4/11/22

اردو میں نسائی صحافت: حقانی القاسمی


 فیمینزم یعنی تانیثیت کو اس کے مروجہ اصطلاحی مفہوم اور نظری تحریکی تصور کے تناظر میں دیکھا جائے تو اردو میں تانیثی صحافت کا وجود ہی نہیں ہے۔ کیونکہ بہ حیثیت تحریک یا نظریہ تانیثیت کا جو منشور ہے اور جن افکار و تصورات پر یہ مرکوز ہے اردو کی نسائی صحافت کی اس سے قطعی کوئی ذہنی مناسبت اور مطابقت نہیں ہے۔ خاص طور پرریڈیکل فیمنزم مشرقی تصورات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔فیمنیزم کا بنیادی مقصد مرد مرکوزیت کے خلاف محاذ آرائی کے ساتھ مردانہ تحکم ، تغلب، تسلط، تفوق  کے تصور کو خواتین کے ذہنوں میں نقش کرنا اور عورتوں کی تملیک اور تحکیم کے خیال کو مستحکم کرنا تھا۔ مگر اب وقت نے خود ہی فیمینزم کو فریب اور فراڈثابت کر دیا ہے کہ اس تحریک نے تعمیر و ترقی نسواں کی آڑ میں تخریب اور تنزلی کی سازش رچی تھی۔ فیمینزم سے وابستہ خواتین نے بھی فیمینزم کی بہت سی در پردہ حقیقتوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔یمینزم نے خانگی اقدار سے بیگانگی اور تحریک آزادی نسواں کی آڑ میں عورتوں کو مستحکم اور خودمختار بنانے کے نام پر عورتوں کے جسم اور ذہن کی تجارت کی ہے۔ فیمینزم نے عورت کے چہرے اور چرتر کو مکمل طور پر مسخ کر دیا ہے۔

انگریزی میں فیمینزم سے جڑے ہوئے بیشتر رسائل میں عورتوں کے جنسی حظ و نشاط کی افزونی کا مواد ہوتا ہے  اور مردوں کی شہوت خیز عریاں تصاویر ہوتی ہیں۔ Play Girl, Curve اور Filament جیسی میگزین میں جنسی تشریق اور ترجیحات پر مبنی آرٹیکلز ہوتے ہیں۔ ان رسائل نے زیادہ تر Cosmo Girl کو جنم دیا ہے۔ ہاں ان رسائل کو پڑھنے سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ عورت صرف مریم نہیں زلیخا بھی ہوتی ہے۔ وہ صرف ستی ساوتری نہیں کرشن چندر کی جولیا کرومبی بھی ہوتی ہے۔ انگریزی کے نسائی رسائل کے برعکس اردوکی نسائی صحافت نے نسوانی چہروں  اور کرداروں کو نکھارنے اور سنوارنے کا کام کیا ہے۔ عورتوں پر مرکوز جو رسائل، مجلات، اخبارات، ماضی تا حال شائع ہوئے ہیں ان کے مقاصد اور موضوعات فیمینزم سے بالکل مختلف ہیں کیوں کہ ان مجلات کی غایتِ اشاعت صرف اور صرف تعلیم، تربیت اور ترقیٔ نسواں ہے۔ رفیق نسواں (لکھنو)، اخبارالنساء (دہلی)، تہذیب نسواں (لاہور)،خاتون(لاہور) شریف بی بی (لاہور)، خاتون (علی گڑھ)، ماہنامہ عصمت (دہلی)، معلم نسواں (حیدر آباد)، النساء (حیدرآباد)،پردۂ عصمت (لکھنو)، سفیر قیصر (میرٹھ)، شمس النہار (دہلی)، پردہ نشین (آگرہ)، خادمہ (حیدر آباد)، سفینۂ نسواں (حیدر آباد)، ہم جولی (حیدر آباد)، نسوانی دنیا (لاہور)، ظل السلطان (بھوپال) بانو(بھوپال)، انیس نسواں (دہلی)، خیابانِ دکن (حیدرآباد)، الحجاب (بھوپال)، امہات (بھوپال)، آفتاب نسواں (بھوپال)،پیام نسواں(لکھنؤ)، تبلیغِ نسواں (دہلی)، جوہر نسواں (دہلی)، بنات (دہلی) ، استانی( دہلی) ،حجاب (رامپور)، بانو( دہلی)، خاتون مشرق (میرٹھ/دہلی)، روشنی (دہلی)،معین نسواں(علی گڑھ)، ماہنامہ حور(کولکاتہ) مومنہ(حیدر آباد)، چراغ کعبہ(ممبئی)، زیور (پٹنہ) قلمکار،  باجی (دہلی) ،محفل صنم (دہلی)’خواتین کی دنیا‘ نئی دہلی،’خواتین دنیا‘ (قومی اردو کونسل، نئی دہلی)  وغیرہ اہم نسوانی رسائل ہیں۔ ڈاکٹر جمیل اختر نے دو جلدوں پر مشتمل ’اردو میں جرائد نسواں‘ میں تقریباً ڈھائی سو نسائی رسائل کا ذکر کیا ہے۔ ان میں کتنے رسالے نسائی صحافت کے زمرے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تحقیق طلب ہے کیوں کہ صرف زنانہ نام یا خاتون کی ادارت کی وجہ سے نسائی صحافت میں کسی بھی مجلے کی شمولیت میرے خیال میں محلِ نظر ہے۔ بہت سے علمی و ادبی رسالوں کی ادارت سے خواتین کا تعلق رہا ہے جیسے ’نیا دور‘ بنگلور سے ممتازشیریں،ادب لطیف لاہورسے صدیقہ بیگم، مونتاج لاہور سے منصورہ احمد، مستقبل کراچی سے ثمینہ راجہ، آستانہ دہلی سے بیگم ریحانہ فاروقی،’شعرو حکمت حیدر آباد سے اختر جہاں ’ آواز‘ پاکستان سے ، فہمیدہ ریاض، ’صدا‘ کشمیر سے ، سیدہ نسرین نقاش،’سب رس‘ حیدر آباد سے سکینہ بیگم، صبا حیدر آباد سے صفیہ اریب ’سب رنگ نو‘ لکھنؤسے ،شاہدہ صدیقی،  ’بزم ادب‘ (علی گڑھ) سے راشدہ خلیل، ’زریں شعائیں‘ بنگلورسے فریدہ رحمت اللہ اور ’بیسویں صدی‘ نئی دہلی سے شمع افروز زیدی ’فکر و آگہی، بھوپال سے رضیہ حامد ،’ریختہ روزن‘ سے ہما خلیل اور ’ حاشیہ‘ اورنگ آباد سے ڈاکٹر ہاجرہ بانو کا ادارتی رشتہ ہے۔ مگر ان رسائل میں شاید ہی نسائی مسائل، موضوعات و متعلقات پر کوئی نسائی مخاطبہ یا تانیثی ڈسکورس ہوتا ہو، اس لیے یہ ایسے رسائل کو نسائی صحافت میں شامل کرنا شاید موزوں نہیں ہوگا۔ نسائی صحافت میں طبقۂ نسواں کی بھی تخصیص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ تمام مرد حضرات بھی شامل ہیں جو خواتین کے مسائل اور موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

میرے پیش نظر صرف وہ مجلات ہیں جو خواتین کے مسائل و موضوعات سے مختص ہیں اور جن کے مقاصد میں طبقۂ خواتین کی تعلیم، تعمیر و ترقی اور مستورات کے حقوق کا تحفظ ہی شامل ہیں۔ زیادہ تر نسائی رسائل کے موضوعات اور مقاصد میں یکسانیت ہے۔ نسائی رسائل نے عورتوں سے متعلق جن موضوعات پر ترجیحی طور پر مضامین شائع کئے  ہیں ان میں تعلیم نسواں، حقوق نسواں، سماجی مسائل اور مطلقہ خاتون کی فلاح و بہبود، کثیر زوجگی نظام، سخت پردہ،طلاق، خلع، کم عمری کی شادی اور فضول رسمیات سے گریز کے علاوہ امور خانہ داری، کشیدہ کاری، سلائی، کڑھائی، پکوان، اصلاح لباس، زینت و زیبائش، صحت فیشن، دسترخوان، کامیاب عورتوں کی سوانح  اور دنیا بھر کی عورتوں سے متعلق خبریں شامل ہیں۔ ان رسائل میں بہتر خانگی زندگی کے نسخے اور امورِ خانہ داری سے متعلق معلومات بھی درج ہوتی تھیں اور عورتوں کو تعلیمی، سماجی اور سیاسی سطح پر بیدار کرنے کا مقصد بھی شامل تھا۔ خاص طور پر لڑکیوں کے لئے اسکول اور مکاتب کے قیام پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ ان رسائل میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی شمولیت ہوتی تھی جس میں خواتین اپنے داخلی اور خارجی جذبات و احساسات کا اظہار بھی کرتی تھیں۔ ان نسائی رسائل نے مردوں کے خلاف کوئی محاذ قائم نہیں کیا نہ مرد اساس معاشرے کے خلاف احتجاج یا بغاوت کا رویہ رہا اور نہ ہی فہمیدہ ریاض کی اقلیما جیسی آواز بلند ہوئی اور نہ ہی  امریکی شو سیکس اینڈ دی سٹی جیسی ذہنیت سامنے آئی کیوں کہ اردو میں بیشتر نسائی رسائل کے مرتب یا مدیر مرد  حضرات ہی تھے اور ان کا بنیادی مقصد تعلیمی، سماجی اور معاشرتی سطح پر طبقۂ اناث کی بہتری تھا۔ ان رسائل کے ذریعہ عورتوں کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئیں،تغیرات نمایاں ہوئے اور یہ اپنے  بنیادی اور شرعی حقوق سے آگاہ ہوئیں۔ نظر بدلی تو منظر بھی بدلا اور خواتین کی تخلیقی قوت کا اعتراف اس مرد معاشرے نے بھی کیا جس نے انھیں ثانوی بنا کر رکھ دیا تھا۔اس طرح ان رسائل نے عورتوں کے لیے چلمن سے چاند تک کے سفر کو آسان بنادیا۔ انہی رسائل کی وجہ سے آج خواتین قلم کاروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اگر یہ رسالے نہ ہوتے تو شاید خواتین کو اتنا مضبوط اور متحرک پلیٹ فارم میسر نہ ہوتا۔ دراصل عورتوں کے امپاورمنٹ میں انہی نسائی رسائل کا اہم اور کلیدی کردار ہے۔

اردو میں نسائی مجلات کو بہت زیادہ شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی اور طبقۂ نسواں پر رسائل نے بہت گہرے اثرات بھی مرتب کیے  انہی رسالوں کا اثر ہے کہ ایک زمانے میں جو عورتیں والدۂ فلاں، ہمشیرۂ فلاں، اہلیۂ فلاں اور بنت فلاں کے نام سے مضامین لکھا کرتی تھیں۔ ان عورتوں نے اپنے نام سے مضامین لکھنے شروع کئے اور اس طرح خاتون قلم کاروں کا ایک کارواں بنتا گیا اور پھر کامرانیوں کی نئی نئی عبارتیں لکھی جانی لگیں۔ خواتین کی کامیابی اور کامرانی کا یہ سارا سہرا تعلیم اور ترقیٔ نسواں کے اُن بنیاد گزاروں کے سر ہے جن میں بیشتر ناموں کی نسبت مرد طبقہ سے ہے۔مردوں کے ایک بڑے حصے نے صنفی تعصبات سے گریز کرتے ہوئے عورتوں کے لئے یکساں مواقع مہیا کئے اور رسائل کے ذریعہ خواتین کے لئے نیا روزن کھولا، نئے دریچے وا کئے۔ محبوس معاشرے میں محصور خواتین نے آزادی اور عافیت کی سانس لی اور امکانات کی ایک نئی دنیا اُن کے روبرو ہوئی۔ زر خیز نمو کے امکانات روشن ہوئے اور نسائی تخلیقی قوت سورج کی مانند اپنی منزل کی تمام راہوں کو روشن کرتی گئی۔ گو کہ ان رسائل کے مدیران کو مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مگر میرے خیال میں یہ مخالفت مرد معاشرے کی طرف سے نہیں تھی بلکہ جاگیردارانہ نظام کی غلیظ ذہنیت اس کے پس پشت کارفرما تھی۔ ’ تہذیب نسواں‘ کو بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ماہنامہ ’خاتون  ‘علی گڑھ اور معلم نسواں کو بھی۔ ماہنامہ خاتون کے ایک ایڈیٹوریل میں یہ لکھا گیا کہ ’ہم نے بڑے تعجب سے سنا ہے کہ علی گڑھ کے کسی مولوی نے جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد رسالہ خاتون کی مخالفت میں ایک وعظ کہا اور دورانِ واعظ میں اس بات پر زور دیا کہ رسالہ خاتون عورتوں کے حقوق کی وکالت کرتا ہے یہ بالکل خلاف شرع شریف ہے۔

اداریے میں مزید یہ لکھا گیا ہے کہ ’ہم نے افواہاً سنا ہے کہ علی گڑھ میں خاتون کی مخالفت میں کوئی رسالہ جاری ہوا ہے۔ ہم نہایت خوشی سے اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘ معلم نسواں حیدر آباد میں جب سخت پردے کے خلاف مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہواتو اس رسالے کو بھی بند کرنا پڑا مگر ان مخالفتوں کے باوجود بہت سے نسائی رسائل پہاڑ اور چٹان کی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہے اورتعلیم و ترقیٔ نسواں کے لیے کوشاں رہے۔ ان ہی رسائل کا فیض ہے کہ عورتوں کے مکاتیب قائم ہوئے اور ان کی تعلیمی راہ کی مشکلات دور ہوئیں اور یہ عورتیں مختلف اصناف ادب میں اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار بھی کرنے لگیں۔

نسائی رسائل میں رفیق نسواں لکھنو کو اولیت کا شرف حاصل ہے کہ اس کی اشاعت کا آغاز 5مارچ 1884کو ہوا۔ یہ عیسائی مشنری کا رسالہ تھا۔ اس کے بانی پادری کریون تھے اور مسز ہیڈلی اس کی ایڈیٹر تھیں۔ جنھوں نے ایک اہم بات یہ لکھی تھی کہ’ آپ اس پرچے کا کوئی مضمون اپنے گھر میں ان کو جو پڑھ نہیں سکتیں ہر رروز سنایا کیجیے۔

فرہنگ آصفیہ کے مؤلف اور مشہور لغت نویس مولوی سید احمد دہلوی نے ’اخبار النساء‘ یکم اگست 1884ء کو دہلی سے شائع کیا ۔یہ رسالہ ایک ماہ میں تین بار شائع ہوتا تھا۔ یہ مکمل طور پر عورتوں کے لیے مخصوص تھا۔ جس میں عورتوں کی تعلیم ، حیا اور شرافت سے متعلق تحریریں شائع ہوتی تھیں۔  اس اخبار کے خلاف بھی محاذ آرائی ہوئی مگر مولوی سید احمد دہلوی نے اپنی جرأت کا ثبوت دیا اور رسالہ جاری رکھا۔

پیسہ ‘کے مدیر منشی محبوب عالم نے مستورات کی تعلیم کے لیے لاہور سے 1893میں شریف بیبیاں کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا اور رسالے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے یہ تحریر کیاکہ ’رسالہ شریف بیبیاں جاری کرنے کی غرض یہ ہے کہ ہندوستان کے لاکھوں بے زبان مخلوقات (فرقہ نسواں) کی خانہ داری کی تعلیم سے متعلق ایسے امور اس میں درج کیے جایا کریں جس میں نہ صرف ہر ایک گھرانہ بہشت کا نمونہ بن جاوے بلکہ آئندہ نسل کی اٹھان میں بھی اس سے مدد ملے۔ ‘ اس مکمل نسائی رسالے میں؛ ممتاز عورتیں، روئے زمین کی عورتیں، انتظام خانہ داری، دسترخوان، تربیت اطفال، آرائش و زیبائش، کشیدہ کاری جیسے عنوانات پر مضامین شائع کیے جاتے تھے۔

دارالاشاعت لاہور کا رسالہ’تہذیبِ نسواں لاہور‘ نسائی صحافت کا ایک روشن باب ہے۔یہ ہندوستان کا سب سے پہلا زنانہ ہفتہ وار اخبار تھا جیسا کہ تہذیب نسواں کے سر ورق پر درج ہے۔ سرسید احمد خاں نے یہ اخبار جاری نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر شمس العلما ء مولوی سید ممتاز علی نے یہ اخبار  شائع کیا۔

 اس کاپہلا شمارہ یکم جولائی 1898میں منظر عام پر آیا۔ مولوی ممتاز علی کی دوسری بیوی اور ڈراما انار کلی کے مصنف امتیاز علی تاج کی والدہ ؛نعمت خانہ، رفیق عروس، سگھڑ بیٹی ، خانہ داری کی مصنفہ محمدی بیگم کی ادارت میں یہ رسالہ شائع ہوا۔ انھوں نے ’مشیرمادر‘ کے نام سے ایک اور رسالے کی ادار ت کی۔

مولوی ممتاز علی حقوق نسواں کے علمبردار تھے۔ انھوں نے حقوق نسواں پر ایک اہم کتاب تحریر کی تھی جس کی وجہ سے انھیں ہندوستان کا پہلا فیمنسٹ بھی کہا جاتا تھا۔سردار محمدی بیگم نے انھیں نسوانی بیڑے کا نا خدا تو کسی نے انھیں خضر نسواں بھی کہا ہے ۔ مولوی ممتاز علی نے نسائی موضوعات پر مرکوز اس رسالے کا اجرا کیا جس کا مقصد مستورات کی تعلیم و تربیت ، اخلاق و خانہ داری، حکایات و شکایات  کے علاوہ ان کے حقوق سے آگاہ کرنا تھا۔ یہ صرف ایک رسالہ ہی نہیں بلکہ تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ اس رسالے کی بھی شدید مخالفت ہوئی  ۔ مولوی سید ممتاز علی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’لوگوں کو حق اور اختیار تھا کہ وہ اخبار کو نا پسند کرتے اور نہ پڑھتے اور اپنے گھروں میں نہ آنے دیتے مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گالیاں دینی شروع کیں ۔ گالیاں بھی اگر بند خطوط کے اندر لکھی آتیں تو اس قدر ذلت نہ ہوتی مگر و ہ تو اخبار کے پیکٹوں پر بازاری گالیاں لکھ کر اخبار واپس کرتے تھے اور خطوں میں جو کچھ لکھتے تھے کہ وہ اس قدر شرمناک ہوتا تھا کہ خط کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ہاتھ کانپتے اور دل سہما جاتا تھا‘(تہذیب نسواں، 6جولائی 1935) شدید مخالفت کے باوجود یہ رسالہ  طویل عرصے تک شائع ہوتا رہا۔ محمدی بیگم کے بعد وحیدہ بیگم بنت سید ممتاز علی اور پھر امتیازعلی تاج نے اس کی ادارت سنبھالی۔ آخری شمارہ 1949میں شائع ہوا ۔ اس رسالے نے بہت سی خواتین قلم کاروں کو جنم دیا۔ جن میں نذر سجاد حیدر، حجاب امتیازعلی،سلطانہ آصف فیضی، صغرا ہمایوں مرزا، زخ ش قابل ذکر ہیں۔ جن خواتین کی تحریریں تہذیب نسواں میں بکثرت شائع ہوئیں ان میں ظفر جہاں بیگم ، بلقیس جمال، نجم النساء ، زاہدہ خاتون، خاتون اکرم، کنیز فاطمہ، امۃ الحمید خانم ، ممتاز النساء ، زہرہ خانم، خدیجہ بائی، خدیجۃ الکبریٰ ، محمودہ بیگم ، عباسی بیگم،فاطمہ بیگم ، اکبری خانم، رحیم النساء، صغیر فاطمہ وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اس رسالے میں تعلیم نسواں، امور خانہ داری کے علاوہ، پردہ، پولی گیمی اور طلاق جیسے مسائل پر مضامین اور مباحثے شائع ہوتے تھے۔ اس رسالے نے نسائی صحافت کو ایک نئی روشنی اور نئی راہ دکھائی۔

علی گڑھ سے پاپا میاںشیخ محمد عبد اللہ بی اے، ایل ایل بی اور ان کی بیوی وحیدہ بیگم کی ادارت میں یکم جولائی 1898کو ماہنامہ’ خاتون‘ علی گڑھ کا اجرا ہوا۔ یہ در اصل آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے تعلیم نسواں کے سیکشن کا ترجمان تھا۔ اس میں تعلیم نسواں کی حمایت میں مضامین شائع ہوتے تھے اور اسی رسالے کی وجہ سے علی گڑھ میں مدرسہ نسواں کا قیام عمل میں آیا جو بعد میں عبداللہ گرلس کالج کی شکل اختیار کر گیا۔ اس رسالے کی بڑی پذیرائی ہوئی کیوں کہ یہ رسالہ مکمل طور پر مستورات کی تعلیم اور تربیت کے لیے وقف تھا۔

دہلی سے 1908میں مصور غم علامہ راشد الخیری کی ادار ت میں ’ماہنامہ عصمت‘ کا اجرا عمل میں آیا۔یہ شریف ہندوستانی بیویوں کے لیے رسالہ تھا۔ اس میں مرد اور خواتین دونوں کی تحریریں ہوتی تھیں۔ اس میں تعدد ازدواج کے خلاف اور عورتوں کی وراثت کے حق میں مضامین شائع ہوتے تھے۔یہ رسالہ راشد الخیری کے بعد رازق الخیری ، آمنہ نازلی، صائمہ خیری اور طارق الخیری اورصفورہ خیری کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ اس کے مضمون نگاروں میں بہت سی مؤقر شخصیات شامل تھیں ۔ دہلی کے بعد یہ رسالہ پاکستان سے شائع ہوتا رہا۔ 1979تک یہ رسالہ جاری رہا۔ خوب صورت طباعت اور دیدہ زیب سر ورق کی وجہ سے یہ رسالہ ہر حلقے میں مقبول تھا۔

معلم نسواں حیدر آباد مولوی محب حسین کی ادارت میں شائع ہوتا تھا ۔ جو کہ حقوق نسواں کے علم بردار تھے اور روشن خیال بھی۔انھوں نے یہ ماہوار ی رسالہ اس مقصد کے ساتھ شائع کیا تھا کہ:

مسلمان عورتوں کی موجودہ پست و ذلیل حالت میں ترقی ہو اور علم و تعلیم کی روشنی پھیلے۔  ‘انھوں نے اشتہار میں بھی اس کی وضاحت کی تھی کہ’ اس کا موضوع عورت ہے جس کی ہر ایک حالت سے بحث کی جاتی ہے ۔ اس کی غایت ، ترقی ، تعلیم و ترویج نسواں ہے جن کی  ملک و ملت کو بہت ضرورت ہے۔‘ مولوی محب حسین نے معلم نسواں میں جن موضوعات پر اپنے مجلے کو مرکوز رکھا تھا ان میں قدرتی واخلاقی شاعری و نظم نسواں ، اخبار نسواں، آداب و اخلاق نسواں ، آیات و احادیث نسواں، فقہ و قانون نسواں، انتظام خانہ داری، طب نسواں ، آرائش و زیبائش نسواں ، عورتوں کے ڈرامے اور ناول ، نظائر مقدمات نسواں ، تعلیم و تربیت اطفال ، پرورش اطفال ، مضامین نسواں، مشاہیر نسواں، قصص و حکایات نسواں، وعظ و پند  نسواں، تعلیم وتربیت نسواں ، مراسلات نسواں، مذاق نسواں اہم ہیں۔ ان تمام موضوعات کی وضاحت انھوں نے اشتہار میں کی ہے اور معلم نسواں میں ان موضوعات پر مضامین بھی شائع کیے گئے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں میں تعلیم نسواں کا رواج کے عنوان سے ایک بہت وقیع مضمون بھی تحریر کیا تھااور اس تعلق سے کئی اور تحریریں بھی انھوں نے شائع کی ہیں۔ مولوی محب حسین نے سخت  اور غیر شرعی  رواجی پردے کی مخالفت میں مضامین بھی شائع کیے جس کی سزا یہ ملی کہ ان کے رسالے کو بند کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ اسی رسالے میں اس نوع کے مصرعے بھی چھپتے تھے کہ ’’حامیان پردہ داری مبتلائے جہل ہیں‘‘۔  مولوی محب حسین نے اس مجلے میں’ پردے کی مضرتیں‘ کے عنوان سے مضامین شائع کیے ۔پردے کے خلاف بہت سی تحریریں انھوں نے شائع کیں۔ مولوی محمد سلیمان بیرسٹر ایٹ لا کا مضمون ’ موجودہ پردہ خلاف عقل ہے‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ مولوی محب حسین کا خیال تھا کہ ’مسلمان عورتوں کی تعلیم میں پردہ‘ ایک سخت سنگلاخ پہاڑ کی طرح حائل ہے جب تک اہل ملک اس فولادی کوہ کے کاٹنے کی طرف متوجہ ہوںگے اس وقت تک مسلمان عورتیں صحت و تعلیم دونوں سے محروم رہیں گی اور پھر ان کے اثر سے قومی اخلاق ،تہذیب وتمدن بھی درست نہ ہوں گے۔‘ انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ’ پردہ نے تمام ہندوستانی قوموں کو اور خالصتاً مسلمانوں کو اتنے اور ایسے نقصان پہنچائے جن کی وجہ سے ساری قوم پر تباہی برس گئی۔‘ مولوی محب حسین ‘نساء المسلمین کے موجودہ پردے کو عورتوں کے لیے ایک قسم کا حبس دوام قرار دیتے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے اپنے مجلے میں بحث بھی چھیڑی اور معلم نسواںمیں یہ اشتہار شائع کروایا کہ جو حضرات قرآن شریف اور احادیث مقدسہ سے یہ ثابت فرمائیں کہ نساء المسلمین کا موجودہ پردہ جائز ہے تو ان کوسو روپے بطور انعام دیے جائیں گے۔ مولوی صاحب کی مخالفت میں کئی علما و فضلا کی دانشورانہ تحریریں شائع ہوئیں۔ ضروت ہے کہ معلم نسواں میں پردے کی حمایت یا مخالفت میں چھپنے والی تمام تحریروں کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے تاکہ پردے کے تعلق سے تمام حقائق عوام کے سامنے آ سکیں۔

حیدر آباد ہی سے صغرا ہمایوں مرزاحیا ایم۔ آر۔ اے۔ ایس۔ لندن کی ادارت میں’عورتوں اورلڑکیوں کا ماہوار ارسالہ‘ ، ’النسا‘ کا اجرا ہوا۔ یہ انجمن خواتین دکن کا ترجمان تھا۔ جس کی اشاعت کے مقاصد میں اصلاح خیالات نسواں ، مسلم مستورات کی گری ہوئی حالت کو ابھارنا، مستورات کے حقوق کا تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں انھوں نے کم عمری کی شادی ، سخت پردہ، کثیر زوجگی نظام کے خلاف مضامین لکھے اور بیوہ اور مطلقہ خواتین کی فلاح و بہبود پر زور دیا، اس رسالہ میں اڈیٹرس النساء کی تحریروں کے علاوہ سلطانہ بنت قاضی کبیر الدین ،اہلیہ محمد ظہور حسن انصاری وغیرہ کی تحریریں بھی شائع ہوتی تھیں۔ ان ہی کی ادارت میں زیب النساء کے نام سے ایک رسالہ لاہور سے شائع ہوا۔ جس میں انھوں نے عورتوں کو یہ پیغام دیا کہ ’عورتوں کو چاہیے کہ اپنی ترقی کا آپ خیال رکھیں اور یہ کوشش کریں کہ اپنی لڑکی ایسے مرد کو نہ دیں جس کے پاس پہلی بیوی اوربچے موجود ہوں۔‘ اس رسالے میں زہرہ بیگم صاحبہ آروی ، سعیدہ خانم، صوفیہ قیصر شگفتہ بھوپالی،  جمیلہ بیگم کلکتوی، آنسہ سیدہ اشرف ناگپوری ، ثریا بیگم ، میر ذکیہ لکھنؤ، رفعت جمیلہ بنگلور وغیرہ کی نگارشات شائع ہوا کرتی تھیں۔

لکھنو سے ’پردۂ عصمت‘ کے نام سے تاریخی ناول نگار ’دل گداز‘ اور ’مہذب‘ کے مدیر مولانا عبد الحلیم شرر نے ایک رسالہ نکالا جس میں انھوں نے تعلیم نسواں کی حمایت اور غیر شرعی پردے کی سخت مخالفت کی۔ پردے پر اس میں بکثرت مضامین شائع ہوئے جو بعد میں کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔ اس رسالے کو بھی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور مولوی صاحب مطعون اور معتوب بھی ہوئے۔

سہیلی‘ لاہور/امرتسر اہم نسائی رسالہ ہے جس کے سر نامہ پر یہ شعردرج ہے جو مجلے کے  مقصد و منہج کی وضاحت کرتا ہے

ہے ناصح نسواں بھی یہ رسالہ اور دل سوز سہیلی بھی

باور چن بھی مغلانی بھی استانی بھی بہنیلی بھی

یہ مجلہ افتخار النساء ،خدیجہ بیگم ایم۔ اے ۔ایم۔او۔ ایل ، ایم ۔ آر۔ایس گولڈ میڈلسٹ کی سرپرستی میں شائع ہوتا تھا ااور اس کے عملہ ادارت میں نوشابہ خاتون قریشی امروہی بی۔اے ، زہرہ بتول ، رضیہ خاتون اور ام البنات ، رقیہ بیگم رقی شامل رہی ہیں۔ اس رسالے کے  عنوانات  بہت پرکشش اور معنی خیز ہوتے تھے ۔ تذکرۂ خواتین، پردہ ، کہانیاں، تربیت اولاد ، متفرقات ، معلومات ، دستکاری ، حقوق نسواں ، حفظان صحت ، خوان نعمت ، یادداشت ، گلدستہ ، خطبات نسواں ، آئینہ خانہ، سیر بیں ، معلومات ، عجائبات ، عالمی نسواں، بزم خواتین، تفریح ، پہیلیاں، سیر و سفر اور اس کا اداریہ ’بات چیت‘ کے عنوان سے لکھا جاتا تھا۔ جس میں رسالے کے مشمولات پر گفتگو ہوتی تھی۔ یہ واقعی مکمل زنانہ رسالہ تھا جو عورتوں کو مختلف سطح پر بیدار کرنے کا فریضہ انجام دے رہا تھا ۔ اس کے قلم کاروں میں مرد و زن سبھی شامل تھے۔ اس میں بہت سی ایسی خواتین کے نام ملتے ہیں جن کا ذکر کسی بھی تذکرے میں نہیں ملتا ۔ گوہر حور میرٹھی، خدیجۃ الکبریٰ ، ممتاز رفیع بیگم، رقیہ انصاری، برجیس اکرام، صفیہ بیگم قمر، عنایت احمدی بیگم، شوکت بلقیس، وحید النساء، بلقیس جمال بریلوی، طاہرہ بیگم لکھنوی وغیرہ وغیرہ۔ اس مجلے میں جہاں بہت سے کالم بہت مفید تھے وہیں تذکرہ خواتین کے عنوان سے ایک کالم بھی ہوا کرتا تھا جس میں بائی ادے پوری ، حضرت سمیہ ، مہ جمال پرتھائی، مریم زمانی، گلبدن بیگم، قرۃ العین طاہرہ، حرقہ بنت نعمان ،جانی بیگم، فاطمہ خانم،کرشنا کماری اور دیگر خواتین پر مضامین شائع ہوئے ہیں۔یہ رسالہ خواتین میں بہت مقبول تھا۔اداریے میں یہ لکھا گیا ہے کہ’’ اس کی روز افزوں ترقی اور بہنوں کی بیحد دلچسپی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حقیقی معنوں میں صنف نازک کی نہایت ہمدرد اور سچی سہیلی ہے۔‘‘سہلی کے خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے۔ اس کے سالگرہ اور عید نمبر کی بڑی پذیرائی ہوئی ۔ سالگرہ نمبر کی ساڑھے چار ہزار اشاعت اس کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ اس مجلے میں عورتوں کے مسائل پر مختلف زاویے پر گفتگو ہوتی تھی اور مختلف ممالک کی خواتین کی تعلیمی، سماجی، سیاسی حالت پر تحریریں شائع ہوتی تھیں ۔ پردہ اور تعلیم پر بھی خاص زور تھا ۔ سہیلی کے ایک شمارے میں جہاں پردے کے تعلق سے ایک مخمس میں یہ لکھا گیا ہے کہ:

ہماری صنف نازک پر تو  اک  احسان ہے  پردہ

مسلمانوں یہ گویا رحمت رحمن ہے پردہ

نسائیت کے پیکر میں مثال جان ہے پردہ

حفظ دولت عفت کا اک سامان ہے پردہ

تو وہیں ایڈیٹر نے رواجی پردے کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’ اس کی بدولت  ہزاروں مائیں بہنیں ایسی ہوں گی جو علم جیسے قیمتی خزانے سے محروم ہوں اور سیکڑوں جانیں ایسی ہوںگی جو طرح طرح کے متعدد امراض کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر چکی ہوں ۔ دق اور سل جیسے متعدد امراض نے آج جس سرعت سے بڑھنا شروع کیا ہے وہ اسی مقید زندگی کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے۔انھوں یہ بھی لکھا کہ’ میرا مدعا ہرگز نہیں کہ جسمانی صحت  اور تعلیم کے لیے عصمت جیسی نایاب دولت کو قربان کر دیا جائے بلکہ پردے کے ناجائز استعمال سے عورتوں کے ان حقوق کی پامالی نہ کی جائے جو فطرت نے اس کو بخشی ہے۔‘ (سہیلی، امرتسر، اپریل 1928)

بھوپال سے ماہنامہ الحجاب کا اجرا سلطان جہاں بیگم فرماں روائے بھوپال کی سر پرستی اور محمد یوسف قیصر بھوپالی کی ادارت میں ہوا ۔ اس رسالے کے موضوعات میں تعلیم، لباس، پردہ اور دیگر نسائی متعلقات شامل تھے ۔ 1909 میں یہ رسالہ جاری ہوا اور ڈاکٹر محمد نعمان خان کے مطابق ’قارئین کی سرد مہری اور عدم توجہی کے باعث حالات کے نا مساعدت کا شکار ہو کر ستمبر1911میں ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ۔

بھوپال ہی سے ایک اور رسالہ ماہنامہ ظل السلطان سلطان جہاں بیگم کی سرپرستی اور محمد امین زبیری کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کے سر ورق پر’ ہندوستانی خواتین کی علمی دلچسپیوں کا ایک ماہوار رسالہ‘ درج تھا ۔رسالے کے مقاصد و قواعد وضوابط کے تحت یہ لکھا گیا تھا کہ ’اس رسالہ کا مقصد خواتین ہند میں اشاعت و ترویج و تعلیم اور ان کے لیے مفید کار آمد معلومات کافراہم کرنا ہے۔‘ریختہ پر دستیاب  ظل السلطان کے شماروں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی اس رسالے میں مستورات اور مخدرات کے لیے مفید معلوماتی مضامین شائع ہوتے تھے ۔ فاطمہ صغریٰ بنت احمد حسن ، زہرہ سلطان، م ب صاحبہ لکھنوی، مسز اسلم، عالیہ خاتون، اختر دلہن ، ب بیگم صاحبہ کی تحریریں اس مجلے میں شائع ہوتی تھیں اور فہرست مضامین سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مجلہ خواتین کی تعلیم  اور سماجی  ترقی کے لیے شائع ہوتا تھا۔ اس میں خواتین اسلام کی اصلاح و ترقی ، یورپ میں لڑکیوں کی تعلیم ، زنانہ تعلیم کی اہمیت ، انگریزی تعلیم نسواں ، خواتین اسلام کے جذبات ، خواتین سلطان محمد ازبکستان، عورت ابن رشد کی نظر میں اور اس طرح کے دیگر اہم موضوعات پر مضامین شائع ہوتے تھے۔ عالم نسواں کے عنوان سے بھی ایک کالم تھا۔

بھوپال ہی سے قمر النساء کی ادارت میں ’ امہات ‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع ہوتا تھا اس کے مالک محمود الحسن صدیقی تھے۔ ڈاکٹر نعمان خان نے اس کاسنہ اشاعت 1933درج کیا ہے۔ اور اس رسالے کے درج ذیل اغراض و مقاصد تحریر کیے ہیں۔

(1)تعلیم نسواں کی ترویج و ترقی(2)خواتین میں علمی ادبی ذوق پیدا کرنا(3) مضر رسوم انسداد (4) خواتین کے معاشرتی شہری اور ملکی حقوق کا تحفظ (5) اصول سیاست عامہ سے خواتین کو روشنا س کرانا(6) نظام معیشت اور طریق خانہ داری میں مناسب اصلاح (7) ماؤں اور بچوں کی صحت و زندگی کا تحفظ (8) قومی مجالس کی تنظیم کی ضرورت کا احساس پیدا کرنا (9) مفید گھریلو صنعتوں کی ترویج و ترقی (10) اصول کفایت شعاری  اور امداد باہمی کی ترویج (11) مفید نسوانی تحریکات کی حمایت ۔

اس رسالے نے بھی عورتوں کو بیدار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا  ہے۔

اس کے علاوہ اور بہت سارے نسائی رسائل ہیں جو مختلف علاقوں سے شائع ہوتے رہے ہیں جن میں ’ماہنامہ رضوان‘ لکھنؤ، ماہنامہ افشاں بھوپال، رہبر ممبئی، مالیگاؤں سے نکلنے والے ’ماہنامہ خوشبو‘،  ’گلشن خواتین‘، الطاہرات‘، صدائے نساء‘ وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ مگر بیشتر رسائل کی مدت حیات بہت مختصر رہی۔ اب خواتین ڈائجسٹ بھی شائع ہو رہے ہیں جو اشرافیہ طبقے میں بہت مقبول ہیں۔ مگر زیادہ تر ڈائجسٹ خواتین کی تعلیم و تربیت اور حقوق نسواں سے آگہی کے بجائے ذہنی تفریح کے لیے شائع کیے جاتے ہیں۔ ان میں پاکیزہ آنچل،ہما، مشرقی آنچل اور پاکستان سے شائع ہونے والے ڈائجسٹوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

خواتین سے مختص جتنے قدیم رسائل ہیں ان میں بہت اہم نسائی موضوعات اور متعلقات پر مضامین ہیں ضرورت ہے کہ ان قدیم نسائی رسائل کے انتخابات شائع کیے جائیں تاکہ اس عہد کی خواتین کے انداز نظر کا نہ صرف پتہ لگ سکے بلکہ قلمکار  خواتین سے بھی  ہم واقف ہو سکیں ۔ ہندی میں ’کلام نسواں‘ کے عنوان سے شاید اس طرح کی کوشش ہو چکی ہے ۔ اردو میں بھی اس طرح کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ  ماضی کی نسائی صحافت اور نسوانی سوچ کے منظر نامہ سے آگہی ہو سکے۔

موجودہ دور میں خواتین سے مختص بہت کم رسالے شائع ہوتے ہیں مگر کچھ خواتین ایسی رہی ہیں جو خواتین کے مسائل و موضوعات پر لکھتی رہتی ہیں۔ اور بہت سی خواتین پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی جڑی رہی ہیں۔ ایسی خاتون صحافیوں میں جیلانی بانو، اختر جہاں، ثریا ہاشمی، سلطانہ حجاب، خالدہ بلگرامی، سعدیہ دہلوی، نورجہاں ثروت،  فرحت رضوی، شیریں دلوی، عالیہ ناز، آمنہ تحسین، وسیم راشد، تسنیم کوثر، شہلا نواب، غزالہ صدیقی، رضیہ حامد،رئیسہ منور، زیب النسا، نرگس سلطانہ، جہاں آرا، راسیہ نعیم  ہاشمی، سفینہ عرفات، رفیعہ نوشین، نسیم سلطانہ وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔     

عورتوں کو بیدار کرنے میں نسائی صحافت کا بہت اہم کردار یوں بھی رہا ہے کہ کمزور سمجھے جانے والی صنف اپنے قلم کی طاقت سے اپنے نسائی وجود اور قوت کا احساس کرانے میں یقینی طو رپر کامیاب ہے۔ اگر یہ رسائل نہ ہوتے تو خموشی کی زبان آوازوں میں تبدیل نہ ہوتی اور نہ ہی یہ اپنے زخموں کو زباں کرپاتی۔ ان رسائل کی وجہ سے خواتین کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مل گیا ۔مگر یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ خواتین یا زنانہ رسائل کی اشاعت کا سہرا بھی مردوں کے سر ہے اورنسائی صحافت کے بنیاد گزار بھی مرد حضرا ت ہی ہیں۔  ہندوستان کی سطح پر تانیثیت کا منشور یا ایجنڈا بھی مردوں ہی کا تیار کردہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد نے سب سے پہلے تانیثیت کا ایجنڈا تیار کیا تھا۔  تعلیم اور ترقیِ نسواں کے ذیل میں جسٹس امیر علی، سید محمود، کرامت حسین اور مجالس النسا والے حالی کوبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ سب سے  پہلے فیمنزم کی اصطلاح کو ایک فرانسیسی فلسفی نے ہی وضع کیا تھا جس کا نام تھاچارلس فوریرCharls Fourier۔ اس کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا مگر بعد میں فیمینزم بے راہ روی پر اتر آئی اور اس نے مرد کردار کو مشکوک اور مشتبہ قرار دینے کے لیے بہت سے مفروضے گڑھ لیے اور یہ کہا جانے لگا کہ مردوں نے ہی عورتوں کو حاشیے پر ڈال رکھا ہے اور ان سے جنت چھین لی ہے۔ یہاں میں نسائی معاشرے سے یہ سوال پوچھنے میں حق بہ جانب ہوں کہ عورتوں کا تذکرہ ’بہارستان ناز‘ کس نے لکھا تھا۔ ’تذکرہ شاعرات اردو‘ کس نے مرتب کیا تھا۔ ’شمیم سخن‘ کس نے لکھا تھا۔ جواب یہی آئے گا کہ بالترتیب حکیم فصیح الدین رنج میرٹھی،جمیل احمد، عبدالحئ صفا بدایونی مرد طبقے سے تعلق رکھنے والے ہی ان تذکرہ و تذکار خواتین کے مصنف ہیں۔ اس لیے بلا خوف لومۃ لائم مجھے یہ کہنے دیجیے کہ مردوں نے ہی عورتوں کے خیالوں کو زمین اور خوابوں کو آسمان عطا کیا ہے اور ان کے حوصلوں کو نئی اڑان دی ہے۔

استفادی کتابیات

)الف) کتب

  • انور سدید ، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ
  • ارتضیٰ کریم، اردو صحافت کے دو سو سال ۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔2017
  • جمیل اختر، اردو میں جرائد نسواں ۔
  • محمد نعمان خان، بھوپال میں اردو انضمام کے بعد، ایجوکیشنل پبلشنگ دہلی ،2006
  • آمنہ تحسین، حیدر آباد میں اردو کا نسائی ادب ، ایجوکیشنل پبلشنگ دہلی ،2017
  • نعیم طاہر، سیدہ محمدی بیگم۔

)ب) مقالات

  • Gail Minault, Women's Magazines in Urdu as source of Muslim Social History (Indian Journal of Gender Studies 5:2, 1998)
  • Gail Minault, ''Sayyid Mumtaz Ali and Huquq-un-niswan An Advocate of Women's Rights in Islam in the Late Nineteenth Century", Modern Asian Studies 24(1) 147-72
  • نور جہاں ثروت، اردو صحافت میں خواتین کا حصہ ، مشمولہ ، اردو صحافت ماضی اور حال، مرتبین :خالد محمود ،سرور الہدیٰ۔ مکتبہ جامعہ ،نئی دہلی
  • مرضیہ عارف ، ہندوستان میں خواتین کی اردو صحافت، مشمولہ اردو صحافت دوسو سالہ یادگاری مجلہ ، مرتبین سہیل انجم، معصوم مراد آبادی۔
  • داؤد عثمانی، ماہنامہ عصمت کے سو برس ایک مختصر جائزہ

حقانی القاسمی

haqqanialqasmi@gmail.com

Cell : 9891726444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں