اُردو شاعری میں غالب نے ’مرثیہ عارف‘ لکھ کر شخصی مرثیے
کی بنیاد رکھی۔ مومن نے اپنی محبوبہ کے انتقال پر مرثیہ لکھ کر اس روایت کو آگے
بڑھایا۔ اس کے بعد دہلی اور لکھنؤ کے بے شمار شعرا نے شخصی مرثیے کی طرف توجہ دی
حالی نے غالب کی رحلت پر ’مرثیہ غالب‘ لکھ کر شخصی مرثیہ نگاری کو مزید وسعت بخشی
حالی کے بعد سیماب اکبر آبادی، سرور، اقبال اور چکبست نے شخصی مرثیے کی روایت کو
مستحکم کیا۔
چکبست کے شعری مجموعے ’صبح وطن‘ میں 9 شخصی مرثیے ہیں
جن کے نام یہ ہیں
بشن نرائن در، گوپال کرشن گوکھلے، بال گنگادھر تلک،
گنگا پرشاد ورما، اقبال نرائن مسئلہ داں، نشتر یاس (تیج نرائن چکبست)، ماتم یاس
(اجودھیا ناتھ آغا)، مہادیو گودند راناڈے، پرتاپ کرشن گرٹو
چکبست کی غزلیں ہوں یا نظمیں سبھی قومیت و حب الوطنی کے
جذبے سے سرشار ہیں۔ مذکورہ مرثیے بھی زیادہ تر انھیں افراد کے ہیں جن کا ملک و قوم
وطن کی سیاسی، سماجی، قومی تحریکوں سے تعلق تھا۔ جن کی وفات کے بعد وطن کو شدید
نقصان ہوا۔ چنانچہ ان تمام مرثیوں میں چکبست نے انفرادی و اجتماعی درد و الم، غم و
اندوہ کو نہایت پر اثر انداز میں بیان کیا ہے۔
چکبست کے شعری
مجموعے ’صبح وطن‘ میں شامل مرثیوں میں پہلا مرثیہ بشن نرائن درکا ہے۔ چکبست کے
مطابق 1890 کے درمیان پنڈت نرائن سے دہلی میں ان کی ملاقاتیں ہوتی رہی، جس کے بعد
بش نرائن سے ان کی عقیدت ایسی ہوگئی جیسے کسی شاگرد کو استاد سے ہوتی ہے۔ ایک جگہ
چکبست کہتے ہیں کہ
ــ’’پنڈت بشن نرائن درنے،مجھ کو غور و فکر کا طریقہ بتلایا، مجھے ان کی علمی شاگردی کا فخر ہے اور ان کی خدمات میں نیاز حاصل ہونے کو ایک نعمت سمجھتا ہو۔
(چکبست، ص 30)
چنانچہ چکبست نے اس نعمت کے اُٹھ جانے پر اپنے غم کا
اظہار اس طرح کیا ہے کہتے ہیں ؎
صدمہ عام یہ ہے قوم کا پیارانہ رہا
بے زبانوں کی زباں دِل کا سہارا نہ رہا
گلشن علم وادب کا چمن آرا نہ رہا
مطلع دانش بنیش کا ستارا نہ رہا
(صبح وطن، ص 144)
اسی طرح بشن نرائن کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے
کہتے ہیں ؎
روش عام سے تجھ کو نہ سروکار رہا
جو ہر خاص کا ہستی سے طلب گار رہا
گوکہ جنجال میں دنیا کے گرفتار رہا
اپنے دامن کو سمیٹے ہشیار رہا
رنگِ دنیا سے رہا عالم فانی میں جدا
جیسے لہروں سے کنورہتا ہے پانی میں جدا
(ایضاً، ص 136)
چکبست کے مطابق بشن نرائن بے لوث شخصیت کے حامل انسان
تھے۔ پوری زندگی میں کبھی دنیا کی دولت سے رشتہ نہیں رکھا۔ حرص و ہوس سے یہ بہت
دور رہے، انصاف پسند، حق گو تھے، چنانچہ چکبست ان کی شخصیت کی خوبیوں کو سراہتے
ہوئے کہتے ہیں ؎
تجھ کو معلوم نہ تھا دولت دُنیا کیاہے
حرص کیا شئے ہے زرومال کا سودا کیا ہے
خود پرستی کا زمانہ میں تقاضا کیا ہے
عیش کیا چیز ہے راحت کی تمنا کیا ہے
دل محبت پہ فدا آنکھ مروّت سے غنی
تجھ کو دشمن کی بھی منظور نہ تھی دِل شکنی
مگر انصاف کے حق میں ہو اگرنیش زنی
پھر نہ تھا تجھ سے زیادہ کوئی جرأت کا دھنی
(ایضاً، ص 136,137)
بشن نرائن سے جتنی عقیدت چکبست کو تھی اتنی ہی عقیدت
انھیں گوپال کرشن گوکھلے سے تھی۔ گوپال کرشن گوکھلے انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں
صدی کے اوائل میں ہندوستان کے قومی افق پر ابھرنے والی شخصیتوں میں منفرد مقام
رکھتے ہیں۔ 1905 میں صدر کل ہند کانگریس
منتخب ہوئے گوکھلے ملک کے عظیم سیاست داں ہونے کے ساتھ ماہر تعلیم بھی تھے۔ ملک میں
تعلیم کو خصوصی اہمیت دینے پر ہمیشہ زور دیتے رہے اور علم کی روشنی کے ذریعے
ہندوستانی عوام کے سماجی اور سیاسی شعور کو بیدار کیا۔ گوکھلے کے انتقال پر چکبست
انھیں ہند کی قوم کا سرتاج کہتے ہوئے اپنے غم کا اظہار اس طرح کیا ہے ؎
لرز رہا تھا وطن جس خیال کے ڈرسے
وہ خون رُلاتا ہے دیدۂ تر سے
صدایہ آتی ہے پھل پھول اور پتھر سے
زمین پہ تاج گرا قوم ہند کے سرسے
(ایضاً، ص 139)
گوپال کرشن گوکھلے ہندوستان کے نرم دِل سیاست داں گذرے
ہیں۔ چکبست ان کے نرم مزاج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں ؎
رہا مزاج میں سودا ئے قوم خوہوکر
وطن کا عشق رہا دل کی آرزو ہوکر
خدا کے قلم سے جب آبِ وگل بنا تیرا
کسی شہید کی مٹی سے دل بنا تیرا
(ایضاً، ص 140)
چکبست کے مطابق گوکھلے کی رگ رگ میں قومیت رچی ہوئی تھی
اور وطن کی عظمت انھیں بہت عزیز تھی۔ اس مرثیے میں چکبست نے وطن کی خاک کو گوکھلے
کی بارگاہ اعلیٰ کہا ہے چکبست کہتے ہیں ان کی موت پر دوست کیا دشمن بھی انھیں سفیر
قوم، راہِ قوم، خادمان وطن کہہ کر افسردگی کا اظہار کیا تھا۔ مرثیے کے آخر میں
گوکھلے کے گذرجانے پر انفرادی واجتماعی غم و آفسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ ؎
رہے گا رنج زمانہ میں یادگار ترا
وہ کون دل ہے کہ جس میں نہیں مزار ترا
جو کل رقیب تھا ہے آج سوگوارترا
خدا کے سامنے ہے ملک شرمسار ترا
پلی ہے قوم ترے سایۂ کرم کے تلے
ہمیں نصیب تھی جنت ترے قدم کے تلے
گوکھلے کے ہم عصر بال گنگادھر تلک بھی ہندوستان کے عظیم
قومی رہنما اور آزادی کی تحریک کے بڑے علمبردار گذرے ہیں چکبست نے بال گنگادھر
تلک کی موت پر بھی مرثیہ لکھ کر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ چکبست کا کہنا ہے
کہ گوکھلے نرم دل تھے اور تلک گرم دل تھے حکومت بال گنگادھر تلک سے خوف کھاتی تھی
پوری زندگی انھوں نے مجاہدانہ گذاری ہے چنانچہ چکبست ان کے قومی جذبے اور مجاہدانہ
زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی موت کو قومی ورثے کا بڑا نقصان بتایا ہے کہتے ہیں ؎
اُٹھ گیا دولتِ ناموسِ وطن کا وارث
قومِ مرحوم کے اعزاز کہن کا وارث
جاں نثار ازلی شیرِ دکن کا وارث
پیشوائوں کے گرجتے ہوئے رن کا وارث
چکبست کے مطابق تلک ملک کی ہستی بنانے اور عوام میں قومی
جذبہ پیدا کرنے میں ہمیشہ آگے رہے۔ انھوں نے ہندوستانی قوم کے سوئے ہوئے ارمانوں
کو جگایا اور ان کی ویران زندگیوں میں بجلی کی طرح چمکے چنانچہ وطن و قوم پر قربان ہونے کے جذبے کی ستائش کرتے ہوئے
چکبست کہتے ہیں ؎
ہوگی نذر وطن ہستی فانی تیری
نہ تو پیری رہی تیری نہ جوانی تیری
ملک و قوم کے خدمت گذاروں کی موت کا غم چکبست کو ہر گھڑی
ستاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں گنگا پرشاد ورما کی موت پر لکھا گیا مرثیہ بھی قابل
ذکر ہے اس مرثیے میں بھی اظہارِ غم کی کیفیت وہی ہے جو دوسرے مرثیوں میں ہے۔
گنگاپرشاد ورما ملک و قوم کے خدمت گذار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ممتاز صحافی بھی
تھے۔ عرصے تک لکھنؤ میونسپل کمیٹی کے صدر بھی رہے۔ لیکن ان کا انتقال نینی تال میں
ہوا۔ جس کا افسوس چکبست کو بہت ہوا چکبست کے مطابق انھیں لکھنؤ سے بے حد لگائو
تھا۔ لیکن مرتے وقت انھیں یہ شہر نصیب نہیں ہوا جس کا اظہار چکبست نے اس مرثیے میں
کیا ہے ؎
لکھنؤ کا تجھے دم بھرنہ گوارا تھا فراق
مرکے اس خاک کا دامن نہ ملا رنج ہے شاق
(ایضاً، ص 146)
اس مرثیے میں چکبست نے ورما کی صحافتی زندگی پر بھی
روشنی ڈالی ہے ان کے مطابق ورما آزاد اور بے باک صحافی تھے۔ ان کی موت سے ایسا
لگتا ہے کہ عالم اخبار کی سیاہی مٹ گئی ہو۔ ورما کی بے باکانہ صحافت کے تعلق سے
چکبست کہتے ہیں ؎
قوم کرتی تھی فقط تیری زباں سے فریاد
بحث و تحریک کے میدان میں قلم تھا آزاد
تیرے اخبار دلائیں گے ترے جوش کی یاد
دل کے ٹکڑے ہیں یہی اوریہی تیری اولاد
(ایضاً، ص 147)
چکبست نے ملک و قوم کی عظیم ہستیوں کے علاوہ اپنے عزیز
و اقارب کے وصال پر بھی مرثیے کہے ہیں ان مرثیوں میں بھی انفرادی و اجتماعی دردو
غم کی کیفیت وہی ہے۔ جیسے ’نشتریاس‘ اور ’ماتم یاس‘ مرثیے ان کے عزیزوں کے متعلق ہیں۔
نشتریاس تیج نرائن چکبست کے انتقال پر
لکھا گیا ہے۔ یہ ان کے عزیزوں میں سے تھے۔ جو نوجوانی میں عالم جنون میں خودکشی
کرلی تھی۔ جس سے چکبست کو دلی صدمہ پہنچا جس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں ؎
دعائیں دیتے تھے جس گود میں کھلا کے تجھے
اُسی میں آج سلایا کفن پہنا کے تجھے
جو دل میں دردِ محبت تھا آج داغ ہوا
چتا کی آگ سے روشن یہی چراغ ہوا
(ایضاً، ص 153)
اسی طرح مرثیہ ماتم یاس، پنڈت اجودھیاناتھ آغا کی وفات
پر لکھا گیا ہے۔ پنڈت آغا چکبست کے قریبی رشتے داروں میں سے تھے ان کی وفات بھی
نوجوانی ہی میں ہوئی لہٰذا ان کی وفات کے صدمے کا نوحہ اس طرح بیان کرتے ہیں ؎
اے جوانی کے مسافر اے اجل کے مہماں
سوگیا تو سنتے سنتے زندگی کی داستاں
کارِ دنیا سے کوئی یوںبے خبر ہوتا نہیں
رات بھر جاگا ہوا دولہا بھی یوں سوتا نہیں
یہ کفن ہرگز نہیں تیرے پہنانے کے لیے
لائی ہو خلعت تجھے دولہا بنانے کے لیے
(ایضاً، ص 154)
پنڈت آغا کے ماں باپ بھائی بہنوں کے غم کو بھی چکبست
نے بڑی شدّت سے بیان کیا ہے کہتے ہیں
؎
ماں کو رونا ہے کہ جاتا ہے تو جامل کرگلے
بھائی کہتا ہے رہوں گا کس کی چھاتی کے تلے
کہتی ہیں بہنیں کہاں منہ موڑ کر بھائی چلے
دھیان کچھ اس کا بھی ہے جس گود میں ہم تم پلے
(ایضاً، ص 15)
مذکورہ شخصی مرثیوں کے مطالعے کے بعد مجموعی طور پر یہی
کہہ سکتے ہیں کہ شخصی مرثیے کی روایت کو آگے بڑھانے میں چکبست کے یہ مرثیے قابل
ذکر ہیں۔ فنی طور پر ان تمام مرثیوں میں کردار نگاری، درد والم، پر اثر و فنکارانہ
طور پر کیا ہے۔ مرثیے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قارئین و سامعین کے ذہنوں
پر ایک سوگوار فضا چھاجائے۔ چنانچہ چکبست کے ان تمام مرثیوں میں یہ خوبی پائی جاتی
ہے۔ ان کے مرثیوں میں حقیقی جذبات و غم کے ساتھ ساتھ شاعرانہ صناعی بھی بدرجہ اتم
موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مرثیوں میں بے ساختگی روانی و تسلسل اور صداقت،
احساسات،موضوع سے عقیدت و محبت اس قدر شامل ہے کہ مرثیوں کو پڑھنے کے بعد زباں سے
بے ساختہ آہ! اور واہ، کے الفاظ نکلتے ہیں۔
Dr. Ismail Khan
Department of Urdu,
Karnataka State Akkamahadevi
Women's University,
Vijayapur- 586102 (Karnataka)
Cell: 9701514755
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں