کہانی سننا اور سنانا انسان کی فطرت میں شامل ہے شایدیہی
وجہ ہے کہ انسان سماجی زندگی گزارنا پسند کرتا ہے تاکہ وہ اپنے روزمرہ کے واقعات، حادثات
و اپنی کارکردگی کو دوسروں کے سامنے پیش کرسکے اور اپنے کارناموں کی داد و تحسین حاصل
کرسکے۔ دراصل یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے ایک کہانی جنم لیتی ہے۔ جیسے جیسے انسان
تہذیبی ارتقاکے مدارج طے کرتا رہا ویسے ویسے یہ شوق بھی پروان چڑھتا گیا۔ آج سے ڈیڑھ
سو و دوسو سال قبل کے انسان کے پاس وقت کی فراوانی تھی اور وقت کو کاٹنے کا بہترین
مشغلہ کہانی سننا ہی ہوا کرتا تھا۔ ’داستان سے افسانہ تک‘ میں وقار عظیم لکھتے ہیں
کہ:
’’ کہانی انسان کے ان کارناموں کی روداد ہے جس میں اس نے
اپنے ماحول کی کسی متصادم قوت کے مقابل آکر اس پر فتح حاصل کی ہے، کہانی انسان کے
احساسِ برتری کی تسکین کا ذریعہ ہے، کہانی حقائق کی دنیا سے دور، تخیل تصور اور رومان
کے ایک جہانِ تازہ کی تصویر ہے۔‘‘ (داستان سے افسانہ تک ، وقار عظیم، ص 6)
نثری اصناف کی سب سے قدیم صنف داستان ہے۔ داستانوں میں حقیقی
زندگی کو چھوڑ کر زندگی کے باقی تمام لوازامات موجود ہوتے ہیں۔ ہر انسان کی یہ خواہش
ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کرے جہاں اس کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا
نہ کرنا پڑے۔ انسان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ وہ بے فکری سے ہواؤں میں جھولا جھولے
اور ساری دنیا میں اس کا راج پاٹ ہویا یو ں کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ دنیا اس کی
مٹھی میں ہو۔ ایسی چیزیں صرف خواب و تصورات میں ہی ممکن ہوسکتی ہیں لیکن انسان کو ان
تصورات میں لے جانے کا کام قدیم دور میں داستان گو کیا کرتے تھے اور جب داستانیں لکھنے
کا رواج ہوا تو ان کو پڑھ کر لوگ ان کرداروں میں کھو جایا کرتے تھے۔ اس لیے مرزا غالب
نے داستان کے تعلق سے لکھا ہے کہ
’’داستان طراز ی من جملہ فنونِ سخن ہے۔ سچ یہ ہے کہ دل بہلانے
کے لیے اچھا فن ہے۔‘‘
فرانس کے صنعتی انقلاب اور جدید ٹکنالوجی کی دریافت ان عقل
سے پرے عناصر پر سے عوام کے یقین کو کم کرنے لگے اور انسان حقیقی زندگی گزارنے کی طرف
مائل ہونے لگا۔ لیکن اب جدید ٹکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ کہانیوں کے وہ عناصر
جو کہ عقل سے پرے دکھائی دیتے تھے ان کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے لگی اور جو چیزیں
کسی زمانے میں ناممکن دکھائی دیتی تھیں جدید ٹکنالوجی نے اس کو ممکن کردکھایا ہے۔ مثلاً
’کھل جا سم سم‘ کہنے پر دروازہ کا کھل جانا قدیم دور میں ایک حقیقت سے بعید تصور تھا
لیکن آج ٹکنالوجی نے اس کو ممکن بنادیا ہے۔
اس مضمون میں راقم ایسے ہی چند مافوق الفطری تصورات کے متعلق بات کرے گا جو
کہ قدیم داستانوں میں پیش کیے گئے تھے جس کو ٹکنالوجی نے حقیقت میں تبدیل کردیا ہے
یا اس کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں۔
کھل جا سم سم
الف لیلہ یا ہزار داستان کی کہانیاں آج سے کئی سو برس پہلے
لکھی گئی تھیں لیکن اس کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ افسانوی ادب
سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ضرور اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس داستان میں بے شمار دلچسپ
کہانیاں موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے چند کہانیوں کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
ان ہی میں سے ایک ’علی بابا چالیس چور‘ کی کہانی ہے۔ اس کہانی کے مطابق۔
’’شہر بغدادا میں ایک سودا گر کے لڑکے قاسم اور علی بابا
رہتے تھے۔ باپ کے انتقال کے بعد دونوں بھائی الگ الگ رہنے لگے۔ قاسم اپنی محنت سے کامیاب
تاجر بن کر اپنی زندگی ہنسی خوشی گزار رہا تھا۔ جبکہ علی بابا اپنی کاہلی اور فضول
خرچی کی وجہ سے خالی ہاتھ ہوگیا تھا۔ جب حالات بہت خراب ہوگئے تو وہ لکڑیاں فروخت کرکے
اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری کرنے لگا۔ وہ روزانہ جنگل جاکر گدھوں پر لکڑیاں
لادتا اور اس کو فروخت کرتا تھا۔ ایک روز وہ جنگل میں لکڑیوں کی تلاش میں وہ بہت دور
نکل گیا۔ جہاں ایک طرف گھنا جنگل اور دوسری جانب ایک چھوٹی پہاڑی تھی۔ علی بابا لکڑیاں
کاٹ رہا تھا کہ سامنے سے اسے چند گھوڑا سوار دکھائی دیئے۔ اس کو شک ہوا کہ کہیں یہ
ڈاکوتو نہیں ہیں۔ اس نے اپنے گدھوں کو پہاڑی کے پیچھے چھپا لیا اور خود جھاڑ پر چڑھ
گیا۔ اس کا شک درست نکلا وہ ڈاکو ہی تھے اور یہ اپنے ساتھ لوٹا ہوا مال لا رہے تھے۔
یہ تمام ڈاکو ایک غار کے قریب اتر گئے اور ان میں سے ایک ڈاکو نے آگے بڑھ کر کہا
’کھل جا سم سم‘ دروازہ فوراً کھل گیا اور تمام ڈاکو اندر چلے گئے اور دروازہ ازخود
بند ہوگیا۔ علی بابا درخت پر سے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکو غار
میں سے نکل کر چلے گئے۔ اس کے بعد علی بابا جھاڑ پر سے اتر کر ’کھل جا سم سم‘ کودہرایا
اور غار میں داخل ہوا جہاں بے شمار اشرفیاں اور قیمتی اشیا بکھری پڑی تھیں۔ وہ غار
میں سے اشرفیاں گدھوں پر لاد کر اپنے گھرکو لوٹ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کافی دولت
مند ہوگیا۔
جدید ٹکنالوجی میں اس تصور کا استعمال
اس طریقہ کار کا ہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
مثلا جب ہم کسی بڑے کمرشیل کمپلکس، ائیرپورٹ وغیرہ جاتے ہیں تو دروازے کے قریب پہنچتے
ہی دروازہ ازخود کھل جاتا ہے اور ہم اندر داخل ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد دروازہ ازخود
بند بھی ہوجاتا ہے۔ یہ عمل اس میں لگے ہوئے ایک چھوٹے سے sensor کی وجہ سے ممکن ہوا
ہے۔ اگر اس sensor میں ’کھل جا سم سم‘
کے الفاظ شامل کردیے جائیں تو عین ممکن ہے کہ دروازہ کھل جا سم سم کہنے پر کھل اور
بند ہوسکتا ہے۔
الٰہ دین اور چراغ
الف لیلہ میں ہی ایک اور کہانی الٰہ دین کا چراغ ہے جس کی
کہانی اس طرح ہے۔ چین کے دارالسلطنت پیکن میں ایک درزی مصطفیٰ کا بیٹا الٰہ دین رہتا
تھا۔ غربت کی وجہ سے وہ مدرسہ نہیں جاسکتا تھا اس لیے اس کی تعلیم بھی نہیں ہوسکی۔
وہ دن رات گلیوں میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ کھیل کو د میں مشغول رہتا تھا۔ لیکن الٰہ
دین بہت ذہین اور ضدی لڑکا تھا۔ اپنی ضد پر اڑ جاتا تو وہ کسی کی نہیں سنتا تھا۔ ایک
دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گلی میں کھیل کود کررہا تھا کہ ایک افریقی جادوگر نے اس
سے مل کر کہا کہ وہ اُس کا چاچا ہے۔ یہ جادوگر اصل میں پیکن کے تہہ خانے میں موجود
پرانا چراغ حاصل کرنے کے لیے آیا تھا۔ اس چراغ کی خاصیت یہ تھی کہ اس میں ایک طاقتور
جن تھا اور جس کسی کے پاس بھی یہ چراغ رہے گا یہ جن اس کے تابع رہے گا۔ چراغ کے مالک
کی طرف سے جو بھی حکم دیا جائے اسے بجا لاتا ہے۔ مگر اس تہہ خانے کے اندر ہر کوئی نہیں
جاسکتا تھا۔ اس میں داخل ہونے کے لیے کچھ خوبیوں کا ہونا ضروی تھا۔ خوبیاں یہ تھیں
کہ تہہ خانے میں جانے والے کی عمر 18 سال سے کم ہو، یتیم ہو، ضدی ہو اور باپ دادا پیشے
سے درزی ہوں۔ انہی خوبیوں کے حامل شخص سے اس تہہ خانے کا داہنے کا پتھر ہٹتا تھا۔ یہ
تمام خوبیاں الٰہ دین میں موجود تھیں۔ اس لیے جادوگر الٰہ دین کا استعمال کرنا چاہتا
تھا۔ ایک روز جادوگر الٰہ دین کو تہہ خانے میں جانے کے لیے راضی کرلیا اور اس کو بتایا
کہ تہہ خانے میں تین برآمدوں کے بعد ایک باغ ہے اور اس باغ میں ایک شہ نشین بنا ہوا
ہے اور اس کے طاق میں ایک چراغ جل رہا ہے۔ اُس چراغ کو لے کرآنا ہے، الٰہ دین وہاں
پہنچ کر چراغ اپنی جیب میں ڈالا اور واپس تہہ خانے کے دہانے پر پہنچ گیا۔ جادوگر اس
کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور الٰہ دین سے کہنے لگا کہ تم اب پیکن کے امیرترین شخص بن
جاؤ گے۔ اس کے بعد تہہ خانے سے باہرنکالنے کو لے کردونوں میں بحث و تکرار شروع ہوگئی۔
جادوگر چاہتا تھا کہ الٰہ دین اس کو چراغ پہلے دے اور بعد میں تہہ خانے سے باہر آئے
اور الٰہ دین پہلے تہہ خانے سے نکلنا چاہتا تھا اور اس کے بعد ہی یہ چراغ جادوگر کو
حوالے کرنا چاہتا تھا۔ یہ اپنی ضد پر اڑ گیا اور چراغ حوالے نہیں کیا۔ جادوگر مارے
غصہ کے تہہ خانے کا دہانہ بند کرکے چلاگیا۔ کسی طرح الٰہ دین اس غار سے نکل کر اپنے
گھر پہنچ گیا اور ساری روداد اپنی ماں کو سنادی۔ الہ دین کی ماں ایک مرتبہ اس چراغ
کو چمکانے کی خاطر راکھ سے رگڑ رہی تھی کہ ایک دیو قامت جن نمودار ہوا اور کہنے لگا
کہ جو حکم ہوگا اس کی تعمیل کروں گا۔ ماں تو بیہوش ہوگئی لیکن الٰہ دین سمجھ گیا کہ
وہ جادوئی چراغ ہے اور اس میں موجود جن اس کا موکل ہے۔ الٰہ دین اس جن سے بہت کام لے
کرپیکن کا امیر ترین انسان بن گیا اور پیکن کے بادشاہ کی لڑکی سے شادی بھی رچالی۔
جدید ٹکنالوجی میں اس تصور کا استعمال
مشینی گھوڑا
ہزار داستان میں
ایک کہانی مشینی گھوڑے کی بھی ہے۔ اس کے مطابق ایران کا ایک بادشاہ عیدِ نوروز کی تقاریب
کافی جوش و خروش کے ساتھ مناتا تھا اور اس میں بہ نفس نفیس حصہ لیتا تھا۔ ان تقاریب
میں دنیابھر کے فن کار اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور بادشاہ سے انعام و اکرام حاصل
کرتے تھے۔ اسی طرح کی ایک تقریب ِنوروز میں ہندوستانی فن کار نے ایک لکڑی کا گھوڑا
پیش کیا۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ اس گھوڑے میں کیا خاص بات ہے۔ ہندوستانی فن کار نے
بتایا کہ یہ گھوڑا مشینی ہے۔ انسان اس پر سوار ہوکر آسمان پر اڑسکتا ہے اور نیچے آسکتا
ہے۔ بادشاہ حیران ہوا اور تجربہ پیش کرنے کو کہا۔ ہندوستانی کاریگر نے گھوڑے پر سوار
ہوکر ایک گیئر ڈالا اور ہوا میں اڑ کر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ کچھ وقفے کے بعد صحیح
وسلامت زمین پر واپس بھی آگیا۔ یہ منظر دیکھ کر بادشاہ متعجب اور عوام ششدر رہ گئی۔
بادشاہ نے فن کار سے کہا کہ یہ عجائبات عالم میں سے ایک ہے اور میں اس کو لینے کے لیے
تیار ہوں۔ ہندوستانی کاریگر بتاتا ہے کہ اس گھوڑے میں کئی گیئر لگے ہوئے ہیں، جس سے
گھوڑے کو اڑایا جاسکتا ہے اور نیچے لایا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی رفتار پر بھی قابو رکھا
جاسکتا ہے۔
جدید ٹکنالوجی میں اس کا استعمال
اگر جدید ٹکنالوجی میں اس تصور کو تلاش کریں تو اس کے مماثل
ہمیں ہوائی جہاز ملتا ہے۔ بین السطور میں مذکور ہوا کو ہندوستانی فنکار نے بتایا کہ
اس میں کئی گیئر ہوتے ہیں جس سے رفتار پر قابو پایا جاسکتا ہے اور گھوڑے کو نیچے اوپر
کیا جاسکتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہوائی جہاز کو اڑانے، اتارنے اور رفتار پر قابو پانے
کے لیے بھی کئی گیئر لگے ہوتے ہیں۔ رائٹ برادران نے 1903 میں ہوائی جہاز کو ایجاد کیا
تھا۔ جبکہ الف لیلہ کی کہانیاں اس سے کئی برس قبل لکھی جاچکی تھیں۔ ہوائی جہاز کی تیاری
میں رائٹ برادران نے اڑنے والے مشینی گھوڑے سے متاثر ہوکر ہوائی جہاز تیار کیا ہوگا۔
اڑنے والا غالیچہ یا قالین
داستان الف لیلہ میں ایک کہانی ’پری بانو اور شہزادہ احمد‘
کی ہے۔ کہانی کے مطابق ہندوستان کے کسی حصے میں ایک نیک دل بادشاہ رہتا تھا۔ اس کے
تین لڑکے تھے۔ حسین، علی اور احمد ‘ بادشاہ ان تینوں سے یکساں محبت کرتا تھا۔ ان لڑکوں
کی ایک چچازاد بہن نور النہار تھی۔ یہ لڑکی بے حد حسین و جمیل تھی۔ تینوں بھائی اس
سے محبت کرتے تھے اور ہر ایک کی خواہش تھی کہ ان کی شادی نور سے ہو۔ بادشاہ کو جب اس
بات کی خبر ہوئی کہ اس کے تینوں لڑکے نور سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت متفکر ہوا
اور غور کرنے لگا کہ کس طرح اس معاملے کا منصفانہ حل نکالا جاسکتا ہے۔ اس کو ایک ترکیب
سوجھی اور تینوں بیٹوں کو بلاکر کہا کہ تم لوگ سفر پر جاؤ اور میرے لیے تحفے لاؤ
جس کا تحفہ سب سے عمدہ ہوگا میں اس کی شادی نور النہار سے کردوںگا۔ تینوں راضی ہوگئے
اور اپنے اپنے سفر پر نکل گئے۔ ان شہزادوں میں بڑا حسین تھا۔ اس کو بش گڑھ دیکھنے کا
بہت شوق تھا سو وہ اس طرف نکل گیا۔ جبکہ دوسرا شہزادہ علی‘ شیراز پہنچا اور تیسرا شہزادہ
سمر قند پہنچا۔ تینوں شہزادوں نے اپنے باپ کے لیے منفرد و مختلف تحائف خریدے اور اپنی
منزل کی طرف لوٹ گئے۔ حسین نے بش گڑھ سے ایک غالیچہ (قالین ) خریدا۔ حسین بازار کی
ایک دوکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک تاجر غالیچہ یا قالین لے کر آیا اور دوکان دار
کو دکھا کر کہنے لگا کہ یہ غالیچہ 40 ہزار اشرفی میں برائے فروخت ہے۔ حسین اس کی اتنی
اونچی قیمت سن کر متعجب ہوا اور تاجر سے پوچھنے لگا کہ اس میں ایسی کیا خوبی ہے کہ
تم اتنی قیمت مانگ رہے ہو۔ تاجر نے کہا کہ یہ بہت ہی عجب چیز ہے اس پر بیٹھ کر جہاں
کا حکم دیجیے فوراً یہ غالیچہ اس جگہ پہنچا دے گا۔ شہزادہ حسین یہ سن کر بہت خوش ہوا
اور سوچنے لگا کہ والد کے لیے اس سے بہتر کوئی اور تحفہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اس نے قالین
کو منہ مانگا دام دے کر خرید لیا اور کئی دن تک اس پر سیر و سیاحت کرنے کے بعد اپنے
ملک کے قریب پہنچ کر اپنے دوسرے بھائیوں کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے دوسرے دوبھائی اپنے
اپنے مقام سے نایاب چیزیں لے کروہاں پہنچے۔ علی نے ایک دوربین خرید ااس کی خوبی یہ
تھی کہ جس چیز کی دیکھنے کی خواہش ہو اس میں دیکھنے سے ہزاروں میل دور ہونے پر بھی
یہ آئینے کے سامنے آجاتا ہے تیسرے بھائی نے ایک مصنوعی سیب خریدا۔ اس سیب کی خصوصیت
یہ تھی کہ قریب المرگ بیمار کو سنگھادیا جائے تو وہ تندرست ہوجاتاہے۔ جب تینوں بھائی
ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے اپنے تحفے ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں۔ تینوں کے تحفے
ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ ایک روز انھیں نور النہار کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ علی
نے اپنی دوربین سے نور کا حال دیکھا اور کہنے لگا کہ وہ سخت بیمار ہے اور سب اس کے
گرد پریشان بیٹھے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر تینوں بھائی پریشان ہوگئے اور حسین کے غالیچے
پر بیٹھ کر نور النہار کے دروازہ پر پہنچ گئے یہ منظر دیکھ کر بادشاہ ششدررہ گیا۔ احمد
نے اپنا مصنوعی سیب نکال کر نور النہار کو سنگھایا اس کو فوری ہوش آگیا۔ یہ تمام تحائف
دیکھ کر بادشاہ بہت خو ش ہوا۔
جمشید کا پیالہ
ایران میں ایک مشہور بادشاہ گزرا ہے جس کا نام جمشید تھا
اس کا دور حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے آٹھ سوسال قبل کا ہے۔ جام جم یا جام جمشید کی کہانی
ایران کی مشہور دیومالائی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ کہانی ایران کے پہلے شاہی خاندان
سے تعلق رکھنے والے بادشاہ جمشید سے متعلق ہے۔ سب سے پہلے اس کا ذکر ایران کے مشہور
شاعر فردوسی نے اپنی شہرئہ آفاق نظم ’شاہنامہ‘ میں کیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ جمشید
ایران کا چوتھا بادشاہ تھا۔ انھوں نے ایران پر تین سو سال سے زائد عرصے تک حکومت کی
تھی۔وہ دنیاوی اور روحانی طاقت کے مالک تھے۔ فردوسی نے لکھا ہے کہ اس کے دور میں بے
شمار ایجادات ہوئی تھیں مثلاً ہتھیار، تعمیراتی اینٹیں، سلک اور اون کے کپڑے، زیورات،
قیمتی پتھر، معدنیات، خوشبو، شراب ،جہاز رانی وغیرہ۔ فردوسی نے بتایا ہے کہ جمشید کی
شہرت کا اصل سبب اس کا پیالہ تھا۔ اس کے پیالے کے کئی نام ہیں جیسے جام جم، جام جمشید،
جام جہاں نما، وغیرہ۔ اس پیالے کی خاصیت یہ تھی کہ جمشید اس کو گردش دے کر ساری دنیا
کے حالات کا پتہ چلالیتا تھا۔ اس پیالے میں وہ ساری دنیا کا نظارہ کرتا تھا۔ آج اگر
اس پیالے کا تصور بھی ذہن میں لایا جائے تو ایک انہونی بات لگتی ہے کہ کیسے کوئی شخص
دنیا بھر کی معلومات ایک پیالے کی مدد سے دیکھ سکتا ہے۔
لیکن آج جدید ٹکنالوجی کے دور میں آئی پیڈ اور انٹرنیٹ
نے اس کوممکن کردکھایا ہے۔ آئی پیڈ یا کمپیوٹر میں انٹرنیٹ کی مدد سے دنیا جہاں کی
معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی مددسے آئی پیڈ پر کیا کچھ نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
ساری دنیا کی خبر گیری چند لمحوں میں کرسکتے ہیں۔ کسی بھی خوبصورت ملک کی خوبصورتی
سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ گھر بیٹھے جدید علوم سے آگہی حاصل کرسکتے ہیں۔ دور بیٹھے
لوگوں سے بالمشافہ ملاقات کرسکتے ہیں۔ اسمارٹ فون کی ایجادنے تو اب ہر انسان کے ہاتھ
میں جام جم تھما دیا ہے۔ یہ دور حاضر کا جام وہ سب کچھ بتادیتا ہے جو انسان کچھ برسوں
قبل تک سوچ بھی نہیںسکتا تھا۔
ہم شکل اختیار کرنا
ملاوجہی نے 17 ویں صدی کی ابتدا میں داستان سب رس لکھی۔ اس
داستان میں بھی کئی مافوق الفطری واقعات ملتے ہیں۔ جیسے انگوٹھی کی مدد سے لوگوں کی
نظروںسے اوجھل رہنا، بال جلاکر کسی کو بھی بلانا اور ساتھ ہی ساتھ سحر سے مسحور کردینے
والے کئی واقعات ملتے ہیں۔ سحر سے مزین ایک واقعہ اس میں پیش کیا گیا ہے۔ داستان سب
رس کا پورا قصہ حسن و دل کے عشق اور آب حیات کی تلاش پر مبنی ہے۔ شہر سیستان کا بادشاہ
عقل تھا اور اس کا بیٹا دل جبکہ حسن شہر دیدار کے بادشاہ عشق کی بیٹی تھی۔ عقل اور
عشق کے درمیان کچھ بدگمانیوں کی وجہ سے دونوں کے درمیان جنگ چھڑجاتی ہے۔ جنگ میں عقل
بادشاہ کو شکست ہوتی ہے اور دل کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ حکم صادر کردیا جاتا ہے کہ
اس کو طوق پہناکر قید خانے میں مقید کردیا جائے۔ حسن، دل کے دیدار کے لیے بہت بیقرار
رہتی ہے۔ حسن دل کو اپنی ساحر سہیلی کی مدد سے قید خانے سے نکال کر ایک کنویں میں چھپادیتی
ہے۔ اس کے بعد حسن ہر شام دل سے تنہائی میں ملاقات کرتی ہے اور دونوں میں رازو نیاز
کی باتیں ہوتی ہیں اور تنہائی کے مزے لوٹتے تھے۔ حسن کے ساتھ غیر نامی لڑکی بھی ہر
وقت ساتھ رہتی تھی لیکن جب وہ دل سے ملاقات کے لیے جاتی تو وہ اپنے ساتھ اسے نہیں رکھتی
تھی اس لیے اس کو شک ہونے لگا۔ ایک دن وہ حسن کا تعاقب کرتے ہوئے اس رازدارانہ مقام
تک پہنچ جاتی ہے جہاں حسن ، دل سے ملاقا ت کرتی ہے اور تنہائی میں مزے لوٹتی ہے۔ یہ
منظر اور دل کی خوبصورتی دیکھ کر غیر بھی اس پر فریفتہ ہوگئی اور اس کے دل میں بھی
دل کے ساتھ ملاقات کرکے مزے لوٹنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ایک دن حسن کہیں شہر کے باہر
گئی اور آنے میں اس کو تاخیر ہوگئی۔ حسن کی غیر موجودگی کو غیر بہت ہی مناسب وقت جان
کر سحر کی مدد سے حسن کی شکل اختیار کرلی۔ اس راز درانہ مقام پر پہنچ کر دل سے ملاقات
کے مزے لوٹنے لگتی ہے۔ اسی دوران دونوں کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا جاتا ہے اور پھر
سے دل کو حسن قید میں بند کردیتی ہے۔ بعد میں غیر‘ اقرار کرتی ہے کہ اس نے ہی حسن کا
بھیس بدل کر دل سے ملاقات کی تھی۔
یہ بات صد فیصد درست ہے کہ سائنس اور فکشن دو متضاد تصورات
ہیں ـ‘ سائنس حقیقی عناصر سے بحث کرتی ہے جبکہ فکشن خیالی و تصوراتی
ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب تک سائنس کو کوئی تصور نہیں ملتا وہ اس کی حقیقت
تک نہیں پہنچ سکتی۔
قدیم داستانوں میں اور کئی ایسے قصے کہانیاں ہوسکتی ہیں جو
کہ کسی وقت میں فرسودہ اور مافوق الفطری رہے ہوں گے۔ لیکن جدید ٹکنالوجی نے ان تصورات
کو ممکن کردکھایا ہے۔ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
Mohd Waheeduddin
Asst.
Prof. Urdu
Indira
Priyadarshini Govt. Degree College Nampally,
Hyderabad-
500001 (Telangana)
Mob.:
9885059195
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں