23/11/22

داستان کی اسطوری فضا اور تخلیقی عمل: زاہد ندیم احسن


 اس کائنات میں سب سے متحرک اور فعال کوئی چیز ہے تو وہ تخلیقی عمل ہے۔قدرت نے اس کائنات کا نظام ہی تخلیقی عمل پر رکھا ہے۔ اگر ہم پوری کائنات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگاکہ یہاں پر پائی جانے والی جتنی بھی مخلوقات ہیں وہ اپنے عروج و بقا کی فکر میں لگی رہتی ہیں۔جس کے لیے وہ نوبہ نوع  چیز یںخلق کرتی رہتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں نئی نئی تخلیقات معرض وجود میں آتی رہتی ہیں۔ انسانی تخلیق کا یہ عمل منصوبہ بند نہیں ہوتا بلکہ یہ عمل یکایک ہو جاتا ہے یہ کوئی کسبی عمل نہیںہے یہ ایک وہبی عمل ہے۔

اساطیر کو دنیا کا سب سے پہلا تخلیقی عمل مانا جاتا ہے۔ اس کرئہ ارض پر جب انسان نے قدم رکھا تو اپنے آس پاس کی چیزوں پر نظر ڈالی  بڑے بڑے پہاڑ، اور ان کے اندر سے دہکتے ہوئے لاوا کا نکلنا،ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر، ندیاں، طوفان،بارش،چاند،ستارے اورسورج کا طلوع اور غروب ہونا زندگی اورموت کے ہونے کا احساس۔ جب انسانوں نے غور کیا تو اس نے یہ محسوس کیا کہ کوئی ایسی قوت ہے جو اس کائناتی نظام کو چلا رہی ہے۔ اس کی اسی فکر نے بہت سے اساطیر کو جنم دیا اورانھوںنے  اپنے  انداز پر ان کی تجسیم کی اور ان کا نام دیا۔ اس سلسلے میں وزیر آغا رقم طراز ہیں

’’یہ(اساطیر)وہ ابتدائی تخلیق ہے جو ارتقا کے کسی مرحلے پر ایک تخلیقی انکشاف کی صورت میں انسان پر نازل ہوا اور جسے برقرار رکھنے کے لیے اسے مذہبی رسوم خلق کرنے کی ضرو رت محسوس ہوئی۔ گویا ارتکاز اسطوری سوچ کاا متیازی وصف ہے۔ چنانچہ کیسرر کا خیال اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ اسطور آفرینی ایک خالص تخلیقی عمل ہے، جو منطقی سوچ سے قطعاً مختلف ہے حقیقت یہ ہے کہ اسطور آفرینی وہ پہلا تخلیقی عمل ہے جو اپنی قوت اور پرواز میں آرٹ اور شاعری کے تخلیقی عمل کا ہم پلہ قرار پا سکتا ہے‘‘

اساطیر کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں یونگ کے خیالات سے اتفاق کرناپڑتا ہے کیوںکہ اس کے خیال میں اسطور میں موجود سطحیں اور علامات اساسی نقش تشکیل دیتے ہیں یہ اساسی نقش اجتماعی لاشعور کا حصہ ہوتے ہیں۔ یونگ اجتماعی لا شعور کو روایتی قرار دیتا ہے جو نوع انسان کے ماضی کے تجربات ہوتے ہیں اور ہمارے وراثتی دماغ میں پیوستہ ہوتے ہیں۔اجتماعی لا شعور اساسی نقوش کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی مثال دنیا کے داستانوی ادب سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ہر قوم کی داستانوں میں مشکل سفروں، عزیزوں کی تلاش، آسمانوں کی طرف کوچ، موت سے نجات، مافوق الفطرت مخلوقات سے لڑائی پر مشتمل کہانیاں  وغیرہ۔ اساطیر انسانی سائکی کا حصہ ہیںیہ آرکی ٹائپل امیج ہیں جو انسان کے اجتماعی لاشعور میں موجود رہتی ہیںاور نسل در نسل چلی آرہی ہیں جس کی وجہ سے معاشرتی سطح پر تمام قومیں ایک ہی نظر آتی ہیں اور اپنے قدیم آبائی تجربے سے اثرات قبول کرتی ہیں۔ اس کی مثال یونان اور روم کے اساطیری  قصے ہیں۔  ان کے یہاں جو دیوی دیوتا ہیں دونوں اپنے اوصاف کی بنا پر ایک ہی طرح کے ہیں انھوں نے صرف نام بدل دیا ہے جیسے جوپیٹر روم کا اور(زئیس) یونان کارب الرباب مانا جاتا ہے۔نیپچون روم کا اور(پوسیڈن) یونان کے سمندر کا حکم راں۔پلوٹو روم کا(ہیڈیز)  یونان کے تحت الثریٰ کا دیوتا مانا جاتا ہے اپولو دونوں جگہ ایک ہی نام سے جانا جاتا ہے عقل و دانش کا دیوتا ہے۔ ولیسٹا روم(ہسیٹیا) یونان میں گھر کے امن و سکون کی دیوی۔اس کے علاوہ اور دیوی دیوتا جو یونان اور روم میں یکساں ہیں موجود ہیں جونو روم(ہیرا) یونان میںبچوں کی پیدائش کی دیوی۔منروا روم(اتھینا) یونان عقل و دانش کی کنواری دیوی۔ڈائنا روم(آرٹیمس)  یونان میں عصمت کی دیوی وہ بچوں کی پیدائش کی نگراں بھی ہے اور اس کو چاند سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ مرکری روم(ہرمیز) یونان میں دولت اور ثروت پر حکمرانی کرنے والا ذہین اور چالاک دیوتا۔وینس روم (افروڈائٹی) یونان میں حسن و محبت کی دیوی۔کیرس روم(ڈیمیٹر) یونان میں ہریالی اور زرخیزی کی دیوی ہے۔اسی طر ح اور جگہ کی کہانیاں بھی ملتی جلتی ہیں۔ جہاں اسلام میں طوفان نوح کا ذکر ہے وہیں، ہندودیومالا میں متسیہ اوتار کا ذکر ہے جس نے ایک طوفان کا ذکر کیا تھا اور نیک لوگوں کی جان بچائی تھی۔

اساطیر کے مذہبی نظریے کے مطابق اسطورہ کا وجود مذہبی رسوم سے منسلک ہے۔اس کی سب سے انتہائی شکل میں یہ نظریہ  ہے کہ رسومات کو بیان کرنے کے لیے اساطیر یا دیو مالا ظہور میں آئے۔ یہ بات سب سے پہلے بائیبل اسکالر William Robertson smith نے اٹھائی۔ماہر بشریات(Anthroplogist )جیمس فریزر (James Frazer)کا بھی Smith سے ملتا جلتا نظریہ ہے۔ وہ یہ مانتا ہے کہ اولین انسان جادوئی طاقت پر عقیدہ رکھتا تھا لیکن جب اس کا یقین اس سے اٹھ گیا تو اس نے دیوتائوں کے اساطیر شروع کیے اور یہ بات کہی کہ اس کے پہلے جادوئی رسومات مذہبی رسومات تھیں جو دیوتائوں کو خوش کرنے کے لیے ہوا کرتی تھیں۔کچھ مفکرین کا ماننا ہے کہ دیو مالا بے جان اشیا اور طاقتوں کی تجسیم سے وجود میں آیا ہے۔ ان مفکرین کے مطابق قدیم لوگوں نے قدرتی مظاہر جیسے آگ اورپانی کی عبادت کی جن کو آگے چل کر دیوتا کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔

اساطیری کہانیوں میں مذہبی رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ وسیع مفہوم میں اساطیر ہر اس کہانی کو کہتے ہیں جو روایت کے بطن سے جنم لیتی ہو۔اساطیرکی تخلیق عام طور سے اولین عہد میں ہوئی ہے جب دنیا نے اپنی موجودہ شکل حاصل نہیں کی تھی اور یہ واضح کرتی ہے کہ اس نے اپنی موجودہ شکل کیسے حاصل کی اور کیسے رسوم و رواج اور ممنوعات عام ہوئے۔اس طرح اصطلاحی معنوں میں لفظ اساطیر ایسی کہانیوں کے لیے استعمال کیا جاتارہا ہے جن کا تعلق بنیادی طور پر حقیقت سے بعید ہو اور اس میں مافوق الفطری عناصر کی کارفرمائی ناگزیر سمجھی جاتی ہو۔ یعنی اساطیرمیں تمام کرداروں کو غیر معمولی صلاحیت کا حامل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اساطیری کہانیوںمیں اصل کردار عام طور سے ایسے مافوق الفطری ہیرو ہوتے ہیں جو انسان کی عملی زندگی سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔جن کا خیال یا تصور ہی کیا جا سکتا ہے اسے حقیقی زندگی میں اپنایا نہیں جا سکتا۔ مقدس کہانیاں ہونے کی حیثیت سے اساطیر کی توثیق پادریوں اور حکمرانوں کے ذریعے کی جاتی ہے اور مذہب یا روحانیت سے منسلک کی جاتی ہے۔ سماج میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اساطیرعام طور سے ماضی کا صحیح بیان ہے۔

داستانیں بھی اساطیرسے بہت قریب ہیں کیونکہ اساطیری داستانیں روایتی کہانیوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ اساطیرکی طرح داستانیں وہ بیانیہ ہیں جو روایتی طور پر صحیح تسلیم کی جاتی ہیں۔ داستانیں عام طور پر انسانوں کو اپنے اصل کرداروں کی حیثیت سے شامل کرتی ہیںجن کے کردار عام طور سے مافوق الفطرت عناصر پر قدرت رکھتے ہیں۔ اساطیر، لوک کہانیاں اور داستانوں کے درمیان امتیازدراصل صرف روایتی کہانیوں کی درجہ بندی کاہے۔ بہت سی تہذیبوں میں اساطیر اور داستانوں کے درمیان واضح لکیر کھینچنا مشکل ہے۔کچھ تہذیبیں اپنی روایتی کہانیوں کو اساطیر، داستان اور لوک کہانیوں میں منقسم کرنے کے بجائے ان کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ ایک وہ جو تقریباً لوک کہانیوں سے میل کھاتی ہیںاور دوسرا وہ جو اساطیراور داستانوںکو ملاتی ہیں۔ اساطیر اور لوک کہانیوں میں پوری طرح فرق نہ ہونے کی وجہ سے یہ کسی سماج میں صحیح خیال کی جاتی ہیں اور کسی دوسرے سماج میں داستان تصور کی جاتی ہیں۔ دراصل جب ایک اساطیر مذہبی نظام کے حصے کے طور پر اپنی حیثیت کھو دیتا  ہے تو وہ داستان اورلوک کہانیوں کی عام خصوصیت اپنا لیتا ہے۔اس کا اولین الوہی کردار انسانی ہیرو، دیویا پری میں بدل جاتا ہے۔

قصے کہانیاں گزرے ہوئے زمانے کے ان لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کا ذکر ہماری مذہبی کتابوں میں ملتا ہے۔ چوں کہ ہمارے ان بزرگوں کی کہانیاں ہمارے لیے جذب و کشش کا سامان ہیں اس لیے ہمارے داستان گو اور کہانی نویسوں نے اپنی کہانیوں اور داستانوں میں ان کی تمثیلی صورت کو اپناکر اپنی داستانوں کی بنیاد ڈالی اس کے لیے انھوں نے بہت سے مثالی کردار گڑھے جو حق پر رہتے تھے اور باطل کو شکست دیتے تھے۔ اس حق اور باطل کی لڑائی میں انھیں غیبی مدد بھی حاصل ہوتی تھی، کبھی نیک سیرت بزرگ اپنے معجزات کے ذریعے انھیں مدد کرتے اور کبھی طلسماتی جن یا پری سے انھیں مدد ملتی۔اس خیر و شر کی لڑائی میں ہمیشہ خیر کی ہی فتح ہوتی جو کہ تمام مذاہب میںمشترک قدر یںہیں۔ اسی داستانی قصے اور اساطیر کے مابین رشتے کی وضاحت کرتے ہوئے قاضی عابد لکھتے ہیں

’’ حقائق کو گڑھ کر جو قصہ یاداستان منظر عام پر آتا ہے وہ اساطیر کا حصہ بن جاتا ہے۔ اساطیر اور داستانوں کی مدد کی مماثلت کا ایک مدار خیر و شر کی کشاکش اور پیکار ہے۔ مشہور مستشرق ہائزخ زمر نے اپنی کتاب ’بادشاہ اور سپاہی‘ میں قدیم اساطیر اور داستانوں کا مطالعہ اس دائرے کے اندر ہی کیا ہے۔ مشرق کی اساطیر ہوں یا یونان کی کلاسیکی اساطیر، داستان ہندوستان کی ہو عجم کی یا پھر شارلیمان اور شاہ آرتھر کی یہ کشاکش اور پیکر ہر طرف نظر آئے گی۔ مہابھارت،رامائن اوڈیسی ایلیڈ،الف لیلیٰ، طلسم ہوش ربا، داستان امیر حمزہ یہ سب اپنے اپنے ثقافتی حوالوں سے خیر و شر کے ایک معرکہ میں ڈھلے ہوئے ہیں۔‘‘

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی تمام داستانوں میں جو قصے بیان کیے جاتے ہیں اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح اساطیر  سے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ داستانوں میںعقائد، توہمات اور تہذیبی تفاخر کی کارفرمائی جس طرح سے نظر آتی ہے وہ ہماری داستان اوراساطیرکی بنیاد ی محرک بھی ہے اور اس کا مظہر بھی۔ داستانوں کے کردار میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جن، دیو، بھوت پریت، عفریت یا انسانی جسم یا جانور کے سر والے کردار بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان تمام کرداروں کا رشتہ دنیا کی مختلف قدیم اقوام کے اساطیر کا حصہ ہیں۔ اس طرح یہ بات اب زیادہ وضاحت طلب نہیں رہی کہ داستان اور اساطیر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اس لیے جب داستان کا ذکر ہوگا تو اساطیرکا اس میں پایا جانا ناگزیر سمجھا جائے گا۔

اردو میں داستانوں کی تاریخ تو بہت پرانی ہے مگر باضابطہ طور پر اردو کی پہلی داستان ملاوجہی کی ’سب رس‘ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ سب رس ملاوجہی کی طبع زاد داستان نہیں ہے بلکہ یہ فارسی کی مثنوی دستور عشاق اور نثری قصہ حسن و دل سے ماخوذ ہے جس کا مصنف محمد یحییٰ بن سیبک فتاحی نیشاپوری ہے۔ یہ داستان ملاوجہی نے عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر لکھی تھی۔

ملاوجہی نے تمام قصے کوتمثیلی پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اس میںانھوں نے جن کرداروں کو پیش کیا ہے وہ انسانی نہیں ہیں بلکہ انسانی کیفیات جو غیر مجسم ہوتی ہیں انھیں کردار کا روپ دے کر پیش کیا ہے۔ کرداروں کے نام عقل، عشق، حسن، نظر، قامت، ہمت، رقیب، وہم، توبہ، ناز، غمزہ، عشوہ، زلف، لٹ اور وفا وغیرہ ہیں۔ جو کہ انسانی کیفیات اور حرکات و سکنات سے تعلق رکھتے ہیں۔ قصے میں شہر اور قلعوں کے نام جو ملاوجہی نے دیے ہیں وہ بھی عجیب و غریب ہیں جیسے تن کا قلعہ، ہجران نام کا قلعہ، ہدایت نامی قلعہ اور چاہ دہن جس میں دل کو قید کیا جاتا ہے۔ شہروں کے نام شہر سیستان، شہر سبک سار، شہردیدار، شہر عافیت جیسے نام ہیں جو کہ داستان میں ایک محیر العقول فضا قائم کرتے ہیں۔ وجہی نے اپنے اس قصے میں چن چن کر داستانوی رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں بھی دوسری داستانوں کی طرح قصے بیان کیے گئے ہیں۔ جس میں سحر و فسوں کا رنگ نمایاں ہے۔ قصے میں ایک جگہ لڑائی میں غمزہ دعائے سیفی پڑھ کر پھونک مارتا ہے تو توبہ کے تمام لشکر ہرنوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور چوکڑیاں بھرنے لگتے ہیں۔دوسری جگہ شہزادی اپنے ہیر ے میں نظر کو دل کی تصویر دکھاتی ہے۔ شہزادی کے پاس ایک حیرت انگیز انگوٹھی ہے جسے منھ میں رکھنے سے وہ شخص کسی کو دکھائی نہیں دیتا اور جس کے پاس یہ انگوٹھی ہوتی ہے اسے آب حیات کا چشمہ دکھائی دیتا ہے۔ قصے میں اسی انگوٹھی کو منھ میں رکھ کر نظر عقل کی قید سے رہائی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح پوری داستان میں جگہ جگہ سحر اور فسوں کاری دکھائی دیتی ہے۔ داستان میں کرداروں کے نام جیسے توبہ، خواجہ خضر اور دوسرے نام جیسے آب حیات اسلامی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو پوری داستان کا تانا بانا اسلامی اساطیر کے ارد گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے اور پوری داستان میں ایک اسطوری فضا ابتدا سے اختتام تک چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔

 اسی طرح باغ و بہار کے قصے اور اس کے کرداروں کا ہم  جائزہ لیں تو  اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تمام قصے ماورائیت سے مملو ہیں اس میں بیشتر کردار جو پیش کیے گئے ہیںوہ ہماری دنیا سے بالا تر دکھائی دیتے ہیں۔ درویشوں کی کہانیوں میں مہادیو کا منڈپ اس کا پجاری کہانی میں گنبد باغیچہ چشمہ ہرن آخری حصے میں کردار کا سمندر میں اترنا، برقع پوش رہنما کا مدد کرنا، چوتھے درویش کو جنوں کی مدد سے اقتدار کا ملنا، بیل پر سوار قاتل کا قتل کر کے روپوش ہوجانااساطیری عناصر کا حامل ہے۔

حیدر بخش حیدری کی داستان آرائش محفل (قصہ حاتم طائی) بھی اساطیری عناصر سے پر ہے۔ اس داستان میں بھی جگہ جگہ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جو اساطیری علائم کے ضامن ہیں۔اس داستان میں سات سوالوں کوخلق کیا گیا ہے جسے پورا کرنے کے لیے حاتم طائی مختلف دشواریوں اور مصائب سے گزرتا ہے۔ حاتم طائی منیر شامی اور حسن بانو کی شادی کراتا ہے۔ ان تمام سوالوں کے جواب ڈھونڈنے میں بہت سے محیر العقول واقعات پیش آتے ہیں۔ جگہ جگہ دیو، جن، پری، جادو اور سحر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو کہ اس داستان کے پورے قصے میں ایک اساطیری فضا قائم کرتا ہے۔

 اگر ہم’مذہب عشق‘ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے۔ یہ داستان بھی طبع زاد نہیں ہے جس کے مصنف نہال چند لاہوری ہیںبلکہ عزت اللہ بنگالی کے قصہ گل بکائولی کا آزاد ترجمہ ہے۔ چوں کہ داستان کا مقصد دلوں اور ذہن کو مسحور اور حیرت بخشنے کا ایک ذریعہ تھا اس لیے ان داستانوں میں ایسے ایسے عناصر کو پیش کیا جاتا تھا جو اساطیری کردار کے حامل ہوتے تھے۔

اس داستان کی پوری فضا میں حیرت و استعجاب، سحر اور ماورائیت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چھائی رہتی ہے۔ اس داستان میں پیش کردہ کردار اور واقعات ایک ماورائی اور محیر العقول مظہر کے نمائندہ نظر آتے ہیں۔ اس میں دلبر بیسوا کی پالی ہوئی بلی اور چوہا، دیو، پری، سانپ اور بچھو کا پایا جانا اس کے ایک اساطیری داستان ہونے کا ضامن ہے۔

 قصہ مہر افروز دلبر کی بات کریں جس کے مصنف عیسوی خاں ہیں۔تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اساطیری عناصر کی بہتات ہے۔ دلبر پریوں کی شہزادی ہے جس پر مہر افروز عاشق ہوتا ہے اس قصے میں خوش رنگ جانور کا پیچھا کرنا پھر ایک طلسماتی فضا میں پہنچ جانا قصے کے شہزادے کا شترمرغ کے انڈے کھانا یہ سب اساطیری عناصر ہیں جو اس قصے کی بنت میں شامل ہیں مافوق الفطری عناصر اور ایسے جانور جو نایاب ہوں اور جن کا تصور داستانوں اور صرف کہانیوں میں ہی موجود ہو اساطیرکے زمرے میں آتے ہیں۔

رانی کیتکی کی کہانی انشا اللہ خاں انشا کی طبع زاد ہے اس کا مرکزی کردار کنور اودے بھان اور رانی کیتکی ہے۔ رانی کیتکی کی کہانی کا خاص وصف مفرس اور معرب الفاظ سے عاری ہونا ہے۔ اس قصے میں تمام الفاظ ہندی کے ہیں۔ ادے بھان کے والد، والدہ اور اودے بھان کو راجہ جگت پرکاش کے ذریعے جادو سے ہرن میں تبدیل کردینا، داستان میں کرداروں کا بھبھوت لگا کر اوجھل ہوجانا، منھ میں گٹکے رکھ کر ہوا میں اڑنا اور آخر میں دیوی دیوتائوں کی مدد سے کامیابی حاصل کرنے کا بیان ہندو اساطیرکی نمائندگی کرتاہے۔ا س طرح سے یہ پورا داستانوی قصہ ہندو اساطیر سے مملو ہے۔

’فسانۂ عجائب‘ مرزا رجب علی بیگ سرور کی داستان ہے۔ فسانۂ عجائب کی تصنیف کے سلسلے میں ادیبوں کا ماننا ہے کہ اسے سرور نے میر امن کی داستان ’باغ و بہار‘ کے مقابلے میں تصنیف کیاہے۔  اس داستان میں بیان کردہ قصے کا جادوئی ماحول اور طلسماتی فضا، ساحر اور جادوگرنیوں کا پایا جانا، اسم اعظم اور لوح کلیم اور بہت سارے ایسے کردار جو کہ پوری داستان میں تحیر اور استعجاب کی فضا پیدا کرتے ہیں جو داستان کو ایک اساطیری داستان کے زمرے میںکھڑا کرتے ہیں۔ داستان میں دیو، پری، جانوروں کا انسانوں کی بولی بولنا، جادو سے انسانوں کا پتھر ہوجانا، شہزادی کے سر سے دریا میں خون کا گر کر لعل موتی میں تبدیل ہوجانا ایک ماورائی اور محیر العقول چیز نظر آتی ہے۔ جو کہ اساطیرکا ہی خاصہ ہے۔

متذکرہ بالا جن مشہور داستانوں کا ذکر میں نے قلت وقت کے سبب اختصار کے ساتھ کیا ہے۔ان کے علاوہ بھی کچھ ایسی داستانیں ہیں جن کا ذکرمیرے خیال میں نہ کیا جائے تو انصاف نہ ہوگا۔ ان میں الف لیلیٰ، عجائب القصص، بیتا ل پچیسی، سنگھاسن بتیسی، قصہ مادھونل کام کنڈلا، اورشکنتلا قابل ذکر ہیں۔ الف لیلیٰ اور عجائب القصص عربی الاصل داستانیں ہیں جب کہ بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، قصہ مادھونل کام کنڈلا اور شکنتلا سنسکرت الاصل داستانیں ہیں۔ الف لیلیٰ کی کہانی بھی  مذکورہ داستانوں کی طرح ہی ہے۔ الف لیلیٰ میں جو کہانیاں پیش کی گئی ہیں ان میں جانوروں، جن، پریوں کی کہانیاں ہیں۔ ان کہانیوں میں طلسم اور جادو کا رنگ بھی نمایاں ہے اور جگہ جگہ ساحر اور ساحرہ بھی کہانیوںمیں پائے جاتے ہیں۔ الف لیلیٰ کی کہانیوں میں بہت سی مخلوق بھی ہیں جو انسان کو آدھا پتھر کا یا گائے، چڑیا، گدھا، کتا اور ہررن وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر گدھے والے مسافر کی کہانی، ہرنی والے بوڑھے کی داستان اور معذور نوجوان کی داستان کو لیا جاسکتا ہے۔اس میں سند بادجہازی کے سفر کا قصہ بھی ہے اس میں بار بار جہاز ڈوبتا ہے اور ہر بار سند باد ڈوبنے سے بچ جاتا ہے۔ اس قصے میں آدم خور، دیو نما انسان سامنے آتے ہیں۔ سفید انڈا، رخ نام کا ایک بڑا پرندہ بھی دکھائی دیتا ہے جو سند باد کو اڑا کر لے جاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت ساری کہانیاں ہیں جس میں مابعدالطبیعات اور حیرت انگیز کردار الف لیلیٰ میں شامل ہیں جو کہ ہمیں ایک اساطیری جہاں کی سیر کراتے ہیں۔ اسی طرح عجائب القصص بھی ایسی داستان ہے جس میں بیان کردہ کہانی حیرت و استعجاب سے پر ہے اور اس میں بیان کردہ کردار ایک اسطوری کردار کے حامل نظر آتے ہیں۔

بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ یہ داستانیں سنسکرت الاصل ہیں۔ ان داستانوں میں اساطیری عناصر کی کارفرمائی پورے آب و تاب کے ساتھ دیکھنے کو ملتی ہے اس  تعلق سے ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں:

’’بیتال پچیسی کی کہانیوں میں فوق فطری عناصر کم ہیں۔ دیومالا کے زیر اثر کچھ خلاف عادت باتیں ہوئی ہیں۔ مثلاً بکرم ایک چور ہے تعاقب میں ایک کنویں میںپہنچ جاتا ہے کئی جگہ مندر کی دیوی کا مجسم کسی بات پر خوش ہو کر بول پڑتا ہے مرے ہوئوں کو امرت چھل کر جیلا دیا جاتا ہے۔‘‘

بیتال پچیسی عنوان ہی ایک اساطیری عنصر لیے ہوئے ہے۔ اس میں کل پچیس کہانیوںکا ذکر ہے۔ ہند و دیومالا کے مطابق بیتال بھوتوں کی اس نوع کو کہتے ہیں جو مرگھٹوں میں جہاں مردے جلائے جاتے ہیں وہاں بستے ہیں۔ پیش کردہ تمام کہانیوں میں جگہ جگہ ایسے واقعات جو ہندو اساطیرسے مطابقت رکھتے ہیں مثلاً،بنارس کے راجہ پرتاپ مکٹ کی کہانی، کشور برہمن کی بیٹی مدھومالتی کی کہانی، مہادیوی کی کہانی، جین نگر کے برہمن کے لڑکا کی کہانی میں جگہ جگہ اساطیری عناصر کو دیکھا جاسکتا ہے۔اسی طرح سنگھاسن بتیسی کے دیومالائی عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے گیان چند جین اپنی کتاب ’اردو کی نثری داستانیں‘ میں رقم طراز ہیں

’’ان کہانیوں میں دیومالا کا گہرا اثر ہے۔ بیتال پچیسی سے زیادہ پاتال، اندر لوک، اندر، سمندر، دیوتا، چاند دیوتا، شیو، شیش ناگ، جم کے دوت، دیوی گندہر، یہ سب بار بار نمودار ہوتے ہیں۔ ‘‘

گیان چند جین کے قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ تمام کردار جن کا ذکر انھوں نے کیا ہے وہ ہندو اساطیر سے ملتے ہیں۔ دراصل داستان اور اساطیر ایک دوسرے کے اندراس طرح پیوست ہیں کہ دونوں کا الگ ہونا ایک مشکل امرنظر آتا ہے۔ان کے علاوہ داستانیں جو اردو ادب میں پائی جاتی ہیں جن میں قصہ گل و صنوبر، سلک گوہر، پنچ تنتر، ہتوپدیش، کتھا سروپ ساگر، طلسم حیرت، اخوان الصفا جیسی داستانیں بھی ہیں جن میں دیومالا اور اسطور کی کارفرمائی پورے آب وتاب کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ مذکورہ بالا صفحات پر داستان اور اساطیرپر جو گفتگو ہوئی ہے اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ داستانوں میں اساطیری عناصر کی کارفرمائی کے بغیرداستانوں کاتصور ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں یہاں پر قاضی عابد کا یہ قول قابل ذکر ہے۔

’’اردو داستان کا اساطیر کے ساتھ ایک اٹوٹ تخلیقی رشتہ ہے۔ داستانوں میں اساطیری علائم کے تخلیقی استعمال نے داستانوں کی معنویت کو گہرا کردیا ہے۔ ان علائم کی وجہ سے ان داستانوں کا مطالعہ نہ صرف انسان کا تہذیبی مطالعہ ہے بلکہ مابعد الطبیعاتی بھی۔یہ سچ ہے کہ داستانوں کی گہری رمزیت کو اساطیر کی آشنائی کے بغیر پوری طرح نہیں سمجھا جاسکتا۔‘‘


Dr. Zahid Nadim Ahsan

Guest Faculty, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi - 110007

Mob.: 9350924710

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں