25/11/22

رنگا رنگ کہانیوں کے خالق: شبیر احمد

 

عالم انسانیت کے وجود میں آنے کے بعد جب لوگوں نے کھانے کا مسئلہ حل کر لیا تو زندگی کے دوسرے مسائل نے تیزی سے سر ابھارنا شروع کیا اور بنی نوعِ انسان نے اپنے اپنے طور پر اپنے مسائل کی کہانیاں بیان کرنی شروع کر دیں۔ ابتدائی عہد میں چونکہ وقت کی قلت نہیں تھی اس لیے لوگوں کے درمیان داستان گوئی نے اپنی جگہ بنا لی اور یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا لیکن جیسے جیسے لوگوں کے مسائل بڑھتے گئے وقت کی قلت کا احساس شدت سے ہونے لگا اور اسی قلت کے پیش نظر داستان کی مختصر صورت کو ناول کے طور پر لکھنے پڑھنے کا آغاز کردیا جو داستان سے قدرے مختلف تھا لیکن عام کہانیوں اور افسانہ گوئی سے بڑا فن اظہار بنا اور اس فن نے برسوں تک اپنے وجود کا دبدبہ قائم رکھا اس درمیان بطور خاص اردو میں ناول نویسوں نے سیکڑوں ناول لکھے کسی نے ضخیم تو کسی نے مختصر ناول تحریر کیا یہاں تک کہ یہ سلسلہ ناولٹ تک آ پہنچا جو اب بھی جاری ہے اسی کے ساتھ افسانہ نویسی اور کہانی نویسی کے فن نے عروج پایا اور عالمی ادب میں اپنی انفرادیت کا سکہ قائم کیا۔طویل افسانے اور کہانیوں کا سلسلہ جب وقت طلب ثابت ہونے لگا تو قارئین کی پسنداور ضرورت کے پیش نظر مختصر افسانے اور مختصر کہانیاں لکھتے لکھتے  صرف مختصر افسانے اور مختصر کہانیاں ہی نہیں لکھی بلکہ منی افسانے اور منی کہانیاں لکھنے پر آمادہ ہو گئے اور اسے افسانچے کا نام دیا گیا۔

یہ حقیقت ہے کہ کہانی لکھنے پڑھنے اور سننے سنانے کا فن برسوں پر محیط ہے۔ 1960 کی دہائی سے کہانی لکھنے کی ایک نئی روایت نے جنم لیا جسے جدیدیت کا نام دیا گیا۔ یہ سلسلہ 1980 کی دہائی تک قائم رہا۔ اس درمیان جدیدیت اور ترقی پسند ادیبوں کے مابین کسی نہ کسی سطح پر اعتراضات و اختلافات کا سلسلہ جاری رہا اور قاری ان دونوں کے درمیان سینڈوچ بنتا رہا۔ اور اب جس دور میں ہم لوگ جی رہے ہیں، اسے ایک اور نیا  نام مابعد جدیدیت دے دیا گیا ہے اور کتابت و طباعت کی جملہ سہولیات کے ساتھ آج بھی بڑی تعداد میں کہانیاں لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں گذشتہ دو برسوں میں سیکڑوں افسانہ نویسوں اور کہانی نویسوں نے اپنے ذہن و قلم کی جولانی کے خوب جلوے بکھیرے۔ کسی نے کم تو کسی نے زیادہ لیکن بہر صورت کہانی نویسوں نے اپنے قلم اور اپنے نام کا دبدبہ قائم رکھا ان میں کئی نام ایسے ہیں جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا کسی ترتیب کے بغیر ایسے افسانہ نویسوں کا نام لیا جائے تو بلاشبہ مرد افسانہ نویسوں کے ساتھ ساتھ خواتین افسانہ نگاروں کے نام بھی سامنے آئیں گے جیسے قرۃالعین حیدر، عصمت چغتائی، ذکیہ مشہدی، شکیلہ اختر، ممتاز شیریں، واجدہ تبسم، شہیرہ مسرور، شائستہ فاخری، جیلانی بانو، صغریٰ سبزواری، صبوحی طارق، اشرف جہاں، تسنیم کوثر، نزہت طارق ظہیری، عنبری رحمن اور قمر جہاں وغیرہ جبکہ مرد افسانہ نگاروں میں ترقی پسند تحریک کے ابتدائی ایام میں منشی پریم چند، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، اوپندر ناتھ اشک، کرشن چندر، ممتاز مفتی، ابوالفضل صدیقی، خواجہ احمد عباس، سہیل عظیم آبادی، سید رفیق حسین، کرتار سنگھ دگل، مانک ٹالہ، نورشاہ، جوگندرپال، بلونت سنگھ اور 60 کی دہائی سے اقبال متین، عابد سہیل، شبیر احمد، منظر کاظمی سے لے کر انور خان، اختر آزاد، انور قمر، ساجد رشید، سلام بن رزاق، علی امام نقوی، اسلم جمشیدپوری، مجیر احمد آزاد، مشتاق مومن سے لے کر ایم۔ مبین اور معین الدین عثمانی تک کے افسانوں نے اردو کے افسانوی ادب میں ایک مقام پیدا کیا۔

اپنے عہد کے انھیں مقبول و معروف افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام شبیراحمد کا ہے جنھوں نے اخباری صحافت میں اپنی پوری زندگی گزارنے کے باوجود خود کو ہمیشہ تشہیری دنیا سے دور رکھا۔ وہ آخر دم تک بہار کی راجدھانی پٹنہ میں مقیم رہے، درس و تدریس اور صحافتی ذمے داریوں نے کبھی ان کو آزادانہ زندگی گزارنے کی مہلت نہیں دی۔ باوجود اس کے کہ وہ کبھی بھی اپنے ذاتی مسائل و معاملات اور فرائض سے غافل نہیں ہوئے انھوں نے پچاس سال کے عرصے میں بے شمار افسانے لکھے جو نہ صرف اندرون ملک ادبی رسالوں میں شائع  ہوئے بلکہ پاکستان سے شائع ہونے والے رسالے ماہنامہ ’سیپ‘ میں بھی جگہ پائی۔ لیکن اس طویل عرصے میں ان کے افسانوں کے صرف دو مجموعے ہی منظرعام پر آ سکے۔ پہلا مجموعہ ’اعتراف‘ کے نام سے جولائی1976 میں شائع ہوا جس میں کل 19 افسانے ہیں جبکہ دوسرا افسانوی مجموعہ ہو بہو کے نام سے ستمبر 1986 میں شائع ہو کر بے حد مقبول ہوا اس میں اٹھارہ افسانے ہیں۔ان دونوں افسانوی مجموعے میں شامل افسانے کسی بھی بندھے ٹکے اصولوں سے الگ تھلگ ہیں اور ہر ایک افسانے کا اپنا منفرد اور رنگارنگ پہلو ہے جو شبیر احمد کو دیگر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتا ہے۔

شبیر احمد کا آبائی وطن بہار کے موضع اسلامپور پری پوسٹ کُسوتھر لہریا سرائے دربھنگہ ہے۔ لیکن ان کے سنہ ولادت میں میں تضاد موجود ہے۔ اپنی کہانیوں کے پہلے مجموعے ’اعتراف‘ میں انھوں نے اپنی تاریخ پیدائش 16 جولائی 1946 تحریر کیا  ہے جب کہ کہانیوں کا دوسرا مجموعہ ’ہوبہو‘ جو 1986 میں شائع ہوا اس میں انھوں نے اپنی تاریخ پیدائش  30 مارچ 1938 درج کی ہے۔ پٹنہ میں مقیم رہتے ہوئے تین جون 2005 کو شبیر احمد نے اس دار فانی سے کوچ کیا۔ان کی تاریخ پیدائش کی دونوں تاریخوں کا اگر فرق دیکھا جائے تو اس میں کل آٹھ سال کا فرق ہے گویا وفات کے وقت ان کی عمر 59 سال یا پھر 67 سال تھی۔

شبیر احمد کی کہانیوں کے مجموعے اعتراف جو 1976 میں شائع ہوا اس میں انیس کہانیاں ہیں اور بیشتر کہانیاں اسلامی تاریخی پس منظر میں تحریر کی گئی ہیں جب کہ دوسری کہانیاں بھی حقائق پر مبنی ہیں جو شہری زندگی سے لے کر گاؤں کے بدلتے منظر نامے کی عکاسی کرتی ہیں۔ گویا تمام کہانیاں ہمہ جہت اور ہمہ رنگ ہیں جسے پڑھنے اور سمجھنے میں عام قاری کو بھی بہت زیادہ دقت پیش نہیں آتی۔ اعتراف میں شامل چوتھی کہانی’ نکیل آقا کے ہاتھ میں تھی‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں

’’...یہ واقعہ  نہ جانے کتنی بار دہرایا جا چکا ہے کہ  غلام ناقَہ نشین تھا اور نکیل آقا کے ہاتھ میں تھی۔ قاصد نے یہ بھی دیکھا کہ وہ جس کے ہاتھ میں نکیل تھی اور جس کے جسم کے کپڑوں پر کئی پیوند تھے اس کی پیشانی دمک رہی تھی اور چہرے پر عجب سکون و جلال تھا۔ ایسا سکون جس میں ساری کائنات سمٹی ہوئی تھی۔ ایسا جلال جس میں ساری کائنات پھیلی ہوئی تھی۔ قاصد نے جب اپنے آقا کو تفصیل بتائی تو وہ بول پڑا۔ تم جو کچھ کہہ رہے ہو اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ وہی شخص ہے جس کا تذکرہ کتاب مقدس میں ہوا ہے۔ پھر جب اس شخص نے دیکھا تو بے ساختہ چیخ پڑا، بخدا یہ وہی ہے، بخدا یہ وہی ہے۔

اسی طرح ایک اور کہانی’خیر من النوم‘ بھی اسلامی تاریخ کے پس منظر میں تحریر کی گئی ہے، لکھتے ہیں۔

’’... میں تمھیں اپنا مدمقابل نہیں سمجھتا کہ تم اندھیرے میں بھٹکنے والے ایک حقیر کیڑا ہو، میں نے تو اس سے مقابلہ کیا ہے جوعصا بدست تھا۔ ایک روشنی کا مرکز تھا اور ایک ہجوم تھا جو پانی پانی کہہ رہا تھا۔ اور میں تھا اور میں نے بادلوں کو حکم دیا اور زمین سیراب ہوگئی۔ میں نے اس سے مقابلہ کیا جو اپنے جسم سے نکل کر بھاگنے والے کیڑوں کو پکڑ پکڑ کر اپنے ہی جسم میں رکھ دیا کرتا تھا۔ اس سے بھی دست گریباں رہا جس نے اپنی آنکھوں میں پٹی باندھ لی تھی اور ہاتھوں میں ایک تیز اور چمکدار شے پکڑ رکھی تھی وہ میرے مدمقابل تھے اور تم ایک حقیر کیڑا ہو میری بات مان لو گھر لوٹ جاؤ پہلے اپنے اندر اور باہر کی تاریکی کو دور کرو۔‘‘

شبیر احمد کی افسانہ نگاری کے تعلق سے ایک تاریخی واقعہ مجھے یاد آتا ہے جیسے کہانی پسند اور حق پسند قارئین کے گوش گزار کرانا، میں اپنی ذمے داری سمجھتا ہوں۔

70کی دہائی میں جب واجدہ تبسم کی افسانہ نگاری عروج پر تھی اور بڑے نیم ادبی رسائل کے مالکان بطور معاوضہ ایڈوانس رقم بھیج کر واجدہ تبسم سے فرمائشی افسانے لکھوایا کرتے تھے۔ انہی دنوں واجدہ تبسم نے نوابین حیدرآباد کو نہ صرف اپنا نشانہ بنایا بلکہ نوابین کی جتنی تضحیک اور کردار کشی ہو سکتی تھی انھوں نے کی اور کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، لیکن حالات نے کروٹ لی اور واجدہ تبسم نے اس خاص نوعیت کی کہانیاں لکھنی بند کر دی۔ تاہم ایک دن اچانک کسی انتہائی غیر معروف شہوار گل نامی افسانہ نگار کے نام سے ماہنامہ ’روبی‘ دہلی میں ’ٹیٹک پنجہ‘ نامی افسانہ شائع ہوا اور نتیجہ یہ ہوا کہ واجدہ تبسم نے نوابین حیدرآباد کی کردارکشی میں جو بھی کسر چھوڑی تھی وہ ساری کسر شہوار گل نے پوری کر دی۔ اس کے بعد شہوار گل کا کوئی افسانہ کسی بھی ادبی یا نیم ادبی رسالے میں آج تک نظر نہیں آیا۔

شبیر احمد ایک درد مند دل رکھنے والے افسانہ نگار تھے۔ حقائق کی قبولیت ان کی فطرت تھی اور عادت بھی۔ شہوار گل کی ریشہ دوانیوں سے جھنجھلا کر  نوابین حیدرآباد کے اعلی کردار کی عکاسی کرتے ہوئے انھوںنے ایک کہانی ’شاہ بلوط‘کے عنوان سے لکھی جو ماہنامہ ’روبی‘ دہلی کے کسی شمارے میں شائع ہوئی۔ اسی کہانی کے ایک حصے میں شبیراحمد لکھتے ہیں

’’.....نہال! دیکھو اس شاہ بلوط کو کتنا سربلند تھا، کتنی گھنیری شاخیں تھیں، اس کے چاروں طرف پھولوں کی رنگ برنگی اور خوبصورت باڑھیں تھیں۔ چھوٹے چھوٹے سرسبز پیڑ پودے بھی تھے، کبھی ایسا بھی ہوا ہوگا کہ کسی پھول کو چوم لینے کی تمنا نے شاہ بلوط کے دل میں کروٹ لی ہوگی مگر چاہنے کے باوجود وہ جھک نہیں سکا ہوگا، اپنی پسند کے پھول کو چوم نہ سکا ہو گا۔‘‘

شبیر احمد کی اس کہانی کی اشاعت کے بعد سے آج تک کسی نے بھی نوابین حیدرآباد کی تضحیک اور کردار کشی کی جرأت نہیں کی۔ شاہ بلوط میں وہ ساری خوبیاں تھیں جو نوابین حیدرآباد کے بلند کردار کی عکاس تھیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کی کہانیوں کے مجموعے ’اعتراف‘ میں شامل  ’ایک دریا پیاس کے صحرا میں‘، کالا سمندر، روشنی کے شہر میں، اپنی جنت کا خیال، سوکھی ٹھٹھری ندی، ایک دوانی اور چھوٹی بیگم وغیرہ ایسی کہانیاں ہیں جو شہر گاؤں اور سماجی رشتوں کو استوار کرتی ہیں۔ پٹنہ جیسے شہر میں اپنی عمر کے آخری ایام تک وہ اس شہر کا اٹوٹ حصہ رہے لیکن انھوں نے کبھی بھی اپنے گاؤں سے رشتہ نہیں توڑا، گاؤں کی باتیں، گاؤں کی یادیں اور گاؤں کے لوگوں کو شبیر احمد نے ہمیشہ اپنی کہانیوں میں زندہ رکھا، حتی کہ گاؤں کی ندی، گاؤں کے تالاب اور اونچے اونچے درختوں کے درمیان کو کو کرتی کوئل کو بھی وہ کبھی نہیں بھولے۔

شبیر احمد کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ ’ہوبہو‘ بھی 1986 میں شائع ہوکر بے حد مقبول ہوا۔ اس کے ابتدائی صفحات پر وہ اپنی بات میں اپنی کہانیوں کے تعلق سے لکھتے ہیں

’’.....فریاد کی کوئی لے نہیں ہوتی‘ سو اسی کا تجربہ مجھے بھی ہورہا ہے۔ میں آج تک بہت سی چیزوں کے رمز کو جاننے کی کوشش میں ناکام رہا ہوں۔ لہریں کیوں بنتی ہیں، کیوں بگڑتی ہیں اور کیوں ٹوٹ جاتی ہیں میں تو آج تک یہ بھی نہیں جان سکا۔ مجھے خبر نہیں کہ لوگ کس طرح اسرار ناپید سے واقف ہوجاتے ہیں۔ اپنا حال تو یہ ہے کہ نہ دیکھی ہوئی چیز پر اعتبار ہوتا ہے اور نہ سنی ہوئی باتوں پر اختیار۔ سماعت سے بصارت تک بہت فاصلہ نہ سہی لیکن میرے لیے ان دونوں کے درمیان ہمیشہ ایک سفید گہری کہر آلود فضا حائل رہی ہے۔ میں نہ جانے کہاں سے بسا اوقات مستعار شہہ پاروں کے ذریعے پرواز کرتا ہوا انجانی وادیوں میں بھٹکتا رہا ہوں اور کبھی کبھی تو بڑی سے بڑی بلندیاں بھی چوم آیا ہوں، مگر چشم وگوش کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ اب تک طے نہیں ہوا، آنکھیں جو دیکھنا چاہتی تھیں وہ نہ دیکھ سکیں اور قابل سماعت ہر بات محروم گوش نظر آئی۔ ان تضادات کے درمیان ہم آہنگی کی ساری کوششیں مجھے پچھلے پہر کے تھکے ہوئے چراغ کے پگھلتے ہوئے آنسوؤں کی یاد دلارہی ہیں اور جب یہ کھوئی یادیں کسی بے قرار لمحے کی آنکھوں سے ٹپک گئی ہیں تو ان لفظوں نے جنم لیا ہے جو میری روح کا احاطہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ میں سیپ چنتا رہا ہوں اور درد کے موتیوں کے اظہار میں ناکامیِ مسلسل کا المیہ بنتا رہا ہوں۔‘‘

افسانوی مجموعے ’ہوبہو‘ میں شامل پہلی کہانی ’اپنا گاؤں‘  میں شبیر احمد نے جہاں اپنے گاؤں کے ماضی، حال اور مستقبل کا بڑی خوبصورتی سے تذکرہ کیا ہے وہیں وہ گاؤں کے موجودہ حالات سے بے حد فکر مند نظر آتے ہیں اور باضابطہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

’’.....ہمارے گاؤں کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہاں کوئی چودھری نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے چودھری بننے کے لیے گاؤںکے لوگوں پر جور و ظلم کیا۔ ذی حیثیت اور خوشحال لوگ تو کئی تھے جن کی حیثیت چودھری سے کم نہیں تھی لیکن ان لوگوں نے بھی چودھری بننے کی کوشش نہیں کی۔ اور چونکہ گاؤں میں کوئی چودھری نہیں تھا اس لیے سب لوگ بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے۔

وہیں آگے لکھتے ہیں

’’.....مگر اب وہ گاؤں نہیں رہا۔ ظاہری طور پر گاؤں میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی تھی۔ نہ بجلی آئی تھی اور نہ آٹا چکی۔ البتہ دھول اڑاتی ہوئی کچی سڑک کول تار کی پختہ سڑک میں تبدیل ہورہی تھی اور کئی چائے خانے کھل گئے تھے۔ اس کے باوجود اب یہ پہلے جیسا گاؤں نہیں تھا۔ وہ لوگ رہے اور نہ ایثار و قربانی کا وہ جذبہ ہے کہ وقت کے بے رحم اور ان دیکھے ہاتھوں نے سب کچھ چھین لیا تھا، گاؤں کی معصومیت، پاکیزگی اور تقدس.....!‘‘

شبیر احمد کی کہانیوں کے تعلق سے ڈاکٹر لطف الرحمن لکھتے ہیں

’’.....میں جب شبیر کی کہانیاں پڑھتا ہوں تو اس کی فکری اور فنی کوتاہیوں سے قطع نظر اس کی بے ساختگی احساس اور سادہ لوح معصومیت پر تڑپ اٹھتا ہوں کہ یہ وہ سرمایۂ ہنر ہے جو اس نے عہد حاضر کی کمینگیوں میں بچا رکھا ہے، اس کی تقریباً ہر کہانی میں فطرت کے حسن کی طرف معصومانہ انداز فکر کی بے کلی کا احساس موجزن ہے۔ قرۃ العین حیدر یا قاضی عبدالستار کی طرح شبیر احمد جاگیردارانہ تہذیب کے زوال کا نوحہ گر نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاگیردارانہ تہذیب، بہت سی انسانی قدروں کا مجموعہ بھی تھی لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ ہمارا پرانا استحصال پسند معاشرہ تھا۔ ہندوستان کے پرانے قلعے ہمارے ماضی کے استحصال کی علامتیں ہیں جس میں مظلوموں اور مجبوروں کی نہ جانے کتنی آہیں اور کراہیں دفن ہیں.....‘‘

شبیر احمد کے افسانوی مجموعے ’اعتراف‘ یا پھر ’’ہوبہو‘‘ میں شامل افسانے جیسے ’ایک دریا پیاس کے صحرا میں ‘نکیل آقا کے ہاتھ میں تھی، خیرمن النوم، شاہ بلوط، چور دروازہ، کالا سمندر، سوکھے پتے کی لاش، اپنا گاؤں، شانتی، قوس قزح کے رنگوں والی گاڑی، ڈھلان سے اترتے ہوئے لوگ، کاندھے پہ ڈول ڈالے، سرخ مٹی، ہوبہو، حصارا اور دارا د اور وغیرہ ایسے افسانے ہیں کہ انھیں پڑھیے تو پڑھتے ہی چلے جایئے۔ آپ کو کہیں اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی۔ آپ افسانے کے ہر پیراگراف میں گم ہوتے چلے جائیں گے۔ وہ اپنے گاؤں،  اس کی پرانی تہذیب اور دیرینہ طرز زندگی کی حسرت بھری یادوں سے اپنے دامن کو مالا مال رکھنے کی کوشش میں مگن رہے ہیں۔

ڈاکٹر لطف الرحمن ایک جگہ شبیر احمد کے افسانوں کے تعلق سے لکھتے ہیں

’’..... قرۃ العین حیدر کے مقابلے شبیر احمد خود کو ایک کمتر افسانہ نگار سمجھتا ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ وہ خودکو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں بناتا اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں لمحہ بہ لمحہ فکر و فن کی راہوں پررواں دواں ہے.....‘‘

شبیر احمد نے بلاشبہ بہت سارے افسانے لکھے جو اکثر و بیشتر ادبی رسالوں کی زینت بنتے رہے لیکن وہ کبھی بھی شہرت طلبی کا شکار نہیں ہوئے۔ پٹنہ جیسے بڑے شہر میں انھوں نے ایک طرف جہاں پیشہ، درس و تدریس کی ذمے داری نبھائی وہیں دوسری جانب اپنی پوری زندگی ادب و صحافت سے وابستہ کررکھی تھی۔ محنت سے کبھی جی نہیں چرایا۔ صبح سے لے کر رات بارہ بجے تک کام کام اور صرف کام۔ یہی ان کی محنت کش زندگی کا مول تھا۔ 3جون 2005کو انھوں نے پٹنہ میں وفات پائی۔ وہ اپنی رنگارنگ کہانیوں کے حوالے سے ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہیں گے اور یاد کیے جائیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں