15/6/23

تقابلی مطالعہ تعریف، آغاز و ارتقا اور طریقۂ کار:محمد ثاقب

تقابل انسان کے وجود میں پنہاںہے۔ انسان ہر شے کو تقابل کی نظر سے دیکھنے اور موازنہ کرنے کی جبلت رکھتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ انسان ہمیشہ سے خوب سے خوب تر کی تلاش میں سر گرداں رہا ہے۔ آج ہم ترقی کی جس منزل پر کھڑے ہیں اس کے پیچھے تقابلی جبلت کا اہم رول ہے۔اسی طرح ادب کی ترویج و اشاعت میں بھی تقابلی نقطۂ نظر نے ہمیشہ سے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

ادب میں تقابلی مطالعے پرمبنی ابتدائی نقوش پہلی صدی قبل مسیح کے مشہور رومی شاعر ہوریس (Horace) کی تصانیف میں ملتے ہیں۔ وہ اپنی تصانیف میں لاطینی زبان کے نو آموز شاعروں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ انھیں شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لیے قدیم یونانی شہ پاروں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح کی تلقین پہلی صدی عیسوی کے رومی معلم کوئین ٹلین (Quintilian) نے بھی اپنی کتاب خطابت کی تعلیم (Institutio Oratoria) میں کی ہے۔ یہ کتاب بارہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ ویسے تو یہ کتاب کوئین ٹلین نے لاطینی زبان میں بہترین خطیب پیدا کرنے کے لیے لکھی تھی، لیکن اس کتاب کی دسویں جلد تقابلی مطالعے کے تعلق سے بہت اہم ہے۔ اس جلد میں کوئین ٹلین یونانی اور لاطینی زبان کے مشہور ادیبوں کا موازنہ کرتے ہوئے اہل روم کو یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ یونانی ادیبوں کے فکروفن اوران کی تخلیقات سے غفلت نہ برتیں بلکہ اس سے مستفیض ہوتے رہیں۔ اسی طرح ہمارے اردو ادب کے معروف نقاد کلیم الدین احمد بھی ابتدا ہی سے اردو ادب کا انگریزی ادب سے تقابل کرتے رہے ہیں۔ غرضیکہ تقابلی مطالعے پرمبنی اس طرح کی بے شمار مثالیں دنیا کی تمام زبانوں کے ادب میں موجود ہیں۔یہاں چند مثالوں کو پیش کرنے کا اصل مقصد ادب میں تقابلی مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

تقابلی مطالعہ انگریزی زبان کے Comparative Studyکا اردو ترجمہ ہے۔ لفظ تقابل کے لغوی معانی موازنہ، مقابلہ، آمنے سامنے کھڑے ہونے کے ہیں، جب کہ لفظ مطالعہ کے معانی کسی چیز کو واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے دیکھنا، کسی چیز سے آگاہ ہونا، کسی چیز پر غور کرنے کے ہیں۔ اس طرح تقابلی مطالعے کا مشترکہ لغوی معنی کسی دو شے کوآمنے سامنے رکھ کرواقفیت حاصل کرنا یا دیکھناہے۔ اصطلاحی اعتبار سے تقابلی مطالعہ ایک طریقۂ کار ہے جس کا استعمال مختلف علوم مثلاً فنون لطیفہ، فلسفہ، تاریخ، مذہب، لسانیات، نفسیات، سیاسیات، سماجیات وغیرہ میںدو پہلوؤں کے غائر مطالعے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ادب میں تقابلی مطالعے کو تقابلی ادب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

تقابلی مطالعہ مختلف زبان و ادب اور ان کے قلم کاروں کو جاننے اور ان کے تعین قدر و مقام کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ عام مطالعے میں جہاں ایک ہی زبان و ادب سے سابقہ پڑتا ہے۔ وہیں تقابلی مطالعے میں ایک یا ایک سے زائد زبان و ادب سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔تقابلی مطالعے کا دائرہ بہت وسیع ہے۔اس کے ذریعے مختلف ممالک کی ادبیات کا ایک ساتھ مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ تقابلی ادب کی تعریف ماہرین نے اپنے اپنے طور پر بیان کی ہے۔رینے ویلک(Rene Wellek) کے مطابق

’’تقابلی ادب،ادب کی تمام صورتوں کا مطالعہ بین الاقوامی تناظر میں پیش کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ حقیقت واضح کردیتاہے کہ ادبی تخلیق اور اس سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت قومی،سیاسی، جغرافیائی حدود سے آزاد ہے۔‘‘1

ہنری ایچ۔ایچ ریماک(Henry Hemann Herman Remak)  کے مطابق

’’تقابلی ادب دو ملکوں کے درمیان تخلیق کیے گئے ادبیات کا تقابلی مطالعہ ہے، یہ مطالعہ آرٹ، تاریخ، مذہب، سماجیات،سیاسیات اور معاشیات وغیرہ علم کے مختلف شعبوں کے آپسی تعلقات کا بھی مطالعہ ہے۔‘‘2

پروفیسر محمد حسن تقابلی ادب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’...تقابلی ادب سے وہ ادب مراد ہے جو مختلف ادبی اور فکری اور تہذیبی اثرات کو قبول کرتا ہو اور جس کے ذریعے مختلف ادبیات کے درمیان لین دین،تطابق اور تخالف، تحریکات و تمثال، افکار و اقدار کے تبادلے کا سلسلہ قائم ہو۔‘‘3

درج بالا تعریفوں سے تقابلی ادب کی نوعیت و ماہیت اور حدود اربعہ کا پتہ چلتا ہے۔ایک طرف اس کا رشتہ مختلف زبانوں، ان کے ادیبوں اور ان کے ادبی شہ پاروں کے باہم تقابل سے ہے تو دوسری طرف اس کا سلسلہ دو مختلف ادبیات کی روایات،ان کے مآخذ اور ان کے تہذیبی سیاق و سباق سے جا ملتا ہے۔ تیسری طرف یہ ایک ملک میں دوسرے ملک کے تصور اور ایک ادبیات میں دوسری ادبیات کے اثرات سے بھی بحث کرتا ہے۔ اس طرح تقابلی ادب مختلف ادوار، تحریکات و رجحانات کا مطالعہ کرتے ہوئے عالمی ادب تک جا پہنچتا ہے۔

انگریزی ادب میں تقابلی مطالعے کے آغاز کا سہرا مشہور ناقد فرانسس میرس(Francis Meres)کو جاتا ہے۔ انھوںنے 1598 میں Palladis Tamia: Wits Treasury نام کی ایک تنقیدی کتاب تحریر کی، جس میں ایک بابA Comparative Discourse Of Our English Poets, With The Greeke, Latine, And Italian Poetsکے نام سے لکھا۔ اس باب میں فرانسس میرس نے یورپ کی ان چار زبانوں کے مشہور شاعروںکا تقابلی نقطۂ نظر سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ فرانسس میرس کی اس تصنیف کے بعدولیم شیکسپیئر (William Shakespeare) نے1609 میں اپنی مشہور نظم Shall I Compare Thee To A Summer's Day میں اپنے محبوب کا مقابلہ موسم بہار کے مختلف ایام سے کیا ہے۔ان دونوں ادیبوںکی تقابلی مطالعے پرمبنی یہ کوششیںآگے چل کرانگریزی ادب میں تقابلی مطالعے کے باقاعدہ آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔

مغربی ادب میں تقابلی مطالعہ اس وقت تیزی سے فروغ پانا شروع ہوا،جب انیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں جرمن زبان کا مشہور ادیب گوئٹے (Johann Wolfgang Von Goethe)  نے یورپ کی مختلف زبانوں میں لکھی گئی ادبیات کے لیے عالمی ادب (World Literature) کی اصطلاح کو پیش کیا۔اس کا ماننا تھا کہ یورپ کی تمام زبانوں میںلکھا گیا ادب ایک اکائی ہے جس کو عالمی ادب کے نام سے موسوم کیا جانا چاہیے۔ رفتہ رفتہ گوئٹے کے اس نظریے نے دنیا کی مختلف زبانوں میں تخلیق کیے گئے ادبی شاہکاروں تک رسائی حاصل کر لی اور ان کو ترجمے کے ذریعے اپنے اندر سمیٹ لیا۔ پروفیسر محمد حسن عالمی ادب کی اصطلاح کے متعلق لکھتے ہیں

’’یورپ میں صنعتی انقلاب نے دنیا کی طنابیں کھینچ دیں اور سائنس پر نیا اعتماد پیدا کیا، یورپی دنیا کے ممالک ایک برادری میں منسلک ہوگئے۔ مختلف زبانوں کی ادبیات سے واقفیت عام ہونے لگی اور عالمی تصور ابھرنے لگا۔اسی بیداری کا ایک نتیجہ عالمی ادب کا تصور بھی تھا جو مبہم ہونے کے باوجود زیادہ جامع اور وسیع اصطلاح کے طور پر سامنے آیا۔ مشہور جرمن شاعر گوئٹے نے پہلی بار عالمی ادب کی اصطلاح کو برتا جس سے مراد وہ ادب تھا جو عالمی معیاروں پر پورا اترتا ہو اور جو عالم گیر آگہی اور تہذیبی وحدت کا اظہار کرتا ہو۔‘‘4

عالمی ادب کی اصطلاح نے دنیا کی تمام ادبیات کو قریب تر کردیا۔ ترجمے کے ذریعے مختلف زبانوں کی ادبیات سے واقفیت عام ہونے لگی،جس سے تقابلی مطالعے کے لیے نئی راہیں ہموار ہوئیں۔

 انیسویں صدی کے وسط تک انگریزی ادب میں تقابلی مطالعے کو Comparative Study کے نام ہی سے جانا جاتا تھا۔ 1848 میں انگریزی کے مشہور ادیب میتھیو آرنلڈ (Matthew Arnold) نے اپنے ایک خط میں تقابلی مطالعے پرمبنی تمام کتابوں کے لیے تقابلی ادب (Comparative Literature) کا استعمال کیا۔ تقابلی مطالعے کے ماہرین کو میتھیو آرنلڈ کا دیا ہوا یہ نیا نام بہت پسند آیا۔ آرنلڈ کے دیے گئے اس نام کو بطور اصطلاح سب سے پہلے ایچ۔ایم پاسنٹ (H.M.Posnett) نے اپنی کتاب Comparative Literature (1886) لکھ کر مستحکم کیا۔ پاسنٹ کی اس تصنیف کے بعددنیائے ادب میں تقابلی مطالعے کو تقابلی ادب کے نام سے شہرت ملی۔

عالمی ادب کی اصطلاح کے بعد مغربی ادب میں تقابلی مطالعے کا باقاعدہ سلسلہ چل پڑا۔  تقابلی ادب کے اصول اور طریقۂ کار پر مختلف مقالے شائع ہونے لگے۔ 1910 میںامریکہ کی سنسناٹی یونیورسٹی میں تقابلی ادب کاالگ شعبہ قائم کیا گیا اور اس کا صدر پروفیسر ایف۔ ڈبلیو شاندلر (F.W.Chandler) کو مقرر کیا گیا۔ اس موقع پرانھوںنے ایک جامع اور بصیرت افروزمقالہ پیش کیا جو آگے چل کرادب میں تقابلی مطالعہ کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔ شاندلر اپنے اس مقالے کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں’’ ادب میں تقابلی عمل اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان کی قوت متخیلہ ہے۔‘‘ انھوں نے اپنے اس خیال کی تائید میں یونانی ولاطینی ادب سے تقابلی مطالعے کے ابتدائی نمونوں کو پیش کیا ہے۔

 تقابلی ادب کا فروغ یورپ میں خاص طور پر فرانس وجرمنی میں اور یورپ کے باہر امریکہ میں ہوا۔وہاں کی یونیورسٹیوں میں اس مضمون کے الگ شعبے قائم کیے گئے اور باقاعدہ درس و تدریس اور تحقیق کے فرائض انجام دیے جانے لگے۔ 1954 میںانگلینڈ کے شہر آکسفورڈ میں ایک بین الاقوامی تنظیم International Comparative Literature Association کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ تنظیم تقابلی ادب کے اہتمام و فروغ کے لیے آج بھی مسلسل کوشاں ہے اور یہ ہر تین سال میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرتی ہے۔جس میں دنیا بھر کی تمام نئی تقابلی مطالعے پرمبنی کتابوں کا جائزہ لیا جاتاہے۔جو کتاب بہترین ہوتی ہے اس کے قلم کار کو پروفیسر انا بالا کیان(Anna Balakian)کی یاد میں انا بالاکیان پرائز سے سرفراز کیا جاتا ہے۔

تقابلی ادب کی تاریخ میں فرانس و جرمنی اور امریکہ دو دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔دونوں دبستانوں کے نظریات الگ الگ ہیں۔ ایک طرف جہاں فرانسیسی اسکول تقابلی مطالعے میں ادبیات کی ظاہری خصوصیات مثلاً ایک ادب پردوسرے ادب کے اثرات، لین دین، مماثلت و تضاد جیسے موضوعات پر زور دیتا ہے تو وہیں دوسری طرف امریکی اسکول مختلف ادبیات کے اندرونی ڈھانچے مثلاً تکنیک، ہیئت و اسلوب، زبان و بیان وغیرہ کو تقابلی مطالعے کا موضوع بناتاہے۔پروفیسر محمد حسن ان دونوں دبستانوں کے متعلق لکھتے ہیں

’’فرانس اور جرمنی میں تقابلی ادب نے وسیع تر سماجی سیاق و سباق کو اہمیت دی۔ فرینک فرٹ اسکول نے بطور خاص ان عمرانی عناصر پر زور دیا جو مختلف ادبیات میں مماثلتیں اور اختلافات پیدا کرتے ہیں،جب کہ امریکہ کے تقابلی ادب نے مختلف ادبیات کے اندرونی ڈھانچے اور اس کی جمالیاتی اور اسلوبیاتی خصوصیات کے تقابل کو پیش نظر رکھا۔ یہ دونوں نقطۂ نظر ان دبستانوں کے علمبرداروں کے بیانات سے ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘5

پا ل وین ٹگھیم(Paul Van Tieghem)، جین ماری کارِ(Jean Marie Carre) اور ماریوس فرانکوئس گوئیارد (Marius Francois Guyard) وغیرہ کا شمار فرانسیسی اسکول کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔جنھوں نے فرانسیسی دبستان کے لیے ادب میں ربط کی نوعیت، کسی ادب کی مقبولیت، کامیابی، اثرات، اس کے ماخذ اور ایک ملک کے ادب کی دوسرے ممالک میں امیج جیسے موضوعات کو تقابلی ادب کا موضوع بنایا۔وہیں امریکی اسکول کے علمبرداروں میں رینے ویلک (Rene Wellek)، ہنری لیوین (Henry Levin)، ڈیوڈ میلون (David Mellon) وغیرہ کا نام لیا جاتا ہے۔ جنھوںنے تقابلی ادب میں ادب کی فنی خصوصیات مثلاً تکنیک،اسالیب،اصناف، تحریکات، ادبی روایات، تصورات اور جمالیات وغیرہ موضوعات کو اہمیت دی۔ اس طرح ان دونوں دبستانوں کی بدولت تقابلی ادب کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا گیا۔

تقابلی مطالعے کی تعریف اور آغاز و ارتقا پر نظر ڈالنے کے بعد یہ ضروری ہوجاتاہے کہ اس کے طریقۂ کار پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ ظاہر ہے ہر تنقیدی دبستان کے اپنے اصول اور طریقۂ کار ہوتے ہیں، جن کے مطابق ادبیات کو جانچا پرکھا جاتا ہے، لیکن تقابلی ادب کے اصول اور ضابطے کیا ہیں؟۔ اس سلسلے میںماہرین تقابلی ادب نے الگ الگ خیالات پیش کیے ہیں۔ بعض ماہرین کے نزدیک تقابلی ادب کا اپنا کوئی ایجاد کردہ طریقۂ کار نہیں ہے۔رینے ویلک کہتا ہے کہ’’ حتمی طور پر نہ تو تقابلی ادب کے دائرہ کار کی نشان دہی کی جا سکی ہے اور نہ ہی اس کا الگ سے کوئی طریقۂ کار ایجاد کیا جا سکا ہے۔ دراصل تقابلی ادب، ادب ہی کا ایک اہم حصہ ہے جس کا اصل مقصد بہترین ادبیات کی تلاش ہے‘‘۔ فرانکوئس جوسٹ (Francois Jost) کہتا ہے کہ’’ دنیا کے تمام کتب خانوں میں تقابلی ادب کے طریقۂ کار پر کوئی کتاب یا مضمون موجود نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ تقابلی ادب کا طریقۂ کار عام مطالعے سے الگ ہے‘‘۔ الفریڈ اوین آلڈریج (Alfred Owen Aldridge) لکھتا ہے

’’طریقۂ کار کے لحاظ سے ایک عام مطالعے اور تقابلی مطالعے میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تقابلی مطالعے کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں دو یا دو سے زائد ادبیات کا ایک ساتھ مطالعہ کیا جاتا ہے۔‘‘6

الفریڈ اوین آلڈریج کی اس بات سے تقابلی مطالعے کے بیشتر ماہرین متفق ہیں۔ان کے قریب تقابلی مطالعے میں اصل طریقۂ کار تقابل ہی ہے اور وہ اپنے اس خیال کی تائید میںٹی۔ ایس ایلیٹ (Thomas Stearns Eliot) کایہ قول پیش کرتے ہیں کہ ’’ موازنہ اور تجزیہ ہی ایک نقاد کے اہم آلات ہیں‘‘۔ راقم الحروف کے نزدیک بھی تقابلی مطالعے میں تقابل کرنا ہی اصل طریقۂ کار ہے۔ اس کے علاوہ تقابلی مطالعے میں کسی اور طریقۂ کار کی گنجائش نہیں ہے۔

تقابلی مطالعے کے طریقۂ کار پر روشنی ڈالنے کے بعدسوال یہ پیدا ہوتاہے کہ تقابلی مطالعے کے لیے موضوع کا انتخاب کن جہتوں اور سطحوں پر کیا جائے۔ اس سوال کا جواب بھی ماہرین تقابلی ادب نے دبستان فرانس و جرمنی اور دبستان امریکہ کے نظریات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد دیا ہے۔جان فلیچر (John Fletcher) جس کا شمار تقابلی ادب کے ماہرین میں ہوتا ہے۔وہ اپنے مقالے The Criticism Of Comparison میں تقابلی مطالعے کے لیے موضوع کے انتخاب کے سلسلے میں پانچ اصول قائم کرتا ہے جو درج ذیل ہیں:

  1. مختلف ادبیات میںمماثلت اور اختلاف کی سطح پر تقابلی مطالعہ
  2. ایک ہی عہد کے مختلف تخلیق کاروں پر ایک دوسرے کے اثرات کا تقابلی مطالعہ
  3.  ایک ہی تخلیق کے مختلف تراجم کا تقابلی مطالعہ
  4.  ادب پر دوسرے علوم کے اثرات کا تقابلی مطالعہ
  5. تحریکات و رجحانات کاتقابلی مطالعہ،7

جان فلیچر کے مطابق درج بالا اصولوں کے پیش نظر ہی جس موضوع کا انتخاب ہوگا اسی کا بہتر ڈھنگ سے تقابلی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ جان فلیچر کے قائم کردہ اصولوں کے طرز پر ہندی کے مشہور اسکالرڈاکٹر اندر ناتھ چودھری نے بھی اپنی کتاب تلناتمک ساہتیہ بھارتیہ پری پیکش میں تقابلی مطالعے کے سات اصول بیان کیے ہیںجو مندرجہ ذیل ہیں

  1. موضوعات کی سطح پر تقابلی مطالعہ
  2.  تکنیک کی سطح پر تقابلی مطالعہ
  3. تحریکات و رجحانات کی سطح پر تقابلی مطالعہ
  4. زبان کی سطح پر تقابلی مطالعہ
  5. ایک ہی تخلیق کے مختلف تراجم کا تقابلی مطالعہ
  6. ایک ملک کی ادبیات کا تقابلی مطالعہ
  7. مخصوص قلم کاروں کا تقابلی مطالعہ،8

اسی طرح اردو کے قلم کار ڈاکٹر نہال افروز نے بھی اپنے ایک مضمون ـــتقابلی مطالعہ معنی،مفہوم اور سطوح میں تقابلی مطالعے کے سات اصول بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں

’’....کسی بھی فن پارے میںسیاسی، سماجی، مذہبی، نفسیاتی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشی عناصر ضرور پائے جاتے ہیںاور فن پارے کو تخلیق کرنے کے لیے زبان و بیان، ہئیت و اسلوب، زماں و مکاں وغیرہ کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی فن پارے کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لیے انہی مختلف سطوح پر مطالعہ کرنا ہوگا

  1. سوانحی سطح
  2. سماجی و سیاسی سطح
  3. تہذیبی و ثقافتی سطح
  4. جنسی و نفسیاتی سطح
  5. تکنیک کی سطح
  6. زبان و بیان کی سطح
  7. تحریکات و رجحانات کی سطح‘‘9

درج بالا ماہرین کے قائم کردہ اصولوں سے تقابلی مطالعے کے موضوعات کے دائرہ کار کاکافی حد تک احاطہ ہوجاتا ہے۔ مکمل طور پر تقابلی مطالعے کے موضوعات کے دائرہ کار کا تعین ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ دراصل تقابلی مطالعہ وہ طریقۂ کار ہے جس کو کسی بھی دائرے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں اتنی وسعت ہے کہ یہ ہر تخلیق کو کسی نا کسی زاویے سے اپنی گرفت میں لے ہی لیتا ہے۔ ان ماہرین کے بیان کردہ اصولوں کے علاوہ زبان و ادب کے وسیع تر میدان میںاب بھی کئی ایسے گوشے پوشیدہ ہیں جن کو تقابلی مطالعے کے موضوعات کے دائرہ کار میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اسلوبیات کی سطح پر تقابلی مطالعہ، نفسیات کی سطح پر تقابلی مطالعہ،شخصیت اور فن کی سطح پر تقابلی مطالعہ، فن پارے میں پیش کردہ ماحولیات اور جغرافیائی نقوش کا تقابلی مطالعہ وغیرہ۔ان اصولوں کے تحت بھی دو یا دو سے زائد تخلیقات کا باہم تقابلی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

تقابلی مطالعے کے لیے موضوع کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور سے خیال رکھاجائے کہ جن دوزبان و ادب یا ایک ہی زبان کی دو تخلیقات کو تقابلی مطالعے کے لیے منتخب کیا جارہا ہے ان میں ایک یا ایک سے زائد خصوصیات مماثل ہوں، مثلاً زبان ایک ہو، صنف ایک ہو، موضوع ایک ہو، عہد ایک ہو، تکنیک ایک ہو، دونوں تخلیقات کسی تحریک یا رجحان کے زیر اثر لکھی گئی ہوں وغیرہ۔ ان اصولوں کے پیش نظر ہی جس موضوع کا انتخاب ہوگا اسی کا بہتر طور پر تقابلی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

 

حواشی

  1. پروفیسر عبدالستار دلوی، ادبی و لسانی تحقیق اور تقابلی ادب (اصول و طریق کار)، انجمن اسلام اردو،ممبئی، 2016، ص115
  2. ہنری ایچ۔ ایچ ریماک،مضمون Comparative Literature, Its Definition and Function مشمولہ کتاب Comparative Literature: Method and Perspective،مرتب نیوٹن پی اسٹال نخت اور ہورسٹ فرینز،USA Southern Illinois University Press,Carbondale,،1961ص 3
  3. پروفیسر محمد حسن، مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی، 2016، ص 359
  4. ایضاً، ص 359
  5. ایضاً، ص 360
  6. اندر ناتھ چودھری، تلناتمک ساہتیہ بھارتیہ پری پیکش، وانی پرکاشن، دہلی، 2018،ص52
  7. ایضاً، ص 41،42
  8. ایضاً، ص 41
  9. ڈاکٹر نہال افروز،تقابلی مطالعہ: معنی، مفہوم اور سطوح، رسالہ نیا دور،لکھنؤ، جون 2019،ص20

Mohammad Saqib

Research Scholar, Dept. of Urdu

Manuu, Gachibowli,

Hyderabad- 500032 (Telangana )

Mob.: 9628527791

Email id. mohdsaqib7262@gmail.com

1 تبصرہ: