ممتاز قلمکارمدن لال منچندہ جو پچھلی 7 دہائیوں سے اردو، انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں میں تصنیف و تالیف کا قابل ستائش کام کرتے آرہے تھے، اچانک ایک مئی 2021کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔منچندہ کا انداز تحریر الگ تھا۔، سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں تجسس کو بنائے رکھنے کی ایک قوت تھی۔ معمولی سے معمولی واقعہ یا موضوع کو جاننے، سمجھنے اور پرکھنے کا ان کا نظریہ بالکل الگ تھا۔ تحریر کے لیے مناسب اور موزوں الفاظ کا انتخاب اور انھیں دلچسپ پیرائے میں پرونے کے آرٹ میں ان کے قلم کو مہارت حاصل تھی۔ منچندہ جی کے مضامین اور کہانیوں کو پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے انھوں نے اپنی تحریرو ںمیں ہمارے احساس اور تجربوں کو شامل کردیا ہو۔
مدن لال منچندہ کی پیدائش 15 مئی 1924 کو ان کے آبائی
گاؤں مٹور میں ہوئی جو موجودہ پاکستان کے راولپنڈی ضلع میں ہے۔ والد آر ایل
منچندہ نے ان کا نام وِدیاساگر رکھا جو ان کی ماں تارا کو بھی پسند تھا، لیکن خالہ
کے کہنے پر مدن لال رکھ دیا گیا اور پھر یہی ان کی پہچان بن گیا۔ ان کی ابتدائی
تعلیم راولپنڈی کے سناتن دھرم اسکول سے شروع ہوئی، جو بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے
ملحق سناتن دھرم کالج کے نام سے مشہور ہوا۔ اسی مشہو رکالج سے انھوں نے اردو میں بی
اے آنرس کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد ناگپور یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں
ایم اے کیا۔
لکھنے کا شوق اسکول کے دنوں سے ہی تھا۔اس کا سہرا
منچندہ جی اس سرزمین کو دیتے ہیں جہاں ان کی پیدائش ہوئی اور اس اسکول کو جہاں
انھوں نے تعلیم حاصل کی اور سب سے زیادہ اپنے ودّوان اور قابل استاد کو جنھوں نے
رہنمائی اورتربیت کی، ان کی کتاب ’ریالٹی دی لائٹس‘ میں شامل ان کی تحریر ’دی آئیڈیل
ٹیچر‘ انہی استاد کی خاص صلاحیتوں کی عکاسی ہے۔
قلم سے ان کی محبت کا رشتہ دنوں دن اور مضبوط ہوتا گیا
اور پھر ان کا جنون بن کر زندگی کی آخری سانس تک قائم رہا۔ برطانوی سامراج کے
دوران سینٹرل آرڈی نینس ڈپو جبل پور میں ان کی تعیناتی کا پہلا دن تھا۔ ڈپو میں
انتظامی شعبے اور اسٹور کی ذمے داری کسی دیا جائے،یہ فیصلہ لینے کے لیے انگریزی میں
ایک مضمون لکھنے کو کہا گیا۔ عنوان تھا ’فرام سٹی ٹو سی او ڈی‘۔ منچندہ جی کے
مضمون نے انگریز افسران کو اتنا متاثرکیا کہ انھیں ان کی صلاحیت کی بنیاد پر
انتظامی شعبے ہی نہیں بلکہ انتظامی افسر کی حیثیت سے تقرر کرکے داخلی مراسلت پر
دستخط کرنے کا پاور بھی عطا کردیا۔ اس فیصلے سے ان کے شوق کواور مہمیز ملی۔
ایک ادیب کے طور پر انھوں نے اپنا سفر اردو کہانیوں اور
مضامین سے شروع کیا جو کئی برسوں سے اردو کے معروف رسائل جیسے شمع، سشما، بانو،
کھلونا، سفینہ، ندیم، افکار اور آجکل میں شائع ہوئے۔ ان کے مضامین اور کہانیوں میں
انسانی رشتوں اور جذبات کو مرکزیت کے علاوہ عام آدمی کو ایک نئی سوچ دینے اور اسے
اخلاقی اقدار کے تئیں باشعور کرنے اور سماج کو بہتر سمت دینے کا مقصد ہے۔ ماہنامہ
آجکل اردو میگزین میں ان کا آخری مضمون ’یادوں کی مہک‘ نومبر 2020کے شمارے میں
شائع ہوا جو اردو کے مشہور شاعر نریش کمار شاد سے ان کی ایک دلچسپ ملاقات کے بارے
میں ہے۔
ان کی کتاب ’چراغ آرزو‘ 21 کہانیوں کا مجموعہ ہے جو
زندگی کے متنوع پہلوؤں اور اس کے مستحکم اقدار کو بیان کرتا ہے۔ کتاب کی کہانی
’سفید کوے ‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’جہیز
کے تحفوں میں رکھی ایک خوبصورت گھڑی شادی والے گھر سے غائب ہوجاتی ہے۔ آنٹی تبسم
نے ٹالنا چاہا، لیکن مہمانوں کے زور پر گھڑی کے غائب ہونے کی بات بتانی پڑی۔ سبھی
ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے۔ میں نے چاروں طرف دیکھا کہ کہیں لوگ میری
طرف تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ پوری تسلی ہوجانے پر میں نے دھیرے دھیرے چلنا پھرنا
شروع کردیا۔ اپنے دل کو تسلی دینے کی غرض سے میں نے ایک بار کھانسا بھی، اچانک
مجھے اپنی شلوار کے ایک کنارے کے اوپر اٹھے ہونے کا احساس سا ہوا اور میں گھبرا کر
بیٹھ گئی۔
’’بی
رضیہ تمھیں کچھ معلوم ہے؟‘‘
ایک انجان آواز ابھری۔
’’نہیں
تو‘‘
میں نے کچھ گھبراہٹ کے عالم میں جواب دیا
’’اجی
رضیہ بیچاری سے کیا پوچھتے ہو۔ ہماری رضیہ تو ایک اچھی بیٹی ہے۔‘‘
میری ممی نے میری معصومیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا
’’میری جان میں جان
آئی۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ کمبخت گھڑی کا الارم میری شلوار کی تہوں سے گھٹی گھٹی
آواز میں چیخ اٹھا۔ تو میں کانپ اٹھی۔ سب کی نظریں میری طرف تھیں اور میری ممی کی
آنکھیں انگارے برسا رہی تھی۔ باہر موسلا دھار بارش ہورہی تھی لیکن میں ڈوب مرنے
کے لیے چلو بھر پانی کو تر س رہی تھی۔ شرم سے میری نگاہ اوپر نہ اٹھتی تھی۔ میں
دائیں بائیں جھانک رہی تھی، کھڑکی سے سامنے چھت پر بیٹھے ہوئے کوے بھی مجھے سفید
دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے پروں کی سیاہی سے کہیں زیادہ سیاہ میرا یہ کارنامہ تھا۔‘‘
ان کہانیوں کے مجموعے کا
ہندی اور انگریزی ایڈیشن ’دیپ آشاؤں کا‘ کے عنوان سے اپریل 2020 میں شائع ہوا
ہے۔
منچندہ جی کو ان کی کتاب ’کاروان اردو‘ کے لیے 2010میں
اردو اکادمی ایوارڈ دہلی سے نوازا گیا۔ یہ ادبی اور سماجی مضامین کا انتخاب ہے۔
کتاب کے پہلے مضمون ’یاد ایک رنگین شام کی‘ میں سابق صدر ،ڈاکٹر شنکر دیال شرما کی
تقریر کا یہ حصہ بہت دلچسپ ہے:
’’جب
میں صدر تھا، میں نے پاکستان کے سفیر سے کہا تھا کہ اردو ہماری زبان ہے اور اس کا
رتبہ دوسری ہندوستانی زبانوں کے برابر ہے۔ اب ایک بار پھر میں منچ سے سبھی سامعین
ہندو مسلم سکھ اور سبھی مذہب کے لوگوں کو کہتا ہو ںکہ اردو کو زندہ رکھنا ہماری
ذمے داری ہے۔‘‘
اردو ادب کے کئی اہم پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس میں عام
آدمی کی سماجی زندگی سے متعلق موضوعات پر بھی مضامین شامل ہیں۔ کتاب کے ایک مضمون
’آپ کے بچے کو کن کتابوں کی ضرور ت ہے‘ سے ایک اقتباس:
’’بچے
کی تعلیم تو اس کی پیدائش کے ابتدائی مہینوں سے شرو ع ہوجاتی ہے۔ ماں کی لوریاں تو
اس کا پہلا سبق ہیں۔ ماں کی پچکار، جھنجھنے کی آواز، روتے ہوئے بچے کو خاموش کرا
دیتی ہے۔ مختلف آوازوں میں تمیز کرنے کی قوت کے ساتھ ساتھ اس کی قوت مشاہدہ بھی
ترقی کرنے لگتی ہے۔ وہ ماں کے مسکراتے چہرے اور اس کے بدلتے ہوئے تیور کو پہچاننے
لگ جاتا ہے۔ ماں کا چہرہ اس کے لیے کتاب کا ورق ہے، چھوٹی عمر کے بچوں کو اکثر اپنی
حفاظت کا خیال مقدم رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جن باتوں یا تصویروں سے بچوں کے
دل میں خوف پیدا ہو ان سے احتراز واجب ہے۔ جنوں اور پریوں کی کہانیاں جن سے ڈر پیدا
ہونے کا احتمال ہو، اس عمر کے بچوں کے لیے ٹھیک نہیں۔
6
سے 8 سال کے درمیانی وقفے کو بچپن کا دوسرا دور کہہ لیجیے
اس دور میں بچہ کھیلنا، پڑھنا شروع کردیتا ہے۔ تصویروں میں رنگوں سے بڑھ کر بچوں
کے لیے شاید ہی کوئی اور موثر ذریعہ تعلیم ہو۔
9
سے 12 کی عمر بچپن کا وہ طوفانی دور ہے جب بچہ اپنے
بچپن کی دنیا پیچھے چھوڑ کر کہیں دور نکل جانا چاہتا ہے۔ وہ اس عجیب و غریب دنیا
کے طلسم کو جاننے کے لیے بے چین ہو اٹھتا ہے۔ کسی خوبصورت شہزادی کی کہانی جو پل
بھر میں کئی روپ بدلتی ہے یا کسی جادوگر کے کمبل کا واقعہ جو آنکھ جھپکنے کی دیر
میں اس دنیا کو الٹ پلٹ کردے اس کی ذہنی دلکشی کا باعث ہوں گے۔ تلاش کرنے سے ہر
موضوع پر آپ کو بے شمار کتابیں مل جائیں گی لیکن کون سی کتاب آپ کے بچے کے لیے
اس کی عمر کے مطابق ٹھیک ہے اور اس میں کون سی اچھی ہے اس کا فیصلہ اور ذمے داری یقینا
آپ پر ہے کیونکہ کتابیں ایک دوسرے سے اتنی مختلف ہوتی ہیں جتنی ہیرے جواہرات سے
کنکر۔‘‘
’کاروان
اردو‘ کے کچھ اور مضامین اس طور پر ہیں۔ امیر خسرو کا اجتہاد، اردو کی قدیم داستانیں،
اردو ادب اور عصری آگہی، اردو ڈرامے کا ارتقا، اردو شاعری میں حب الوطنی کے
اثرات، اردو شاعری اور برسات، ادبی ذوق، شوہر کی قسمیں، نئی دلہن، نئے مسئلے ، یہ
غلط فہمیاں، آپ کو آرام کی سخت ضرورت ہے۔
اردو کی طرح انگریزی میں بھی ان کے قلم نے انھیں تحریر
و تصنیف کے میدان میں مضبوطی سے قائم کیا۔ مدن لال منچندہ نے مختلف موضوعات پر
مضامین، کہانیاں لکھیں جنھیں انگریزی کے اہم روزنامے اور مؤقر مجلات جیسے
ہندوستان ٹائمز، ٹائمز آف انڈیا، انڈین ایکسپریس، پائنیر، امرت بازار پتریکا، فری
پریس جرنل، اورینٹ، لنک، دی السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا نے شائع کیا۔
Glimpses
of Modern Urdu Literature یہ
انگریزی میں ان کی سب سے اہم تصنیف ہے۔ اس میں اردو ادب کی تقریباً ہر صنف شامل
ہے۔ یہ سبھی ممتاز انگریزی اخبارات اور مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس میں اردو کے
ممتاز شاعروں، ادیبوں کو ان کی تحریر اور امتیازات سے ہم آہنگ رکھنے والے مناسب
عنوان کے ساتھ، ان کی شاعری، چنندہ اشعار اور ان کے معانی کی تشریح، آسان ترجمے
کے ساتھ دی گئی ہے تاکہ قاری آسانی سے سمجھ سکے۔
اس کتاب میںاردو ادب سے متعلق ان کی اہم تخلیقات ہیں
جنھیں انھوں نے اپنی ذہنی لیاقت اور تحقیق کی بنیاد پر لکھا ہے۔
کتاب میں شائع مضامین کی تفصیل حسب ذیل ہے ہیومرس
انٹرپری ٹیشن آف غالب، غالب اینڈ ذوق دی انکمپریبل رائیولس، پوئٹ ہو گیو اردو
اِٹس فرسٹ لیڈی لَو، احسان دانش
دی پوئٹ آف دی آپریسڈ، فیض احمد فیض پوئٹری، مارکس دی
ڈان آف نیو ایج اِن اردو پوئٹری، جوش ملیح آبادی
دی پوئٹ آف ریوولیوشن، ساغر نظامی اے
نیشنل پوئٹ، فراق امپیکٹس آن اردو پوئٹری، جگر مراد آبادی
دی اسٹانچ ٹریڈیشنلسٹ، نریش کمار شاد دی
پروگریسیو ٹریڈیشنلسٹ، کیفی اعظمی دی ریڈ روز آف اردو پوئٹری، ساحر لدھیانوی پوئٹ
اینڈ تھنکر، ساحر اینڈ نیوکلیر ہولوکاسٹ، سلام مچھلی شہری
این اِنتھریلنگ، لری سِسٹ، کرشن موہنس پوئٹری، اے گلو
آف انٹیلکچولزم، اسٹوری آف اسٹوری
این انکاؤنٹر وِد پی این ڈار، کرشن چندر اینڈ ہز آرٹ
سوشیالسٹک ریلزم، اے رائٹر وِد ڈفرینس، ریمبلر اِن اردو فکشن، وہیئر کریٹسزم فیلس،
لو اِز دی اِی ٹرنل پیشن، اسٹوری اسپنر اور ایلّے پکچرس۔
انگریزی میںلکھی گئی اس کتاب سے اردو ادب کے بارے میں
جاننے کے خواہش مند ان لوگوں کو بہت فائدہ ہوگا جو اردو نہیں جانتے۔
’ریالٹی
ڈیلائٹس‘ منچندہ جی کی یہ کتاب حقیقی زندگی کے واقعات کی عکاسی کرنے والی مختصر
کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سماج، کھیل، ادب اور قومی
تعمیر کے میدان میںاعلیٰ کارنامہ دینے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ کہانیاں دلچسپ اور
فکرانگیز ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں میں زندگی کی مثبت قدروں کو قائم کرکے بہتر سماج تشکیل
دینا ہے۔ اس کتاب کا اجرا سابق صدر جمہوریۂ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے کیا۔
پری شیئس میموریز
مضامین کا یہ مجموعہ ان مقامات سے متعلق ہے جہاں کا
دورہ خود مصنف نے کیا تھا یا ان اہم سیاسی قائدین، ممتاز ادیبوں اور قلمکاروں پر
ہے جن کی ادبی صلاحیت کے تعین قدر کا موقع مصنف کو حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ کتاب کے
مضامین اجتماعی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کتاب میں شامل ان کی تحریر ’ڈاکٹر
کلام کے ساتھ ایک یادگار شام کا‘ ایک اقتباس:
’’میری
کتاب ریالٹی ڈیلائٹس‘ کے اجرا کے بعد ڈاکٹر کلام نے مجھ سے سوال کیا ’’سر آپ کیسے
لکھتے ہیں؟‘‘ ایک پل میں مجھے یہ سوال میرے اپنے بچپن کے دنوں میں لے گیا۔ میں اپنی
ماں کے گود میں ایک بچے کے روپ میں چمکتے گھوڑوں کے کھلونوں کو دیکھ کر مست تھا
اور بنجارہ سے یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس نے اتنے پرکشش گھوڑے کے کھلونے کیسے تیار
کیے۔ زیادہ کچھ نہیں ہم صرف آٹے کا پیسٹ تیار کرتے ہیں اور گھوڑے بنانا شروع کردیتے
ہیں۔ اس کا آسان سا جواب تھا۔ مگر میرے متجسس ذہن کو مطمئن کرنے کے بجائے اس نے میری
حیرت میں اور اضافہ کردیا۔ آج ایک بار مجھے لگا کہ میں الجھے ہوئے راز کا جواب دینے
کے لیے چوراہے پر کھڑا ہوں، سیدھے لفظوں میں کہیں تو قلمکار صرف اپنے قلم کو کاغذ
پر رکھتا ہے اور لکھنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن یہ کم لگا۔ میں نے ایک مناسب جواب کے
لیے خلا میں دیکھا، مگر بغیر کسی کامیابی کے۔ اچانک مجھے یاد آیا جو قلمکار کو ایک
چھوٹی کہانی بنانے کے لیے انسپائر کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی چبھن اس کی آتما میں
حلول کرگئی ہو یا طنز جس نے اس کی ذہنی دنیا کو منہدم کردیا ہو یا ایک چبھن جس کا
استعمال وہ ان لوگوں پر کرنا چاہتا ہے جنھوں نے اسے اتنی شدت سے محسوس نہیں کیا۔ یہ
جواب مناسب محسوس ہوتا ہے لیکن اسے کسی ایسے شخص تک پہنچانا عجیب ہوگا جو خود ایک
مشہور اور ماہر قلمکار ہے۔ لگ بھگ ایک درجن کتابیں لکھی ہیں، خاص طور سے ونگس آف
فائر (11 زبانوں میں ترجمہ)، اگنائی ٹیڈ مائنڈس جیسی کتابیں شائع ہونے کے ساتھ ہی
بک گئیں۔ ایک بار پھر میرے دماغ میں یہ بات کوند گئی کہ میں ایک معمولی قلمکار ہوں
اور ایک بڑے ودّوان تخلیقیت پسند شاعر کو یہ جانکاری دینا مناسب نہیں تھا جس نے دل
کو چھو لینے والی نظمیں تخلیق کی ہیں۔ میں ایک بھنور میں پھنس گیا تھا لیکن یہ دیکھ
کر کہ ان کی آنکھیں ابھی بھی سوال کے جواب کے لیے مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ مجھے جلدی
سے یہ کہہ کر بچنے کے لیے ایک آسان راستہ مل گیا کہ عالیجناب! اسے بتانا مشکل ہے۔
ان کے مسکراتے چہرے نے اشارہ دیا۔ انھوں نے میرے جواب کو خوشگوار انداز سے قبول
کرلیا تھا۔ ‘‘
منچندہ جی نے ایک بھری پری ادبی زندگی کاغذ قلم کی دنیا
میں لمبے وقت تک رہ کر بسر کی۔ علم کی جتنی قوت ان میں تھی اسے سمیٹ کر انھوں نے
اپنی تحریر میں سمو دیا۔ یہ گنے چنے قلمکاروں کو نصیب ہوتا ہے۔ اپنے علم اور تخلیقی
صلاحیت کی جو مثال انھوں نے قائم کی اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا کوئی غلط نہ ہوگا کہ
وہ ودّیاساگر یعنی علم کا سمندر تھے۔
(ہندی سے ترجمہ)
C. Mohan
1140 Sector-21
Gurgaon-122016 (HR)
Mobile 9811467241
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں