10/11/22

کوٹہ کا علمی وادبی پس منظر: محمد فہیم الدین

راجستھان کی تاریخ اوریہاںکی علمی وادبی خدمات کے مطالعے سے یہ حقیقت مترشح ہوکرسامنے آجاتی ہے کہ دہلی،لکھنؤاوردیگرخطوں کی طرح کوٹہ بھی ادبی حوالے سے زرخیز رہاہے۔ تاریخی اعتبار سے کوٹہ ریاست کی بنیادسترہویں صدی عیسوی میں عہدجہانگیری کے دوران رائومادھوسنگھ ہاڑا(1599-1648) نے 1632 میں رکھی تھی۔ یہ ابتدا میں ریاست بوندی کاحصہ تھی۔رائو مادھوسنگھ بوندی کے راجارتن سنگھ کا دوسرا بیٹا تھا۔ ا س ریاست کے راجائوںکومہارائوکاخطاب ملاتھا۔مہارائوبھیم سنگھ اول (ولادت 1682۔ وفات1720)نے مغل حکومت سے پانچ ہزاری منصب پایا۔ 26دسمبر1817کویہ ریاست انگریز ی حکومت کے ماتحت آگئی۔ 1822 میں حکومت انگلشیہ نے اردوکو دفتری زبان بنانے کاملک گیر اعلان کردیا۔ المیہ یہ ہواکہ اردوکی ترقی غدرکے ہنگاموں کے فرو ہونے کے بعدہی ہوسکی جب راجپوتانہ کے باہرسے اردوداں حضرات کی آمدو رفت شروع ہوئی۔  دریائے چمبل کے کنارے بسا ہو ایہ خوبصورت شہر مقامی وغیرمقامی نامور ادبا وشعرا اور فنکاروں کامسکن رہا ہے جنھوں نے اس کا نام دنیابھر میں روشن کیا۔ راجستھان کے پٹھاری خطہ کوٹہ کے حوالے سے احتشام اخترکایہ شعرزبان زدخاص وعام ہے        ؎

ندی کاہے یہ کرشمہ جوہوگئی رونق

کہ ریگزارمیں مثل بہارہے کوٹہ

 کوٹہ میں اردوزبان وادب کی ترقی میں بیرونی شعرا وادبا کا رول بھی اہم ہے۔اس فہرست میں منشی فیاض الدین احمد فدا (تلمیذ غٖلام محمد رہا  اکبر آبادی ) عبداللطیف یکتا (تلمیذ انور دہلوی، داغ دہلوی) افضل حسین ثابت لکھنوی، (تلمیذاوج لکھنوی وامیر مینائی )سید محمد حسن ثاقب دہلوی (تلمیذذکی دہلوی تلمیذ غالب) مذاق بدایونی، ریاض الحسن ریاض متھراوی، عبدالقاد رند اکبرآبادی، ہیرالال سود شیدا اکبرآبادی، حکیم سیداحمدحسین لکھنوی، مولوی مظہرالہادی امروہوی وغیرہ کی شمولیت ہے جن کاتذکرہ ثابت  لکھنوی کی حیاتِ دبیرمیں کیاہے۔کوٹہ میں1857کے بعد کا عہد اردو شاعری کے ارتقاکے باب میں نہایت اہمیت کاحامل ہے۔ دلّی اجڑی، لکھنؤ، رامپور اور حیدرآباد ریاستیں آباد ہوئیں۔ ان کے انتشار کے بعد مزید چھوٹی بڑی ریاستیں مہاجرین اردو کی آماجگاہ بنیں۔ راجستھان کے دیگر خطوں کی طرح کوٹہ بھی اجڑے دیار کے لوگوں سے آبادہوگیا۔بقول دیا نرائن نگم:

’’غدرکے بعدانگریزوں کی ایما پر نواب فیض علی خاں کوٹہ کے وزیراعظم مامور ہوئے اور ریاست کے دفاتر میں اردو زبان استعمال کی جانے لگی۔ 1857میں مطبع فیض کے نام سے پریس  قائم  ہوا۔ اس پریس پرسرکاری قوانین اردو اور دیوناگری رسم الخط میں شائع کیے جاتے  تھے۔  اس  دوران ریاست کے سرکاری ملازمین میں ایسے حضرات شامل ہوئے جن کوشعروسخن کاشوق تھا۔ ‘‘

(ماہنامہ زمانہ کانپوردسمبر1943،  ص286 )

اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نواب فیض علی خاں جب کوٹہ کے وزیراعظم مقرر ہوئے تو اردو ادب کو ترقی وترویج ملی۔ دراصل کوٹہ میں اردو کی آمد اور اس کے استحکام کاسہرا بھی ان ہی کے سرجاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی پیش نظررہے کہ ادبی سطح پرکوٹہ میں اردو اُس وقت عام ہوئی جب حاجی سیدجعفرحسین (سیشن جج کوٹہ) کے ہمراہ منشی افضل حسین ثابت لکھنوی نے یہاں کی بودو باش اختیارکی۔ کوٹہ کی ادبی فضاکوخوشگواربنانے میں نواب فیض علی خاں کے شانہ بہ شانہ ثابت لکھنوی کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں جنھوں نے نثرونظم دونوں اصناف میں اپنی یادگارتصانیف چھوڑی ہیں۔ ان کے علاوہ تلامذہ غالب کے طورپرمنشی گوبندسہائے نشاط الہ آبادی بہ حیثیت سیشن جج اورمحسن الدولہ سفیرالملک نواب سیدمحمدجمشیدعلی خاں جم حاکم بن کرکوٹہ میں وارد ہوئے۔ اس سے ازخود ادبی سرگرمیاںتیز ترہوگئیں۔ 1880 میں کوٹہ کے افق شاعری پہ جگمگانے والا اولین ستارہ ثابت لکھنوی تھے جنھوں نے باقاعدہ طور پر کوٹہ میں اردو شعرا کا حلقہ تیار کیا۔ کوٹہ کے استاد شاعرمفتوں کوٹوی اپنے مضمون ’ثابت لکھنوی مرحوم کی ضیاپاشیاں ‘میں رقم طراز ہیں:

’’ثابت مرحوم 1862 میں بمقام لکھنؤمیں پیدا ہوئے۔ انقلاب 1857 کے مابعد نے انھیں معاشی  ضرورتوں کے تحت ترک وطن پہ مجبورکیا۔1880 میں بہ عمر18سال کوٹہ راجستھان آئے۔   پہلے سرکاری ملازمت سے وابستہ رہے، بعدازاں وکالت شروع کردی۔ ریاست کوٹہ سے انھیں وظیفہ ادبی بھی ملتاتھا اور دربارمیں ان کی نشست بھی مقرر تھی۔ حیات دبیرحصہ اول ودوم اوردربارحسین ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ خود ان کے اعزائی اصناف کامجموعہ صبر جمیل(تاریخی نام برق غم)شائع ہوچکاہے۔حالانکہ انھوں نے کافی غزلیں،نظمیں اور رباعیات کہی ہیں۔ شاید حوادث روزگارکی زدمیں آگئیں۔ 1947 کا طوفان انھیں بھی کہیں اڑالے گیا۔ یہ (ثابت لکھنوی) 1941 میںبہ عمر79سال رحلت فرماگئے۔ کوٹہ ہی میں پیوندخاک ہوئے۔

(سہ ماہی نخلستان اودے پور راجستھان، شمارہ 1,2، اشاعت اپریل وجولائی 1964)

ثابت لکھنوی دبستان لکھنؤ سے بلا واسطہ اور دبستان دبیرسے بالواسطہ مرزا اوج لکھنوی سے وابستہ تھے۔ ثابت لکھنوی اپنے کلام پراوج لکھنوی سے اصلاح لیتے تھے اوردیگراصناف سخن میں امیرمینائی سے مشورہ سخن فرماتے تھے۔ ان کی قابل قدر تصنیف ’حیات دبیر‘ شبلی نعمانی کی ’موازنہ انیس ودبیر‘ کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ ثابت کے دیگر ادبی کارناموں میں ’دربارحسین  1921، صبرجمیل، جلوہ گاہ پیغمبر، بہارغم اورریاض فکرالمعروف قول ثابت قابل ذکرہیں۔ اس عہد کی ایک قابل ذکرتصنیف  ’حارق الاشرار‘ ہے مولوی فتح اللہ کی یہ کتاب کوٹہ کی اولین تصنیف مانی جاتی ہے۔ 1932 میں ڈاکٹررام بابوسکسینہ کاکوٹہ میں دیوان مقررہونابھی اردوادب کے لیے فال نیک ثابت ہوا۔ انھوں نے 1938 اردو، فارسی، یوروپین اور انڈو یوروپین شعرا  کاایک ضخیم تذکرہ انگریزی میں تحریر کیا۔ 1943 میں’یوروپین اینڈانڈویوروپین پوئٹس آف اردو اینڈپرشین‘ کے نام سے نول کشورپریس لکھنؤنے شائع کیا۔ اس کتاب کے ساتھ 500صفحات کااردوضمیمہ بھی تھاجس میں شعراکے کلام کاانتخاب شامل ہے۔یہ کتاب بھی کوٹہ میں علمی وادبی  خدمات کے اعتبارسے میل کاپتھرمانی جاتی ہے۔

اردوزبان وادب کے فروغ میںجہاں ایک طرف کوٹہ میں مختلف انجمنوں اوراداروں نے ادبی کاوشوں کو نمایاں کیا وہیں دوسری طرف شعرائے کوٹہ نے اصناف سخن میں نت نئے تجربے کرکے اردو ادب کا دامن وسیع کیا۔ بعض شعرا روایتی شاعری تک محدودرہے توبعض شعرا نے حالات حاضرہ سے متاثرہوکراپنے طرزسخن میں تبدیلی کی۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ غزل کی زلف برہم کو سنوارا بلکہ پابند نظموں کی روایات کوبھی آگے بڑھایا۔ چند نظم گو شعرا نے پابندنظموں سے گریز کرتے ہوئے آزاداورنثری نظم کی طرف رجوع کیا۔ ایسے شعرائے کوٹہ میںعقیل شاداب، احتشام اختر، ظفر احمد پرواز، ظفرغوری، فاروق انجینئر، شکورانور، چاندشعری، پرشوتم یقین، یقین الدین  یقین (فرزندمفتوں کوٹوی) رؤف اختر، ارشد سراج، فرخ ندیم (فرزندعقیل شاداب) اورنعیم دانش قابل ذکرہیں جنھوں نے صنف غزل اور پابندنظم کے علاوہ  آزاد اور نثری نظموں کو اپنا پیرایہ بیان بنایا۔

راجستھان کی ادبی تاریخ کے مطالعے سے اب تک کی تحقیق کی روشنی میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی  ہے کہ کوٹہ میں اردوشاعری کے لیے 1873 سے 1879 تک فضاساز گار رہی اور باقاعدہ طورپرآغاز 1880 ثابت لکھنوی کی تشریف آوری سے ہوا۔ یہ بڑے قادرالکلام شاعرتھے۔ غزل اور مرثیہ میں انھیں یدطولی حاصل تھا۔ انھوں نے اردو ادب کے لیے جو سازگار ماحول  تیار کیا اس کے سبب دیگرحضرات بھی میدان ادب میں سرگرم ہوئے۔ اگرچہ وہ ان کے شاگرد نہیں تھے پھر بھی بہترین شاعری کرتے تھے جن میں عثمان غنی مائل، چھوٹے خاں رشید، نیازاحمدنیاز، احمدحسین زور، عبدالعظیم خاں بسمل اور راجندر کمار مجبور کی شمولیت ہے۔ ثابت لکھنوی کے اثرات سے کوٹہ میں شاعری کے افق پہ کئی تلامذہ ابھرکرسامنے آئے جنھوں نے آگے چل کرکوٹہ میں اردو شاعری کی مشعل کوفروزاں کیا۔ ایسے شعرا میں بابو بال مکند گپت، مفتوں کوٹوی۔ سراج کوٹوی، تمکین کوٹوی اور عبدالعظیم بسمل اکبرآبادی قابل ذکرہیں۔ ان میں مفتوں کوٹوی عالم گیرسطح پر معروف ہیں۔ہاڑوتی کے ساتھ ساتھ راجستھان کے ادبا وشعرا میں بحیثیت شاعروادیب اورمحقق و نقاد ان کی شخصیت منفرد ہے۔ وہ قادرالکلام شاعر ہی  نہیں بلکہ بہترین نثرنگاربھی تھے۔ ان کے درجنوں مضامین ملک کے مقتدر رسائل وجرائد میں شائع ہوئے۔ وہ راجستھان ساہتیہ اکادمی اورراجستھان اردواکادمی کے رکن بھی رہے۔ ساہتیہ کلا مندرکوٹہ نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کئی اعزازات سے نوازا۔ مفتوں کوٹوی کے انتقال کے بعدعقیل شاداب کا ایک مضمون ’مفتوں کوٹوی ایک شاعر‘ ماہنامہ شاعرممبئی  جلد52، شمارہ 1 تا 3 میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں موصوف نے مفتوں کوٹوی کی غیرمطبوعہ کتب کی ایک فہرست بھی شامل کی جن میں14 شعری مجموعے اور22 نثری تخلیقات شامل ہیں۔ راجپوتانہ اردوریسرچ اکادمی جے پور کے خادم ڈاکٹرشاہد احمد جمالی نے ’راجستھان کی ادبی فضائوں کی سیر، جلداول ازمفتوں کوٹوی‘ کو مرتب کرکے ان کے 90 مضامین کی فہرست نقل کی ہے۔ سرزمین کوٹہ میں کوئی دوسرا ان کاہم سرنظرنہیں آتا۔ درحقیقت مفتوں کوٹوی نے اس زمانے میں تحقیق کا بیڑا اُٹھایا جب کالج اور یونیورسٹی کے طلبا اردو میں ریسرچ کا تصوربھی نہیں کرسکتے تھے۔ مفتوں کوٹوی کی تحقیقات میں تحقیق، تاریخ، ادب، معلومات، مذہب و سوانح کے علاوہ چندافسانے بھی شامل ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے محمدعثمان عارف نقشبندی اپنے مضمون ’مفتوں کوٹویماہ نوکے آئینے میں‘ میں لکھتے ہیں۔اگرمفتوں صاحب کے مضامین کوجمع کیاجائے توہزاروں صفحات کانثری سرمایہ اکٹھاہوسکتاہے۔

(ایضاص36)

ثابت لکھنوی کے مشن کومفتوں کوٹوی نے عام کیا۔ کوٹہ اوراطراف کوٹہ میں شعرا کی کثیرتعداد نے اس تربیت میں حصہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ مفتوں کوٹوی کے تلامذہ کی طویل فہرست ہے۔ثابت لکھنوی کی کاوشوں کی بدولت کوٹہ کی ادبی نشستوںکو جوعروج حاصل ہوا جنھوں نے اس حوالے سے ایک جگہ لکھاہے۔

’’شروع شروع میں یہ ادبی محفلیں سید کا باغ، سیٹھ کنولال نوہرااورراج کنہاری کی حویلی میں منعقدہوتی تھیں۔ خاص نشستوں میں ثابت لکھنوی، سہیل امروہوی او روکیل محمدثاقب شریک ہوتے تھے۔‘‘

(مضمون راجستھان میں فروغ اردو کا صدسالہ جائزہ، رسالہ اردوادب علی گڑھ ص 83، اشاعت1966)

بیسویں صدی کے نصف اول میں یہاں اردوزبان وادب کوعروج حاصل تھا۔ ہرخاص وعام اس کاوالہ وشیدا تھا۔ جب کوٹہ میں باقاعدہ شعر و شاعری کا آغاز ہوگیا تو تیزی سے ادبی انجمنوں کی تشکیل ہونے لگی۔ شعری نشستوں اور مشاعروں کا انعقاد ہونے لگاجن کی بدولت کوٹہ کاادبی ماحول سازگارہوا۔ ان میں بھارتیندوسمیتی کو ٹہ، انجمن تنظیم المومنین کوٹہ، انجمن ہلال احمر، مشاعرہ پریم منڈل، مشاعرہ  ریلوے انسٹی ٹیوٹ کوٹہ جنکشن، بزم افکار کوٹہ، بزم شوکت کوٹہ، بزم اطفال کوٹہ، بزم شعرا کوٹہ، ہربرٹ کالج کوٹہ کے سالانہ ڈنرپرمنعقدہونے والی شعری نشستیں، بزم ادب کوٹہ، ہندی اردوپوئٹس ایسوسی ایشن، مشاعرہ  ہربرٹ کالج (اولڈبوائز ایسوسی ایشن کوٹہ) فی  البدیہہ مشاعرہ، میلہ دسہرہ کے موقعے پرہونے والے سالانہ مشاعرے، جشن قیس، ہندی اردوسنگم مشاعرے اوربزم سخن کے زیر اہتمام ہونے والے مشاعروں سے یہاں کی ادبی فضا جگمگا اُٹھی۔ یہ فہرست ان انجمنوں، اداروں اور مجالس کی ہے جوکوٹہ میں اردوادب کے فروغ کے لیے کوشاں رہیں۔

کوٹہ کے استاد شاعرمفتوں کوٹوی نے اپنے مضمون ’کوٹہ میں اردو‘ میں لکھاہے کہ 1930کوٹہ کے راجابھیم سنگھ کی شادی کے سلسلے میں سہرے اور قصائد لکھے گئے۔ مارچ 1930 میں ان کاایک مجموعہ شائع کیاگیا۔ مذکورہ مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعرا کی تعداد اور نام کوٹہ کی علمی وادبی حیثیت کوواضح کردیتی ہے۔ بحیثیت مجموعی 1857 تاحال کوٹہ میں ادبا وشعرا کی چارنسلیں سرگرم نظرآتی ہیںجن کی درجہ بندی مقامی و غیرمقامی سطح پرکی جاسکتی ہے۔ 1857کے بعد شعرائے کوٹہ میں مفتوں کوٹوی، ڈم ڈم کوٹوی، روشن کوٹوی، توفیق کوٹوی، امین نشاطی، عزیز مانگرولی، راغب کوٹوی، قیس کوٹوی، تمکین کوٹوی، جوہرکوٹوی، عبد اللطیف کوٹوی،  عبدالستار عبد اور حافظ حکمت علی حکمت کانام بطور خاص لیا جاسکتا ہے۔ مابعدآزادی کے شعرا میں ظفرغوری، ظفراحمدپرواز، عقیل شاداب، بشیر احمدلطفی، امین الدین اثر، آزادارمی، شکورانور، رؤف اختر، جلال توقیر، عبدالحمید حیراں، امیر محمد صابر، سعیدمحوی، مضطرصدیقی، یقین الدین یقین، نارائن لال گوڑ شیل اور دیگر اس قافلے کے سابقون الاولون ہیں۔ تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے شعرا وہ ہیں جن کا وطن اگرچہ کوٹہ نہیں تھالیکن ملازمت اورطویل قیام کی وجہ سے انھوں نے اسے وطن ثانی بنایا۔ ایسے شعرا میں ثابت لکھنوی، للتا پرساد شاد میرٹھی، بہار صدیقی، فضا جوکالوی، احتشام اختر، فاروق بخشی، عبدالجبار واہی، راہی ٹونکی، اکرام راجستھانی، فاروق انجینئراورکنور جاوید کے نام قابل ذکر ہیں۔ شعرا کی جدیدنسل میں فرخ ندیم،نعیم دانش، احمد سراج فاروقی، یوسف راز، چاندشعری، جمیل قریشی، سلیم آفریدی، سلیم عباسی، ڈاکٹر فرید خان، ڈاکٹر زیبا دختر خدا داد مونس، عزیز ناچیز، الیاس ناز، غلام مصطفی، اطہراجینی اور بشیر احمد میوخ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ قدیم و جدید شعرائے کوٹہ کا کلام بطورنمونہ ملاحظہ ہوں          ؎

کم ظرف سے نہ مانگ کہ ثابت نہ ہو دلیل

قطرہ بھی نام کو نہیں جام حباب میں

(ثابت لکھنوی)

غیر کیا جانیں کیاراز ہے اس میں پنہاں

آنکھ سے آنکھ جومحفل میں لڑی جاتی ہے

(للتاپرساد شادمیرٹھی)

بات باتوں سے بنتی ہے قاصد

اپنی جانب سے کچھ کہا ہوتا

(فضاجوکالوی)

مری بربادیاں دیکھی ہیں میں نے خوب اے جوہر

مرے آگے جلایا جارہا تھا آشیاں میرا

(جوہرکوٹوی)

سوزغم حیات کے نغمے مچل گئے

پوچھا کسی نے حال تو آنسو نکل گئے

(عبدالکریم شادکوٹوی)

مفتوں ہمارے شعرپہ ہوگایہ سخت ظلم

پہنچے اگرنہ چشم سخن داں کے سامنے

(مفتوں کوٹوی)

جب میرے گھرنے آگ پکڑی تھی

ملنے آیا تھا وہ ہوا کی طرح

(عقیل شاداب)

سیکڑوں ظلمت کدوں کو توڑ کر آئے گا پھر

اک نیا سورج جو مضطر شب کے پیراہن میں ہے

(مضطرصدیقی)

بھاری بھرکم پیڑ اکھڑتے جاتے ہیں

کیسے کیسے لوگ بچھڑتے جاتے ہیں

(فاروق بخشی)

تو نہ امرت کا پیالا دے ہمیں

صرف روٹی کا نوالا دے ہمیں

(چاندشعری)

ماقبل آزادی ومابعد آزادی چندبرسوں تک کوٹہ میں ادبی سرگرمیاں سرد رہیں جس کی وجہ 1947کے ناسازگار حالات تھے۔ اس سے کوٹہ کی ادبی فضابھی خاصی متاثر رہی۔ اس جمود کا خاتمہ 1960میں مابعدجدیدیت کی بدولت ہوا۔ ایک بار پھر سے ادبی نشستوں کا انعقاد ہوا اور شعرا کی محفلیں آباد ہونے لگیں۔ اس زمانے کی نشستوں میں باہر کے شعرا کومدعو کیاجاتاتھا۔ بقول احتشام اخترکوٹہ کے بارے میںایک خاص بات قابل ذکر ہے کہ کوٹہ کے ادبی ماحول پرکبھی جمودطاری نہیں ہوا۔

کوٹہ کے نوجوان شعرا اپنے پیش روشعرا سے زیادہ سرگرم عمل اور فعال ہیں۔کوٹہ جیسے صنعتی شہر میں رہنے والے نوجوان شعرا کی فکربھی جدید اور سائنٹفک ہے۔ ان کی فکر ان کی شاعری میں بھی منعکس ہوتی ہے۔

(اندازنظر،مضمون،کوٹہ کاجدیدشعری ادب ایک جائزہ، ص 44، 2010)

مذکورہ اقتباسات سے یہ مترشح ہوجاتا ہے کہ ہاڑوتی میں آزادی سے قبل ثابت لکھنوی، ان کے شاگرد مفتوں کوٹوی، تلامذہ غالب للتا پرساد شاد میرٹھی اور ان کے ہمعصروں کے علاوہ کوٹہ کے کئی اساتذہ وریسرچ اسکالر نے تحقیقی حوالوں سے اردو ادب کے سرمائے میں اضافہ کیاہے۔ ان میں ڈاکٹرفاروق بخشی، پروفیسر احتشام اختر، ڈاکٹر قمرجہاں بیگم اور ڈاکٹرحسن آرا کا تعلق گورنمنٹ پی جی کالج کے شعبہ اردوسے رہا ہے۔ ڈاکٹرنعیم فلاحی جوفی الوقت صدرشعبہ اردوپی جی کالج کوٹہ ہیں اردو کے حوالے سے مختلف خدمات کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ڈاکٹرنادرہ خاتون اور ڈاکٹر نصرت فاطمہ کی تحقیقی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ فاروق بخشی اور احتشام اخترکے کئی شعری مجموعے اور تنقیدی مضامین ادبی ذخائر میں  بیش بہا اضافہ ہیں۔ اسی طرح’راجستھان کی نثری خدمات ایک صدی کاجائزہ، راجستھان میں اردو نثرکی ایک صدی1857تا1957‘ ایسے کارنامے ہیں جسے ڈاکٹرقمرجہاں نے انجام دیا ہے ۔ڈاکٹر نادرہ خاتون کا تحقیقی مقالہ ’راجستھان میں شعری گلدستوں کی روایت‘ اور ڈاکٹرنصرت فاطمہ کاتحقیقی مقالہ ’راجستھان میں رثائی ادب کا ارتقا‘ میل کا پتھر مانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حسن آرا کا تعلق بھی گورنمنٹ پی جی کالج کوٹہ سے رہا ہے۔ انھوں نے ’سلیم الدین تسلیم حیات اور کارنامے‘ پرتحقیقی کام کیا۔ گزشتہ چندبرسوں کے دوران کئی ریسرچ اسکالرس نے تنقیدی مضامین اورتحقیقی مقالے لکھے ہیں۔ اس میں بطور نمونہ ڈاکٹر شاہد پٹھان، ڈاکٹر شریف، صابر احمد، شاہنواز اختر، آمنہ خاتون، انجم آرا، محمداشفاق منصوری، شاہین پروین، نیلوفر اکرام، ڈاکٹربے بی شبانہ اور راقم الحروف کو شامل  کیا جاسکتا ہے۔ریاست کوٹہ کاعلمی وادبی سفر مختلف نشیب وفراز سے گزر کر ارتقا کی جانب گامزن ہے۔ عہدگزشتہ کے ادبا وشعرا نے نئی نسل کے لیے جو راہیں ہموارکی ہیں ان پرچل کرہی نسل نونے روایات کو زندہ وتابندہ رکھاہے۔

n

Mohd Faheem Ahmad

C 41, Raza Nagar

Rang Talab

Kota - 324002 (Rajasthan)

Mob.: 9413404264

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں