24/11/22

ماہیا، ثلاثی اور تروینی ایک جائزہ: شیخ احراراحمد

 


اردو کی تین مصرعی نظموں میں سب سے زیادہ مقبولیت ماہیا کو ملی، ثلاثی بھی زیرِ بحث رہی بعد میں تروینی معروف تو ہوئی لیکن اول الذکر دونوں صنفوں کی طرح مقبول نہیں ہوپائی۔ اس مضمون میں انھیں تینوں صنف کا جائزہ لینے کی سعی کی گئی ہے۔

ماہیا

ماہیا‘ پنجاب کی ایک قدیم اور مقبول صنف ہے، اس کے آغاز وارتقا پر کوئی روشنی نہیں پڑتی کیونکہ پنجابی زبان میں اس کے نقوش لوک گیتوں میں پیوست ہیں، اس کی ابتدا اور موجد کے بارے میں تلاش و جستجو ممکن نہیں لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماہیا پنجابی لوک گیت ہے، جسے شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات میں گایا جاتا تھا اور اب بھی یہ روایت وہاں برقرار ہے۔پنجابی زبان میں ’ماہیا‘ کا لغوی معنی’ساجن‘، ’معشوق ‘ اور خاوند کے ہیں۔ ’ماہیا‘ تین مصرعوں کی ایک مختصر نظم ہوتی ہے۔ پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے۔ اس کی بحراور ارکان مخصوص ہوتے ہیں، جس طرح رباعی میں چوبیس رعایتی آہنگ ہوتے ہیں اور ان میں سے چارآہنگ رباعی کے چاروں مصرعوں میں آسکتے ہیں، اسی طرح ماہیے کے بھی رعایتی آہنگ ہوتے ہیں۔ کندن لال کندن نے اس کے پہلے اور دوسرے مصرعے کے سولہ رعایتی آہنگ نقل کیے ہیں جس کا بنیادی وزن بحر متدارک مسدس مخبون ؍ مخبون مذال ہے۔ اس وزن پر زحاف تسکین کے عمل سے سولہ رعایتی آہنگ بنتے ہیں۔ یعنی،فعلن۔ فعلن۔ فعلن؍فعلان، ارکان میں سے ’ع‘ کو ساکن و متحرک کرکے یہ آہنگ رونماں ہوتے ہیں۔ ماہیے کے دوسرے مصرعے کا بنیادی آہنگ بحرمتقارب مسدس اثرم مقبوض محذوف ؍ مقصور ہے(بحر متقاربفعولن) یعنی، فعل۔فعول۔فعل؍فعول، پر عمل تخنیق سے آٹھ رعایتی آہنگ بنتے ہیں جن میں سے کوئی بھی ایک آہنگ دوسرے مصرعے میں لایا جاسکتا ہے۔اس طرح ماہیا میں ایک دائرے کی دومختلف بحریں استعمال ہوتی ہیں۔ ماہیے کا اس طرح عروضی تجزیہ پہلے پہل کندن لال کندن نے کیا ہے اور ماہیے کے لیے یہ عروضی پابندی ضروری بتایا۔1۔حیدر قریشی ماہیے کے وزن اور اس کی خصوصیت پر قدر ِسہل انداز سے روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں

’’جو ماہیا سہولت کے ساتھ، اپنے فطری بہاؤ میں ماہیے کی پنجابی دھنوں پرگایا، گنگنایا جاسکتا ہے وہ ماہیا ہے۔ جو اس معیار پر پورا نہیں اترتا وہ کلاسیکل موسیقی کا شاہکار ہوسکتا ہے۔ اعلیٰ ادبی فن پارہ ہوسکتا ہے لیکن ماہیا نہیں ہوسکتا۔‘‘

)اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما، ص 17، حیدر قریشی، معیار پبلی کیشنز، دہلی،سنہ اشاعت ندارد(

حیدر قریشی اپنے ماہیے کا مجموعہ ’محبت کے پھول‘ کو پنجابی ماہیے کے وزن کے مطابق اردو ماہیوں کا سب سے پہلا مجموعہ بتاتے ہیں۔ اس مجموعے کے پیش لفظ اور رسالے ’کوہسار‘میں ماہیے کے تعلق سے چھڑی بحث سے پتا چلتا ہے کہ اردو میں ماہیے کے لیے ایک ہی دائرے کی دو بحروں کے وزن استعمال ہوتے رہے ہیں اور یہی دونوں وزن پنجابی ماہیے کے مطابق درست ہیں۔ وہ دونوں وزن ملاحظہ فرمائیں:

    فعلن فعلن فعلن۔ کچھ رشتے ٹوٹ گئے

مفعول مفاعیلن۔  مل مہکی فضاؤں سے

      فعلن فعلن فع۔     برتن مٹی کے               

فعلُ مفاعیلن۔    یار نکل باہر

    فعلن فعلن فعلن۔   ہاتھوں سے چھوٹ گئے 

مفعول مفاعیلن۔  اندر کے خلاؤں سے

ان ماہیوں کے درمیانی مصرعے کو دیکھنے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں ایک’’سبب‘‘ یعنی دوحرف کم ہیں۔ اور حیدر قریشی نے انھیں دونوں صورتوں کو درست قرار دیاہے۔2

سہ ماہی رسالہ ’کوہسار‘ دسمبر1997 کے شمارے میں بعنوان ’ماہیے۔ایک مباحثہ‘ کے تحت ماہیے کی ہیئت اور اس کے وزن پر بحث ہوئی تھی جس میں شارق جمال نے کہا تھا کہ ماہیے کا یہ وزن،فعلن فعلن فعلن، میں ماہیے کی کوئی انفرادیت نظر نہیں آتی انھوں نے مفعول مفاعیلن؍ فعل (فاع) مفاعیلن؍ مفعول مفاعیلن کو ماہیے کا آہنگ بتاتے ہوئے کہا کہ ’’اسی ایک وزن کا فروغ اردوادب میں ہونا چاہیے‘‘۔ فرحت قادری نے ماہیے کے درمیانی مصرعے کو سماعت پر بوجھ گردانا ہے اور کہا کہ تینوں مصرعوں کو برابر کرکے ’’اردو ماہیے‘‘ کے نام سے فروغ دینا چاہیے۔ ان تینوں مصرعوں کے برابر ہونے سے ماہیا’ثلاثی‘ نہیں بنے گا کیوں کہ ماہیے کے لیے بحر مخصوص ہوتی ہے جس طرح رباعی کے لیے، اور ثلاثی کی کوئی بحر مخصوص نہیں ہوتی۔ اس کے لیے انھوں نے رباعی اور قطعہ کی مثال دی ہے۔ مناظر عاشق ہرگانوی نے ان دونوں حضرات کے مشوروں کی تردید کی ہے اور رسالہ’گلبن ‘ کے آنے والے ’ماہیا نمبر‘ کے مطالعے کا مشورہ دیا۔3

فرحت قادری کی رائے کی تردید میں مناظر عاشق ہرگانوی حق بہ جانب ہیں کیوں کہ1980 کے قریب اردو میں ماہیا نگاری کی طرف ہمارے کچھ شعرا نے خاص توجہ کی اور پنجابی ماہیے کے وزن پر غور کیے بغیر لا علمی میں تین یکساں مصرعوں میں ماہیا تخلیق کرنے لگے۔ 1990 کے قریب سب سے پہلے حیدر قریشی نے ماہیے کے اصل وزن کی طرف توجہ دلائی جس پر تینوں یکساں مصرعے کہنے والے شعرا نے ان کی اصلاح پر برہمی کا اظہار کیا۔ حیدر قریشی نے نہ صرف اصل وزن پر توجہ دلائی بلکہ ان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ماہیے کے تعلق سے ادبی رسائل میں وضاحتی خطوط اور مضامین چھپوائے اور پنجابی ماہیے کے وزن پر اردو میں اپنے تخلیق کردہ ماہیے پیش کرتے رہے۔ اس طرح چند برسوں میں اردو ماہیا نگار شعرا کی اکثریت، حیدر قریشی کے بیان کردہ وزن پر یعنی اصل پنجابی ماہیے کے وزن پر اردو میں ماہیا تخلیق کرنے لگی۔4

شارق جمال کا تعلق ناگپور سے ہے اور فرحت قادری کا بہار سے جب کہ کندن لال کندن اور حیدر قریشی کا تعلق پنجاب سے ہے اور ماہیا پنجابی صنف ہے لہٰذا کندن لال کندن اور حیدر قریشی کی رائے زیادہ معتبر ہے۔

ابتدا میں ماہیے کا موضوع بھی غزل کی طرح عشقیہ تھااور شادی بیاہ کے موقع پر مختلف انسانی جذبات کا اظہار ہوتا تھا پھر بتدریج اس کے موضوع میں وسعت آتی گئی اور غزل ہی کی طرح اس نے بھی زندگی کے تمام موضوع کو اپنے اندر جذب کرنا شروع کردیا۔

اردو میں ماہیے کی ابتدا،1936 میں فلم ’خاموشی‘ سے ہوتی ہے اور اس کے تخلیق کار ہمت رائے شرما ہیں۔ فلم بک لیٹ پر مئی 1936 درج ہے۔ اس فلم کے مکالمہ نگار اور کہانی کار امتیاز علی تاج تھے۔ اس میں ہمت رائے شرما کے کل گیارہ ماہیے ہیں۔ جس کا انکشاف سب سے پہلے مناظر عاشق ہرگانوی نے کیا اور حیدر قریشی نے تحقیق کرکے دریافت کیا اور قطعیت کے ساتھ ہمت رائے شرما کو اردو ماہیے کا بانی 5 قرار دیتے ہوئے ان کے ان ماہیوں کو اردو ماہیے کا اولین نقش بتایا ہے6۔ ان کے اس دعوے کی تردید ابھی تک نہیں ہوسکی ہے۔

فلم’خاموشی‘ کے لیے ہمت رائے شرما نے ماہیے،صرف لکھے ہی نہیں بلکہ گائے بھی تھے۔ حیدر قریشی نے جن ماہیوں کو ایک سے چھ تک ترتیب وار ہونے کا قیاس کیا ہے وہ ہیں:

(1)    سرمست فضائیں ہیں

   (2)   اشکوں میں روانی ہے

 (3)   کچھ کھوکر پاتے ہیں

          پیتم پریم بھری

          آنسوں پی پی کر

          یاد میں ساجن کی

           پھاگن کی ہوائیں ہیں 

          مدہوش جوانی ہے

          یوں جی بہلاتے ہیں

(4)  بھیگی ہوئی راتوں میں   

   (5)  کیا اشک ہمارے ہیں 

(6)    دونین چھلکتے ہیں

          ہم تم کھوجائیں

          آنسومت سمجھو

          ساجن آجاؤ

             پھر پریم کی باتوں میں

          ٹوٹے ہوئے تارے ہیں

          ارمان مچلتے ہیں

باقی ماہیے حیدر قریشی کی کتاب میں درج ترتیب کے مطابق ہیں         ؎

(1)   اک بارتو مل ساجن

(2)   سہمی ہوئی آہوں نے  

(3)  کچھ کھو کر پائیں ہم

            آکر دیکھ ذرا

          سب کچھ کہہ ڈالا

          دورکہیں جاکر

          ٹوٹاہوادل ساجن

          خاموش نگاہوں نے

          اک دنیا بسائیں ہم

(4)  یہ طرز بیاں سمجھو

(5)   تارے گنواتے ہو

 

          کیف میں ڈوبی ہوئی

          بن کر چاند کبھی

 

          آنکھوں کی زباں سمجھو

جب سامنے آتے ہو

 ہمت رائے شرما 23؍نومبر 1919 کو ضلع سیال کوٹ (پنجاب) کے قصبہ نارووال میں پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی کیدار شرما اپنے زمانے کے ممتاز فلم سازتھے۔ شاید انھیں کے توسط سے ہمت رائے شرما بھی فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور صرف سترہ سال کی عمر میں فلم’خاموشی‘ کے لیے نغمے لکھے۔ 1990 میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور کئی سال تک وہ اس کے زیر اثر رہ کر دنیا سے کوچ کیے۔

حیدر قریشی کی تحقیق سے بہت پہلے حمید نسیم نے (بقول حیدر قریشی)7کہیں لکھا تھا کہ سب سے پہلے اردو میں ماہیا چراغ حسن حسرت نے کہا ہے۔ حمید نسیم کے مطابق جب ڈاکٹر تاثیر جنوری 1936 میں امرتسر کالج کے پرنسپل بن کر آئے تو انھوں نے ایک مشاعرہ کرایا تھا جس میں حسرت نے پہلی بار اردو میں ماہیا پیش کیا تھا اور پھر 1937 میں بنی فلم ’باغباں ‘ میں بھی ان کے ماہیے شامل ہیں۔ حیدر قریشی کی تحقیق سے جوبات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ ڈاکٹر تاثیر جنوری نہیں بلکہ20؍مئی 1936 کو پرنسپل بن کر آئے تھے 8، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمت رائے شرما کے بعد ہی حسرت نے اردو میں ماہیا کہے ہوںگے۔ فلم’باغباں‘ میں حسرت کے لکھے ہوئے ماہیے کے نمونے ملاحظہ فرمائیں:

(1)باغوں میں پڑے جھولے

(2)    ساون کا مہینہ ہے

(3) اب اور نہ تڑپاؤ

          تم بھول گئے ہم کو

تم سے جداہوکر

          ہم کو بلا بھیجو

          ہم تم کو نہیں بھولے 

          جینا کوئی جینا ہے

          یا آپ چلے آؤ

حیدرقریشی نے آخری دوبند کو ماہیا کہا ہے اور پورے بند کو ملا کر گیت تسلیم کیا9۔ فلم’خاموشی‘ کے تقریباً بیس سال بعد فلم’پھاگن‘ میں قمر جلال آبادی اور فلم’نیا دور‘ میں ساحر لدھیانوی نے اردو ماہیے لکھے جو بہت مشہور ہوئے اور اسی بنا پر لوگ ان دونوں کے ماہیوں کو اردو کے اولین ماہیے سمجھ بیٹھے۔ وہ مشہور ماہیا یہ ہیں          ؎

تم روٹھ کے مت جانا/مجھ سے کیا شکوہ/دیوانہ ہے دیوانہ

شاعرقمر جلال آبادی۔فلمپھاگن۔آوازمحمدرفیع اور آشابھونسلے۔

دل لے کے دغا دیں گے/یار ہیں مطلب کے/یہ دیں گے تو کیا دیں گے

شاعر ساحر لدھیانوی۔فلمنیادور۔آواز محمد رفیع

قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی سے پہلے قتیل شفائی،فلم ’حسرت‘ (پاکستان) میں ماہیا پیش کر چکے تھے۔ 1980 کے بعد اردو میں ماہیا نگاری کی لہر چل نکلی جس میں چند شعرا کو چھوڑ کر زیادہ تر، ماہیے کے فن کو جانے بغیر ماہیے کے نام پر ثلاثی پیش کرنے لگے اور1990 کے بعد حیدر قریشی کے توجہ دلانے پر اس کے فن کی طرف متوجہ ہوئے اور اردو میں پنجابی ماہیوں کے وزن پر ماہیا لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

ماہیا تین مصرعوں اور مخصوص وزن کی مکمل نظم ہوتی ہے مگر اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ایک ہی موضوع کے کئی پہلو پر لخت لخت کئی ماہیے کہہ کر اسے ایک ساتھ رکھا جائے تو اس میں تسلسل اور ربط بھی ملے گا۔ اردو ماہیوں میں بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جیسے ہمت رائے شرما کے ماہیے ایک ساتھ ترتیب سے رکھے جائیں تو وہ سب ملا کر ایک نظم معلوم ہوں گے جب کہ وہ لخت لخت ہیں۔ اسی طرح حیدر قریشی نے بھی اپنے ماہیوں کے مجموعے میں ایک موضوع کے کئی پہلو پر ماہیے کہہ کر انھیں ایک عنوان کے تحت ترتیب دے دیا جس سے لگتا ہے کہ یہ سب ایک ہی نظم کی کڑیاں ہیں۔ نمونہ دیکھیں10

مرد

عورت

مرد

مرد-عورت

اس حال فقیری میں 

 زلفوں سے رہا ہوجا

کیا لطف رہائی کا

ملنا ہوتو ملتے ہیں

عمریں بیت گئیں

رب تیری خیر کرے  

دل جب سہہ نہ سکے

پھول محبت کے

زلفوں کی اسیری میں 

 جا ہم سے جدا ہوجا

دکھ تیری جدائی کا

پت جھڑ میں بھی کھلتے ہیں

یہ ماہیے گو بظاہر مکالمے کی صورت میں ایک ہی نظم معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ الگ الگ وقتوں میں تخلیق ہوئے ہیں اور لخت لخت ہیں۔ پنجابی ماہیوں میں اس طرح تسلسل سے ماہیا کہنے کی روایت ہے۔ خاص کرکے شادی بیاہ کے موقعوں پر یا محبوب سے چھیڑچھاڑ،گلہ شکوہ اور سوال و جواب کی صورت میں کئی ماہیے کی لڑیاں ایک دوسرے سے مربوط نظر آئیں گی۔

ثلاثی

ثلاثی، تین مصرعے کی مختصر نظم کو کہتے ہیں۔ عموماً اس کا پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے۔تینوں مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں، اس کے لیے کوئی ایک بحر مخصوص نہیں ہے۔یہ تینوں مصرعے مل کر ایک مکمل معنوی نظام یا ایک اکائی بنتے ہیں۔اسی طرح تین تین مصرعوں پر مشتمل کئی اکائیاں ایک مرکزی خیال کے تحت ایک ہی لڑی میں پروئی جاتی ہیں جسے مثلث کہا جاتا ہے۔ ثلاثی کو پہلے پہل مثلث اور تثلیث بھی کہا گیا۔ بقول حمایت علی شاعر بعد میں انھوں نے اسے ثلاثی نام دیا۔

حمایت علی شاعر خود کو اس صنف کا موجد بتاتے ہیں۔ان کا شعری مجموعہ’’مٹی کا قرض پہلی بار1974 کراچی سے، پھر دوبارہ 1980 میں کراچی ہی سے شائع ہوا۔اس شعری مجموعے میں ’ثلاثی‘ کے عنوان کے تحت صفحہ تیرہ پر بالکل نیچے یہ مصرع’’یہ طرزِ خاص ہے ایجاد میری‘‘ درج ہے۔اس مجموعے میں کل چوتیس ثلاثیاں مختلف عنوانات کے تحت شامل ہیں۔دوثلاثیاں بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں           ؎

شاعری

انکشاف

ہر موجِ بحر میں کئی طوفاں ہیں مشتعل

عالم تھے، باکمال تھے، اہلِ کتاب تھے

پھر بھی رواں ہوں ساحلِ بے نام کی طرف

آنکھیں کھلیں تو اپنی حقیقت بھی کھل گئی

لفظوں کی کشتیوں میں سجائے، متاعِ دل

الفاظ کے لحاف میں ہم محوِ خواب تھے

)شاعر: حمایت علی شاعر،شعری مجموعہ: مٹی کا قرض۔اشاعت دوم1980۔ پاک کتاب گھر،اردو بازار، کراچی، پاکستان(

حرف حرف روشنی‘ حمایت علی شاعر کا ہندوستانی ایڈیشن،اپریل 1986 میں مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی نے شائع کیا۔یہ مجموعہ ان کے تین شعری مجموعوں آگ میں پھول، مٹی کا قرض اور ’ہارون کی آواز‘کا مختصر انتخاب ہے۔ اس مجموعے میں کل ستائیس ثلاثیاں ہیں یہ سبھی ان کے مجموعے ’مٹی کا قرض‘ میں شامل ہیں۔اس مجموعے کے صفحہ 12پر عنوان ’ثلاثی‘ کے نیچے قوسین میں لکھا ہے’(ایک نئی صنفِ سخن)‘ اور ’حرفِ مختصر‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں

’’۔۔۔۔۔۔۔۔ بالخصوص اس نئی صنف میں جسے میں نے مثلث کی رعایت سے’ثلاثی ‘ کا نام دیا ہے۔’ثلاثیاں‘ میں 1960 سے کہہ رہاہوں پہلے اس کا نام تثلیث رکھاتھا مگر ایک مذہبی نظریے کی اصطلاح سے مناسبت پیدا ہوجانے کے سبب بہت جلد اسے ترک کردیا اور اب ’ثلاثی‘ ہی کے نام سے یہ صنف موسوم ہے۔ ہیئت اور فن کے اعتبار سے میں اپنی اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہو ں ا س کا فیصلہ بھی اہلِ ادب کریں گے۔‘‘

)شعری مجموعہ حرف حرف روشنی،ص10، ہندوستانی ایڈیشن، اپریل،1986، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی(

اس قول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پہلے تثلیث پھر ثلاثی، یہ دونوں نام بھی حمایت علی شاعر کا ہی رکھا ہوا ہے۔ مذکورہ بالا تمام باتوں سے اس صنف کا موجد ہونے کا دعویٰ صاف ظاہر ہوتا ہے۔ان کے اس تجربے پر سب سے پہلا مضمون اثر فاروقی(مدیر قومی محاذ،اورنگ آباد) کا ہے جو ماہنامہ،الشجاع، کراچی، پاکستان میں جون 1962 کو شائع ہوا۔ جس کے بعدچند ماہ تک بحث کا سلسلہ جاری رہا جس میں محسن بھوپالی، شورش کاشمیری، اثر لکھنوی،سلیم احمد اور خود حمایت علی شاعر نے حصہ لیا۔ اثر فاروقی کے مشورے ہی پر حمایت علی شاعر نے اس کا نام، تثلیث سے بدل کر ثلاثی رکھا۔1

محمد جمال شریف نے مثلث کے ضمن میں مولوی عبدالحق اور حکیم نعمانی کے حوالے سے خواجہ بندہ نواز گیسودراز کی ایک مثلث کا نمونہ پیش کیا ہے2۔اس نمونے کو کچھ شعرا اردو کی پہلی ثلاثی مانتے ہوئے حمایت علی شاعر کے بجائے خواجہ بندہ نواز گیسودراز کو ثلاثی کا موجد مانتے ہیں۔مولوی عبدالحق اپنی تصنیف’’اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام‘‘ میں،اس جملے کے ساتھ وہ نمونہ پیش کرتے ہیں:

’’منجملہ ان کے ایک مثلث بھی ہے جو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔‘‘ 3

او معشوق بے مثال نور نبی نہ پایا

اور نور نبی رسول کا میرے جیو میں بھایا

اپسیں اپیں دیکھارے کیسی آرسی لایا

مولوی عبدالحق نے مثلث کے ضمن میں یہ مثال پیش کی ہے۔ مثلث تین مصرعوں پر مشتمل کئی بند کی قدیم نظم ہے۔مختلف مثلث کے مصرعوں میں قافیے کی ترتیب مختلف ہوتی ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مولوی عبدالحق کومثلث کے طور پر صرف ایک ٹکڑا ملا ہو یا پوری نظم ملی ہو جس کاصرف پہلا بند نمونے کے لیے پیش کیا ہو۔ اس مثلث کے علاوہ کوئی اور مثال ثلاثی کے ضمن میں نہیں پیش کی گئی، یہ دلیل کمزور ہے،لہٰذا جب تک تحقیق کی روشنی میں کوئی ٹھوس دلیل یا ثلاثی کا نمونہ نہیں ملتا تب تک حمایت علی شاعرکے دعوے کومسترد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

ثلاثی کے ضمن میں دوسرا سب سے اہم نام کوثر صدیقی (مدیرسہ ماہی مجلہ، کاروانِ ادب، بھوپال)کا ہے۔ اردو میں سب سے پہلا ثلاثی کا مجموعہ’ جیب میں پتھر‘ انھیں کا ہے۔ اس کے بعد ’بیچاری اردو‘ 2006۔’فصیلِ شب‘ اور ’ثلاثیات‘ ثلاثی کے مجموعے شائع ہوئے۔آخرالذکر مجموعہ مدھیہ پردیش اردواکادمی نے شائع کرایا تھا۔ ان کے ثلاثی کے کل مجموعوں میں ثلاثیوں کی تعداد دوہزار سے زیادہ ہے۔ اب تک اردو میں سب سے زیادہ ثلاثیاں انھوں نے ہی کہی ہیں۔ ان کا دوسرا اہم کا م یہ ہے کہ انھوں نے ثلاثی کے لیے 1990 میں ایک فارم وضع کیا جس میں بحر خفیف سالم سے برآمد شدہ ارکان، فاعلاتن مفاعلن فعلن، کو ثلاثی کے لیے مخصوص کیا اور تینوں مصرعوں میں قافیہ کی ترتیب،ا۔ب۔ا، رکھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ1990 کے پہلے تین مصرعی نظمیںجیسے، ہائیکو اورماہیے کے مصرعوں کے ارکان معین ہیں لیکن زیادہ تر شعرا بلا لحاظ ان کے مصرعوں کو ہم وزن کردیتے تھے اور تروینی جیسی صنف بھی متعارف ہو چکی تھی جس کی وجہ سے ثلاثی اور ان تین مصرعی نظموں میں شناخت مشکل ہو گئی تھی۔ اس فارم میں کوثر صدیقی کی ثلاثیوں کے نمونے ملاحظہ فرمائیں            ؎

فرش و قالین مجھ سے لیتا جا

تجربہ تو یہی بتاتا ہے

دور رکھ جھوٹی شان وشوکت سے

جب بھی فرعون سر اٹھاتے ہیں

مجھ کو میری چٹائی دیتا جا

کوئی موسیٰ ضرور آتا ہے

کوثر صدیقی کاوضع کردہ ثلاثی کا یہ فارم معقول ہے۔ انھوں نے اس صنف کے لیے رواں دواں بحر کا انتخاب کیا ہے،شاید اسی لیے زیادہ تر شعرا نے اس سے اتفاق کیا اور اس فارم میں ثلاثی کہنے کی شروعات کی۔ اس طرح ثلاثی کی ایک ہیئت اور شناخت قائم کرنے کا سہرا کوثر صدیقی کے سر ہے۔

تروینی

موضوع اورہیئت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تروینی اور ثلاثی میںترتیب قوافی کے علاوہ کوئی فرق نہیںہے۔گلزار کی تروینیوں کا مجموعہ’تروینی‘ میں 107؍ تروینیاں ہیںجس میں سے زیادہ تعدادان کی ہے جن کے تینوں مصرعے معرا ہیں۔چند ایسی ہیں جن کا پہلا اور دوسرا مصرع ہم قافیہ اور تیسرا معرا ہے۔کچھ ایسی ہیں جن کا پہلا مصرع معرا ہے اور دوسرا،تیسرا ہم قافیہ۔ اس کے علاوہ ایک اور فرق جو نظر آتا ہے وہ یہ کہ دوسرے اور تیسرے مصرعے کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا ہے۔تروینی کے پہلے دومصرعے ایک مکمل شعر ہوتے ہیں،تیسرا مصرع اضافی ہوتا ہے جو شعر کے مفہوم کی توسیع میں مددگار کی حیثیت رکھتاہے۔اس مجموعے کی پہلی تروینی جو ’بوسکی کے لیے‘ ہے اور باقی تروینیوں سے علیحدہ ہے،کافی اثر انگیز ہے       ؎

کچھ خوابوں کے خط ان میں،کچھ چاند کے آئینے،سورج کی شعائیں ہیں

شعروں کے لفافے ہیں، کچھ میرے تجربے ہیں، کچھ میری دعائیں ہیں

 

نکلو گے سفر پہ جب، یہ ساتھ میں لے لینا، شاید کہیں کام آئیں

(دوسرے مصرعے میں لفظ ’’تجربے‘‘ پر معلم عروض توجہ دے سکتے ہیں) چند نمونے اور ملاحظہ فرمائیں(

٭٭

چودھویں چاند کو پھر آگ لگی ہے دیکھو

بھیگا بھیگا سا کیوں ہے یہ اخبار

پھر بہت دیر تلک آج اُجالا ہوگا

اپنے ہاکر کو کل سے چینج کرو

  راکھ ہوجائے گا جب پھر سے اماوس ہوگی

’’پانچ سو گاؤں بہہ گئے اس میں‘‘

٭٭

شام گزری ہے بہت پاس سے ہوکر لیکن

لَو پھوٹی ہے اور کرنوں سے کانچ بجے ہیں

سر پہ منڈلاتی ہوئی رات سے جی ڈرتاہے

گھر جانے کا وقت ہوا ہے پانچ بجے ہیں

سر چڑھے دن کی اِسی بات سے جی ڈرتا ہے

ساری شب گھڑیال نے چوکیداری کی ہے!

گلزار اسے ایک نئی صنف کہتے ہوئے خود کو اس کا موجد بتاتے ہیں۔انھوں نے 1972-73 سے تروینی کہنی شروع کی اور ان کی تروینیاں ہندی میگزین’ساریکا‘ میں شائع ہوتی رہیں،اس وقت اس میگزین کے ایڈیٹر کملیشورجی ہواکرتے تھے۔تروینی کی وجہِ تسمیہ کا خلاصہ وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

’’شروع شروع میں جب یہ فارم بنائی تھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ کس سنگم تک پہونچے گی۔تروینی نام اسی لیے دیاتھا، کہ پہلے دو مصرعے گنگا جمنا کی طرح ملتے ہیںاور ایک خیال،ایک شعر کو مکمل کرتے ہیں۔لیکن ان دو دھاراؤں کے نیچے ایک اور ندی ہے۔سرسوتی۔جوپوشیدہ ہے۔نظر نہیں آتی۔ تروینی کا کام سرسوتی دکھانا ہے۔ تیسرا مصرع کہیں پہلے دومصرعوں میں پوشیدہ ہے، چھپاہوا ہے۔‘‘1

تروینی کا سب سے پہلا مجموعہ ’تروینی‘ کے نام سے2001 میں شائع ہواجس کے خالق گلزار ہیں۔اور اس مجموعے کے ذریعے انھوں نے تروینی کو ایک صنف کا مقام دینے کی کوشش کی۔اگر پہلے سے موجود کسی صنف کی خارجی ہیئت میںقافیوںکی خفیف سی ترتیبی ردوبدل سے کوئی نئی صنف وجود میں آتی ہے تو بلا شبہ تروینی ایک نئی صنف ہے اور گلزار اس کے موجد ہیں۔بعد میں شارق جمال نے تروینی کے مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی کر کے تینوں مصرعوں کے لیے تین طرح کے اوزان،مربع،مسدس اور مثمن رکھ کرنو شکلیں بنائیں اور ’تروینی اپنے صحیح عروضی فارم میں ‘ عنوان کے تحت اپنی کچھ نظمیں رسالہ’کوہسار‘ جرنل، شمارہ نومبر 1998 میں اپنے نوٹ کے ساتھ شائع کرائی2۔اس کے بعد علیم صبانویدی، کاظم نائطی،مناظر عاشق ہر گانوی کے علاوہ کئی اور شاعروں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔   

حوالے

ماہیا

1        ص 25، 149، 150،151، رباعیات و ماہیے اور ماہیے کی ہیئت۔ کندن لال کندن،  اشاعت 2008

2        ص9، پیش لفظ4؎  ص10۔10؎ص33۔34۔ محبت کے پھول، حیدر قریشی،  اشاعت 1996،  ناشر نایاب پبلی کیشنز

3        ص12، 13،سہ ماہی ’کوہسار جنرل‘دسمبر 1997،  مدیر مناظر عاشق ہرگانوی

5        ص21، 6؎ص30، 7؎ ص9، 8؎ص9،9؎ص16،17، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما۔ حیدر قریشی،  معیار پبلی کیشنز، دہلی،سن اشاعت ندارد

ثلاثی

1        ص 233، اعتراف،۔مرتبین صباحت سلمان؍ رومی جعفری،ناشر: دبستانِ بھوپال۔اشاعت 2003

2        ص64۔دکن میں اردو شاعری ولی سے پہلے۔ڈاکٹرمحمدجمال شریف۔ناشر:ادارۂ ادبیاتِ اردو، حیدرآباد۔ اشاعت، 2004

3        ص15۔16۔مولوی عبدالحق۔اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام۔دوسری اشاعت: 1939، انجمن ترقی اردو،ہند،دہلی

تروینی

1        گلزار، ’تروینی‘ اشاعت: 2001، ناشر:روپا اینڈ کمپنی

2        اردوشاعری میں نئے تجربے،ص 168، علیم صبا نویدی،  اشاعت، فروری 2002، چنئی۔

Dr, Shaikh Ahrar Ahmad

7, Netaji Subhash Road

Charni Road (w)

Mumbai - 400002 (MS)

Mob.: 7498088534

Email.: ahrarazmi1978@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...