21/11/22

ندرت خیال کا شاعر شبنم گورکھپوری:عبدالرحمن

 

اتر پردیش کے مشرق میں راپتی ندی کے کنارے پر واقع ضلع گورکھپور اپنے وسیع دامن میں ادبی تاریخ کے انمول جواہرات چھپائے کہکشاں کی صورت ادبی افق پر روشن اور تابندہ ہے۔ مجنوں، فراق، پریم چند، مہدی افادی، اصغر گونڈوی، ریاض خیر آبادی، سلام سندیلوی، پروفیسر عبد الحق، پروفیسر محمود الٰہی، شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر شاہد حسین، پروفیسر قاضی افضال، پروفیسر قاضی جمال، عمر قریشی، ملک زادہ منظور احمد وغیرہ چند ایسے ہی روشن اور قابل ذکر اسمائے گرامی ہیں جن کی روشنی سے گورکھپور میں اردو ادب کی فضا منور اور تابناک ہے۔ انھیں مشہور ادبا میں شبنم گور کھپوری کا نام بھی شمار ہے۔

شبنم صاحب سے پہلی ملاقات پر میں ان کی ادبی حیثیت سے قطعاً ناواقف تھا۔ اس وقت میں نویں یا دسویں کا طالب علم تھا۔ شبنم صاحب انگریزی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ بچوں کو پڑھانا ان کے مشاغل میں تھا۔ میں نے بھی خود کو ان کے سامنے انگریزی پڑھنے کے لیے پیش کیا۔ مجھے یاد ہے انھوں نے مجھے صرف Present Indefinite Tense پڑھایا تھا لیکن یہ ہنر سکھا دیا کہ آگے پڑھنا کیسے ہے۔

شبنم گورکھپوری کی قربت نے میرے شعری ذوق کو پنکھ عطا کیے۔ بہت دنوں تک ان کی محفل میں میری حیثیت صرف ایک سامع کی رہی لیکن دھیرے دھیرے میری گویائی کو ان کی بزم میں اہمیت حاصل ہو نے لگی۔ میرے تئیں ان کا رویہ تا عمر دوستانہ رہا۔مگر میرے لیے وہ ہمیشہ استاد رہے، مخلص، مشفق اور مہربان استاد جنہوں نے زندگی کے تمام تجربے خواہ وہ کتنے ہی ذاتی کیوں نہ ہوں مجھ سے Shareکیے۔

شبنم گورکھپوری کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے، پیتے محفل میں، مسجد میں ان کی زندگی کو  میں نے بہت قریب سے دیکھا۔ بہت سی محرومیوں کے باوجود ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار کبھی نہیں محسوس کیے۔ اپنی زندگی میں وہ اپنے والد صاحب سے بہت متاثر تھے۔ ان کے والد ایک مذہبی شخص تھے۔شبنم گورکھپوری اکثر اپنے والد کی باتیں کرتے۔ انھیں اپنے والد کی شخصیت پر ناز تھا۔والدین کی تربیت ہی کا اثر تھا کہ شبنم گورکھپوری اعمال و کردار کے اعتبار سے بلندی کی معراج پر فائز تھے۔ شبنم گورکھپوری کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر فہمیدہ لکھتی ہیں :

’’خاندانی اثرات اور اسلامی تعلیمات نے انھیں متین اور سنجیدہ بنا دیا۔ طبیعت بہت سیدھی پائی تھی۔ بات کرنے کا انداز ہلکا پھلکا، لہجہ نہایت سنجیدہ، گفتگو کرتے وقت لبوں پر ہلکی پھلکی مسکراہٹ۔ یہ ان کی ادائے خاص شامل تھی۔ جب کبھی ادبی موضوع پر گفتگو کرتے تو دلیلوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔تلخ اور ترش بات پر چراغ پا نہیں ہوتے بلکہ آہستہ اور نرم روی سے جواب دیتے۔ علم و فضل کے مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود سب سے خاکسار انہ انداز میں ملتے تھے۔۔۔۔۔۔مفاد پرستی،حرص و ہوس سے اپنا دامن داغ د ار نہیں کرتے۔‘‘

شبنم گورکھپوری کے بقول انھوں نے پہلی مرتبہ آل انڈیا مشاعرہ جو کہ ان کے شہر گورکھپور میں منعقد ہوا تھا، شرکت کی۔ سنہ 1957 میں منعقد گورکھپور کے اس مشاعرے میں متعلقہ عہد کے مشہور و معروف شعراء کرام تشریف رکھتے تھے۔ مشاعرے کی نظامت مشہور ناظم مشاعرہ عمر قریشی صاحب فرما رہے تھے۔ شبنم گورکھپوری سب سے جو نیئر تھے۔ ان کے کلام سے مشاعرے کا آغاز ہوا         ؎

میرے رونے پہ رویا ابر ہنسنے پر ہنسی بجلی

فضاؤں پر اثر انداز ہے دیوانگی میری

شعر پر صدر مشاعرہ جگر مراد آبادی چونکے، نوجوان شاعر کی جانب نگاہِ تحسین ڈالی اور شعر مکرر پڑھوایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جگر مراد آبادی کا ترنم مشاعرے کا وقار ہوتا تھا۔ جگر مراد آبادی نے نوجوان شاعر کو پاس بلایا، سر پر ہاتھ پھیرا، دعائیں دیں اور فرمایا ’تمہارا مستقبل روشن ہے۔

ایک اور مشاعرے میں شعری بھوپالی کی صدارت میں نوجوان شاعر شبنم گورکھپوری نے غزل کا شعر          ؎

اب شکوہ کر کے آپ سے پچھتا رہا ہے دل

للہ سر اٹھائیے گھبرا رہا ہے دل

پڑھی تو مشاعرے کے کنوینر نے دست بستہ گزارش کرتے ہوئے کہا کہ شبنم صاحب جتنی بھی غزلیں یاد ہو ں پڑھ دیجیے۔

(کلیات شبنم گورکھپوری، مرتبین: ڈاکٹر مشیر احمد، اشفاق احمد عمر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 2014ء،ص 358,359)

شبنم گورکھپوری اپنے عہد کے شعرامیں منفرد شہرت رکھتے تھے۔ ان کی اس شہرت میں ان کی غزلوں کے ساتھ ساتھ ان کے ترنم اور مسحور کن آواز کا بھی دخل تھا۔ جگر مراد آبادی شاعر کے ساتھ ساتھ ترنم میں یگانہ حیثیت رکھتے تھے۔ شبنم گورکھپوری دھیرے دھیرے رنگ جمانے لگے تھے۔ انھیں جگر مراد آبادی کے بدل کے روپ میں دیکھا جانے لگا تھا۔ شومیِ بخت کہ معالج نے شب بیداری کو ان کی صحت کے لیے مضر قرار دے دیا، اس طرح مشاعرے کے اسٹیج سے شبنم گورکھپوری کا تعلق ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گیا۔

شبنم گورکھپوری کو P.hDنہ کر پانے کا تا عمر ملال رہا۔ ان کا ذہن تعلیم و تعلم سے مناسبت رکھتا تھا مگرتیرہ نصیبی کہ انھیں محکمۂ ریل سے محاسبی کے منصب سے سبکدوش ہونا پڑا۔

شبنم گورکھپوری یعنی ایک بہترین مترجم، عمدہ شاعر، شاندار مکتوب نگارکی (موصوف کی مکتوب نگاری کے تمام پہلو پردۂ خفا میں ہیں۔ راوی کو بہ زبان مکتوب نگار خود خوبصورت، شستہ و شگفتہ اور سادہ و سلیس خطوط کی سماعت کا شرف حاصل ہے ) ان کی تہہ دارشخصیت مادی عہد کی گوناگوں چیرہ دستیوں کا شکار ہو کر رہ گئی۔ اس طرح انھیں ان کی زندگی میں وہ شناخت اور پہچان نہ مل سکی جس کے وہ اصل حقدار تھے۔

نرم و لطیف جذبات کے حسین و دلکش شاعر شبنم گورکھپوری کی شخصیت اور تخلیقات کا قدر شناسی سے محروم رہ جانا شاعر کے ساتھ زیادتی اور ادب کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ مجنوں، فراق، محمود الٰہی اور سلام سندیلوی کے بعد جن اہل قلم نے اردو کے ادبی حلقوں میں گورکھپور کی نمائندگی کا ذمہ فخر سے اپنے کاندھے پر برداشت کیا ان میں شبنم گورکھپوری کا نام ادب و احترام کے ساتھ ذکر کیے جانے کے لائق ہے۔

غزل ایسی صنف شاعری ہے جس میں لاتعداد امکانات پوشیدہ و موجود ہیں۔ حیات و کائنات کے تما م موضوعات کا احاطہ کرنے اور انھیں چند لفظوں میں اداکرنے کا ملکہ اگر کسی صنف کو حاصل ہے تو بلاشبہ وہ غزل ہی ہے۔ غزل نے شاعری میں جمالیت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ جذبات و احساسات کی مختلف کیفیات و واردات کا بیان مختصر الفاظ میں پیش کیا ہے۔

شبنم گورکھپوری کا شعری سفر’ دل سے دل تک ‘کا ہے۔ ان کی پوری زندگی رومان سے عبارت ہے اور یہی جذبہ ان کی بیشتر شاعری میں بھی جھلکتا ہے۔ صنف غزل سے اپنی پسندیدگی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’اصناف سخن میں غزل مجھے اس لیے پسند ہے کہ اس میں آہستہ آہستہ بہنے والے دریا کی لہروں سے ابھرتا ہوا سنگیت ہے۔ جس میں اوس بھی ہے اور نرمی بھی، کیف بھی ہے اور مستی بھی۔ غزل ادب کی اونچی چٹان سے گرا ہوا وہ جھرنا ہے جس کی آواز میں نہ جانے کتنی معصوم دوشیزائیں اپنے ریشمی بال کھولے ڈوبتی ابھرتی نظر آتی ہیں۔ غزل ایک خوشبو ہے جو ذہنوں کو مہکاتی ہے اور دلوں کو تڑپاتی ہے۔ غزل ایک کسک ہے جو نئے پرانے زخموں کو چھیڑتی بھی ہے اور مرہم بھی لگاتی ہے۔ اس میں روح کو چھو لینے والی ایک ناقابل بیان لذت ہے۔ یہ ایک مہکتا ہو اپھول ہے جس پر خیالات کی شبنم ٹپکتی ہے اور لفظوں کے موتی بکھرتے ہیں۔ غزل میں حسن مسکراتا ہے، عشق پہلو بدلتا ہے اور دھڑکنیں انگڑائیاں لیتی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کی عکاس بھی ہے اور فطرت کی ترجمان بھی۔ اس میں صدیاںکروٹیں لیتی ہیں، لمحے مچلتے ہیں اور وقت جاگتا رہتا ہے۔

غزل میرا پیار ہے

غزل میری محبوبہ اور

غزل میری زندگی کا حسین شاہکار

( مشمولہ، کلیات شبنم، مرتبین ڈاکٹر مشیر احمد، اشفاق احمد عمر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،  2014)

شبنم گورکھپوری کی غزلیہ شاعری تغزل کی رنگینی، عشق کے متواتر بیانات، اس کی مختلف کیفیات اور عشقیہ جذبات کی گرمی سے عبارت ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا اس میںاتنی سلاست، روانی اور بر جستگی ہے کہ خیالات براہِ راست دلوں میں جاگزیں ہوجاتے ہیں۔ ان کی پہلی غزل کے چند اشعار بطور مثال پیش کرتا ہوں ملاحظہ کیجیے         ؎

کاغذ پہ قلم تیرا رک رک کے چلا ہوگا

جب پہلے پہل تونے خط مجھ کو لکھا ہوگا

جس پیڑ کے نیچے دل ہم دونوں کے دھڑکے تھے

اس پیڑ کا سایہ بھی رومان بھرا ہوگا

ان ریشمی پلکوں پہ کچھ دیپ جلے ہوں گے

جب میری محبت کا احساس ہوا ہوگا

شبنم گورکھپوری نہایت حساس اور درد مند دل رکھنے والے خود دار اور وضع دار شخص تھے۔جن کا واسطہ بعض دفع زندگی کی تلخ حقیقتوں اور محبت کی سفاکیوں سے بھی پڑتا ہے۔ وہ اس سے نظریں چرانے کی بجائے اسے من و عن شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ خود اعتمادی شبنم گورکھپوری کی شخصیت اور فن کے اہم جزو ہیں۔ خواہ میدانِ عشق ہو یا زندگی کی ناہمواریاں اور دشواریاں، شبنم گورکھپوری مایوسی کو کبھی قریب نہیں آنے دیتے۔ ان کی شاعری میں رنج و غم، الم وحزن، امید و بیم، فرط و نشاط کے دوش پر سفر کرتے ہیں۔ اس سے متعلق چند اشعار ملاحظہ کیجیے           ؎

اخفائے غم عشق کا اللہ رے عالم

روتا ہوں اور آنکھ مری نم بھی نہیں ہے

——

تیرے انتظار میں بے خبر یہی کیفیت رہی رات بھر

کبھی آنکھ تھی میری سوئے در کبھی رہ گزر پہ نظر گئی

——

جنوں بیدار ہو جاتا ہے آغاز محبت میں

یہ دل بیگانۂ انجام کیوں ہے ہم سمجھتے نہیں

——

اب شکوہ کر کے آپ سے پچھتا رہا ہے دل

للہ سر اٹھائیے گھبرا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل

——

ہماری آنکھوں سے اشک خونیں اگر مسلسل بہا کریں گے

غموں کی تاریک منزلوں میں دیے شفق کے جلا کریں گے

چمک اٹھیں گی سیاہ راتیں اڑے گی جب گیسوؤں کی افشاں

حیات کی ظلمتوں کو روشن یہ ننھے تارے کیا کریں گے

——

مری گستاخیوں پہ نہ کیجئے نظر

مجھ سے دیوانگی میں خطا ہو گئی

شبنم گورکھپوری اردو کے مایہ ناز ناقد مجنوں گورکھپوری کے شاگرد تھے اور انھیں اس بات کا فخر تھا کہ مجنوں جیسی قد آور شخصیت ان کے اساتذہ میں شامل ہے۔ نہ صرف اتنا ہی بلکہ یہ بھی کہ شبنم تخلص بھی استاد ہی نے ان کے لیے پسند فرمایا تھا۔ استاد شاگرد ایک دوسرے سے بے لوث محبت کرتے تھے۔ اسی جذبۂ محبت سے سرشار شبنم گورکھپوری استاد سے ملنے کے لیے کراچی جا پہنچے، جب کہ ڈاکٹر نے انھیں شب بیداری کے ساتھ ساتھ سفر نہ کرنے کی سخت ہدایت کر رکھی تھی۔اپنے اس شاگرد کے حوالے سے استاد (مجنوں گورکھپوری ) کا خیال ہے :

’’ مسیح الزماں (شبنم گورکھپوری) میری زندگی کے اس نصاب کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی میں آج تک اپنی حرکات و سکنات اپنی زبان اور قلم سے تبلیغ کرتا رہا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ وہ ایک سچے اور اچھے شاعر ہیں۔

میں ایک سے زائد بار کہہ چکا ہوں کہ شعر بنیادی طور پر غزل ہوتا ہے یعنی دو ہموار اور ہم زبان مصرعوں میں ایک مکمل احساس یا خیال کے اظہار کا نام غزل ہے مسیح الزماں کا یہ مجموعہ (پھول اور شبنم) میرے خیال کی تائید میں شہادت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘

(مشمولہ: کلیات شبنم گورکھپوری : مرتبین: ڈاکٹر مشیر احمد، اشفاق احمد عمر، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 2014ص 88)

ایجاز غزلیہ شاعری کا حسن ہے اور اس کا اعجاز سمجھا جاتا ہے۔ شبنم گورکھپوری نے چھوٹی بحر وں کے انتخاب سے ایسے شاہکار اور عمدہ نمونے اور خیالات ادا کیے ہیں جنھیں پڑھ کر جی خوش ہو جاتا ہے، چھوٹی بحروں کی یہ غزلیں بھرپور موسیقیت، ترنم اور نغمگی سے پر ہیں۔ شبنم نے ذیل کے اشعار میں مختلف موضوعات مختصر الفاظ میں بحسن خوبی ادا کیا ہے ملاحظہ کیجیے         ؎

کیسے کٹیں غم کے لمحات

ناگن بن گئی کالی رات

ایک حقیقت سو افسانے

ایک محبت لاکھوں بات

وہ محبت تھی جو فسانے میں

اب کہاں رہ گئی زمانے میں

دیکھ کے رکھیے پاؤں زمیں پر

ہر ذرّہ بے جان نہیں ہے

شبنم گورکھپوری نے غزلوں کے علاوہ نظم، حمد، نعت، منقبت اور قطعات پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ جذبۂ وطن،  ہند کے نوجوانو،  شجاعت کی قسم میں ملک سے محبت اور وطن دوستی کا جذبہ نظر آتا ہے جب کہ احساس، نغمۂ عشق، عالم تنہائی، پیکر حسن، یادماضی، محبوب غزل، سحر ہونے تک  اور لمحۂ جدائی میں عشق و محبت کی کیفیات کا بیان ملتا ہے۔ ان کے قطعات بھی محبت کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ شبنم گورکھپوری کی شاعری سے متعلق پروفیسر اصغر عباس کا خیال ہے ۔

’’ شبنم صاحب نے غزلیں اور نظمیں بھی کہی ہیں ساتھ ہی قطعات بھی اور ان سب میں جو عنصر سب سے نمایاں ہے وہ ان کی طرفگیِ ادا اور ندرتِ خیال ہے۔ یہی نہیں ان کے قطعات بھی فکر کی جدت اور فن دونوں اعتبار سے کھرے ہیں۔‘‘   (ایضاً ص38)

پروفیسر محمود الٰہی کہتے ہیں:  

’’شبنم صاحب کا شمار اچھے غزل گویوں میں ہوتا ہے لیکن انھوں نے بعض دوسری اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ حب الوطنی پر انھوں نے نظمیں کہی ہیں جو روایتی نہیں ہیں۔ انھوں نے نظم گوئی میں بھی نئی روش اختیار کی ہے۔‘‘ (ایضاً ص 85)

ایک شاعر کے فن کی پختگی کا اندازہ اس سے بھی کیا جاتا ہے کہ وہ مقطع میں اپنا تخلص کس فنکاری اور مہارت کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔بہترین مقطع وہ ہے جس پر اگرشاعربط یعنی علامت تخلص کا استعمال نہ کرے تو تخلص کا گمان بھی نہ گزرے بلکہ مقطع تخلص لفظ کے لغوی معنی پر ہی دلالت کرے۔ متقد مین شعرا میں مومن اس فن کے استاد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ مومن کے بعد اگر کسی شاعر نے مقطع میں اپنا تخلص فنکاری، مہارت اور چابکدستی کے ساتھ استعمال کیا ہے تو وہ بلا شبہہ شبنم گورکھپوری ہیں۔ انھوں نے اپنی جودتِ طبع اور فن پر مکمل دسترس کی بنا پر ایسے عمدہ مقطعے تخلیق کیے ہیں جس کی مثال عہد حاضر تک کے شعرا میں خال خال ہی نظرآتی ہے۔ چند مثال ملاحظہ  کیجیے           ؎

پھول پہ گرنا دیکھ کے شبنم

نکہتِ گل بے جان نہیں ہے

——

کانٹے تو ہیں شاداب مگر صحن چمن میں

پھولوں کے لیے قطرہ شبنم بھی نہیں ہے

——

کلیوں کے تبسم پہ نہ جا شبنم گریاں

ہر پھول ترے اشکوں سے تر ہے کہ نہیں ہے

شاعر کے علاوہ شبنم گورکھپوری کی دوسری مکمل شناخت مترجم کی ہے۔ انھوں نے شیلی، کیٹس اور کولرج کی نظموں کے کامیاب ترجمے کیے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اردو کی سو غزلوں کا انگریزی میں ترجمہ کریں، انھوں نے یہ کام شروع بھی کردیا تھا اور غالباً ستّر یا کچھ زائد غزلوں کے ترجمے مکمل بھی کر لیے تھے۔ مسلسل صحت کی خرابی کے باعث یہ عمل بار بارملتوی ہوتا رہا۔ پھر۔۔۔۔۔ زندگی داغِ مفارقت دے گئی اور ان کا یہ عظیم کارنامہ منظر عام پر نہ آسکا۔ میری ذاتی کوشش ہوگی کہ میں شبنم صاحب کی اس کاوش کو قارئین تک پہنچا سکوں یہی ایک شاگرد کا استاد کے لیے خراج ہوگا اور گورکھپور کی ادبی سرزمین کو ایک ادنیٰ خادم اردو کا تحفہ بھی             ؎

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے

یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

(پروین شاکر)   


Dr. Abdur Rahman

Uttar Pradesh Rajarshi Tandon Open University

Shantipuram,

Prayagraj - 211013 (UP)

Mob.: 9454644599


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...