’’سعادت
حسن منٹو اردو ادب کا جتنا بڑانام ہے اتنا ہی متنا زعہ نام بھی ہے۔ اسے فراڈ کہا گیا،جھکّی
سمجھا گیا اور فحش نگار ٹھہرایا گیا اور اس کے فن پر طرح طرح کے اعتراض کیے گئے۔
فحش نگاری کے الزام میں اس پر مقدمے تک چلائے گئے،لیکن اچھا یہ ہوا کہ اس انتہا
پسندی کو ردّ کر دیا گیا اور منٹو کو ہر مورچے پر سرخ روئی حاصل ہوئی۔‘‘1
پریم
گوپال متّل کی باتوںسے پوری طرح اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ان کی یہ بات بالکل درست
ہے کہ منٹو کو متنازعہ افسانہ نگار قراردیا گیا۔اسے فراڈ،جھکّی اور سنکی کہا گیا۔
اس پر فحش نگاری کا مقدمہ چلایا گیا۔ اسے فحش نگار ٹھہرایا گیا۔ اس کے افسانوں کے
موضوعات پراعتراض کیا گیا، لیکن اس کی فن کاری پر(ابتدائی افسانوں کو چھوڑ کر) کسی
نے اعتراض نہیں کیا ہے،بلکہ منٹو کو اس کی فنکاری ہی کی بنا پر ایک بڑا افسانہ
نگار تسلیم کیا گیا۔ ہم منٹو کے معاصرین مثلاًعصمت چغتائی، اوپیندر ناتھ اشک، غلام
عباس، حامد جلال، ہاجرہ مسرور، ابو سعید قریشی وغیرہ کے مضامین پڑھتے ہیںتو معلوم
ہوتاہے کہ ان لوگوں نے منٹو کے فن پر نہیں بلکہ اس کے موضوعات پر اعتراض کیا ہے۔
چاہے وہ مضامین منٹو میرا دشمن، میرا دوست، میرا دشمن، منٹو ماموں کی موت، جو بک نہ سکا، منٹو کی موت،
ہوں یا پھرمضمون ’رحم دل دہشت گرد‘ ہو۔ ان تمام مضامین میںمنٹو کے فن پر نہیں بلکہ
منٹو کی شخصیت اور اس کے افسانوں کے موضوعات پر بحث ہو ئی ہے۔
کوئی
بھی تخلیق کار اس لیے بڑا نہیں ہوتا کہ وہ صرف اچھے موضوعات کا انتخاب کرتا ہے
اوران پر اپنی تخلیقات پیش کرتا ہے۔بلکہ اس لیے بڑا ہوتا ہے کہ وہ اچھے موضوعات کے
ساتھ ساتھ بہترین فنکاری کا بھی ثبوت دیتا ہے۔منٹو نے بھی یہی کیا ہے،لیکن منٹو کے
ساتھ ان کے معاصر تخلیق کاروں اور اس دور کے ناقدوں نے منٹو کی تخلیقات کو ایک ہی
نظر سے دیکھا۔ انھوں نے منٹو کی اکثر و بیشتر تصنیفات کو فحش نگاری کے زمرے میں
رکھ کردیکھا،جس کے سبب اس کے پانچ افسانوں کالی شلوار، دھواں، بو، ٹھنڈا گوشت اور
’اوپر نیچے اور درمیان‘ پر فحاشی کا الزام لگا کرباقاعدہ مقدمے چلائے گئے۔ان
مقدموں میں منٹو کو کئی بارسزائیں بھی ہوئیں،لیکن سیشن کورٹ میں اپیل کرنے پرہر
بار منٹو اور منٹو کے افسانوں کوفحاشی کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ منٹونے اپنے
دلائل و براہین سے یہ ثابت کر دیا کہ اس کے افسانوں میں فحشیات نہیں ہے بلکہ سماج
میں خود یہ برائی پھیلی ہوئی ہے۔ منٹو اپنے اور فحش موضوعات کے متعلق خود لکھتا ہے
کہ:
’’اپنے
متعلق میںاتنا ہی کہوں گا کہ موضوع مجھے پسند ہے، کیوں ہے؟بس سمجھ لیجیے کہ مجھ میں Perversion ہے۔زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں،اگر
آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر
سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ نا قابل برداشت ہے، مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ
اس عہد کی برائیاں ہیں،میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔یہ دراصل موجودہ نظام کا نقص
ہے۔‘‘2
منٹو
اور منٹو کے افسانے فحاشی کے الزام سے تو بری ہو گئے،لیکن اُس وقت اردوادب میںمنٹو
کے افسانوں کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکا، جس کے وہ حق دار تھے۔ اِس کی اصل وجہ یہ تھی
کہ اس وقت منٹو کے افسانوں کو صرف موضوعاتی سطح پرپرکھا جاتاتھا۔فنی خوبی یا خامی
کی طرف ناقدین توجہ نہیں دیتے تھے۔منٹو کواِس بات کی تکلیف ہمیشہ رہی ہے۔ وہ چاہتا
تھا کہ اس کے افسانوں پر موضوعات کے علاوہ فنی نقطۂ نظر سے بھی بات ہو،جس سے اسے
کچھ حاصل ہو۔منٹوخوداپنے ایک مضمون ’تحریری بیان‘ میں ’ٹھنڈا گوشت‘کی مدافعت میں
لکھتا ہے کہ:
’’مجھے
آخر میں یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ مجھے انتہائی افسوس ہے،استغاثے کی طرف سے میری
تصنیف ’ٹھنڈا گوشت‘پر کوئی ادبی تنقید نہیں ہوئی۔ اگر ایسا ہوتاتو مجھے دلی مسرت
ہوتی۔ افسانے میں اگر کوئی فنی کمزوری رہ گئی تھی، بیان میںاگر کوئی سقم تھا، انشا
ء میںاگر کوئی خامی تھی تو مجھے اس کا علم ہو جاتااور میںکچھ حاصل کر پاتا۔‘‘3
منٹو
کے فن پر سب سے پہلے ممتاز شیریں نے توجہ دی اورانھوں نے منٹوکی فنکاری پربھر پور
لکھا بھی ہے، لیکن انھوں نے منٹوکو بہت آسانی سے قبول نہیں کیا تھا۔ ممتاز شیریں
نے سعادت حسن منٹو کے ابتدائی دور کے افسانوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھیں۔جب
منٹو ممبئی میں رہ کر افسانوں میں اپنے نت نئے تجربات پیش کر رہے تھے اس وقت ممتاز
شیریں بنگلور میںا پنے شوہر صمد شاہین کے ساتھ ایک رسالہ نکالتی تھیں۔ اس رسالے میں
انھوں نے افسانے کے فنی پہلوؤں پر کئی اہم مضامین شائع کیے،لیکن اس میں منٹو کا
کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔اس کے علاوہ ممتاز شیریں نے اپنے ایک بہت ہی مشہور
مضمون ’تکنیک کا تنوع‘ میں منٹو اور منٹوکے فن کا ذکر تک نہیں کیا ہے، جب کہ اس
مضمون میں مغرب کے علاوہ اُس دور کے مشرق کے کئی افسانوں مثلاً آنندی، حرام جادی، ہماری گلی، بالکونی، شکوہ
شکایت، تلاش گمشدہ، چیچک کے داغ، برہمچاری، دوفرلانگ لمبی سڑک، آہ اے میرے دوست
وغیرہ کی تکنیک پرگفتگو ہوئی ہے، لیکن اس مضمون میںمنٹو کے کسی افسانے کا ذکر نہیں
ہے۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ منٹو کے تئیں ممتاز شیریں کا نظریہ بدلا اور انھوں نے
منٹو پر ایک بھرپور کتاب ’منٹو نوری نہ ناری‘ کے
عنوان سے تخلیق کی۔ منٹو کے تئیں ممتاز شیریں کا نظریہ بدلنے کے متعلق مظفر علی سید
لکھتے ہیں:
’نیادور‘
کے علاوہ اس تبدیلی ٔ نظر کا سراغ خود ممتاز شیریں کے مجموعہ مضامین ’معیار‘ سے بھی
مل سکتا ہے۔ اس مجموعے کا پہلا اورادب کے اُس دور کا ایک اہم مقالہ ’تکنیک کا
تنوع‘ منٹو کے ذکر سے یکسر خالی ہے،جب کہ
سیکڑوں مغربی اور بیسوں مشرقی افسانہ نگاروں اور ان کی تخلیقات کا حوالہ اس میں
موجود ہے۔ اردو کے بھی متعدد قصہ نویس اور ان کی تحریریں مختلف افسانوی تکنیکوں کی
مثال کے طور پر اس مقالے میں زیر بحث آئی ہیں، مگر کیا یہ حیرت کا مقام نہیں کہ
اردو زبان کے صرف دو افسانہ نگار عصمت اور منٹو اس طویل و بسیط مقالے میں ذرا سی
جگہ بھی حاصل نہیںکر سکے۔اور ان میں سے ایک افسانہ نگار اتفاق سے وہی ہے، جسے بعد
میں خود ممتاز شیریں نے ’معیار‘ کے آخری مضامین کے علاوہ ایک مستقل (مگر نا تمام)
کتاب ’نوری نہ ناری‘ کا موضوع بنانا پسند کیا۔‘‘4
مظفر
علی سید کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ممتاز شیریں نے اپنے مضمون ’تکنیک کے تنوع‘ میں
بیسوں مشرقی افسانہ نگار کی تخلیقات کا حوالہ دیا ہے،لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ
اس میں سیکڑوں مغربی فنکاروں کا بھی ذکر ہے، یہاں پر انھوں نے مبالغے سے کام لیا
ہے۔ بہر حال یہاں پر بحث اس بات کی نہیں ہے کہ مشرق اور مغرب کے کتنے فنکاروں کا
حوالہ اس مضمون میں شامل ہے،بلکہ بحث اس بات کی ہے کہ منٹو جیسے بڑے فنکار کا ذکر
کیوں نہیں ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
دراصل
ابتدا میں منٹو کے افسانوں کو صرف موضوعات کی سطح پر ہی پرکھا گیااور منٹو کے
افسانوں کو فحشیات اورمنٹو کو فحش نگار کہہ کر ٹال دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت
کسی نقاد نے منٹو کے افسانوں کو اس لائق نہیں سمجھا کہ ان پر فنی گفتگو بھی کی جا
سکتی ہے، خود ممتاز شیریں نے بھی اس وقت اپنے مضمون میں منٹو کا ذکر تک کرنا مناسب
نہیں سمجھا،لیکن جب ممتازشریں نے اس دور کے مشرق و مغرب کے افسانوںکے فنی پہلوؤں
پر کام کیا۔اس کے بعدجب منٹو کے افسانوں کا دوبارہ بغورمطالعہ کیا تومنٹو کے تئیں
ان کا نظریہ بالکل مختلف ہو گیا۔ اس کے بعد ہی ممتاز شیریں نے منٹو کے افسانوں کے
فنی پہلوؤں پر کام کیا اور منٹو کی فنی بالیدگی سے عام قاری کو متعارف کرایا۔
منٹو کے جن افسانوں کو فحش اور بے ہودہ کہہ کر ٹال دیا گیاتھا انھیں افسانوں کو
ممتاز شیریں نے منٹو کی فن کاری کا اعلیٰ نمونہ بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ منٹو
کے ابتدائی افسانوں میں فنی کمزوری ضرور دیکھنے کو ملتی ہے،لیکن بعد کے افسانوں میں
منٹو نے عمدہ فنکاری کا بہترین ثبوت دیاہے۔وہ اپنے ایک مضمون ’منٹو ایک اخلاقی
فنکار‘ میں منٹو کی فنکاری کو بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’منٹو ایک
سچا، دیانت دار، فطری فن کار تھا۔اس نے جو کچھ لکھا، پھر پور خلوص اور ایمانداری
سے لکھا۔ منٹو میں اظہار کی مسلسل تڑپ تھی، ایک شدید اندرونی لگن، ایک آگ، جس میں
وہ ہمیشہ تپتا رہتا تھا، جو فن کار کی بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔‘‘5
ممتاز
شیریں کے نزدیک منٹوصرف دیانت دار اور فطری فن کار نہیں تھا بلکہ وہ اس بات کا بھی
اعتراف کرتی ہیں کہ منٹو کے افسانوں میں وقت کے ساتھ تغیر اور ارتقا بھی دیکھنے کو
ملتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد منٹو کے فن میں نمایا ں ارتقا ہوا
ہے۔منٹو کے اس دور کے افسانوں میں فنی اور نظریاتی دونوںحیثیتوں سے ایک اہم تبدیلی
نظر آتی ہے۔ ممتاز شیریں منٹو کے سب سے زیادہ متنازعہ افسانے ’ٹھنڈا گوشت‘ کے
حوالے سے ان کی فنکاری کے بارے میں اپنے ایک مضمون ’ منٹو کا تغیر اور ارتقا‘ میں
ر قمطراز ہیں:
’ٹھنڈا
گوشت‘ ایک ایسا افسانہ ہے،جسے ہم منٹو کے فن کے مکمل نمونے کے طور پر لے سکتے ہیں۔
منٹو کے اسلوبِ تحریر میںاب غضب کی چستی ہے۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ اتنا گٹھاہوا،چست اور
مکمل افسانہ ہے کہ اس میں ایک لفظ بھی گھٹایا یا بڑھایا نہیں جا سکتا۔‘‘6
اردوافسانے
کی تنقید میںوقار عظیم کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے افسانے کی تنقید پر بہت
کام کیا ہے۔ افسانے پران کی مشہور و معروف کتابیں داستان سے افسانے تک، ہمارے
افسانہ نگار، نیا افسانہ، فن ِ افسانہ نگاری وغیرہ اس بات کی دلیل ہے۔ ابتدا میںممتاز
شیریں کی طرح وقار عظیم بھی منٹو کے افسانوں کو لائق مطالعہ نہیں سمجھتے تھے اور
اسے اردو کا سب سے بدنام افسانہ نگار کہتے تھے۔اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی ہے کہ
منٹو کو طوائف اور فرائڈ کے قرب نے بدنام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقار عظیم نے منٹو
کے افسانوں کا فنی مطالعہ نہیں کیا۔ افسانے کے فن سے متعلق ان کی مشہور کتاب ’نیا
افسانہ (1946)‘ کا یہ اقتباس ملا حظہ ہو:
’’منٹو
اردو کے سب سے بدنام افسانہ نگار ہیں اور انھیں میرے نزدیک ’طوائف اور فرائڈ‘ کے
قرب نے بدنام کیا ہے۔ اردو کے کسی افسانہ نگار نے ان دونوں شہرہ آفاق مستوں سے
جان بوجھ کر اتنا قرب حاصل نہیں کیا۔ جب منٹو طوائف کی زندگی اور فرائڈ کے نظریوں
کو اپنے افسانے کا موضوع بناتے ہیں تو ان کے بیان میں جتنی آمد اور روانی ہوتی ہے
کسی اور وقت نہیں ہوتی۔اور اس لیے منٹو کے افسانوں کا تجزیہ کرنے والا اگر طوائف
اور فرائڈ کو نظر انداز کرتا ہوا نکل جائے تو منٹو کے افسانوں کی دنیا کھوکھلی اور
بے رنگ رہ جائے۔گواس کھوکھلی اور بے رنگ دنیامیں رہ کر منٹو نے جتنا زیادہ لکھا ہے
اپنی ’مخصوص دنیا‘ میں رہ کر اتنا نہیں لکھا:
’’
کھوکھلی
اور بے رنگ‘‘ اس لحاظ سے نہیں کہ جس دنیا کے متعلق وہ کچھ کہنا چاہتے ہیںوہ زندگی
کی گہما گہمی سے خالی ہے۔ کھوکھلی اور بے رنگ صرف فنی نقطۂ نظر سے۔ ورنہ طوائف
اور فرائڈ کے دائرے سے نکل کر منٹو نے ہماری زندگی کی بے شمار باتیں کہی ہیں۔‘‘7
دراصل
کسی بھی فن پارے کو پرکھنے یاتجزیہ کرنے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا
ہے۔ پہلا حصہ موضوعاتی اور دوسرا حصہ فنی پہلوؤں کو محیط ہوتا ہے۔ ’نیا افسانہ‘ میں
وقار عظیم نے منٹو کے فن پاروں کو پرکھنے کے لیے پہلے حصے کا تجزیہ تو کیا،لیکن
دوسرے حصے یعنی فنی پہلوؤں پر گفتگونہیں کی۔ موضوعاتی سطح پرہر افسانہ نگار کی
طرح منٹو کے بھی سبھی افسانے نہ تو بہت اچھے ہیں اور نہ ہی بہت برے۔منٹو کے سبھی
افسانے نہ تو طوائف کی زندگی پر مبنی ہیں اور نہ ہی فرائڈ کے نظریے پر لکھے گئے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ منٹو نے بہت سے ایسے موضوعات کاا نتخاب کیا ہے،جو طوائف کی زندگی سے
متعلق ہیں،جس سے منٹو کوبہت سے لوگوں سے برائی مول لینی پڑی اور بہتوں سے گالی بھی
سننی پڑی۔یہی وجہ ہے کہ وقار عظیم نے اس وقت منٹو کے افسانوں کے فنی
پہلوؤںپرگفتگو نہیں کی۔ وقار عظیم جیسے بڑے فکشن کے نقاد بھی منٹو کے افسانوں کی
دنیاکو فنی نقطۂ نظر سے ’ کھوکھلی اور بے رنگ‘ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن
انہی وقار عظیم نے آگے چل کر منٹو پر ایک مختصر سی کتاب محض سترصفحے کی ’منٹوکا
فن‘ کے عنوان سے لکھی، جو1982میں شائع ہوئی، جس میں منٹو کے تئیں وقار عظیم کا نظریہ
بالکل مختلف ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے منٹو کے فن پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اوراس
بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’… حقیقت میں جس چیز نے منٹو کو منٹو بنایا،جس چیز نے
اسے وہ بڑائی دی، جس میں کوئی دوسرا افسانہ نگاراس کا ہم عصر نہیں،وہ اس کا فن
ہے۔‘‘ وقار عظیم منٹو کے فن پر مزید گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ کتاب کے آخری صفحے پر
لکھتے ہیں کہ منٹو ایک بڑا فنکار تھا، اتنا بڑا تھا کہ اس کا فن اسے کبھی مرنے نہیں
دے گا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اس لیے
کہ اس سے انکار کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں کہ وہ(منٹو) ان چند کمزوریوںکے باوجود
بہت بڑا فن کار تھا۔اس کا مشاہدہ، تخیل، تصور،فکر اور احساس میں اس کی شخصیت کا
گہرا رنگ ہے اور شخصیت میں غیر معمولی قوت و توانائی، وہی قوت و توانائی اس کے
پورے فن پر چھائی ہوئی ہے۔ اور آنے والے ہر دور میں ہر طرح کے حوادث کے خلاف سپر
بن کر اس کی حفاظت کر ے گی اور اسے زندہ رکھے گی … منٹو مر گیا… لیکن اس کا فن اسے
مرنے نہیں دے گا۔‘‘8
فکشن
تنقید میںبرج پریمی کا نام اہمیت کا حامل ہے۔منٹو پر ان کی دو کتابیں ’سعادت حسن
منٹو
حیات
اور کارنامے‘(1986) اور ’منٹو کتھا‘(1994) شائع ہوئی ہیں۔ انھوں نے منٹو کو ایک
بڑا فن کار تسلیم تو کیا ہے،لیکن انھیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ منٹو کے فن
پراب تک کوئی تعمیری کام نہیں ہوا ہے،ان پر جو بھی کام ہوئے ہیں ان کی حیثیت
اضطراری ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’...
سعادت
حسن منٹو نے افسانے کو موضوع، ہیئت، تکنیک اور زبان کے لحاظ سے تکمیلیت (Perfection) کے درجے پر پہنچا یا۔منٹو کی افسانہ
نگاری کی فنی قدرو قیمت کا تعین ایک دشوار کام سہی،لیکن اب جب کہ افسانے کے فنی
لوازم کا شعور نہ صرف نقادوں بلکہ افسانہ نگاروں میں بھی گہرا ہو رہاہے۔اس کام کو
انجام دینا لازمی اور نتیجہ خیز ہے،کیوں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ منٹو کے افسانوی
ادب کی صحیح قدرو قیمت کا احساس جاگ اٹھا ہے۔ منٹو کے افسانوں پرفنی نقطۂ نگاہ سے
جو کچھ مواد اِکے دُکے مضامین کی شکل میں یا منٹو نمبروں کی صورت میں منظر عام پر
آچکا ہے۔وہ ان کے آرٹ کی تفہیم اور تعین قدر کے ضمن میں اضطراری کوششیں قرار دی
جا سکتی ہیں۔ان کوششوں میں پہلے کے طے شدہ نظریے یا جذبات کا خاصا دخل رہا ہے۔ اس
لیے غیر جانب داری سے تنقید و تجزیے کا کام نہیں ہو سکا ہے۔9
درج
بالا اقتباس میں برج پریمی نے منٹو کے متعلق جو باتیں کہی ہیںان میں سے کچھ درست
ہو سکتی ہیں، لیکن یہ بات قطعی درست نہیں ہے کہ ’’منٹو کے افسانوں پرفنی نقطۂ
نگاہ سے جو کچھ مواد اِکے دُکے مضامین کی شکل میں یا منٹو نمبروں کی صورت میں منظر
عام پر آچکا ہے۔ وہ ان کے آرٹ کی تفہیم اور تعین قدر کے ضمن میں اضطراری کوششیں
قرار دی جا سکتی ہیں۔‘‘ برج پریمی کی کتاب ’سعادت حسن منٹو حیات
اور کارنامے‘ (1986) سے چار سال قبل وقار عظیم کی کتاب ’منٹو کا فن‘(1982) اور اس
سے بھی پہلے ممتازشیریں کی کتاب ’منٹو نوری نہ ناری‘ منظر
عام پر آچکی تھیں۔ان میں منٹو کے فن پرتنقیدی اور تجزیاتی نقطۂ نگاہ سے اچھی
گفتگو ہوئی ہے اور بہت اچھے نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں،جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا
ہے۔ غالباً موصوف نے منٹو پر لکھے گئے ابتدائی مضامین مثلاً منٹو میرا دشمن، میرا
دوست، میرا دشمن، منٹو ماموں کی موت، جو
بک نہ سکا، منٹو کی موت، رحم دل دہشت گرد وغیرہ؛کی روشنی میں یہ باتیں کہی ہیں۔ ان
مضامین میںزیادہ تر منٹو کی شخصیت کو موضوع بحث لایا گیا ہے،فن پر گفتگو خال خال ہی
ہے۔فنی نقطۂ نگاہ سے واقعی ان مضامین کو اضطراری کوشش قرار دیاجاسکتاہے۔
ماضی
قریب کے ناقدین میں وارث علوی نے منٹو پر کافی کام کیا ہے۔ان کا شمار منٹو شناسوں
میں ہوتا ہے۔ منٹو پران کی دوبہترین کتابیں ’سعادت حسن منٹو‘ اور ’منٹو ایک
مطالعہ‘ شائع ہوئی ہیں۔وارث علوی کے نزدیک منٹو ایک منجھاہوا، نفاست پسند اور
مشّاق فنکار تھا۔اس نے صحیح معنوں میں حقیقتِ نفس الامری کو اپنے افسانوں کا
موضوع بنایا ہے۔ وہ فطرت انسانی کا رمز
شناس اور اعمال انسانی کے پر اسرار نفسیاتی محرکات کا نباض تھا۔بلاشبہ منٹو ژرف بیں
تھا۔وہ چیزوں کو بہت گہرائی سے دیکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے سماج کی ان حقیقتوں
کوہمارے سامنے پیش کیا ہے،جن سے ہم با لکل نا آشنا تھے۔وارث علوی منٹو کی افسانہ
نگاری کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’...
منٹو
واقعی بڑا افسانہ نگار تھا،جس کے سینے میں افسانہ نگاری کے تمام راز پنہاں تھے۔ اس
کی معمولی سی معمولی کہانی بھی فنکارانہ چابکدستی اور ہنر مندی کا ثبوت پیش کرتی
ہے۔ منٹو کبھی بھی بے کیف، بے رنگ اور بے
جان نہیں ہوتا۔ تخلیق کا ایک آتشیں لاواہے، جو اس کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ اس کی ہر
کہانی زندگی کے انوکھے اور اچھوتے تجربات کی حرارت سے دہکی ہوئی ہے... منٹو کے ذریعے ہم پہلی بار ان حقائق سے آشنا
ہوئے جن کا صحیح علم نہ ہوتوآدمی نرم و نازک اور آرام دہ عقائد کی محفوظ تحویل میں
چھوئی موئی شخصیتوں کی طرح جیتا ہے۔‘‘10
شمیم
حنفی نے منٹو کو ایک الگ نظریے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ منٹو
اپنے دور کے افسانہ نگاروں میں سب سے کم پڑھا لکھاتھااور اپنے عہد کے بیشتر افسانہ
نگاروں کے مقابلے میں اس نے عمر بھی کافی کم پائی تھی،لیکن منٹو اپنے عہد کے
افسانہ نگاروں سے زیادہ حساس اور ذہین تھا۔وہ زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا،مگرکڑھا
(تجربے سے بھر پور)بہت تھا۔اس کے افسانوں کی طاقت اس کے مشاہدات، تجربات، ادراک
اور اس کی ہنر مندی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے عہد کے زیادہ تر افسانہ نگار اپنے
دورکے بعد معدوم سے ہوتے جارہے ہیں، مگر منٹو آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ
افسانوی ادب میں باقی ہے بلکہ اس کے افسانوں کی قدر اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ شمیم
حنفی منٹو کے باقی رہنے کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’...
اپنے
ترقی پسند ہم عصروں کے مقابلے میں، منٹو کے باقی رہنے کا سبب یہی ہے کہ منٹو نے
کہانی میں نہ تو علم کا سہارا لیا، نہ عقیدے کا، نہ آئیڈیالوجی کا،نہ کرتب بازی
کا۔منٹو کی طاقت اس کا مطالعہ اور تفکر نہیں بلکہ اس کا کھرا پن اور سچائی
ہے۔منٹوکا تجربہ اور ادراک ہے۔اس کی ہنر مندی ہے..... وہ کائنات کی ہر شے کو اور
ہر شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اپنی فن کارانہ ضرورت اور طلب کے مطابق
اسے ہمارے سامنے لاتا ہے ‘‘11
شمس
الرحمن فاروقی اردوفکشن تنقیدکا ایک اہم نام ہے۔
انھوں نے اردو کی دیگر اصناف کی طرح اردو فکشن پر بھی بہت لکھا ہے۔ ان کا
ماننا ہے کہ سعادت حسن منٹو جدید ادب کا سب سے بڑا نام ہے۔اس کے افسانوں میں نہ
صرف موضوعاتی سطح پر تنوع پایا جاتا ہے بلکہ فنی سطح پر بھی اس نے متعدد انوکھے
اور نئے تجربے کیے ہیں۔ منٹوکے افسانے کھول دو، نیا قانون اور ’ٹھنڈا گوشت‘ جیسی
کوئی اور فنی مثال پورے اردوافسانوی ادب میں دیکھنے کونہیں ملتی۔یہ ایسے افسانے ہیں،
جن کا نقطۂ نظر افسانے کے اختتام پر واضح ہوتا ہے۔جب ہم ان افسانوں کا مطالعہ
کرتے ہیں تو ابتدا میں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ افسانے بہت کمزور ہیں یا کبھی کبھی
ایسا بھی احساس ہوتا ہے کہ یہ افسانہ بنا ہی نہیں،لیکن جیسے ہی افسانے کے اختتامی
حصے پر پہنچتے ہیں تو ہمارانقطۂ نگاہ ہی بالکل بدل جاتا ہے۔ ان کا اختتام موثر
اور سحر انگیز ہوتا ہے۔ یہ منٹو کی فنی مہارت ہے، جو اردو کے دوسرے افسانہ نگاروں
میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ اتنے بڑے فن کار کواردو کے ابتدائی
ناقدین نے محض فحش نگار سمجھا اورا سے فحش افسانہ نگار کہہ کر ٹال دیا۔شمس الرحمن
فاروقی اس تعلق سے لکھتے ہیں:
’’یہ
منٹو کی بدقسمتی اور ہماری تنقید کاشرمناک عجز ہے کہ ہم منٹو کو صرف جنس نگار سمجھیں۔
یہ ہماری تنقید کی بدنصیبی اور ہمارے پڑھنے والوں کے ساتھ ظلم عظیم ہے کہ منٹو
کو’رنڈیوں کا افسانہ نگار‘ اور ’فحشیات کا ماہر‘یا بہت سے بہت ’فسادات کے موضوع پر
چند شاک انگیز افسانوں کا مصنف ‘ کہہ کر
ٹال دیا جائے۔‘‘12
شمس
الرحمن فاروقی کو اس بات پر افسوس ہے کہ منٹو جیسے صاحب فکر فنکار کو ’رنڈیوں کا
افسانہ نگار‘ اور ’فحشیات کا ماہر‘ تک ہی محدود رکھا گیا۔ناقدین اگر اس سے آگے
بڑھتے بھی ہیں تو اسے زیادہ سے زیادہ فسادات کے موضوع پر لکھنے والا افسانہ
نگارمانتے ہیں۔ اس کے فنی پہلوؤں پر گفتگو نہیں کرتے۔شمس الرحمن فاروقی کو اس بات
پر غصہ بھی آتا ہے۔وہ اسے اردو تنقید کا شرمناک عجز سمجھتے ہیں۔ان کا غصہ یہیں
ختم نہیں ہوتا۔ فاروقی آگے چل کر اس بابت اور سخت جملے استعمال کرتے ہیں اور کہتے
ہیںکہ اس سے منٹو کے بعد کی نسلوں کا نقصان ہوا ہے اور ہمارے نوجوان قاری منٹو کی
افسانہ نگاری کے متنوع فنی ارتفاع سے واقف نہیں ہو پائے۔وہ لکھتے ہیں کہ:
’’نقصان
تو منٹو کے بعد کی نسلوں کا ہوا کہ انھوں نے منٹو کو صرف ایک آنکھ سے اور وہ بھی
کانی آنکھ کے کونے سے دیکھا... بگڑا تو ہمارے نوجوان قاری کا کہ وہ منٹو کی حقیقی
بصیرتوں، ان کے فن کی حقیقی گہرائیوں، افسانہ نگار ی کے فن پر ان کی وسیع الذیل
دسترس سے ناواقف رہ گئے۔‘‘
ان
تمام باتوں کی روشنی میںمجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ دیر ہی سے سہی لیکن
منٹو کو وہ حق ملا،جس کا وہ اصل حق دار تھا۔ منٹواردو کا واحد افسانہ نگارہے،جس کا
شمار عالمی سطح کے افسانوی ادب میں ہوتا ہے۔اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو
منٹواپنے دور سے آگے کا افسانہ نگار تھا۔ چونکہ جس منٹو کو اس کے دور میں لائق
مطالعہ نہیں سمجھا جا رہا تھا۔اس پرفحاشی کے الزامات لگائے جارہے تھے۔ اس کے
افسانوں پر مقدمے چلائے جا رہے تھے۔آج ایک عرصہ گزر جانے کے بعد اسی منٹو پر
’ہمارے منٹو صاحب‘ جیسے مضمون اور ’ہمارے لیے منٹو صاحب‘ جیسی کتاب لکھی جارہی ہے۔یہی
نہیں آج منٹو کا شمار عالمی سطح کے افسانہ نگاروں میںبھی ہو رہا ہے۔
یہ
وہی منٹو ہے،جس کو ابتدا میںاردو کی پہلی خاتون نقاد ممتاز شیریں نے اس لائق نہیں
سمجھا کہ اس پر روشنائی خرچ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے مضمون ’تکنیک کا
تنوع‘ میں منٹو کو جگہ نہیں دی، لیکن بعد میں اسی ممتاز شیریں نے نہ صرف یہ کہ
منٹو کے فن پر اپنے قلم کو جنبش دی بلکہ ان پر ایک بھر پور کتاب بعنوان ’ منٹو
نوری
نہ ناری‘ بھی لکھی۔ ممتاز شیریں ہی نہیں بلکہ اردو کے ہر چھوٹے بڑے ناقد(جو بھی
اردو افسانے کے فن سے تھوڑا بہت بھی سروکار رکھتا ہے) نے منٹو کی شخصیت اور اس کے
فنِ افسانہ نگاری پر اپنے قلم کی روشنائی بکھیری ہے اور اسے ایک بڑے ادیب اورفنکار
کے طور پر قبول کیا ہے۔
حوالہ جات
- پریم گوپال متّل (مرتب) ، سعادت حسن منٹو، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی، 1999،ص07
- سعادت حسن منٹو، مشمولہبلراج مین را،مرتب،دستاویز،شعور پبلی کیشنز، نئی دہلی،1982،ص118
- سعادت حسن منٹو،مشمولہممتاز شیریں، منٹو نوری نہ ناری،مکتبہ اسلوب، کراچی،1985،ص161
- مظفر علی سید(دیباچہ)، منٹو نوری نہ ناری، ممتاز شیریں،مکتبہ اسلوب، کراچی،1985، ص23،24
- ممتاز شیریں، منٹو نوری نہ ناری،مکتبہ اسلوب، کراچی، 1985، ص154
- ایضاً،ص124
- وقار عظیم، نیا افسانہ،مطبوعہ جناح پریس، دہلی،1946،ص167
- وقارعظیم،منٹو کا فن،اعجاز پبلشنگ ہاؤس،دہلی،1982،ص71
- برج پریمی، سعادت حسن منٹوحیات اور کارنامے، دیپ پبلی کیشنز، کشمیر، 1986،ص174
- وارث علوی، سعادت حسن منٹو، ساہتیہ اکادمی، دہلی، 1995، ص100
- شمیم حنفی،منٹو حقیقت سے افسانے تک،دلّی کتاب گھر، 2012، ص 289
- شمس الرحمن فارقی، ہمارے لیے منٹو صاحب،ایم۔ آرپبلی کیشنز، نئی دہلی، 2013، ص6
- 13 ایضاً
Dr. Md Nehal Afroz
Asst. Professor(Cont.), DDE
Maulana Azad National Urdu University
Gachbowali,
Hyderabad - 500032 (Telangana)
Mob.: 9032815440
Email: nehalmd6788@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں