27/7/23

فرہنگ آصفیہ میں نامعلوم شعرا کے نام انتسابِ شعر اور قرأت شعر کی غلطیاں:خلیق الزماں نصرت

 

فرہنگِ آصفیہ کو مولوی سیدّ احمد دہلوی نے ترتیب دیا ہے۔فرہنگ آصفیہ جلد اوّل او رجلد دوّم کو پہلے مفید عام پر یس آگرہ نے 1891 میں شائع کیا تھا۔ جلد سوم اور چہارم ترقی اُردو بورڈ نے1974 میں شائع کیا تھا۔قومی اُردو کونسل دہلی نے بڑے اہتمام کے ساتھ تین جلدوں میں شائع کر کے ایک بڑا کام کیا ہے۔ یہی اشاعت میرے پیشِ نظر ہے۔

لغت روز کے پڑھنے کی چیز نہیں ہے۔ کسی لفظ کی معلومات نہ ہونے یا اس کے معنی الگ الگ ہونے کی وجہ سے اسے بطور حوالہ کھول کر دیکھنا پڑتا ہے۔  1300  اشعار بر محل اشعار او ران کے مآخذ (پہلی جلد) 2011 میں شائع ہوئی۔ اس کے چار ایڈیشن شائع ہوئے۔ اسی چھان بین کے دوران فرہنگ آصفیہ ہمارے مطالعے میں آئی اس میں سے میں نے تقریباً100/125 اشعار کے حوالے قبول کیے ہیں بقیہ کئی اشعار کی تو ثیق کی ہے۔

لغت میں لاکھوں الفاظ کے معنی ہوتے ہیںچند ہی لغات ایسی ہیں جن میں الفاظ کے معنی سمجھانے کے لیے شعروں کے حوالے دیے گئے ہیں۔ ایک ایک لفظ کے لیے کئی کئی اشعار ہیں جن سے ہم شعروں کا لطف بھی اٹھا سکتے ہیں۔ سید احمد دہلوی نے اپنی لغت سے معنی کو سمجھانے کا بڑا کا م کیا ہے۔ یہ ان کی خاص خوبیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر تراق پڑاق (استعمال تڑاق تڑاق ) لکھا ہے۔کسی چیز کے ٹوٹنے یا سینگی توڑنے کی آواز چٹاخ کو تراق کہتے ہیں۔

تڑاق پڑاق-1- تابع فل (1)  جلد جلد پے در پے۔ متواتر۔ برابر

(2)   چٹا چٹ۔ چٹ چٹ۔ چٹاخ چٹاخ۔ ٹوٹنے کی آواز        ؎

ذرا بھی سینۂ حسد چاک میں جو تڑپا دل تو

ٹوٹ جائیں گے تارِ رفو تڑاق پڑاق

نہ کیجیے ہم سے بہت گفتگو تڑاق پڑاق

  وگرنہ  ہو ویگی پھر  دو بدو  تڑاق  پڑاق  

(3)   تڑا تڑ ‘ پڑا پڑ ‘ سڑا سڑ

سزا دل کی اگر اس کو باندھ کر زلفیں

لگائیں کوڑے ترے روبرو تڑا ق پڑاق ظفر

اسی طرح 3 اور شعر کے حوالے دیے گئے ہیں۔

امیر اللغات میں بھی اشعار کے حوالے ہیں مگر الگ ہیں۔ معنی ملتے جلتے ہیں۔ سیّد صاحب کی لغت سے امیر مینائی نے استفادہ کیا ہے۔ مگر دونوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔امیر اللغات کی ترتیب میں کئی شاعروں کا کام ہے، اسے کئی مرحلے میں طے کیا گیا ہے مگر فرہنگ آصفیہ فرد ِ واحد کا کام ہے۔ اب بر محل اشعار کے تعلق سے چند اشعار مثال کے طور پر 269 پرآگے کے معنی اس طرح دیے گئے ہیں۔ آگے آگے۔ہ۔ تابع فعل۔ آگے کو۔ زمانہ مستقبل میں تھوڑے دنوں بعد چند روز میں             ؎

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا  

آگے  آگے دیکھیے ہوتا  ہے کیا

نا معلوم

مذکورہ شعر میں شاعر کا نام نہیں ہے او رروایت کے مطابق ’نا معلوم‘ لکھا ہے۔

اب دوسرا شعر اس کے معنی کے لیے لکھا گیا ہے        ؎

تم تو نظیر مکرے اور کل ہی ہم نے دیکھا

تھے تم تو پیچھے پیچھے وہ شوخ آگے آگے

نظیر 

ابتدائے عشق...  بر محل شعر ہے۔ یہ میر کا مشہور شعر ہے۔ مگر فرہنگ آصفہ کے مولف نے نامعلوم لکھا  ہے۔ کلیات ِمیر ص 133 پر اس طرح درج ہے        ؎

راہِ دورِ عشق میں‘ روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

راہِ دورِ عشق میں کسی جگہ ’ابتدائے عشق ہے ‘ استعمال ہوتا ہے۔ اب یہ تحقیق طلب ہے کہ آیا میر  نے اس مصرعے کو بدلا یا کسی استاد ِ زماں نے تصرف کیاتھا۔ میری تحقیق میں پتہ چلا کہ بہت سے مصرعے بدلے گئے ہیں۔

فرہنگ آصفیہ کے اشعار میں نے بر محل اشعار ڈھونڈنے کے لیے ہزاروں شعر پڑھ ڈالے تھے۔ اس لغت میں تقریباً 100 سے زیادہ بر محل اشعار ہیں  او راکثر جگہوں پر جہاں شاعر کا نام ہوتا ہے نا معلوم لکھا ہے۔ممکن ہے قارئین کو ان کے شعرا  کا نام معلوم نہ ہو۔

اس لیے میں نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا۔ چند اشعار میری غیر مطبوعہ کتاب میں ہیں اور کئی تو مشہور اشعار گمنام شاعر کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔

فرہنگِ آصفیہ کے اشعار میں چند اشعار کے انتساب میں غلطی ملی ہے۔ کہیں پر شاعر کا نام نہیں دے کر خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد ِ خاص یہ ہے کہ آئندہ ایڈیشن کے حاشیے میں ان تمام خامیوں کی تصحیح ہوجائے۔

اب آئیے صحیح عنوان پر آتے ہیں،  جلد نمبر1 ص 187

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

                                                          نا معلوم

اس شعر میں نا معلوم لکھا ہے، یہ عام طور سے اسی طرح مشہور ہے۔ یہ دونوں مصرعے اس طرح ہیں

گئے دونوں جہاں کے کام سے ہم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم  نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

اوپر کا پورا مصرعہ او رثانی مصرع کا آدھا ٹکڑا مشہور ہے مگر یہ شعر مرزا صادق شرر کا ہے او رگلستان ِ خزاں، ص 121 پر ہے۔ کچھ او رتذکروں میں ایسا ہی ہے۔

(ص 24 اور II 254 )

تم تو بیٹھے ہی بیٹھے آفت ہو

اٹھ کھڑے ہو تو کیا قیامت ہو

میر

یہ شعر میر  کا نہیں ہے حاتم  کا ہے۔ مختلف تذکروں میں اس کی قرأت الگ الگ ہے۔ گلشن بے خار جو ص 55 پر ہوئے پہ آفت ہو، عیار الشعراص 152 پر اسی طرح ہے مگر انتخاب سخن(1)۔ مولانا حسرت موہانی میںایسا ہے اور یہی درست ہے

تم کہ بیٹھے ہوئے اک آفت ہو

اٹھ کھڑے ہو تو کیا قیامت ہو

(ص 3-261)

سینہ تمام جلنے لگا دل کے داغ سے

لو گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یہی مشہور ہو گیا۔ شعرائے ہنودمیں ص 39 پر شعر اس طرح ہے اور یہی درست ہے۔

شعلہ بھڑک اٹھا میرے اس دل کے داغ سے

آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

                 نامعلوم

اس شعر کے شاعر کا نام نہیں لکھا ہے۔ یہ شعر پنڈت مہتاب رائے تاباں نے بارہ برس کی عمر میں میر درد کے مشاعرے میں پڑھا تھا۔محمد حسین آزاد  نے بھی اس برہمن زادے کا نام نہیں لکھا تھا۔

ص 4-269)

میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آئو ں

گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا

یہ میر کا نہیں غالب کا ہے او ردیوان ِ غالب ص 20 پر ہے۔

(ص 6-334)

تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو

رونا ہے یہ کچھ ہنسی نہیں ہے

                                        میر   ×

یہ شعر بدھ سنگھ قلندر کا ہے او ر اس طرح ہے        ؎

تھمتے ہی تھمے گا اشک ناصح

رونا ہے یہ کچھ ہنسی نہیں ہے

                                        میر   ×

میر  پر بڑا ظلم ہوا ہے۔ کئی دوسرے اشعا ر کو میر کا نام دے کر کتابوں او ررسالوں میں شائع کر دیا گیا ہے۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ شعر میر کا ہی ہے۔ اس طرح کی غلطیاں مستند کتابوں میںبھی ہیں۔میر  کے بعد سب سے زیادہ اشعا ر علامہ اقبال کے کھاتے میں ڈال دیے گئے ہیں۔ میں نے اپنی تحقیقی کتاب ’بر محل اشعار او راُن کے مآخذ ‘ میں اصل شاعر کی کھوج کی ہے۔

(ص7-442)

کیا ملا عرضِ مدعا کر کے

بات بھی کوئی التجا کر کے

                                                     لااعلم

یہ شعر سید محمد خان رند کا ہے جو خلیق  او رآتش  کے شاگرد تھے۔ اس کے دیوان ’گلدستہ ٔ عشق‘ کے ص 135 پر شعر اسی طرح ہے۔

(ص 8-907-513)

کیا بھروسہ ہے زندگانی کا

آدمی بلبلہ ہے پانی کا

                                                        لااعلم

یہ شعر مولانا ضیا ء الدین رضا  کا ہے جو مولوی شاہ امام بخش تھا نیسر ی سے بیعت تھے۔اس مفہوم کو بہت سے شعرا نے ان کے بعد شعر میں باندھا ہے۔ امیر مینائی          ؎

زیست کا اعتبار کیا ہے امیر

آدمی بلبلہ ہے پانی کا

 غیرت بہارستان، ص143

امیر  نے تضمین کی ہوگی مگر اشارہ نہیں کیا۔ عیار الشعرا میںشعر اس طرح درج ہے        ؎

آدمی بلبلہ ہے پانی کا

کیا بھروسہ ہے زندگانی کا

یہاں اولیٰ مصرع کو ثانی کر دیا گیا ہے۔ اس شعر کی غزل کے دوسرے اشعار بھی ہیں۔

(ص 9-693)

خط پڑھ کے اور بھی وہ ہوا پیچ و تاب میں

کیا جانے لکھ دیا اسے کیا اضطراب میں

(60-70)

نام یوں پستی میں بالا تر ہمارا ہوگیا

جس طرح پانی کو ئیں کی تہہ میں تارا ہو گیا

ان دونوں اشعار میں شاعر کا نام نہیں ہے  او ریہ ذوق اور مومن کے اشعار ہیںاو رباالترتیب دیوانِ مومن کے ص 129او ر6 پر ہیں۔(ص11-727)

ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو

کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو

نامعلوم

یہ شعر خواجہ وزیر لکھنوی کا ہے۔ حسرت موہانی کے انتخاب ِ سخن ص 222 پر ہی نہیں کئی انتخاب میں مولانا حسرت موہانی ایسا لکھا ہے۔

(ص 614، 626 اور 13-801)

کوئی عاشق نظر نہیں آتا

ٹوپی والوں نے قتل ِ عام کیا

                                مومن ×

یہ شعر میر کا نہیں شرف الدین علی خاں پیام  کا ہے۔ بحوالہ مجموعہ نغز ص131۔ یہ ایک قطعہ کا شعر ہے          ؎

دلّی کے کج کلاہ لڑکوں نے

کام عشاق کا تمام کیا

کوئی عاشق نظر نہیں آتا

ٹوپی والوں نے قتل عام کیا

                                       میر تقی میر

(ص 14-823)

تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس

یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا

قیس×

یہ قیس کا ،نہیںشناور کا ہے جو آتش کا شاگرد تھا۔

دبستانِ آتش ص 151 پر            ؎         

 کب ہے عریانی سے بڑھ کر کوئی دنیا میں لباس

شہکار غزلوں میں ثانی مصرعے میں سیدھا الٹا ہے، میرے خیال سے الٹا سیدھا درست ہے تذکرہ خوش معرکہ زیبا IIص 26 پر بھی ’کب ہے‘ہے۔ مختلف تذکروں میں اس شعر کی قرأت الگ الگ ہے۔

(15-894)

چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کر نا رفو

تا قیامت سوزنِ تدبیر گوسیتی رہے

یہ جعفر علی خاں کا شعر ہے مگر اولیٰ مصرعے میں ہونا او رثانی میں گر ہے۔

(16-976)

پھول تو دو دن بہارِ جانفزا دکھلاگئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے

یہ شعر ذوق  کا ہے اور دیوان ِ ذوق ‘ مرتبہ تنویر احمد میں ص 261  پر اولیٰ مصرعہ اس طرح ہے        ؎

کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے

مؤ لف نے کس کتاب کو مآخذ بنایا ہے پتہ نہیں اور یہی مشہور بھی ہو گیا۔ کلیم الدین احمد (معاصر6) نے بھی پھول تو..... لکھا ہے۔(16 II 78/999)

خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال

کہ آگ لینے کو جائے پیمبری ہو جائے

 یہ شعر امین الدولہ مہر کا ہے۔ اس کا کوئی مستند مآخذ نہیں ملا ہے       ؎

بائو بھی کھائی نہ تھی دل نے کہ مرجھا نے لگا

آہ یہ غنچہ تو کچھ کھلتے ہی کمھلانے لگا

یہ میر ضیاء الدین ضیا کا شعر ہے۔ تذکرہ گلشن بے خار ص 127۔

(17-1013)

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمرِ جا وداں کے لیے

                                                 عارف ×

یہ شعر غالب کا ہے او ردیوانِ غالب میں ص 563پر ہے۔

(18-19)  جلد نمبر II

درد ِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں

ذوق×

یہ مرزادرد  کا شعر ہے او ران کے دیوان میں ص 119 پر اسی طرح ہے۔

(19-180)

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں

کیادیڑھ چُلّو پانی سے ایمان بہہ گیا

غالب×

یہ شعر غالب کا نہیں ذوق کے دیوان ص27 پر اسی طرح ہے۔

(20-193)

یارب زمانہ ہم کو مٹاتا ہے کس لیے

لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہیںہم

اس شعر کے ساتھ شاعر کا نام نہیں ہے۔ یہ مشہور شعر غالب  کے دیوان میں ص 291 پر ہے اور اولیٰ میں مجھ ہے او رثانی میں ہوں میں ہے۔

(21-199)

زندگی زندہ دلی کا نام ہے

مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں

ذوق×

یہ ذوق کا نہیں ناسخ  کا شعر ہے او راسی طرح مشہور بھی ہے۔ بیشتر حضرات نے ایسا ہی لکھا ہے مگر اولیٰ مصرعہ بحر سے خارج ہو جاتاپھر بھی یہی مشہور ہے۔ ناسخ کے دیوان میں ص105 پر ’ہے نام ‘  ہے۔

(22-216)

مئے بھی ہے ‘مینا بھی ہے ‘ ساغر بھی ہے ‘ ساقی نہیں

جی میں آتا ہے لگادیں آگ میخانے کو ہم

             گویا

یہ شعر نظیر کی غزل کا ہے۔ کلیات نظیر میں ص106 پر ہے۔ مگر ثانی مصرعہ میں دل ہے۔

(23-244)

آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد

                                                                  لا اعلم

یہ شعر میر  کے نام سے مشہور ہے۔ مگر مصحفی کے ایک شاگرد منور حسین غافل کا شعر ہے۔ اس کا دیوان شائع ہوا ہے۔ میری کتاب میں بھی یہ شعر چمن بے خزاں (ص27) کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔

(24-420)

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

                                             لا اعلم

یہ شعر آتش  کے کلیات میں ص20پر ہے۔

(25-423)

شہہ زور اپنے زور میں گرتا ہے سر کے بل

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

                                                                 لا اعلم

اس شعر کے اولیٰ مصرعہ کو اس طرح بدل کے پڑھا جاتا ہے       ؎

گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں

                                         لاا علم

یہ مرزا عظیم بیگ عظیم کے ایک مخمس کے دو اشعار ہیں او رمجموعۂ نغز ص13 پر (شہہ زور...) ہے او ردوسرے مصرعے میں ’کرے ‘ ہے۔(26-426)

(27-522)

لیے پھرتی ہے بلبل چونچ میں گل

شہیدِ ناز کی تربت کہاں ہے

                                         لا اعلم

اس شعر میں لا علم لکھا تھا مگر میں نے نواب تخلص کے ایک شاعر کا نام پڑھا ہے جو درد  کا ہمعصر تھا۔ممکن ہے آئندہ کی تحقیقی کتاب میں اس کی معلومات آجائے۔

(28-658)

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یونہی تمام ہوتی ہے

                                                        لا اعلم

یہ شعر احمد حسین امیر اللہ تسلیم کا ہے او رجدید شاعری ص 791پر ہے او ران کے دیوان میں بھی ہے۔

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

غالب

اس شعر کو اکثر لوگ غالب کا سمجھتے تھے۔ مگر ان کے شاگرد میاں داد سیاح او رانھیں کے دیوان میں ص189پر یہ شعر ہے۔

(29-671)

ایسی ضد کا کیا ٹھکانا اپنا مذہب چھوڑ کر

میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

یہ شعر کس کا ہے میں نے کیا کسی نے ابھی تک نہیں بتایا ہے۔ غالب کے نام سے مشہور ہو گیا۔

(30-728)

ہے فقیروں سے کج ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

عاشق

میر تقی میر کا شعر ہے مگر کلیات ِ میر ص 128پر ہے کی جگہ ہم اور کج ادائی کی جگہ بے ادائی ہے۔ فصاحت کا دھیان دیتے ہوئے یہ شعر اسی طرح پڑھا جائے گا۔

(31-735)

سر سبز اور خط سے ہوا حسن یار کا

آخر خزاں نے کچھ نہ اکھاڑا بہار کا

یہ جیون لال عشاق کھتری کا شعر ہے میر محمدی کا شاگرد تھا۔ مجموعہ نغز کے ص 396پر ایسا ہے        ؎

آنے سے خط کے دُونا ہوا حسنِ یار کا

آخر خزاں نے کچھ نہ اوپاڑا بہار کا

                                           لا اعلم

(32-769)

سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر

ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے

مومن×

یہ خواجہ فخرالدین سخن، غالب  کے شاگرد کا ہے۔ دیوان ِ سخن ص 107پر اسی طرح ہے۔

(33-782)

لائے اس بت کو التجا کر کے

کفر توڑا خدا خدا کر کے

                                            نا معلوم

یہ مومن  کا نہیں،  دیا شنکر نسیم  کا شعر ہے او ریہ مستند ہے۔ مگر نسیم  کے مجموعے میں او رجواہر سخن میں ہے اور ص226 پر ٹوٹا ہے او ریہ درست بھی ہے‘ کفر توڑا درست نہیں ہے۔ میں نے ہر جگہ کفر ٹوٹا پڑھا ہے۔

(34-797)

نہ خوف آہ بتوں کو نہ ڈر ہے نالوں کا

بڑا کلیجہ ہے ان دل دکھانے والوں کا

 میر×

یہ شعر ضامن علی جلال لکھنوی کا ہے او رحسر ت موہانی کے انتخاب سخن میں بھی ص70 پر ہے۔

(53-830)

مہیّاجس کنے اسباب ملکی اور مالی تھے

وہ اسکندر گیا یاں سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے

میر

یہ شعر میر کا نہیں ہے منشی محمد رضا معجز کا ہے۔ اس مفہوم پر تقریباً دسو ں شعر ہم نے پڑھے ہیں۔ جن میں تھوڑا تھوڑا تصرف کیا ہوا ہے۔ لیکن شعر ایسا ہے۔

مہیّاگو کہ سب سامان ملکی اور مالی تھے

سکند رجب چلا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے   

نامعلوم

(جلد III، (36-5

گو ہم سے تم ملے نہ تو تم ہم بھی مر گئے

کہنے کو بات رہ گئی اور دن گذر گئے

یہ قائم کاشعر ہے او راس کے دیوان میں ص220 پر اس طرح ہے         ؎

گو ہم سے تم ملے نہ تو کچھ ہم نہ مر گئے

کہنے کو رہ گیا یہ سخن دن گزر گئے

                                                           نامعلوم

(37-5)

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا

                                                         نامعلوم

یہ شعر آتش کا ہے او رکلیاتِ آتش کے ص49پر ہے۔

(38-6)

زلف کا کہنا پریشاں عقل کی دوری ہے یہ

ہر گرہ میں اس کے دل ہے گانٹھ کی پوری ہے یہ

نیاز×

39/63

گلستاں میں جا کے ہر اک گل کو دیکھا

نہ تیری سی رنگت نہ تیری سی بو ہے

                                              لاا علم

یہ شعر نیاز کا نہیں نصیر الدین حیدرپادشاہ کا ہے اور ہوبہوخمخانۂ جاوید (2) ص40 پر ہے تاریخ اردو187 پر بھی یہی شعر ہے۔ کہیں کہیں میں نے چمن بھی دیکھا ہے۔

(40-209)

کون کہتا ہے کہ ہم تم میں لڑائی ہوگی

کسی دشمن نے ہوا ئی یہ اڑائی ہوگی

                                       نامعلوم

مؤلف نے اس شعر کے خالق کے نام سے لا علمی کا اظہار کیا ہے مگر یہ شعر محمد امان نثار کا ہے اورگلشنِ بے خار میں اس طرح درج ہے۔

مجھ میں اور ان میں سبب کیا جو لڑائی ہو گی

یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہو گی

(41-331)

سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا

سرخ و سپید مٹّی کی مورت ہوئی تو کیا

نا معلوم

یہ شعر خواجہ احسن اللہ بیان  کا ہے صرف مٹی کی جگہ ماٹی ہے۔ کئی تذکروں میں یہ بیکل کے نام سے منسوب ہے مگر بیان کے شعری مجموعے میں بھی ہے۔

(42-362)

زلف کا کھولنا بہانا تھا

مدّعا ہم سے منہ چھپانہ تھا

                        نا معلوم

شعر نواب عما دالملک غازی الدین فیروز جنگ نظام کا ہے او ر نشترِ عشق ص130 پر ہے۔

(43-383)

ایک آفت سے تو مرمر کے ہوا تھا بچنا

پڑگئی اور یہ کیسی مرے اللہ نئی

رند

یہ میر سوز کا شعر ہے، بچنا کی جگہ جینا ہے۔

(44-519)

آئینہ ان کا ٹوٹ گیا میرے ہاتھ سے

اب کوئی منہ دکھانے کی صورت نہیں رہی

حیدری

یہ شعر رند کا نہیں ہے اس کے دیوان میں بھی نہیں ہے کئی تذکروں میں بھی نہیں ملا۔

(45/533)

برابری کا ترے گل نے جب خیال کیا

صبا نے ما ر طمانچہ منہ اس کا لال کیا

اصل میں یہ شعر میر تقی میر کا ہے او راس کے دیوان میں اس طرح ہے۔

جو گل نے دعوی رخ کا ترے خیال کیا

صبا نے مارے طمانچوں کے منہ کو لال کیا

نامعلوم

(47-693)

حیدری بعد کا شاعر ہے او رہے بھی یا نہیں یہ تونثر نگار تھا۔ میرے خیال سے اس نے سرقہ کیا ہے۔ ویسے بھی اس مضمون کے کئی دعویدار ٹھہرائے گئے ہیں۔سودا  کا بھی شعر اسی طرح ہے۔

(49-845)

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی

                                          نامعلوم

امیر اللہ تسلیم  کا یہ مشہور شعر ہے۔ چند تذکروں میں بھی ہے آوارہ گرد اشعار ص82 پر اسی طرح ہے۔

(48-441)

میکدہ میں گر سراسر فعلِ نا معقول ہے

مدرسہ دیکھا تو واں بھی فاعل و مفعول ہے 

                                                         نامعلوم

یہ شعر مضمون کا ہے او ر فرہنگ ِ آصفیہ جلد دوّم ص 563 پر گر کی جگہ گو ہے۔ تذکرہ شورش ص387 پر بھی درج ہے۔آبِ حیات ص 92 سراسر کی جگہ ’سراپا ‘ ہے۔

آعندلیب مل کے کریںآہ و زاریاں

توہائے گل پکار میں چلّائوں ہائے دل

یہ نواب سید محمد خاں رند  کے دیوان گلدستہ ٔعشق کے ص نمبر 179 پر اسی طرح ہے۔

(50-863)

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

یہ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ  کا مشہور شعر ہے جو دیوان ِ شیفتہ کے ص26پر شائع ہو ا ہے۔

کتابیات

  1. 1      بر محل اشعار او ر ان کے مآخذ(I) او رغیر مطبوعہII (اہم)
  2. 2      عیار الشعراء ،شعرائے ہنود، انتخاب سخن (حسرت موہانی)
  3. 3      جواہر سخن ، دبستان ِآتش،  خوش معرکہ زیبا، مجموعہ نغز، جدید شاعری ، تاریخ ادب ،  نشترِ عشق، آوارہ گرد اشعار
  4. 4              کلیات دیوان میر، غالب، گلدستہ عشق، غیرتِ بہارستان، ذوق، کلیاتِ ناسخ، نظیر، غافل، میاں داد سیاح، مومن، نسیم، جلال، قائم، آتش، بیان، مضمون۔

n

Khaleequzzaman Nusrat

861, 203, Opp. Salauddin Ayyubi School

Ishrat Apartment, Kashanaenusrat

Bhiwandi- 421302 (MS)

Mob.: 9923257606

1 تبصرہ: