علوم وفنون کی قدیم میراث ہمارا عظیم سرمایہ ہے جن زبانوں میں قدیم علوم وفنون تصنیف و تالیف کیے گئے آج وہ زبانیں عملی طور پر موجود نہیں یا موجود تو ہیں مگر ان کے سمجھنے والے محدود تعداد میں ہیں۔قدیم علوم ومعارف اور علمی ذخیروں سے استفادے کا ذریعہ ترجمہ ہے۔ ترجمے کے ذریعے بہت سے ایسے علوم وفنون ہم تک پہنچے ہیں جو ترجمے کے بغیر ناپید ہو جاتے۔ہندوستان میں جو زبان قدیم زمانے میں علوم وفنون کی زبان رہی ہے اور جس زبان نے بہت ترقی اور عروج حاصل کی وہ سنسکرت زبان ہے۔سنسکرت زبان میں بہت سی مذہبی علمی اور ادبی کتابیں تصنیف کی گئیں۔ان کتابوں کے ہر زمانے میں اس وقت کی رائج زبان میں تراجم ہوتے رہے ہیں۔ ان کتابوں کی اہمیت افادیت اور وقعت سے انکار ممکن نہیں،سنسکرت زبان میں رامائن، مہابھارت، گیتا، وید، پر ان وغیرہ مشہور ایسی کتابیں ہیں جنھیں ہندو عقائد میں بنیادی مقام حاصل ہے۔سنسکرت ادب میں نظم کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے،نثری نمونے بھی موجود ہیں۔رامائن اور مہابھارت کے قصوں سے ہمارے کان بچپن سے آشنا ہوتے ہیں۔ان قصوں پر مشتمل ٹی وی سیریل بھی بنائے گئے انھیں مقبولیت بھی حاصل رہی۔سنسکرت زبان اور اس کے ادبی نمونوں کے بارے میں سید سخی حسن نقوی لکھتے ہیں:
’’سنسکرت
زبان انڈو یورپین زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔حضرت عیسیؑ سے تقریباً دو
ہزار برس پہلے جب آریہ ہندوستان آئے تو وہ اپنے ساتھ اس زبان کو ہندوستان
لائے۔رگ وید کی بعض مناجاتوں میں اس کے بالکل ابتدائی طرز کے نمونے موجود ہیں۔اس
عہد میں ادبی زبان اور بول چال کی زبان میں زیادہ فرق نہیں تھا لیکن جوں جوں زمانہ
گزرتا گیایہ فرق وسیع تر ہو تا گیا۔ادبی زبان پر مذہبی رنگ چڑھ گیا اور آگے چل کر
اس نے کلاسیکی حیثیت اختیار کر لی۔
اسی
سنسکرت کو جو وید وں کی زبان تھی،دیسی لوگ جن پر آریوں نے تسلط قائم کیا تھا،اپنے
آقاؤں سے لین دین اور بات چیت میں استعمال کرتے تھے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی اثرات نے زبان کے روز مرہ میں تلفظ اور
لب ولہجے کا فرق پیدا کر دیااور جیسے جیسے آریہ ملک کے دوسرے حصوں میں پھیلے اس میں
مقامی اور علاقائی تبدیلیاں پیدا ہو گئیں۔حاکم و محکوم کے میل جول اور باہمی
ارتباط نے پراکرت زبانوں کو جنم دیا جو مختلف ارتقائی منزلوں سے گزر کر ماگدھی،پیشاچی
اور مہاراشٹری کی صورت میں ظاہر ہوئیں۔
سنسکرت
کے لغوی معنی ہیں ’صیقل کیا ہوا‘اور پراکرت کے معنی ہیں ’قدرتی‘ یا ’فطری‘ جیسے جیسے
سنسکرت کی بول چال کی زبان اور ادبی زبان میں فرق بڑھتا گیا اس کے قواعد پیچیدہ
اور اسلوب نگارش پر تکلف اور مرصع ہوتا گیا۔اس کا استعمال اعلیٰ طبقوں میں محدود
ہو گیا اور عوام میں پراکرت زبانیں مقبول ہو گئیں اور آپس میں لین دین اور اظہار
ِخیال کا ذریعہ بن گئیں۔
‘‘
(ہمارا قدیم سماجسید سخی
حسن نقوی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی، 1998، ص 77,78)
اب
ہم کچھ سنسکرت کی کتب اور ان کے تراجم کے بارے میں گفتگو کریں گے جس سے اردو زبان
و ادب پر سنسکرت کے اثرات کی وضاحت ہوگی۔رامائن ہندومت کی مشہور ومعروف کتاب ہے سات
فصلیں اور چوبیس ہزار اشعار اس کتاب میں شامل ہیں۔اس کتاب میں والمیکی نے رام چندر
جی اور سیتا کی زندگی کے حالات بیان کیے ہیں۔رام چندر کی پیدائش، بچپن، شادی،
بنواس، راون کا سیتا جی کو اغوا کر کے لے جانا ان کو دوبارہ حاصل کیا جانا،راون کی
شکست وموت اور رام چندر جی کی پھر ایودھیا واپس آنے کے حالات بیان کیے ہیں۔رامائن
کے تراجم کئی لوگوں نے کیے ہیں ایک ترجمہ ملک الشعرا ء دوار کا پرشاد افق لکھنوی
نے کیا ہے۔دوارکا پرشاد افق 1804 میں پیدا ہوئے اور 1913 میں وفات پا گئے۔ان کی
رامائن کا پہلا ایڈیشن منشی نول کشور پریس لکھنو میں چھپا۔منشی شنکر دیال فرحت نے
بھی رامائن کا ترجمہ مثنوی کے طور پر کیا تھا1862 میں پہلی بار منشی نول کشور پریس
کانپور سے اس کی اشاعت ہوئی۔ رامائن کا ایک ترجمہ ہریانہ کے ضلع حصار کے رہنے والے
سردار جسونت سنگھ نے ایک ناٹک کے طور پر کیا ہے۔جس میں بڑے خوبصورت مکالمے ہیں۔رامائن
کا ایک ترجمہ شری صاحب رام کا بھی ملتا ہے۔اس رامائن کی تیسری اشاعت 1941 میں ہوئی
تھی۔
اس
اہم کتاب کے یہ چار تراجم اس کی عظمت اور مقبولیت کی دلیل ہے وہیں اردو زبان کی
آفاقیت اور وسعت پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ہندوؤں کی مقدس مذہبی کتابوں میں ایک کا
نام مہابھارت ہے۔ مہابھارت میں کوروؤں اور پانڈوؤں کی زندگی اور کارناموں کی
داستان ہے۔کروکشتر کے میدان میں کوروؤں اور پانڈوؤں کے درمیان جو جنگ لڑی گئی
اسے ہی مہا بھارت کہتے ہیں۔مہابھارت میں دونوں طرف سے سخت معرکہ ہوا اور بہت کشت
خون ہوا،پانڈوؤں کی فتح ہوئی۔اسی کہانی کو مہابھارت میں بیان کیا گیا ہے لیکن مہا
بھارت ایک رزمیہ نظم ہی نہیں بلکہ اس کے اندر تعلیم وتربیت کے لیے مذہب،
اخلاق،فلسفہ اور بہت سی اس طرح کی چیزیں بھی موجود ہیں۔ مہابھارت کے بہت سے تراجم
ہیں، سکھ دیال سنگھ نے مہا بھارت کے دوسرے اور تیسرے حصہ کا ترجمہ ڈراما کی شکل میں
کیا ہے جو مفید عام پریس آگرہ سے 1893 میں شائع ہوا۔پنڈت سورج بھان بھارگو کا
اردو ترجمہ منشی نول کشور پریس لکھنؤ سے چھپ کر منظر عام پر آیا۔ دین دیال دنیش
نے مہا بھارت کا اردو میں نثری ترجمہ کیا ہے جس کی اشاعت دیہاتی پستک بھنڈار دہلی
سے ہوئی۔منشی نول کشور پریس لکھنؤ سے ایک اور منظوم ترجمے کی اشاعت 1905 میں ہوئی
جس کے مصنف طوطا رام شیام ہے۔
سنسکرت
زبان میں شاہکار نظم جز شری مد بھاگوت گیتا ہے جواٹھارہ ابواب سات سو اشلوکوںپر
مشتمل ہے۔ اس کتاب کو مہا رشی وید ویاس نے پانچ ہزار سال قبل نظم کیا تھاجب ارجن
نے اپنے ہتھیارڈال دیے تو شری کرشن جی نے عمل حیات اور کائنات کے فلسفے سے ارجن کو
واقف کرایا۔ یہ کتاب شری کرشن جی اور ارجن کے سوال وجواب کی شکل میں ہے۔ہندوؤں کے
مذہبی صحائف میں یہ کتاب اپنی تعلیمات میں لافانی اور لاثانی ہے۔ اس کی مقبولیت کا
عالم یہ ہے کہ اکثر محفلوں میں اپنی بات کو مدلل کرنے کے لیے لوگ بے تکلف گیتا کے
اشلوک پڑھ دیتے ہیں۔اس کی عظمت اور وقعت کی وجہ سے بکثرت تراجم ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب
علی اردو زبان میں گیتا کے تراجم اور گیتا کی اہمیت افادیت اور عظمت کو بیان کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
’’گیتا ایک
عظیم تصنیف ہے اور اس کی عظمت واہمیت کو غالباً ہندوستان نے سب سے زیادہ تسلیم کیا
ہے۔چنانچہ ہندوستانی زبانوں نے گیتا کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اور اسی سے اپنے دامن
کو مالا مال کیا ہے۔اس عظیم تصنیف کے سب سے زیادہ تراجم ہندی میں ملتے ہیں اس کے
بعد جس زبان نے اپنے دامن کو کشا دہ کیا وہ اردو ہے۔ڈاکٹر نثار احمد فاروقی کے
مطابق اردو زبان میں صرف مسلمانوں نے گیتا کے 32یا 33 ترجمے کیے ہیں اور سلطان
احمد صدیقی کو اردو کے پچاس ترجموں کا سراغ لگا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ سے
معلوم ہوا ہے کہ اردو میں گیتا کے منظوم ترجموں کی تعداد31 اور منثور ترجموں کی
تعداد 67 ہے۔ اس طرح اردو میں منظوم اور منثور ترجموں کی کل تعداد 98 ہے۔
بھگوت
گیتا کا سب سے قدیم اردو ترجمہ نثر میں ملتا ہے جسے منشی کنہیال عرف الکھ دھاری نے
’گیان پرکاش‘ کے عنوان 1863 میں گیانی پریس اکبرآباد(آگرہ)سے شائع کیا ہے۔اسی
طرح منشی شیام سندرلال نے 1884 میں ایک کتاب ’بھگوت گیتا مع اردو ترجمہ‘ کے عنوان
سے شائع کی۔اس کتاب میں پہلے سنسکرت میں اشلوک درج ہیںپھر ترجمے کے ساتھ متن اور
اس کی شرح اردو میں بیان کی گئی ہے۔ ’بھگوت گیتا‘ ہی کے عنوان سے منشی دہلوی پرشاد
نے گیتا کا آسان اردو ترجمہ کیا جو 1913 میں رام پریس میرٹھ سے چھپا۔اس کتاب کی ایک
خصوصیت یہ ہے کہ ترجمے سے پہلے ہر باب کے مضمون کا خلاصہ مترجم نے رقم کیا ہے۔ ‘‘
(ہندوستانی اساطیر اور فکر وفلسفہ کا اثراردو زبان و ادب پر،مرتب پروفیسر قمر رئیس،اردو اکادمی،دہلی، 2018ص، 273,274)
گیتاکی
شہرت اور عظمت کی وجہ سے اس کے کثیر تراجم ملتے ہیں مختلف ناموں سے گیتا کے تراجم
ہوئے ہیں منشی جگن ناتھ پرساد عارف نے سر چشمہ عرفان،روشن لال ایم اے نے اکسیر
روح،منشی بشیشور پرساد منور لکھنوی نے نسیم عرفان،پنڈت یوگی راج نظر سوہانوی نے
کلام ربانی، محمد اجمل خاں نے بھا گوت گیتا یا نغمۂ خدا وندی، قاضی محمد نیر صدیقی
نے اسرار معرفت کے نام سے اس کتاب کے تراجم کیے ہیں۔پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے
مضمون نسیم عرفان بھاگوت گیتا کے ایک ترجمے میں اس کتاب کے اردو منظوم منثور تراجم
کی فہرست پیش کی ہے جن کی تعداد تیئس ہے۔ڈاکٹر انصار احمد نے گیتا کے اردو تراجم
اور شیو برت لعل کے موضوع پر ایک مضمون لکھا ہے جس میں جدید گیتا کے بارہ تراجم کا
ذکر کیا ہے۔اس قدر کثرت سے ترجمے اس بات کے غمار ہیں کہ یہ کتاب نہایت مقبول بھی
ہے اور قدر و منزلت کی حامل بھی ہے۔ ان تراجم کے ذریعے گیتا کی تعلیمات اور اس کا
فلسفہ اردو داں طبقے تک پہنچا ہے۔
قدیم زمانے میں مذہبی کتابوں کے علاوہ
سنسکرت زبان میں قصے وکہانیاں لکھی گئیںجن کی مقبولیت قدیم زمانے سے آج بھی قائم
ہے۔ہندوستان میں ’پنچ تنتر‘ کے نام سے وشنو شرما نے ایک کتاب تیار کی۔وشنو شرما نے
یہ ادبی سرمایہ سنسکرت زبان میں پیش کیا تھا۔یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے حقیقت
میں شہزادوں کو اخلاقی تعلیم دینے کے لیے درسی کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔اس کتاب کی
توقع سے بڑھ کر مقبولیت حاصل ہوئی اس مقبولیت کی وجہ اس کتاب کی عظیم مقصدیت اور
ناصحانہ انداز بیان ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت و شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ دنیا کی تقریباً پچاس زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔اردو میں عربی
زبان کی معروف کتاب سے بھی اس کتاب کے تراجم ہوئے اور فارسی زبان سے بھی اسے اردو
میں منتقل کیا گیا۔پنچ تنترکا یہ قصہ بڑا مشہور ہے عربی زبان میں عبداللہ ابن مقفع
نے پنچ تنتر کا نہایت فصیح و بلیغ ترجمہ کیا تھا۔ فارسی میں یہ کتاب انوار سہیلی
کے نام سے شہرت رکھتی ہے۔ عربی اور فارسی دونوں زبانوں سے یہ اردو میں منتقل ہوئی،عربی
زبان سے اس کا ترجمہ مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی نے کیا۔ ’کلیلہ و دمنہ‘کا یہ
ترجمہ 2014میں منظر عام پر آیاجبکہ فارسی کتاب انوار سہیلی کا ترجمہ بھی اردو
زبان میں کیا گیا ہے۔اردو میں اس کتاب کے مترجمین میں فقیر محمد گویا،شیخ حفیظ الدین
اطہر پرویز،راز اکبر آبادی،بشاش بھوپالی،ڈاکٹر سید علی،منشی محمد ابراہیم بیجا
پوری شامل ہیں۔
سنسکرت
کے کلاسیکی ادب میں کالی داس کو بڑی اہمیت حاصل ہے اسے کوی کل گرو
(استادالشعراء)کہا جاتا ہے دلچسپ اور پروقار انداز میں بہترین موضوعات پر کالی داس
نے روشنی ڈالی ہے۔اس کی تصانیف کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کالی داس صاحب ِعلم
وفضل تھا۔وہ زندگی کے جذبات سے واقف غور وفکر کا ماہر اور مناظر قدرت کا عاشق
تھا۔کالی داس کی تصانیف کو کلاسیکی سنسکرت میں اہم مقام حاصل ہے کالی داس کی تخلیقات
کی تعداد سات ہے۔میگھ دوت، رتو سنگھار، رگھوونش، کمار سمبھویہ چار اس کی شاعرانہ
تصانیف ہیں۔کالی داس نے تین ڈرامے بھی لکھے ان ڈراموں پر مشتمل کتابوں کے نام مال
وکاگن متر،وکرم اروسی،ابھگیان شاکنتلم۔کالی داس کی کتاب میگھ دوت کا ترجمہ رانا
پرتاپ سنگھ راناگنوری نے کیا ہے جس کی اشاعت پاپولر پبلیکیشن بازار چتلی قبر دہلی
سے 1970 میں ہوئی ہے۔میگھ دوت کا یہ ترجمہ زبان وبیان کے اعتبار سے بڑا اہم
ہے۔اردو میں میگھ دوت کے کئی منظوم ترجمے موجود ہیں۔سلام مچھلی شہری نے میگھ دوت
کا منظوم ترجمہ کیا ہے ان کے علاوہ پربھو دیال عاشق اور پیارے لال شاکر گجیت سرن
داس وغیرہ نے بھی میگھ دوت کا ترجمہ کیا۔رانا گنوری نے میگھ دوت کا ترجمہ بڑی محنت
سے اورترجمہ نگاری کے اصول وضوابط کاخیال رکھتے ہوئے کیا ہے۔شمیم کرہانی اس ترجمے
کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’مہاکوی
کالی داس کے جادو نگار قلم کی طراوشوں میں ایک رنگین وپر نور طراوش ’میگھ دوت‘بھی
ہے جو حقیقت نگاری کا حسین ترین نمونہ ہی نہیں بلکہ رسم ورواج، ماحول و زمانہ،
شادابی وخوشحالی اور جغرافیائی شناخت کا بہترین آئینہ بھی ہے۔تمام تشبیہات و
استعارات عظیم دیوتاؤں کے جمال وجلال کی نسبت سے پاکیزگی و رفعت پر مبنی ہیں۔غم
ِفراق کی ایسی دلگداز مصوری کی گئی ہے کہ مہاکوی کی فطرت شناسی اور حقائق نگاری کی
داد دینی پڑتی ہے۔
سنسکرت
کی ایسی عظیم نظم کا اردو ترجمہ وہ بھی نظم میں کوئی آسان کام نہیں تھا۔رانا گنوری
صاحب خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوںنے بڑے خلوص اور سچائی کے ساتھ ترجمہ کیا
ہے۔‘‘
(میگھ دوتکالی
داس،مترجم،داکٹر رانا پرتاپ سنگھ رانا گنوری، پاپولر پبلی کیشن دہلی، 1970، ص 10)
منشی
پیارے لال صاحب شاکر ایڈیٹر رسالہ العصر لکھنؤ نے بھی رتو سنگھار کا اردو منظوم
ترجمہ کیا ہے اور اس کا نام ’اکسیر سخن‘ رکھا ہے۔یہ کتاب مطبع منشی نول کشور
لکھنؤ سے 1913میں منظر عام پر آئی۔اس ترجمے سے پہلے ذکر کی گئی کتاب میگھ دوت میں
حسن و عشق وصال وجدائی کے جذبات و افر مقدار میں موجود ہیں۔مناظر فطرت کی رنگینیاں
جا بجا نظر آتی ہیں۔کالی داس کو اسلوب کی ندرت تشبیہات کا استعمال اور استعارات
کو برتنے کا سلیقہ بہت اچھی طرح معلوم ہے۔شاکر صاحب نے رتو سنگھار کا اردو زبان میں
اکسیر سخن کے نام سے ترجمہ کیا ہے یہ اردو میں پہلا ترجمہ ہے۔رتو سنگھار کالی داس
کی چارمشہور نظم کی کتابوں میں سے ایک ہے۔اس کتاب میں شاعر نے نہایت دلکش اسلوب
عمدہ خیالات اور بہترین احساسات وجذبات کے پیرائے میں چھ موسموں کے مناظر ان کے تغیرات
اور ان موسموں میں پیدا ہونے والے افکار اور جذبات کو بیان کیا ہے۔اردو اور فارسی
میں تین ہی قسم کے موسم موجود ہیں۔اس ترجمے سے پہلے عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالہ
’دلگداز‘میں دو تین رتوں کا ترجمہ نثرمیں کیا تھا۔شاکر نے سنسکرت کے پیچیدہ اور عمیق
جذبات کو بڑی سلاست کے ساتھ اس طرح نظم کیاہے کہ یہ ترجمہ آمد کا لطف دیتا ہے۔کالی
داس کی چار منظوم کتابوں میں سے دو کے مضامین اور ترجمہ پر روشنی ڈالی گئی۔اب تیں
ڈراموں میں سے ایک ڈراما ’’وکروشیم‘‘ کے ترجمہ ’’وکرم اروسی ‘‘کا ذکر کیا جا رہا
ہے۔یہ ترجمہ مولوی عزیز مرزا نے مختلف زبانوں کے تراجم کو سامنے رکھ کر کیا
ہے۔وکرم اروسی کا قصہ بہت قدیم ہے اس میں پروراوس اور اروسی کے عشق کی داستان بیان
کی گئی ہے۔وکرم اروسی کالی داس کے ان ناٹکوں میں سے ہے جو کالی داس کی فکری
بلندپروازی کا نتیجہ سمجھے جاتے ہیں۔بیان کی شگفتگی جذبات کی رقت طرز اداکی شائستگی
میں اپنی مثال آپ ہے۔مولوی عزیز مرزا نے یہ ترجمہ اصل کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے
مختلف تراجم کی مدد سے کیا ہے۔
کالی
داس کی دیگر کتابوں کے بھی تراجم منظر عام پر آئے ہیں۔مال ویاگنی مترا جو ایک
ڈراما ہے منور لکھنوی نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔1973 میں انجمن ترقی اردو علی گڑھ سے
اس کی اشاعت ہوئی ہے۔اسی کتاب کا ایک ترجمہ عرفان صدیقی نے بھی کیا ہے جو اتر پردیش
اردو اکادمی لکھنؤ سے شائع ہوا ہے۔کالی داس کی کتاب ’کمارسمبھو‘کا ترجمہ بھی منور
لکھنوی نے کیا ہے۔کمار سمبھو کا ایک ترجمہ منشی وشویشور پرشاد نے 1945میں کیا
ہے۔کالی داس کی یہ تمام کتابیں بہت شہرت رکھتی ہیں اور ان کے تراجم بھی بڑے اہم ہیں۔کالی
داس کی ایک کتاب ’ابھگیان شکنتلم‘ ہے جسے شکنتلا کے نام سے شہرت حاصل ہے۔یہ کالی
داس کی شہرہ آفاق کتاب ہے دنیاکی مختلف زبانوںمیں اس کتاب کے بے شمار تراجم ہوئے
ہیں صرف اردو میں ہی اس کتاب کے نو ترجمے موجود ہیں۔ان تراجم کے مترجمین میں اختر
حسین رائے پوری راجا شیو پرشاد،پریم پال اشک،منور لکھنوی،مرزا کاظم علی جوان،ساغر
نظامی،قدسیہ زیدی،اقبال ورما سحر شامل ہیں۔بھرتر ہری بھی سنسکرت کے ایک مشہور شاعر
تھے۔ان کی شاعری آج بھی مشہور ہے بھرترہری کے ششکوں کا ترجمہ امتیاز الدین خاں
رگویندر راؤ جذبے مے کرشن چودھری نے کیا ہے۔بھرترہری کے تینوں ششکوں کے منتخب
کلام کا عبدالستار ردلوی نے بھرترہری اقبال کا ایک ممدمدح عظیم سنسکرت شاعر اور اس کے منتخب کلام کا اردو ترجمہ نام سے
ترجمہ کیا جو دائرہ الادب ممبئی سے 2004 میں شائع ہوا۔
سنسکرت
زبان کا ایک شہرہ آفاق ناٹک مدرا راکھشش ہے جس کے خالق وشاکھا دت تھے منور لکھنوی
نے اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ سے اس کتاب کی اشاعت ہوئی
ہے۔و شاکھادت کی اس مشہور ومعروف تصنیف کا پہلا ترجمہ ہے۔ہندی زبان میں اس کے کئی
تراجم موجود تھے۔مترجم نے اردو ترجمے کو اس طرح ترجمے کی شکل میں پیش کیا ہے کہ
کتاب زیادہ اصل سے قریب رہے۔
’رام
چرت مانس‘تلسی داس کی مشہور ومعروف کتاب ہے۔پروفیسر نورالحسن نقوی نے اس کتاب کا
ترجمہ کیا ہے،مجلس اشاعت ادب دہلی سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔شمالی ہندوستان میں تلسی
داس کی اس کتاب کو ویدوں کی طرح مقدس سمجھا جاتا ہے۔اس کتا ب کا مرکزی کردار رام
چرت مانس کی مقبولیت کا راز کیا ہے۔ اس کو نورالحسن نقوی کی زبانی ملاحظہ کیجیے:
’’رام
چرت مانس کی تخلیق اس عہد میں ہوئی جب عوام وخواص کی زبان پر بھکتی اور پریم کے گیت
تھے۔صوفیا کے ملفوظات ہندو مسلمانوں میں یکساں طور پر مقبول تھے۔یہ اکبر کا دور
تھا۔اس کے ایما پر رامائن اور مہابھارت کے فارسی ترجمے بھی ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی
ساتھ ادھیاتم رامائن کے خطوط پر رام چرت مانس کی تصنیف ہوئی، لیکن وید اور پران کے
اثرات،ناتھ یوگیوں کی روایات اور فلسفہ ٔ وحدت الوجود کا پرتو بھی اس میں نظر آتا
ہے۔‘‘
) رام چرت مانس: تلسی داس، نورالحسن نقوی، مجلس اشاعت ادب، دہلی، ص (
اپنی
عمدہ تعلیمات بہترین قصہ اور بول چال سے قریب زبان استعمال کرنے کی وجہ سے اس کتاب
کو عوامی شہرت حاصل ہوئی ہے۔تلسی داس نے رام چرت مانس میں تشبیہات و استعارات کا
استعمال اس طرح کیا ہے کہ وہ عوام کی فہم سے بالا تر نہیں ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ
اردو میں کئی ترجمے اس کتاب کے ہوئے ہیں۔یہ ترجمہ نورالحسن نقوی نے کیا ہے جو اصل
کتاب کی طرح ہی سلیس رواں اور آسان ہے۔
اردو
زبان میں بہت سی مشہور ومعروف قصہ کہانیوں کی کتابیں ایسی بھی ہیں جو یا تو سنسکرت
سے ماخوذہیں یا سنسکرت وہندی سے متاثر ہوئی ہیں ایسے ہی قصوں میں بیتال پچیسی،سنگھاسن
بتیسی اور رانی کیتکی کی کہانی وغیرہ شامل ہیں۔میں نے اپنے اس مقالے میں
مہابھارت،رامائن،گیتا،پنچ تنتر،کالی داس کی کتابوں کا تعارف کرایا ہے اور اردو کے
تراجم پر روشنی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ بھرترہری، مدراراکھشش،رام چرت مانس،کا بھی
تعارف پیش کرتے ہوئے اس کے اردو تراجم کا جائزہ لیا ہے۔ ویدک ادب کے بھی اردو زبان
میں تراجم ہوئے ہیں۔رگ وید کے کئی تراجم منظر عام پر آئے ہیں۔سام وید اور اتھروید
کے بھی اردومیں تراجم کیے گئے ہیں۔کنہیا لال الکھ وہاری نے چاروید کے نام سے اردو
زبان میں چاروں ویدوں کا خلاصہ لکھا ہے۔اپنشدبھی ویدک ادب میں اہمیت کے حامل ہیں۔
ان کے بھی کئی تراجم اردو زبان میں ہوئے ہیں۔پرانوں کے بھی تراجم ہوئے جن کا تذکرہ
پچھلے صفحات میں گزرا۔کلاسیکی ادب میں کالی داس کی کتابیں اہمیت کی حامل ہیں۔ان کے
تراجم پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے علاوہ سنسکرت میں لکھی جانے والی دیگر علوم
وفنون کی کتابوں کے بھی اردو میں تراجم کیے گئے ہیں۔علم الحساب کی کتاب جس کا نام
’لیلاوتی‘ ہے۔جسے بھاسکر آچاریہ نے تصنیف کیا تھا۔ اس کتاب کو اردو میں دیوی چند
نے منتقل کیا ہے۔سنسکرت شعریات پر مشتمل کتاب دھونیا لوگ آنندوردھن کی مشہور تالیف
ہے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے اس کتاب کا ترجمہ شائع ہواہے۔عنبر بہرائچی
اس کتاب کے مترجم ہیں مندرجہ بالا باتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سنسکرت میں لکھی
گئی تمام اہم کتابوں کے اردو زبان میں تراجم ہوئے ہیں لیکن سنسکرت کی ان کتابوں کے
اردو میں منتقل کرنے والے مترجمین ناجانے کیوں اس بات سے قاصر نظر آتے ہیں کہ وہ
بلاواسطہ سنسکرت سے اردو زبان میں کتاب کو منتقل کرتے اکثر مترجمین ہندی، انگریزی،
فارسی، عربی اور اردو کے تراجم سے مدد لیتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ بات ان کتابوں کے
لیے تو ٹھیک ہے جو اب دنیا سے نایاب ہیں۔ یا ان کا حصول ممکن نہ تھا لیکن وید،گیتا،مہابھارت،رامائن
جن کے نسخے کثیر تعداد میں دنیا بھر میں موجود ہیں۔ان کتابوں کا بلا واسطہ اردو میں
اگر ترجمہ کیا جاتا تو اور بہتر اور مفید تراجم سامنے آتے پھر بھی سنسکرت زبان کے
جتنے بھی قیمتی جواہر پارے اردو میں موجود ہیں۔وہ قومی یکجہتی بے تعصبی وطن اور
زبان سے محبت کا بین ثبوت ہیں اور اردوزبان کی بین الاقوامیت وسعت اور عظمت و
مقبولیت کی دلیل ہیں۔
Dr. Adil Ehsan
BN Degree College
Near Bus Stand
Anjhi Railway Station Road
Shahabad Hardoi- 241124 (UP)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں