت کے استعمال نے شعر کو بہت بلند ی
عطا کر دی ہے۔ ایک پل کے فیصلے کو ایک مدت کے بعد بھی طے کر پانا مشکل ترین مسئلہ
ہے۔ ایسے مضامین کو تاثراتی انداز میں پیش کرنا ہی قادر الکلامی ہے ؎
بھوت پیپل پہ اب نہیں رہتے
ورنہ کتنوں کو ہم ڈرادیتے
شاعر اپنے ماضی سے جدا رہنے کی سعادت کو بھولنا نہیں
چاہتا۔ اس کو عہدِ رفتہ میں بسنے والے انسانوں کی شرافت و محبت، خلوص و احترام اور
صداقت و سادہ دلی کے مناظر وکوائف پر ایک تحقیقی دسترس حاصل ہے۔ کتنا معصوم اور
سادہ دل انسان تھا اس دور کا پیپل پر بھوت کی کہانی کو صحیح مانتا تھا اور پیپل کی
حدود میں جاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا۔ اس کے بر عکس سائنسی دور کے نو عمر بچے بھی ان
باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ آشفتہ چنگیزی تاریخی معلومات سے بھی کافی دل چسپی
رکھتے ہیں اور ان کی نگاہ دور بیں مختلف موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔داستانی رنگ
کا یہ شعر اپنے اندر ایک معصوم کیفیت رکھتا ہے ؎
اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم
اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتا نہ تھا
شاعر کے تجربات و مشاہدات نے یہ آگاہی عطا کی ہے کہ
انسان خوب سے خوب تر کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہتا ہے اور اونچائیوں کی آخری
حدود تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ کہیں وہ اس حقیقت سے نا آشنا ہے کہ حدِ کمال کے
بعد زوال کی سر حد شروع ہو جاتی ہے اور ایسی ہر صورت بہر کیف تکلیف دہ ہوتی ہے
انسان اس منزلِ کمال کو بھی تکلیف کی جگہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس خیال کو شاعر نے شعری
قالب دے کر اپنے فنِ کمال کا لوہا منوایا ہے۔ حالانکہ مضمون فرسودہ ہے لیکن نئی
تکنیک سے پیش کیا ہے۔ جو اثر آفرینی سے خالی نہیں ؎
تیرے جیسا کون ملے گا
سوچ رہے ہیں گھر لوٹ آئیں
بہت ہی مختصر زمین میں کہا گیا عظیم شعر ہے۔ مضمون سے
قطع نظر شعر کی خوبی یہ ہے کہ تھوڑے سے لفظوں میں ایک طویل مضمون کو بڑی چابکدستی
سے شعری پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ شعر کے مضمون سے کردار کی عظمت کا پتا چلتا ہے
جو شاعر کا ذاتی وصف بھی ہو سکتا ہے۔ بہر کیف مضمون کی پاکیزگی میں کوئی شبہ نہیں
ہے۔شاعر کو اپنی غلطی کا احساس ہے۔ وہ نادم ہے اس کے شعور اور بصیرت کا تجزیہ
محبوب کی وفاداری کا محاسبہ کر رہا ہے
؎
ساتھ کہاں تک دیں گی آخر
ماؤں کی معصوم دعائیں
مذکورہ بالا یہ شعر بھی خوب ہے مضمون کو بہت وسعت دی جا
سکتی ہے۔ مختصراً یہ کہ شاعر اس شعر میں یہ بتانا چاہتا ہے کہ ماں کی دعاؤں کی بھی
ایک حد ہے انساں اگر گناہوں اور بد اعمالیوں کی دلدل میں گرتا ہی چلا جاتا ہے تو
ماں کی دعائیں بھی بے اثر ہو جاتی ہیں اور جزا و سزا کی بندشیں لاگو ہو جاتی ہیں۔
شعر شاعر کے تجربات کا نچوڑہے چنگیزی اپنی بات کو بڑی خوبی سے کہہ گئے ہیں۔ جس سے
ان کی شاعرانہ عظمت کا پتا چلتا ہے
؎
جن کے اڑنے کا ہے قلق اب تک
اپنے ہاتھوں میں ایسے طوطے تھے
یہ شعر شاعر کی جدت طرازی کا آئینہ ہے مضمون بھی
اچھوتا ہے۔ شعر کی تکنیک قابلِ داد ہے شاعر کو ان نعمتوں کے ضائع ہونے کا احساس ہے
جو زندگی کے لیے بڑی اہم تھیں۔ حاصل شدہ وسائل کو طوطے سے تشبیہ دی گئی ہے خوبی یہ
ہے کہ طوطا عشرت کی علامت ہے۔ ویسے شاعر موصوف نے بہت کم استعارات اور تشبیہات سے
کام لیا ہے ؎
جب بچھڑتے تھے وہ ملنے کی دعا کرتے تھے
ہم عجب لوگوں کی بستی میں رہا کرتے تھے
اس شعر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر موصوف ربط
باہم اور اخلاص و وفا کے قائل ہیں۔ ان کا تجربہ ہے کہ دورِ حاضر میں بھی لوگ ایک
دوسرے سے بچھڑتے ہیں تو از راہِ خلوص دوبارہ ملنے کی دعا کرتے ہیں۔ شاعر کے خیال میں
دنیا ابھی مخلص لوگوں سے خالی نہیں ہوئی شاعر کا مشاہدہ فکر ان کی شاعری سے نمایاں
ہے۔ شعر سچا اور اچھا ہے ؎
پچھلی مسافتوں کے نشاں دیکھتے چلیں
روشن ہے بزم شعلہ رخاں دیکھتے چلیں
شاعر اپنی عمر کے اس آئینے میں دیکھتا ہے جہاں دلنواز
مناظر اس کی دل لگی کا سامان ہوا کرتے ہیں۔ ان ہی کیفیات کو بڑی سادگی اور شستگی
سے پیش کیا گیا ہے۔ شعر پر جمالیاتی رنگ غالب ہے۔ جو روایتی شاعری کا آئینہ دار
ہے۔ لگتا ہے شاعر روایت کی پاکیزہ روش کو نہیںچھوڑ پارہا ہے۔
لگتا ہے کہ چنگیزی صنائع اور بدائع کی بھول بھلیوں میں
بھٹکنے کے قائل نہیں۔ جو کہنا ہے عوامی زبان میں کہنا ہے۔ یہ بھی ایک شاعرانہ وصف
ہے ؎
ہمارے نقش مٹانا بہت ہی مشکل ہے
ہزار دور ہوں آشفتہ یاد آئیں گے
شعر میں شاعرانہ تعلّی کا شبہ ہوتا ہے شاعر اپنی پر
وقار شخصیت اور خدا داد صلاحیتوں سے واقف ہے اور یہ جانتا ہے کہ دنیا ہمیں چاہ کر
بھی نہیں بھلا سکتی۔ ہماری ذات صدیوں پر محیط ہے۔ دنیا ہر دور میں ہمارے کمالات کا
لوہا مانے گی۔صاف گوئی شعر کا ذاتی وصف ہے۔ مضمون شاعر کے یقین کا مظہر ہے۔ زبان
نہایت سادہ ہے۔ شعر میں کلاسیکی انداز پایا جاتا ہے۔آشفتہ چنگیزی کے کلام میں
شوکتِ لفظی اور بے جا تکلفات کا شائبہ بھی نہیں زبان سادہ اور برجستہ ہے۔
قصہ مختصر آشفتہ چنگیزی کے غزلیہ مطالعے سے یہ اندازہ
بخوبی ہوتا ہے کہ وہ جو بات کہتے ہیں بالکل صاف اور سادہ لب و لہجے کے ساتھ کہتے ہیں۔
ان کے یہاں نہ صنائع بدائع کا دخل اور نہ ہی تراکیب کی اختراع۔ وہ اپنے تجربات و
مشاہدات کو پیش کرنے کے لیے محض پر شوکت لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو صنائع بدائع
اور تراکیب سے اکثر پاک ہوتے ہیں۔لیکن آشفتہ چنگیزی کا سب سے بڑا فنی کمال اور
شعری شعور یہی ہے کہ علم بدیع کے فقدان کے باعث بھی ان کے کلام میں تاثر، سحر انگیزی
اور رقت قائم رہتی ہے۔ ان کا کلام بے جان، بوجھل اور پژمردہ سا دکھائی نہیں دیتا۔ یہی
وجہ ہے کہ انھوں نے صنعتوں کی بھول بھلیوں اور تراکیب کی الجھنوں میں داخل ہونے کی
کوشش نہیں کی۔ الفاظ کے تفحص سے وہ اپنی وارداتِ قلبی اور لا شعور کی پرتوں سے
اٹھنے والے مواد کو شعری قالب میں ڈھالنا بخوبی جانتے ہیں۔ سپاٹ یک رخی لہجہ اور
سادہ الفاظ بھی دل کو مسحور و سرور کرتا ہے اور یہی ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔
Dr. Furqan Ahmed Sardhanvi
Near Deepak Furniture
Mohalla: Boodha Babu
Sardhana
Distt: Meerut (UP)
Mob.: 9927141402
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں